”انسان کا فرضِکُلی“
”خدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِکُلی یہی ہے۔“—واعظ ۱۲:۱۳۔
۱، ۲. خدا کیلئے اپنی ذمہداری پر غور کرنا کیوں موزوں ہے؟
”خداوند تجھ سے اسکے سوا کیا چاہتا ہے؟“ ایک قدیم نبی نے یہ سوال کِیا۔ اسکے بعد اُس نے واضح کِیا کہ یہوواہ کیا تقاضا کرتا ہے—انصاف کر، رحمدلی کو عزیز رکھ اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چل۔—میکاہ ۶:۸۔
۲ نفسانفسی اور خودمختاری کے اس دَور میں، بہتیرے لوگ اس خیال سے برہم ہو جاتے ہیں کہ خدا اُن سے کسی چیز کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ کسی چیز کے پابند نہیں ہونا چاہتے۔ لیکن واعظ میں سلیمان نے جو نتیجہ اخذ کِیا اُس کی بابت کیا ہے؟ ”اب سب کچھ سنایا گیا۔ حاصلِکلام یہ ہے۔ خدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِکُلی یہی ہے۔“—واعظ ۱۲:۱۳۔
۳. ہمیں واعظ کی کتاب پر سنجیدگی سے کیوں توجہ دینی چاہئے؟
۳ ہمارے حالات اور زندگی کی بابت نقطۂنظر خواہ کیسا بھی ہو اگر ہم اس نتیجے کے پسمنظر پر غور کرتے ہیں تو ہم اس سے کافی حد تک مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس الہامی کتاب کے مصنف، سلیمان بادشاہ نے چند ایسی چیزوں کا مشاہدہ کِیا جو ہماری روزمرّہ زندگی کا حصہ ہیں۔ بعض شاید جلدبازی میں یہ نتیجہ اخذ کریں کہ اُسکا تجزیہ بنیادی طور پر منفی ہے۔ تاہم یہ الہٰی طور پر مُلہَم تھا اور نتیجتاً اضافی خوشی کیساتھ یہ ہمیں ہماری کارگزاریوں اور ترجیحات کا اندازہ لگانے میں مدد دے سکتا ہے۔
زندگی کی بنیادی پریشانیوں کا مقابلہ کرنا
۴. واعظ میں سلیمان نے کس چیز کا بغور مشاہدہ کِیا اور اُس پر گفتگو کی ہے؟
۴ سلیمان نے ’بنیآدم کی مصروفیت‘ کا بہت گہرا مشاہدہ کِیا۔ ”مَیں نے اپنا دل لگایا کہ جوکچھ آسمان کے نیچے کِیا جاتا ہے اُس سب کی تحقیقوتفتیش کروں۔“ ”مصروفیت“ (اینڈبلیو) سے سلیمان کی مُراد ضروری طور پر ملازمت یا روزگار سے نہیں تھی بلکہ اسکی بجائے اُن سب کاموں سے تھی جن میں مرد اور عورتیں اپنی زندگی کے دوران مشغول رہتے ہیں۔ (واعظ ۱:۱۳) آئیے چند بنیادی پریشانیوں یا مصروفیات پر غور کریں اور پھر اپنی کارگزاریوں اور ترجیحات کا خود موازنہ کریں۔
۵. انسانوں کی اوّلین مصروفیات میں سے ایک کیا ہے؟
۵ یقینی طور پر دولت بہت سی انسانی فکروں اور کارگزاریوں کا بنیادی نکتہ ہے۔ کوئی شخص بجا طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ سلیمان اُس دولت کو معمولی خیال کرتا تھا جو دولتمند لوگ رکھتے ہیں۔ اُس نے دولت کی ضرورت کو بڑی حد تک خوشی سے تسلیم کِیا؛ ضرورت کے مطابق روپیہپیسہ رکھنا کٹھن یا غربت کی زندگی گزارنے سے بہتر ہے۔ (واعظ ۷:۱۱، ۱۲) مگر آپ نے غور کِیا ہوگا کہ دولت اس سے خریدے جانے والے اثاثوں سمیت—غریب اور امیر دونوں کیلئے—زندگی کا بنیادی مقصد بن سکتی ہے۔
