مطالعے کا مضمون نمبر 15
یسوع نے سُولی پر جو باتیں کہیں، اُن سے سیکھیں
”یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔ اِس کی سنو۔“—متی 17:5۔
گیت نمبر 17: مدد کرنے کو تیار
مضمون پر ایک نظرa
1-2. یسوع مسیح کے ساتھ 14 نیسان 33ء کو کیا کچھ ہوا؟
یہ 14 نیسان 33ء کا وقت تھا۔ یسوع مسیح پر جھوٹا اِلزام لگایا گیا،اُنہیں اُس جُرم کے لیے قصوروار ٹھہرایا گیا جو اُنہوں نے کِیا بھی نہیں تھا، اُن کا مذاق اُڑایا گیا، اُنہیں سخت اذیت پہنچائی گئی اور اُسی دن دوپہر کو اُنہیں سُولی دے دی گئی۔ اُن کے ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونکے گئے۔ حالانکہ یسوع مسیح کو ایک ایک سانس بھرتے اور ایک ایک لفظ کہتے ہوئے شدید تکلیف ہو رہی تھی لیکن وہ پھر بھی بولے۔ وہ جانتے تھے کہ اُنہیں بہت سی اہم باتیں کہنی ہیں۔
2 آئیں، دیکھیں کہ سُولی پر تکلیفدہ موت سہتے وقت یسوع مسیح نے کیا باتیں کہیں اور ہم اُن سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ہم اُن کی بات کیسے سُن سکتے ہیں۔—متی 17:5۔
”باپ، اُن کو معاف کر دے“
3. جب یسوع مسیح نے یہوواہ سے یہ دُعا کی کہ ”باپ، اُن کو معاف کر دے“ تو اُن کا اِشارہ غالباً کن کی طرف تھا؟
3 یسوع مسیح نے کیا کہا؟ جب یسوع مسیح سُولی پر تھے تو اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا کی: ”باپ، اُن کو معاف کر دے۔“ یسوع کن کے لیے معافی مانگ رہے تھے؟ اِس کا اِشارہ اُن کے اگلے الفاظ میں ملتا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”اُن کو پتہ نہیں کہ کیا کر رہے ہیں۔“ (لُو 23:33، 34) یسوع مسیح کا اِشارہ غالباً اُن رومی فوجیوں کی طرف سے تھا جنہوں نے اُن کے ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونکے تھے۔ یہ فوجی نہیں جانتے تھے کہ یسوع دراصل کون ہیں۔ یسوع مسیح نے شاید اپنی سُولی کے آسپاس کھڑے اُن لوگوں کے لیے بھی معافی مانگی جو اُس بِھیڑ میں شامل تھے جنہوں نے اُنہیں سُولی دینے کی مانگ کی تھی لیکن بعد میں وہ یسوع پر ایمان لے آئے۔ (اعما 2:36-38) لوگوں نے یسوع کے ساتھ جو نااِنصافیاں کیں، اُن کی وجہ سے یسوع نے اپنے دل میں تلخی نہیں آنے دی اور نہ اُن سے ناراض ہوئے۔ (1-پطر 2:23) اِس کی بجائے اُنہوں نے یہوواہ سے درخواست کی کہ وہ اُن لوگوں کو معاف کر دے جنہوں نے اُنہیں موت کے گھاٹ اُتارا ہے۔
4. یسوع مسیح نے اپنے مخالفوں کو معاف کرنے کے حوالے سے جو مثال قائم کی، ہم اُس پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
