یہوواہ کو اسکے کلام کے ذریعے جانیں
”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایواحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔“—یوحنا ۱۷:۳۔
۱، ۲. (ا) جیسے کہ یہ صحائف میں استعمال ہوئے ہیں لفظ ”علم“ اور ”جاننا“ کے کیا معنی ہیں؟ (ب) کونسی مثالیں اس مفہوم کی وضاحت کرتی ہیں؟
کسی کو محض واقفکار کے طور پر جاننا یا کسی چیز کا سطحی طور پر علم رکھنا ”جاننا“ اور ”علم“ کے الفاظ کے معنی میں کم رہ جاتا ہے جیسے کہ صحائف میں استعمال ہوئے ہیں۔ بائبل میں اس میں ”تجربے کے ذریعے جاننے کا عمل“ شامل ہے، ایک علم جو ”اشخاص کے مابین تعلق“ کو ظاہر کرتا ہے۔ (دی نیو انٹرنیشنل ڈکشنری آف نیو ٹسٹامنٹ تھیالوجی) اس میں یہوواہ کو اسکے مخصوص کاموں پر توجہ دینے سے جاننا شامل ہے، جیسے کہ حزقیایل کی کتاب میں وہ بہت سے معاملات جہاں پر خدا نے یہ اعلان کرتے ہوئے خطاکاروں کو عدالتی سزائیں دیں: ”اور وہ جانیں گے کہ خداوند میں ہوں۔“—حزقیایل ۳۸:۲۳، NW۔
۲ مختلف طریقے جنکے تحت الفاظ ”جاننا“ اور ”علم“ استعمال کئے جا سکتے ہیں انہیں چند مثالوں کے ذریعے واضح کیا جا سکتا ہے۔ اسکے نام سے عمل کرنے والے بہتیرے دعویداروں سے یسوع نے کہا، ”میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی،“ اسکا مطلب تھا کہ اسکا انکے ساتھ کبھی کوئی سروکار نہ تھا۔ (متی ۷:۲۳) دوسرا کرنتھیوں ۵:۲۱ کہتی ہے کہ مسیح ”گناہ سے واقف نہ تھا۔“ اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ گناہ سے متعلق کوئی آگاہی نہ رکھتا تھا بلکہ، اسکی بجائے، وہ اسکے ساتھ کوئی ذاتی الجھاؤ نہ رکھتا تھا۔ اسی طرح سے جب یسوع نے کہا: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایواحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں،“ تو اس میں خدا اور مسیح کی بابت محض جاننے سے زیادہ کچھ شامل تھا۔—مقابلہ کریں متی ۷:۲۱۔
۳. کیا چیز ثابت کرتی ہے کہ یہوواہ سچے خدا کی شناخت کرانے والے نشان ظاہر کرتا ہے؟
۳ یہوواہ کی بہت ساری صفات کو اسکے کلام، بائبل کے ذریعے جانا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک درستی کے ساتھ پیشینگوئی کرنے کی اسکی لیاقت ہے۔ یہ سچے خدا کا ایک نشان ہے: ”وہ انکو حاضر کریں تاکہ وہ ہم کو ہونے والی چیزوں کی خبر دیں۔ ہم سے اگلی باتیں بیان کرو کہ کیا تھیں تاکہ ہم ان پر سوچیں اور انکے انجام کو سمجھیں یا آیندہ کو ہونے والی باتوں سے ہم کو آگاہ کرو۔ بتاؤ کہ آگے کو کیا ہوگا تاکہ ہم جانیں کہ تم الہ ہو۔“ (یسعیاہ ۴۱:۲۲، ۲۳) اپنے کلام میں، یہوواہ زمین اور اس پر کی زندگی کی تخلیق کے متعلق اگلی چیزوں کو بیان کرتا ہے۔ اس نے بہت پہلے ہونے والی باتوں کو بیان کیا اور بعد میں ویسے ہی واقع ہوا۔ اور اب بھی وہ ”آیندہ کو ہونے والی باتوں سے ہم کو آگاہ [کرتا]،“ ہے خاص طور پر ان ”آخری ایام“ میں واقع ہونے والی باتیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۵، ۱۳، پیدایش ۱:۱-۳۰، یسعیاہ ۵۳:۱-۱۲، دانیایل ۸:۳-۱۲، ۲۰-۲۵، متی ۲۴:۳-۲۱، مکاشفہ ۶:۱-۸، ۱۱:۱۸۔
