عنقریب ”صلح کا ایک وقت“!
”ہر چیز کا ایک موقع . . . ہے۔ جنگ کا ایک وقت ہے اور صلح کا ایک وقت ہے۔“—واعظ ۳:۱، ۸۔
۱. جنگ اور امن کے سلسلے میں ۲۰ویں صدی میں کونسی متضاد حالت رہی ہے؟
بیشتر لوگ معقول وجوہات کی بِنا پر ہی امن کے خواہاں ہیں۔ تاریخ میں کسی بھی دوسری صدی کی نسبت ۲۰ویں صدی کے حصے میں بہت ہی کم امن آیا ہے۔ دراصل، اس سے پہلے امن قائم کرنے کی کبھی اتنی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ ۱۹۲۰ میں لیگ آف نیشنز معرضِوجود میں آئی۔ ”جنگ کی قومی حکمتِعملی کی مذمت کرنے پر متفق . . . دُنیا کی تقریباً تمام اقوام“ نے ۱۹۲۸ میں پیش کئے جانے والے کیلاگبریاین معاہدے کی تائید کی جسے ایک حوالہجاتی کتاب نے ”پہلی عالمی جنگ کے بعد قیامِامن کی سلسلہوار کوششوں میں سے سب سے شاندار کوشش“ کہا۔ اسکے بعد ۱۹۴۵ میں اقوامِمتحدہ کی تنظیم نے لیگ آف نیشنز کی جگہ لے لی جو اُس وقت معدوم ہو چکی تھی۔
۲. اقوامِمتحدہ کا مبیّنہ مقصد کیا ہے اور اسے کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے؟
۲ لیگ کی طرح، اقوامِمتحدہ کا مبیّنہ مقصد بھی عالمی امن کا تحفظ کرنا ہے۔ تاہم اِسے بھی اس سلسلے میں بہت ہی کم کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ سچ ہے کہ دُنیا میں کہیں پر بھی دو عالمی جنگوں جیسی بڑی جنگ نہیں ہو رہی۔ تاہم، متعدد چھوٹے چھوٹے فسادات لاکھوں لوگوں سے اُنکا سکھچین، مالواسباب حتیٰکہ اُنکی زندگیاں چھین رہے ہیں۔ کیا ہم یہ اُمید رکھ سکتے ہیں کہ اقوامِمتحدہ ۲۱ویں صدی کو ”صلح کا ایک وقت“ بنا سکتی ہے؟
حقیقی امن کی بنیاد
۳. نفرت کیساتھ ساتھ حقیقی امن کیوں قائم نہیں ہو سکتا؟
۳ لوگوں اور اقوام کے مابین امن کیلئے محض رواداری سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ اگر ایک شخص کسی سے نفرت کرتا ہے تو کیا وہ اُس کیساتھ صلح سے رہ سکتا ہے؟ ۱-یوحنا ۳:۱۵ کے اس بیان کے مطابق تو نہیں: ”جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خونی ہے۔“ حالیہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ گہری نفرتیں بڑی آسانی سے تشددآمیز کاموں کو تحریک دیتی ہیں۔
۴. صرف کون امن کا تجربہ کر سکتے ہیں اور کیوں؟
۴ یہوواہ خدا ”اطمینان کا چشمہ“ ہے اسلئے امن صرف خدا سے محبت اور اُسکے راست اصولوں کا گہرا احترام کرنے والے لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات تو عیاں ہے کہ یہوواہ ہر کسی کو امن کی نعمت سے نہیں نوازتا۔ ”میرا خدا فرماتا ہے کہ شریروں کے لئے سلامتی نہیں۔“ اسکی وجہ یہ ہے کہ بدکار خدا کی روحالقدس کی راہنمائی کو رد کر دیتے ہیں جسکے پھلوں میں سے ایک اطمینان ہے۔—رومیوں ۱۵:۳۳؛ یسعیاہ ۵۷:۲۱؛ گلتیوں ۵:۲۲۔
