اولادوالو اپنے بچوں کی حفاظت کریں!
نائجیریا کے ایک سکینڈری سکول میں جنسی بداخلاقی کے لئے بدنام ایک طالبہ اپنی ساتھی طالبات کو جنسی معاملات پر لیکچر دینے کی شوقین تھی۔ اسقاطِحمل کے لئے اس کا ایک نسخہ سٹاؤٹبیئر کو تمباکو کے ساتھ ملا کر استعمال کرنا تھا۔ اسکی فحش مواد سے منتخب کہانیوں نے بہت سی ساتھی طالبات کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ بعض نے جنس کا تجربہ کرنا شروع کر دیا اور ان میں سے ایک حاملہ ہو گئی۔ اسقاطِحمل کی غرض سے اس نے سٹاؤٹ/تمباکو جوشاندہ پی لیا۔ چند ہی گھنٹوں میں وہ خون کی قے کرنے لگی۔ کچھ دنوں بعد، وہ ہسپتال میں مر گئی۔
آج کی دُنیا میں، بہت سے نوجوان جنس کی بابت بِلاسوچےسمجھے باتچیت کرتے ہیں اور اپنے سادہلوح سامعین کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ نوجوانوں کو ایسا درست علم حاصل کرنے کیلئے کس پر آس لگانی چاہئے جو انکی حفاظت کریگا؟ کتنا اچھا ہوتا ہے کہ وہ اپنے خداپرست والدین کی طرف رجوع کر سکتے ہیں جو ”خداوند کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر انکی پرورش“ کرنے کیلئے ذمہدار ہیں۔—افسیوں ۶:۴۔
جنسی تعلیم کے متعلق افریقی رجحانات
ساری دُنیا میں، بہت سے والدین اپنے بچوں کیساتھ جنسی معاملات کے متعلق باتچیت کرنا مشکل پاتے ہیں۔ افریقہ میں یہ بات خاص طور پر سچ ہے۔ سیرالیون سے ایک والد، ڈونلڈ نے بیان کِیا: ”ایسا کبھی نہیں کِیا گیا۔ ایسا کرنا افریقی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔“ کونفیڈینٹ نامی ایک نائجیرین خاتون اتفاق کرتی ہے: ”میرے والدین کے خیال میں جنس ایک ایسا موضوع ہے جس کی بابت آزادانہ باتچیت نہیں کی جانی چاہئے؛ ثقافتی اعتبار سے یہ ممنوع ہے۔“
بعض افریقی ثقافتوں میں جنس سے متعلق الفاظ جیسےکہ ذَکر، نطفہ اور حیض کے تذکرے کو انتہائی ناشائستہ خیال کِیا جاتا ہے۔ ایک مسیحی والدہ نے تو اپنی بیٹی کو لفظ ”جنس“ استعمال کرنے سے منع کر دیا تاہم، اس نے کہا کہ وہ لفظ ”حرامکاری“ استعمال کر سکتی تھی۔ اس کے برعکس، خدا کا کلام، بائبل بڑی صافگوئی سے جنس اور جنسی اعضا کی بابت بات کرتی ہے۔ (پیدایش ۱۷:۱۱؛ ۱۸:۱۱؛ ۳۰:۱۶، ۱۷؛ احبار ۱۵:۲) اس کا مقصد کسی کو پریشان یا برانگیختہ کرنا نہیں بلکہ خدا کے لوگوں کو تحفظ اور ہدایات فراہم کرنا ہے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۶۔
ثقافتی طور پر ممنوع چیزوں سے قطعنظر، جو بات بعض والدین کو روکتی ہے اسے ایک نائجیرین والد نے یوں بیان کِیا: ”اگر مَیں اپنے بچوں سے جنس کے متعلق باتچیت کروں تو یہ اُنہیں جنسی بداخلاقی کی تحریک دے سکتا ہے۔“ تاہم، کیا جنس کی بابت بائبل پر مبنی پاکیزہ معلومات بچوں کو فوراً ہی اسکا تجربہ کرنے کی حوصلہافزائی دیتی ہیں؟ نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔ درحقیقت، بچوں کے پاس علم جتنا کم ہو گا، انکے مشکل میں مبتلا ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہیں۔ ”حکمت [درست علم پر مبنی] صاحبِحکمت کی جان کی محافظ ہے،“ بائبل بیان کرتی ہے۔—واعظ ۷:۱۲۔
