کیا آپ یسوع کی موجودگی کے نشان کو پہچانتے ہیں؟
کوئی بھی شخص بیمار ہونا یا کسی مصیبت میں پڑنا نہیں چاہتا۔ ان حالتوں سے بچنے کیلئے ایک دانشمند شخص خطرے کی نشاندہی کرنے والی علامات یا نشانات کو بغور دیکھتا اور انکے مطابق عمل کرتا ہے۔ یسوع مسیح نے ایک خاص قسم کے نشان کا ذکر کِیا تھا۔ ہمیں اس نشان کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اُس نے جس نشان کے متعلق بیان کِیا اسکا اثر تمام انسانوں اور دُنیا پر ہونا تھا۔ اس میں آپ اور آپکا خاندان بھی شامل ہیں۔
یسوع مسیح نے خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتایا۔ یہ بادشاہت بُرائی کو ختم کرکے زمین کو فردوس بنا دے گی۔ یسوع کے شاگرد یہ جاننے کے مشتاق تھے کہ یہ بادشاہت کب آئے گی۔ اُنہوں نے پوچھا: ”تیرے آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟“—متی ۲۴:۳۔
یسوع مسیح جانتا تھا کہ اپنی موت اور جی اُٹھنے کے بعد، انسانوں پر مسیحائی بادشاہ کے طور پر حکمرانی کرنے کیلئے آسمانی حکومت حاصل کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ اگرچہ اسکی تختنشینی انسانی نظروں سے اوجھل ہونی تھی توبھی یسوع مسیح نے اپنے ”آنے“ اور ”دُنیا کے آخر ہونے“ کے بارے میں جاننے کیلئے ایک نشان دیا۔ اس نشان کے کئی پہلو ہیں جو مل کر یسوع کی موجودگی کے ایک مرکب شناختی نشان کو تشکیل دیتے ہیں۔
متی، مرقس اور لوقا نے اپنی اپنی انجیل میں یسوع مسیح کے جواب کو بڑی احتیاط سے قلمبند کِیا ہے۔ (متی ۲۴ اور ۲۵ ابواب؛ مرقس ۱۳ باب؛ لوقا ۲۱ باب) دیگر بائبل مصنّفین نے بھی اس نشان کی مزید تفصیلات بیان کی ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵؛ ۲-پطرس ۳:۳، ۴؛ مکاشفہ ۶:۱-۸؛ ۱۱:۱۸) اس وقت تمام تفصیلات کا جائزہ لینے کیلئے اس مضمون میں گنجائش نہیں۔ لیکن ہم اس نشان کو تشکیل دینے والے پانچ اہم عناصر پر غور کریں گے جنکا یسوع نے ذکر کِیا۔ آپ دیکھیں گے کہ اس نشان پر غور کرنا آپ کیلئے بہت اہم ہے۔—صفحہ ۶ کے بکس کو دیکھیں۔
”ایک نئے دَور کا آغاز“
”قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی۔“ (متی ۲۴:۷) جرمنی کے ایک رسالے نے بیان کِیا کہ ”۱۹۱۴ سے پہلے لوگ ایک شاندار مستقبل پر یقین رکھتے تھے جس میں انہیں آزادی، ترقی اور خوشحالی حاصل ہوگی۔“ لیکن، اس کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ ایک دوسرے رسالے نے بیان کِیا: ”اگست ۱۹۱۴ سے نومبر ۱۹۱۸ تک جاری رہنے والی جنگ ایک چونکا دینے والا واقعہ تھی۔“ یہ نسلِانسانی کی تاریخ میں ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اس خوفناک لڑائی میں پانچ براعظموں سے تعلق رکھنے والے ۶ کروڑ سے زائد فوجی شامل تھے۔ ہر روز اوسطاً ۶،۰۰۰ فوجی مارے گئے۔ اُس وقت سے ہر نسل کے مؤرخ اور سیاسی مبصرین ”۱۹۱۴ سے ۱۹۱۸ کے سالوں کو ایک نئے دَور کا آغاز“ خیال کرتے ہیں۔
