رسولوں کے اعمال
((ایسآئی ص. ۱۹۹-۲۰۰ پ. ۱-۸؛ ص. ۲۰۶-۲۰۵ پ. ۳۲-۴۰)
رسولوں کے اعمال کی تمہید
۱، ۲. (ا) اعمال کی کتاب میں کونسے تاریخی واقعات اور کارگزاریوں کا ذکر کِیا گیا ہے؟ (ب) اس کتاب میں کتنے عرصے کے بارے میں بتایا گیا ہے؟
۱ الہامی صحائف کی ۴۲ویں کتاب میں لوقا نے یسوع اور اُس کے شاگردوں کی زندگی، کارگزاری اور خدمتگزاری کا بیان اُس وقت تک کِیا جب یسوع آسمان پر چلا گیا۔ پاک صحائف کی ۴۴ویں کتاب میں یعنی رسولوں کے اعمال میں ابتدائی مسیحیوں کی تاریخ بتانے کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روحالقدس کے کام کے نتیجے میں کلیسیا کو کیسے قائم کِیا گیا۔ اس میں پہلے یہودیوں اور بعدازاں غیرقوموں میں گواہی دینے کے کام کے بارے میں بھی بیان کِیا گیا ہے۔ پہلے ۱۲ ابواب کے بیشتر مواد میں پطرس اور باقی ۱۶ ابواب کے مواد میں پولس کی کارگزاریوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ لوقا کا پولس کے ساتھ ایک قریبی رشتہ تھا اور وہ کئی مرتبہ اُس کا ہمسفر رہ چکا تھا۔
۲ اس کتاب میں تھیفلُس کو مخاطب کِیا گیا۔ چونکہ اُسے ”معزز“ کہا گیا ہے لہٰذا ممکن ہے کہ وہ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز تھا یا شاید یہ اظہار محض احتراماً استعمال کِیا گیا ہو۔ (لو ۱:۳) یہ سرگزشت مسیحی کلیسیا کے قائم کئے جانے اور اس کی ترقی کے بارے میں ایک درست تاریخی ریکارڈ فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب میں یسوع کے جی اُٹھنے کے بعد اُس کے شاگردوں پر اُس کے ظہورات سے شروع کرتے ہوئے ۳۳ سے لیکر تقریباً ۶۱ عیسوی تک یعنی کوئی ۲۸ سال کے عرصے کے واقعات کا ریکارڈ درج ہے۔
۳. اعمال کی کتاب کا مصنف کون ہے اور اس کی تحریر کب مکمل ہوئی تھی؟
۳ زمانۂقدیم سے لوقا ہی کو اعمال کی کتاب کا مصنف مانا جاتا ہے۔ لوقا کی انجیل اور اعمال کی کتاب، دونوں میں تھیفلُس کو مخاطب کِیا گیا ہے۔ لوقا اپنی انجیل کے اختتامی واقعات کو اعمال کی ابتدائی آیات میں دہرانے سے دونوں بیانات کو ایک ہی مصنف کی تحریر ظاہر کرتا ہے۔ خیال کِیا جاتا ہے کہ لوقا نے اعمال کی کتاب کو تقریباً ۶۱ عیسوی میں مکمل کر لیا تھا۔ اُس وقت وہ دو سال تک روم میں پولس رسول کے ساتھ رہ چکا تھا۔ چونکہ اعمال کی کتاب میں ۶۱ عیسوی کے واقعات کا ریکارڈ بھی ملتا ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ لوقا کی تحریر اس سے پہلے مکمل ہوئی ہو۔ کتاب میں یہ نہیں بتایا گیا کہ قیصر سے پولس کی اپیل کا کیا نتیجہ نکلا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ۶۱ عیسوی ہی میں مکمل ہوئی تھی۔
۴. کس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ اعمال کی کتاب پاک صحائف کا حصہ اور ہر لحاظ سے صحیح ہے؟
