”ہر کام کا ایک وقت ہے“
”ہر چیز کا موقع اور ہر کام کا جو آسمان کے نیچے ہوتا ہے ایک وقت ہے۔“—واعظ ۳:۱۔
۱. ناکامل انسانوں کو کیا مسئلہ درپیش ہے اور بعض حالات میں اسکا کیا نتیجہ نکلا ہے؟
لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ”مجھے یہ کام پہلے کر لینا چاہئے تھا۔“ یا پھر کام کر گزرنے کے بعد سوچتے ہیں کہ ”مجھے انتظار کرنا چاہئے تھا۔“ ایسے اظہارات سے پتہ چلتا ہے کہ ناکامل انسانوں کو اکثر کسی کام کے صحیح وقت کا تعیّن کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس خامی کی وجہ سے اکثر رشتوں میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔ علاوہازیں یہ مایوسی اور ناکامی کا باعث بنتی ہے۔ سب سے بُری بات تو یہ ہے کہ اس نے یہوواہ اور اُسکی تنظیم پر بعض لوگوں کے ایمان کو کمزور کر دیا ہے۔
۲، ۳. (ا) یہوواہ کی مقررہ میعادوں کو قبول کرنا دانشمندانہ روش کیوں ہے؟ (ب) بائبل پیشینگوئیوں کی تکمیل کے سلسلے میں ہمیں کونسا متوازن نظریہ رکھنا چاہئے؟
۲ یہوواہ حکمت اور بصیرت کا مالک ہے جبکہ انسانوں میں انکی کمی ہے اسلئے اگر وہ چاہے تو ہر فعل کا انجام پہلے سے معلوم کر سکتا ہے۔ وہ ”ابتدا ہی سے انجام کی خبر“ دے سکتا ہے۔ (یسعیاہ ۴۶:۱۰) لہٰذا، وہ جو بھی کام کرنا چاہے اُس کیلئے کوئی بھی غلطی کئے بغیر ٹھیک وقت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ پس، وقت کے سلسلے میں اپنی ناقص عقل پر بھروسہ کرنے کی بجائے ہم یہوواہ کی مقررہ میعادوں کو قبول کرکے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہیں!
۳ مثال کے طور پر، پُختہ مسیحی بعض بائبل پیشینگوئیوں کی تکمیل کے لئے وفاداری سے یہوواہ کے مقررہ وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ اُس کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں اور نوحہ ۳:۲۶ کے اصول کو ذہن میں رکھتے ہیں: ”یہ خوب ہے کہ آدمی اُمیدوار رہے اور خاموشی سے [یہوواہ] کی نجات کا انتظار کرے۔“ (مقابلہ کریں حبقوق ۳:۱۶۔) اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ یہوواہ کی عدالت میں اگرچہ ”دیر ہو توبھی . . . یہ یقیناً وقوع میں آئے گی۔ تاخیر نہ کرے گی۔“—حبقوق ۲:۳۔
۴. عاموس ۳:۷ اور متی ۲۴:۴۵ کو صبر کیساتھ یہوواہ کے منتظر رہنے میں کیسے ہماری مدد کرنی چاہئے؟
۴ اس کے برعکس، اگر ہم واچ ٹاور مطبوعات میں پیش کی جانے والی بعض بائبل آیات یا تشریحات کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں تو کیا ہمارے پاس بےصبری کا کوئی جواز ہے؟ معاملات کی وضاحت کیلئے یہوواہ کے مقررہ وقت کا انتظار کرنا واقعی دانشمندانہ روش ہے۔ ”[یہوواہ] خدا کچھ نہیں کرتا جب تک کہ اپنا بھید اپنے خدمتگذار نبیوں پر پہلے آشکارا نہ کرے۔“ (عاموس ۳:۷) کیا ہی شاندار وعدہ! تاہم، ہمیں یہ ضرور تسلیم کرنا چاہئے کہ یہوواہ اپنا بھید اُسی وقت پر آشکارا کرتا ہے جو اُسکی دانست میں موزوں ہوتا ہے۔ اس مقصد کیلئے خدا نے ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کو اختیار سونپ رکھا ہے کہ اُس کے لوگوں کو ”وقت پر [روحانی] کھانا دے۔“ (متی ۲۴:۴۵) لہٰذا، جب بعض معاملات پوری طرح واضح نہیں ہوتے تو ہمیں حد سے زیادہ فکرمند یا برہم نہیں ہونا چاہئے۔ اسکی بجائے، ہم پُراعتماد ہو سکتے ہیں کہ اگر ہم صبر کیساتھ یہوواہ کے منتظر رہتے ہیں تو وہ دیانتدار نوکر کے ذریعے ”وقت پر“ درکار اعانت فراہم کریگا۔
