عمررسیدہ والدین کی عزت کرنے کے اَجر
خدا کے سچے پرستار اپنے عمررسیدہ والدین کی عزت، احترام اور دیکھبھال کرتے ہیں کیونکہ وہ اُن سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اُنکی پرستش کا حصہ ہے۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”بیٹے یا پوتے . . . پہلے اپنے ہی گھرانے کے ساتھ دینداری کا برتاؤ کرنا اور ماںباپ کا حق ادا کرنا سیکھیں کیونکہ یہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۴) ہم خواہ جوان ہیں یا بوڑھے، یہ موزوں ہے کہ ہم اپنے والدین اور بڑےبوڑھوں کا ”حق ادا“ کریں۔ اس طرح ہم اُن کی محبت، اُن کی محنت اور کئی سالوں تک ہماری دیکھبھال کرنے کیلئے قدردانی دکھاتے ہیں۔ پس، ہم تو اپنی زندگی کیلئے بھی اپنے والدین کے مقروض ہیں!
غور فرمائیں کہ والدین اور بڑےبوڑھوں کا حق ادا کرنا ”خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔“ اسکا تعلق ہماری ”دینداری [”خدائیعقیدت،“ اینڈبلیو]“ سے ہے۔ لہٰذا، اس مشورت پر عمل کرنے سے، ہم اَجر پاتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہم وہی کام کر رہے ہیں جس سے خدا خوش ہوتا ہے۔ اس سے ہم خوشی حاصل کرتے ہیں۔
دوسروں کو دینے سے خوشی حاصل ہوتی ہے، خاص طور پر اُن لوگوں کو دینے سے جنہوں نے ہمیں فیاضی سے دیا ہے۔ (اعمال ۲۰:۳۵) پس، بائبل اصول کی مطابقت میں عمل کرنے کا کیا ہی اَجر ہے: ”اپنے باپ اور اپنی ماں کو خوش کر، جس نے تجھے جنم دیا اُسے شادمان رکھ“!—امثال ۲۳:۲۵، دی نیو انگلش بائبل۔
ہم اپنے والدین اور بڑےبوڑھوں کا حق کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ تین طریقوں سے: مادّی، جذباتی اور روحانی طور پر۔ ہر ایک کے اپنے اَجر ہیں۔
مادی طور پر دینا
خدا کی خدمت کرنے والے جانتے ہیں کہ خاندان کے قریبی ارکان کی مادی ضروریات پوری کرنا اہم ہے۔ پولس رسول نصیحت کرتا ہے: ”اگر کوئی اپنوں اور خاص کر اپنے گھرانے کی خبرگیری نہ کرے تو ایمان کا منکر اور بےایمان سے بدتر ہے۔“—۱-تیمتھیس ۵:۸۔
ٹونجی اور جوائے مغربی افریقہ میں رہتے ہیں۔ معاشی دباؤ کے تحت ہونے کے باوجود، اُنہوں نے جوائے کے عمررسیدہ والدین کو اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی۔ والد بیمار تھا جو بالآخر مر گیا۔ ٹونجی یاد کرتا ہے: ”جب پاپا کی موت ہوئی تو ماما نے میری بیوی کو گلے سے لگا کر کہا: ’انسان جوکچھ ممکنہ طور پر کر سکتا ہے آپ نے وہ سب کچھ کِیا۔ پاپا کی موت کے لئے آپ کو کسی قسم کا احساسِخطا نہیں رکھنا چاہئے۔‘ اگرچہ ہمیں پاپا کی بہت یاد آتی ہے توبھی ہم جانتے ہیں کہ ہم نے اُن کے لئے مہنگی سے مہنگی دوائی خریدی اور ہمیشہ اُنہیں احساس دلایا کہ ہم اُنہیں چاہتے ہیں اور ہمیں اُن کی ضرورت ہے؛ ہم نے اپنی خداداد ذمہداری کو پورا کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کی۔ ہم اس سے مطمئن ہیں۔“
بِلاشُبہ، ہر کوئی مادی طور پر دوسروں کی مدد کرنے کی حالت میں نہیں ہوتا۔ نائجیریا میں رہنے والے ایک آدمی نے بیان کِیا: ”اگر کوئی آدمی اپنی کفالت نہیں کر سکتا توپھر وہ کسی دوسرے کی کفالت کیسے کر سکتا ہے؟“ آئندہ سالوں کے دوران بہت سے ممالک کے اندر صورتحال اَور بھی بدتر ہو سکتی ہے۔ اقوامِمتحدہ کی پیشگوئی کے مطابق، نیم صحارائی افریقہ کی نصف آبادی جلد ہی انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہوگی۔
