”پاک چالچلن اور دینداری“ کی عمدہ مثال بنیں
”جب یہ سب چیزیں اِس طرح پگھلنے والی ہیں تو تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔“—۲-پطر ۳:۱۱۔
۱. پطرس نے اپنے دوسرے خط میں مسیحیوں کو یہوواہ خدا کے وفادار رہنے کی نصیحت کیوں کی؟
بہت زیادہ اذیت سہنے کے باوجود ابتدائی مسیحیوں کا جوش ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ وہ روزبروز ترقی کر رہے تھے۔ اِس لئے شیطان نے اُنہیں گمراہ کرنے کے لئے ایک ایسا حربہ آزمایا جو خدا کے خادموں کے خلاف پہلے بھی کئی مرتبہ کامیاب ثابت ہو چکا تھا۔ شیطان نے مسیحیوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایسے جھوٹے اُستادوں کو استعمال کِیا جن کی ’آنکھوں میں زنا‘ اور ’دل میں لالچ‘ تھا۔ (۲-پطر ۲:۱-۳، ۱۴؛ یہوداہ ۴) ایسی صورت میں پطرس رسول نے مسیحیوں کو دوسرا خط لکھا۔ اِس خط میں پطرس رسول نے اُنہیں نصیحت کی کہ وہ یہوواہ کے وفادار رہیں۔
۲. (ا)دوسرا پطرس ۳ باب کس بات پر توجہ دلاتا ہے؟ (ب)اِس سلسلے میں ہمیں کن سوالوں پر غور کرنا چاہئے؟
۲ پطرس رسول نے لکھا: ”مَیں تو مناسب سمجھتا ہوں کہ جب تک مَیں زندہ ہوں اِن باتوں کو یاد دِلادِلا کر تمہیں اُبھارتا رہوں۔ لیکن مَیں جانتا ہوں کہ مَیں جلد ہی اِس دُنیا میں سے کوچ کرنے والا ہوں۔ . . . لہٰذا میری کوشش یہی رہے گی کہ میرے مرنے کے بعد بھی تُم اِن باتوں کو ہمیشہ یاد رکھ سکو۔“ (۲-پطر ۱:۱۳-۱۵، نیو اُردو بائبل ورشن) پطرس جانتا تھا کہ اُس کی موت نزدیک ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کے مرنے کے بعد بھی مسیحی اُس کی نصیحت کو یاد رکھیں۔ خوشی کی بات ہے کہ اُس کی باتیں اب بائبل میں درج ہیں جنہیں ہم سب پڑھ سکتے ہیں۔ پطرس کے دوسرے خط کا تیسرا باب ہمارے لئے خاص طور پر اہم ہے۔ یہ باب ”اخیر دنوں“ پر توجہ دلاتا ہے۔ یہ بیان کرتا ہے کہ آسمان یعنی انسانی حکومتیں تباہ ہو جائیں گی۔ نیز، زمین یعنی خدا سے دُور لوگ بالکل نیست ہو جائیں گے۔ (۲-پطر ۳:۳، ۷، ۱۰) اِس سلسلے میں پطرس ہمیں کیا نصیحت کرتا ہے؟ پطرس کی نصیحت پر عمل کرنے سے ہم یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟
۳، ۴. (ا)پطرس نے مسیحیوں کو کونسی تاکید کی اور اُنہیں کس بات سے خبردار کِیا؟ (ب)ہم کن تین باتوں پر غور کریں گے؟
۳ شیطان کی دُنیا کے خاتمے کا ذکر کرنے کے بعد پطرس رسول نے کہا: ”تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔“ (۲-پطر ۳:۱۱، ۱۲) اِس آیت میں پطرس رسول کوئی سوال نہیں پوچھ رہا تھا۔ اِس کی بجائے وہ مسیحیوں کو تاکید کر رہا تھا کہ اُنہیں دینداری اور چالچلن کے سلسلے میں عمدہ مثال قائم کرنی چاہئے۔ پطرس رسول جانتا تھا کہ یہوواہ کے ”انتقام کے روز“ صرف وہی بچیں گے جو یہوواہ کی مرضی پر چلتے ہیں۔ (یسع ۶۱:۲) لہٰذا، پطرس رسول نے کہا: ”پس اَے عزیزو! چُونکہ تُم پہلے سے آگاہ ہو اِس لئے ہوشیار رہو تاکہ بےدینوں [جھوٹے اُستادوں] کی گمراہی کی طرف کھنچ کر اپنی مضبوطی کو چھوڑ نہ دو۔“—۲-پطر ۳:۱۷۔
