کیا آپ خدا کے منپسند شخص ہیں؟
”تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔“—۲-پطر ۳:۱۱۔
۱، ۲. یہوواہ خدا کے منپسند شخص بننے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
ہم اکثر یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ لیکن مسیحیوں کے طور پر ہمارے لئے یہ جاننا زیادہ ضروری ہے کہ یہوواہ خدا ہمارے بارے میں کیا سوچتا ہے کیونکہ وہ اِس کائنات کا حکمران ہے اور ”زندگی کا چشمہ“ اُسی کے پاس ہے۔—زبور ۳۶:۹۔
۲ پطرس رسول نے بتایا کہ اگر ہم خدا کے منپسند شخص بننا چاہتے ہیں تو ہمارا ’چالچلن پاک‘ ہونا چاہئے اور ہمیں ”دینداری“ سے کام لینا چاہئے۔ (۲-پطرس ۳:۱۱کو پڑھیں۔) ہمارا چالچلن اُسی صورت میں پاک ہو سکتا ہے اگر ہماری سوچ، ہمارے اعمال اور ہماری عبادت ہر لحاظ سے پاک ہو۔ اِس کے علاوہ ہمیں ”دینداری“ سے زندگی گزارنی چاہئے یعنی ہمیں ایسے کام کرنے چاہئیں جن سے ظاہر ہو کہ ہم دل سے خدا سے محبت کرتے ہیں اور اُس کے وفادار ہیں۔ لہٰذا یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنا چالچلن پاک رکھنے کے ساتھساتھ ہمیں نیکنیتی سے اُس کی خدمت کرنی چاہئے۔ چونکہ وہ ”دل کو جانچتا ہے“ اِس لئے اُسے معلوم ہے کہ آیا ہمارا چالچلن پاک ہے یا نہیں اور ہم دلوجان سے اُس کی عبادت کر رہے ہیں یا نہیں۔—۱-توا ۲۹:۱۷۔
۳. ہمیں کن سوالوں پر غور کرنا چاہئے؟
۳ شیطان یہ نہیں چاہتا کہ ہمیں یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہو۔ وہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی کو توڑنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اور ہر طرح کے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتا ہے تاکہ ہمیں خدا کی خدمت کرنے سے روکے۔ (یوح ۸:۴۴؛ ۲-کر ۱۱:۱۳-۱۵) لہٰذا ہمیں اِن سوالوں پر غور کرنا چاہئے: ”شیطان لوگوں کو کیسے گمراہ کرتا ہے؟ مجھے یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی قائم رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟“
شیطان لوگوں کو کیسے گمراہ کرتا ہے؟
۴. خدا کے ساتھ ہماری دوستی کو توڑنے کے لئے شیطان کس پر حملہ کرتا ہے؟ اور کیوں؟
۴ شاگرد یعقوب نے لکھا: ”ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گُناہ کو جنتی ہے اور گُناہ جب بڑھ چُکا تو موت پیدا کرتا ہے۔“ (یعقو ۱:۱۴، ۱۵) خدا کے ساتھ ہماری دوستی کو توڑنے کے لئے شیطان ہمارے دل پر حملہ کرتا ہے کیونکہ خواہشیں دل ہی میں پیدا ہوتی ہیں۔
۵، ۶. (الف) شیطان ہمارے دل پر کن ہتھیاروں سے حملہ کرتا ہے؟ (ب) شیطان ہمارے دل میں غلط خواہشیں پیدا کرنے کے لئے کونسے حربے اِستعمال کرتا ہے؟ (ج) وہ اِن حربوں کو اِستعمال کرنے میں کتنا ماہر ہے؟
۵ شیطان ہمارے دل پر کیسے حملہ کرتا ہے؟ بائبل میں بتایا گیا ہے: ”ساری دُنیا . . . شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“ (۱-یوح ۵:۱۹) شیطان اِس ’دُنیا کی چیزوں‘ کو اپنے ہتھیاروں کے طور پر اِستعمال کرتا ہے۔ (۱-یوحنا ۲:۱۵، ۱۶ کو پڑھیں۔) ہزاروں سال کے دوران اُس نے دُنیا میں ایسے ماحول کو فروغ دیا ہے جس کے ذریعے وہ اِنسانوں کو آسانی سے پھانس سکتا ہے۔ چونکہ ہم اِس دُنیا میں رہتے ہیں اِس لئے ہمیں شیطان کے حربوں سے خبردار رہنا چاہئے۔—یوح ۱۷:۱۵۔
