کیا یہ کتاب سائنس سے متفق ہے؟
مذہب نے سائنس کو کبھی بھی اپنا دوست خیال نہیں کِیا۔ گزشتہ صدیوں میں بعض مذہبی علماء نے جب یہ محسوس کِیا کہ سائنسی دریافتیں اُنکی بائبل کی تاویل کیلئے خطرہ ہیں تو اُنہوں نے اُن کی مخالفت کی۔ لیکن کیا سائنس واقعی بائبل کی دشمن ہے؟
اگر بائبل ئنن نے اپنے زمانے کے مقبول سائنسی نظریات کی تصدیق کی ہوتی تو نتیجہ واضح سائنسی غلطیوں سے پُر ایک کتاب ہوتی۔ تاہم ئنن نے ایسے غیرسائنسی غلط نظریات کو فروغ نہ دیا۔ اِس کے برعکس، اُنہوں نے کئی ایک ایسے بیانات قلمبند کئے جو نہ صرف سائنسی اعتبار سے درست ہیں بلکہ اُس زمانے کی مقبول آراء کی براہِراست تردید بھی کرتے تھے۔
زمین کی شکل کیسی ہے؟
اِس سوال نے ہزاروں سال سے انسانوں کو اُلجھن میں ڈال رکھا ہے۔ قدیم زمانوں میں عام نظریہ تھا کہ زمین چپٹی ہے۔ مثال کے طور پر، بابلی مانتے تھے کہ کائنات ایک بکس یا ایک کمرے کی مانند ہے اور زمین اِسکا فرش ہے۔ انڈیا کے ویدانتی علماء کا تصور تھا کہ زمین چپٹی ہے اور یہ کہ اُسکا صرف ایک حصہ آباد ہے۔ ایشیا میں ایک قدیمی قبیلے نے زمین کو چائے کی ایک بڑی ٹرے کی مانند تصور کِیا تھا۔
چھٹی صدی ق.س.ع. میں ہی، یونانی مفکر فیثاغورث نے نظریہ پیش کِیا کہ چونکہ چاند اور سورج کُروی ہیں لہٰذا زمین کو بھی ایک کُرہ ہی ہونا چاہئے۔ ارسطو (چوتھی صدی ق.س.ع.) نے یہ وضاحت کرتے ہوئے بعدازاں اس بات سے اتفاق کِیا کہ زمین کا کُروی ہونا چاند گرہنوں سے ثابت ہوتا ہے۔ چاند پر زمین کا عکس خمدار ہوتا ہے۔
تاہم، زمین کے چپٹا ہونے (بشمول اِسکی بالائی طرف آبادی) کا نظریہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تھا۔ بعض گول زمین کے منطقی نتیجے—اینٹیپوڈز [کُرے پر دو بالمقابل نقطے] کے نظریے—کو تسلیم نہ کر سکے۔a چوتھی صدی س.ع. میں مسیحی ایمان کے معتقد، لاکٹنٹیاس نے اِس نظریے کا تمسخر اُڑایا۔ اُس نے دلیل پیش کی: ”کیا کوئی اتنا احمق ہے کہ یہ یقین کرے کہ ایسے انسان ہیں کہ جنکے پیر اُن کے سروں سے زیادہ بلند ہیں؟ . . . یہ کہ فصلیں اور درخت نیچے کی طرف بڑھتے ہیں؟ یہ کہ بارش اور برف اور اولے اُوپر کی طرف گرتے ہیں؟“2
اینٹیپوڈز کے نظریے نے چند مذہبی علماء کے لئے ایک مشکل پیدا کر دی۔ بعض نظریات اس بات پر قائم تھے کہ اگر کوئی اینٹیپوڈینز [زمین کی دوسری طرف آباد لوگ] تھے تو وہ موجود انسانوں کے ساتھ ناقابلِعبور وسیع سمندر یا خطاستوا کے چوگرد ناقابلِعبور منطقۂحارّہ کی وجہ سے کوئی ممکنہ رابطہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ پس اینٹیپوڈینز کہاں سے آ سکتے ہیں؟ حیرتزدہ، بعض مذہبی علماء نے اِس یقین کو ترجیح دی کہ کوئی اینٹیپوڈینز نہیں ہو سکتے یا جیسےکہ لاکٹنٹیاس نے بھی بحث کی، پہلی بات تو یہ ہے کہ زمین کُروی ہو ہی نہیں سکتی!