یسوع کی تمثیل میں، عقلمند شخص مستقبل میں پیش آنے والے طوفانوں کے امکان کے پیشِنظر، اپنا گھر چٹان پر بناتا ہے جبکہ بےوقوف شخص اپنا گھر ریت پر تعمیر کرتا ہے اور تباہی کا سامنا کرتا ہے۔ (متی ۷:۲۴-۲۷) اسی طرح، عقلمند مسیحی والدین، یہ جانتے ہوئے کہ دُنیا کے اخلاقسوز جنسی معیاروں کا طوفانی دباؤ انکے بچوں کو اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریگا، اپنے بچوں کو درست علم اور بصیرت کیساتھ مضبوط بناتے ہیں جو اُنہیں قائم رہنے میں مدد دینگے۔
ایک اَور وجہ سے بھی والدین اپنے بچوں کے ساتھ جنس کے متعلق باتچیت نہیں کرتے، ایک افریقی خاتون نے بیان کِیا: ”جب مَیں جوان تھی تو میرے گواہ والدین نے جنسی معاملات کے متعلق میرے ساتھ باتچیت نہ کی لہٰذا یہ میرے ذہن میں نہیں آ سکتا کہ مَیں اپنے بچوں سے ایسی چیزوں کی بابت گفتگو کروں۔“ تاہم، آج نوجوان لوگوں پر دباؤ اسکی نسبت کہیں زیادہ ہیں جو آج سے ۱۰ یا ۲۰ سال پہلے نوجوان لوگوں پر تھے۔ یہ حیرانکُن بات نہیں ہے۔ خدا کے کلام نے پہلے سے بتا دیا تھا کہ ”اخیر زمانہ میں . . . بُرے اور دھوکاباز آدمی فریب دیتے اور فریب کھاتے ہوئے بگڑتے چلے جائیں گے۔“—۲-تیمتھیس ۳:۱، ۱۳۔
مسئلے میں اضافے کا باعث یہ حقیقت بھی ہے کہ بہت سے بچے اپنے والدین کو رازدار بنانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں یا وہ رازدار نہیں بنا سکتے۔ بعض معمولی باتوں پر بھی دو طرفہ رابطہ انتہائی ناقص ہوتا ہے۔ ایک ۱۹ سالہ نوجوان گریہوزاری کرتا ہے: ”مَیں اپنے والد کیساتھ مختلف معاملات پر باتچیت نہیں کرتا۔ میرے والد اور میرے درمیان اچھا رابطہ بالکل نہیں ہے۔ مجھے میرے والد سے توجہ نہیں ملتی۔“
شاید نوجوان ڈرتے بھی ہیں کہ جنسی معاملات کی بابت پوچھگچھ بُرے نتائج پر منتج ہو گی۔ ایک ۱۶ سالہ لڑکی نے کہا: ”مَیں جنسی مسائل کی بابت اپنے والدین کیساتھ باتچیت نہیں کرتی جسکی وجہ انکا ردِعمل ہے جو وہ ایسی چیزوں کے سلسلے میں ظاہر کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل، میری بڑی بہن نے والدہ سے جنس کی بابت کچھ سوالات کئے۔ والدہ اسکے مسائل میں مددگار بننے کی بجائے اسکے ارادوں کی بابت مُتشکِک ہو گئیں۔ والدہ عموماً میری بہن کی بابت مجھ سے پوچھتیں بعضاوقات اسکے اخلاق پر درپردہ الزام لگاتیں۔ مَیں والدہ کی محبت کو کھو دینے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی لہٰذا مَیں اپنے مسائل ان سے دور ہی رکھتی ہوں۔“
ہدایات کیوں دیں؟
