یہوواہ کا کلام زندہ ہے
سموئیل کی دوسری کتاب سے اہم نکات
کیا یہوواہ خدا کو کائنات کے حاکمِاعلیٰ کے طور پر تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ ہم غلطیاں نہیں کرینگے؟ کیا ایک شخص جو خدا کا وفادار ہے ہمیشہ صحیح روش کو اختیار کریگا؟ کس قسم کے لوگ یہوواہ ”کے دل کے مطابق“ ہوتے ہیں؟ (۱-سموئیل ۱۳:۱۴) سموئیل کی دوسری کتاب میں ہمیں ان سوالوں کے جواب ملتے ہیں۔
ناتن نبی اور جاد نبی نے سموئیل کی دوسری کتاب تحریر کی۔a دونوں نبی بادشاہ داؤد کے قریبی ساتھی تھے۔ سموئیل کی دوسری کتاب داؤد کے ۴۰ سالہ دورِحکومت کے آخر میں تقریباً ۱۰۴۰ ق.س.ع. میں مکمل ہوئی۔ اس کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ داؤد کی یہوواہ خدا کیساتھ کتنی قریبی دوستی تھی۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس بہادر بادشاہ نے اسرائیل کی منقسم قوم کو کیسے متحد کِیا۔ اس داستان میں انسانی جذبات اور احساسات کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں کو بڑے دلکش انداز میں بیان کِیا گیا ہے۔
”داؤد بڑھتا ہی گیا“
(۲-سموئیل ۱:۱–۱۰:۱۹)
ساؤل اور یونتن کی موت کی خبر داؤد تک پہنچتی ہے۔ اس خبر پر اُسکے ردِعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُسے ان دونوں اور یہوواہ خدا سے کتنا پیار تھا۔ حبرون میں داؤد کو یہوداہ کے قبیلے کے بادشاہ کے طور پر مقرر کِیا جاتا ہے جبکہ باقی اسرائیل پر ساؤل کا بیٹا اِشبوست حکومت کرتا ہے۔ داؤد کا اختیار ”بڑھتا ہی“ جاتا ہے۔ پھر ساڑھے سات سال بعد اُسکو تمام اسرائیلیوں کا بادشاہ بنا دیا جاتا ہے۔—۲-سموئیل ۵:۱۰۔
داؤد یبوسیوں کے شہر یروشلیم کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور اسے اپنا دارالحکومت بنا لیتا ہے۔ جب وہ عہد کے صندوق کو یروشلیم لانے کی کوشش کرتا ہے تو ایک ہولناک حادثہ پیش آتا ہے۔ آخرکار جب صندوق یروشلیم میں پہنچ جاتا ہے تو داؤد خوشی کے مارے ناچتا ہے۔ یہوواہ داؤد کیساتھ ایک عہد باندھتا ہے کہ اُسکی بادشاہت ہمیشہ تک قائم رہیگی۔ خدا کی مدد سے داؤد چاروں طرف اپنے دُشمنوں کو شکست دیتا ہے۔
صحیفائی سوالوں کے جواب:
۲:۱۸—یوآب اور اسکے دو بھائی اپنی ماں کے نام سے ’ضرویاہ کے بیٹے‘ کیوں کہلائے؟ عبرانی صحائف میں عام طور پر بیٹے اپنے باپ کے نام سے کہلاتے تھے۔ شاید ضرویاہ کا شوہر مر چکا تھا یا کسی نہ کسی وجہ سے اُسکے نام کو پاک صحائف میں شامل کرنے کو نامناسب سمجھا جاتا تھا۔ یا پھر ضرویاہ کا نام اسلئے بیان کِیا گیا ہے کیونکہ وہ داؤد کی بہن تھی۔ (۱-تواریخ ۲:۱۵، ۱۶) تینوں بھائیوں کے باپ کا ذکر صرف اُسکی قبر کے سلسلے میں ہوا ہے جو بیتلحم میں واقع تھی۔—۲-سموئیل ۲:۳۲۔
