کلیسیا کی ترقی کا باعث بنیں
”کلیسیا کو چین ہو گیا اور اُس کی ترقی ہوتی گئی۔“—اعمال ۹:۳۱۔
۱. ”خدا کی کلیسیا“ کی بابت کونسے سوال پوچھے جا سکتے ہیں؟
یہوواہ خدا نے ۳۳ عیسوی کے پنتِکُست پر یسوع مسیح کے شاگردوں کے ایک گروہ کو ایک نئی قوم ”خدا کے اؔسرائیل“ کے طور پر قبول کر لیا۔ (گلتیوں ۶:۱۶) بائبل کے مطابق رُوح سے مسحشُدہ یہ مسیحی ”خدا کی کلیسیا“ بن گئے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۲۲) تاہم، خدا کی کلیسیا بننے میں کیا کچھ شامل تھا؟ ”خدا کی کلیسیا“ کو کیسے منظم کِیا جانا تھا؟ اس کے اراکین کے زمین پر مختلف مقامات پر رہنے کے باوجود اس نے کیسے کام کرنا تھا؟ نیز ہماری زندگیاں اس سے کیسے متاثر ہوتی ہیں؟
۲، ۳. یسوع مسیح نے کیسے ظاہر کِیا کہ کلیسیا ایک منظم جماعت کے طور پر کام کرے گی؟
۲ جیسےکہ پچھلے مضمون میں بیان کِیا گیا تھا یسوع مسیح نے اپنے ممسوح پیروکاروں پر مشتمل کلیسیا کے وجود میں آنے کی پیشینگوئی کرتے ہوئے پطرس رسول کو بتایا: ”مَیں اِس پتھر [یسوع مسیح] پر اپنی کلیسیا بناؤں گا اور عالمِارواح کے دروازے اُس پر غالب نہ آئیں گے۔“ (متی ۱۶:۱۸) علاوہازیں، جب یسوع مسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ ہی تھا تو اُس نے جلد قائم ہونے والی کلیسیا کے منظم کئے جانے اور سرگرمِعمل ہونے کی بابت ہدایات دی تھیں۔
۳ یسوع مسیح نے اپنی باتچیت اور کاموں سے ظاہر کِیا کہ کلیسیا کے بعض لوگ پیشوائی کا کام انجام دیں گے۔ وہ کلیسیا کے دیگر لوگوں کی خدمت کریں گے۔ یسوع مسیح نے فرمایا: ”تُم جانتے ہو کہ جو غیرقوموں کے سردار سمجھے جاتے ہیں وہ اُن پر حکومت چلاتے ہیں اور اُن کے امیر اُن پر اختیار جتاتے ہیں۔ مگر تُم میں ایسا نہیں ہے بلکہ جو تُم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادم بنے۔ اور جو تُم میں اوّل ہونا چاہے وہ سب کا غلام بنے۔“ (مرقس ۱۰:۴۲-۴۴) اس سے صاف ظاہر ہے کہ ”خدا کی کلیسیا“ کے اراکین نے الگتھلگ رہنے والے لوگوں پر مشتمل ایک غیرمنظم کلیسیا نہیں ہونا تھا۔ بلکہ اس نے ایک منظم جماعت ہونا تھا جس میں کلیسیا کو تشکیل دینے والے مختلف لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا اور ملجُل کر کام کرنا تھا۔
۴، ۵. ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ کلیسیا کو یہوواہ خدا کی بابت تعلیم دینے کی ضرورت تھی؟
۴ ”خدا کی کلیسیا“ کے سردار یسوع مسیح نے بتایا تھا کہ اُس سے تعلیم پانے والے اُس کے رسولوں اور دیگر لوگوں کی کلیسیا میں مختلف ذمہداریاں ہوں گی۔ وہ کیا کریں گے؟ اہم کام کلیسیا کے اراکین کو یہوواہ خدا کی بابت تعلیم دینا ہوگا۔ یاد کریں کہ مُردوں میں سے زندہ ہونے کے بعد یسوع مسیح نے دیگر رسولوں کی موجودگی میں پطرس رسول سے کہا تھا: ”اَے شمعوؔن یوؔحنا کے بیٹے کیا تُو اِن سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا ہاں خداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھے عزیز رکھتا ہوں۔ اُس نے اُس سے کہا۔ تو میرے برّے چرا۔ . . . میری بھیڑوں کی گلّہبانی کر۔ . . . میری بھیڑیں چرا۔“ (یوحنا ۲۱:۱۵-۱۷) یہ واقعی ایک بہت بھاری ذمہداری تھی!