۴. یہوواہ نے قدرت کی اپنی صفت کو کیسے استعمال کیا ہے، اور وہ پھر بھی اسے کیسے استعمال کریگا؟
۴ یہوواہ کی ایک اور صفت قدرت ہے۔ یہ آسمانوں سے عیاں ہے جہاں پر ستارے پگھلانے والی بھٹیوں کی طرح کام کرتے ہوئے روشنی اور تپش دیتے ہیں۔ جب سرکش انسان اور فرشتے یہوواہ کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہیں تو وہ ”صاحبجنگ“ کے طور پر اپنے نیکنام اور راست معیاروں کا دفاع کرتے ہوئے اپنی قوت کا استعمال کرتا ہے۔ ایسے مواقع پر قوت کو تباہکن طور پر کام میں لانے کیلئے وہ ہچکچاتا نہیں، جیسے نوح کے دنوں کے طوفان میں، سدوم اور عمورہ کی تباہی میں، اور بحرقلزم سے اسرائیل کی رہائی میں۔ (خروج ۱۵:۳-۷، پیدایش ۷:۱۱، ۱۲، ۲۴، ۱۹:۲۴، ۲۵) جلد ہی، خدا ”شیطان کو تمہارے پاؤں سے ... کچلوا [دینے]“ کیلئے اپنی قوت کو استعمال کریگا۔—رومیوں ۱۶:۲۰۔
۵. قدرت کے ساتھ ساتھ، یہوواہ اور کس خوبی کا مالک ہے؟
۵ تاہم، اس تمام لامحدود قوت کے ساتھ فروتنی بھی ہے۔ زبور ۱۸:۳۵، ۳۶ [NW] کہتی ہیں: ”تیری فروتنی مجھے بزرگ بنائے گی۔ تو میرے قدموں کے نیچے کی جگہ کو ہموار کریگا۔“ خدا کی فروتنی اسے [”انکساری سے آسمانوزمین پر نظر کرنے اور مسکین کو خاک سے اٹھانے،“ [NW] کا موقع دیتی ہے، اور وہ محتاج کو مزبلہ پر سے اٹھا لیتا ہے۔“—زبور ۱۱۳:۶، ۷۔
۶. یہوواہ کی کونسی خوبی زندگی بچانے والی ہے؟
۶ یہوواہ کا رحم انسان کے ساتھ برتاؤ کرنے میں زندگی بچانے والا ہے۔ منسی کے ساتھ کیا ہی رحم دکھایا گیا تھا، جب اسے معاف کر دیا گیا تھا اگرچہ وہ بھیانک مظالم ڈھا چکا تھا! یہوواہ کہتا ہے: ”جب [میں] شریر سے کہوں تو یقیناً مریگا اگر وہ اپنے گناہ سے باز آئے اور وہی کرے جو جائزوروا ہے۔ جو گناہ اس نے کئے ہیں اسکے خلاف محسوب نہ ہونگے۔ اس نے وہی کیا جو جائزوروا ہے۔ وہ یقیناً زندہ رہیگا۔“ (حزقیایل ۳۳: ۱۴، ۱۶، ۲-تواریخ ۳۳:۱-۶، ۱۰-۱۳) یسوع یہوواہ کو منعکس کر رہا تھا جب اس نے ستتر بار، حتی کہ ایک ہی دن میں ۷ بار معاف کرنے کی تلقین کی!—زبور ۱۰۳:۸-۱۴، متی ۱۸:۲۱، ۲۲، لوقا ۱۷:۴۔
احساسات رکھنے والا خدا
۷. یہوواہ یونانی دیوتاؤں سے کس طرح مختلف ہے، اور ہمارے لئے کونسا بیشقیمت استحقاق کھلا ہے؟