۴ زمانۂقدیم سے بائبل کے علماء نے اعمال کی کتاب کو الہامی صحائف کا حصہ قرار دیا ہے۔ کتاب کے کچھ حصے یونانی صحائف کے بعض قدیمترین پائپرس مسودوں میں موجود ہیں جن میں سے تیسری اور چوتھی صدی کا میشیگن نمبر ۱۵۷۱ (38P) اور تیسری صدی کا چیسٹر بیٹی نمبر ۱ (45P) قابلِغور ہیں۔ یہ دونوں مسودے ظاہر کرتے ہیں کہ اعمال کی کتاب الہامی صحائف کی دیگر کتابوں کے ساتھ استعمال ہوتی تھی لہٰذا یہ شروع ہی سے ان کتابوں کی فہرست میں شامل تھی۔ اعمال کی کتاب میں وہی حیرتانگیز صداقت پائی جاتی ہے جو لوقا کی انجیل میں بھی پائی جاتی ہے۔ سر ولیم ریمزے اعمال کی کتاب کے مصنف کا شمار ”درجۂاوّل کے مؤرخین میں“ کرتا ہے جس کی وضاحت میں وہ کہتا ہے: ”ایک اچھے مؤرخ کی پہلی اور اہمترین خوبی سچائی ہے۔ اُس کا بیان قابلِبھروسا ہونا چاہئے۔“a
۵. لوقا کی درستبیانی کی مثال دیں۔
۵ لوقا کی تحریروں میں واقعات کی درستبیانی کی ایک مثال پر غور کریں۔ ایڈون سمتھ پہلی جنگِعظیم کے دوران بحیرۂروم میں برطانوی جنگی جہازوں کے ایک بیڑے کا کمانڈر تھا۔ اُس نے مارچ ۱۹۴۷ میں دی رڈر میگزین میں یوں لکھا: ”زمانۂجدید کے جہازوں کے برعکس، قدیم کشتیاں جہاز کے پیچھے لگی ایک چھوٹی سی پتوار کی بجائے اس کے دونوں طرف موجود ایک بڑے چپّو سے چلائی جاتی تھیں،لہٰذا مُقدس لوقا ان کا ذکر صیغۂجمع میں کرتا ہے۔ (اعما ۲۷:۴۰) . . . حسین بندر سے روانگی سے لیکر ملتے کے ساحل پر تباہ ہونے تک جہاز کے سفر کے بارے میں ہر تفصیل کے جائزے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے پاس جتنے ثبوت ہیں یہ سب مُقدس لوقا کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔ لوقا کے بیان کے مطابق جتنا عرصہ جہاز سمندر پر رہا اس سے اس کے طےشُدہ فاصلے کی تصدیق ہوتی ہے۔ اور آخر میں جس جگہ پر وہ پہنچے اُس کے بارے میں لوقا نے جو تفصیلات بتائیں یہ بھی صحیح ثابت ہوئی ہیں۔ یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ لوقا نے حقیقت میں وہ سفر کِیا تھا جس کا اُس نے بیان کِیا ہے۔ اس کے علاوہ اُس نے خود کو ایک ایسا شخص ثابت کِیا جس کے بیانات پوری طرح قابلِبھروسا خیال کئے جا سکتے ہیں۔“b
۶. آثارِقدیمہ کی کونسی دریافتیں اعمال کی کتاب کے درست ہونے کی تصدیق کرتی ہیں؟
۶ آثارِقدیمہ کی دریافتیں بھی لوقا کی سرگزشت کے درست ہونے کی تصدیق کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، شہر افسس میں کھدائی کے دوران ارتمس دیوی کا مندر اور وہ قدیم تماشاگاہ بھی دریافت ہوئی ہے جہاں افسس کے لوگوں نے پولس رسول کی مخالفت کی تھی۔ (اعما ۱۹:۲۷-۴۱) دریافت کی جانی والی کندہکاری اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ لوقا نے تھسلنیکے کے افسران کے لئے ”شہر کے حاکموں“ کا لقب درست طور پر استعمال کِیا تھا۔ (۱۷:۶، ۸) ملتے میں دریافت ہونے والی تحریریں ظاہر کرتی ہیں کہ لوقا کا پُبلیُس کو ”سردار“ کہنا بھی صحیح تھا۔—۲۸:۷۔c
۷. اعمال کی کتاب میں قلمبند تقاریر کیسے ظاہر کرتی ہیں کہ اعمال کا بیان حقیقی ہے؟