۵ یسوع مسیح کے ان الفاظ سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کلیسیا میں جمع ہونے والے لوگوں کو گلّے کی بھیڑوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ان بھیڑوں یعنی مسیحی مردوں، عورتوں اور بچوں کو بائبل سے یہوواہ خدا کے بارے میں تعلیم دینے اور مناسب گلّہبانی کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ، یسوع مسیح نے اپنے تمام پیروکاروں کو دوسروں کو تعلیم دینے اور اُنہیں شاگرد بنانے کا حکم دیا تھا۔ اس لئے اُس کی بھیڑیں بننے والے نئے لوگوں کو بھی خدا کے اس حکم کو پورا کرنے کے لئے تربیت دینے کی ضرورت تھی۔—متی ۲۸:۱۹، ۲۰۔
۶. نئی تشکیل پانے والی ”خدا کی کلیسیا“ میں کونسے انتظامات کئے گئے تھے؟
۶ ”خدا کی کلیسیا“ کے تشکیل پانے کے بعد اس کے اراکین تعلیموتربیت پانے اور باہمی حوصلہافزائی حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ جمع ہوتے تھے: ”یہ رسولوں سے تعلیم پانے اور رفاقت رکھنے میں اور روٹی توڑنے اور دُعا کرنے میں مشغول رہے۔“ (اعمال ۲:۴۲، ۴۶، ۴۷) بائبل ریکارڈ ہماری توجہ ایک اَور اہم نکتے کی طرف دلاتا ہے کہ بعض لائق اشخاص کو ضرورتمند بیواؤں میں خوراک تقسیم کرنے کے کام پر مامور کِیا گیا تھا۔ اُنہیں اُن کی تعلیمی قابلیت یا تکنیکی مہارتوں کی وجہ سے منتخب نہیں کِیا گیا تھا۔ یہ آدمی ”رُوح اور دانائی سے بھرے ہوئے“ تھے۔ ان میں سے ایک ستفنس تھا جسے بائبل میں ”ایمان اور رُوحاُلقدس سے بھرا ہوا“ شخص کہا گیا ہے۔ کلیسیا کے منظم طور پر کام کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ”خدا کا کلام پھیلتا رہا اور یرؔوشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا۔“—اعمال ۶:۱-۷۔
خدا کی خدمت کرنے والے اشخاص
۷، ۸. (ا) یروشلیم میں رہنے والے رسولوں اور بزرگوں نے ابتدائی مسیحیوں کے درمیان کونسی خدمت انجام دی؟ (ب) جب کلیسیاؤں کو ہدایات دی گئیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
۷ ابتدائی کلیسیاؤں میں رسول تمام انتظامات کرنے میں پیشوائی کرتے تھے مگر وہ تنہا ایسا نہیں کرتے تھے۔ ایک موقع پر پولس اور اُس کے ساتھی سوریہ کے شہر انطاکیہ واپس آئے۔ اعمال ۱۴:۲۷ بیان کرتی ہے: ”وہاں پہنچ کر اُنہوں نے کلیسیا کو جمع کِیا اور اُن کے سامنے بیان کِیا کہ خدا نے ہماری معرفت کیا کچھ کِیا۔“ جب وہ اُسی کلیسیا میں تھے تو یہ سوال اُٹھایا گیا کہ آیا غیرقوم ایمانداروں کو ختنہ کرانا چاہئے یا نہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے پولس اور برنباس کو ”رسولوں اور بزرگوں کے پاس یرؔوشلیم“ بھیجا گیا جوکہ گورننگ باڈی کے طور پر خدمت انجام دے رہے تھے۔—اعمال ۱۵:۱-۳۔
