اپنی سوچ کو خدا کی سوچ کے مطابق ڈھالتے جائیں
”پاک روح کے مطابق چلتے رہیں۔“—گلتیوں 5:16۔
1، 2. ایک بھائی کی زندگی میں کس چیز کی کمی تھی اور اُس نے اِس حوالے سے کیا کِیا؟
رابرٹ نے نوجوانی میں ہی بپتسمہ لے لیا تھا لیکن خدا کی خدمت اُن کی زندگی میں سب سے اہم نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں: ”مَیں نے کبھی کوئی سنگین گُناہ نہیں کِیا تھا لیکن مَیں خدا کی خدمت میں جو کچھ کر رہا تھا، وہ محض خانہ پوری تھی۔ بظاہر تو مَیں روحانی لحاظ سے پُختہ لگتا تھا کیونکہ مَیں باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جاتا تھا اور سال میں کچھ مہینے مددگار پہلکار کے طور پر خدمت بھی کرتا تھا۔ لیکن پھر بھی میری زندگی میں کسی چیز کی کمی تھی۔“
2 اِس کمی کا پتہ رابرٹ کو تب چلا جب اُن کی شادی ہوئی۔ رابرٹ اور اُن کی بیوی اکثر فارغ وقت میں ایک دوسرے سے بائبل کے بارے میں سوال پوچھتے تھے۔ اُن کی بیوی بائبل سے اچھی طرح واقف تھی اِس لیے وہ بڑی آسانی سے اِن سوالوں کے جواب دے دیتی تھی۔ لیکن رابرٹ کو اکثر اِن سوالوں کے جواب نہیں آتے تھے اور اِس وجہ سے وہ بہت شرمندگی محسوس کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: ”مجھے ایسا لگتا تھا جیسے مجھے کچھ بھی نہیں پتہ۔ مَیں نے خود سے کہا: ”اگر مَیں چاہتا ہوں کہ مَیں اپنی بیوی کی روحانی لحاظ سے اچھی طرح سربراہی کر سکوں تو مجھے اِس حوالے سے ضرور کچھ کرنا ہوگا۔““ اور رابرٹ نے ایسا کِیا بھی۔ وہ کہتے ہیں: ”مَیں بائبل کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اِس پر تحقیق اور سوچ بچار کرنے لگا۔ یوں مجھے یہ سمجھ آنے لگا کہ اِس میں درج باتوں کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ سب سے بڑھ کر ایسا کرنے سے یہوواہ کے ساتھ میرا رشتہ اَور مضبوط ہو گیا۔“
3. (الف) ہم رابرٹ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن اہم سوالوں پر غور کریں گے؟
3 ہم رابرٹ کی مثال سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی حد تک بائبل کی سچائیوں سے واقف ہوں، باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جاتے ہوں اور مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہوں۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم روحانی سوچ کے مالک بھی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے روحانی سوچ اپنانے کے لیے کچھ قدم اُٹھائے ہیں لیکن اپنا جائزہ لینے کے بعد ہمیں اپنے اندر بہتری کی گنجائش نظر آئے۔ (فِلپّیوں 3:16) لہٰذا اِس مضمون میں ہم تین اہم سوالوں پر بات کریں گے: (1) ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ہم کس حد تک روحانی سوچ کے مالک ہیں؟ (2) ہم خدا کی سوچ کو اَور بہتر طور پر اپنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ (3) اور ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم روحانی سوچ کے مالک ہیں؟
اپنا جائزہ لیں
4. اِفسیوں 4:23، 24 میں درج نصیحت کا اِطلاق کن پر ہوتا ہے؟