پہلی عالمی جنگ کے انسانی معاشرے پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے اور دُنیا آخری دنوں کی طرف بڑھنے لگی۔ بیسویں صدی جنگوں، لڑائیوں اور دہشتگردی کی صدی رہی ہے۔ موجودہ صدی کے آغاز سے بھی حالتیں بہتر نہیں ہوئی ہیں۔ جنگ کے علاوہ نشان کے دوسرے پہلوؤں پر بھی غور کریں۔
کال، وبائیں اور زلزلے
”جگہ جگہ کال پڑیں گے۔“ (متی ۲۴:۷) پہلی عالمی جنگ کے دوران یورپی ممالک کال سے زیادہ متاثر ہوئے اور اُس وقت سے اس نے نسلِانسانی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مؤرخ ایلن بولک نے لکھا کہ سن ۱۹۳۳ میں روس اور یوکرائن میں ”فاقہزدہ لوگوں کی بڑی تعداد دیہی علاقوں میں بھٹکنے لگی۔ . . . سڑکوں کے کناروں پر لاشیں پڑی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔“ سن ۱۹۴۳ میں، چین کے صوبے ہینان میں قحط کے ایک عینیشاہد صحافی ٹی. ایچ. وائٹ نے لکھا: ”قحط میں تقریباً ہر وہ چیز جسے چبایا جا سکتا اور ہضم کِیا جا سکتا ہے خوراک کا کام دیتی ہے اور انسانی جسم اسے توانائی میں بدل دیتا ہے۔ لیکن جب ایک شخص کو موت کا خطرہ ہو وہ ایسی چیز کھانے کے بارے میں سوچے گا جو اب تک کھانے کیلئے نامناسب ہے۔“ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حالیہ دہوں کے دوران افریقہ بھی قحطسالی کا شکار ہے۔ اگرچہ، زمین ہر ایک کیلئے کافی خوراک مہیا کرتی ہے توبھی اقوامِمتحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر تنظیم کے اندازے کے مطابق پوری دُنیا میں ۸۴۰ ملین لوگ دانے دانے کیلئے ترس رہے ہیں۔
”جا بجا . . . مری پڑے گی۔“ (لوقا ۲۱:۱۱) ایک جرمن رسالے نے رپورٹ پیش کی: ”سن ۱۹۱۸ میں سپینش انفلوئنزا سے تقریباً ۲ تا ۵ کروڑ لوگ ہلاک ہوئے، اُنکی تعداد پہلی عالمی جنگ میں مرنے والے لوگوں سے بھی زیادہ تھی۔“ اُس وقت سے اَنگنت لوگ ملیریا، چیچک، تپِدق، پولیو اور ہیضے جیسی بیماریوں کا شکار ہوتے آئے ہیں۔ آجکل دُنیا میں ایڈز بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حیرانکُن طبّی ترقی کے باوجود بیماریوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ستمظریفی یہ ہے کہ انسان اب تک اسے سمجھ نہیں پایا۔ لیکن یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم ایک حیرانکُن دَور میں رہ رہے ہیں۔
زلزلے۔ (متی ۲۴:۷) گزشتہ ۱۰۰ سال کے دوران زلزلوں نے لاکھوں لوگوں کی جانیں لے لی ہیں۔ ایک ذریعے کے مطابق، سن ۱۹۱۴ سے ہر سال زلزلوں کیساتھ عمارتوں کے تباہ ہونے اور زمین پھٹنے کے تقریباً ۱۸ واقعات ہوتے ہیں۔ سال میں تقریباً ایک مرتبہ ایسے شدید زلزلے آتے ہیں جو عمارتوں کو گرا سکتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی میں ترقی کے باوجود موت کی شرح میں دنبدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ بہت سے شہر جنکی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ ایسی زمینی پٹیوں پر واقع ہیں جہاں زلزلے آنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
خوشخبری!
