’یہ دن تمہارے لئے یادگار ہوگا‘
”وہ دن تمہارے لئے ایک یادگار ہوگا اور تُم اُس کو [یہوواہ] کی عید کا دن سمجھ کر ماننا۔“—خر ۱۲:۱۴۔
۱، ۲. تمام سچے مسیحیوں کو کس تقریب کے بارے میں جاننا چاہئے؟ اور کیوں؟
جب کسی سالانہ تقریب کی بات ہوتی ہے تو آپ کے ذہن میں فوراً کونسی تقریب آتی ہے؟ اگر آپ شادیشُدہ ہیں تو شاید آپ اپنی شادی کی سالگرہ کے بارے میں سوچیں۔ بعض لوگ شاید کسی تاریخی واقعے جیسے کہ یومِآزادی کے بارے میں سوچیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک سالانہ تقریب ایسی بھی ہے جو ۳۵۰۰ سال سے منائی جا رہی ہے؟
۲ یہ تقریب عیدِفسح ہے۔ یہودی یہ عید مصر سے آزاد ہونے کی یاد میں مناتے ہیں۔ اُس وقت جو واقعات ہوئے، وہ آپ کے لئے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن آپ شاید سوچیں کہ ”یہ تو یہودیوں کا تہوار ہے اور مَیں یہودی نہیں۔ پھر بھلا مجھے اُن کے تہوار میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟“ اِس سوال کا جواب ہمیں پولُس رسول کی اِس بات سے ملتا ہے: ”مسیح جو فسح کا برّہ ہے ہمارے لیے قربان ہو چُکا ہے۔“ (۱-کر ۵:۷، نیو اُردو بائبل ورشن) اِس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ عیدِفسح کیوں منائی جاتی تھی اور اِس کا مسیحیوں کو دئے گئے ایک حکم سے کیا تعلق ہے۔
عیدِفسح کیوں منائی جاتی تھی؟
۳، ۴. پہلی فسح سے کچھ دیر پہلے کونسے واقعات ہوئے؟
۳ پوری دُنیا میں کروڑوں غیریہودی لوگ اُن واقعات سے تھوڑا بہت واقف ہیں جو سب سے پہلی فسح سے کچھ دیر پہلے ہوئے تھے۔ شاید اُنہوں نے اِن کے بارے میں خروج کی کتاب میں پڑھا ہو یا شاید اِن کے متعلق کہانی سنی ہو یا پھر فلم دیکھی ہو۔
۴ بنیاِسرائیل ایک لمبے عرصے سے مصر میں غلام تھے۔ یہوواہ خدا نے موسیٰ اور اُن کے بھائی ہارون کو حکم دیا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں اور اُس سے کہیں کہ ”میرے لوگوں کو جانے دے۔“ لیکن فرعون بہت مغرور تھا۔ اُس نے بنیاِسرائیل کو جانے کی اِجازت نہیں دی۔ اِس پر یہوواہ خدا نے ملک مصر پر ایک کے بعد ایک ہولناک آفتیں نازل کیں۔ دسویں آفت یہ تھی کہ خدا نے مصریوں کے پہلوٹھوں کو ہلاک کر دیا۔ اِس سے خوفزدہ ہو کر فرعون نے اِسرائیلیوں کو آزاد کر دیا۔—خر ۱:۱۱؛ ۳:۹، ۱۰؛ ۵:۱، ۲؛ ۱۱:۱، ۵۔
۵. مصریوں سے رہائی پانے سے پہلے بنیاِسرائیل کو کیا کرنا تھا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