۶. دولت کی بابت یسوع کی تمثیل اور سلیمان کے ذاتی تجربے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۶ یسوع کی دولتمند آدمی کی تمثیل کو یاد کریں جس کا دل کبھی نہیں بھرتا تھا اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے کام کرتا رہتا تھا۔ خدا نے اُسے نامعقول آدمی قرار دیا۔ کیوں؟ کیونکہ ہماری ’زندگی ہمارے مال کی کثرت پر موقوف نہیں ہے۔‘ (لوقا ۱۲:۱۵-۲۱) سلیمان کا تجربہ—غالباً ہم سے کہیں زیادہ وسیع—یسوع کے الفاظ کی تصدیق کرتا ہے۔ واعظ ۲:۴-۹ کے بیان کو پڑھیں۔ کچھ وقت کیلئے سلیمان نے خود کو مالودولت حاصل کرنے میں مصروف رکھا۔ اُس نے بہت سے خوشنما گھر اور باغات بنائے۔ وہ اپنے لئے خوبصورت عورتیں حاصل کرنے کی استطاعت رکھتا تھا اور اُس نے ایسا کِیا۔ لیکن کیا دولت اور جوکچھ اس نے اُسے کرنے کے قابل بنایا تھا اُس سے اُسے گہرا اطمینان، حقیقی احساسِتکمیل اور زندگی میں مقصد حاصل ہوا؟ اُس نے صافگوئی سے جواب دیا، ”پھر مَیں نے اُن سب کاموں پر جو میرے ہاتھوں نے کئے تھے اور اُس مشقت پر جو مَیں نے کام کرنے میں کھینچی تھی نظر کی اور دیکھا کہ سب بطلان اور ہوا کی چران ہے اور دُنیا میں کچھ فائدہ نہیں۔“—واعظ ۲:۱۱؛ ۴:۸۔
۷. (ا) تجربہ دولت کی اہمیت کی بابت کیا ثابت کرتا ہے؟ (ب) آپ نے ذاتی طور پر کیا دیکھا ہے جو سلیمان کے اخذکردہ نتیجے کی تصدیق کرتا ہے؟
۷ یہ حقیقتپسندانہ بات ہے، ایک ایسی سچائی جو بہت سی زندگیوں سے عیاں ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ محض دولت کی فراوانی تمام مسائل کا حل نہیں ہے۔ یہ چند مسائل حل کر سکتی ہے جیسےکہ خوراک اور لباس کو آسانی سے حاصل کرنا۔ لیکن ایک شخص ایک وقت میں ایک ہی سوٹ پہن سکتا اور کھانے اور پینے کی مخصوص مقدار سے ہی لطف اُٹھا سکتا ہے۔ اور آپ نے ایسے دولتمند لوگوں کی بابت ضرور پڑھا ہوگا جنکی زندگیاں طلاق، الکحل یا منشیات کے ناجائز استعمال اور رشتےداروں کیساتھ جھگڑوں کی وجہ سے عذاب بنی ہوئی ہیں۔ کروڑپتی جے. پی. گیٹی نے بیان کِیا: ”دولت کا خوشی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ شاید غم کے ساتھ ہے۔“ معقول وجہ سے، سلیمان نے چاندی سے محبت کو بطلان قرار دیا۔ اس حقیقت کا سلیمان کے مشاہدے سے موازنہ کریں: ”محنتی کی نیند میٹھی ہے خواہ وہ تھوڑا کھائے خواہ بہت لیکن دولت کی فراوانی دولتمند کو سونے نہیں دیتی۔“—واعظ ۵:۱۰-۱۲۔
۸. دولت کو زیادہ اہم خیال نہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟
۸ دولت اور مالومتاع مستقبل کی بابت بھی کوئی اطمینان نہیں بخشتے۔ اگر آپ کے پاس زیادہ دولت اور مالومتاع ہے تو غالباً اُسے محفوظ رکھنے کی بابت آپکو اضافی پریشانی ہوگی اور اسکے باوجود آپکو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ آنے والا کل کیسا ہوگا۔ ممکن ہے آپ اپنی زندگی سمیت سب کچھ گنوا بیٹھیں؟ (واعظ ۵:۱۳-۱۷؛ ۹:۱۱، ۱۲) کیونکہ ایسا ہے، اسلئے یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ کیوں ہماری زندگی یا مصروفیت کا روپےپیسے اور مالودولت سے بڑھ کر اعلیٰ، دائمی مقصد ہونا چاہئے۔