4 ہم یسوع مسیح کی بات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ یسوع مسیح کی طرح ہمیں بھی دوسروں کو معاف کرنے کو تیار رہنا چاہیے۔ (کُل 3:13) ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ جن میں شاید ہمارے رشتےدار بھی شامل ہوں، ہمارے عقیدوں اور طورطریقوں کو نہ سمجھیں اور ہماری مخالفت کریں۔ شاید وہ ہمارے بارے میں جھوٹی باتیں کہیں، دوسروں کے سامنے ہمیں نیچا دِکھائیں، ہماری کتابیں اور رسالے پھاڑ دیں، یہاں تک کہ ہمیں نقصان پہنچانے کی دھمکی دیں۔ لیکن ہم اپنے دل میں اُن کے لیے رنجش پالنے کی بجائے یہوواہ سے یہ دُعا کر سکتے ہیں کہ وہ اُن کی آنکھیں کھولے تاکہ وہ ایک دن سچائی کو قبول کر لیں۔ (متی 5:44، 45) کبھی کبھار ہمیں دوسروں کو معاف کرنا مشکل لگ سکتا ہے، خاص طور پر اُس صورت میں جب اُنہوں نے ہمارے ساتھ بہت ہی بُرا سلوک کِیا ہو۔ لیکن اگر ہم اپنے دل میں رنجش اور تلخی کو پلنے دیں گے تو ہمیں ہی تکلیف ہوگی۔ ایک بہن نے کہا: ”میں جانتی ہوں کہ دوسروں کو معاف کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مَیں اُن کی غلطی کو جائز قرار دوں یا دوسرے جیسا چاہیں، میرے ساتھ سلوک کریں بلکہ دوسروں کو معاف کرنے کا بس یہ مطلب ہے کہ مَیں اپنے دل سے اُن کے لیے رنجش نکال دوں۔“ (زبور 37:8) جب ہم دوسروں کو معاف کرتے ہیں تو ایک طرح سے ہم یہ فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ جو ہوا سو ہوا، ہم مزید اپنے دل میں تلخی نہیں بڑھائیں گے۔—اِفس 4:31، 32۔
”آپ میرے ساتھ فردوس میں ہوں گے“
5. یسوع مسیح نے ایک ڈاکو سے کیا وعدہ کِیا اور اُنہوں نے اُس سے یہ وعدہ کیوں کِیا؟
5 یسوع مسیح نے کیا کہا؟ جب یسوع کو سُولی دی گئی تو اُن کی دائیں اور بائیں طرف دو ڈاکوؤں کو بھی سُولی دی گئی۔ (متی 27:44) شروع شروع میں تو وہ دونوں ڈاکو یسوع کو طعنے دے رہے تھے۔ لیکن بعد میں ایک ڈاکو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اُس نے اپنا رویہ بدل دیا۔ وہ یہ جان گیا کہ یسوع نے ”کوئی بُرا کام نہیں کِیا۔“ (لُو 23:40، 41) اِتنا ہی نہیں اُس نے تو اِس بات پر بھی اپنا ایمان ظاہر کیا کہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھیں گے اور ایک دن بادشاہ بن جائیں گے۔ اُس نے یسوع سے کہا: ”یسوع، جب آپ بادشاہ بن جائیں گے تو مجھے یاد فرمائیں۔“ (لُو 23:42) اِس ڈاکو نے واقعی بڑا مضبوط ایمان ظاہر کِیا! یسوع نے اُسے جواب دیتے ہوئے کہا: ”مَیں آج آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ [بادشاہت میں نہیں بلکہ] فردوس میں ہوں گے۔“ (لُو 23:43) غور کریں کہ یسوع نے ڈاکو سے کہا: ”آپ میرے ساتھ فردوس میں ہوں گے۔“ اِس سے یقیناً ڈاکو کو یہ احساس ہوا ہوگا کہ اُسے اِس وعدے سے ذاتی طور پر فائدہ ہوگا۔ یسوع مسیح اُس ڈاکو سے یہ اُمید بھری بات اِس لیے کہہ سکتے تھے کیونکہ اُنہیں پتہ تھا کہ اُن کا باپ بہت رحمدل ہے۔—زبور 103:8۔
6. یسوع مسیح نے ایک ڈاکو سے جو کچھ کہا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