تاہم، کُروی زمین کا نظریہ حاوی ہو گیا اور بالآخر یہ مقبولِعام ہو گیا۔ تاہم، ۲۰ویں صدی میں خلائی دَور کے آغاز کیساتھ ہی انسانوں کیلئے یہ ممکن ہوا ہے کہ خلا میں اتنی دُور جاکر براہِراست مشاہدے سے اس بات کی تصدیق کریں کہ زمین گول ہے۔b
نیز اِس سلسلے میں بائبل کا کیا مؤقف ہے؟ آٹھویں صدی ق.س.ع. میں جب یہ نظریہ عام تھا کہ زمین چپٹی ہے، یونانی مفکرین کی طرف سے زمین کے کُروی ہونے کا امکانی نظریہ پیش کرنے سے صدیوں پہلے اور انسان کے زمین کو خلا سے ایک کُرے کے طور پر دیکھنے سے ہزاروں سال پہلے، عبرانی نبی یسعیاہ نے غیرمعمولی سادگی کیساتھ بیان کِیا: ”وہ مُحیط زمین پر بیٹھا ہے۔“ (یسعیاہ ۴۰:۲۲) عبرانی لفظ چُگ جسکا ترجمہ یہاں ”محیط“ کِیا گیا ہے، اِسکا ترجمہ ”کُرہ“3 بھی کِیا جا سکتا ہے۔ دوسرے بائبل ترجمے ”کُرہارض“ (ڈوئے ورشن) اور ”گول زمین“ (موفٹ) کہتے ہیں۔c
بائبل نویس یسعیاہ نے زمین کی بابت عام باطل نظریات سے گریز کِیا۔ اِسکی بجائے، اُس نے ایک ایسی بات قلمبند کی جسکو سائنسی دریافت کی پیشرفتوں سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔
کونسی چیز زمین کو تھامے ہوئے ہے؟
قدیم وقتوں میں، انسان نظامِکائنات کی بابت دیگر سوالات سے بھی پریشان تھے: زمین کس چیز پر قائم ہے؟ کیا چیز سورج، چاند اور ستاروں کو اُوپر تھامے ہوئے ہے؟ اُنہیں ہمہگیر کششِاتصال کے قانون کا کوئی علم نہیں تھا جسے آئزک نیوٹن نے وضع کِیا اور ۱۶۸۷ میں شائع کِیا۔ وہ اس نظریے سے ناواقف تھے کہ اجرامِفلکی درحقیقت، خالی فضا میں بغیر کسی سہارے کے مُعلّق ہیں۔ لہٰذا، اُنکی تشریحات نے اکثر اشارہ دیا کہ مادّی اشیاء یا مادّے زمین اور دیگر اجرامِفلکی کو اُوپر اُٹھائے رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر، ایک قدیم نظریہ تھا کہ زمین کے چاروں طرف پانی ہے اور یہ اُن پانیوں پر تیرتی ہے، جسکی ابتدا شاید اُن لوگوں سے ہوئی تھی جو کسی جزیرے پر رہتے تھے۔ ہندو سمجھتے تھے کہ زمین کی ایک کے اُوپر ایک کئی بنیادیں ہیں۔ یہ چار ہاتھیوں پر کھڑی ہے، ہاتھی ایک بہت بڑے کچھوے پر کھڑے ہیں، کچھوا ایک بہت ہی بڑے سانپ پر کھڑا ہے اور سانپ کنڈل مارے عالمگیر پانیوں پر تیرتا ہے۔ پانچویں صدی ق.س.ع. کے یونانی مفکر، ایمیڈاکلس کا یقین تھا کہ زمین ایک گردباد پر ٹکی ہوئی ہے اور یہی گردباد اجرامِفلکی کی حرکت کا سبب تھا۔
