”اگر آپ پر ٹیکس واجبالادا ہیں تو ٹیکس ادا کریں“
۱۸ویںصدی کے امریکی مُدبر اور موجد بینجؔیمن فرینکلن نے یوں بیان کِیا: ”اس دنیا میں موت اور ٹیکسوں کے علاوہ کوئی چیز یقینی نہیں ہے۔“ اُسکے الفاظ، جنکا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے، نہ صرف ٹیکسوں کے ناگزیر ہونے کو منعکس کرتے ہیں بلکہ اس خوف کو بھی جو یہ پیدا کرتے ہیں۔ بہتیروں کیلئے ٹیکس ادا کرنا موت کی طرح ناپسندیدہ ہے۔
ٹیکسوں کی ادائیگی اگرچہ ناخوشگوار ہو سکتی ہے، یہ ایک ایسی ذمہداری ہے جسے سچے مسیحی بہت سنجیدہ خیال کرتے ہیں۔ پولسؔ نے رؔوم میں مسیحی کلیسیا کو لکھا: ”جس کسی کا آپ پر کچھ واجب آتا ہے تو اُسے ادا کریں: اگر آپ پر ٹیکس واجبالادا ہیں تو ٹیکس ادا کریں؛ اگر محصول ہے تو محصول؛ اگر احترام ہیں تو احترام؛ اگر تعظیم ہے تو تعظیم۔“ (رومیوں ۱۳:۷، نیو انٹرنیشنل ورشن) اور یسوؔع مسیح خاص طور پر ٹیکس کا ہی حوالہ دے رہا تھا جب اس نے کہا: ”جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔“—مرقس ۱۲:۱۴، ۱۷۔
یہوؔواہ نے سرکاری ”اعلیٰ حکومتوں“ کو موجود رہنے کی اجازت دی ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے خادم انکی نسبتی تابعداری میں رہیں۔ پھر، کیوں، خدا اپنے پرستاروں کے ٹیکس ادا کرنے پر اصرار کرتا ہے؟ پولسؔ تین بنیادی وجوہات بیان کرتا ہے: (۱) قانونشکنوں کو سزا دینے کے لئے ”اعلیٰ حکومتوں“ کا ”غضب“؛ (۲) کسی مسیحی کا ضمیر، جو کہ ٹیکس کی چوری کرنے کی صورت میں پاکصاف نہیں ہوگا؛ (۳) ان ”عوامی خادموں“ کی خدمات اور کسی حد تک نظمونسق قائم رکھنے کی اُجرت ادا کرنے کی ضرورت۔ (رومیوں ۱۳:۱-۷) بہتیرے شاید ٹیکس ادا کرنا پسند نہ کریں۔ تاہم، یقینی طور پر وہ ایسے ملک میں رہنا بھی کم ہی پسند کریں گے جہاں پولیس یا آگ سے بچاؤ نہیں، سڑکوں کی سہولت نہیں، عوامی درسگاہیں نہیں اور ڈاک کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ امریکی ماہرِقانون اولیوؔر وینڈل ہومز نے اسے ایک بار یوں بیان کِیا: ”ٹیکس ہی وہ چیز ہیں جو ہم مہذب معاشرے کے لئے ادا کرتے ہیں۔“
ٹیکس کی ادائیگی خدا کے خادموں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قدیم اسرائیل کے باشندے بھی اپنے بادشاہوں کی حمایت میں ایک طرح کا خراج ادا کرتے تھے، اور ان حکمرانوں میں سے بعض نے غیرواجب خراج کے ذریعے لوگوں پر بھاری بوجھ ڈال دیا۔ یہودی بھی ان بیرونی طاقتوں کو خراج اور ٹیکس ادا کرتے تھے جو ان پر حکومت کرتی تھیں، جیسے مصرؔ، فاؔرس، اور رؔوم۔ اس لئے جب اس نے ٹیکسوں کی ادائیگی کا ذکر کِیا تو پولسؔ کے زمانے کے مسیحی خوب جانتے تھے کہ وہ کس چیز کی بابت گفتگو کر رہا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ خواہ ٹیکس معقول تھے یا نہیں، اور اس سے قطعنظر کہ حکومت اس پیسے کو کیسے استعمال کرتی ہے، ان پر جتنا بھی ٹیکس واجبالادا تھا انہیں وہ ادا کرنا تھا۔ یہی بات آج بھی مسیحیوں پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم، ان مشکل ایام میں، اپنے ٹیکسوں کی ادائیگی کرتے وقت کونسے اصول ہمیں راہنمائی فراہم کر سکتے ہیں؟