۷ اس کے علاوہ، لوقا نے پطرس، ستفنس، کرنیلیس، طرطلیان، پولس اور دیگر اشخاص کی جو تقریریں درج کیں اُن سب کا اندازِبیان اور ترتیب ایک دوسرے سے فرق ہے۔ پولس نے مختلف سامعین کے سامنے جس انداز میں تقریر پیش کی یہبھی موقع کے مطابق فرق ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوقا نے صرف وہی باتیں درج کی ہیں جو اُس نے خود سنی تھیں یا جو دوسرے چشمدید گواہوں نے اسے بتائی تھیں۔ لوقا کوئی افسانہنگار نہیں تھا۔
۸. صحائف ہمیں لوقا کے بارے میں اور پولس کے ساتھ اُس کی رفاقت کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟
۸ لوقا کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ لوقا بذاتِخود رسول نہیں تھا لیکن اُس کا رسولوں کے ساتھ قریبی تعلق تھا۔ (لو ۱:۱-۴) پولس رسول تین مواقع پر لوقا کا بنام ذکر کرتا ہے۔ (کل ۴:۱۰، ۱۴؛ ۲-تیم ۴:۱۱؛ فلیمون ۲۴) لوقا کچھ سالوں تک پولس کا مستقل ساتھی رہا جس نے اُس کا ذکر ”پیارا طبیب لوقا“ کے طور پر کِیا ہے۔ اعمال کی کتاب میں ”ہم“ کی اصطلاح کا بارہا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ لوقا تروآس میں پولس کے دوسرے تبلیغی دورے پر اُس کے ساتھ تھا۔ وہ غالباً چند سالوں تک فلپی میں رہا۔ پھر جب پولس فلپی کو لوٹا تو لوقا نے پولس کے ساتھ اُس کے مقدمے پر حاضر ہونے کے لئے روم کا سفر کِیا۔—اعما ۱۶:۸، ۱۰؛ ۱۷:۱؛ ۲۰:۴-۶؛ ۲۸:۱۶۔
کیوں فائدہمند
۳۲. پطرس نے پنتِکُست سے پہلے اور پنتِکُست کے موقع پر عبرانی صحائف کے درست ہونے کی تصدیق کیسے کی تھی؟
۳۲ اناجیل کے ساتھ ساتھ اعمال کی کتاب بھی عبرانی صحائف کے الہامی اور قابلِاعتبار ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ پنتِکُست سے پہلے، پطرس نے دو پیشینگوئیوں کی تکمیل کا حوالہ دیا جو ”روحالقدس نے داؤد کی زبانی اُس یہوداہ کے حق میں پہلے سے کہا تھا۔“ (اعما ۱:۱۶، ۲۰؛ زبور ۶۹:۲۵؛ ۱۰۹:۸) پطرس نے پنتِکُست کے موقع پر بِھیڑ سے یہ بھی کہا کہ وہ درحقیقت ایک پیشینگوئی کی تکمیل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اُس نے کہا: ”یہ وہ بات ہے جو یوئیل نبی کی معرفت کہی گئی ہے۔“—اعما ۲:۱۶-۲۱؛ یوایل ۲:۲۸-۳۲؛ برائےمہربانی اعما ۲:۲۵-۲۸، ۳۴، ۳۵ کا موازنہ زبور ۱۶:۸-۱۱ اور ۱۱۰:۱ سے کریں۔
۳۳. پطرس، فلپس، یعقوب اور پولس نے کیسے ظاہر کِیا کہ عبرانی صحائف الہامی ہیں؟
۳۳ ہیکل کے باہر ایک اَور بِھیڑ کو قائل کرنے کے لئے پطرس نے ایک بار پھر عبرانی صحائف سے موسیٰ کا حوالہ دیکر بیان کِیا: ”سموئیل سے لیکر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کِیا اُن سب نے ان دِنوں کی خبر دی ہے۔“ بعدازاں، صدرعدالت کے سامنے پطرس نے یہ ظاہر کرنے کے لئے زبور ۱۱۸:۲۲ کا حوالہ دیا کہ مسیح ’کونے کا سرا‘ بننے والا وہی پتھر ہے جسے یہودیوں نے رد کِیا تھا۔ (اعما ۳:۲۲-۲۴؛ ۴:۱۱) فلپس نے حبشی خوجہ پر واضح کِیا کہ یسعیاہ ۵۳:۷، ۸ کی پیشینگوئی کی تکمیل کیسے ہوئی اور حبشی خوجہ نے اِس بات کو سمجھ کر فروتنی سے بپتسمے کی درخواست کی۔ (اعما ۸:۲۸-۳۵) اسی طرح کرنیلیس سے یسوع کے بارے میں باتچیت کرتے وقت پطرس نے تصدیق کی کہ ”اس شخص [یعنی یسوع] کی سب نبی گواہی دیتے ہیں۔“ (۱۰:۴۳) جب ختنے کا معاملہ زیرِبحث آیا تو یعقوب نے بیان کِیا: ”نبیوں کی باتیں بھی اِس کے مطابق ہیں۔“ (۱۵:۱۵-۱۸) پولس رسول نے بھی بار بار عبرانی صحائف کی طرف اشارہ کِیا۔ (۲۶:۲۲؛ ۲۸:۲۳، ۲۵-۲۷) جیسا کہ اعمال کی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے، شاگردوں اور اُن کے سامعین عبرانی صحائف کو خدا کے کلام کے طور پر قبول کرتے تھے۔ اس طرح اُنہوں نے اِس بات کی تصدیق کی کہ عبرانی صحائف واقعی خدا کے الہام سے ہیں۔
۳۴. اعمال کی کتاب ابتدائی مسیحی کلیسیا کے بارے میں کیا ظاہر کرتی ہے؟ اس لحاظ سے زمانۂجدید کی مسیحی کلیسیا مختلف کیوں نہیں ہے؟
۳۴ اعمال کی کتاب یہ ظاہر کرنے کے لئے نہایت فائدہمند ہے کہ مسیحی کلیسیا کیسے قائم ہوئی اور روحالقدس کی طاقت سے کیسے بڑھی تھی۔ اس حیرتانگیز بیان میں ہم ابتدائی مسیحیوں کی دلیری اور خوشی، اذیت کے سامنے اُن کی وفاداری اور بیرونِملک خدمت کرنے کی اُن کی رضامندی پر غور کر سکتے ہیں۔ (۴:۱۳، ۳۱؛ ۱۵:۳؛ ۵:۲۸، ۲۹؛ ۸:۴؛ ۱۳:۲-۴؛ ۱۶:۹، ۱۰) اس لحاظ سے زمانۂجدید کی مسیحی کلیسیا مختلف نہیں۔ اس کے اراکین بھی روحالقدس کی راہنمائی میں ”خدا کے بڑے بڑے کاموں“ کا بیان کرتے وقت محبت اور اتحاد کو ظاہر کرتے ہیں۔—۲:۱۱، ۱۷، ۴۵؛ ۴:۳۴، ۳۵؛ ۱۱:۲۷-۳۰؛ ۱۲:۲۵۔
۳۵. اعمال کی کتاب میں گواہی دینے کے طریقوں کے بارے میں کیا ظاہر کِیا گیا ہے اور کونسی خوبی پر زور دیا گیا ہے؟
۳۵ اعمال کی کتاب ظاہر کرتی ہے کہ مسیحیوں کو خدا کی بادشاہت کی منادی کو کیسے انجام دینا چاہئے۔ اس سلسلے میں پولس نے بذاتِخود ایک عمدہ مثال قائم کرتے ہوئے بیان کِیا: ”[مَیں] جو جو باتیں تمہارے فائدہ کی تھیں اُن کے بیان کرنے اور علانیہ اور گھرگھر سکھانے سے کبھی نہ جھجکا۔“ اس کے بعد وہ کہتا ہے: ’مَیں روبرو گواہی دیتا رہا۔‘ پوری کتاب میں مسیحیوں کا جوشوجذبہ ہماری توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ اختتامی آیات میں بتایا گیا ہے کہ پولس قیدخانہ میں بھی منادی اور تعلیم دینے کے کام میں مصروف رہا۔ لوقا نے اُس کے بارے میں یوں بیان کِیا: ”وہ خدا کی بادشاہی کی گواہی دے دے کر اور موسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں سے یسوع کے بارے میں سمجھا سمجھا کر صبح سے شام تک اُن سے بیان کرتا رہا۔“ خدا کرے کہ ہم بھی اپنے منادی کے کام کو دلوجان سے پورا کریں!—۲۰:۲۰، ۲۱؛ ۲۸:۲۳؛ ۲:۴۰؛ ۵:۴۲؛ ۲۶:۲۲۔
۳۶. آجکل بھی کلیسیا کے بزرگوں پر پولس کی کن باتوں کا اطلاق ہوتا ہے؟