۷ یونانی فلاسفر، جیسے کہ اپکوری، دیوتاؤں کو ماننے والے تھے لیکن انہوں نے ان کو انسان میں کوئی دلچسپی لینے یا اسکے احساسات سے متاثر ہونے کیلئے زمین سے بہت دور ہوتے ہوئے خیال کیا۔ یہوواہ اور اسکے وفادار گواہوں کے مابین رشتے سے کتنا مختلف! ”خداوند اپنے لوگوں سے خوشنود رہتا ہے۔“ (زبور ۱۴۹:۴) طوفان سے پہلے شریر لوگوں نے اسے ملول کیا اور اس نے ”دل میں غم کیا۔“ اسرائیل نے اپنی بےوفائی سے یہوواہ کو بہت دکھ اور رنج پہنچایا۔ مسیحی اپنی نافرمانی سے یہوواہ کی روح کو رنجیدہ کر سکتے ہیں، تاہم اپنی وفاداری سے، وہ اسے خوشی دے سکتے ہیں۔ یہ سوچنا کتنا حیرتانگیز ہے کہ زمین پر کا ادنی انسان کائنات کے خالق کو رنجیدہ اور خوش کر سکتا ہے! اس سب کے پیشنظر جو وہ ہمارے لئے کرتا ہے، یہ کتنا حیرتانگیز ہے کہ ہمارے پاس اس کو خوشی دینے کا بیشقیمت استحقاق ہے!—پیدایش ۶:۶، زبور ۷۸:۴۰، ۴۱، امثال ۲۷:۱۱، یسعیاہ ۶۳:۱۰، افسیوں ۴:۳۰۔
۸. ابرہام نے یہوواہ کے ساتھ کلام کرنے کی اپنی آزادی کو کیسے استعمال کیا؟
۸ خدا کا کلام ظاہر کرتا ہے کہ یہوواہ کی محبت ہمیں بڑی [”گفتگو کی آزادی،“ NW] کی اجازت دیتی ہے۔ (۱-یوحنا ۴:۱۷) جب یہوواہ سدوم کو برباد کرنے کیلئے آیا تو ابرہام کے معاملے پر غور کریں۔ ابرہام نے یہوواہ سے کہا: ”کیا تو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کریگا؟ شاید اس شہر میں پچاس راستباز ہوں۔ کیا تو اسے ہلاک کریگا اور ان پچاس راستبازوں کی خاطر جو اس میں ہوں اس مقام کو نہ چھوڑیگا؟ ... یہ تجھ سے بعید ہے۔ کیا تمام دنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کریگا؟“ خدا سے کہنے کیلئے کیسی باتیں! تاہم یہوواہ سدوم کو بچانے کیلئے رضامند تھا اگر ۵۰ راستباز وہاں ہوتے۔ ابرہام نے بات جاری رکھی اور تعداد کو ۵۰ سے گھٹا کر ۲۰ پر لے آیا۔ اسے تشویش ہوئی کہ شاید وہ حد سے زیادہ اصرار کر رہا ہے۔ اس نے کہا: ”خداوند ناراض نہ ہو تو میں ایک بار اور کچھ عرض کروں۔ شاید وہاں دس ملیں۔“ پھر یہوواہ رعایت دے دیتا ہے: ”میں دس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کرونگا۔“—پیدایش ۱۸:۲۳-۳۳۔
۹. یہوواہ نے ابرہام کو جیسے اس نے کلام کیا کیوں اسکی اجازت دی، اور ہم اس سے کیا سیکھتے ہیں؟
۹ یہوواہ نے ابرہام کو اس طریقے سے کلام کرنے کیلئے ایسی آزادی کی اجازت کیوں دی؟ ایک بات تو یہ تھی کہ یہوواہ ابرہام کے مغموم احساسات سے آگاہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ابرہام کا بھتیجا لوط سدوم میں رہتا تھا، اور ابرہام اسکی سلامتی کی بابت فکرمند تھا۔ اور ابرہام خدا کا دوست بھی تھا۔ (یعقوب ۲:۲۳) جب کوئی ہم سے کرخت لہجے میں بات کرتا ہے تو کیا ہم اسکی باتوں کے پیچھے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نرمی کرنے کی گنجائش رکھتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ ایک دوست ہے جو کسی قسم کے جذباتی دباؤ کے تحت ہے؟ کیا یہ سمجھنا اطمینانبخش نہیں ہے کہ یہوواہ کلام کرنے کی ہماری آزادی کا پاس رکھے گا جیسے ابرہام کا رکھا تھا؟
۱۰. کلام کرنے کی آزادی دعا میں ہماری مدد کس طرح کرتی ہے؟