4 جب ہم نے یہوواہ خدا کی خدمت کرنا شروع کی تو ہم نے اپنی زندگی میں بڑی بڑی تبدیلیاں کیں۔ خود میں تبدیلیاں لانے کا یہ سلسلہ بپتسمہ لینے کے بعد بھی جاری رہا۔ بائبل میں بتایا گیا ہے: ”اپنی سوچ کو نیا بناتے جائیں۔“ (اِفسیوں 4:23، 24) چونکہ ہم سب عیبدار ہیں اِس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر بہتری لاتے رہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم کئی سالوں سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں پھر بھی ہمیں یہوواہ کے ساتھ اپنے رشتے کو اَور مضبوط بناتے رہنا چاہیے۔—فِلپّیوں 3:12، 13۔
5. کن سوالوں کی مدد سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہم کس حد تک روحانی سوچ کے مالک ہیں؟
5 چاہے ہم جوان ہیں یا بوڑھے، ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں: ”کیا مَیں اپنے اندر ایسی تبدیلیاں لا رہا ہوں جن سے یہ ظاہر ہو کہ مَیں خدا کی سوچ کو اَور بہتر طور پر اپنا رہا ہوں؟ کیا مَیں اپنی شخصیت کو مسیح کی شخصیت کے مطابق ڈھال رہا ہوں؟ جس طرح سے مَیں اِجلاسوں میں حصہ لیتا ہوں اور بہن بھائیوں سے پیش آتا ہوں، اُس سے میرے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟ میری باتچیت سے میرے منصوبوں کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟ میرے ذاتی مطالعے کے معمول، میرے پہناوے اور اِصلاح ملنے پر میرے ردِعمل سے میرے بارے میں کیا ظاہر ہوتا ہے؟ جب مجھے کوئی غلط کام کرنے پر اُکسایا جاتا ہے تو مَیں کیسا ردِعمل دِکھاتا ہوں؟ کیا مَیں مسیح کے متعلق اِبتدائی تعلیمات سے آگے بڑھ کر ایک پُختہ مسیحی بن گیا ہوں؟“ (اِفسیوں 4:13) اِن سوالوں کے جواب دینے سے ہم یہ جان پائیں گے کہ ہم کس حد تک روحانی سوچ کے مالک ہیں۔
6. یہ جاننے کے لیے کہ ہماری سوچ کس حد تک خدا کی سوچ کے مطابق ہے، ہمیں اَور کس چیز کی ضرورت ہے؟
6 کبھی کبھار یہ جاننے کے لیے کہ ہماری سوچ کس حد تک خدا کی سوچ کے مطابق ہے، ہمیں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ پولُس رسول نے بتایا کہ اِنسانی سوچ رکھنے والا شخص یہ نہیں سمجھتا کہ خدا اُس کے طرزِزندگی سے خوش نہیں ہے۔ لیکن روحانی سوچ رکھنے والا شخص اِس بات کو سمجھتا ہے کہ مختلف معاملات کے بارے میں خدا کی سوچ کیا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ خدا دُنیاوی سوچ رکھنے والے شخص کے کاموں کو پسند نہیں کرتا۔ (1-کُرنتھیوں 2:14-16؛ 3:1-3) چونکہ کلیسیا کے بزرگ مسیح جیسی سوچ رکھتے ہیں اِس لیے جیسے ہی کوئی بھائی یا بہن دُنیا کے طورطریقوں کو اپنانے لگتا ہے تو وہ فوراً اِس بات کو بھانپ لیتے ہیں۔ پھر وہ اُس مسیحی کی مدد کرنے کے لیے قدم اُٹھاتے ہیں۔ اگر بزرگ اِس سلسلے میں آپ کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا آپ اُن کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو قبول کریں گے؟ اگر آپ ایسا کریں گے تو اِس سے ظاہر ہوگا کہ آپ واقعی اپنی سوچ کو خدا کی سوچ کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔—واعظ 7:5، 9۔
خدا کی سوچ کو اَور بہتر طور پر اپنائیں
7. ہم کیسے جانتے ہیں کہ روحانی سوچ کے مالک بننے کے لیے صرف بائبل کا علم حاصل کرنا کافی نہیں ہے؟