۶ شیطان ہمارے دل میں غلط خواہشیں پیدا کرنے کے لئے مختلف حربے اِستعمال کرتا ہے۔ یوحنا رسول نے اِن میں سے تین کا ذکر کِیا۔ (۱) ”جسم کی خواہش،“ (۲) ”آنکھوں کی خواہش“ اور (۳) ”زندگی کی شیخی۔“ شیطان نے یسوع مسیح کو ورغلانے کے لئے یہی حربے اِستعمال کئے۔ چونکہ وہ اِن حربوں کو ہزاروں سال سے آزما رہا ہے اِس لئے وہ اِنہیں اِستعمال کرنے میں ماہر ہو گیا ہے۔ اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ کونسا حربہ کس شخص پر چلے گا۔ شیطان کے حربوں سے بچنے کے طریقوں پر بات کرنے سے پہلے آئیں، دیکھیں کہ کیوں اُس کے یہ حربے حوا پر تو چلے مگر یسوع مسیح پر نہیں چلے۔
”جسم کی خواہش“
۷. شیطان نے حوا کو گمراہ کرنے کے لئے ”جسم کی خواہش“ کو کیسے اِستعمال کِیا؟
۷ اِنسان کو زندہ رہنے کے لئے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور خدا نے زمین میں اِفراط سے خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ شیطان بعض اوقات ہماری اِسی ضرورت سے فائدہ اُٹھا کر ہمیں خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکساتا ہے۔ غور کریں کہ اُس نے حوا کو بہکانے کے لئے یہ حربہ کیسے اِستعمال کِیا۔ (پیدایش ۳:۱-۶ کو پڑھیں۔) شیطان نے حوا کو بتایا کہ اگر وہ ”نیکوبد کی پہچان کے درخت“ کا پھل کھائیں گی تو وہ ہرگز نہیں مریں گی بلکہ جس دن وہ یہ پھل کھائیں گی، خدا کی مانند بن جائیں گی۔ (پید ۲:۹) اصل میں اِبلیس کی بات کا مطلب یہ تھا کہ حوا کو زندہ رہنے کے لئے خدا کا حکم ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک سفید جھوٹ تھا! اب حوا کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ شیطان کی بات کو رد کریں گی یا پھر اِس پر سوچتی رہیں گی اور پھل کھانے کی خواہش کو بڑھنے دیں گی۔ حوا باقی سارے درختوں کا پھل کھا سکتی تھیں پھر بھی وہ ”نیکوبد کی پہچان کے درخت“ کے بارے میں سوچتی رہیں۔ اِس کے نتیجے میں اُنہوں نے وہ پھل کھا لیا جسے کھانے سے خدا نے منع کِیا تھا۔ شیطان، حوا کے دل میں غلط خواہش پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
۸. (الف) شیطان نے یسوع مسیح کو ”جسم کی خواہش“ کے ذریعے کیسے ورغلایا؟ (ب) شیطان کا یہ حربہ یسوع مسیح پر کیوں نہ چلا؟
۸ شیطان نے بیابان میں یسوع مسیح کو آزمانے کے لئے بھی یہی حربہ اِستعمال کِیا۔ یسوع مسیح نے ۴۰ دن اور ۴۰ رات سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اِس لئے اُنہیں بھوک لگی اور شیطان نے اُن کی اِسی ضرورت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی۔ شیطان نے کہا: ”اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو اِس پتھر سے کہہ کہ روٹی بن جائے۔“ (لو ۴:۱-۳) اب یسوع مسیح کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے معجزہ کریں گے یا نہیں۔ یسوع مسیح جانتے تھے کہ اُنہیں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے معجزے کرنے کی صلاحیت کو اِستعمال نہیں کرنا چاہئے۔ حالانکہ اُنہیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی پھر بھی اُن کی نظر میں خدا کو خوش کرنا اپنی بھوک مٹانے سے زیادہ اہم تھا۔ اُنہوں نے شیطان سے کہا: ”لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو [یہوواہ] خدا کے مُنہ سے نکلتی ہے۔“—متی ۴:۴۔