۱۰ بالخصوص جس وقت ہم ”دعا کے سننے والے“ کے طور پر اسکے طالب ہوتے ہیں تو کیا ہم اسکے سامنے اپنی جان کو انڈیل دینے کیلئے کلام کرنے کی اس آزادی کے آرزومند ہوتے ہیں، جب ہم جذباتی طور پر غم سے پاگل اور رنجیدہ ہوتے ہیں۔ (زبور ۵۱:۱۷، ۶۵:۲، ۳) ایسے اوقات میں بھی جب لفظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے تو ”روح خود ایسی آہیں بھر بھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے جنکا بیان نہیں ہو سکتا،“ اور یہوواہ سنتا ہے۔ وہ ہمارے خیالات معلوم کر سکتا ہے: ”تو میرے خیال کو دور سے سمجھ لیتا ہے۔ دیکھ! میری زبان پر کوئی ایسی بات نہیں جسے تو اے خداوند! پورے طور پر نہ جانتا ہو۔“ پھر بھی، ہمیں مانگتے، ڈھونڈتے، کھٹکھٹاتے رہنا چاہیے۔—رومیوں ۸:۲۶، زبور ۱۳۹:۲، ۴، متی ۷:۷، ۸۔
۱۱. یہ کیسے ظاہر کیا گیا ہے کہ یہوواہ واقعی ہماری پرواہ کرتا ہے؟
۱۱ یہوواہ پرواہ کرتا ہے۔ وہ اس زندگی کیلئے فراہم کرتا ہے جسے اس نے خلق کیا۔ ”سب کی آنکھیں تجھ پر لگی ہیں۔ تو انکو وقت پر انکی خوراک دیتا ہے۔ تو اپنی مٹھی کھولتا ہے اور ہر جاندار کی خواہش پوری کرتا ہے۔“ (زبور ۱۴۵:۱۵، ۱۶) ہمیں یہ دیکھنے کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ کیسے جھاڑیوں پر پرندوں کو خوراک دیتا ہے۔ جنگلی سوسن کو دیکھیں، کہ وہ انہیں کس خوبصورتی سے ملبس کرتا ہے۔ یسوع نے اضافہ کیا کہ خدا جتنا ان کیلئے کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ ہمارے لئے کریگا۔ اسلئے ہم فکرمند کیوں ہوں؟ (استثنا ۳۲:۱۰، متی ۶:۲۶-۳۲، ۱۰:۲۹-۳۱) پہلا پطرس ۵:۷ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ”اپنی ساری فکر اسی پر ڈال دو کیونکہ اسکو تمہاری فکر ہے۔“
”اسکی ذات کا نقش“
۱۲، ۱۳. یہوواہ کو اسکی تخلیق اور بائبل میں قلمبند اسکے کاموں کے ذریعے سمجھنے کے علاوہ، ہم اور کس طرح اسے دیکھنے اور سننے کے قابل ہیں؟
۱۲ ہم یہوواہ خدا کو اسکی تخلیق کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں، ہم بائبل میں اسکے کاموں کی بابت پڑھنے سے اسے دیکھ سکتے ہیں، ہم یسوع مسیح کی بابت قلمبند کاموں اور باتوں کے ذریعے بھی اسے دیکھ سکتے ہیں۔ یوحنا ۱۲:۴۵ میں یسوع خود ایسے کہتا ہے: ”جو مجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتا ہے۔“ پھر، یوحنا ۱۴:۹ میں: ”جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا۔“ کلسیوں ۱:۱۵ کہتی ہے: ”[یسوع] اندیکھے خدا کی صورت ... ہے۔“ عبرانیوں ۱:۳ بیان کرتی ہے: ”[یسوع خدا] کے جلال کا پرتو اور اسکی ذات کا نقش ... ہے۔“