۵ مصریوں سے رہائی پانے سے پہلے بنیاِسرائیل کو کچھ خاص ہدایات پر عمل کرنا تھا۔ یہوواہ خدا نے یہ ہدایات ۱۵۱۳ قبلازمسیح کے موسم بہار میں ابیب کے مہینے میں دی تھیں۔ (ابیب کا نام بعد میں نیسان رکھا گیا۔)a یہوواہ خدا نے یہ حکم دیا کہ بنیاِسرائیل نیسان کی ۱۰ تاریخ سے ایک خاص واقعے کے لئے تیاری کرنا شروع کریں جو ۱۴ تاریخ کو ہوگا۔ چودہ تاریخ کا آغاز غروبِآفتاب سے ہوا کیونکہ یہودیوں کا دن ایک غروبِآفتاب سے لے کر اگلے غروبِآفتاب تک ہوتا تھا۔ یہوواہ خدا نے ہدایت کی کہ اِسرائیل کا ہر گھرانہ نیسان کی ۱۴ تاریخ کو بھیڑ یا بکری کا نر بچہ ذبح کرے اور اُس کے خون کو اپنے گھر کے ”دروازوں کے دونوں بازوؤں اور اُوپر کی چوکھٹ“ پر لگائے۔ (خر ۱۲:۳-۷، ۲۲، ۲۳) اُن سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ گوشت کو بھون کر بےخمیری روٹی اور کڑوے ساگپات کے ساتھ کھائیں۔ یہوواہ خدا نے فرمایا تھا کہ اُس کا فرشتہ مصریوں کے پہلوٹھوں کو ہلاک کرے گا مگر جو اِسرائیلی اُس کا حکم مانیں گے، وہ اِس ہلاکت سے بچ جائیں گے اور پھر آزاد ہو جائیں گے۔—خر ۱۲:۸-۱۳، ۲۹-۳۲۔
۶. بنیاِسرائیل ہر سال عیدِفسح کیوں مناتے تھے؟
۶ یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ بنیاِسرائیل اپنی آزادی کے دن کو یاد رکھیں۔ اُس نے اُن سے کہا: ”وہ دن تمہارے لئے ایک یادگار ہوگا اور تُم اُس کو [یہوواہ] کی عید کا دن سمجھ کر ماننا۔ تُم اُسے ہمیشہ کی رسم کرکے اُس دن کو نسلدرنسل عید کا دن ماننا۔“ چودہ نیسان کو عیدِفسح منانے کے بعد اگلے دن عیدِفطیر شروع ہو جاتی تھی جو سات دن تک رہتی تھی۔ اِن آٹھوں دنوں کو عیدِفسح کہا جاتا تھا حالانکہ عیدِفسح صرف ۱۴ نیسان کو ہی منائی جاتی تھی۔ (خر ۱۲:۱۴-۱۷؛ لو ۲۲:۱؛ یوح ۱۸:۲۸؛ ۱۹:۱۴) عیدِفسح اُن تقریبات میں سے ایک تھی جو بنیاِسرائیل ہر سال مناتے تھے۔—۲-توا ۸:۱۳۔
۷. یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری فسح منانے کے بعد کیا کِیا؟
۷ یسوع مسیح اور اُن کے رسول یہودی تھے اِس لئے وہ بھی موسیٰ کی شریعت کے مطابق عیدِفسح مناتے تھے۔ (متی ۲۶:۱۷-۱۹) یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری عیدِفسح منانے کے بعد ایک نئی تقریب قائم کی اور اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ ہر سال یہ تقریب منائیں۔ یہ یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب تھی۔ لیکن شاگردوں کو یہ تقریب کس تاریخ پر منانی تھی؟
مسیح کی یادگاری تقریب کب منائی جانی چاہئے؟
۸. عیدِفسح اور یسوع مسیح کی یادگاری تقریب کے حوالے سے کونسا سوال پیدا ہوتا ہے؟
۸ یسوع مسیح نے اپنی یادگاری تقریب عیدِفسح کے موقعے پر قائم کی تھی۔ اِس لئے یہ نئی تقریب اُسی دن منائی جانی چاہئے جس دن پر عیدِفسح منائی جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آجکل یہودی جس تاریخ پر عیدِفسح مناتے ہیں اور جس تاریخ پر ہم یسوع مسیح کی یادگاری تقریب مناتے ہیں، اُن میں ایک یا ایک سے زیادہ دنوں کا فرق ہو سکتا ہے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ اِس سلسلے میں غور کریں کہ یہوواہ خدا نے ۱۴ نیسان کو برّے کو ذبح کرنے کے وقت کے بارے میں کیا ہدایات دی تھیں۔—خروج ۱۲:۵، ۶ کو پڑھیں۔