”آنکھوں کی خواہش“
۹. (الف) ”آنکھوں کی خواہش“ کس لحاظ سے ایک پھندا ہے؟ (ب) شیطان نے حوا کو بہکانے کے لئے ”آنکھوں کی خواہش“ کو کیسے اِستعمال کِیا؟
۹ یوحنا رسول کے مطابق ”آنکھوں کی خواہش“ بھی ایک پھندا ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی چیز کو دیکھنے سے ہی اُسے حاصل کرنے کی خواہش ہمارے دل میں جنم لے سکتی ہے۔ شیطان نے حوا کو خدا کا حکم توڑنے پر اُکسانے کے لئے ”آنکھوں کی خواہش“ کو بھی اِستعمال کیا۔ اُس نے کہا: ”تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی۔“ حوا جتنا زیادہ اُس پھل کو دیکھتی رہیں اُتنا ہی اُن کے دل میں اُسے کھانے کی خواہش بڑھتی گئی۔ حوا نے دیکھا کہ ”وہ درخت . . . آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے۔“
۱۰. شیطان نے یسوع مسیح کو ”آنکھوں کی خواہش“ کے ذریعے پھنسانے کی کوشش کیسے کی؟
۱۰ شیطان نے یسوع مسیح کو بھی ”آنکھوں کی خواہش“ کے ذریعے پھنسانے کی کوشش کی۔ اُس نے یسوع مسیح کو ”دُنیا کی سب سلطنتیں پل بھر میں دِکھائیں۔ اور اُس سے کہا کہ یہ سارا اِختیار اور اُن کی شانوشوکت مَیں تجھے دے دوں گا۔“ (لو ۴:۵، ۶) ظاہری بات ہے کہ یسوع مسیح ایک ہی جگہ پر کھڑے ہو کر تو دُنیابھر کی سلطنتیں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ دراصل شیطان نے یسوع مسیح کو ایک رویا میں دُنیا کی سب حکومتوں کی شانوشوکت دِکھائی۔ اُس نے سوچا کہ اِس طرح یسوع مسیح کے دل میں اِس دُنیا کی آسائشیں اور اِختیار حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوگی۔ شیطان نے یسوع مسیح سے کہا: ”اگر تُو میرے آگے سجدہ کرے تو یہ سب تیرا ہوگا۔“ (لو ۴:۷) لیکن یسوع مسیح کو جلال اور اِختیار حاصل کرنے کا لالچ نہیں تھا۔ اُنہوں نے اُسے فوراً یہ جواب دیا: ”لکھا ہے کہ تُو [یہوواہ] اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر۔“—لو ۴:۸۔
”زندگی کی شیخی“
۱۱. حوا، شیطان کے جھانسے میں کیسے آ گئیں؟
۱۱ یوحنا رسول نے بتایا کہ دُنیا کی چیزوں میں ”زندگی کی شیخی“ یعنی اپنے مالودولت پر شیخی مارنا بھی شامل ہے۔ آدم اور حوا کے پاس جو کچھ بھی تھا، اُس کے بارے میں وہ شیخی نہیں بگھار سکتے تھے کیونکہ اُن کے علاوہ زمین پر کوئی اِنسان تھا ہی نہیں۔ لیکن اُن میں غرور پیدا ہو گیا تھا۔ جب شیطان نے حوا کو ورغلایا تو اُس نے یہ تاثر دیا کہ خدا نے اُنہیں کسی اچھی چیز سے محروم رکھا ہوا ہے۔ شیطان نے اُن سے کہا کہ جس دن وہ ”نیکوبد کی پہچان کے درخت“ کا پھل کھائیں گی وہ ’خدا کی مانند نیکوبد کی جاننے والی بن جائیں گی۔‘ (پید ۲:۱۷؛ ۳:۵) شیطان، حوا کے دل میں یہ بات ڈالنا چاہتا تھا کہ وہ خود مختار بن سکتی ہیں۔ غالباً غرور میں آ کر ہی حوا نے جھوٹ کو سچ مان لیا تھا۔ وہ یہ سوچ بیٹھیں کہ اگر وہ پھل کھا بھی لیں گی تو مریں گی نہیں۔ واقعی یہ اُن کی بہت بڑی بھول تھی!