۱۳ یہوواہ نے اپنے بیٹے کو نہ صرف فدیہ مہیا کرنے کیلئے بلکہ ایک ایسا نمونہ قائم کرنے کیلئے بھی بھیجا، جسکی قول اور فعل دونوں میں نقل کی جائے۔ یسوع نے خدا کی باتیں بتائیں۔ اس نے یوحنا ۱۲:۵۰ میں کہا: ”پس جو کچھ میں کہتا ہوں جس طرح باپ نے مجھ سے فرمایا ہے اسی طرح کہتا ہوں۔“ اس نے اپنی طرف سے کوئی کام نہ کیا بلکہ اس نے وہی کام کئے جو اسکے باپ نے اسے بتائے تھے۔ یوحنا ۵:۳۰ میں اس نے کہا: ”میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا۔“—یوحنا ۶:۳۸۔
۱۴. (ا) کونسے مناظر نے یسوع کو ترس کھانے کی تحریک دی؟ (ب) یسوع کا کلام کرنے کا طریقہ لوگوں کے اسکے پاس جوقدرجوق چلے آنے کا سبب کیوں بنا؟
۱۴ یسوع نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو کوڑھی، اپاہج، بہرے، اندھے، اور آسیبزدہ تھے اور جو اپنے مردوں کے لئے ماتم کرتے تھے۔ اس نے ترس کھا کر بیماروں کو شفا دی اور مردوں کو زندہ کیا۔ اس نے ہجوم دیکھے جو روحانی طور پر خستہحال اور پراگندہ تھے، اور اس نے انہیں بہت سی باتیں سکھانا شروع کیں۔ اس نے نہ صرف صحیح الفاظ کے ساتھ تعلیم دی بلکہ اپنے دل سے دلکش الفاظ سے بھی جو براہراست دوسروں کے دل میں اتر گئے، جو انہیں اسکی طرف کھینچ لائے، جو انہیں اسکی سننے کیلئے صبح سویرے ہیکل میں لے آئے، جو انکے لئے اسکے پیچھے پیچھے چلنے اور خوشی کے ساتھ اسکی بات سننے کا سبب بنے۔ وہ اسکی باتیں سننے کیلئے اسکے پاس جوقدرجوق جمع ہو گئے، یہ کہتے ہوئے کہ ”انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کیا۔“ وہ تعلیم دینے کے اسکے طریقے سے حیران تھے۔ (یوحنا ۷:۴۶، متی ۷:۲۸، ۲۹، مرقس ۱۱:۱۸، ۱۲:۳۷، لوقا ۴:۲۲، ۱۹:۴۸، ۲۱:۳۸) اور جب اسکے دشمنوں نے اسے سوالوں سے پھنسانے کی کوشش کی تو اس نے انہیں ان کی باتوں ہی میں پھنسا کر چپ کرا دیا۔—متی ۲۲:۴۱-۴۶، مرقس ۱۲:۳۴، لوقا ۲۰:۴۰۔
۱۵. یسوع کی منادی کا مرکزی موضوع کیا تھا، اور اسکو پھیلانے کیلئے اس نے دوسروں کو کس حد تک اس میں شامل کیا؟
۱۵ اس نے اعلان کیا کہ ”آسمان کی بادشاہی نزدیک آ [چکی] ہے“ اور سامعین کو تلقین کی ”پہلے بادشاہی کی تلاش“ کرتے رہیں۔ یہ منادی کرنے کیلئے کہ ”آسمان کی بادشاہی نزدیک آ [چکی] ہے، ”سب قوموں کو شاگرد [بنانے]“ کیلئے، اور ”زمین کی انتہا تک“ مسیح کے گواہ ہونے کیلئے اس نے دوسروں کو بھیجا۔ آجکل تقریباً ساڑھے چار ملین یہوواہ کے گواہ ان کاموں کو کرتے ہوئے اسکے نقوشقدم پر چل رہے ہیں۔—متی ۴:۱۷، ۶:۳۳، ۱۰:۷، ۲۸:۱۹، اعمال ۱:۸۔
۱۶. یہوواہ کی محبت کی صفت کو شدید آزمائش میں کس طرح ڈالا گیا تھا، لیکن اس نے بنیآدم کیلئے کیا کام انجام دیا؟