اگر آپ خود کو خراب معاشی حالات میں پاتے ہیں تو آپ ایک حاجتمند بیوہ کی سچی کہانی سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں۔ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے ایک بیوہ کو ہیکل کے خزانے میں تھوڑا سا ہدیہ ڈالتے ہوئے دیکھا۔ اُس نے ”دو دمڑیاں“ ڈالیں۔ اُس کی حالت کو جانتے ہوئے بھی یسوع نے کہا؛ ”مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس کنگال بیوہ نے سب سے زیادہ ڈالا۔ کیونکہ اُن سب نے تو اپنے مال کی بہتات سے نذر کا چندہ ڈالا مگر اِس نے اپنی ناداری کی حالت میں جتنی روزی اُسکے پاس تھی سب ڈال دی۔“—لوقا ۲۱:۱-۴۔
اسی طرح، اگر ہم اپنے والدین یا بڑےبوڑھوں کی مادی طور پر دیکھبھال کرنے کیلئے پوری کوشش کرتے ہیں، خواہ یہ بہت ہی کم ہے توبھی یہوواہ دیکھتا اور اسکی قدر کرتا ہے۔ وہ ہم سے ہماری استطاعت سے زیادہ کی توقع نہیں کرتا۔ غالباً ہمارے والدین اور بڑےبوڑھے بھی ایسا ہی محسوس کرینگے۔
جذباتی طور پر دینا
اپنے والدین اور بڑےبوڑھوں کی کفالت کرنے میں محض اُن کی مادی احتیاج رفع کرنا ہی شامل نہیں ہے۔ ہم سب کی جذباتی ضروریات بھی ہوتی ہیں۔ سِنرسیدہ لوگوں سمیت ہر کسی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس سے محبت کی جائے، اُسے احساس ہو کہ اُسکی ضرورت ہے اور اُسے چاہا جاتا ہے اور خاندان کا اہم فرد سمجھا جاتا ہے۔
کینیا میں رہنے والی میری نے تین سال تک اپنی عمررسیدہ ساس کی خدمت کی ہے۔ میری بیان کرتی ہے: ”اُسکی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ، ہم اُس سے ہمیشہ باتچیت بھی کرتے ہیں۔ ماں گھر کے کامکاج میں اتنا زیادہ ہاتھ بٹانے کے قابل تو نہیں مگر ہم گفتگو کرتے رہتے ہیں اور اچھی دوست بن گئی ہیں۔ بعضاوقات ہم خدا کی بابت گفتگو کرتے ہیں، بعضاوقات اُن لوگوں کے بارے میں جہاں ہم پہلے رہتے تھے۔ اگرچہ اُنکی عمر ۹۰ سال سے بھی زیادہ ہے، لیکن اُنکی یادداشت بہت تیز ہے۔ اُسے اپنے بچپن کے دن ابھی تک یاد ہیں اور وہ اُنکی بابت گفتگو کرتی ہے جوکہ ۱۹۱۴ سے بھی پہلے کا وقت تھا۔“
میری بیان کو جاری رکھتی ہے: ”کسی عمررسیدہ شخص کی دیکھبھال کرنا آسان نہیں مگر اُسے اپنے ساتھ رکھنا بڑا بااَجر ثابت ہوا ہے۔ ہمارے خاندان میں اَمن اور ہمآہنگی ہے۔ اُسے دینے کے میرے عمل سے خاندان کے دیگر افراد میں دینے کا جذبہ بیدار ہوا ہے۔ میرا شوہر میری بہت عزت کرتا ہے۔ اور اگر ماں کسی کو میرے ساتھ بُری طرح بات کرتے ہوئے سن لیتی ہے تو وہ فوراً میری حمایت میں بول اُٹھتی ہے۔ اُسکی موجودگی میں کسی کو بھی میرے ساتھ بُری طرح بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی!“
روحانی طور پر دینا
جسطرح مادی اور جذباتی طور پر دینے والوں کیلئے دینا باعثِاَجر ہوتا ہے ویسے ہی روحانی معاملات میں بھی ہوتا ہے۔ پولس رسول نے روم میں مسیحی کلیسیا کو لکھا: ”مَیں تمہاری ملاقات کا مشتاق ہوں تاکہ تمکو کوئی روحانی نعمت دُوں جس سے تم مضبوط ہو جاؤ۔ غرض مَیں بھی تمہارے درمیان ہو کر تمہارے ساتھ اُس ایمان کے باعث تسلی پاؤں جو تم میں اور مجھ میں دونوں میں ہے۔“—رومیوں ۱:۱۱، ۱۲۔
اسی طرح جب خدا کی خدمت کرنے والے عمررسیدہ لوگوں کی روحانی ضروریات پوری کرنے کی بات آتی ہے تو اس سے اکثر باہمی حوصلہافزائی حاصل ہوتی ہے۔ نائجیریا میں رہنے والا اسوندو بیان کرتا ہے: ”میرے نزدیک میرے دادا دادی کی بابت دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اُن سے گفتگو کرکے مجھے ماضی میں جھانک کر دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ جب میرے دادا اُس علاقے کی بابت بتاتے ہیں جہاں اُنہوں نے ۵۰ اور ۶۰ کے دہوں میں کُلوقتی خادم کے طور پر خدمت انجام دی تھی تو اُنکی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے۔ وہ موجودہ کلیسیائی انتظام کا موازنہ اُس وقت کے انتظام سے کرتے ہیں جب وہ گواہ بنے تھے۔ یہ تجربات پائنیر کے طور پر خدمت میں میری مدد کرتے ہیں۔“