6 ہم یسوع مسیح کی بات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ یسوع نے اپنے باپ کی خوبیوں کو ہو بہو ظاہر کِیا۔ (عبر 1:3) اگر ہم اپنی غلطیوں پر دل سے توبہ کرتے ہیں اور اِس بات پر ایمان ظاہر کرتے ہیں کہ یسوع کے بہائے ہوئے خون سے ہمیں گُناہوں کی معافی مل سکتی ہے تو یہوواہ ہمیں ضرور معاف کر دے گا اور ہم پر رحم ظاہر کرے گا۔ (1-یوح 1:7) کچھ لوگوں کو شاید اِس بات پر یقین کرنا مشکل لگے کہ یہوواہ اُن کے ماضی کے گُناہوں کو کبھی معاف کرے گا۔ اگر کبھی کبھار آپ بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں تو اِس بات پر غور کریں: اگر مرنے سے کچھ دیر پہلے یسوع مسیح ایک ایسے مُجرم پر رحم ظاہر کر سکتے ہیں جو ابھی اُن پر ایمان لانا شروع ہی ہوا تھا تو کیا اُن کا آسمانی باپ یہوواہ اپنے اُن بندوں پر رحم ظاہر نہیں کرے گا جو اُس کے حکموں پر عمل کرنے کی جیتوڑ کوشش کرتے ہیں؟—زبور 51:1؛ 1-یوح 2:1، 2۔
”دیکھیں، یہ آپ کا بیٹا ہے . . . دیکھیں، یہ آپ کی ماں ہے“
7. یوحنا 19:26، 27 میں یسوع مسیح نے مریم اور یوحنا سے کیا کہا اور اُنہوں نے ایسا کیوں کہا؟
7 یسوع مسیح نے کیا کہا؟ (یوحنا 19:26، 27 کو پڑھیں۔) یسوع کو اپنی ماں کی فکر تھی جو کہ غالباً اُس وقت بیوہ تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کے سوتیلے بہن بھائی اُن کی ماں کی روزمرہ کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ لیکن اُنہیں یہ فکر تھی کہ یہوواہ کے قریب رہنے میں اُن کی ماں کی مدد کون کرے گا۔ بائبل میں اِس بات کا کوئی اِشارہ نہیں ملتا کہ اُس وقت تک یسوع کے بہن بھائی اُن کے شاگرد بن گئے تھے۔ البتہ یوحنا یسوع کے ایک وفادار رسول تھے اور اُن کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے۔ یسوع مسیح اُن لوگوں کو اپنا خاندان سمجھتے تھے جو اُن کے ساتھ یہوواہ کی عبادت کرنے میں متحد تھے۔ (متی 12:46-50) یسوع اپنی ماں سے بہت محبت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ یہوواہ کے ساتھ اُس کی دوستی مضبوط رہے۔ اِس لیے اُنہوں نے اپنی ماں کی دیکھبھال کی ذمےداری یوحنا کو سونپی۔ یسوع نے سُولی سے اپنی ماں سے بات کرتے ہوئے یوحنا کی طرف اِشارہ کِیا اور کہا: ”دیکھیں، یہ آپ کا بیٹا ہے۔“ اور پھر یوحنا سے بات کرتے ہوئے اپنی ماں کی طرف اِشارہ کِیا اور کہا: ”دیکھیں، یہ آپ کی ماں ہے۔“ اُسی دن سے مریم یوحنا کو اپنا بیٹا سمجھنے لگیں اور یوحنا اُنہیں اپنی ماں سمجھ کر اُن کا خیال رکھنے لگے۔ یسوع مسیح نے خدا کی اِس عزیز بندی کے لیے کتنی محبت ظاہر کی جس نے بڑے پیار سے اُنہیں پالا پوسا تھا اور جو دُکھ کی گھڑی میں اُن کے قریب کھڑی تھی۔
8. یسوع مسیح نے مریم اور یوحنا سے جو بات کہی، اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