خاندان، شہرت اور طاقت
۹. سلیمان کے مشاہدے میں واجب طور پر خاندانی زندگی کیوں شامل تھی؟
۹ زندگی کی بابت سلیمان کے تجزیے میں خاندان کی انتہائی فکر کرنے کا معاملہ بھی شامل تھا۔ بائبل بچے پیدا کرنے اور اُن کی پرورش کرنے کی خوشی سمیت خاندانی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے۔ (پیدایش ۲:۲۲-۲۴؛ زبور ۱۲۷:۳-۵؛ امثال ۵:۱۵، ۱۸-۲۰؛ ۶:۲۰؛ مرقس ۱۰:۶-۹؛ افسیوں ۵:۲۲-۳۳) تاہم، کیا یہ زندگی کی حتمی شکل ہے؟ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بعض ثقافتوں میں بہتیرے لوگوں نے ایسا سوچتے ہوئے شادی، بچوں اور خاندانی تعلقات پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ تاہم، واعظ ۶:۳ ظاہر کرتی ہے کہ ایک سو بچے ہونا بھی زندگی میں تسکین کی کُنجی نہیں ہے۔ تصور کریں کہ کتنے والدین نے اپنے بچوں کو اچھا آغاز دینے اور اُن کی زندگی کو آسان بنانے کی غرض سے قربانیاں دی ہیں۔ اگرچہ یہ فعل قابلِتحسین ہے، یقینی طور پر ہمارے خالق کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ہماری زندگی کا بنیادی مقصد محض آئندہ نسل کو زندگی عطا کرنا ہی ہو جیسےکہ جانور جبلّی طور پر اپنی انواع کو زندہ رکھنے کے لئے کرتے ہیں۔
۱۰. خاندان پر بہت زیادہ توجہ کیوں بطلان ثابت ہو سکتی ہے؟
۱۰ سلیمان قابلِفہم طور پر خاندانی زندگی کے بعض حقائق کو سامنے لایا۔ مثلاً، ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنے بچوں اور اسباط کی ضروریات پوری کرنے پر ہی توجہ مرکوز رکھے۔ لیکن کیا وہ دانشمند ثابت ہونگے؟ یا جوکچھ اُس نے اُن کیلئے جمع کرنے کی کوشش کی وہ اُسے حماقت سے استعمال کرینگے؟ اگر موخرالذکر بات واقع ہوتی ہے تو یہ کسقدر ”بطلان اور بلایِعظیم“ ہوگی!—واعظ ۲:۱۸-۲۱؛ ۱-سلاطین ۱۲:۸؛ ۲-تواریخ ۱۲:۱-۴، ۹۔
۱۱، ۱۲. (ا) بعض نے زندگی میں کن حاصلات پر توجہ مرکوز رکھی ہے؟ (ب) یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ شہرت حاصل کرنا ”ہوا کی چران“ ہے؟
۱۱ اسکے برعکس، بہتیروں نے دوسروں پر شہرت یا قوت میں سبقت لے جانے کے عزم کے مقابلے میں نارمل خاندانی زندگی کو حقیر جانا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ خرابی زیادہتر مردوں میں عام ہو۔ کیا آپ نے اسے اپنے ہممکتبوں، ساتھیکارکنوں یا پڑوسیوں میں دیکھا ہے؟ بہتیرے نمایاں نظر آنے، کچھ بننے یا دوسروں پر اختیار رکھنے کیلئے بہت زیادہ جدوجہد کرتے ہیں؟ لیکن درحقیقت یہ کسقدر بامقصد ہے؟
۱۲ ذرا سوچیں کہ بعض لوگ بڑے یا چھوٹے پیمانے پر شہرت حاصل کرنے کیلئے کیسے جدوجہد کرتے ہیں۔ ہم اسے سکول میں، اپنے آسپڑوس میں اور مختلف سماجی گروہوں کے اندر دیکھتے ہیں۔ یہ اُن لوگوں کیلئے بھی قوتِمتحرکہ ہے جو فن، تفریح اور سیاست میں نام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، بنیادی طور پر کیا یہ سب بیکار کوشش نہیں ہے؟ سلیمان نے موزوں طور پر اسے ”ہوا کی چران“ کہا تھا۔ (واعظ ۴:۴) اگر ایک نوجوان کلب میں، سپورٹس کی ٹیم میں یا ایک موسیقی کے گروپ میں ممتاز ہو جاتا ہے—یا کوئی مرد یا عورت کسی کمپنی یا علاقے میں شہرت حاصل کر لیتا ہے—توبھی درحقیقت کتنے لوگ اسکی بابت جانتے ہیں؟ کیا دُنیا کے (یا اُسی مُلک کے) دیگر لوگ اُس شخص کے وجود سے واقف ہیں؟ یا کیا وہ اس بات سے بالکل بےخبر کہ وہ شخص کتنی شہرت رکھتا ہے اپنی زندگی گزارتے رہتے ہیں؟ اور اُس قوت یا اختیار کی بابت بھی یہی بات سچ ہے جو ایک شخص جائےملازمت، شہر یا کسی گروپ میں حاصل کرتا ہے۔
۱۳. (ا) واعظ ۹:۴، ۵ ہمیں شہرت اور طاقت حاصل کرنے کی بابت مناسب نظریہ رکھنے میں کیسے مدد دیتی ہیں؟ (ب) اگر یہی زندگی سب کچھ ہے توپھر ہمیں کن حقائق کا سامنا کرنا چاہئے؟ (دیکھیں فٹنوٹ۔)
۱۳ ایسی شہرت یا اختیار کے دُوررس نتائج کیا ہیں؟ جیسےکہ ایک پُشت جاتی ہے اور دوسری آتی ہے، ممتاز یا طاقتور لوگ بھی گزر جاتے ہیں اور یاد نہیں رہتے۔ معماروں، موسیقاروں اور دیگر فنکاروں، معاشرتی کارکنوں وغیرہ کے حق میں یہ بات اُسی طرح سچ ہے جیسےکہ یہ زیادہتر سیاستدانوں اور فوجی لیڈروں کی بابت سچ ہے۔ ان پیشوں میں سے آپ ایسے کتنے خاص اشخاص کو جانتے ہیں جو ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی کے درمیان زندہ تھے؟ سلیمان نے یہ کہتے ہوئے معاملات کا صحیح طور پر تجزیہ کِیا: ”زندہ کتا مُردہ شیر سے بہتر ہے۔ کیونکہ زندہ جانتے ہیں کہ وہ مرینگے پر مُردے کچھ بھی نہیں جانتے . . . اُن کی یاد جاتی رہی ہے۔“ (واعظ ۹:۴، ۵) اور اگر یہی زندگی سب کچھ ہے توپھر شہرت یا طاقت کے لئے جدوجہد واقعی بطلان ہے۔a
ہماری توجہ کا مرکز اور فرض
۱۴. واعظ کی کتاب کو ہمیں ذاتی طور پر کیوں مدد دینی چاہئے؟
۱۴ سلیمان نے بہت زیادہ کارگزاریوں، نشانوں اور آسائشوں کا ذکر نہیں کِیا تھا جن پر انسان اپنی زندگیاں مُرتکز کرتے ہیں۔ تاہم، اُس نے جوکچھ لکھا وہ کافی ہے۔ کتاب پر ہمارے غوروفکر کو غمانگیز یا منفی دکھائی دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم نے حقیقتپسندانہ طور پر بائبل کی ایک کتاب پر نظرثانی کی ہے جسکا یہوواہ خدا نے خود ہمارے فائدے کیلئے الہام بخشا ہے۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کی مدد کر سکتی ہے تاکہ زندگی اور ہماری توجہ کا مرکز بننے والی چیز کی بابت اپنے نقطۂنظر کو صحیح رکھ سکیں۔ (واعظ ۷:۲؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷) یہ بالخصوص اُن نتائج کی بابت دُرست ہے جن پر پہنچنے میں یہوواہ نے سلیمان کی مدد کی تھی۔
۱۵، ۱۶. (ا) زندگی سے لطف اُٹھانے کی بابت سلیمان کا کیا نظریہ تھا؟ (ب) زندگی سے لطف اُٹھانے کیلئے سلیمان نے کن چیزوں کو موزوں طور پر لازمی قرار دیا؟
