ہر ایک آدمی اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھیگا
گرم موسم کے دوران مشرقِوسطیٰ کے ممالک میں سایہدار جگہوں کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ سورج کی تپتی دھوپ سے تحفظ فراہم کرنے والے ہر درخت کی اہمیت برھ جاتی ہے، بالخصوص جب یہ کسی کے گھر کے قریب لگا ہو۔ اپنے چوڑے پتوں اور لمبی شاخوں کی وجہ سے انجیر کا درخت دوسرے علاقائی درختوں کی نسبت زیادہ سایہدار ہوتا ہے۔
کتاب پلانٹس آف دی بائبل کے مطابق، ”[انجیر کے درخت] کا سایہ ایک خیمے کے سایے سے زیادہ تازگیبخش اور ٹھنڈا ہوتا ہے۔“ قدیم اسرائیل میں تاکستان کے کناروں پر اگنے والے انجیر کے درخت کھیتوں میں کام کرنے والوں کیلئے کچھ دیر آرام کرنے کی بہترین جگہیں ہوتے تھے۔
ایک طویل گرم دن کے اختتام پر خاندانی افراد انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھ کر پُرمسرت رفاقت سے لطف اُٹھا سکتے تھے۔ علاوہازیں، انجیر کا درخت اپنے مالک کو باافراط صحتبخش پھل فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا، بادشاہ سلیمان کے زمانہ سے اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھنا امنوسلامتی اور خوشحالی کا نشان سمجھا جاتا تھا۔—۱-سلاطین ۴:۲۴، ۲۵۔
صدیوں پہلے، موسیٰ نبی نے ملکِموعود کو ’انجیر کے درختوں کا ملک‘ کہا تھا۔ (استثنا ۸:۸) اسرائیلی خیمہگاہ میں انجیر اور دیگر پھل لانے والے بارہ جاسوسوں نے اس مُلک کی زرخیزی کی تصدیق کی تھی۔ (گنتی ۱۳:۲۱-۲۳) انیسویں صدی میں بائبل علاقوں کا سفر کرنے والے ایک سیاح نے بیان کِیا کہ یہاں انجیر کا درخت زیادہ عام تھا۔ پس حیرانی کی بات نہیں کہ صحائف اکثر انجیر کے پھل اور درختوں کا ذکر کرتے ہیں!
دو بار پھل دینے والا درخت
انجیر کا درخت بہتیری قسم کی زمین سے مطابقت پیدا کرتا ہے اور اپنی وسیع جڑوں کے باعث یہ مشرقِوسطیٰ کے طویل اور خشک موسمِگرما کو برداشت کرنے کے قابل بھی ہوتا ہے۔ اس درخت کی ایک غیرمعمولی خوبی یہ ہے کہ یہ جون میں انجیر کے پہلے پکے پھل اور عام طور پر اگست سے بھرپور پھل فراہم کرتا ہے۔ (یسعیاہ ۲۸:۴) اسرائیلی عام طور پر ابتدائی فصل کو تازہ پھل کے طور پر کھایا کرتے تھے۔ وہ بعد کے پھلوں کو سالبھر کے استعمال کیلئے سکھا لیا کرتے تھے۔ سوکھے ہوئے انجیروں کی ٹکیاں بنائی جا سکتی تھیں جن میں بعضاوقات بادام شامل ہوتے تھے۔ یہ انجیر کی ٹکیاں بنانے میں آسان، صحتبخش اور لذیذ ہوا کرتی تھیں۔
عقلمند عورت ابیجیل نے یقیناً یہ سوچتے ہوئے داؤد کو انجیر کی ۲۰۰ ٹکیاں دیں تھیں کہ بِلاشُبہ یہ اُن پناہگزینوں کے لئے بہترین کھانا ثابت ہو سکتا تھا۔ (۱-سموئیل ۲۵:۱۸، ۲۷) انجیر کی ٹکیوں کے طبّی فوائد بھی ہوتے ہیں۔ بادشاہ حزقیاہ کے لئے مُہلک پھوڑے پر خشک انجیروں کا لیپ کِیا گیا تھا اگرچہ، بعدازاں حزقیاہ کی صحتیابی بنیادی طور پر الہٰی مداخلت کا نتیجہ تھی۔a—۲-سلاطین ۲۰:۴-۷۔