7 روحانی سوچ کے مالک بننے کے لیے صرف بائبل کا علم حاصل کرنا کافی نہیں۔ بادشاہ سلیمان بھی یہوواہ خدا اور اُس کے معیاروں کے بارے میں کافی علم رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ اُن کی کچھ حکمت بھری باتوں کو بائبل میں شامل بھی کِیا گیا۔ لیکن بعد میں یہوواہ کے ساتھ اُن کی دوستی کمزور پڑ گئی اور وہ اُس کے وفادار نہ رہے۔ (1-سلاطین 4:29، 30؛ 11:4-6) لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم بائبل کا علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان کو مضبوط کرتے رہیں۔ (کُلسّیوں 2:6، 7) ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
8، 9. (الف) ہم اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ (ب) جب ہم یہوواہ کی تنظیم کی مطبوعات کا مطالعہ کرتے اور اِن پر سوچ بچار کرتے ہیں تو ہمارا عزم کیا ہونا چاہیے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
8 پہلی صدی عیسوی میں پولُس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ وہ ”پختگی کی طرف بڑھیں۔“ (عبرانیوں 6:1) آج ہم اِس نصیحت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ اِس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم کتاب ”خدا کی محبت میں قائم رہیں“ کا مطالعہ کریں۔ اِس کتاب کے ذریعے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ہم اپنی زندگی میں بائبل کے اصولوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اِس کتاب کا مطالعہ کر چُکے ہیں تو آپ دیگر ایسی مطبوعات کا مطالعہ کر سکتے ہیں جن سے آپ کو اپنے ایمان کو مضبوط کرنے میں مدد ملے۔ (کُلسّیوں 1:23) یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اُن باتوں پر سوچ بچار کریں جو ہم سیکھتے ہیں اور یہوواہ سے دُعا کریں کہ وہ ہمیں اِن پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔
9 ہمیں اِس عزم کے ساتھ اِن مطبوعات کا مطالعہ اور اِن پر سوچ بچار کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر یہوواہ کو خوش کرنے اور اُس کے فرمانبردار رہنے کی شدید خواہش پیدا ہو۔ (زبور 40:8؛ 119:97) ساتھ ہی ساتھ ہماری یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ ہم ہر اُس چیز کو رد کریں جو ہمیں روحانی لحاظ سے مضبوط بننے سے روک سکتی ہے۔—طِطُس 2:11، 12۔
10. نوجوان روحانی لحاظ سے مضبوط بننے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
10 اگر آپ نوجوان ہیں تو کیا آپ نے یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے کچھ منصوبے بنائے ہوئے ہیں؟ بیتایل میں خدمت کرنے والا ایک بھائی حلقے کے اِجتماعوں پر اکثر ایسے نوجوانوں سے بات کرتا ہے جنہوں نے اِجتماع پر بپتسمہ لینا ہوتا ہے۔ وہ اُن سے پوچھتا ہے کہ خدا کی خدمت کے حوالے سے اُن کے کیا منصوبے ہیں۔ بہت سے نوجوان اُس بھائی کو بتاتے ہیں کہ وہ آگے چل کر کن طریقوں سے خدا کی خدمت کرنے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ کچھ نوجوانوں نے کُلوقتی طور پر خدا کی خدمت کرنے کا منصوبہ بنایا ہوتا ہے جبکہ کچھ نے ایسے علاقوں میں منتقل ہونے کا سوچا ہوتا ہے جہاں زیادہ مبشروں کی ضرورت ہے۔ لیکن بعض نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھائی کے اِس سوال پر سوچ میں پڑ جاتے ہیں اور کوئی جواب نہیں دیتے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے نوجوان خدا کی خدمت کے حوالے سے منصوبے بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اگر آپ نوجوان ہیں تو خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں صرف اِس لیے اِجلاسوں اور مُنادی کے کام میں حصہ لیتا ہوں کیونکہ میرے والدین ایسا چاہتے ہیں؟ یا کیا مَیں یہ سب کچھ اِس لیے کرتا ہوں کیونکہ مَیں یہوواہ کا قریبی دوست ہوں اور اُس کو خوش کرنا چاہتا ہوں؟“ چاہے ہم جوان ہیں یا بوڑھے، ہمیں خدا کی خدمت کے حوالے سے منصوبے ضرور بنانے چاہئیں۔ ایسا کرنے سے ہم روحانی لحاظ سے اَور مضبوط ہو جائیں گے۔—واعظ 12:1، 13۔
11. (الف) روحانی سوچ کے مالک بننے کے لیے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ (ب) ہم کس کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں؟
11 جب ہم یہ جان جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے اندر کون سی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تو ہمیں اِس سلسلے میں قدم اُٹھانے چاہئیں۔ یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ (رومیوں 8:6-8) یہوواہ ہم سے یہ توقع نہیں کرتا کہ ہم سے کبھی کوئی غلطی نہ ہو۔ وہ تو ہمیں اپنی پاک روح دیتا ہے تاکہ ہم اپنے اندر بہتری لا سکیں۔ لیکن ہمیں اِس حوالے سے خود بھی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مرتبہ بھائی جان بار نے جو کہ گورننگ باڈی کے ایک رُکن تھے، لُوقا 13:24 پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ”بہت سے لوگ [تنگ دروازے سے داخل ہونے میں] اِس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ روحانی لحاظ سے مضبوط بننے کے لیے محنت نہیں کرتے۔“ ہمیں یعقوب کی مثال پر عمل کرنا چاہیے جو اُس وقت تک ایک فرشتے سے کُشتی کرتے رہے جب تک اُنہیں یہوواہ سے برکت نہیں مل گئی۔ (پیدایش 32:26-28) یہ سچ ہے کہ ہم بائبل کو پڑھنے سے لطف اُٹھا سکتے ہیں لیکن بائبل کسی ناول کی طرح نہیں ہے جسے اِس لیے لکھا جاتا ہے کہ ہمیں اِسے پڑھنے میں مزہ آئے۔ ہمیں بائبل میں پائی جانے والی بیشقیمت سچائیوں کو ڈھونڈنے اور اِن سے فائدہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
12، 13. (الف) اگر ہم مسیح جیسی سوچ اپنانا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ (ب) ہم پطرس رسول کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ (ج) پطرس رسول کی نصیحت کے مطابق ہمیں اپنے اندر کن خوبیوں کو پیدا کرنا چاہیے؟ (د) روحانی لحاظ سے مضبوط بننے کے لیے آپ کون سے قدم اُٹھا سکتے ہیں؟ (بکس ”روحانی لحاظ سے مضبوط بننے کے لیے ضروری اِقدام“ کو دیکھیں۔)
12 جب ہم روحانی لحاظ سے مضبوط بننے کے لیے قدم اُٹھائیں گے تو پاک روح بھی ہماری مدد کرے گی تاکہ ہم اپنی سوچ کو بدل سکیں۔ آہستہ آہستہ ہم مسیح جیسی سوچ اپنا پائیں گے۔ (رومیوں 15:5) پاک روح کی مدد سے ہم غلط خواہشات کو دل سے نکالنے اور ایسی خوبیوں کو نکھارنے کے قابل ہو سکتے ہیں جن سے یہوواہ خدا خوش ہوتا ہے۔ (گلتیوں 5:16، 22، 23) اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے لیے دُنیا کی چیزوں اور آسائشوں سے دھیان ہٹانا مشکل ہے تو ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ ہمیں یہوواہ سے پاک روح مانگتے رہنا چاہیے تاکہ ہم اپنا دھیان صحیح چیزوں پر لگا سکیں۔ (لُوقا 11:13) ذرا پطرس رسول کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے کئی موقعوں پر مسیح جیسی سوچ ظاہر نہیں کی۔ (متی 16:22، 23؛ لُوقا 22:34، 54-62؛ گلتیوں 2:11-14) لیکن اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری اور یہوواہ نے بھی اُن کی مدد کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ پطرس یسوع مسیح جیسی سوچ اپنانے کے قابل ہو گئے۔ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔
13 بعد میں پطرس نے کچھ ایسی خوبیوں کا ذکر کِیا جنہیں اپنے اندر پیدا کرنے سے ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ (2-پطرس 1:5-8 کو پڑھیں۔) اِن میں ضبطِنفس، ثابتقدمی، شفقت اور اِن جیسی دوسری خوبیاں شامل ہیں۔ ہم ہر روز خود سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں: ”مَیں روحانی لحاظ سے اَور مضبوط بننے کے لیے آج کس خوبی میں نکھار لا سکتا ہوں؟“
روزمرہ زندگی میں بائبل کے اصولوں پر عمل کریں
14. روحانی سوچ اپنانے سے ہماری زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟
14 اگر ہم مسیح یسوع جیسی سوچ اپنائیں گے تو اِس کا اثر سکول اور ملازمت کی جگہ پر ہمارے چالچلن، ہماری باتچیت اور روزمرہ زندگی میں ہمارے فیصلوں پر ہوگا۔ ہمارے فیصلوں سے یہ ظاہر ہوگا کہ ہم مسیح کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روحانی سوچ رکھنے کی وجہ سے ہم کسی بھی چیز کو یہ اِجازت نہیں دیں گے کہ وہ یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کو نقصان پہنچائے۔ جب ہمیں آزمائشوں کا سامنا ہوگا تو ہم ثابتقدم رہیں گے۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہم خود سے یہ سوال پوچھیں گے: ”بائبل کا کون سا اصول اِس سلسلے میں میرے کام آ سکتا ہے؟ اگر یسوع مسیح میری جگہ ہوتے تو وہ کیا کرتے؟ مَیں کیا فیصلہ کروں جس سے یہوواہ کا دل خوش ہو؟“ اب آئیں، چند صورتحال پر غور کریں جن میں ہم خود سے کچھ ایسے ہی سوال پوچھ سکتے ہیں۔ اِن میں سے ہر صورتحال کے سلسلے میں ہم بائبل کے ایک اصول پر غور کریں گے جس کی مدد سے ہم اچھا فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
15، 16. مسیح جیسی سوچ اپنانے سے ہم اِن صورتحال میں اچھے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں: (الف) جیون ساتھی کا اِنتخاب کرتے وقت؟ (ب) دوستوں کا اِنتخاب کرتے وقت؟
15 جیون ساتھی کا اِنتخاب۔ اِس سلسلے میں 2-کُرنتھیوں 6:14، 15 میں درج اصول ہمارے کام آ سکتا ہے۔ (اِن آیتوں کو پڑھیں۔) پولُس رسول نے بڑے واضح الفاظ میں بتایا کہ روحانی سوچ رکھنے والا شخص معاملات کو جس نظر سے دیکھتا ہے، اِنسانی سوچ رکھنے والے شخص کا نظریہ اُس سے بالکل اُلٹ ہوتا ہے۔ جیون ساتھی کا اِنتخاب کرنے کے سلسلے میں ہم اِس اصول پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
16 دوستوں کا اِنتخاب۔ ذرا اِس حوالے سے 1-کُرنتھیوں 15:33 میں درج اصول پر غور کریں۔ (اِس آیت کو پڑھیں۔) روحانی سوچ رکھنے والا شخص ایسے لوگوں سے دوستی نہیں کرتا جو اُس کے ایمان کو کمزور کر سکتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ یہ اصول مختلف صورتحال میں کیسے ہمارے کام آ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اصول سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے اِستعمال پر کیسے لاگو ہوتا ہے؟ اور اجنبیوں کے ساتھ آنلائن گیمز کھیلنے کے حوالے سے ہم اِس اصول پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