۱۵ ایک بات جس پر سلیمان نے بارہا توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ سچے خدا کے خادموں کو اُس کے حضور اپنی کارگزایوں سے خوش ہونا چاہئے۔ ”مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ انسان کے لئے یہی بہتر ہے کہ خوش وقت ہو اور جب تک جیتا رہے نیکی کرے اور یہ بھی کہ ہر ایک انسان کھائے پئے اور اپنی ساری محنت سے فائدہ اُٹھائے۔ یہ بھی خدا کی بخشش ہے۔“ (واعظ ۲:۲۴؛ ۳:۱۲، ۱۳؛ ۵:۱۸؛ ۸:۱۵) غور کریں کہ سلیمان عیشوعشرت کی حوصلہافزائی نہیں کر رہا تھا؛ نہ ہی اُس نے ’آؤ کھائیں پئیں کیونکہ کل تو مر ہی جائینگے‘ کے میلان کی تصدیق کی تھی۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۴، ۳۲-۳۴) اس کا مطلب تھا کہ جب ہم اپنی زندگی کے دوران نیکی کرتے ہیں تو ہمیں نارمل خوشیوں سے لطفاندوز ہونا چاہئے جیسےکہ کھانا اور پینا۔‘ یہ یقینی طور پر ہماری زندگی کو خالق کی مرضی پر مرکوز کرتا ہے جو اس بات کا تعیّن کرتا ہے کہ درحقیقت اچھا کیا ہے۔—زبور ۲۵:۸؛ واعظ ۹:۱؛ مرقس ۱۰:۱۷، ۱۸؛ رومیوں ۱۲:۲۔
۱۶ سلیمان نے لکھا: ”اپنی راہ چلا جا۔ خوشی سے اپنی روٹی کھا اور خوشدلی سے اپنی مے پی کیونکہ خدا تیرے اعمال کو قبول کر چکا ہے۔“ (واعظ ۹:۷-۹) جیہاں، جس مرد یا عورت کی زندگی واقعی بھرپور اور مکمل ہے وہ ایسے کاموں میں سرگرمِعمل رہتا ہے جن سے یہوواہ خوش ہوتا ہے۔ یہ ہم سے ہمہوقت اس پر غور کرتے رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ لوگوں کی اکثریت کے نقطۂنظر سے کسقدر مختلف ہے جو زندگی کو انسانی استدلال کی نگاہ سے دیکھتے ہیں!
۱۷، ۱۸. (ا) زیادہتر لوگ زندگی کے حقائق کے لئے کیسا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں؟ (ب) ہمیں کس نتیجے کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے؟
۱۷ اگرچہ بعض مذاہب آئندہ زندگی کی بابت تعلیم دیتے ہیں، زیادہتر لوگ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ درحقیقت یہی زندگی سب کچھ ہے جس کا وہ یقین رکھ سکتے ہیں۔ آپ شاید اُنہیں بالکل ویسا ہی ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے پائیں جیسا سلیمان نے بیان کِیا تھا: ”چونکہ بُرے کام پر سزا کا حکم فوراً نہیں دیا جاتا اسلئے بنیآدم کا دل اُن میں بدی پر بہشدت مائل ہے۔“ (واعظ ۸:۱۱) یہانتککہ وہ لوگ بھی جو بُرے کاموں میں اتنا زیادہ نہیں اُلجھتے بنیادی طور پر اپنی موجودہ زندگی کی بابت فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایک وجہ ہے کہ دولت، املاک، شہرت، دوسروں پر اختیار، خاندان یا دیگر ایسے مفادات اُن کے لئے انتہائی اہم کیوں بن جاتے ہیں۔ تاہم، سلیمان نے اس خیال کو ادھورا نہیں چھوڑا تھا۔ وہ مزید کہتا ہے: ”اگرچہ گنہگار سو بار بُرائی کرے اور اُس کی عمر دراز ہو توبھی مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ اُن ہی کا بھلا ہوگا جو خداترس ہیں اور اُس کے حضور کانپتے ہیں۔ لیکن گنہگار کا بھلا کبھی نہ ہوگا اور نہ وہ اپنے دنوں کو سایہ کی مانند بڑھائیگا اس لئے کہ وہ خدا کے حضور کانپتا نہیں۔“ (واعظ ۸:۱۲، ۱۳) واضح طور پر، سلیمان اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اگر ہم ’سچے خدا سے ڈرینگے‘ تو ہمارا بھلا ہوگا۔ کتنا بھلا؟ اس کا جواب ہم اُس موازنے سے حاصل کر سکتے ہیں جو اُس نے پیش کِیا۔ یہوواہ ’ہماری عمر دراز کر‘ سکتا ہے۔