۸ جب ”رسول اور بزرگ اس بات پر غور کرنے کے لئے جمع ہوئے“ تو یسوع مسیح کے سوتیلے بھائی یعقوب نے جوکہ رسول نہیں تھا مسیحی بزرگ کے طور پر اس اجلاس کی صدارت کی۔ (اعمال ۱۵:۶) اس مسئلے پر خوب غوروخوض اور باتچیت کرنے کے بعد، وہ رُوحاُلقدس کی مدد کے ساتھ صحائف کی مطابقت میں فیصلہ کرنے کے قابل ہوئے۔ اُنہوں نے اپنے اس فیصلے کو خط کی صورت میں مقامی کلیسیاؤں کو ارسال کِیا۔ (اعمال ۱۵:۲۲-۳۲) جب کلیسیاؤں کو یہ معلومات پہنچیں تو اُنہوں نے انہیں قبول کِیا اور اِن کے مطابق عمل بھی کِیا۔ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی ہوئی اور وہ ترقی کرتے گئے۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”پس کلیسیائیں ایمان میں مضبوط اور شمار میں روزبروز زیادہ ہوتی گئیں۔“—اعمال ۱۶:۵۔
۹. بائبل لائق مسیحی اشخاص کے لئے کونسی ذمہداریوں کی بابت بیان کرتی ہے؟
۹ مقامی کلیسیاؤں نے کیسے کام کرنا تھا؟ مثال کے طور پر کریتے کے جزیرے کی کلیسیاؤں پر غور کریں۔ اگرچہ وہاں رہنے والے لوگوں کی اکثریت اچھی شہرت نہیں رکھتی تھی توبھی بعض اپنی روش میں تبدیلی لانے کے بعد سچے مسیحی بن گئے۔ (ططس ۱:۱۰-۱۲؛ ۲:۲، ۳) کریتے کے مسیحی مختلف شہروں میں اور یروشلیم میں قائم گورننگ باڈی سے کافی دُور رہتے تھے۔ تاہم، یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ دوسری جگہوں کی طرح کریتے میں بھی ہر مقامی کلیسیا میں یہوواہ کی خدمت کا تجربہ رکھنے والے ”بزرگ“ مقرر کئے گئے تھے۔ ان آدمیوں میں وہ لیاقتیں پائی جاتی تھیں جن کی بابت ہم بائبل میں پڑھتے ہیں۔ اُنہیں بزرگ یا نگہبان مقرر کِیا گیا تھا ”تاکہ [وہ] صحیح تعلیم کے ساتھ نصیحت بھی کر [سکیں] اور مخالفوں کو قائل بھی کر [سکیں]۔“ (ططس ۱:۵-۹؛ ۱-تیمتھیس ۳:۱-۷) ایسے روحانی آدمیوں کو کلیسیا کی مدد کرنے کے لئے خادموں کے طور پر مقرر کِیا جاتا تھا۔—۱-تیمتھیس ۳:۸-۱۰، ۱۲، ۱۳۔
۱۰. متی ۱۸:۱۵-۱۷ کے مطابق سنگین نوعیت کے مسائل کو کیسے حل کرنا تھا؟
۱۰ یسوع مسیح نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ایسا انتظام قائم کِیا جائے گا۔ متی ۱۸:۱۵-۱۷ کے بیان کو یاد کریں جہاں اُس نے آگاہ کِیا کہ خدا کے دو پرستاروں کے درمیان بعضاوقات مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایک شخص دوسرے کے خلاف گُناہ کر سکتا ہے۔ جس شخص کے خلاف خطا کی گئی ہے وہ دوسرے کے پاس جا سکتا اور تنہائی میں ”باتچیت کرکے اُسے سمجھا“ سکتا تھا۔ اگر اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر ایک یا دو ایسے لوگوں کو جو معاملے سے واقف ہیں اپنے ساتھ لیکر جا سکتا ہے۔ اگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو کیا کِیا جا سکتا ہے؟ یسوع مسیح نے فرمایا: ”اگر وہ اُن کی سننے سے بھی انکار کرے تو کلیسیا سے کہہ اور اگر کلیسیا کی سننے سے بھی انکار کرے تو تُو اُسے غیرقوم والے اور محصول لینے والے کے برابر جان۔“ جب یسوع نے یہ بات کہی تو اُس وقت یہودی ہی ”خدا کی کلیسیا“ تھے۔ لہٰذا، شروع میں یسوع مسیح کے الفاظ کا اطلاق یہودی قوم پر ہی ہوتا تھا۔a تاہم، جب مسیحی کلیسیا قائم ہو گئی تو یسوع کے ان الفاظ کا اطلاق اُس پر ہونا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر مسیحی کی حوصلہافزائی اور راہنمائی کے لئے خدا کے لوگوں کے درمیان کلیسیائی بندوبست کارفرماں ہوگا۔
۱۱. بزرگ مسائل حل کرنے کے سلسلے میں کیا کردار ادا کرتے تھے؟