17-19. روحانی سوچ اپنانے سے آپ اِن حلقوں میں اچھے فیصلے کرنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں: (الف) فضول کاموں سے بچنا؟ (ب) اچھے منصوبے بنانا؟ (ج) اِختلافات کو سلجھانا؟
17 ایسے کام جو ہمیں روحانی لحاظ سے کمزور کر سکتے ہیں۔ اِس حوالے سے ہم عبرانیوں 6:1 میں درج ہدایت پر عمل کر سکتے ہیں۔ (اِس آیت کو پڑھیں۔) ہمیں کون سے ”مُردہ کاموں“ سے بچنا چاہیے؟ یہ ایسے فضول کام ہیں جو ہمیں روحانی لحاظ سے کمزور کر سکتے ہیں۔ اِس اصول کو ذہن میں رکھ کر ہم کوئی بھی کام کرنے سے پہلے خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کام فضول ہے یا فائدہمند۔ یا اگر ہمیں پیسے کمانے کے حوالے کوئی پیشکش کی جاتی ہے تو ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں اِس پیشکش کو قبول کرنا چاہیے یا نہیں۔ اِس کے علاوہ ہم یہ بھی سمجھنے کی قابل ہوتے ہیں کہ ہم ایسی تحریکوں میں حصہ کیوں نہیں لیتے جو معاشرے کی اِصلاح کے لیے چلائی جاتی ہیں۔
18 یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے منصوبے۔ یسوع مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں منصوبے بنانے کے حوالے سے بہت اچھا مشورہ دیا۔ (متی 6:33) روحانی سوچ رکھنے والا شخص اپنی زندگی میں خدا کی بادشاہت کو پہلا درجہ دیتا ہے۔ اِس اصول کی مدد سے ہم یہ فیصلہ کر پائیں گے کہ کیا ہمیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی چاہیے یا نہیں یا کیا ہمیں فلاں ملازمت کرنی چاہیے یا نہیں۔
19 اِختلافات۔ اِختلافات کو سلجھانے کے سلسلے میں ہم پولُس رسول کی اُس نصیحت پر عمل کر سکتے ہیں جو اُنہوں نے روم کے مسیحیوں کو کی۔ (رومیوں 12:18) مسیح کے پیروکاروں کے طور پر ہم ”سب کے ساتھ امن سے“ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہم خود سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں: ”مَیں اُس وقت کیسا رویہ دِکھاتا ہوں جب دوسروں کے ساتھ میرے اِختلافات ہو جاتے ہیں؟ کیا مجھے دوسروں کی رائے کو ماننا مشکل لگتا ہے؟ یا کیا مَیں ایک صلحپسند شخص کے طور پر جانا جاتا ہوں؟“—یعقوب 3:18۔
20. آپ خدا کی سوچ کو اَور بہتر طور پر کیوں اپنانا چاہتے ہیں؟
20 اِن مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ بائبل کے اصولوں کی مدد سے ہم اچھے فیصلے کرنے کے قابل ہوتے ہیں، ایسے فیصلے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم خدا کی پاک روح کی رہنمائی میں چلتے ہیں۔ روحانی سوچ رکھنے سے ہمیں زندگی میں خوشی اور اِطمینان حاصل ہوتا ہے۔ رابرٹ جن کا ذکر مضمون کے شروع میں کِیا گیا ہے، کہتے ہیں: ”یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کرنے سے مَیں ایک اچھا شوہر اور اچھا باپ بن گیا ہوں۔ اب مَیں اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن ہوں۔“ اگر ہم خدا کی سوچ کو اَور بہتر طور پر اپنانے کی کوشش کریں گے تو ہمیں بھی بہت سی برکتیں ملیں گی۔ ہماری زندگی نہ صرف اب خوشیوں سے بھر جائے گی بلکہ مستقبل میں ہمیں ”حقیقی زندگی“ بھی ملے گی۔—1-تیمُتھیُس 6:19۔