قدیم زمانہ میں بحیرۂروم کے پورے علاقے میں خشک انجیروں کو بہت پسند کِیا جاتا تھا۔ مُدبّر کاٹو نے رومی سینٹ کو انجیر کے ذریعے ہی کارتھیج کے خلاف تیسری قرطاجنی جنگ شروع کرنے کیلئے قائل کِیا تھا۔ روم کے بہترین خشک انجیر ایشائےکوچک میں کاریا سے آتے تھے۔ لہٰذا خشک انجیروں کو لاطینی زبان میں کاریکا کا نام دیا گیا۔ موجودہ ترکی کا یہی علاقہ بہترین خشک انجیروں کیلئے مشہور ہے۔
اسرائیلی کسان اکثر تاکستانوں میں درخت لگاتے تھے تاہم وہ بےپھل درختوں کو کاٹ دیا کرتے تھے۔ اچھی مٹی کمیاب تھی اور اسے بےپھل درختوں پر ضائع نہیں کِیا جا سکتا تھا۔ انجیر کے بےپھل درخت کی بابت یسوع کی تمثیل میں کسان باغبان سے کہتا ہے: ”دیکھ تین برس سے مَیں اس انجیر کے درخت میں پھل ڈھونڈنے آتا ہوں اور نہیں پاتا۔ اسے کاٹ ڈال۔ یہ زمین کو بھی کیوں روکے رہے؟“ (لوقا ۱۳:۶، ۷) چونکہ یسوع کے زمانہ میں پھلدار درختوں پر محصول عائد ہوتا تھا لہٰذا ہر بےپھل درخت ایک ناخوشگوار مالی بوجھ سمجھا جاتا تھا۔
انجیر اسرائیلی کھانوں کا ایک اہم حصہ تھا۔ اسی لئے انجیر کی خراب فصل—غالباً یہوواہ کی طرف سے ناموافق عدالتی فیصلے سے تعلق رکھتی تھی—تباہکُن ثابت ہو سکتی تھی۔ (ہوسیع ۲:۱۲؛ عاموس ۴:۹) حبقوق نبی نے بیان کِیا: ”اگرچہ انجیر کا درخت نہ پھولے اور تاک میں پھل نہ لگے اور زیتون کا حاصل ضائع ہو جائے اور کھیتوں میں کچھ پیداوار نہ ہو . . . توبھی مَیں [یہوواہ] سے خوش رہونگا اور اپنے نجاتبخش خدا سے خوشوقت ہونگا۔“—حبقوق ۳:۱۷، ۱۸۔
ایک بےایمان قوم کی علامت
صحائف بعضاوقات انجیر یا انجیر کے درختوں کا علامتی طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یرمیاہ نے یہوداہ کے ایماندار اسیروں کا موازنہ پہلے پکے ہوئے اچھے انجیروں کی ٹوکری سے کِیا جو تازہ کھائے جاتے ہیں۔ تاہم، بےایمان اسیروں کو ناقابلِخوراک ہونے کی وجہ سے رد کئے جانے والے خراب انجیروں سے تشبِیہ دی گئی تھی۔—یرمیاہ ۲۴:۲، ۵، ۸، ۱۰۔
یسوع نے انجیر کے بےپھل درخت کی تمثیل کے ذریعے یہودی قوم کے ساتھ خدا کے تحمل کو ظاہر کِیا۔ جیساکہ پہلے بیان کِیا گیا، اُس نے ایک شخص کا ذکر کِیا جسکے تاکستان میں انجیر کا درخت تھا۔ وہ درخت تین سال تک کوئی پھل نہ لایا جسکی وجہ سے مالک نے اُسے کاٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ تاہم، باغبان نے کہا: ”اَے خداوند اس سال تو اَور بھی اسے رہنے دے تاکہ میں اُس کے گرد تھالا کھودوں اور کھاد ڈالوں۔ اگر آگے کو پھلا تو خیر۔ نہیں تو اُس کے بعد کاٹ ڈالنا۔“—لوقا ۱۳:۸، ۹۔
جب یسوع نے یہ تمثیل دی تو وہ پہلے ہی تین سال منادی کے ذریعے یہودی قوم کے لوگوں میں ایمان پیدا کرنے کی کوشش کر چکا تھا۔ یسوع نے اپنی کارگزاری کو تیز کرتے ہوئے علامتی انجیر کے درخت—یہودی قوم—کو ’زرخیر بنانے‘ کی کوشش کی اور یوں اُسے پھل پیدا کرنے کا موقع دیا۔ تاہم، یسوع کی موت سے پہلے کے ہفتے میں یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ قوم مجموعی طور پر مسیحا کو رد کر چکی تھی۔—متی ۲۳:۳۷، ۳۸۔