۴ پطرس رسول بھی اُن لوگوں میں شامل تھا جو مستقبل میں ہونے والے واقعات سے ”پہلے سے آگاہ“ تھے۔ اِس لئے اُسے معلوم تھا کہ آخری زمانے میں مسیحیوں کو بہت محتاط رہنا ہوگا تاکہ وہ اپنی راستی پر قائم رہ سکیں۔ بعد میں یوحنا رسول نے واضح کِیا کہ مسیحیوں کے لئے وفادار رہنا کیوں مشکل ہوگا۔ اُس نے رویا میں دیکھا کہ شیطان کو آسمان سے نکال دیا گیا ہے۔ وہ اُن لوگوں کے خلاف ”بڑے قہر“ میں ہے ”جو خدا کے حکموں پر عمل“ کرتے اور ”یسوؔع کی گواہی دینے پر قائم“ ہیں۔ (مکا ۱۲:۹، ۱۲، ۱۷) مگر خدا کے وفادار ممسوح خادم اور یسوع کی ”اَور بھی بھیڑیں“ شیطان کے حملوں پر غالب آئیں گے۔ (یوح ۱۰:۱۶) لیکن ہم ذاتی طور پر خدا کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟ یہوواہ کے وفادار رہنے کے لئے (۱) ہمیں اپنے اندر بعض اہم خوبیاں پیدا کرنی ہوں گی، (۲) ہمیں ہر لحاظ سے بےداغ اور بےعیب رہنا ہوگا اور (۳) ہمیں آزمائشوں کے تحت اپنی راستی پر قائم رہنا ہوگا۔ آئیں اِن تین باتوں پر غور کریں۔
وفادار رہنے کے لئے ضروری خوبیاں
۵، ۶. (ا)ہمیں اپنے اندر کونسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں؟ (ب)اِس کے لئے ہمیں ”کمال کوشش“ کیوں کرنی پڑتی ہے؟
۵ پطرس رسول نے اپنے اِسی خط کے شروع میں لکھا: ”تُم اپنی طرف سے کمال کوشش کرکے اپنے ایمان پر نیکی اور نیکی پر معرفت۔ اور معرفت پر پرہیزگاری اور پرہیزگاری پر صبر اور صبر پر دینداری۔ اور دینداری پر برادرانہ اُلفت اور برادرانہ اُلفت پر محبت بڑھاؤ۔ کیونکہ اگر یہ باتیں تُم میں موجود ہوں اور زیادہ بھی ہوتی جائیں تو تُم کو ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کے پہچاننے میں بیکار اور بےپھل نہ ہونے دیں گی۔“—۲-پطر ۱:۵-۸۔
۶ ہم یہ خوبیاں کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ اِس کے لئے ضروری ہے کہ ہم تمام اجلاسوں پر حاضر ہوں، بائبل کو باقاعدگی سے پڑھیں اور اُس پر سوچبچار کریں۔ ایسے کاموں کے لئے ہمیں ”کمال کوشش“ کرنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر، باقاعدگی سے خاندانی عبادت کرنے اور اِسے تمام افراد کے لئے فائدہمند اور دلچسپ بنانے کے لئے خوب تیاری اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے کام جب ہمارے معمول کا حصہ بن جاتے ہیں اور ہمارے لئے نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں تو اِنہیں کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
۷، ۸. (ا)بعض خاندانی عبادت کے بندوبست کے متعلق کیسا محسوس کرتے ہیں؟ (ب)آپ خاندانی عبادت کے بندوبست سے کیا فائدہ حاصل کر رہے ہیں؟