۵. سچے مسیحیوں کیلئے کونسی چیز ناقابلِتصور ہے؟
۵ سچے مسیحیوں کیلئے ساتھی انسانوں کے خلاف جنگ کرنا ناقابلِتصور ہے جبکہ بالخصوص. ۲۰ویں صدی میں نامنہاد مسیحیوں نے اکثر ایسا کِیا ہے۔ (یعقوب ۴:۱-۴) سچ ہے کہ وہ خدا کی غلط نمائندگی کرنے والی تعلیمات کے خلاف جنگ کرتے ہیں مگر اس جنگ کا مقصد انسانوں کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اُنکی مدد کرنا ہے۔ مذہبی اختلافات کی بِنا پر دوسروں کو ستانا یا قومپرستی کے باعث جسمانی بدسلوکی کرنا سچی مسیحیت کے بالکل منافی ہے۔ پولس نے روم کے مسیحیوں کو ہدایت کی کہ ”جہاں تک ہو سکے تم اپنی طرف سے سب آدمیوں کیساتھ میلملاپ رکھو۔“—رومیوں ۱۲:۱۷-۱۹؛ ۲-تیمتھیس ۲:۲۴، ۲۵۔
۶. آجکل حقیقی امن صرف کہاں دیکھنے کو ملتا ہے؟
۶ آجکل، صرف یہوواہ خدا کے سچے پرستاروں میں ہی حقیقی الہٰی امن دیکھنے کو ملتا ہے۔ (زبور ۱۱۹:۱۶۵؛ یسعیاہ ۴۸:۱۸) ہر جگہ سیاسی طور پر غیرجانبدار ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کے سیاسی اختلافات اُنکے اتحاد کو نہیں توڑ سکتے۔ (یوحنا ۱۵:۱۹؛ ۱۷:۱۴) وہ ”باہم یکدل اور یکرای ہوکر کامل بنے“ ہوئے ہیں اس لئے کسی قسم کے مذہبی اختلافات بھی اُنکے امن کو تباہ نہیں کر سکتے۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۱۰) یہوواہ کے گواہ جس امن کا تجربہ کرتے ہیں وہ واقعی ایک جدید معجزہ ہے جو خدا نے اپنے اِس وعدے کے مطابق کِیا ہے: ”مَیں تیرے حاکموں کو سلامتی اور تیرے عاملوں کو صداقت بناؤنگا۔“—یسعیاہ ۶۰:۱۷؛ عبرانیوں ۸:۱۰۔
”جنگ کا ایک وقت“ کیوں؟
۷، ۸. (ا) امنپسندانہ مؤقف کے باوجود، یہوواہ کے گواہ موجودہ وقت کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ (ب) مسیحی جنگ میں سب سے اہم ہتھیار کونسا ہے؟
۷ امنپسندانہ مؤقف کے باوجود، یہوواہ کے گواہ موجودہ دَور کو بنیادی طور پر ”جنگ کا ایک وقت“ خیال کرتے ہیں۔ بِلاشُبہ، اس سے مُراد حقیقی جنگوجدل نہیں کیونکہ بندوق کی نوک پر بائبل کا پیغام سنانا تو خدا کی اس دعوت کے بالکل برعکس ہوگا کہ ”جو کوئی چاہے آبِحیات مُفت لے۔“ (مکاشفہ ۲۲:۱۷) مذہب تبدیل کرنے کی کوئی مجبوری نہیں! یہوواہ کے گواہوں کی جنگ بالکل روحانی ہے۔ پولس نے لکھا: ”ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں بلکہ خدا کے نزدیک قلعوں کو ڈھا دینے کے قابل ہیں۔“—۲-کرنتھیوں ۱۰:۴؛ ۱-تیمتھیس ۱:۱۸۔