۵. واعظ ۳:۱-۸ پر غوروخوض کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
۵ دانشمند بادشاہ سلیمان نے ۲۸ مختلف چیزوں کا ذکر کِیا جن میں سے ہر ایک کا ”موقع“ ہوتا ہے۔ (واعظ ۳:۱-۸) سلیمان کی باتوں کے مفہوم اور اطلاق کی سمجھ خدا کے نقطۂنظر سے بعض کاموں کے مناسب اور نامناسب وقت کا تعیّن کرنے میں ہماری مدد کریگی۔ (عبرانیوں ۵:۱۴) نیز اس سے ہماری مدد ہوگی کہ اپنی زندگیاں اسی کے مطابق گزاریں۔
”رونے کا ایک وقت ہے اور ہنسنے کا ایک وقت ہے“
۶، ۷. (ا) آجکل کونسی حالتیں لوگوں کیلئے ”رونے“ کا باعث بنتی ہیں؟ (ب) دُنیا کیسے موجودہ سنگین حالت کا سدِباب کرنے کی کوشش کرتی ہے؟
۶ اگرچہ ”رونے کا ایک وقت ہے اور ہنسنے کا ایک وقت ہے“ توبھی وہ کونسا شخص ہے جو رونے کی نسبت ہنسی کو بہتر خیال نہیں کرتا؟ (واعظ ۳:۴) افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جو ہمیں رُلاتی ہی رہتی ہے۔ ذرائعابلاغ میں غمگین کر دینے والی خبروں کی بھرمار ہوتی ہے۔ جب ہم یہ سنتے ہیں کہ نوجوان اپنے ہی ہممکتبوں پر گولیاں چلاتے ہیں، والدین اپنے بچوں سے جنسی بدسلوکی کرتے ہیں، دہشتگرد بیگناہوں کا خون بہاتے یا اُنہیں معذور کر دیتے ہیں اور قدرتی آفات انسانی جانومال کو برباد کر دیتی ہیں تو ہم خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ بھوک کے باعث اندر دھنسی ہوئی آنکھوں والے بچے اور دربدر بھٹکنے والے پناہگزین ٹیلیویژن کی سکرین پر ہماری توجہ حاصل کرنے کی ازحد کوشش کرتے ہیں۔ نسلی صفائی، ایڈز، جرثومی جنگ اور ایل نینو [تیز بارشوں اور دیگر ناخوشگوار معاملات کی موسمی کیفیت] جیسی اصطلاحات جنکا ماضی میں کوئی اَتاپتا نہیں تھا اب انکی وجہ سے ہمارے دلودماغ میں وسوسے اُٹھتے رہتے ہیں۔
۷ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دُنیا المناک واقعات اور دُکھدرد سے بھری پڑی ہے۔ تاہم، صورتحال کی سنگینی کو کم کرنے کیلئے تفریحی صنعت معمول کے مطابق بےکیف، بےذوق، اکثر بداخلاقی اور تشدد سے پُر پروگرام پیش کرتی ہے جنکا مقصد ہمیں گمراہ کرنا ہوتا ہے تاکہ ہم دوسروں کی مفلوکالحالی سے بالکل بےبہرہ ہو جائیں۔ لیکن ایسی تفریح احمقانہ طنزومزاح اور ناشائستہ ہنسیقہقہوں میں پائے جانے والے جس لااُبالی رُجحان کو فروغ دیتی ہے اُسکا دراصل حقیقی خوشی کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ خوشی خدا کی روح کا ایک پھل ہے جسے شیطان کی دُنیا پیدا نہیں کر سکتی۔—گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳؛ افسیوں ۵:۳، ۴۔
۸. آجکل مسیحیوں کو کسے ترجیح دینی چاہئے رونے کو یا ہنسنے کو؟ وضاحت کریں۔
۸ دُنیا کی افسوسناک حالت کے پیشِنظر، ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آجکل ہنسیمذاق کو حد سے زیادہ اہمیت دینے کا وقت نہیں ہے۔ اس وقت اپنی زندگی کو محض تفریح کیلئے وقف کر دینا یا ”موجمستی“ کو روحانی چیزوں کے حصول پر حاوی ہو جانے کی اجازت دینا دانشمندانہ روش نہیں ہوگی۔ (مقابلہ کریں واعظ ۷:۲-۴۔) پولس رسول نے بیان کِیا کہ ”دُنیوی کاروبار کرنے والے ایسے ہوں کہ دُنیا ہی کے نہ ہو جائیں۔“ کیوں؟ اسلئےکہ ”دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۱) سچے مسیحی ہر روز اپنے زمانے کی نزاکت کو تسلیم کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔—فلپیوں ۴:۸۔
رونے کے باوجود واقعی خوش!