۹. برّے کو ذبح کرنے کے وقت کے حوالے سے بنیاِسرائیل کو کیا ہدایت کی گئی تھی؟ (بکس ”فسح کی قربانی دن کے کس وقت کی جاتی تھی؟“ کو بھی دیکھیں۔)
۹ خروج ۱۲:۶ کے مطابق بنیاِسرائیل کو ہدایت کی گئی کہ وہ برّے کو ’شام کو ذبح کریں۔‘ بائبل کے کچھ اَور ترجموں میں ”شام“ کی بجائے ”غروبِآفتاب“ کا لفظ اِستعمال کِیا گیا ہے۔ لہٰذا بنیاِسرائیل کو ۱۴ نیسان کے شروع میں برّہ ذبح کرنا تھا یعنی اُس وقت جب سورج ڈوب چُکا ہوتا تھا مگر ابھی اندھیرا نہیں ہوتا تھا۔
۱۰. بعض عالموں کے مطابق فسح کی قربانی کب کی جاتی تھی؟ لیکن اِس سے کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟
۱۰ پہلے تو اِسرائیلی اپنے گھروں پر برّہ ذبح کرتے تھے۔ لیکن کافی عرصے بعد وہ برّوں کو ہیکل میں لا کر ذبح کرنے لگے۔ اِس میں کافی زیادہ وقت لگتا تھا۔ اِس لئے کچھ یہودی یہ سمجھنے لگے کہ خروج ۱۲:۶ میں ”شام“ کا لفظ ۱۴ نیسان کے آخر کی طرف اِشارہ کرتا ہے یعنی سہپہر سے غروبِآفتاب تک۔ لیکن اگر یہ بات درست ہے تو پھر فسح کا کھانا کب کھایا جاتا تھا؟ اِس سلسلے میں یہودی مذہب کے ماہر جوناتھن کلاونز نے کہا: ”نئے دن کا آغاز غروبِآفتاب سے ہوتا تھا۔ اِس لئے قربانی ۱۴ نیسان کو کی جاتی تھی۔ لیکن فسح کا کھانا ۱۵ نیسان کو کھایا جاتا تھا۔“ مگر اِس بات کی کوئی بھی شہادت خروج کی کتاب سے نہیں ملتی۔ جوناتھن کلاونز نے یہ بھی کہا: ”یہودی عالموں کی کتابوں . . . میں یہ نہیں بتایا گیا کہ [۷۰ء میں] ہیکل کی تباہی سے پہلے عیدِفسح کیسے منائی جاتی تھی۔“
۱۱. (الف) سن ۳۳ء کی عیدِفسح کے دن یسوع مسیح کے ساتھ کیا ہوا؟ (ب) سن ۳۳ء کی ۱۵ نیسان کو ”خاص“ سبت کیوں کہاں گیا ہے؟ (فٹنوٹ کو دیکھیں۔)
۱۱ یسوع مسیح نے ۳۳ء میں اپنے شاگردوں کے ساتھ فسح کا کھانا کب کھایا؟ چودہ نیسان شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے یسوع مسیح نے پطرس اور یوحنا سے کہا: ”جا کر ہمارے کھانے کے لئے فسح تیار کرو۔“ (لو ۲۲:۷، ۸) پھر ۱۴ نیسان کو غروبِآفتاب کے بعد فسح کا کھانا کھانے کا ”وقت ہو گیا“ جو جمعرات کی شام تھی۔ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اپنی موت کی یادگاری تقریب قائم کی۔ (لو ۲۲:۱۴، ۱۵) اُسی رات اُنہیں گِرفتار کر لیا گیا اور اُن پر مُقدمہ چلایا گیا۔ چودہ نیسان کو دوپہر کے وقت اُنہیں سُولی پر چڑھایا گیا اور سہپہر کے وقت اُنہوں نے اپنی جان دے دی۔ (یوح ۱۹:۱۴) لہٰذا ہمارا ”فسح کا برّہ“ یعنی مسیح اُسی دن پر قربان ہوا جس دن پر فسح کی قربانی دی جاتی تھی۔ (۱-کر ۵:۷، نیو اُردو بائبل ورشن؛ ۱۱:۲۳؛ متی ۲۶:۲) اِسی دن کے آخر پر یعنی ۱۵ نیسانb شروع ہونے سے پہلے یسوع مسیح کو دفن کر دیا گیا۔—احبا ۲۳:۵-۷؛ لو ۲۳:۵۴۔