۸ ان ”لڑائی کے ہتھیاروں“ میں سب سے اہم ”روح کی تلوار . . . خدا کا کلام ہے۔“ (افسیوں ۶:۱۷) یہ تلوار بہت طاقتور ہے۔ ”خدا کا کلام زندہ اور مؤثر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور روح اور بندبند اور گودے کو جدا کرکے گذر جاتا ہے اور دل کے خیالوں اور ارادوں کو جانچتا ہے۔“ (عبرانیوں ۴:۱۲) اس تلوار کو استعمال کرنے سے مسیحی ”تصورات اور ہر ایک اُونچی چیز کو جو خدا کی پہچان کے برخلاف سر اُٹھائے ہوئے ہے“ ڈھا دینے کے لائق ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۱۰:۵) یہ اُنہیں جھوٹے عقائد، نقصاندہ کاموں اور الہٰی حکمت کی بجائے انسانی حکمت کو نمایاں کرنے والی فیلسوفیوں کا پردہفاش کرنے کے قابل بناتی ہے۔—۱-کرنتھیوں ۲:۶-۸؛ افسیوں ۶:۱۱-۱۳۔
۹. گنہگارانہ جسم کے خلاف جنگ میں سُست ہونے کی گنجائش کیوں نہیں ہے؟
۹ روحانی جنگ میں گنہگارانہ جسم کے خلاف لڑنا بھی شامل ہے۔ مسیحی پولس کے نمونے کی پیروی کرتے ہیں جس نے تسلیم کِیا: ”بلکہ مَیں اپنے بدن کو مارتا کوٹتا اور اُسے قابو میں رکھتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اَوروں میں منادی کرکے آپ نامقبول ٹھہروں۔“ (۱-کرنتھیوں ۹:۲۷) کُلسّے کے مسیحیوں کو تاکید کی گئی کہ ”اپنے ان اعضا کو مُردہ کرو جو زمین پر ہیں یعنی حرامکاری اور ناپاکی اور شہوت اور بُری خواہش اور لالچ کو جو بتپرستی کے برابر ہے۔“ (کلسیوں ۳:۵) نیز بائبلنویس یہوداہ نے مسیحیوں کو فہمائش کی کہ ”اُس اِیمان کے واسطے جانفشانی کرو جو مُقدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا۔“ (یہوداہ ۳) ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہئے؟ پولس نے جواب دیا: ”اگر تُم جسم کے مطابق زندگی گذارو گے تو ضرور مرو گے اور اگر روح سے بدن کے کاموں کو نیستونابود کرو گے تو جیتے رہو گے۔“ (رومیوں ۸:۱۳) اس واضح بیان کے پیشِنظر، بُرے رُجحانات کے خلاف جنگ میں سُستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
۱۰. ۱۹۱۴ میں کیا واقع ہوا اور یہ مستقبل میں کس چیز کا باعث بنیگا؟
۱۰ موجودہ وقت کو جنگ کا وقت خیال کرنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ”خدا کے انتقام [کا] روز“ قریب ہے۔ (یسعیاہ ۶۱:۱، ۲) مسیحائی بادشاہت کو قائم کرنے اور اسے شیطان کے نظام کے خلاف جنگ شروع کرنے کا اختیار سونپنے کے لئے یہوواہ کا مقررہ وقت ۱۹۱۴ میں آ گیا تھا۔ اُس وقت الہٰی مداخلت کے بغیر انسانساختہ اصولوں کو آزمانے کے لئے انسان کو دی گئی مہلت ختم ہو گئی تھی۔ خدا کی مسیحائی حکمرانی قبول کرنے کی بجائے بیشتر لوگ پہلی صدی کے لوگوں کی طرح اُسے مسلسل رد کرتے رہتے ہیں۔ (اعمال ۲۸:۲۷) نتیجتاً، بادشاہت کی مخالفت کی وجہ سے مسیح کو ”اپنے دشمنوں پر حکمرانی“ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (زبور ۱۱۰:۲) خوشی کی بات ہے کہ مکاشفہ ۶:۲ وعدہ کرتی ہے کہ وہ اپنی ”فتح“ مکمل کرے گا۔ وہ ”خدا کے روزِعظیم کی لڑائی“ کے دوران ایسا کرے گا ”جسکا نام عبرانی میں ہرمجدون ہے۔“—مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶۔
اب ”بولنے کا . . . وقت ہے“
۱۱. یہوواہ نے اتنے صبر کا مظاہرہ کیوں کِیا ہے اور بالآخر کیا ہوگا؟
۱۱ انسانی معاملات میں نقطۂانقلاب کی حیثیت رکھنے والے ۱۹۱۴ کے سال سے لے کر اب تک ۸۵ سال گزر چکے ہیں۔ یہوواہ نوعِانسان کیساتھ بڑے تحمل سے پیش آیا ہے۔ اُس نے اپنے گواہوں کو صورتحال کی نزاکت سے پوری طرح آگاہ کر دیا ہے۔ لاکھوں زندگیاں خطرے میں ہیں۔ اس بڑے ہجوم کو آگاہی کی ضرورت ہے کیونکہ ”[یہوواہ] . . . کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ (۲-پطرس ۳:۹) بالآخر، جلد ہی ”خداوند یسوؔع اپنے قوی فرشتوں کے ساتھ بھڑکتی ہوئی آگ میں آسمان سے ظاہر ہوگا۔“ پھر یسوع خدا کی بادشاہت کے پیغام کو قصداً رد کرنے والے لوگوں سے ”بدلہ“ لیگا کیونکہ وہ ”خدا کو نہیں پہچانتے اور ہمارے خداوند یسوؔع کی خوشخبری کو نہیں مانتے۔“—۲-تھسلنیکیوں ۱:۶-۹۔
۱۲. (ا) بڑی مصیبت کے آغاز کی بابت قیاسآرائی بیکار کیوں ہے؟ (ب) یسوع نے اس سلسلے میں کس خطرے سے آگاہ کِیا تھا؟
۱۲ یہوواہ کے صبر کی انتہا کب ہوگی؟ ”بڑی مصیبت“ کے آغاز کی بابت کوئی بھی قیاسآرائی بیکار ہے۔ یسوع نے واضح طور پر بیان کِیا: ”اُس دن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔“ اسکے برعکس اُس نے نصیحت کی: ”پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئیگا۔ اسلئے تم . . . تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تمکو گمان بھی نہ ہوگا ابنِآؔدم آ جائیگا۔“ (متی ۲۴:۲۱، ۳۶، ۴۲، ۴۴) سادہ الفاظ میں اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں دُنیاوی حالتوں سے خبردار اور بڑی مصیبت کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱-۵) اس سوچ میں مبتلا ہونا کتنا خطرناک ہوگا کہ ہم واقعات کے رُونما ہونے کے انتظار میں سُستروی کیساتھ معمول کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں! یسوع نے بیان کِیا: ”پس خبردار رہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار اور نشہبازی اور اس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دن تم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے۔“ (لوقا ۲۱:۳۴، ۳۵) ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں: اِس وقت یہوواہ کے ”چار فرشتے“ تباہی کی ”چاروں ہواؤں“ کو تھامے ہوئے ہیں لیکن وہ انہیں ہمیشہ تھامے نہیں رکھینگے۔—مکاشفہ ۷:۱-۳۔