اگرچہ آخری دنوں کے نشان کے بہت سے پہلو پریشانکُن ہیں۔ توبھی یسوع مسیح نے خوشخبری کے بارے میں بھی بتایا۔
”بادشاہی کی اِس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کیلئے گواہی ہو۔“ (متی ۲۴:۱۴) بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کا کام جسے یسوع مسیح نے شروع کِیا اس اخیر زمانے میں اپنے عروج پر پہنچ جائے گا۔ واقعی، ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہوواہ کے گواہ بائبل کے پیغام کی منادی کر رہے ہیں اور خلوصدل لوگوں کو سکھا رہے ہیں کہ وہ روزمرّہ زندگی میں سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کریں۔ اس وقت ۶۰ لاکھ سے زیادہ گواہ ۲۳۵ ملکوں میں ۴۰۰ سے زائد زبانوں میں منادی کر رہے ہیں۔
غور کریں کہ یسوع نے یہ نہیں کہا تھا کہ دُنیا کی پریشانکُن حالتوں کے باعث دُنیا کے تمام کام ختم ہو جائیں گے۔ اُس نے یہ بھی نہیں کہا تھا کہ پوری دُنیا میں نشان کا صرف ایک پہلو پورا ہوگا۔ اسکی بجائے اُس نے بہت سے واقعات کے بارے میں پیشینگوئی کی جو ملکر ایک نشان کو تشکیل دیں گے جو پوری دُنیا میں پہچانا جائے گا۔
کسی ایک واقعہ پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے کیا آپ عالمی اہمیت کے حامل ایک مرکب نشان کو دیکھتے ہیں؟ زمین پر جوکچھ بھی ہو رہا ہے وہ آپ اور آپکے خاندان پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ہم شاید پوچھیں کہ اس نشان پر کیوں بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں؟
پہلے مَیں کا رُجحان
”تیراکی منع ہے،“ ”خطرہ ۴۴۰،“ ”گاڑی آہستہ چلائیں۔“ یہ کچھ نشانات اور آگاہیاں ہیں جنہیں ہم دیکھتے ہیں۔ لیکن اکثر انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ کیوں؟ اسلئےکہ ہم ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق وہی کام کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں اچھے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ ہمیں گاڑی قانونی طور پر مقررکردہ حد سے زیادہ تیز چلانی چاہئے، یا شاید ہم اُن جگہوں پر تیرنا چاہتے ہیں جہاں منع کِیا گیا ہے۔ لیکن نشانات کو نظرانداز کرنا غیردانشمندانہ بات ہے۔
مثال کے طور پر، سن ۲۰۰۳ میں، پاکستان میں ٹریفک حادثات کی تعداد ۹،۹۸۵ رہی۔ ان حادثات میں ۴،۹۱۰ لوگ ہلاک اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ ان حادثات میں سے بیشتر کی وجہ ڈرائیوروں کا ٹریفک سگنل سے غفلت برتنا اور ٹریفک قوانین کی خلافورزی کرنا تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ آگاہیوں کو نظرانداز کرنے سے سنگین نتائج نکلے ہیں۔
لوگ یسوع مسیح کے بیانکردہ نشان کو نظرانداز کیوں کر دیتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ لالچ نے اُن کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے، بعض بےحس ہو گئے ہوں، شکوشُبہ کا شکار ہوں، اپنی عادات سے مغلوب ہوں یا اپنا مقام کھونے سے ڈرتے ہوں۔ کیا ان میں سے کوئی بھی وجہ آپ کے لئے یسوع مسیح کی موجودگی کے نشانات کو نظرانداز کرنے کا باعث بن رہی ہے؟ کیا نشان کو پہچاننا اور اسکے مطابق عمل کرنا دانشمندی کی بات نہیں ہوگی؟