۱۶ ہمیں ۱-یوحنا ۴:۸ میں بتایا گیا ہے کہ ”خدا محبت ہے۔“ اسکی اس نمایاں صفت کو نہایت ہی سخت قابلتصور امتحان میں ڈالا گیا تھا جب اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو زمین پر مرنے کیلئے بھیجا۔ اگرچہ یسوع نے شیطان کے چیلنج کو غلط ثابت کیا کہ یہوواہ زمین پر ایسے لوگ نہیں رکھ سکتا تھا جو سخت آزمائش کے تحت اسکے لئے اپنی راستی پر قائم نہیں رہیں گے، تو بھی جو شدید اذیت اس کے عزیز بیٹے نے اٹھائی اور التجائیں جو اس نے اپنے باپ سے کیں، یہوواہ کیلئے بڑے دکھ اور رنج کا سبب بنی ہونگی۔ ہمیں یسوع کی قربانی کی اہمیت کی بھی قدر کرنی چاہیے، کیونکہ خدا نے اسے ہماری خاطر مرنے کیلئے یہاں زمین پر بھیجا۔ (یوحنا ۳:۱۶) یہ کوئی آسان اور فوری موت نہ تھی۔ خدا اور یسوع دونوں کیلئے لاگت کی قدر کرنے اور یوں ہمارے لئے انکی قربانی کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے، آئیے ہم واقعات کے بائبل ریکارڈ کا جائزہ لیں۔
۱۷-۱۹. یسوع نے اپنے اوپر آنے والی کڑی آزمائش کو کیسے بیان کیا؟
۱۷ کمازکم چار مرتبہ، یسوع نے اپنے رسولوں سے بیان کیا کہ آئندہ کیا ہونے والا تھا۔ اسکے واقع ہونے سے صرف چند دن پہلے، اس نے کہا: ”دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور ابنآدم سردار کاہنوں اور فقیہوں کے حوالہ کیا جائیگا اور وہ اسکے قتل کا حکم دینگے اور اسے غیرقوموں کے حوالہ کرینگے۔ اور وہ اسے ٹھٹھوں میں اڑائینگے اور اس پر تھوکینگے اور اسے کوڑے مارینگے اور قتل کرینگے۔“—مرقس ۱۰:۳۳، ۳۴۔
۱۸ رومی کوڑوں کی اذیت کے خوف کو سمجھتے ہوئے، جو کچھ یسوع کے سامنے آنے والا تھا، اس نے اسکا دباؤ محسوس کیا۔ چمڑے کی پٹیوں کے کوڑے جو کوڑے مارنے کیلئے استعمال ہوتی تھیں، ان میں دھات اور بھیڑ کی ہڈیوں کے ٹکڑے لگے ہوتے تھے، اس طرح جب کوڑے مارنے کا عمل جاری رہتا تو کمر اور ٹانگوں کی کھال ادھڑنے پر خون رسنے لگتا۔ مہینوں پہلے، یسوع نے یہ کہتے ہوئے، اس جذباتی دباؤ کو ظاہر کیا جو آنے والی کڑی آزمائش اسکے لئے پیدا کر رہی تھی، جیسے کہ ہم لوقا ۱۲:۵۰ میں پڑھتے ہیں: ”لیکن مجھے ایک بپتسمہ لینا ہے اور جب تک وہ نہ ہو لے میں بہت ہی تنگ رہونگا!“
۱۹ جب وقت نزدیک آیا تو دباؤ بڑھ گیا۔ اس نے اسکی بابت اپنے آسمانی باپ سے کلام کیا: ”اب میری جان گھبراتی ہے۔ پس میں کیا کہوں؟ اے باپ! مجھے اس گھڑی سے بچا لیکن میں اسی سبب سے تو اس گھڑی کو پہنچا ہوں۔“ (یوحنا ۱۲:۲۷) یہوواہ اپنے اکلوتے بیٹے کی اس التجا سے کتنا متاثر ہوا ہوگا! گتسمنی میں، اپنی موت سے کچھ گھنٹے پہلے، یسوع بہت بیقرار ہوا اور پطرس، یعقوب، اور یوحنا سے کہا: ”میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔“ اسکے تھوڑی دیر بعد اس نے یہوواہ سے اس مضمون کی دعا کی: ”اے باپ اگر تو چاہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے تو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو۔ پھر وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہو کر اور بھی دلسوزی سے دعا کرنے لگا اور اسکا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہو کر زمین پر ٹپکتا تھا۔“ (متی ۲۶:۳۸، لوقا ۲۲:۴۲، ۴۴) یہ جسے طبی طور پر ہیماٹیڈروسز کہتے ہیں، ہو سکتا تھا۔ ایسے شاذونادر ہی ہوتا ہے لیکن نہایت ہی جذباتی حالتوں میں واقع ہو سکتا ہے۔