پانچ رہبر اصول
باسلیقہ بنیں۔ ہم یہوؔواہ کی خدمت اور نقل کرتے ہیں، جو ”ابتری کا نہیں بلکہ امن کا خدا ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۳۳؛ افسیوں ۱۵) جب ٹیکس ادا کرنے کی بات آتی ہے تو باسلیقہ ہونا مشکل ہوتا ہے۔ کیا آپ کی دستاویزات مکمل، صحیح اور منظم ہیں؟ عام طور پر کاغذات رکھنے کے لئے مہنگے نظام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ ہر قسم کے ریکارڈ لیبلشُدہ ایک ہی فولڈر میں رکھ سکتے ہیں (جیسے کہ آپ کے اخراجات کو مرتب کرنے والی مختلف رسیدیں)۔ شاید یہ ممکن ہو کہ انہیں ہر سال کے لئے ایک بڑے فولڈر میں یکجا کر دیا جائے۔ بہت سے ممالک میں کافی سالوں تک ایسی فائلوں کو محفوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے اسلئے کہ حکومت گذشتہ ریکارڈ کی جانچ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ لہٰذا کسی چیز کو نہ پھینکیں تاوقتیکہ آپ کو اس کا یقین نہ ہو جائے کہ اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔
دیانتدار بنیں۔ پولسؔ نے لکھا: ”ہمارے واسطے دُعا کرو کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم نیک ضمیر رکھتے ہیں اور ہم ہر بات میں دیانتداری کیساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱۸، اینڈبلیو) دیانتدار ہونے کی دلی خواہش کو ہمارے ہر فیصلے پر اثرانداز ہونا چاہئے جو ہم اپنے ٹیکس ادا کرنے کے سلسلے میں کرتے ہیں۔ اوّل، اُن ٹیکسوں پر غور کریں جو اندراجشُدہ آمدنی پر ادا کئے جانے چاہئیں۔ بہتیرے ممالک میں، بخشیش، عارضی ملازمتوں، سیلز—سے حاصل ہونے والی اضافی آمدنی—پر بھی جیسے ہی وہ ایک خاص رقم سے تجاوز کرتی ہے ٹیکس واجب ہوتا ہے۔ ایک ”نیک ضمیر“ رکھنے والا مسیحی معلوم کر لیگا کہ جہاں وہ رہتا ہے وہاں پر کتنی آمدنی پر ٹیکس دینا واجب ہے اور پھر موزوں ٹیکس ادا کریگا۔
دوئم، کٹوتیوں کا معاملہ ہے۔ حکومتیں عام طور پر ٹیکس ادا کرنے والوں کو اپنی قابلِٹیکس آمدنی سے بعض اخراجات کی کٹوتی کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ اس بےایمان دنیا میں، بہتیرے ایسی کٹوتیوں کا مطالبہ کرتے وقت ”اختراعی“ یا ”تصوراتی“ بننے میں کوئی بُرائی محسوس نہیں کرتے۔ ایک خبر کے مطابق، ریاستہائے متحدہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک قیمتی پوستین خرید کر دیا، پھر اُسے ایک یا دو دن کے لئے اپنے کاروبار کی جگہ پر لٹکا دیا تاکہ وہ اس کی کام کی جگہ کی ”سجاوٹ“ کے طور پر کٹوتی کر سکے! ایک اور شخص نے اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات پر کاروباری کٹوتی کا دعویٰ کِیا۔ ایک دوسرے شخص نے کئی مہینوں تک اپنے ساتھ مشرقِبعید کا سفر کرنے والی اپنی بیوی کے اخراجات پر کٹوتی حاصل کرنے کی کوشش کی، اگرچہ وہ درحقیقت خاص طور پر سماجی اور تفریحی مقاصد کے لئے وہاں گئی تھی۔ ایسے واقعات کی کوئی حد دکھائی نہیں دیتی۔ سادہ الفاظ میں، کسی چیز کو کاروباری کٹوتی کا نام دینا جبکہ وہ حقیقت میں ایسی نہیں ہے ایک قسم کا جھوٹ ہے—ایک ایسی چیز جس سے یہوؔواہ، ہمارا خدا، قطعاً نفرت کرتا ہے۔—امثال ۶:۱۶-۱۹۔
ہوشیار رہیں۔ یسوؔع نے اپنے پیروکاروں کو تاکید کی کہ ”سانپوں کی طرح ہوشیار اور کبوتروں کی مانند بےآزار“ بنیں۔ (متی ۱۰:۱۶) اس مشورت کا ہمارے ٹیکس ادا کرنے کے اطوار پر بھی خوب اطلاق ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر ترقییافتہ ممالک میں، آجکل زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے ٹیکس کے کاغذات تیار کرنے کیلئے کھاتہدار فرم یا کسی پیشہور کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ پھر وہ فارم پر محض دستخط کرتے اور چیک بھیج دیتے ہیں۔ امثال ۱۴:۱۵ میں درج آگاہی پر توجہ دینے کا یہ اچھا موقع ہوگا: ”نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روش کو دیکھتا بھالتا ہے۔“
بہتیرے ٹیکس گزاروں کو کسی بددیانت اکاؤنٹنٹ یا ناتجربہکار ٹیکس تیار کرنے والے کی ’ہر بات کا یقین‘ کرنے کی وجہ سے حکومت کے ساتھ مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہوشیار ہونا کسقدر بہتر ہے! کسی بھی دستاویز پر دستخط کرنے سے پہلے اُسے احتیاط کے ساتھ پڑھ لینے کے لئے ہوشیار رہیں۔ اگر کوئی اندراج، فروگزاشت، یا کٹوتی آپ کو عجیب لگے تو اس کی وضاحت طلب کریں—اگر ضروری ہو تو بار بار—جب تک آپ مطمئن نہیں ہو جاتے کہ معاملہ دیانتدارانہ اور جائز ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہتیرے ممالک میں ٹیکس کے قوانین بےحد پیچیدہ ہو گئے ہیں، لیکن جہاں تک ممکن ہو، یہ دانشمندانہ روش ہے کہ کسی بھی چیز کو جس پر آپ دستخط کرتے ہیں سمجھ لیں۔ بعض حالتوں میں، آپ شاید یہ پائیں کہ ٹیکس کے قانون سے واقفیت رکھنے والا اسکی بابت کچھ آگاہی دے سکتا ہے۔ ایک مسیحی بزرگ نے جو ایک وکیل کے طور پر ٹیکس کے معاملات سے تعلق رکھتا ہے اختصار کیساتھ کہا: ”اگر آپ کا اکاؤنٹنٹ کسی ایسی چیز کی تجویز پیش کرتا ہے جو غیرحقیقتپسندانہ طور پر سچ لگے تو پھر یقیناً دال میں کچھ کالا ہے!“