ہم عیدِفسح سے کیا سیکھتے ہیں؟
۱۲، ۱۳. عیدِفسح بچوں کے لئے ایک یادگار موقع کیوں تھی؟
۱۲ ذرا مصر میں پہلی فسح کے موقعے پر دوبارہ غور کریں۔ موسیٰ نبی نے کہا تھا کہ بنیاِسرائیل اِس واقعے کو ہمیشہ یاد رکھنے کے لئے عیدِفسح منایا کریں گے۔ اِس موقعے پر بچے اپنے ماںباپ سے پوچھتے تھے کہ اِس عید کو منانے کا مقصد کیا ہے۔ (خروج ۱۲:۲۴-۲۷ کو پڑھیں؛ است ۶:۲۰-۲۳) لہٰذا عیدِفسح بچوں کے لئے بھی ایک ”یادگار“ موقع تھی جس پر وہ بہت کچھ سیکھ سکتے تھے۔—خر ۱۲:۱۴۔
۱۳ اِسرائیلی باپ نسلدرنسل اپنے بچوں کو عیدِفسح کے متعلق اہم باتیں سکھاتے تھے۔ مثال کے طور پر وہ اُنہیں سکھاتے تھے کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کی حفاظت کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ وہ حقیقی اور زندہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی فکر رکھتا ہے اور اُنہیں کسی بھی طرح کے نقصان سے بچا سکتا ہے۔ اُس نے ”مصریوں کو مارتے“ وقت بنیاِسرائیل کے پہلوٹھوں کی حفاظت کرکے یہ ثابت کر دِکھایا۔
۱۴. آجکل مسیحی والدین اپنے بچوں کو کونسی اہم بات سکھا سکتے ہیں؟
۱۴ اگر آپ کے بچے ہیں تو آپ اُنہیں ہر سال عیدِفسح کے بارے میں تو نہیں بتاتے ہوں گے۔ لیکن کیا آپ اُنہیں یہ سکھاتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کی حفاظت کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟ کیا آپ اپنی باتوں اور اپنے کاموں سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ کو پورا یقین ہے کہ یہوواہ حقیقی خدا ہے اور آج بھی اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے؟ (زبور ۲۷:۱۱؛ یسع ۱۲:۲) اِس موضوع پر بچوں کے سامنے محض تقریر نہ جھاڑیں۔ اِس کی بجائے روزمرہ باتچیت کے دوران اُنہیں خوشگوار انداز میں سکھانے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنے سے آپ یہوواہ خدا کے اَور قریب آنے میں اُن کی مدد کریں گے۔
۱۵، ۱۶. ہم خروج ۱۲ سے ۱۵ باب سے یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۵ پہلی فسح کے موقعے پر جو کچھ ہوا، اُس سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کی نہ صرف حفاظت کرنے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ وہ اُنہیں رہائی بھی دِلا سکتا ہے۔ وہ بنیاِسرائیل کو ’مصر سے نکال لایا۔‘ اُس نے اُنہیں چھڑانے کے لئے بڑے حیرتانگیز کام کئے۔ اُس نے بادل اور آگ کے ستون کے ذریعے اُن کی رہنمائی کی۔ بنیاِسرائیل بحرِقلزم کی خشک زمین سے ہو کر پار چلے گئے جبکہ پانی اُن کی دائیں اور بائیں طرف دیوار بن کر کھڑا رہا۔ بعد میں یہ پانی مصری فوج پر گِر پڑا اور اُسے غرق کر دیا۔ اِس پر بنیاِسرائیل نے یہوواہ خدا کی شان میں کہا: ”مَیں [یہوواہ] کی ثنا گاؤں گا . . .۔ اُس نے گھوڑے کو سوار سمیت سمندر میں ڈال دیا۔ [یاہ] میرا زور اور راگ ہے۔ وہی میری نجات بھی ٹھہرا۔“—خر ۱۳:۱۴، ۲۱، ۲۲؛ ۱۵:۱، ۲؛ زبور ۱۳۶:۱۱-۱۵۔