۲۰. اپنی کڑی آزمائش سے کامیابی کے ساتھ نکلنے میں کس چیز نے یسوع کی مدد کی؟
۲۰ گتسمنی میں اس وقت کی بابت عبرانیوں ۵:۷ کہتی ہے: ”اس نے اپنی بشریت کے دنوں میں زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر اسی سے دعائیں اور التجائیں کیں جو اسکو موت سے بچا سکتا تھا اور خداترسی کے سبب سے اسکی سنی گئی۔“ چونکہ ”جو اسکو موت سے بچا سکتا تھا“ اسکے ذریعے اسے موت سے بچایا نہیں گیا تھا، تو خداترسی کے سبب سے کس مفہوم میں اسکی دعا سنی گئی تھی؟ لوقا ۲۲:۴۳ جواب دیتی ہے: ”آسمان سے ایک فرشتہ اسکو دکھائی دیا۔ وہ اسے تقویت دیتا تھا۔“ دعا اسطرح سنی گئی تھی کہ جس فرشتے کو خدا نے بھیجا اس نے یسوع کو آزمائش کے تحت برداشت کرنے کیلئے تقویت دی۔
۲۱. (ا) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ یسوع کڑی آزمائش سے سرخرو نکلا تھا؟ (ب) جب ہماری آزمائشیں شدت اختیار کرتی ہیں تو ہم کس طرح سے کلام کرنے کے قابل ہونا چاہینگے؟
۲۱ نتیجے سے یہ عیاں تھا۔ جب اسکی اندرونی کشمکش ختم ہو گئی، تو یسوع اٹھا اور پطرس، یعقوب، اور یوحنا کے پاس پھر گیا اور کہا: ”اٹھو چلیں۔“ (مرقس ۱۴:۴۲) حقیقت میں وہ کہہ رہا تھا، ”مجھے ایک بوسے سے فریب کھانے دو، ہجوم کے ذریعے گرفتار ہونے، غیرقانونی طور پر مقدمہ چلنے، غلط طور پر سزا پانے دو۔ مجھے ٹھٹھوں میں اڑائے جانے، تھوکے جانے، کوڑے مارے جانے، اور دکھ کی سولی پر لٹکائے جانے کیلئے جانے دو۔“ چھ گھنٹوں تک وہ سخت تکلیف میں، وہاں لٹکا رہا، اور آخر تک برداشت کیا۔ جب اس نے جان دی تو وہ فاتحانہ انداز میں پکار اٹھا: ”تمام ہوا!“ (یوحنا ۱۹:۳۰) وہ ثابتقدم رہا تھا اور یہوواہ کی حاکمیت کو سربلند رکھنے میں اپنی راستی ثابت کر چکا تھا۔ یہوواہ نے جو کام کرنے کیلئے اسے زمین پر بھیجا تھا وہ اسے تمام کر چکا تھا۔ جب ہم مرتے ہیں یا جب ہرمجدون آتی ہے تو کیا ہم بھی یہوواہ کی طرف سے اپنے کام کے متعلق یہ کہنے کا قابل ہونگے: ”تمام ہوا“؟
۲۲. یہوواہ کے علم کے پھیلاؤ کی حد کو کیا چیز ظاہر کرتی ہے؟
۲۲ بہرصورت، ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ جلد آنے والے یہوواہ کے معین وقت میں، ”جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اسی طرح زمین خداوند کے عرفان سے معمور ہوگی۔“—یسعیاہ ۱۱:۹۔ (۱۳ ۶/۱۵ w۹۳)
کیا آپکو یاد ہے؟
▫ جاننے اور علم رکھنے کا کیا مطلب ہے؟
▫ ہمارے لئے یہوواہ کے کلام میں اسکا رحم اور معافی کیسے دکھائی گئی ہے؟
▫ ابرہام نے یہوواہ کے ساتھ کلام کرنے کی آزادی کو کیسے استعمال کیا؟
▫ ہم کیوں یسوع پر نظر کر سکتے اور اس میں یہوواہ کی خوبیوں کو دیکھ سکتے ہیں؟