۱۱ موزوں طور پر، مسائل کو حل کرنے اور گُناہ سرزد ہو جانے کے معاملات کو نپٹانے کے لئے بزرگ یا نگہبان مقامی کلیسیا کی نمائندگی کریں گے۔ یہ ططس ۱:۹ میں درج بزرگوں کی لیاقتوں کے بھی عین مطابق ہے۔ یہ سچ ہے کہ مقامی بزرگ بھی ناکامل انسان تھے جیسےکہ ططس جسے پولس نے ”باقیماندہ باتوں کو درست“ کرنے کے لئے کلیسیاؤں کے پاس بھیجا تھا۔ (ططس ۱:۴، ۵) آج بھی جن اشخاص کو بزرگوں کے طور پر خدمت انجام دینے کے لئے منتخب کِیا جاتا ہے وہ کافی عرصے سے وفاداری سے خدا کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کلیسیا کے دیگر اراکین کے لئے بزرگوں کے انتظام کے ذریعے فراہم کی جانے والی راہنمائی اور پیشوائی پر بھروسا رکھنے کی معقول وجہ ہے۔
۱۲. کلیسیا کے سلسلے میں بزرگوں کی کیا ذمہداری ہے؟
۱۲ افسس کی کلیسیا کے بزرگوں کو پولس نے لکھا: ”اپنی اور اُس سارے گلّہ کی خبرداری کرو جس کا رُوحاُلقدس نے تمہیں نگہبان ٹھہرایا تاکہ خدا کی کلیسیا کی گلّہبانی کرو جِسے اُس نے خاص اپنے [بیٹے کے] خون سے مول لیا۔“ (اعمال ۲۰:۲۸) اسی طرح آجکل بھی کلیسیا میں نگہبانوں کو ’خدا کے گلّہ کی گلّہبانی کرنے‘ کے لئے مقرر کِیا جاتا ہے۔ اُنہیں گلّہ پر حکومت نہیں جتانی چاہئے بلکہ محبت کے ساتھ گلّہبانی کا کام کرنا چاہئے۔ (۱-پطرس ۵:۲، ۳) بزرگوں کو ”سارے گلّہ“ کی حوصلہافزائی اور مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
کلیسیا کی قربت میں رہیں
۱۳. بعضاوقات کلیسیا میں کیا واقع ہو سکتا ہے، اور کیوں؟
۱۳ بزرگ اور کلیسیا کے دیگر اراکین سب ناکامل ہیں۔ اسی وجہ سے پہلی صدی میں رسولوں کے موجود ہونے کے باوجود غلطفہمیاں یا مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ آجکل بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ (فلپیوں ۴:۲، ۳) کلیسیا کا نگہبان یا کوئی دوسرا شخص ناشائستہ، سخت یا کوئی ایسی بات کہہ سکتا ہے جو مکمل طور پر سچ معلوم نہیں ہوتی۔ یا ہو سکتا ہے کہ ہم سوچیں کہ کوئی غیرصحیفائی کام ہو رہا ہے۔ یاپھر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بزرگ اس معاملے سے واقف ہونے کے باوجود اسے درست کرنے کے لئے کچھ نہیں کر رہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ مسئلہ پاک صحائف کے مطابق ایسے حقائق کی روشنی میں حل کِیا جا رہا ہو جن سے ہم واقف نہیں ہیں۔ تاہم اگر ہمارے خیال میں کوئی غیرصحیفائی کام ہو رہا ہے تو اس مثال پر غور کریں: کچھ عرصہ تک کرنتھس کی کلیسیا میں جس کی یہوواہ خدا کو بہت فکر تھی سنگین غلطکاری ہوتی رہی مگر وقت آنے پر، اُس نے اِس مسئلے کو حل کر دیا۔ (۱-کرنتھیوں ۵:۱، ۵، ۹-۱۱) پس ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں، ’اگر مَیں اُس وقت کرنتھس کی کلیسیا میں ہوتا تو میرا ردِعمل کیا ہوتا؟‘
۱۴، ۱۵. بعض شاگردوں نے یسوع کی پیروی کرنی کیوں چھوڑ دی تھی، اور اس سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟
۱۴ کلیسیا کے سلسلے میں ایک دوسری صورتحال پر غور کریں۔ فرض کریں کہ کسی شخص کے لئے صحیفائی تعلیم کو سمجھنا اور قبول کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے اس سلسلے میں اُس نے بائبل اور کلیسیا کے ذریعے فراہمکردہ بائبل پر مبنی کتابوں میں سے تحقیق کی ہو اور پُختہ ساتھی مسیحیوں یا بزرگوں سے مدد بھی لی ہو۔ لیکن اس تمام کے باوجود اُسے بات کو سمجھنا یا قبول کرنا مشکل لگتا ہے۔ وہ کیا کر سکتا ہے؟ یسوع مسیح کی موت سے ایک سال پہلے کچھ اسی طرح کا مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ جب یسوع مسیح نے کہا کہ وہ ”زندگی کی روٹی“ ہے اور ابد تک زندہ رہنے کے لئے ایک شخص کو ’ابنِآدم کا گوشت کھانا اور اس کا خون پینا‘ ضروری ہے تو یہ بات یسوع کے بعض شاگردوں کو انتہائی ناگوار گزری۔ صبر کرنے یا وضاحت طلب کرنے کی بجائے بہت سے شاگرد اِس کے بعد ”[یسوع کے] ساتھ نہ رہے۔“ (یوحنا ۶:۳۵، ۴۱-۶۶) اگر ہم وہاں ہوتے تو ہم نے کیا کِیا ہوتا؟
۱۵ ہمارے زمانے میں، بعض اشخاص نے مقامی کلیسیا کے ساتھ رفاقت رکھنی چھوڑ دی ہے اور اُن کا خیال ہے کہ وہ اکیلے ہی خدا کی خدمت کریں گے۔ شاید وہ کہیں کہ اُنہوں نے اس لئے ایسا کِیا ہے کہ اُنہیں ٹھوکر لگی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہاں غلطی کی درستی نہیں کی جاتی۔ یاپھر یہ کہ وہ کسی تعلیم سے متفق نہیں ہیں۔ کیا اُن کی یہ روش درست ہے؟ سچ ہے کہ ہر مسیحی کا خدا کے ساتھ اپنا ذاتی رشتہ ہونا چاہئے توبھی ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ایک عالمگیر کلیسیا کو استعمال کر رہا ہے جیسے اُس نے رسولوں کے زمانے میں کِیا۔ علاوہازیں، پہلی صدی میں بھی یہوواہ خدا نے مقامی کلیسیاؤں کو استعمال کِیا اور انہیں برکت دی۔ کلیسیاؤں کے فائدے کے لئے اُس نے لائق بزرگوں اور خادموں کا بھی بندوبست کِیا۔ آج بھی یہی طریقۂکار عمل میں لایا جاتا ہے۔
۱۶. اگر ایک شخص کلیسیا کو چھوڑ دینے کی آزمائش میں پڑ جاتا ہے تو اُسے کس چیز کی بابت سوچنا چاہئے؟
۱۶ اگر ایک مسیحی یہ سوچتا ہے کہ وہ کلیسیا کے ساتھ رفاقت رکھے بغیر ہی خدا کے ساتھ اپنا ذاتی رشتہ قائم رکھ سکتا ہے تو وہ دراصل خدا کے قائمکردہ انتظام کو رد کر رہا ہوگا۔ خدا کے قائمکردہ انتظام میں اُس کے لوگوں کی عالمگیر کلیسیا اور مقامی کلیسیائیں دونوں شامل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص اکیلا ہی خدا کی پرستش کرنے لگے یاپھر چند دیگر لوگوں کے ساتھ ملکر ایسا کر رہا ہو۔ اگر ایسا ہے توپھر کلیسیائی بزرگوں اور خادموں کے بندوبست کا کیا فائدہ ہے؟ واضح طور پر، جب پولس نے کُلسّے کی کلیسیا کو یہ ہدایت دی کہ اس خط کو لودیکیہ کی کلیسیا کے سامنے بھی پڑھا جائے تو وہ ’مسیح میں جڑ پکڑنے اور تعمیر ہونے‘ کی بات کر رہا تھا۔ کلیسیا سے الگ ہو جانے والے لوگوں کے برعکس کلیسیا کے ساتھ چلنے والے لوگ اس انتظام سے فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔—کلسیوں ۲:۶، ۷؛ ۴:۱۶۔
حق کا ستون اور بنیاد
۱۷. کلیسیا کی بابت ۱-تیمتھیس ۳:۱۵ کیا بیان کرتی ہے؟