۷ خاندانی عبادت کے بندوبست کے متعلق ایک بہن لکھتی ہے: ”خاندانی عبادت میں ہم بہت سی نئی اور دلچسپ باتیں سیکھتے ہیں۔“ ایک اَور بہن کہتی ہے: ”پہلے تو مَیں یہ نہیں چاہتی تھی کہ کتابی مطالعہ ختم ہو کیونکہ یہ میرا پسندیدہ اجلاس تھا۔ لیکن اب جب ہم خاندانی عبادت کرتے ہیں تو مَیں محسوس کرتی ہوں کہ یہوواہ خدا نہ صرف ہماری ضروریات سے واقف ہے بلکہ اُنہیں وقت پر پورا بھی کرتا ہے۔“ ایک شوہر بیان کرتا ہے: ”مَیں نے اور میری بیوی نے خاندانی عبادت کے بندوبست سے بہت فائدہ حاصل کِیا ہے۔ اب ہم پہلے سے زیادہ ایسی خوبیاں ظاہر کرنے کے قابل ہو گئے ہیں جو رُوح کے پھل کا حصہ ہیں۔ ہم اپنی خدمت سے زیادہ خوشی حاصل کر رہے ہیں۔“ ایک والد بیان کرتا ہے: ”خاندانی عبادت کے لئے بچے خود تحقیق کرتے ہیں اور بہت سی نئی باتیں سیکھتے ہیں۔ اُنہیں اِس میں بہت مزہ آتا ہے۔ خاندانی عبادت کے بندوبست سے ہمارا اعتماد اِس بات پر اَور بھی بڑھ گیا ہے کہ یہوواہ خدا ہماری فکروں اور ضرورتوں سے واقف ہے۔ وہ ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔“ کیا آپ بھی خاندانی عبادت کے بندوبست کی قدر کرتے ہیں؟
۸ چھوٹےچھوٹے مسئلوں کو اپنی خاندانی عبادت میں رکاوٹ نہ بننے دیں۔ اِس سلسلے میں ایک شوہر اور بیوی کے بیان پر غور کریں: ”پچھلے چار ہفتوں سے ہر جمعرات کی شام ہمارے خاندان میں کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا تھا جس کی وجہ سے خاندانی عبادت کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ مگر ہم نے اِسے خاندانی عبادت میں رکاوٹ نہ بننے دیا۔“ ہو سکتا ہے کہ کبھیکبھار ہمیں خاندانی عبادت کے وقت میں تبدیلی کرنی پڑے۔ پھربھی پوری کوشش کریں کہ خاندانی عبادت کسی بھی صورت میں نہ چُھوٹے۔
۹. (ا)مُنادی کا کام جاری رکھنے کے لئے یرمیاہ کی مدد کیسے ہوئی؟ (ب)ہم یرمیاہ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۹ آئیں یرمیاہ نبی کی مثال پر غور کریں۔ وہ ایسے لوگوں میں مُنادی کر رہا تھا جو اُس کی بات پر بالکل دھیان نہیں دے رہے تھے۔ مگر یہوواہ خدا نے اُس کا حوصلہ بڑھایا جس کی وجہ سے اُس نے ایسے لوگوں میں مُنادی کرنا جاری رکھا۔ وہ دل سے یہوواہ کی رہنمائی کی قدر کرتا تھا اِس لئے اُس نے کہا ”[یہوواہ] کا کلام . . . میرے دل میں جلتی آگ کی مانند ہے جو میری ہڈیوں میں پوشیدہ ہے۔“ (یرم ۲۰:۸، ۹) یہوواہ کی مدد سے وہ یروشلیم کی تباہی تک تمام کٹھن حالات کا سامنا کرنے کے قابل بھی ہوا۔ آج ہمارے پاس یہوواہ کا مکمل کلام موجود ہے۔ خدا کا کلام روزانہ پڑھنے سے ہم تمام معاملات کو یہوواہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یوں یرمیاہ کی طرح ہم بھی خوشی سے اپنی خدمت جاری رکھنے، آزمائشوں میں وفادار اور ہر لحاظ سے بےداغ رہنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔—یعقو ۵:۱۰۔
”بیداغ اور بےعیب“ رہیں
۱۰، ۱۱. (ا)ہمیں ”بیداغ اور بےعیب“ رہنے کے لئے سخت کوشش کیوں کرنی چاہئے؟ (ب)اِس صورت میں ہمیں کیا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے؟