8 ہم یسوع مسیح کی بات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ہمارا اپنے مسیحی بہن بھائیوں سے جو ناتا ہے، وہ کسی بھی قریبی رشتےدار کے ناتے سے کہیں گہرا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے رشتےدار ہماری مخالفت کریں، یہاں تک کہ ہمیں چھوڑ دیں۔ لیکن جیسا کہ یسوع مسیح نے وعدہ کِیا، اگر ہم یہوواہ خدا اور اُس کی تنظیم سے جُڑے رہیں گے تو ہم نے جو کچھ قربان کِیا ہے، اُس کے بدلے میں ہمیں سو گُنا زیادہ ملے گا۔ اور واقعی جب ہمارے گھر والے ہمیں چھوڑ دیتے ہیں تو ہمارے بہن بھائی ہمارے لیے بیٹے، بیٹی، ماں یا باپ کی طرح بن جاتے ہیں۔ (مر 10:29، 30) آپ کو ایک ایسے خاندان کا حصہ ہونا کیسا لگتا ہے جو اپنے ایمان اور یہوواہ اور ایک دوسرے سے محبت رکھنے کی وجہ سے آپس میں متحد ہے؟—کُل 3:14؛ 1-پطر 2:17۔
”میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“
9. متی 27:46 میں درج یسوع کے الفاظ سے کون سی باتیں پتہ چلتی ہیں؟
9 یسوع مسیح نے کیا کہا؟ دم توڑنے سے تھوڑی دیر پہلے یسوع چلّا کر کہنے لگے: ”میرے خدا، میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“ (متی 27:46) بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یسوع مسیح نے یہ بات کیوں کہی۔ لیکن آئیں، دیکھیں کہ اِن الفاظ سے کیا ظاہر ہوا۔ یسوع مسیح کے یہ بات کہنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ زبور 22:1b میں درج پیشگوئی کو پورا کر رہے تھے۔ یسوع کے اِن الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ یہوواہ نے اپنے بیٹے کے ”اِردگِرد حفاظتی باڑ“ ہٹا دی تھی۔ (ایو 1:10، اُردو جیو ورشن) یسوع مسیح یہ سمجھ گئے کہ اُن کے باپ نے اُنہیں پوری طرح سے اُن کے دُشمنوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ اپنی آخری سانس تک اُس کے لیے اپنی وفاداری کو ثابت کر سکیں۔ کسی بھی اِنسان کی وفاداری اُس حد تک نہیں پرکھی گئی جس حد تک یسوع کی وفاداری پرکھی گئی۔ اِس کے علاوہ یسوع کے الفاظ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اُنہوں نے ایسا کوئی جُرم نہیں کِیا تھا جس کے لیے اُنہیں موت کی سزا دی جاتی۔
10. یسوع مسیح نے اپنے باپ سے جو بات کہی، ہم اُس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
10 ہم یسوع مسیح کی بات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ایک بات تو یہ کہ ہمیں یہوواہ سے یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ہم پر ایسی آزمائشیں نہ آنے دے جن میں ہمارا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ جس طرح یسوع نے موت تک خدا کے لیے اپنی وفاداری ثابت کی اُسی طرح ہمیں بھی مرتے دم تک یہوواہ کے لیے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (متی 16:24، 25) البتہ ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں کبھی کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دے گا جو ہماری برداشت سے باہر ہو۔ (1-کُر 10:13) یسوع کی بات سے ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ اُن کی طرح ہمیں بھی نااِنصافی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ (1-پطر 2:19، 20) ہمارے مخالف ہمیں اِس وجہ سے اذیت نہیں پہنچاتے کیونکہ ہم نے کچھ غلط کِیا ہے بلکہ وہ اِس لیے ایسا کرتے ہیں کیونکہ ہم دُنیا کا حصہ نہیں ہیں اور ہم سچائی کے بارے میں گواہی دیتے ہیں۔ (یوح 17:14؛ 1-پطر 4:15، 16) جب یسوع مسیح پر اذیت ڈھائی گئی تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ خدا نے اِس کی اِجازت کیوں دی ہے۔ لیکن جب یہوواہ کے دیگر بندوں پر آزمائشیں آتی ہیں تو کبھی کبھار وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ خدا اُن کے ساتھ ایسا کیوں ہونے دے رہا ہے۔ (حبق 1:3) جب اُن کے ذہن میں اِس طرح کے خیال آتے ہیں تو ہمارا رحمدل اور صابر خدا یہ نہیں سوچتا کہ اُن میں ایمان کی کمی ہے بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ اُنہیں تسلی کی ضرورت ہے جو صرف وہی دے سکتا ہے۔—2-کُر 1:3، 4۔
”مجھے پیاس لگی ہے“
11. یسوع مسیح نے یوحنا 19:28 میں درج بات کیوں کہی؟
11 یسوع مسیح نے کیا کہا؟ (یوحنا 19:28 کو پڑھیں۔) یسوع مسیح نے یہ کیوں کہا کہ ”مجھے پیاس لگی ہے“؟ اُنہوں نے ایسا ایک صحیفہ پورا کرنے کے لیے کہا۔ یہ صحیفہ زبور 22:15 تھا جہاں یہ پیشگوئی لکھی تھی: ”میری قوت ٹھیکرے کی مانند خشک ہو گئی اور میری زبان میرے تالُو سے چپک گئی۔“ اِس کے علاوہ دیکھا جائے تو اِتنی اذیت سہنے اور سُولی پر شدید تکلیف برداشت کرنے کے بعد یسوع کو یقیناً پیاس لگ گئی ہوگی۔ اِس لیے وہ چاہتے تھے کہ کوئی اُنہیں پانی پلا دے۔
12. ہم یسوع مسیح کی اِس بات سے کیا سیکھتے ہیں کہ ”مجھے پیاس لگی ہے“؟
12 ہم یسوع مسیح کی بات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ یسوع مسیح نے یہ نہیں سوچا کہ اگر وہ اپنے احساسات کا اِظہار کریں گے تو یہ ظاہر ہوگا کہ وہ کمزور ہیں۔ اور ہمیں بھی ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ شاید ہم نے اپنی زندگی میں زیادہتر وقت دوسروں کی مدد لیے بغیر ہی اپنے کام کر لینے کی کوشش کی۔ لیکن اگر ہم پر ایسا وقت آتا ہے جب ہمیں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں اِسے مانگنے میں نہیں ہچکچانا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر ہم بوڑھے ہیں یا بیمار ہیں تو ہم اپنے کسی دوست سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ڈاکٹر کے پاس لے جائے یا ضروری چیزیں خریدنے کے لیے دُکان تک لے جائے۔ اگر ہم اُداس ہیں یا بےحوصلہ محسوس کر رہے ہیں تو ہم کسی بزرگ یا پُختہ مسیحی کو اپنے احساسات بتا سکتے ہیں جو ہم سے کوئی ایسی ”اچھی بات“ کہہ سکتے ہیں جس سے ہم کھل اُٹھیں۔ (امثا 12:25) یاد رکھیں کہ ہمارے بہن بھائی ہم سے محبت کرتے ہیں اور وہ ”مصیبت کے دن“ ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں۔ (امثا 17:17) لیکن وہ یہ نہیں جان سکتے کہ ہمارے دلودماغ میں کیا چل رہا ہے۔ اُنہیں تب تک یہ پتہ نہیں چلے گا کہ ہمیں مدد کی ضرورت ہے جب تک ہم خود اُنہیں نہیں بتائیں گے۔