۱۶ اگر آپ کے بچے ہیں تو کیا آپ اُنہیں سکھاتے ہیں کہ وہ یہ بھروسا رکھیں کہ یہوواہ خدا اُنہیں نجات دے سکتا ہے؟ کیا وہ آپ کی باتوں اور فیصلوں سے یہ دیکھتے ہیں کہ آپ بھی اِس بات پر پورا ایمان رکھتے ہیں؟ آپ خاندانی عبادت کے دوران خروج ۱۲ سے ۱۵ باب پر باتچیت کر سکتے ہیں اور اِس بات کی اہمیت پر زور دے سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو نجات بخشنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِسی بات کو مزید واضح کرنے کے لئے آپ اپنے خاندان کے ساتھ اعمال ۷:۳۰-۳۶ یا دانیایل ۳:۱۶-۱۸، ۲۶-۲۸ میں درج واقعات پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ چاہے ہم بچے ہیں یا بڑے، ہمیں پورا بھروسا رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا ماضی کی طرح آئندہ بھی اپنے بندوں کی حفاظت کرے گا اور اُنہیں نجات بخشے گا۔—۱-تھسلنیکیوں ۱:۹، ۱۰ کو پڑھیں۔
عیدِفسح کے متعلق جاننے کی اہمیت
۱۷، ۱۸. یسوع مسیح کا خون فسح کے برّے کے خون سے زیادہ قیمتی کیوں ہے؟
۱۷ سچے مسیحی عیدِفسح نہیں مناتے۔ اِس تہوار کو منانے کا حکم موسیٰ کی شریعت میں دیا گیا تھا اور ہم اِس شریعت کے ماتحت نہیں ہیں۔ (روم ۱۰:۴؛ کل ۲:۱۳-۱۶) اِس کی بجائے ہم خدا کے بیٹے یسوع مسیح کی یادگاری تقریب مناتے ہیں۔ پھر بھی عیدِفسح کی بعض خصوصیات ہمارے لئے اہمیت رکھتی ہیں۔
۱۸ برّے کا خون دروازوں کے بازوؤں اور چوکھٹ پر لگانے سے بنیاِسرائیل کے پہلوٹھوں کی جان بچ گئی۔ آجکل ہم عیدِفسح کے دن یا کسی اَور دن پر جانوروں کی قربانیاں نہیں دیتے۔ لیکن ایک قربانی اِن سے کہیں بڑی ہے جس کی بدولت ہمیں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید ملی ہے۔ پولُس رسول نے ”اُن پہلوٹھوں کی عام جماعت یعنی کلیسیا“ کا ذکر کِیا ”جن کے نام آسمان پر لکھے ہیں۔“ اِن ممسوح مسیحیوں کو ”چھڑکاؤ کے . . . خون“ یعنی یسوع مسیح کے خون کی بدولت آسمان پر ہمیشہ کی زندگی ملتی ہے۔ (عبر ۱۲:۲۳، ۲۴) باقی مسیحی بھی اِسی خون کی بدولت زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ اُنہیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے: ”ہم کو [مسیح] . . . کے خون کے وسیلہ سے مخلصی یعنی قصوروں کی معافی اُس کے . . . فضل کی دولت کے موافق حاصل ہے۔“—افس ۱:۷۔
۱۹. (الف) یسوع مسیح کو سُولی پر چڑھانے کے بعد اُن کے ساتھ کیا نہیں کِیا گیا تھا؟ (ب) اِس سے بائبل میں درج پیشگوئیوں پر ہمارا اِعتماد کیسے مضبوط ہوتا ہے؟