اپنے بچوں کو جنسی معاملات کی بابت مناسب حد تک ہدایات دینا نہ صرف درست ہے بلکہ مشفقانہ طرزِعمل ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کو جنس کی بابت تعلیم نہیں دیتے تو—عموماً اس سے پیشتر کہ والدین کو اندازہ ہو، دوسرے ایسا کرینگے اور یہ خداپرستانہ اصولوں کے مطابق نہیں ہوگا۔ ایک ۱۳ سالہ لڑکی نے حرامکاری کی کیونکہ اسکے سکول کی ایک ساتھی نے اسے بتایا تھا کہ اگر اس نے اپنے کنوارپن کو ختم نہ کِیا تو اسے مستقبل میں بہت شدید درد برداشت کرنا پڑیگا۔ اُسے یہ بتایا گیا کہ ”وہ تمہارے پردۂبکارت کو قینچی سے کاٹیں گے۔“ بعدازاں جب اس سے پوچھا گیا کہ جوکچھ اس نے سنا تھا اس نے اپنی والدہ کو کیوں نہیں بتایا جوکہ مسیحی تھی تو اس نے جواب دیا کہ ایسے معاملات پر کبھی بھی بڑوں کیساتھ باتچیت نہیں کی گئی۔
ایک نائجیرین لڑکی نے کہا: ”میری سکول کی سہیلیوں نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی کہ جنس ایک ایسی چیز ہے جس میں تمام نارمل انسانوں کو حصہ لینا چاہئے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اگر مَیں اب اس میں حصہ نہیں لونگی تو جب مَیں ۲۱ سال کی ہونگی تو مجھے ایسی علالت کا سامنا کرنا ہوگا جس سے میری نسوانیت پر بہت بُرے اثرات مرتب ہونگے۔ لہٰذا اس خطرے سے بچنے کے لئے، انہوں نے کہا، شادی سے پہلے جنسی تعلقات کا تجربہ کرنا اچھا ہوگا۔“
اپنے والدین کیساتھ اچھا رابطہ رکھنے سے وہ گھر میں جوکچھ سیکھ چکی تھی اس کی بدولت اس نے فوراً ہی تضاد کو محسوس کر لیا۔ ”معمول کے مطابق مَیں گھر گئی اور اپنی والدہ کو وہ سب کچھ بتا دیا جو مجھے سکول میں بتایا گیا تھا۔“ اسکی والدہ ان غلط معلومات سے نپٹنے کے قابل تھی۔—مقابلہ کریں امثال ۱۴:۱۵۔
جنسی معاملات کی بابت خدائی حکمت حاصل کرنے میں بچوں کی مدد کیلئے درکار علم فراہم کرنے سے والدین انہیں خطرناک حالتوں کو بھانپنے اور ایسے لوگوں کو پہچاننے کیلئے لیس کرتے ہیں جو ان سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ انہیں جنسی طور پر لگنے والی بیماریوں اور ناخواستہ حمل کے دِلی صدمے سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ انکی عزتِنفس اور جو عزت وہ دوسروں سے حاصل کرتے ہیں اس میں اضافے کا موجب بنتا ہے۔ یہ اُنہیں غلطفہمیوں اور پریشانیوں سے آزاد کرتا ہے۔ یہ موزوں جنس کی بابت ایک صحتمندانہ، مثبت رویے کو فروغ دیتا ہے اور اگر وہ بعد میں شادی کرتے ہیں تو انکی خوشی میں اضافہ کرتا ہے۔ خدا کے حضور ایک قابلِقبول حیثیت رکھنے میں بھی یہ انکی مدد کر سکتا ہے۔ نیز جب بچے اپنے لئے دکھائی گئی پُرمحبت فکرمندی کو دیکھتے ہیں تو یہ اُنہیں اپنے والدین کیلئے اَور بھی زیادہ عزت اور محبت دکھانے کی تحریک دے سکتا ہے۔
اچھا رابطہ