اِن ذیاثر نظریات میں سب سے زیادہ اثرآفریں نظریات ارسطو کے تھے۔ اگرچہ اُس نے نظریہ پیش کِیا کہ زمین گول ہے تو بھی اُس نے اِس کے خالی فضا میں مُعلّق ہونے سے انکار کِیا۔ زمین کے پانی پر ٹھہرنے کے نظریے کو غلط ثابت کرتے ہوئے، اپنے مقالے آن دی ہیونز میں اُس نے کہا: ”زمین کی طرح پانی بھی فضا میں ٹھہرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا: اِس کے ٹکنے کے لئے ضرور کوئی چیز ہونی چاہئے۔“4 پس، زمین کس چیز پر ”ٹکی“ ہوئی ہے؟ ارسطو نے سکھایا کہ سورج، چاند اور ستارے ٹھوس، شفاف کُرہنما چیزوں کی سطح سے جڑے ہوئے تھے۔ کُرہ ایک کُرے کے اندر، زمین کے ساتھ، آسانی سے سما جاتا ہے جو مرکز میں غیرمتحرک ہے۔ جب کُرے ایک دوسرے کے اندر گھومتے ہیں تو اُن کے اُوپر کی اشیاء—سورج، چاند اور سیّارے—آسمان کے آرپار حرکت کرتے ہیں۔
ارسطو کی تشریح منطقی معلوم ہوئی۔ اگر اجرامِفلکی مضبوطی سے کسی چیز سے جڑے ہوئے نہیں تھے توپھر وہ اُوپر کیسے قائم رہ سکتے تھے؟ محترم ارسطو کے نظریات کو کوئی ۲،۰۰۰ سال تک حقیقت تسلیم کِیا جاتا رہا۔ دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق، ۱۶ویں اور ۱۷ویں صدیوں میں اُسکی تعلیمات نے چرچ کی نظر میں ”مذہبی عقیدے کا درجہ حاصل کر لیا۔“5
دُوربین کی ایجاد کیساتھ ہی، ہیئتدانوں نے ارسطو کے نظریے پر اعتراض اُٹھانا شروع کر دیا۔ تاہم، جواب نے اُنہیں اس وقت تک مغالطے میں رکھا جبتک سر آئزک نیوٹن نے وضاحت نہ کی کہ سیّارے خالی فضا میں مُعلّق ہیں، اپنے مدار پر ایک نادیدنی قوت—کششِثقل کی بدولت قائم ہیں۔ یہ ناقابلِیقین دکھائی دیا اور نیوٹن کے بعض رفقاء نے بھی اِسے تسلیم کرنا مشکل پایا کہ فضا خالی، بڑی حد تک کسی چیز کے بغیر ہو سکتی ہے۔d6
بائبل اِس سوال کی بابت کیا کہتی ہے؟ تقریباً ۳،۵۰۰ سال پہلے، بائبل نے غیرمعمولی وضاحت کیساتھ بیان کِیا کہ زمین ”خلا“ میں مُعلّق ہے۔ (ایوب ۲۶:۷) اصل عبرانی میں یہاں ”خلا“ کیلئے استعمال ہونے والا لفظ (بیلیماہ) ہے جسکا لفظی مطلب ہے ”کسی چیز کے بغیر۔“7 دی کنٹمپوریری انگلش ورشن ”خالی فضا میں“ کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔
تاہم، اُس زمانے کے لوگ کسی بھی طرح زمین کو ”خالی فضا میں“ مُعلّق سیّارہ خیال نہیں کرتے تھے۔ تاہم، اُسکے زمانے سے کہیں پہلے، بائبل نویس نے ایک بیان ریکارڈ کِیا جو سائنسی اعتبار سے درست ہے۔
بائبل اور طبّی سائنس—کیا وہ متفق ہیں؟
جدید طبّی سائنس نے ہمیں بیماری کے پھیلاؤ اور اسکی روکتھام کی بابت بہت کچھ سکھایا ہے۔ ۱۹ویں صدی میں طبّی میدان میں پیشرفتیں اینٹیسیپسس—صفائی کے ذریعے وبائی امراض کی روکتھام—کو متعارف کرانے کا سبب بنیں۔ نتیجہ ڈرامائی تھا۔ متعدی امراض اور غیرطبعی اموات میں معنیخیز کمی واقع ہوئی تھی۔