۱۹ بنیاِسرائیل کو یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ جب وہ برّہ ذبح کریں تو اُس کی ہڈیاں نہ توڑیں۔ (خر ۱۲:۴۶؛ گن ۹:۱۱، ۱۲) کیا ’خدا کے برّے‘ یعنی یسوع مسیح کی کوئی ہڈی توڑی گئی تھی؟ (یوح ۱:۲۹) اُنہیں دو ڈاکوؤں کے درمیان سُولی پر چڑھایا گیا تھا۔ یہودیوں نے پیلاطُس سے کہا کہ سُولی پر چڑھائے جانے والوں کی ہڈیاں توڑی جائیں تاکہ وہ جلدی مر جائیں اور اُن کی لاشیں ۱۵ نیسان یعنی خاص سبت کے دن تک لٹکی نہ رہیں۔ سپاہیوں نے دونوں ڈاکوؤں کی ٹانگیں توڑیں ”لیکن جب اُنہوں نے یسوؔع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چُکا ہے تو اُس کی ٹانگیں نہ توڑیں۔“ (یوح ۱۹:۳۱-۳۴) فسح پر قربان کئے جانے والے برّے کی ٹانگیں بھی نہیں توڑی گئی تھیں۔ اِس لحاظ سے یہ برّہ، یسوع مسیح کی قربانی کا ”عکس“ تھا جو ۳۳ء میں ۱۴ نیسان کو پیش کی گئی۔ (عبر ۱۰:۱) اِس کے علاوہ یسوع مسیح کی ہڈیاں نہ توڑنے سے زبور ۳۴:۲۰ میں درج بات بھی پوری ہوئی۔ اِس سے بائبل کی پیشگوئیوں پر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔
۲۰. عیدِفسح اور یسوع مسیح کی یادگاری تقریب میں ایک اہم فرق کیا ہے؟
۲۰ عیدِفسح اور یسوع مسیح کی یادگاری تقریب میں کچھ فرق ہیں۔ اِس لئے عیدِفسح یسوع مسیح کی یادگاری تقریب کا عکس نہیں۔ مصر میں بنیاِسرائیل نے جو برّے قربان کئے، اُن کا گوشت اُنہوں نے کھایا لیکن خون نہیں۔ یہ بات یسوع مسیح کی اُن ہدایات سے فرق ہے جو اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو دی تھیں۔ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”خدا کی بادشاہی میں“ حکمرانی کرنے والے لوگ وہ روٹی کھائیں گے اور وہ مے پئیں گے جو اُن کے بدن اور خون کی طرف اِشارہ کرتی ہیں۔ اگلے مضمون میں ہم اِس بات پر مزید غور کریں گے۔—مر ۱۴:۲۲-۲۵۔
۲۱. عیدِفسح کے بارے میں جاننا کیوں فائدہمند ہے؟
۲۱ بےشک عیدِفسح خدا کے لوگوں کی تاریخ کا ایک اہم موقع تھی۔ اِس سے ہم بھی بہت اہم باتیں سیکھتے ہیں۔ فسح کا موقع یہودیوں کے لئے یادگار تھا اور اُنہیں اِسے ہر سال منانا تھا۔ لیکن مسیحی اِسے منانے کے پابند نہیں ہیں۔ پھر بھی ہمیں اِس کے بارے میں جاننا چاہئے اور اُن باتوں کی قدر کرنی چاہئے جو ہم اِس واقعے سے سیکھتے ہیں کیونکہ یہ باتیں اُن صحیفوں کا حصہ ہیں ”جو خدا کے اِلہام“ سے ہیں۔—۲-تیم ۳:۱۶۔
a یہودی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ابیب کہلاتا تھا۔ لیکن بابل میں جلاوطنی سے واپس آنے کے بعد بنیاِسرائیل نے اِس مہینے کا نام نیسان رکھا۔ اِس مضمون میں ہم یہی نام اِستعمال کریں گے۔
b عیدِفسح کا اگلا دن یعنی ۱۵ نیسان، عیدِفطیر کا پہلا دن ہوتا تھا۔ یہ ہمیشہ سبت ہوتا تھا، چاہے وہ کوئی سا بھی دن ہو۔ سن ۳۳ء میں ۱۵ نیسان عام سبت (یعنی ہفتے) کا دن بھی تھی۔ اِس سال چونکہ دونوں سبت اِسی تاریخ پر آئے اِس لئے اِسے ”خاص“ سبت کہا گیا ہے۔—یوحنا ۱۹:۳۱، ۴۲ کو پڑھیں۔