والدین کا اپنی مشورت کو اپنے بچوں کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کیلئے دو طرفہ رابطے کا موجود ہونا ضروری ہے۔ جب تک والدین کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انکے بچے کے دلودماغ میں کیا ہے تو یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ایک ڈاکٹر مریض کی بیماری کی نوعیت کو سمجھے بغیر نسخہ لکھنے کی کوشش کرے۔ مؤثر مشیر بننے کیلئے والدین کو یہ جاننا چاہئے کہ انکے بچے درحقیقت کیا سوچتے اور محسوس کرتے ہیں۔ اُنہیں ان دباؤ اور مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے جنکا انکے بچوں کو سامنا ہے اور جو سوالات انہیں پریشان کر رہے ہیں۔ بچوں کی پوری توجہ سے بات سننا بہت اہم ہے لہٰذا ”سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا“ ہونا چاہئے۔—یعقوب ۱:۱۹؛ امثال ۱۲:۱۸؛ واعظ ۷:۸۔
بچوں کیساتھ ایک قریبی تعلق قائم کرنے اور اُسے برقرار رکھنے کیلئے وقت، صبر اور کوشش درکار ہوتی ہے، ایک ایسا تعلق جس میں بچے دلی احساسات کا اظہار کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہ کریں۔ تاہم، جب اسے حاصل کر لیا جاتا ہے تو یہ کتنا دلکش ہے! مغربی افریقہ سے پانچ بچوں کا باپ بیان کرتا ہے: ”مَیں باپ بھی ہوں اور ہمراز بھی۔ بچے آزادی کیساتھ مجھ سے ہر موضوع پر باتچیت کرتے ہیں جس میں جنس بھی شامل ہے۔ لڑکیاں بھی مجھے اپنا ہمراز بناتی ہیں۔ ہم انکے مسائل پر گفتگو کرنے کیلئے وقت نکالتے ہیں۔ وہ مجھے اپنی خوشیوں میں بھی شریک کرتے ہیں۔“
اسکی بیٹیوں میں سے ایک، بُولہ بیان کرتی ہے: ”مَیں اپنے والد سے کچھ نہیں چھپاتی۔ وہ ہمدرد اور بامروت ہے۔ وہ ہم پر رُعب نہیں جماتے اور نہ ہی سختی سے پیش آتے ہیں خواہ ہم نے کوئی کام غلط بھی کر دیا ہو۔ طیش میں آنے کی بجائے وہ معاملے کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وہ عموماً خاندانی خوشی کی کتاب اور یوتھ بُک کا حوالہ دیتے ہیں۔“a
اگر ممکن ہو تو اچھا ہے کہ بچوں کی اوائل عمری ہی میں والدین ان سے جنس کی بابت گفتگو کرنا شروع کر دیں۔ یہ اکثر نوعمری کے مشکل سالوں میں جاری رہنے والے مباحثوں کیلئے بنیاد ڈالتا ہے۔ ایسی باتچیت کی بابت جب بچپن میں نہیں بتایا جاتا تو بعد میں ایسا کرنا پریشانکُن ہو سکتا ہے لیکن ایسا کِیا جا سکتا ہے۔ پانچ بچوں کی ایک ماں نے کہا: ”مَیں نے خود کو اس کے متعلق باتچیت کیلئے مجبور کِیا اور آخرکار نہ تو مَیں پریشان رہی اور نہ ہی بچہ۔“ جب اتنا خطرہ ہو تو یقیناً ایسی کوششیں انتہائی اہم ہیں۔
محفوظ اور خوش
بچے ان والدین کی قدر کرتے ہیں جو اُنہیں محفوظ رکھنے والے علم سے مشفقانہ طور پر لیس کرتے ہیں۔ افریقہ سے یہوواہ کے بعض گواہوں کے تبصروں پر غور کریں:
موجیسولا نامی ۲۴ سالہ لڑکی کہتی ہے: ”مَیں اپنی ماں کی ہمیشہ مشکور رہونگی۔ اس نے صحیح وقت پر مجھے جنس کے متعلق ضروری تعلیم دی۔ اگرچہ جب وہ میری اوائل عمری میں ان معاملات پر بات کرتی تھی تو مَیں شرمندگی محسوس کرتی تھی البتہ، میری ماں نے جوکچھ بھی میرے لئے کِیا اب مَیں اسکے مفید ہونے کو محسوس کرتی ہوں۔“