فردوسی زمین پر زندگی
لوگوں کی ایک بڑی تعداد یسوع کی موجودگی کے نشان پر دھیان دے رہی ہے۔ جرمنی سے ایک شادیشُدہ نوجوان کرسٹین لکھتا ہے: ”یہ تاریک دَور ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اخیر زمانہ میں رہ رہے ہیں۔“ وہ اور اسکی بیوی اپنا زیادہتر وقت لوگوں کو خدا کی بادشاہت کے متعلق بتانے میں صرف کرتے ہیں جسکا بادشاہ یسوع مسیح ہے۔ فرینک بھی اسی مُلک میں رہتا ہے۔ وہ اور اسکی بیوی لوگوں کو بائبل میں سے خوشخبری سناتے اور تسلی دیتے ہیں۔ فرینک کہتا ہے: ”دُنیا کی حالتوں کی وجہ سے بہتیرے اپنے مستقبل کی بابت پریشان ہیں۔ ہم انہیں فردوسی زمین کی بابت بائبل پیشینگوئیوں سے تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔“ کرسٹین اور فرینک بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرنے سے یسوع کے نشان کے ایک پہلو کو پورا کر رہے ہیں۔—متی ۲۴:۱۴۔
جب یہ اخیر زمانہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گا تو یسوع مسیح اس شریر نظام اور اسکی حمایت کرنے والوں کو ختم کر دے گا۔ اسکے بعد مسیحائی بادشاہت زمین پر اختیار سنبھال لے گی اور پیشینگوئی کے مطابق فردوسی حالتیں بحال کرے گی۔ نسلِانسانی بیماری اور موت سے چھٹکارا پائے گی اور مُردے دوبارہ زندگی پائیں گے۔ آخری زمانے کے نشان کو پہچاننے والے ان شاندار امکانات کے منتظر ہیں۔ کیا نشان کی بابت اَور زیادہ سیکھنا دانشمندانہ روش نہیں ہوگی؟ اس نظام کے خاتمے سے بچنے کے لئے کسی شخص کو کیا کرنا چاہئے؟ یقیناً، اس بات پر ہر ایک کو فوراً دھیان دینا چاہئے۔—یوحنا ۱۷:۳۔
[صفحہ ۴ پر عبارت]
یسوع نے بہت سے واقعات کے بارے میں پیشینگوئی کی جو ملکر ایک نشان کو تشکیل دیں گے جسے پوری دُنیا میں پہچانا جائے گا
[صفحہ ۶ پر عبارت]
کیا آپ عالمی اہمیت کے حامل مرکب نشان کو دیکھتے ہیں؟
[صفحہ ۶ پر بکس/تصویریں]
اخیر زمانے کے نشان کو پہچاننا
بڑے پیمانے پر جنگیں۔—متی ۲۴:۷؛ مکاشفہ ۶:۴
کال۔—متی ۲۴:۷؛ مکاشفہ ۶:۵، ۶
وبائیں۔—لوقا ۲۱:۱۱؛ مکاشفہ ۶:۸
بڑھتی ہوئی لاقانونیت۔—متی ۲۴:۱۲
زلزلے۔—متی ۲۴:۷
بُرے دن۔—۲-تیمتھیس ۳:۱
پیسے سے انتہائی پیار۔—۲-تیمتھیس ۳:۲
ضبطِنفس کی کمی۔—۲-تیمتھیس ۳:۳
نیکی کے دشمن۔—۲-تیمتھیس ۳:۳
سر پر کھڑی تباہی پر دھیان نہ دینا۔—متی ۲۴:۳۹
اخیر زمانے کے ثبوت کو نظرانداز کرنے یا ہنسیٹھٹھا کرنے والے لوگ۔—۲-پطرس ۳:۳، ۴
عالمی پیمانے پر خدا کی بادشاہت کی منادی۔—متی ۲۴:۱۴
[صفحہ ۵ پر تصویر کا حوالہ]
,The World War—A Pictorial History WWI soldiers: From the book
:1919; poor family: AP Photo/Aijaz Rahi; polio victim
WHO/P. Virot ©