۱۳. تقریباً چھ ملین لوگوں نے کیا تسلیم کر لیا ہے؟
۱۳ تیزی سے قریب آتے ہوئے اس یومِاحتساب کے پیشِنظر، سلیمان کی یہ بات کہ ”بولنے کا ایک وقت ہے“ خاص اہمیت کی حامل بن جاتی ہے۔ (واعظ ۳:۷) اِس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اب یقیناً بولنے کا وقت ہے تقریباً چھ ملین یہوواہ کے گواہ سرگرمی سے خدا کی شہنشاہیت کے جلال اور اُسکے روزِانتقام کی آگاہی کا پرچار کر رہے ہیں۔ وہ مسیح کی لشکرکشی کے دن پر خوشی سے اپنےآپ کو پیش کرتے ہیں۔—زبور ۱۱۰:۳؛ ۱۴۵:۱۰-۱۲۔
وہ جو کہتے ہیں کہ ”سلامتی ہے حالانکہ سلامتی نہیں“
۱۴. ساتویں صدی ق.س.ع. میں کونسے جھوٹے نبی موجود تھے؟
۱۴ ساتویں صدی ق.س.ع. میں، خدا کے انبیا یرمیاہ اور حزقیایل یروشلیم کے خلاف الہٰی عدالت کے پیغامات لیکر آئے کیونکہ اُس نے خدا کی نافرمانی کرکے سرکشی کی روش اختیار کر لی تھی۔ اگرچہ ممتاز اور بارسوخ مذہبی پیشواؤں نے خدا کے پیامبروں کی مزاحمت کی توبھی اُنہوں نے جس تباہی کی پیشینگوئی کی وہ ۶۰۷ ق.س.ع. میں ضرور واقع ہوئی۔ یہ مذہبی پیشوا ”احمق نبی“ ثابت ہوئے جنہوں نے ”[خدا کے] لوگوں کو یہ کہہ کر ورغلایا . . . کہ سلامتی ہے حالانکہ سلامتی نہیں“ تھی۔—حزقیایل ۱۳:۱-۱۶؛ یرمیاہ ۶:۱۴، ۱۵؛ ۸:۸-۱۲۔
۱۵. کیا آجکل بھی ایسے ہی جھوٹے نبی پائے جاتے ہیں؟ وضاحت کریں۔
۱۵ اُس زمانے کے ”احمق نبیوں“ کی طرح آجکل بھی بیشتر مذہبی پیشوا لوگوں کو خدا کے آنے والے روزِعدالت سے خبردار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ سیاسی پارٹیوں کی بابت رجائیتپسندی کو فروغ دیتے ہیں کہ وہ بالآخر امن اور سلامتی لے آئینگی۔ یہ وضاحت کرنے کی بجائے کہ خدا کی بادشاہت قائم ہو چکی ہے اور مسیحائی بادشاہ جلد ہی اپنی فتح مکمل کرنے والا ہے، وہ خدا کی نسبت انسانوں کو خوش کرنے کی فکر میں اپنے مذہبی ارکان کو وہی کچھ بتاتے ہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ (دانیایل ۲:۴۴؛ ۲-تیمتھیس ۴:۳، ۴؛ مکاشفہ ۶:۲) جھوٹے نبیوں کی طرح وہ کہتے ہیں کہ ”سلامتی ہے حالانکہ سلامتی نہیں۔“ لیکن جسکی اُنہوں نے غلط نمائندگی اور بدنامی کی ہے اُسکے غصب کے سامنے جلد ہی اُنکا یہ یقین چکناچور ہو جائیگا۔ بائبل میں جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت کے پیشواؤں کو ایک کسبی کہا گیا ہے جنکے امن کی بابت گمراہکُن نعرے اُنہی کے حلق میں اَٹک جائیں گے۔—مکاشفہ ۱۸:۷، ۸۔