آئنوبونگ نے اضافہ کِیا: ”جب میں پیچھے نظر دوڑاتی ہوں اور اسکی بابت سوچتی ہوں جو میری ماں نے جنس کی بابت مناسب تربیت مہیا کرنے سے میرے لئے کِیا ہے تو مَیں ہمیشہ خوش ہوتی ہوں۔ نسائیت میں راہنمائی کیلئے یہ بہت اہم مدد رہی ہے۔ مَیں بھی اپنے مستقبل کے بچوں کیلئے ایسا ہی کرونگی۔“
اُنیس سالہ کنلی نے کہا: ”میرے والدین نے آزاد جنس کے سلسلے میں دُنیاوی عورتوں کے دباؤ کا سامنا کرنے میں میری مدد کی ہے۔ اگر انکی طرف سے تربیت نہ دی گئی ہوتی تو مَیں گناہ میں پڑ گیا ہوتا۔ انہوں نے جوکچھ کِیا ہے مَیں ہمیشہ اسکی قدر کرتا رہونگا۔“
کرسٹائینہ نے کہا: ”اپنی ماں کیساتھ جنس کے متعلق باتچیت سے مَیں نے بہت سے فائدے حاصل کئے ہیں۔ مَیں مُہلک بیماریوں اور ناخواستہ حمل سے محفوظ رہی ہوں اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے واسطے ایک اچھی مثال قائم کرنے کے قابل ہوئی ہوں۔ لوگ میری عزت کرتے ہیں اور میرا مستقبل کا شوہر بھی یقیناً ایسا کرے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہوواہ خدا کے حکموں کی پابندی کرنے کی وجہ سے اس کے ساتھ ایک اچھا رشتہ رکھتی ہوں۔“
مسبوقالذکر بُولہ نے کہا: ”میری ایک ہمجماعت کہتی تھی کہ شادی کے عہدوپیمان کے بغیر جنس سے لطفاندوز ہونا چاہئے۔ اس کیلئے یہ کھیل تھا۔ تاہم، جب وہ حاملہ ہو گئی اور ہمارے ساتھ سکول کا امتحان دینے کیلئے نااہل قرار دے دی گئی تو تب اسے احساس ہوا کہ یہ کھیل نہیں تھا۔ اگر میری راہنمائی کیلئے میرے شفیق والد نہ ہوتے تو مَیں بھی اسکی مانند ہو سکتی تھی جس نے تکلیف کیساتھ یہ سیکھا۔“
جنس کے لئے اس پاگل دُنیا میں مسیحی والدین کا اپنے بچوں کی ”نجات . . . کے لئے دانائی“ حاصل کرنے میں مدد کرنا کیا ہی برکت ہے! (۲-تیمتھیس ۳:۱۵) بائبل پر مبنی مشورت ایک بیشقیمت طوق ہے جو خدا کی نظروں میں انکے بچوں کو آراستہ کرتا اور خوبصورت بناتا ہے۔ (امثال ۱:۸، ۹) بچے احساسِتحفظ سے اور والدین طمانیت کے گہرے احساس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اپنے نوجوان بچوں کیساتھ رابطے کو ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرنے والے ایک افریقی والد نے بیان کِیا: ”ہمیں ذہنی سکون حاصل ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بچے جانتے ہیں کہ کیا چیز یہوواہ کو شاد کرتی ہے؛ کوئی دوسرا شخص انہیں گمراہ نہیں کر سکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسا کوئی بھی کام نہیں کرینگے جو خاندان کیلئے تکلیف کا باعث بنے گا۔ مَیں یہوواہ کا شکر کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اعتماد پر پورے اترے ہیں۔“
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ۔
[صفحہ 9 پر تصویر]
اپنے والدین سے بائبل پر مبنی معلومات حاصل کرنے والے مسیحی نوجوان دیگر نوجوانوں کی بےسروپا کہانیوں کو مسترد کرنے کے قابل ہوتے ہیں