۱۰ ہم آخری زمانہ میں رہ رہے ہیں۔ اِس لئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ دُنیا پر لالچ، بدچلنی اور تشدد کا جنون سوار ہے۔ شیطان یہ سوچتا ہے کہ ’اگر خدا کے خادموں کو ڈرایا نہیں جا سکتا تو اُنہیں ورغلایا تو جا ہی سکتا ہے۔‘ (مکا ۲:۱۳، ۱۴) پس ہمیں پطرس رسول کی اِس نصیحت کو یاد رکھنا چاہئے: ”[خدا] کے سامنے اطمینان کی حالت میں بیداغ اور بےعیب نکلنے کی کوشش کرو۔“—۲-پطر ۳:۱۴۔
۱۱ اِس آیت میں پطرس رسول مسیحیوں کو ایک بار پھر اپنی پوری کوشش کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ پطرس رسول نے یہ مشورہ یہوواہ خدا کے الہام سے دیا تھا۔ یہوواہ خدا جانتا ہے کہ ہمیں شیطان کی دُنیا کی گندگی سے ”بیداغ اور بےعیب“ رہنے کے لئے سخت کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، ہمیں اپنے دل کی خوب حفاظت کرنے کے لئے سخت کوشش کرنی پڑتی ہے تاکہ اِس میں غلط خواہشات پیدا نہ ہوں۔ (امثال ۴:۲۳؛ یعقوب ۱:۱۴، ۱۵ کو پڑھیں۔) نیز، لوگ ہم پر خدا کے کلام کے مطابق زندگی گزارنے کی وجہ سے ”لعنطعن“ کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی ہمیں اپنی راستی پر قائم رہنے کے لئے سخت کوشش کرنی پڑتی ہے۔—۱-پطر ۴:۴۔
۱۲. لوقا ۱۱:۱۳ ہمیں کس بات کا یقین دلاتی ہے؟
۱۲ ہم نے گُناہ کا ورثہ پایا ہے اِس لئے صحیح راہ پر چلنا مشکل ہوتا ہے۔ (روم ۷:۲۱-۲۵) لیکن خدا کی پاک رُوح کی مدد سے ہم صحیح راہ پر چلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں خدا سے پاک رُوح کے لئے درخواست کرنی چاہئے۔ بائبل یقین دلاتی ہے کہ یہوواہ اُن لوگوں کو اپنی پاک رُوح دیتا ہے جو خلوصدلی سے مانگتے ہیں۔ (لو ۱۱:۱۳) خدا کی پاک رُوح ہمارے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرتی ہے جن سے یہوواہ خدا خوش ہوتا ہے۔ یہ خوبیاں نہ صرف موجودہ آزمائشوں بلکہ اُن آزمائشوں کا مقابلہ کرنے میں بھی ہماری مدد کریں گی جو مستقبل میں ہم پر آ سکتی ہیں۔
آزمائشوں کے تحت راستی قائم رکھیں
۱۳. آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟
۱۳ اِس دُنیا میں رہتے ہوئے ہمیں طرحطرح کی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن بےحوصلہ ہونے کی بجائے یاد رکھیں کہ آزمائشوں میں یہوواہ کے وفادار رہنے سے ہم اُس کے لئے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں۔ اِس کے علاوہ یہوواہ اور اُس کے کلام پر ہمارا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔ اِس سلسلے میں شاگرد یعقوب نے لکھا: ”اَے میرے بھائیو! جب تُم طرحطرح کی آزمایشوں میں پڑو۔ تو اِس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔“ (یعقو ۱:۲-۴) یہ بھی یاد رکھیں کہ ”[یہوواہ] دینداروں کو آزمایش سے نکال لینا . . . جانتا ہے۔“—۲-پطر ۲:۹۔
۱۴. یوسف کی مثال سے آپ کو کیا حوصلہافزائی ملتی ہے؟