تاہم، قدیمی طبیب، پوری طرح یہ نہیں سمجھتے تھے کہ بیماری کیسے پھیلتی ہے، نہ ہی اُنہوں نے بیماری کو روکنے کیلئے صفائی کی اہمیت کو محسوس کِیا۔ اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اُنکے متعدد طبّی طریقے جدید معیاروں کے اعتبار سے احمقانہ دکھائی دیتے ہیں۔
قدیمترین طبّی تحریروں میں سے ایک جو دستیاب ہے وہ تقریباً ۱۵۵۰ ق.س.ع. کے زمانے کی ایبرس پائپرس ہے جو مصری علمِطب کی تالیف ہے۔ یہ طومار ”مگرمچھ کے کاٹنے سے لیکر پاؤں کی انگلی کے ناخن کی درد تک“ مختلف بیماریوں کیلئے کوئی ۷۰۰ علاجمعالجوں پر مشتمل ہے۔8 دی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ بائبل انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”اِن طبیبوں کا علمِطب سراسر تجربے پر مبنی تھا جو بڑی حد تک جادُوئی اور بالکل غیرسائنسی تھا۔“9 بیشتر علاج بالکل غیرمؤثر بلکہ بعض انتہائی خطرناک تھے۔ کسی زخم کے علاج کیلئے، ایک نسخے نے انسانی فضلے کو دیگر اشیاء کیساتھ ملا کر لیپ کرنے کی سفارش کی۔10
مصری طبّی علاجمعالجوں کی یہ کتاب تقریباً اُسی زمانے میں لکھی گئی تھی جس وقت کہ بائبل کی ابتدائی کتابیں لکھی گئیں، جن میں موسوی شریعت شامل ہے۔ موسیٰ جس کی ولادت ۱۵۹۳ ق.س.ع. میں ہوئی، اُس نے مصر میں پرورش پائی۔ (خروج ۲:۱-۱۰) فرعون کے گھرانے کے ایک فرد کے طور پر، اُس نے ”مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی“ تھی۔ (اعمال ۷:۲۲) وہ مصر کے ”طبیبوں“ سے واقف تھا۔ (پیدایش ۵۰:۱-۳) کیا اُن کے غیرمؤثر یا خطرناک طبّی طریقۂکار نے اُس کی تحریروں کو متاثر کِیا؟
ہرگز نہیں۔ اِسکے برعکس، موسوی شریعت میں صفائی کے ایسے ضوابط شامل تھے جو اُن کے زمانے پر سبقت رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر، لشکرگاہوں کے سلسلے میں ایک قانون نے فضلے کو خیمہگاہ سے دُور دبانے کا تقاضا کِیا۔ (استثنا ۲۳:۱۳) یہ نہایت ہی جدید احتیاطی تدبیر تھی۔ اِس عمل نے پانی کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھنے میں مدد دی اور مکھی سے پیدا ہونے والے پیچش اور دیگر اسہالی بیماریوں کے جراثیم سے تحفظ فراہم کِیا جو ابھی تک ہر سال ایسے ممالک میں جہاں صفائی کا نظام انتہائی ناقص ہے لاکھوں افراد کی زندگیاں چھین لیتے ہیں۔