۱۲. شیطان نے اَور کس طریقے سے یسوع مسیح کو آزمانے کی کوشش کی؟ اور یسوع مسیح نے کیا کِیا؟
۱۲ حوا کے برعکس یسوع مسیح نے عاجزی کی ایک عمدہ مثال قائم کی۔ شیطان نے یسوع مسیح کو ایک اَور طریقے سے آزمایا۔ مگر اُنہوں نے دوسروں کے سامنے شیخی بگھارنے کے لئے کوئی ایسا کام نہ کِیا جس سے ”خدا کی آزمائش“ ہو۔ اگر یسوع مسیح ایسا کرتے تو اِس سے ظاہر ہوتا کہ وہ مغرور ہیں۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے شیطان کو بڑا صاف جواب دیا: ”فرمایا گیا ہے کہ تُو [یہوواہ] اپنے خدا کی آزمایش نہ کر۔“—لوقا ۴:۹-۱۲ کو پڑھیں۔
ہم خدا کے ساتھ دوستی کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟
۱۳، ۱۴. واضح کریں کہ آجکل شیطان اپنے کچھ حربے کیسے اِستعمال کرتا ہے۔
۱۳ شیطان آجکل بھی وہی حربے اِستعمال کرتا ہے جو اُس نے حوا اور یسوع مسیح کو گمراہ کرنے کے لئے اِستعمال کئے تھے۔ وہ ”جسم کی خواہش“ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بدچلنی کو فروغ دیتا ہے اور لوگوں کو حد سے زیادہ کھانے اور شراب پینے کی طرف مائل کرتا ہے۔ شیطان ”آنکھوں کی خواہش“ سے فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو خاص طور پر اِنٹرنیٹ کے ذریعے گندی تصویریں اور فلمیں دیکھنے پر اُکساتا ہے۔ وہ مغرور اور ”شیخی“ مارنے والے لوگوں کو مالودولت، اِختیار اور شہرت کے ذریعے گمراہ کرتا ہے۔
۱۴ ’دُنیا کی چیزیں‘ مچھیروں کے چارے کی طرح ہیں۔ مچھلیاں چارے کی خوشبو سُونگھ کر اُس کی طرف لپکتی ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتیں کہ اُس کے ساتھ ایک کنڈی بھی لگی ہے جس میں وہ پھنس جائیں گی۔ اِسی طرح شیطان ہماری فطری خواہشوں اور ضرورتوں کو چارے کی طرح اِستعمال کرتا ہے۔ وہ اِن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیں خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکساتا ہے۔ وہ ہمیں یقین دِلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اپنی خواہشوں کو پورا کرنا اور زندگی کی آسائشیں حاصل کرنا خدا کی مرضی پر چلنے سے زیادہ اہم ہے۔ کیا اُس کی یہ چال ہم پر بھی چل سکتی ہے؟
۱۵. ہم شیطان کی چالوں سے بچنے کے لئے یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
۱۵ حوا تو شیطان کے دھوکے میں آ گئیں مگر یسوع مسیح نے اُس کی ہر چال کا مُنہ توڑ جواب دیا۔ اُنہوں نے ہر بار شیطان کو خدا کے کلام سے جواب دیا اور کہا: ”لکھا ہے،“ ”فرمایا گیا ہے۔“ اگر ہم خدا کے کلام کو باقاعدگی سے پڑھتے ہیں اور اِس پر سوچبچار کرتے ہیں تو ہم اِس سے اچھی طرح واقف ہو جائیں گے۔ اور اگر ہمیں غلط کام کرنے پر اُکسایا جاتا ہے تو ہمیں ایسی آیتیں یاد آئیں گی جو خدا کے وفادار رہنے میں ہماری مدد کریں گی۔ (زبور ۱:۱، ۲) ایسے موقعے پر خدا کے وفادار بندوں کی مثالیں ہمارے ذہن میں آئیں گی اور ہمیں اِن پر عمل کرنے کی ترغیب ملے گی۔ (روم ۱۵:۴) اگر ہم دل سے یہوواہ خدا کی بندگی کرتے ہیں اور نیکی سے محبت اور بدی سے نفرت کرتے ہیں تو ہم شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہیں گے۔—زبور ۹۷:۱۰۔