۳۶ پولس نے افسس کے بزرگوں سے جو باتیں کیں اِن میں آجکل کے بزرگوں کے لئے کافی عملی مشورت شامل ہے۔ چونکہ انہیں روحالقدس کے ذریعے مقرر کِیا جاتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ وہ ’اپنی اور سارے گلّہ کی خبرداری‘ کریں، کلیسیا کے افراد کے لئے شفقت ظاہر کریں اور انہیں ان بیرحم بھیڑیوں سے بچائیں جو ان کی تباہی چاہتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی ذمہداری نہیں ہے! کلیسیا کے بزرگوں کو جاگتے رہنے اور خدا کے فضل کے کلام سے تقویت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ کمزوروں کی مدد کے لئے جانفشانی کرتے وقت انہیں ”خداوند یسوع کی باتیں یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے خود کہا دینا لینے سے مبارک ہے۔“—۲۰:۱۷-۳۵۔
۳۷. پولس نے اریوپگس پر کونسے مؤثر طریقے سے اپنی بات ثابت کر دی؟
۳۷ پولس نے اپنی دیگر تقاریر میں بھی بائبل کے اُصولوں کی وضاحت کی۔ مثال کے طور پر، اریوپگس پر اُس نے ستوئیکی اور اپیکوری لوگوں کے ساتھ بڑے مؤثر انداز میں گفتگو کی تھی۔ سب سے پہلے اُس نے ایک قربانگاہ پر لکھی عبارت ”نامعلوم خدا کے لئے“ کا حوالہ دیا اور اس کی بنیاد پر یہ بات واضح کی کہ آسمان اور زمین کا مالک واحد سچا خدا ہے، جس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم کو پیدا کِیا۔ وہ ”ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔“ اس کے بعد پولس نے اُن کے شاعروں کے کلام ”ہم تو اُس کی نسل بھی ہیں“ کا حوالہ دیا اور واضح کِیا کہ سونے، چاندی اور پتھر کی بےجان مورتیں انسان کو وجود میں نہیں لا سکتی ہیں۔ یوں پولس نے بڑے محتاط طریقے سے ثابت کر دیا کہ زندہ خدا ہی کائنات کا حاکم ہے۔ پھر اُس نے اپنی تقریر کو ختم کرتے ہوئے مُردوں کے جی اُٹھنے کا ذکر چھیڑا اور تب بھی اُس نے مسیح کے نام کا ذکر نہیں کِیا۔ یوں وہ اس بات کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ واحد اور سچا خدا ہی کائنات کا حاکم ہے اور نتیجتاً بعض لوگ ایمان لائے۔—۱۷:۲۲-۳۴۔
۳۸. اعمال میں جس قسم کے مطالعے کی حوصلہافزائی کی گئی ہے اس کے نتیجے میں ہم میں کونسی خوبی پیدا ہوگی؟
۳۸ اعمال کی کتاب میں ’ہر ایک صحیفے‘ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے کی حوصلہافزائی کی گئی ہے۔ جب پولس نے پہلی بار بیریہ میں منادی کی تو وہاں کے یہودیوں نے ”بڑے شوق سے کلام کو قبول کِیا اور روزبروز کتابِمُقدس میں تحقیق کرتے تھے“ اس لئے انہیں ”نیک ذات“ کہا گیا۔ (۱۷:۱۱) آج بھی جب ہم اُس کلیسیا کے ساتھ صحائف میں تحقیق کرتے ہیں جس پر یہوواہ کی روح رہتی ہے تو ہمارا ایمان اَور بھی پُختہ ہو جاتا ہے۔ ایسے مطالعے سے ایک شخص الہٰی اصولوں کی گہری قدر کرنے لگتا ہے۔ ان میں سے کچھ اُصولوں کا بیان اعمال ۱۵:۲۹ میں درج ہے۔ اس صحیفے میں رسولوں اور یروشلیم کے بزرگوں نے اس بات کو واضح کِیا کہ روحانی اسرائیل کو ختنہ کرانے کی ضرورت نہیں رہی اور مسیحیوں کو بُتپرستی، خون اور حرامکاری سے پرہیز کرنا ہے۔