۱۶. (ا) یہوواہ کے گواہوں نے کیا ریکارڈ قائم کِیا ہے؟ (ب) وہ اُن لوگوں سے کیسے فرق ہیں جو کہتے ہیں کہ ”سلامتی ہے حالانکہ سلامتی نہیں“؟
۱۶ ممتاز اور بارسوخ پیشواؤں کی اکثریت امن کے جھوٹے وعدے پر قائم ہے لیکن اس سے حقیقی امن کے خدائی وعدے پر ایمان رکھنے والوں کا اعتماد لرزاں نہیں ہوتا۔ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے یہوواہ کے گواہوں نے وفاداری سے خدا کے کلام کا دفاع کرنے، دلیری سے جھوٹے مذہب کی مخالفت کرنے اور خدا کی بادشاہت کی پُرعزم حمایت کرنے کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ لوگوں کو امن کے سبز باغ دکھانے کی بجائے وہ مستعدی سے اُنہیں اِس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ اب جنگ کا وقت ہے۔—یسعیاہ ۵۶:۱۰-۱۲؛ رومیوں ۱۳:۱۱، ۱۲؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۶۔
یہوواہ اپنی خاموشی توڑتا ہے
۱۷. اس سے کیا مُراد ہے کہ یہوواہ جلد ہی اپنی خاموشی توڑیگا؟
۱۷ سلیمان نے یہ بھی بیان کِیا: ”خدا راستبازوں اور شریروں کی عدالت کرے گا کیونکہ ہر ایک امر . . . کا ایک وقت ہے۔“ (واعظ ۳:۱۷) تاہم، جھوٹے مذہب اور ”[یہوواہ] اور اُس کے مسیح کے خلاف“ صفآرائی کرنے والے ”زمین کے بادشاہوں“ کی عدالت کرنے کے لئے یہوواہ نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ (زبور ۲:۱-۶؛ مکاشفہ ۱۶:۱۳-۱۶) جب وہ وقت آئے گا تو یہوواہ کی ”خاموشی“ کے دن ختم ہو جائیں گے۔ (زبور ۸۳:۱؛ یسعیاہ ۶۲:۱؛ یرمیاہ ۴۷:۶، ۷) اپنے مسندنشین بادشاہ، یسوع مسیح کے ذریعے وہ صرف ایک زبان ”بولے“ گا جو اُس کے دشمنوں کو ہی سمجھ آئے گی: ”[یہوواہ] بہادر کی مانند نکلے گا۔ وہ جنگی مرد کی مانند اپنی غیرت دکھائے گا۔ وہ نعرہ مارے گا۔ ہاں وہ للکارے گا۔ وہ اپنے دشمنوں پر غالب آئے گا۔ مَیں بہت مدت سے چپ رہا۔ مَیں خاموش ہو رہا اور ضبط کرتا رہا۔ پر اب مَیں دردِزہ والی کی طرح چلاؤنگا۔ مَیں ہانپونگا اور زور زور سے سانس لونگا۔ مَیں پہاڑوں اور ٹیلوں کو ویران کر ڈالونگا اور اُنکے سبزہزاروں کو خشک کروں گا اور اُن کی ندیوں کو جزیرے بناؤنگا اور تالابوں کو سکھا دُوں گا۔ اور اندھوں کو اُس راہ سے جسے وہ نہیں جانتے لے جاؤنگا۔ مَیں اُن کو اُن راستوں پر جن سے وہ آگاہ نہیں لے چلونگا۔ مَیں اُن کے آگے تاریکی کو روشنی اور اُونچی نیچی جگہوں کو ہموار کر دونگا۔ مَیں اُن سے یہ سلوک کرونگا اور اُن کو ترک نہ کرونگا۔“—یسعیاہ ۴۲:۱۳-۱۶۔
۱۸. کس مفہوم میں خدا کے لوگ جلد ہی ”چپ“ ہو جائینگے؟