موسوی شریعت میں صفائی کے اَور بھی ضوابط شامل تھے جنہوں نے اسرائیل کو متعدی امراض کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھا۔ کوئی شخص جسے کوئی متعدی مرض لاحق ہو جاتا تھا یا لگنے کا اندیشہ ہوتا تھا تو اُسے علیٰحدہ رکھا جاتا تھا۔ (احبار ۱۳:۱-۵) خودبخود مر جانے والے (شاید بیماری کی وجہ سے) کسی جانور کی لاش سے چھو جانے والے کپڑوں یا برتنوں کو یا تو دوبارہ استعمال کرنے سے پہلے دھویا جاتا تھا یا پھر ضائع کر دیا جاتا تھا۔ (احبار ۱۱:۲۷، ۲۸، ۳۲، ۳۳) کسی لاش کو ہاتھ لگانے والے شخص کو ناپاک خیال کِیا جاتا تھا اور اُسے صفائی کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا جس میں اپنے کپڑے دھونا اور غسل کرنا شامل تھا۔ ناپاکی کے سات دن کے عرصہ کے دوران، اُسے دوسروں کیساتھ جسمانی رابطے سے گریز کرنا ہوتا تھا۔—گنتی ۱۹:۱-۱۳۔
صفائی کا یہ معیار اُس حکمت کو ظاہر کرتا ہے جس سے اِردگرد کی اقوام کے طبیب محروم تھے۔ طبّی سائنس کے بیماری پھیلنے کے طریقوں کی بابت سیکھنے سے ہزاروں سال پہلے، بائبل نے بیماری کے خلاف تحفظ کے طور پر معقول احتیاطی تدابیر وضع کیں۔ اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ موسیٰ اپنے زمانے کے اسرائیلیوں کی بابت بالعموم ۷۰ یا ۸۰ سال کی عمر تک زندہ رہنے کا ذکر کر سکتا تھا۔e—زبور ۹۰:۱۰۔
شاید آپ تسلیم کریں کہ بائبل کے مذکورہبالا بیان سائنسی اعتبار سے درست ہیں۔ لیکن بائبل میں اَور بھی بیان ہیں جنہیں سائنسی اعتبار سے ثابت نہیں کِیا جا سکتا۔ کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل سائنس سے ٹکراتی ہے؟
ناقابلِثبوت چیز کو تسلیم کرنا
ایک ایسا بیان جسے ثابت نہیں کِیا جا سکتا لازماً غلط نہیں ہوتا۔ سائنسی ثبوت معقول شہادت تلاش کرنے اور معلومات کی درست وضاحت کرنے میں انسان کی لیاقت کے باعث محدود ہے۔ لیکن کچھ سچائیاں ثابت نہیں کی جا سکتیں اِسلئے کہ کوئی شہادت محفوظ نہیں رکھی گئی، شہادت مبہم یا غیردریافتشدہ ہے، یا کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کیلئے سائنسی صلاحتیں یا مہارتیں ناکافی ہیں۔ کیا بعض بائبل بیانات کے سلسلے میں یہی صورتحال ہو سکتی ہے جن کیلئے انفرادی طبیعی شہادت کی کمی ہے؟
مثال کے طور پر، ایسے نادیدہ عالم کی بابت جہاں روحانی ہستیاں رہتی ہیں بائبل کے حوالہجات کو سائنسی اعتبار سے صحیح—یا غلط—ثابت نہیں کِیا جا سکتا۔ یہی بات بائبل میں متذکرہ معجزاتی واقعات کی بابت کہی جا سکتی ہے۔ نوح کے زمانے کے عالمگیر طوفان کی بابت بعض لوگوں کی تسلی کے لئے کافی واضح ارضیاتی شہادت دستیاب نہیں ہے۔ (پیدایش باب ۷) پس کیا ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہئے کہ ایسا واقعہ رونما ہی نہیں ہوا تھا؟ وقت اور تبدیلی کیساتھ ساتھ تاریخی واقعات مبہم ہو سکتے ہیں۔ پس کیا یہ ممکن ہے کہ ہزاروں سال کے ارضیاتی عمل نے کافی حد تک طوفان سے متعلق شہادت کو محو کر دیا ہے؟