۳۹. (ا) شاگرد اذیت کا سامنا کرنے کے قابل کیسے بن گئے؟ (ب) اُنہوں نے کونسی دلیرانہ گواہی دی؟ کیا یہ مؤثر ثابت ہوئی؟
۳۹ ابتدائی شاگرد واقعی الہامی صحائف کا گہرا مطالعہ کِیا کرتے تھے اور ضرورت کے مطابق ان کا حوالہ دینے اور ان کی وضاحت کرنے کے قابل تھے۔ وہ صحیح علم رکھتے تھے اور اُنہیں خدا کی روح کی مدد حاصل تھی جس کی وجہ سے وہ سخت اذیت کا مقابلہ کرنے کے قابل بنے۔ پطرس اور یوحنا نے تمام وفادار مسیحیوں کے لئے مثال قائم کرتے ہوئے مخالفت کرنے والے حکمرانوں کو دلیری سے کہا: ”تُم ہی انصاف کرو۔ آیا خدا کے نزدیک یہ واجب ہے کہ ہم خدا کی بات سے تمہاری بات زیادہ سنیں۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ جو ہم نے دیکھا اور سنا ہے وہ نہ کہیں۔“ اور جب انہیں صدرعدالت کے سامنے لایا گیا جس نے انہیں ”سخت تاکید کی تھی“ کہ یسوع کے نام سے تعلیم نہ دیں تو اُنہوں نے کہا: ”ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔“ اُنہوں نے دلیری سے حکمرانوں کو گواہی دی اور اس وجہ سے نامور اُستاد گملیایل نے عبادت کی آزادی کے حق میں آواز اُٹھائی۔ اِس کے نتیجے میں رسولوں کو رہائی بھی ملی تھی۔—۴:۱۹، ۲۰؛ ۵:۲۸، ۲۹، ۳۴، ۳۵، ۳۸، ۳۹۔
۴۰. اعمال کی کتاب پر غور کرنے سے ہم میں بادشاہت کی گواہی دینے کے سلسلے میں کونسی خواہش زور پکڑتی ہے؟
۴۰ بادشاہت کے بارے میں یہوواہ کا عظیم مقصد اعمال کی کتاب میں واضح ہوتا ہے۔ کتاب کے شروع ہی میں یہ بتایا گیا ہے کہ یسوع آسمان پر جانے سے پہلے ۴۰ دن تک نظر آتا اور ”خدا کی بادشاہی کی باتیں کہتا رہا۔“ جب شاگردوں نے سوال کِیا کہ خدا کی بادشاہت کب قائم ہوگی تو یسوع نے جواب میں انہیں بتایا کہ اِس سے پہلے انہیں زمین کی انتہا تک اُس کے نام کی گواہی دینی ہوگی۔ (۱:۳، ۶، ۸) یروشلیم کے شہر میں شروع کرتے ہوئے شاگردوں نے پُختہ عزم اور دلیری کے ساتھ بادشاہت کی منادی کی۔ اذیت کے نتیجے میں ستفنس کو سنگسار کِیا گیا اور بہتیرے شاگرد نئے علاقوں میں پراگندہ ہو گئے۔ (۷:۵۹، ۶۰) فلپس نے بڑی کامیابی کے ساتھ سامریہ میں ”خدا کی بادشاہی . . . کی خوشخبری“ سنائی اور پولس اور اُس کے ساتھیوں نے ایشیا، کرنتھس، افسس اور روم میں ”بادشاہی“ کی منادی کی۔ اِن ابتدائی مسیحیوں نے ہر صورتحال میں یہوواہ اور اُس کی روح پر بھروسہ کِیا اور یوں اُنہوں نے ہمارے لئے عمدہ مثال قائم کی۔ (۸:۵، ۱۲؛ ۱۴:۵-۷، ۲۱، ۲۲؛ ۱۸:۱، ۴؛ ۱۹:۱، ۸؛ ۲۰:۲۵؛ ۲۸:۳۰، ۳۱) اُن کی گرمجوشی اور بہادری اور اُن کی کوششوں پر یہوواہ کی برکت پر غور کرنے سے ہم میں یہ خواہش زور پکڑتی ہے کہ ہم بھی وفاداری سے ”خدا کی بادشاہی کی گواہی“ دیتے رہیں۔—۲۸:۲۳۔
[فٹنوٹ]
a سینٹ پول دی ٹریویلر، ۱۸۹۵، صفحہ ۴۔
b جولائی ۲۲، ۱۹۴۷ اویک! کے صفحہ ۲۲-۲۳ میں اِس کا حوالہ دیا گیا ہے؛ اپریل ۸، ۱۹۷۱ اویک! کے صفحہ ۲۷-۲۸ کو بھی دیکھیں۔
c انسائٹ ان دی سکرپچرز، جِلد ۱، صفحہ ۱۵۳-۱۵۴، ۷۳۴-۷۳۵؛ جِلد ۲، صفحہ ۷۴۸۔