۵:۱، ۲—اِشبوست کے قتل ہونے کے بعد داؤد کو تمام اسرائیل کا بادشاہ بننے میں کتنا وقت گزرا؟ غالباً اِشبوست اپنے باپ ساؤل کی موت کے تھوڑے ہی عرصے بعد بادشاہ بنا اور داؤد نے بھی تقریباً اُسی وقت حبرون میں تخت سنبھالا تھا۔ اِشبوست کی حکمرانی محض دو سال تک قائم رہی۔ داؤد ساڑھے سات سال تک حبرون میں یہوداہ کے قبیلے پر حکمرانی کرتا رہا۔ یروشلیم منتقل ہونے سے تھوڑے عرصے پہلے ہی اُسے تمام اسرائیل کا بادشاہ بنایا گیا تھا۔ لہٰذا ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ داؤد اِشبوست کی موت کے تقریباً پانچ سال بعد تمام اسرائیل کا بادشاہ بنا۔—۲-سموئیل ۲:۳، ۴، ۸-۱۱؛ ۵:۴، ۵۔
۸:۲—اس موقع پر داؤد نے کتنے موآبیوں کو مار ڈالا تھا؟ سپاہیوں کی تعداد گننے کی بجائے انکے لشکر کا ناپ لیا گیا۔ داؤد نے دُشمنوں کو ایک قطار میں زمین پر لٹا دیا۔ پھر اُس نے اس قطار کو رسی سے ناپا۔ دو رسیوں کی لمبائی تک اُس نے موآبیوں کو مار ڈالا اور ایک رسی کی لمبائی تک اُس نے انہیں جیتا چھوڑا۔ اسکا مطلب ہے کہ موآبیوں کی کُل تعداد کا ایک تہائی حصہ زندہ بچ گیا۔
ہمارے لئے سبق:
۲:۱؛ ۵:۱۹، ۲۳۔ حبرون منتقل ہونے اور فلستیوں پر حملہ کرنے سے پہلے داؤد نے یہوواہ کی ہدایت لی۔ جب ہمیں ایک ایسا فیصلہ کرنا ہے جسکا ہماری روحانیت پر اثر پڑ سکتا ہے تو ہمیں یہوواہ کی ہدایت ضرور لینی چاہئے۔
۳:۲۶-۳۰۔ بدلہ لینے کے نتائج اکثر بُرے ہوتے ہیں۔—رومیوں ۱۲:۱۷-۱۹۔
۳:۳۱-۳۴؛ ۴:۹-۱۲۔ داؤد نے نہ تو بدلہ لیا اور نہ ہی اپنے دل میں نفرت پیدا ہونے دی۔ ہمارے لئے کیا ہی عمدہ مثال!
۵:۱۲۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ ہی ہمیں اُسکی راہ پر چلنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اُسی نے ہمارے لئے راہ ہموار کی ہے تاکہ ہم اُسکے دوست بن سکیں۔
۶:۱-۷۔ جب داؤد نے یہوواہ کے صندوق کو گاڑی میں لیجانے کی کوشش کی تو اُسکی نیت نیک ضرور تھی لیکن پھربھی اُس نے ایسا کرنے میں خدا کے حکموں کی خلافورزی کی۔ (خروج ۲۵:۱۳، ۱۴؛ گنتی ۴:۱۵، ۱۹؛ ۷:۷-۹) عزہ نے صندوق کو تھام لینے میں بھی خدا کے حکم کی خلافورزی کی۔ حالانکہ اُسکی نیت بُری نہیں تھی پھربھی اُسے سزا ملی۔
۶:۸، ۹۔ داؤد اس آزمائش پر پہلے تو ناراض ہوا اور پھر اُسے یہوواہ سے ڈر لگنے لگا۔ شاید اُس نے یہوواہ ہی کو اس حادثے کیلئے قصوروار ٹھہرایا۔ اگر ہم یہوواہ کی ہدایت کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے کسی مشکل میں پڑ جاتے ہیں تو ہمیں کبھی اُس پر الزام نہیں لگانا چاہئے۔
۷:۱۸، ۲۲، ۲۳، ۲۶۔ داؤد نے اپنے دل میں فروتنی پیدا کی، اُس نے دلوجان سے یہوواہ ہی کی عبادت کی اور خدا کے نام کی بڑائی بھی کی۔ ایسا کرنے میں اُس نے ہمارے لئے ایک اچھی مثال قائم کی۔
۸:۲۔ ایسا کرنے میں داؤد نے ایک پیشینگوئی پوری کی جو تقریباً ۴۰۰ سال پہلے دی گئی تھی۔ (گنتی ۲۴:۱۷) یہوواہ کا کلام ہمیشہ سچ ثابت ہوتا ہے۔
۹:۱، ۶، ۷۔ داؤد نے اپنا وعدہ نبھایا اور ہمیں بھی ایسا کرنا چاہئے۔
یہوواہ داؤد کے خلاف شر اُٹھاتا ہے
(۲-سموئیل ۱۱:۱–۲۰:۲۶)