ذمہدار بنیں۔ پولسؔ رسول نے لکھا، ”ہر شخص اپنا ہی بوجھ اُٹھائیگا۔“ (گلتیوں ۶:۵) جب ٹیکس ادا کرنے کی بات آتی ہے تو ہر مسیحی کو ایماندار اور قانون پر عمل کرنے والا بننے کی ذمہداری پر پورا اُترنا چاہئے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جس میں کلیسیائی بزرگ اپنی زیرِنگرانی گلّہ کی نگہداشت کرتے ہیں۔ (مقابلہ کریں ۲-کرنتھیوں ۱:۲۴۔) وہ خود کو ٹیکس کے معاملات میں نہیں اُلجھاتے تاوقتیکہ سنگین غلطکاری، شاید علاقے میں کسی اسکینڈل پر مشتمل کوئی معاملہ انکی توجہ میں نہیں آتا۔ عام طور پر، یہ ایسا حلقہ ہے جہاں ایک مسیحی صحیفائی اصولوں کا اطلاق کرنے میں خود موزوں طور پر اپنے تربیتیافتہ ضمیر کو استعمال کرنے کا ذمہدار ہے۔ (عبرانیوں ۵:۱۴) اس میں یہ شامل ہے کہ ٹیکس کی دستاویز پر دستخط کرتے وقت محتاط رہیں—قطع نظر اس سے کہ کس نے یہ تیار کی ہے—یقیناً یہ اسے ایک قانونی بیان بنا دیتا ہے کہ آپ نے دستاویز کو پڑھا ہے اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس میں تمام باتیں صحیح ہیں۔a
بےالزام بنیں۔ مسیحی نگہبانوں کو اپنے عہدے کے لائق ثابت ہونے کیلئے ”بےالزام“ ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح، پوری کلیسیا کو خدا کے سامنے بےالزام ہونا چاہئے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۲؛ مقابلہ کریں افسیوں ۵:۲۷۔) اسلئے جب ٹیکس ادا کرنے کی بات آتی ہے تو وہ اس وقت بھی علاقے میں نیکنامی برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یسوؔع مسیح نے خود اس سلسلے میں نمونہ قائم کِیا۔ اسکے شاگرد پطرؔس سے سوال کِیا گیا کہ آیا یسوؔع ہیکل کا ٹیکس ادا کریگا، جو کہ نیم مِثقال کا معمولی سا مسئلہ تھا۔ درحقیقت یسوؔع اس ٹیکس سے مستثنیٰ تھا چونکہ ہیکل اسکے باپ کا گھر تھا اور کوئی بھی بادشاہ اپنے بیٹے پر ٹیکس نہیں لگاتا۔ یسوؔع نے یہی بات کہی؛ تاہم اس نے وہ ٹیکس ادا کِیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ درکار پیسے مہیا کرنے کیلئے اس نے ایک معجزہ بھی کِیا! کیوں وہ ایسا ٹیکس ادا کرے جس سے وہ واجب طور پر مستثنیٰ تھا؟ جیسے کہ خود یسوؔع نے کہا یہ اسلئے تھا کہ ”مبادا ہم اُن کیلئے ٹھوکر کا باعث ہوں۔“—متی ۱۷:۲۴-۲۷۔b
خدا کیلئے باعثِافتخار شہرت برقرار رکھیں
یہوؔواہ کے گواہ آج کل اس بات کی بابت اسی طرح فکرمند رہتے ہیں تاکہ دوسروں کیلئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں۔ تو پھر، اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ وہ ایک گروہ کے طور پر پوری دنیا میں ایماندار، ٹیکسگزار شہریوں کے طور پر اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ مثال کے طور پر، ہسپانوی اخبار ایل ڈیارو واسکو نے سپین میں ٹیکس کے سلسلے میں رائجالعام بہانےبازی پر تبصرہ کِیا، لیکن لکھا: ”صرف یہوؔواہ کے گواہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ جب وہ [جائیداد] خریدتے یا فروخت کرتے ہیں تو جتنی بھی مالیت وہ بتاتے ہیں وہ بالکل سچ ہوتی ہے۔“ اسی طرح، یو.ایس. اخبار سان فرانسسکو ایگزامینر نے چند سال پہلے بیان کِیا: ”آپ [یہوؔواہ کے گواہوں] کو مثالی شہریوں کے طور پر خیال کر سکتے ہیں۔ وہ بروقت ٹیکس ادا کرتے، بیماروں کی تیمارداری کرتے، جہالت کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں۔“