۱۸ جب یہوواہ خود اپنی معبودیت کے دفاع میں ’بولے گا‘ تو اُس کے لوگوں کو پھر اپنے دفاع میں بولنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پھر اُن کے ”چپ رہنے“ کی باری ہوگی۔ ماضی میں خدا کے خادموں کی طرح اُن کے حق میں بھی یہ الفاظ پورے ہونگے: ”تم کو اس جگہ میں لڑنا نہیں پڑے گا۔ . . . تم قطار باندھکر چپچاپ کھڑے رہنا اور [یہوواہ] کی نجات جو تمہارے ساتھ ہے دیکھنا۔“—۲-تواریخ ۲۰:۱۷۔
۱۹. مسیح کے روحانی بھائیوں کو جلد ہی کونسا شرف حاصل ہوگا؟
۱۹ شیطان اور اُسکی تنظیم کے لئے کتنی بڑی شکست! مسیح کے جلالی بھائی اس وعدے کے مطابق راستی کی خاطر شاندار فتح میں شریک ہونگے: ”خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے شیطان کو تمہارے پاؤں سے جلد کچلوا دیگا۔“ (رومیوں ۱۶:۲۰) امن کے جس دَور کا مدتوں سے انتظار تھا اب وہ قریب ہے۔
۲۰. جلد ہی کس چیز کا وقت ہوگا؟
۲۰ یہوواہ کی قدرت کے عظیمترین اظہار سے بچ کر نئی زمین پر آباد ہونے والوں کی زندگی کتنی بابرکت ہوگی! جلد ہی ماضی کے ایماندار مردوزن بھی اُنکے ساتھ مل جائینگے جن کی قیامت کا مقررہ وقت آ چکا ہوگا۔ مسیح کی ہزار سالہ حکومت واقعی ”درخت لگانے کا ایک وقت . . . شفا دینے کا ایک وقت . . . تعمیر کرنے کا ایک وقت . . . ہنسنے کا ایک وقت . . . ناچنے کا ایک وقت . . . ہمآغوشی کا ایک وقت . . . محبت کا ایک وقت“ ہوگی۔ جیہاں، یہ ابد تک ”صلح کا ایک وقت“ بھی ہوگی!—واعظ ۳:۱-۸؛ زبور ۲۹:۱۱؛ ۳۷:۱۱؛ ۷۲:۷۔
آپکا جواب کیا ہے؟
◻دائمی امن کی بنیاد کیا ہے؟
◻یہوواہ کے گواہوں کے خیال میں موجودہ وقت ”جنگ کا ایک وقت“ کیوں ہے؟
◻خدا کے لوگوں کو کب ”بولنا“ ہے اور کب ”چپ رہنا“ ہے؟
◻یہوواہ کب اور کیسے اپنی خاموشی توڑیگا؟
[صفحہ 13 پر بکس/تصویریں]
یہوواہ کا ایک مقررہ وقت ہے
◻ جوج کو خدا کے لوگوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دینے کا مقررہ وقت۔—حزقیایل ۳۸:۳، ۴، ۱۰-۱۲
◻ انسانی حکمرانوں کے دلوں میں بڑے بابل کو تباہ کرنے کا خیال ڈالنے کا مقررہ وقت۔—مکاشفہ ۱۷:۱۵-۱۷؛ ۱۹:۲
◻ بّرے کی شادی کا مقررہ وقت۔—مکاشفہ ۱۹:۶، ۷
◻ ہرمجدون کی جنگ شروع کرنے کا مقررہ وقت۔—مکاشفہ ۱۹:۱۱-۱۶، ۱۹-۲۱
◻ یسوع کے عہدِہزارسالہ کی ابتدا کے لئے شیطان کو باندھنے کا مقررہ وقت۔—مکاشفہ ۲۰:۱-۳
یہ واقعات صحائف میں پیشکردہ ترتیب کے مطابق درج کئے گئے ہیں۔ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہ پانچوں واقعات عین یہوواہ کے مُتعیّنہ وقت پر رونما ہونگے۔
[صفحہ 15 پر تصویریں]
مسیح کے عہدِہزارسالہ میں اِن کاموں کا وقت ہوگا. . .
ہنسنا. . .
ہمآغوشی. . .
محبت. . .
درخت لگانا. . .
کودنا. . .
تعمیر کرنا. . .