یہوواہ داؤد سے کہتا ہے: ”دیکھ مَیں شر کو تیرے ہی گھر سے تیرے خلاف اُٹھاؤنگا اور مَیں تیری بیویوں کو لیکر تیری آنکھوں کے سامنے تیرے ہمسایہ کو دونگا اور وہ دن دہاڑے تیری بیویوں سے صحبت کریگا۔“ (۲-سموئیل ۱۲:۱۱) یہوواہ داؤد پر یہ سب کچھ کیوں لانے والا ہے؟ کیونکہ اُس نے بتسبع کیساتھ زِنا کِیا ہے۔ اگرچہ داؤد اپنے اس سنگین گُناہ پر تائب ہے لیکن اُسکو اپنے بُرے کاموں کے نتائج ضرور بھگتنے پڑینگے۔
پہلے تو بتسبع کا بچہ مر جاتا ہے۔ پھر داؤد کا بیٹا امنون اپنی سوتیلی بہن تمر کی عزت لُوٹ لیتا ہے۔ تمر کا سگا بھائی ابیسلوم بدلے میں امنون کو قتل کرتا ہے۔ پھر ابیسلوم اپنے باپ کے خلاف سازش کرتا ہے اور حبرون میں خود کو بادشاہ بنا لیتا ہے۔ اسلئے داؤد اپنی حرموں کو یروشلیم میں چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ ابیسلوم ان حرموں سے صحبت کرتا ہے۔ آخرکار جب ابیسلوم کو قتل کِیا جاتا ہے تو داؤد یروشلیم واپس لوٹتا ہے۔ سبع نامی ایک بنیمینی بغاوت کرتا ہے لیکن وہ مار ڈالا جاتا ہے۔
صحیفائی سوالوں کے جواب:
۱۴:۷—اِس آیت میں جس ”انگارے“ کا ذکر ہوا ہے یہ کیا ہے؟ یہاں لفظ انگارے کسی شخص کی زندہ اولاد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
۱۹:۲۹—داؤد نے مفیبوست کی بات سُن کر ایسا ردِعمل کیوں دکھایا؟ مفیبوست کی بات سُن کر داؤد کو احساس ہوا کہ اُس نے ضیبا کی بات کو بغیر ثبوت کے ماننے سے غلطی کی ہے۔ (۲-سموئیل ۱۶:۱-۴؛ ۱۹:۲۴-۲۸) اسلئے داؤد جھنجھلا کر اس معاملے کو جلدی ختم کرنا چاہتا تھا۔
ہمارے لئے سبق:
۱۱:۲-۱۵۔ داؤد کی غلطیوں کو صاف صاف بیان کِیا گیا ہے۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ بائبل واقعی خدا کا الہامی کلام ہے۔
۱۱:۱۶-۲۷۔ جب ہم کوئی سنگین گُناہ کرتے ہیں تو داؤد کی طرح ہمیں اِسے چھپانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اسکی بجائے ہمیں یہوواہ سے اپنے گُناہ کا اقرار کرنا چاہئے اور کلیسیا کے بزرگوں کی مدد حاصل کرنی چاہئے۔—امثال ۲۸:۱۳؛ یعقوب ۵:۱۳-۱۶۔
۱۲:۱-۱۴۔ ناتن نے کلیسیا کے بزرگوں کیلئے ایک عمدہ نمونہ قائم کِیا ہے۔ انکو کلیسیا میں گُناہ کرنے والوں کو صحیح راہ پر واپس لانے کی ذمہداری سونپی گئی ہے۔ اِس ذمہداری کو نبھانے کیلئے بزرگوں کو بڑی نرمی اور سمجھداری سے کام لینا پڑتا ہے۔
۱۲:۱۵-۲۳۔ داؤد سمجھتا تھا کہ اُس پر یہ مصیبت کیوں آن پڑی ہے اسلئے اُس نے اس بُرے وقت میں صحیح ردِعمل دکھایا۔
۱۵:۱۲؛ ۱۶:۱۵، ۲۱، ۲۳۔ جب ایسا لگا کہ ابیسلوم جلد ہی بادشاہ بننے والا ہے تو مغرور مشیر اخیتفل شہرت حاصل کرنے کی غرض سے غدار بن گیا۔ اخیتفل کی طرح اگر ایک بہت ذہین شخص خود میں فروتنی اور وفاداری کی خوبیاں پیدا نہیں کرتا تو اُسکی ذہانت اُسکے لئے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔
۱۹:۲۴، ۳۰۔ مفیبوست نے داؤد کی شفقت کی بہت قدر کی۔ اُس نے ضیبا کے متعلق داؤد کے فیصلے کو خوشی سے قبول کر لیا۔ اگر ہم یہوواہ اور اُسکی تنظیم کی قدر کرتے ہیں تو ہم بھی تابعداری ظاہر کرینگے۔
۲۰:۲۱، ۲۲۔ ایک ہی شخص کی دانشمندی بہت سے لوگوں کو مصیبت سے چھڑا سکتی ہے۔—واعظ ۹:۱۴، ۱۵۔
’ہم یہوواہ کے ہاتھ میں پڑیں‘
(۲-سموئیل ۲۱:۱–۲۴:۲۵)
ساؤل نے جبعونیوں کا خون کِیا تھا۔ اسلئے داؤد کے دورِحکومت میں تین سال تک مُلک میں خشکسالی رہتی ہے۔ (یشوع ۹:۱۵) جبعونی اِس خونریزی کے بدلے میں ساؤل کے سات بیٹوں کو مار ڈالنا چاہتے ہیں اسلئے داؤد ان ساتوں کو جبعونیوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اِسکے بعد مینہ برسنے لگتا ہے۔ پھر چار قدآور فلستی ”داؔؤد کے ہاتھ سے اور اُس کے خادموں کے ہاتھ سے مارے“ جاتے ہیں۔—۲-سموئیل ۲۱:۲۲۔
داؤد خدا کی مرضی کی خلافورزی کرتے ہوئے مردمشماری کرواتا ہے۔ وہ اِس گُناہ پر تائب ہوتا ہے اور انسان کے ہاتھ میں پڑنے کی بجائے ’یہوواہ کے ہاتھ میں پڑنے‘ کا انتخاب کرتا ہے۔ (۲-سموئیل ۲۴:۱۴) اسکے نتیجے میں خدا وبا بھیجتا ہے جسکی وجہ سے ۷۰،۰۰۰ اسرائیلی مر جاتے ہیں۔ جب داؤد خدا کے حکم پر پورا اُترتا ہے تو وبا تھم جاتی ہے۔
صحیفائی سوالوں کے جواب:
۲۱:۸—اِس آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ میکل مرتے دم تک بےاولاد رہی۔ پھر ۲-سموئیل ۶:۲۳ میں کیوں کہا گیا ہے کہ اُسکے پانچ بیٹے تھے؟ ہو سکتا ہے کہ یہ میکل کی بہن میرب جو عدریایل کی بیوی تھی، اُسکے بیٹے تھے۔ شاید میرب مر چکی تھی اور میکل نے اسکے لڑکوں کو پالا تھا۔
۲۱:۹، ۱۰—رِصفہ کتنی دیر تک ساؤل کے دو بیٹوں اور پانچ پوتوں کی لاشوں کے پاس رہی؟ ان ساتوں کو ”جَو کی فصل کے شروع کے دنوں میں“ یعنی مارچ یا اپریل کے مہینے میں پھانسی دی گئی تھی۔ انکی لاشوں کو ایک پہاڑ پر چھوڑ دیا گیا۔ رِصفہ دنرات ان لاشوں کے پاس رہی جبتک یہوواہ نے مینہ برسانے کے ذریعے یہ ظاہر نہ کر دیا کہ اُسکا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ عام طور پر اسرائیل میں پوری فصل کی کٹائی تک یعنی اکتوبر کے مہینے تک کوئی سخت بارش نہیں پڑتی ہے۔ لہٰذا رِصفہ پانچ چھ ماہ تک اپنے بیٹوں کی لاشوں کے پاس رہی ہوگی۔ اسکے بعد داؤد نے اُنکی ہڈیوں کو دفنا دیا۔
۲۴:۱b—یہوواہ نے داؤد کے حکم پر ہونے والی مردمشماری کو ایک سنگین گُناہ کیوں قرار دیا؟ موسیٰ کی شریعت کے مطابق مردمشماری کرنا بذاتخود کوئی گُناہ نہیں تھا۔ (گنتی ۱:۱-۳؛ ۲۶:۱-۴) دراصل بائبل میں یہ نہیں کہا گیا کہ داؤد لوگوں کی تعداد کیوں دریافت کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ۱-تواریخ ۲۱:۱ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان ہی نے داؤد کو ایسا کرنے کیلئے اُبھارا۔ بہرحال داؤد کا سپہسالار یوآب جانتا تھا کہ یہ مردمشماری ناجائز تھی اور اُس نے داؤد کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش بھی کی۔