سِنرسیدہ لوگوں کو دینے میں کلیسیا کے دیگر ارکان بھی مدد کر سکتے ہیں۔ ٹونجی نے، جسکا پہلے ذکر کِیا گیا ہے، وضاحت کی کہ اُسکی کلیسیا میں کیا واقع ہوا: ”ایک نوجوان پائنیر بھائی جسے عوامی خطاب پیش کرنے کی تفویض ملی تھی اپنا خاکہ لیکر پاپا کے پاس آیا تاکہ وہ دونوں ملکر تیار کر سکیں۔ مینارِنگہبانی کے مطالعے کا کنڈکٹر آیا اور پاپا سے کہا: ’آپ کافی تجربہکار ہیں۔ بہتری پیدا کرنے کے سلسلے میں میری مدد کرنے کیلئے آپ کیا مشورہ دے سکتے ہیں۔‘ پاپا اُس بزرگ کو چند اچھے مشورے دینے کے قابل تھے۔ بھائیوں نے کلیسیائی دُعاؤں میں کئی مرتبہ پاپا کا نام لیا۔ اس سب سے اُسے احساس ہوا کہ اُسکی بھی ضرورت ہے۔“
اچھا چالچلن لوگوں کو خدا کی طرف کھینچ لاتا ہے
بعضاوقات، جب ہم اپنے والدین اور بڑےبوڑھوں کیلئے احترام اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہم لوگوں کو خدا کی طرف کھینچ لاتے ہیں۔ پطرس رسول نے لکھا: ”غیرقوموں میں اپنا چالچلن نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں وہ تمہیں بدکار جان کر تمہاری بدگوئی کرتے ہیں تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر اُنہی کے سبب سے ملاحظہ کے دِن خدا کی تمجید کریں۔“—۱-پطرس ۲:۱۲۔
مغربی افریقہ میں، ایک مسیحی بزرگ اینڈریو، ہفتے میں دو مرتبہ ۶۰ میل کا سفر طے کرکے اپنے بیمار باپ کی جو ایماندار نہ تھا، دیکھبھال کیلئے جایا کرتا تھا۔ وہ بیان کرتا ہے: ”جب مَیں ایک یہوواہ کا گواہ بنا تو میرے باپ نے سخت مخالفت کی تھی۔ لیکن جب اُس نے دیکھا کہ اُسکی بیماری میں مَیں کیسے اُسکی دیکھبھال کر رہا ہوں تو وہ میرے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کو تاکید کرتا رہا، ’آپ کو اپنے بھائی کے مذہب میں شامل ہو جانا چاہئے!‘ اس بات سے اُنہیں تحریک ملی اور اب میرے باپ کے نو بچے یہوواہ کے گواہ ہیں۔“
اپنے عمررسیدہ والدین کا احترام اور دیکھبھال کرنا بالخصوص خراب معاشی اوقات میں چیلنجخیز ہو سکتا ہے۔ لیکن جب مسیحی ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ بہت سے اَجر حاصل کرتے ہیں۔ سب سے بڑھکر، وہ دینے کی خوشی کا تجربہ کرتے ہیں یہ اطمینان رکھتے ہوئے کہ وہ یہوواہ خدا کو خوش کر رہے ہیں جو خود ”سب کا . . . باپ“ ہے۔—افسیوں ۴:۶۔
[صفحہ 6 پر بکس]
دیکھبھال کرنے والوں اور اِس سے فائدہ اُٹھانے والوں کیلئے خدائی نصیحت
حوصلہافزائی کرنے والے بنیں: ”ہم میں ہر شخص اپنے پڑوسی کو اُسکی بہتری کے واسطے خوش کرے تاکہ اُسکی ترقی ہو۔“—رومیوں ۱۵:۲۔
ثابتقدم رہیں: ”ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بےدل نہ ہونگے تو عین وقت پر کاٹیں گے۔“—گلتیوں ۶:۹۔
فروتن بنیں: ’تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھو۔‘—فلپیوں ۲:۳۔
نیکی کرنے والے بنیں: ”کوئی اپنی بہتری نہ ڈھونڈے بلکہ دوسرے کی۔“—۱-کرنتھیوں ۱۰:۲۴۔
معقول بنیں: ”تمہاری نرممزاجی [”معقولپسندی،“ اینڈبلیو] سب آدمیوں پر ظاہر ہو۔“—فلپیوں ۴:۵۔
رحمدل بنیں: ”ایک دوسرے پر مہربان اور نرمدل ہو . . . ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔“—افسیوں ۴:۳۲۔
[صفحہ 7 پر تصویر]
جوان بزرگ سِنرسیدہ کے تجربات سے مستفید ہو سکتے ہیں