ہر کوئی آزاد رہنا چاہتا ہے
”انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے،“ فرانسیسی فلاسفر ژاں-ژاک رُوسونے ۱۷۶۲ میں لکھا۔ آزاد پیدا ہونا۔ کیا ہی حیرانکُن خیال! تاہم، رُوسو کے بیان کے مطابق، تاریخ کے دوران لاکھوں لوگوں کو کبھی بھی آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کی بجائے، اُنہوں نے اپنی زندگیاں ”زنجیروں میں“ یعنی ایک ایسے نظام کی قید میں بسر کی ہیں جس نے اُن کی زندگی سے ہر طرح کی دائمی خوشی اور اطمینان کو چھین لیا ہے۔
آجکل لاکھوں لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ”ایک شخص دوسرے پر حکومت کر کے اپنے اُوپر بلا لاتا ہے۔“ (واعظ ۸:۹) اقتدار کے بھوکے مردوزن دوسروں کی آزادی کو پامال کر کے بھی پشیمان نہیں ہوتے۔ ”تشدد کر کے مار ڈالنے والے منظم گروہ کے ہاتھوں ۲۱ لوگ ہلاک،“ ایک خصوصی رپورٹ بیان کرتی ہے۔ ایک دوسری رپورٹ ایسے ”کُشتوخون“ کا ذکر کرتی ہے جس میں محافظ دستے ہی ’نہتے اور غیرمزاحم عورتوں، بچوں اور عمررسیدہ لوگوں کو ہلاک کرتے، ذبح کرتے، قید کئے گئے شہریوں کے سروں میں گولیاں مارتے اور دیہی علاقوں کو تباہ کرنے کی مخربِتہذیب حکمتِعملی کو بروئےکار لاتے اور بِلاامتیاز بمباری کرتے ہیں۔‘
کچھ عجب نہیں کہ لوگ جبروتشدد سے آزادی چاہتے ہیں اور بِلاشُبہ اس کے لئے جدوجہد کرتے ہیں! تاہم، ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے لئے ایک شخص کا جدوجہد کرنا اکثر دوسرے انسان کے حقوق اور آزادیوں کو پامال کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس عمل کے دوران لامحالہ بیگناہ مرد، عورتیں اور بچے ہی قربان ہوتے ہیں اور اس نصبالعین کو قابلِقدر اور درست ثابت کرتے ہوئے اُن کی اموات کو ”جائز قرار“ دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، گزشتہ سال آئیرلینڈ میں اوما نامی قصبے میں ”حریتپسندوں“ نے ایک کار میں بم لگا دیا جس سے اِردگِرد کھڑے ۲۹ لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔
ابھی تک ”زنجیروں میں“
لڑائی کے اختتام پر کیا حاصل ہوتا ہے؟ جب ”حریتپسند“ اپنی جنگ جیت جاتے ہیں تو شاید کچھ آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ تاہم، کیا وہ واقعی آزاد ہوتے ہیں؟ کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ نامنہاد آزاد دُنیا کے آزاد خیال معاشروں میں بھی لوگ ابھی تک غربت، ناکاملیت، بیماری اور موت جیسے ظالم آقاؤں کی ”زنجیروں میں“ جکڑے ہوئے ہیں؟ جب تک کوئی بھی شخص ایسی چیزوں کی غلامی میں ہے، وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ آزاد ہے؟
زندگی کے حوالے سے قدیم بائبل مصنف موسیٰ کا بیان پوری تاریخ کے دوران اور آج بھی بہتیرے لوگوں کے سلسلے میں سچ ثابت ہوتا ہے۔ اُس نے بیان کِیا کہ ہم ۷۰ یا ۸۰ سال زندہ رہ سکتے ہیں ”توبھی اُنکی رونق محض مشقت اور غم ہے۔“ (زبور ۹۰:۱۰) کیا یہ حالت کبھی تبدیل ہو گی؟ کیا کبھی ہم سب کیلئے بہتیروں کے تجربے میں آنے والے دُکھدرد اور دہشت کے بغیر اطمینانبخش زندگیاں بسر کرنا ممکن ہوگا؟
بائبل ہاں میں جواب دیتی ہے! یہ ”خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی“ کا ذکر کرتی ہے۔ (رومیوں ۸:۲۱) آئیے اس آزادی کا بغور جائزہ لیں جس کا پولس نے پہلی صدی میں روم کے مسیحیوں کو خط لکھتے وقت تذکرہ کِیا تھا۔ اس خط میں پولس وضاحت کرتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کیسے حقیقی، دائمی ”جلال کی آزادی“ حاصل کر سکتا ہے۔
[صفحہ 3 پر تصویر کا حوالہ]
Vol. XIII ,Beacon Lights of History From the book