۱۴ آزمائشوں کے تحت اپنی راستی قائم رکھنے کے سلسلے میں یعقوب کے بیٹے یوسف کی مثال پر غور کریں۔ یوسف کو اُس کے بھائیوں نے بیچ دیا تھا۔ (پید ۳۷:۲۳-۲۸؛ ۴۲:۲۱) کیا اِس ظلم کی وجہ سے یوسف کا ایمان کمزور پڑ گیا تھا؟ کیا اِس ظلم کے لئے وہ خدا سے ناراض ہوا تھا؟ ہرگز نہیں! لیکن یوسف کی آزمائشیں یہیں پر ختم نہیں ہو گئی تھیں۔ بعد میں اُس پر یہ جھوٹا الزام لگایا گیا کہ اُس نے فوطیفار کی بیوی کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اِس کی وجہ سے اُسے قید میں ڈال دیا گیا۔ اِس کے باوجود وہ خدا کا وفادار رہا۔ (پید ۳۹:۹-۲۱) اِن آزمائشوں سے یہوواہ خدا کے لئے اُس کی محبت اور ایمان میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے اُسے بہت سی برکات حاصل ہوئیں۔
۱۵. ہم نعومی کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۵ یہ سچ ہے کہ آزمائشوں کی وجہ سے ہم بےحوصلہ ہو سکتے ہیں۔ شاید یوسف بھی کبھیکبھار مایوسی کا شکار ہوا ہوگا۔ خدا کے دیگر خادموں کے ساتھ ایسا ہوا تھا۔ اِس سلسلے میں نعومی کی مثال پر غور کریں۔ اُس کا شوہر اور دونوں بیٹے وفات پا گئے تھے۔ نعومی نے بڑے غم سے کہا: ”مجھ کو نعوؔمی نہیں بلکہ ماؔرہ [جس کا مطلب ہے تلخ] کہو اِس لئے کہ قادرِمطلق میرے ساتھ نہایت تلخی سے پیش آیا ہے۔“ (روت ۱:۲۰، ۲۱) نعومی کا اِس قدر غمگین ہونا قدرتی بات تھی۔ پھربھی وہ یوسف کی طرح اپنی راستی پر قائم رہی۔ یہوواہ خدا نے بھی اِس وفادار عورت کو بہت سی برکات سے نوازا۔ (روت ۴:۱۳-۱۷، ۲۲) جب زمین فردوس بن جائے گی تو یہوواہ خدا اُس تمام دُکھتکلیف کو ختم کر دے گا جو شیطان انسانوں پر لایا ہے۔ اُس وقت ”پہلی چیزوں کا پھر ذکر نہ ہوگا اور وہ خیال میں نہ آئیں گی۔“—یسع ۶۵:۱۷۔
۱۶. بائبل ہمیں دُعا کے متعلق کیا ہدایت دیتی ہے اور اِس پر عمل کرنا کیوں اہم ہے؟
۱۶ یہوواہ خدا کی محبت ہمیں ہر طرح کی آزمائش میں سنبھال سکتی ہے۔ (رومیوں ۸:۳۵-۳۹ کو پڑھیں۔) شیطان ہمیں بےحوصلہ کرنے سے باز نہیں آئے گا توبھی اگر ہم ”ہوشیار“ اور ”دُعا کرنے کے لئے تیار“ رہیں گے تو اُسے مات ضرور ہوگی۔ (۱-پطر ۴:۷) یسوع مسیح نے کہا تھا: ”ہر وقت جاگتے اور دُعا کرتے رہو تاکہ تُم کو اِن سب ہونے والی باتوں سے بچنے اور ابنِآدم کے حضور کھڑے ہونے کا مقدور ہو۔“ (لو ۲۱:۳۶) غور کریں کہ یسوع مسیح نے ’ہر وقت دُعا‘ کرنے کی نصیحت کی۔ یسوع نے واضح کِیا کہ ہمیں یہوواہ کے حضور نیکنام رہنے کی مسلسل کوشش کرنی چاہئے۔ صرف وہی لوگ یہوواہ کے دن سے بچیں گے جنہیں اُس کی خوشنودی حاصل ہوگی۔
خدا کی خدمت میں مشغول رہیں