”سب کچھ مکمل ہو گیا ہے!“
13. مرتے دم تک یہوواہ کا وفادار رہنے سے یسوع مسیح نے کیا کچھ انجام دیا؟
13 یسوع مسیح نے کیا کہا؟ 14 نیسان کی دوپہر کو تقریباً تین بجے اُنہوں نے کہا: ”سب کچھ مکمل ہو گیا ہے!“ (یوح 19:30) یسوع نے یہ بات دم توڑنے سے کچھ لمحے پہلے کہی۔ اِن الفاظ سے یہ ظاہر ہوا کہ اُنہوں نے وہ سب کچھ کِیا، جو اُن کا باپ اُن سے چاہتا تھا۔ مرتے دم تک یہوواہ کا وفادار رہنے سے یسوع نے تین کاموں کو انجام دیا۔ سب سے پہلے تو اُنہوں نے شیطان کو جھوٹا ثابت کِیا۔ اُنہوں نے یہ ظاہر کِیا کہ ایک بےعیب اِنسان شیطان کی کسی بھی آزمائش میں یہوواہ کا وفادار رہ سکتا ہے۔ دوسرا اُنہوں نے اپنی زندگی فدیے کے طور پر دے دی۔ اُن کی قربانی کی وجہ سے عیبدار اِنسانوں کے لیے یہوواہ سے دوستی کرنا ممکن ہوا اور اُنہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید ملی۔ اور تیسرا اُنہوں نے یہ ثابت کِیا کہ یہوواہ جائز حکمران ہے۔ اُنہوں نے اپنے باپ کے نام پر لگے داغ کو مٹایا۔
14. ہمیں ہر دن کیا کرنے کا عزم کرنا چاہیے؟
14 ہم یسوع مسیح کی بات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ہمیں یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم ہر دن یہوواہ کے لیے اپنی وفاداری ثابت کریں گے۔ اِس سلسلے میں بھائی میکسویل فرینڈ کی بات پر غور کریں جو گلئیڈ سکول میں ایک اُستاد تھے۔ بھائی میکسویل نے ایک بینالاقوامی اِجتماع پر وفاداری کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا: ”آپ آج جو کام کر سکتے ہیں یا جو باتیں کہہ سکتے ہیں، اُسے کل پر نہ ڈالیں۔ کیا آپ پورے یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کل کا دن دیکھیں گے؟ ہر دن کو اِس طرح سے جئیں جیسے یہ آپ کے لیے اِس بات کو ثابت کرنے کا آخری موقع ہے کہ آپ ہمیشہ کی زندگی پانے کے لائق ہیں۔“ آئیں، ہم ہر دن کو اِس طرح سے گزاریں جیسے یہ ہمارے لیے یہوواہ کا وفادار رہنے کا آخری موقع ہے۔ پھر اگر ہمیں موت کا سامنا بھی ہوگا تو ہم یہ کہہ سکیں گے: ”یہوواہ! مَیں نے تیرا وفادار رہنے، شیطان کو جھوٹا ثابت کرنے، تیرے نام کو پاک ثابت کرنے اور تیری حکمرانی کی بڑائی کرنے کی پوری کوشش کی۔“
”مَیں اپنا دم تیرے سپرد کرتا ہوں“
15. لُوقا 23:46 کے مطابق یسوع مسیح کو کس بات کا پکا یقین تھا؟
15 یسوع مسیح نے کیا کہا؟ (لُوقا 23:46 کو پڑھیں۔) اُنہوں نے پورے یقین سے کہا: ”باپ، مَیں اپنا دم تیرے سپرد کرتا ہوں۔“ یسوع مسیح جانتے تھے کہ اُن کا مستقبل یہوواہ کے ہاتھوں میں ہے اور اُنہیں پکا یقین تھا کہ اُن کا باپ اُنہیں ضرور مُردوں میں سے زندہ کر دے گا۔
16. آپ نے ایک 15 سالہ یہوواہ کے گواہ کے تجربے سے کیا سیکھا ہے؟