یہ مانتے ہیں کہ بائبل میں ایسے بیان پائے جاتے ہیں جنہیں دستیاب طبیعی شہادت کے ذریعے صحیح یا غلط ثابت نہیں کِیا جا سکتا۔ لیکن کیا ہمیں اِس سے حیران ہونا چاہئے؟ بائبل کوئی سائنس کی درسی کتاب نہیں ہے۔ تاہم، یہ سچائی کی کتاب ہے۔ ہم پہلے ہی اِس بات کی ٹھوس شہادت پر غور کر چکے ہیں کہ اِسکے ئنن وفادار اور دیانتدار انسان تھے۔ نیز جب وہ سائنس سے متعلق معاملات کا ذکر کرتے ہیں تو اُن کی باتیں درست اور مکمل طور پر قدیم ”سائنسی“ نظریات سے پاک ہیں جو محض باطل عقائد ثابت ہوئے تھے۔ پس سائنس بائبل کی دشمن نہیں ہے۔ لہٰذا بائبل جوکچھ کہتی ہے اُس پر کھلے ذہن کیساتھ غوروفکر کرنے کی ہر وجہ موجود ہے۔
[فٹنوٹ]
a ”اینٹیپوڈز . . . دو ایسے مقامات ہیں جو گلوب پر بالکل ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں۔ اُن کے درمیان ایک سیدھا خط زمین کے وسط سے گزرتا ہے۔ لفظ اینٹیپوڈز کا مطلب یونانی میں قدمباقدم ہے۔ اینٹیپوڈز پر کھڑے دو اشخاص اپنے پیروں کے تلوؤں پر ایک دوسرے کے بہت قریب ہونگے۔“1—دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا۔
b تکنیکی اعتبار سے، زمین پچکا ہوا ایک کُرہ ہے؛ یہ قُطبین پر تھوڑی سی چپٹی ہے۔
c علاوہازیں، صرف کُروی چیز ہی ہر زاویۂنگاہ سے گول نظر آتی ہے۔ کوئی بھی چپٹی شے اکثر گول کی بجائے بیضوی نظر آئے گی۔
d نیوٹن کے زمانے میں ایک مقبول نظریہ یہ تھا کہ کائنات ایک سیّال سے لبریز ہے—ایک کائناتی ”سوپ“—اور یہ کہ سیّال میں گرداب سیّاروں کی گردش کا سبب بنتے ہیں۔
e ۱۹۰۰ میں، بہت سے یورپی ممالک اور ریاستہائےمتحدہ میں متوقع عمر ۵۰ سے کم تھی۔ اُس وقت سے لیکر، نہ صرف بیماری کو روکنے میں طبّی پیشرفت کی بدولت بلکہ بہتر طرزِزندگی اور صفائی کی وجہ سے بھی اِس میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔
[صفحہ ۲۱ پر عبارت]
ایک ایسا بیان جسے ثابت نہیں کِیا جا سکتا لازماً غلط نہیں ہوتا
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
انسان کے خلا سے زمین کو گلوب کے طور پر دیکھنے سے ہزاروں سال پہلے، بائبل نے ”مُحیط زمین“ کا حوالہ دیا
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
سر آئزک نیوٹن نے وضاحت کی کہ سیّارے اپنے مدّار پر کششِثقل کی بدولت قائم ہیں