۱۶، ۱۷. ہماری سوچ اور خیالات کا ہماری شخصیت پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟
۱۶ پولس رسول نے نصیحت کی کہ ہم اِس دُنیا کی سوچ اپنانے کی بجائے یہوواہ خدا کی سوچ کو اپنائیں تاکہ ہم اُس کے منپسند شخص بن جائیں۔ (روم ۱۲:۱، ۲) اُنہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنے خیالات کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ اُنہوں نے لکھا: ”ہم تصورات اور ہر ایک اُونچی چیز کو جو خدا کی پہچان کے برخلاف سر اُٹھائے ہوئے ہے ڈھا دیتے ہیں اور ہر ایک خیال کو قید کرکے مسیح کا فرمانبردار بنا دیتے ہیں۔“ (۲-کر ۱۰:۵) ہماری سوچ اور خیالات کا ہماری شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے اِس لئے ہمیں ’پاک اور پسندیدہ باتوں پر غور کرتے رہنا چاہئے۔‘—فل ۴:۸۔
۱۷ خدا کی نظر میں پاک ٹھہرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بُرے خیالات اور بُری خواہشوں سے بچیں۔ ہمیں یہوواہ خدا سے ”پاک دل“ سے محبت کرنی چاہئے۔ (۱-تیم ۱:۵) لیکن ہمارا دل حیلہباز ہے اور کبھیکبھار ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ’دُنیا کی چیزیں‘ ہم پر کتنا زیادہ اثر ڈال رہی ہیں۔ (یرم ۱۷:۹) اِس لئے ہمیں پاک کلام کی روشنی میں ’اپنے آپ کو آزمانا اور جانچنا چاہئے‘ تاکہ ہم معلوم کر سکیں کہ آیا ہم ایمان پر ہیں یا نہیں۔—۲-کر ۱۳:۵۔
۱۸، ۱۹. ہمیں یہوواہ خدا کے منپسند شخص بننے کی کوشش کیوں کرنی چاہئے؟
۱۸ یوحنا رسول کی ایک اَور بات ’دُنیا کی چیزوں‘ سے کنارہ کرنے کے سلسلے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔“ (۱-یوح ۲:۱۷) بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دُنیا جیسے چل رہی ہے ویسے چلتی رہے گی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اِس کا خاتمہ جلد آنے والا ہے۔ لہٰذا اگر ہم یہ یاد رکھتے ہیں کہ شیطان کی دُنیا ہمیشہ قائم نہیں رہے گی تو ہم شیطان کی چالوں کا شکار نہیں ہوں گے۔
۱۹ پطرس رسول نے نصیحت کی کہ جب تک ہم یہوواہ خدا کے دن کا اِنتظار کر رہے ہیں، ہمیں اُس کے منپسند شخص بننے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ پطرس رسول نے خدا کے دن کے بارے میں کہا کہ اُس کے ”باعث آسمان آگ سے پگھل جائیں گے اور اجرامِفلک حرارت کی شدت سے گل جائیں گے۔“ (۲-پطر ۳:۱۲) یہوواہ خدا کا دن بہت جلد آنے والا ہے جس پر وہ شیطان کی دُنیا کو تباہ کر دے گا۔ مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا، شیطان ’دُنیا کی چیزوں‘ کے ذریعے ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ ہمیں حوا کی طرح نہیں بننا چاہئے جنہوں نے اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے یہوواہ خدا کا حکم توڑ دیا تھا۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یہ ظاہر کر رہے ہوں گے کہ ہم نے شیطان کو اپنا خدا مان لیا ہے۔ ہمیں یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنا چاہئے اور شیطان کے ہر منصوبے کو ناکام بنا دینا چاہئے، خواہ وہ کتنی ہی ہوشیاری سے گھڑا گیا ہو۔ آئیں، ہم یہوواہ خدا کے منپسند شخص بننے کی ہر ممکن کوشش کریں۔