ایک بار پھر یسوع نے اسرائیل قوم کی خراب روحانی حالت کو واضح کرنے کے لئے انجیر کے درخت کی تمثیل استعمال کی۔ بیتعنیاہ سے یروشلیم کا سفر کرتے ہوئے اپنی موت کے چار دن پہلے اُس نے انجیر کا ایک درخت دیکھا جسکے پتے بیشمار تھے لیکن پھل ایک بھی نہ تھا۔ چونکہ انجیر کے پہلے پھل پتوں کیساتھ آتے ہیں—اور بعضاوقات پتوں سے بھی پہلے نکلتے ہیں—لہٰذا درخت کا بےپھل ہونا اُس کے بےفائدہ ہونے کو ظاہر کرتا تھا۔—مرقس ۱۱:۱۳، ۱۴۔b
بظاہر صحتمند دکھائی دینے والے انجیر کے بےپھل درخت کی طرح یہودی قوم کی ظاہری وضعقطع بھی پُرفریب تھی۔ تاہم، اس نے کوئی خدائی پھل پیدا نہ کِیا اور آخرکار یہوواہ کے بیٹے کو رد کر دیا۔ یسوع نے انجیر کے بےپھل درخت پر لعنت کی اور اگلے دن شاگردوں نے دیکھا کہ وہ سوکھ چکا تھا۔ اُس سوکھے درخت نے خدا کی برگزیدہ قوم کے طور پر مستقبل میں یہودیوں کے رد کئے جانے کی موزوں نمائندگی کی تھی۔—مرقس ۱۱:۲۰، ۲۱۔
’انجیر کے درخت سے سیکھو‘
یسوع نے اپنی موجودگی کی بابت ایک اہم سبق سکھانے کیلئے بھی انجیر کے درخت کا استعمال کِیا۔ اُس نے بیان کِیا: ”انجیر کے درخت سے ایک تمثیل سیکھو۔ جونہی اُسکی ڈالی نرم ہوتی اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے۔ اِسی طرح جب تم اِن سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک ہے بلکہ دروازہ پر ہے۔“ (متی ۲۴:۳۲، ۳۳) انجیر کے درخت کے چمکدار سبز پتے واضح نظر آتے ہیں اور موسمِگرما کا پیشخیمہ ہیں۔ اسی طرح، متی ۲۴، مرقس ۱۳ اور لوقا ۲۱ باب میں درج یسوع کی عظیم پیشینگوئی اس وقت آسمانی بادشاہتی اختیار میں اُسکی موجودگی کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے۔—لوقا ۲۱:۲۹-۳۱۔
تاریخ کے ایسے اہم دَور میں رہتے ہوئے یقیناً ہمیں انجیر کے درخت سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ایسا کرتے ہوئے اگر ہم روحانی طور پر بیدار رہیں تو ہم اِس عظیم وعدے کی تکمیل کا تجربہ کرنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں: ”ہر ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھیگا اور اُنکو کوئی نہ ڈرائیگا کیونکہ ربُالافواج نے اپنے مُنہ سے یہ فرمایا ہے۔“—میکاہ ۴:۴۔
[فٹنوٹ]
a انیسویں صدی کے وسط میں بائبل کے علاقوں کا دورہ کرنے والے ماہرِموجودات ایچ. بی. ٹرسٹرم نے بیان کِیا کہ مقامی لوگ پھوڑوں کا علاج کرنے کے لئے اب بھی انجیر کا لیپ استعمال کرتے ہیں۔
b یہ واقعہ بیتفگے کے گاؤں کے قریب پیش آیا۔ اسکے نام کا مطلب ہے ”پہلے انجیروں کا گھر۔“ یہ اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ یہ علاقہ انجیر کے بہترین پہلے پھلوں کیلئے مشہور تھا۔