۱۷. اگر آپ کو کسی علاقے میں مُنادی کرنا مشکل لگتا ہے تو آپ قدیم نبیوں کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۷ پطرس نے کہا: ”تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔“ (۲-پطر ۳:۱۱) دینداری ظاہر کرنے میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم خوشخبری کی مُنادی کریں۔ (متی ۲۴:۱۴) یہ سچ ہے کہ بعض علاقوں میں مُنادی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے علاقوں میں بہت سے لوگ ہمارے پیغام میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے یا پھر وہ اپنے روزمرّہ کے کاموں میں حد سے زیادہ مگن ہوتے ہیں۔ نیز، بہت سے لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ ماضی میں بھی خدا کے خادموں کو ایسی مشکلات کا سامنا ہوا تھا۔ لیکن اُنہوں نے ہمت نہ ہاری بلکہ وہ لوگوں کو خدا کا پیغام سناتے رہے۔ (۲-تواریخ ۳۶:۱۵، ۱۶ کو پڑھیں؛ یرم ۷:۲۴-۲۶) وہ جانتے تھے کہ اُن کا کام اگرچہ دُنیا کی نظر میں کمتر ہے مگر یہوواہ کی نظر میں نہایت اہم ہے۔ خدا کے نام سے کہلانا اُن کے لئے بہت بڑا شرف تھا۔ اِسی لئے وہ مشکلات کے باوجود یہوواہ کی خدمت جاری رکھنے کے قابل ہوئے۔—یرم ۱۵:۱۶۔
۱۸. مُنادی کا کام مستقبل میں خدا کے نام کی بڑائی سے کیا تعلق رکھتا ہے؟
۱۸ ہمیں بھی یہوواہ کے نام اور بادشاہت کی مُنادی کرنے کا شرف حاصل ہے۔ اِس کام کے دوران ہم سب لوگوں کو پیغام سناتے ہیں۔ اِس لئے یہوواہ کے روزِعظیم پر اُس کے دُشمن یہ دعویٰ نہیں کر سکیں گے کہ اُنہیں خدا کی مرضی کے متعلق جاننے کا موقع نہیں ملا۔ موسیٰ کے زمانے کے فرعون کی طرح وہ بھی یہ سمجھ جائیں گے کہ یہوواہ اُن کے خلاف لڑ رہا ہے۔ (خر ۸:۱، ۲۰؛ ۱۴:۲۵) اُس وقت یہوواہ یہ واضح کر دے گا کہ اُس کے نام سے کہلانے والے لوگ ہی اُس کے سچے خادم ہیں۔—حزقیایل ۲:۵؛ ۳۳:۳۳ کو پڑھیں۔
۱۹. ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ کے تحمل سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
۱۹ اپنے دوسرے خط کے آخر میں پطرس نے مسیحیوں کو ہدایت کی: ”ہمارے خداوند کے تحمل کو نجات سمجھو۔“ (۲-پطر ۳:۱۵) ہم یہوواہ کے تحمل سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے اندر ضروری خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں اور ”بیداغ اور بےعیب“ رہنا چاہئے۔ نیز، یہ بھی ضروری ہے کہ ہم آزمائشوں کے تحت اپنی راستی قائم رکھیں اور خدا کی خدمت میں مشغول رہیں۔ ایسا کرنے سے ہم ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کے تحت حاصل ہونے والی بیشمار برکات سے لطف اُٹھانے کے قابل ہوں گے۔—۲-پطر ۳:۱۳۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• ہم وفادار رہنے کے لئے ضروری خوبیاں کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
• ہم ”بیداغ اور بےعیب“ کیسے رہ سکتے ہیں؟
• ہم یوسف اور نعومی کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
• مُنادی کے کام میں حصہ لینا شرف کیوں ہے؟
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
شوہر اپنے خاندان کے اندر وفادار رہنے کے لئے ضروری خوبیاں کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
آزمائشوں کے سلسلے میں ہم یوسف کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