۱۷ مسیحی بزرگ تیمتھیس کے نام اپنے پہلے خط میں پولس رسول نے مقامی کلیسیاؤں میں بزرگوں اور خادموں کی لیاقتوں کی خاکہکشی کی تھی۔ اس کے فوراً بعد پولس رسول نے ”زندہ خدا کی کلیسیا“ کا ذکر کِیا جو کہ ”حق کا ستون اور بنیاد ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۳:۱۵) پہلی صدی میں ممسوح مسیحیوں کی پوری کلیسیا یقیناً حق کا ستون ثابت ہوئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مسیحی مقامی کلیسیا کے اس اہم بندوبست کے ذریعے ہی سچائی کی ایسی تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں سچائی کی تعلیم دی جاتی، اس کا دفاع کِیا جاتا تھا اور وہ روحانی طور پر مضبوط ہو سکتے تھے۔
۱۸. کلیسیائی اجلاس کیوں اہم ہیں؟
۱۸ اسی طرح آجکل بھی عالمگیر مسیحی کلیسیا خدا کا گھر ”حق کا ستون اور بنیاد ہے۔“ ہمارا مقامی کلیسیا کے اجلاسوں پر باقاعدہ حاضر ہونا اور ان میں حصہ لینا ہی خدا کے ساتھ اپنے رشتے میں ترقی کرنے، ایمان میں مضبوط ہونے اور اُس کی مرضی بجا لانے کا بنیادی طریقہ ہے۔ کرنتھس کی کلیسیا کو لکھتے وقت پولس رسول نے ان اجلاسوں پر جوکچھ کہا جاتا ہے اُس کی طرف توجہ دلائی۔ اُس نے لکھا کہ وہ چاہتا ہے کہ کلیسیائی اجلاس پر جوکچھ بتایا جاتا ہے وہ واضح اور قابلِسمجھ ہو تاکہ وہاں حاضر لوگ ”ترقی“ کر سکیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۱۲، ۱۷-۱۹) آج ہم بھی ایسی ترقی کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم یہ تسلیم کریں کہ یہوواہ خدا نے مقامی کلیسیاؤں کو اختیار دیا ہے اور انہیں اُس کی حمایت حاصل ہے۔
۱۹. آپ کو اپنی کلیسیا کا شکرگزار کیوں ہونا چاہئے؟
۱۹ اگر ہم مسیحیوں کے طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کلیسیا کی قربت میں رہنا چاہئے۔ یہ عرصۂدراز سے جھوٹی تعلیمات کے خلاف پناہگاہ ثابت ہوئی ہے۔ علاوہازیں، پوری دُنیا میں مسیحائی بادشاہت کی خوشخبری سنانے کے لئے یہوواہ خدا اسی انتظام کو استعمال کر رہا ہے۔ بِلاشُبہ، خدا نے مسیحی کلیسیا کے ذریعے بہت کچھ انجام دیا ہے۔—افسیوں ۳:۹، ۱۰۔
[فٹنوٹ]
a بائبل عالم البرٹ بارنز کا خیال تھا کہ جب یسوع نے ’کلیسیا سے کہنے‘ کی ہدایت کی تو اس سے اُس کا مطلب ”اُن لوگوں کے پاس جانا ہو سکتا ہے جو اس طرح کے معاملات کو حل کرنے کا اختیار رکھتے تھے یا کلیسیا کی نمائندگی کرتے تھے۔ یہودی عبادتخانوں میں بزرگوں کی ایک جماعت ہوا کرتی تھی جو اس قسم کے معاملات کو حل کِیا کرتی تھی۔“
کیا آپ کو یاد ہے؟
• ہم کیوں یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ خدا زمین پر کلیسیاؤں کو استعمال کرتا ہے؟
• بزرگ ناکامل ہونے کے باوجود کلیسیا کے لئے کیا کرتے ہیں؟
• آپ مقامی کلیسیا کے ذریعے کیسے ترقی کر رہے ہیں؟
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
یروشلیم میں موجود رسولوں اور بزرگوں نے گورننگ باڈی کے اراکین کے طور پر خدمت انجام دی
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
بزرگوں اور خادموں کو اپنی کلیسیائی ذمہداریاں پوری کرنے کے لئے ہدایات دی جاتی ہیں