۱۸ وہ جو ابھی تک نسبتاً جوان ہیں اُنہیں بالخصوص اس قابلِاعتماد حقیقت پر غوروفکر کرنا چاہئے کہ اگر وہ خدا کے حضور کانپتے ہیں تو اُن کا بھلا ہوگا۔ جیسےکہ آپ نے شاید ذاتی طور پر دیکھا ہو کہ زیادہ تیز دوڑنے والا ٹھوکر کھا کر گِر سکتا ہے اور دوڑ میں اُسے شکست ہو سکتی ہے۔ ایک طاقتور فوج کو شکست ہو سکتی ہے۔ ایک ہوشیار کاروباری شخص غربت کا شکار ہو سکتا ہے۔ اور بہتیری دیگر غیریقینی حالتیں زندگی کو کافی حد تک ناقابلِفہم بنا سکتی ہیں۔ لیکن آپ مطلقاً اس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں: دانشمندانہ اور حتمی روش یہ ہے کہ جب آپ خدا کے اخلاقی قوانین کے دائرے میں رہ کر اور اُسکی مرضی کے مطابق نیکی کرتے ہیں تو آپ زندگی سے لطفاندوز ہو سکتے ہیں۔ (واعظ ۹:۱۱) اس میں بائبل سے خدا کی مرضی سیکھنا، اُس کیلئے اپنی زندگی مخصوص کرنا اور ایک بپتسمہیافتہ مسیحی بننا شامل ہے۔—متی ۲۸:۱۹، ۲۰۔
۱۹. نوجوان اپنی زندگیوں کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں لیکن دانشمندانہ روش کیا ہے؟
۱۹ خالق نوجوانوں یا دیگر لوگوں کو اپنی راہنمائیوں پر عمل کرنے کے لئے مجبور نہیں کرے گا۔ ساری عمر کے لئے انسانی حکمت کی لاتعداد کُتب کا طالبعلم بنتے ہوئے وہ خود کو حصولِتعلیم میں مستغرق کر سکتے ہیں۔ یہ بالآخر جسم کو تھکا دینے والا ثابت ہوگا۔ یا وہ اپنے ناکامل انسانی دل کی راہوں پر چل سکتے ہیں یا پھر جو آنکھوں کو خوشنما دکھائی دیتا ہے اُس کی پیروی کر سکتے ہیں۔ یہ یقینی طور پر پریشانی کا باعث ہوگا اور اسطرح سے بسر کی جانے والی زندگی انجامکار بطلان ثابت ہوگی۔ (واعظ ۱۱:۹–۱۲:۱۲؛ ۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) لہٰذا سلیمان جوانوں سے استدعا کرتا ہے—ایک ایسی استدعا جس پر ہمیں اپنی عمر کو بالائےطاق رکھ کر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے: ”اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد کر جبکہ بُرے دن ہنوز نہیں آئے اور وہ برس نزدیک نہیں ہوئے جن میں تُو کہے گا کہ ان سے مجھے کچھ خوشی نہیں۔“—واعظ ۱۲:۱۔
۲۰. واعظ میں پائے جانے والے پیغام کا متوازن نظریہ کیا ہے؟
۲۰ ایسی صورتحال میں ہمیں کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہئے؟ سلیمان جس نتیجے پر پہنچا اُس کی بابت کیا ہے؟ اُس نے ”سب کاموں پر جو دُنیا میں کئے جاتے ہیں“ نظر کی یا اُنکا جائزہ لیا ”اور دیکھو یہ سب کچھ بطلان اور ہوا کی چران ہے۔“ (واعظ ۱:۱۴) واعظ کی کتاب میں ہم ایک طنز کرنے والے یا غیرمطمئن شخص کے الفاظ نہیں پاتے ہیں۔ وہ خدا کے الہامی کلام کا حصہ اور ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔
۲۱، ۲۲. (ا) سلیمان نے زندگی کے کن پہلوؤں پر غوروخوض کِیا؟ (ب) وہ کس دانشمندانہ نتیجے پر پہنچا؟ (پ) واعظ کے مضامین کے بغور مشاہدے سے آپ کیسے اثرپذیر ہوئے ہیں؟