ہمارے لئے سبق:
۲۲:۲-۵۱۔ داؤد نے اِس گیت میں بڑے خوبصورت انداز میں سچے خدا یہوواہ پر اپنے بھروسے کا اظہار کِیا۔
۲۳:۱۵-۱۷۔ داؤد کو خون اور زندگی کے متعلق خدا کے قانون کا بہت احترام تھا۔ اسلئے وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتا تھا جو اس قانون کی خلافورزی کرنے کے برابر ہوتا۔ ہمیں بھی یہوواہ کے قوانین کو اس قدر اہم خیال کرنا چاہئے۔
۲۴:۱۰۔ داؤد نے اپنے ضمیر کی آواز پر کان لگا کر اپنے گُناہ سے توبہ کی۔ کیا آپکا ضمیر بھی آپکو ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے؟
۲۴:۱۴۔ داؤد کو خوب معلوم تھا کہ انسان کی نسبت یہوواہ زیادہ رحیم ہے۔ کیا آپ بھی اس بات کو مانتے ہیں؟
۲۴:۱۷۔ جب داؤد کے گُناہ کی وجہ سے پوری قوم کو نقصان پہنچا تو وہ اس بات پر بہت دُکھی ہوا۔ اگر ایک شخص اپنے گُناہ پر واقعی توبہ کرتا ہے تو وہ بھی اس بات سے دُکھی ہوگا کہ اُس نے کلیسیا کو بدنام کِیا ہے۔
آپ بھی ’یہوواہ کے دل کے مطابق‘ ہو سکتے ہیں
اسرائیل کے دوسرے بادشاہ داؤد نے ثابت کِیا کہ وہ واقعی ’یہوواہ کے دل کے مطابق‘ تھا۔ (۱-سموئیل ۱۳:۱۴) اُس نے کبھی یہوواہ کی حاکمیت اور اُسکے معیاروں کو ردّ نہیں کِیا۔ جتنی بار بھی داؤد نے گُناہ کِیا تھا اُس نے ہمیشہ اپنی غلطی کو تسلیم کِیا۔ پھر اُس نے اصلاح پر عمل کرکے اپنی غلط روش کو ترک کر دیا۔ داؤد وفادار رہا۔ جب ہم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو ہمیں داؤد کے نمونے پر عمل کرنا چاہئے۔
داؤد کی زندگی سے ہم ایک بہت اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ یہوواہ کے معیاروں پر چلنے اور اُس کے وفادار رہنے سے ہی ہم ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم اُسکی حاکمیت کو قبول کر رہے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک اس روش کو اختیار کرنے کے قابل ہے۔ جیہاں، سموئیل کی دوسری کتاب پر غور کرنے سے ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ یہ کتاب اس بات کا بھی ثبوت پیش کرتی ہے کہ خدا کا کلام زندہ اور مؤثر ہے۔—عبرانیوں ۴:۱۲۔
[فٹنوٹ]
a حالانکہ سموئیل نے اس کتاب کو نہیں لکھا تھا پھربھی یہ اُسکے نام سے کہلاتی ہے۔ جن کتابوں کو آج ہم سموئیل کی پہلی اور دوسری کتاب کہتے ہیں شروع میں یہ ایک ہی کتاب تھی اور اسکے پہلے حصے کو سموئیل ہی نے لکھا تھا۔
b نیو ورلڈ ٹرانسلیشن میں اِس آیت کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے: ”اِسکے بعد یہوواہ کا غصہ اسرائیل پر پھر بھڑکا جب کسی نے داؤد کے دل کو اُنکے خلاف یہ کہہ کر اُبھارا کہ جا کر اسرائیل اور یہوداہ کو گن۔“
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
داؤد نے تسلیم کِیا کہ اُسکی بادشاہت کو خدا نے ہی کامیاب بنایا تھا
[صفحہ ۱۸ پر تصویریں]
”دیکھ مَیں شر کو تیرے ہی گھر سے تیرے خلاف اُٹھاؤنگا“
بتسبع
تمر
امنون