16 ہم یسوع مسیح کی بات سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ اُس وقت بھی یہوواہ کے وفادار رہیں جب آپ کی زندگی خطرے میں ہو۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل“ یعنی بھروسا کرنے کی ضرورت ہے۔ (امثا 3:5) اِس سلسلے میں ذرا ایک 15 سالہ یہوواہ کے گواہ کی مثال پر غور کریں جس کا نام جوشوا تھا اور جسے ایک جانلیوا بیماری تھی۔ جوشوا نے علاج کا وہ طریقہ اپنانے سے اِنکار کر دیا جو یہوواہ کے حکم سے ٹکراتا تھا۔ مرنے سے تھوڑی دیر پہلے اُس نے اپنی ماں سے کہا: ”امی! مَیں یہوواہ کے ہاتھوں میں محفوظ ہوں۔ . . . مَیں پورے یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہوواہ مجھے ضرور زندہ کر دے گا۔ یہوواہ میرے دل کو جانتا ہے اور مَیں اُس سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں۔“ خود سے پوچھیں: ”اگر مجھ پر ایسی آزمائش آتی ہے جس میں میری زندگی داؤ پر لگی ہو تو کیا مَیں اپنی زندگی یہوواہ کے ہاتھوں میں سونپوں گا اور اِس بات پر بھروسا کروں گا کہ وہ مجھے زندہ کر دے گا؟“
17-18. یسوع مسیح نے سُولی پر جو باتیں کہیں، اُن سے ہم نے کیا کچھ سیکھا ہے؟ (بکس ”اُن باتوں سے سیکھیں جو یسوع نے سُولی پر کہیں“ کو دیکھیں۔)
17 یسوع مسیح نے سُولی پر جو باتیں کہیں، اُن سے ہم نے واقعی بڑے اہم سبق سیکھے ہیں۔ ہم نے سیکھا کہ ہمیں دوسروں کو معاف کرنے کو تیار رہنا چاہیے اور اِس بات پر بھروسا رکھنا چاہیے کہ یہوواہ ہمیں بھی معاف کر دے گا۔ ہمیں ایسے مسیحی بہن بھائیوں کا ساتھ ملا ہے جو ہمارے لیے ایک خاندان کی طرح ہیں اور جو ہر وقت ہماری مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ لیکن اُن سے مدد حاصل کرنے کے لیے ہمیں خود اُنہیں یہ بتانا ہوگا کہ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں کسی بھی آزمائش میں ثابتقدم رہنے کی طاقت دے سکتا ہے۔ اور ہم نے یہ بھی سیکھا ہے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ہر دن اپنی زندگی کو اِس طرح سے جئیں جیسے یہ ہمارے پاس یہوواہ کے وفادار رہنے کا آخری موقع ہے۔ ہم اِس بات پر بھی یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم مر بھی جاتے ہیں تو یہوواہ ہمیں زندہ کر دے گا۔
18 یسوع مسیح نے سُولی پر آخری سانسیں لیتے وقت جو باتیں کہیں، اُن پر غور کرنے سے ہمیں واقعی بہت فائدہ ہوتا ہے۔اگر ہم اِن باتوں پر عمل کریں گے تو ہم اِس ہدایت پر چل رہے ہوں گے جو یہوواہ نے اپنے بیٹے کے حوالے سے دی: ”اِس کی سنو۔“—متی 17:5۔
گیت نمبر 126: آخر تک قائم رہیں!
a جیسا کہ متی 17:5 میں بتایا گیا ہے، یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کے بیٹے کی سنیں۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یسوع مسیح نے سُولی پر تکلیفدہ موت سہتے وقت جو باتیں کہیں، اُن سے ہم کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
b یہ جاننے کے لیے کہ یسوع مسیح نے زبور 22:1 میں درج الفاظ کیوں اِستعمال کیے ہوں گے، اِس شمارے میں ”قارئین کے سوال“ کو دیکھیں۔