۲۱ سلیمان نے انسانی مشکلات، کاوشوں اور تمناؤں کا جائزہ لیا۔ اُس نے اس چیز پر بھی غور کِیا کہ عام امور کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، ایسا مایوسکُن اور بےمعنی نتیجہ جسکا بہتیرے انسانوں کو تجربہ ہوتا ہے۔ اُس نے انسانی ناکاملیت اور اس سے پیدا ہونے والی موت کی حقیقت پر بھی غور کِیا۔ اور اُس نے مُردوں کی حالت اور مستقبل میں زندگی کے امکانات کی بابت خداداد علم پر بھی غوروخوض کِیا۔ یہ تمام مشاہدہ ایک ایسے شخص نے کِیا جس کے پاس الہٰی طور پر عطاکردہ حکمت تھی، جیہاں، ایک انتہائی دانشور شخص جوکبھی ہو گزرا۔ اسکے بعد جس نتیجے پر وہ پہنچا اُسے اُن تمام لوگوں کے فائدہ کیلئے جو واقعی بامقصد زندگی کے خواہاں ہیں پاک صحائف میں شامل کر دیا گیا۔ کیا ہمیں اس سے متفق نہیں ہونا چاہئے؟
۲۲ ”اب سب کچھ سنایا گیا۔ حاصلِکلام یہ ہے۔ خدا سے ڈر اور اُسکے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِکُلی یہی ہے۔ کیونکہ خدا ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائے گا۔“—واعظ ۱۲:۱۳، ۱۴۔
[فٹنوٹ]
a دی واچٹاور نے ایک مرتبہ یہ پُرحکمت بیان دیا: ”ہمیں اس زندگی کو فضولیات میں ضائع نہیں کرنا چاہئے . . . اگر یہی زندگی سب کچھ ہے توپھر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ یہ زندگی ہوا میں اُچھالے گئے ایک گیند کی مانند ہے جو جلد ہی واپس زمین پر گرتا ہے۔ یہ ایک عارضی سایہ، مُرجھا جانے والا ایک پھول، کاٹی جانے اور جلد سوکھ جانے والی گھاس کا ایک تنکا ہے۔ . . . ابدیت کے پیمانے پر ہمارا دورِحیات ایک برائےنام ذرہ ہے۔ وقت کے دھارے میں یہ ایک بوند بھی نہیں ہے۔ یقیناً [سلیمان] حق پر ہے جب وہ زندگی میں انسان کی بیشمار پریشانیوں اور کارگزاریوں پر نظر کرتا اور اُنہیں بطلان قرار دیتا ہے۔ ہم اتنی جلدی مر جاتے ہیں کہ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے ہم پیدا ہی نہیں ہوئے تھے، ہم اُن کروڑہا لوگوں میں سے ہوتے ہیں جو آ کر چلے جاتے ہیں اور بہت کم لوگ ہمارے وجود سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ نظریہ طنزآمیز یا غمانگیز یا صدمہخیز یا ہولناک نہیں ہے۔ اگر یہی زندگی سب کچھ ہے توپھر یہ سچائی، ایک حقیقت ہے جس کا ہمیں سامنا ہے اور ایک عملی نظریہ ہے۔“—اگست ۱، ۱۹۵۷، صفحہ ۴۷۲۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
▫ دانشمندانہ طور پر آپکی زندگی میں مالومتاع کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟
▫ کیوں ہمیں خاندان، شہرت یا دوسروں پر اختیار رکھنے پر بہت زیادہ زور نہیں دینا چاہئے؟
▫ لطف اُٹھانے کے سلسلے میں سلیمان نے کس الہٰی میلان کی حوصلہافزائی کی؟
▫ آپ نے واعظ کی کتاب پر غوروخوض کرنے سے کیسے استفادہ کِیا ہے؟
[صفحہ 15 پر تصویریں]
دولت اور مالومتاع اطمینان کی ضمانت نہیں ہیں
[صفحہ 17 پر تصویر]
نوجوان لوگ اس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر وہ خدا سے ڈرتے ہیں تو اُنکا بھلا ہوگا