کوئی بھی سچا مسیحی ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہے گا جو مشکل سے حاصلکردہ اس شہرت کو داغدار کر سکتا ہے۔ اگر انتخاب کا سامنا ہو تو کیا آپ کچھ پیسہ بچانے کی خاطر ٹیکس چور کے طور پر مشہور ہونے کا خطرہ مول لینگے؟ نہیں۔ یقیناً آپ اپنی نیکنامی کو داغدار کرنے اور اپنی اقدار کو ترک کرنے اور یہوؔواہ کیلئے اپنی پرستش پر بدنامی لانے کی بجائے پیسے کا نقصان اُٹھا لینگے۔
سچ تو یہ ہے کہ ایک انصافپسند، ایماندار شخص کے طور پر شاید آپ کو اپنی نیکنامی برقرار رکھنے کیلئے اکثر اوقات مالی نقصان اُٹھانا پڑے۔ جیسے کہ قدیم یونانی فلاسفر اؔفلاطون نے تقریباً ۲۴ صدیاں پہلے لکھا: ”جب کبھی انکمٹیکس کی بات ہوگی تو انصافپسند آدمی زیادہ ادا کریگا اور غیرمنصف اتنی ہی آمدنی پر کم ادا کریگا۔“ وہ اس میں اس بات کا بھی اضافہ کر سکتا تھا کہ ایک دیانتدار آدمی اپنے دیانتدار ہونے کی قیمت ادا کرنے پر کبھی پشیمان نہیں ہوتا۔ ایسی شہرت رکھنا بھی انمول ہے۔ یقینی طور پر مسیحیوں کی بابت یہ سچ ہے۔ انکی اچھی شہرت اُن کیلئے گراںبہا ہے کیونکہ یہ انکے آسمانی باپ کیلئے عزت کا باعث ہے اور دوسروں کو اُنکی طرزِزندگی اور اُنکے خدا، یہوؔواہ کی طرف مائل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔—امثال ۱۱:۳۰؛ ۱-پطرس ۳:۱۔
تاہم، سچے مسیحی یہوؔواہ کیساتھ اپنے ذاتی رشتے کو سب سے زیادہ مقدم سمجھتے ہیں۔ خدا وہ سب کچھ دیکھتا ہے جو وہ کرتے ہیں اور وہ اُسے خوش کرنا چاہتے ہیں۔ (عبرانیوں ۴:۱۳) اسلئے، وہ حکومت کو دھوکا دینے کی کوشش کرنے کی آزمائش کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ اس چیز کو محسوس کرتے ہیں کہ خدا راست، دیانتدارانہ، چالچلن سے خوش ہوتا ہے۔ (زبور ۱۵:۱-۳) اور چونکہ وہ یہوؔواہ کے دل کو شاد کرنا چاہتے ہیں، اسلئے وہ اپنے تمام واجبالادا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔—امثال ۲۷:۱۱؛ رومیوں ۱۳:۷۔
[فٹنوٹ]
a ہو سکتا ہے کہ یہ اس مسیحی کیلئے ایک چیلنج پیش کر دے جو بےایمان بیاہتا ساتھی کیساتھ قابلِٹیکس آمدنی پر مشترکہ ٹیکس کے کاغذات جمع کراتا ہے۔ ایک مسیحی بیوی سرداری کے اصول کو قیصر کے ٹیکس کے قوانین کی فرمانبرداری کرنے کی ضرورت کیساتھ متوازن رکھنے کی ایماندارانہ کوشش کریگی۔ تاہم، اُسے جان بوجھ کر ایک جعلی دستاویز پر دستخط کرنے کے ممکنہ قانونی نتائج سے باخبر ہونا چاہئے۔—مقابلہ کریں رومیوں ۱۳:۱؛ ۱-کرنتھیوں ۱۱:۳۔
b دلچسپی کی بات ہے کہ یسوؔع کی زمینی زندگی کے اس واقعہ کو صرف متی ہی کی انجیل نے ریکارڈ کِیا ہے۔ ماضی میں خود ایک محصول لینے والے کے طور پر، بِلاشُبہ متیؔ اس معاملے میں یسوؔع کے جذبے سے متاثر ہوا تھا۔