۹. طوفان سے پہلے کے دنوں میں کونسی افسوسناک حالت تھی اور آجکل اسکا ہمارے لئے کیا مطلب ہے؟
۹ عالمگیر طوفان کے وقت میں رہنے والے لوگ زندگی کی بابت سنجیدہ نقطۂنظر نہیں رکھتے تھے۔ وہ اپنے معمول کے کام کرتے رہے اور ”زمین پر انسان کی بدی“ پر رونے میں ناکام ہو گئے جو ”بہت بڑھ گئی“ تھی اور اُنہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ زمین ”ظلم سے بھری“ گئی ہے۔ (پیدایش ۶:۵، ۱۱) یسوع نے اس افسوسناک صورتحال کا حوالہ دیکر پیشینگوئی کی کہ ہمارے زمانے میں بھی لوگ ایسا ہی ردِعمل دکھائیں گے۔ اُس نے آگاہ کِیا: ”جس طرح طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے اس دن تک کہ نوؔح کشتی میں داخل ہؤا۔ اور جب تک طوفان آ کر اُن سب کو بہا نہ لے گیا انکو خبر نہ ہوئی اُسی طرح ابنِآؔدم کا آنا ہوگا۔“—متی ۲۴:۳۸، ۳۹۔
۱۰. حجی کے زمانہ کے اسرائیلیوں نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُن میں یہوواہ کے مقررہ وقت کیلئے قدردانی کی کمی تھی؟
۱۰ طوفان سے کوئی ۱۸۵۰ سال بعد، حجی کے زمانہ میں، بہتیرے اسرائیلیوں نے روحانی معاملات کیلئے بالکل ایسی ہی سنجیدہ فکرمندی کی کمی کا مظاہرہ کِیا۔ ذاتی مفادات کے حصول میں مگن ہونے کی وجہ سے وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ اب دراصل اُن کیلئے یہوواہ کے مفادات کو اوّلین درجہ دینے کا وقت ہے۔ ہم پڑھتے ہیں: ”یہ لوگ کہتے ہیں ابھی [یہوواہ] کے گھر کی تعمیر کا وقت نہیں آیا۔ تب [یہوواہ] کا کلام حجیؔ نبی کی معرفت پہنچا۔ کہ کیا تمہارے لئے مُسقّف گھروں میں رہنے کا وقت ہے جبکہ یہ گھر ویران پڑا ہے؟ اور اب ربُالافواج یوں فرماتا ہے کہ تم اپنی روش پر غور کرو۔“—حجی ۱:۱-۵۔
۱۱. ہم موزوں طور پر خود سے کونسے سوالات پوچھ سکتے ہیں؟
۱۱ آج یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہم بھی حجی کے زمانے کے اسرائیلیوں کی طرح یہوواہ کے حضور ذمہداریاں اور استحقاقات رکھتے ہیں، لہٰذا ہمارے لئے اچھا ہوگا کہ ہم کمال سنجیدگی کیساتھ اپنی روش پر غور کریں۔ کیا ہم دُنیاوی حالتوں اور انکی وجہ سے خدا کے نام کی بدنامی پر ”روتے“ ہیں؟ جب لوگ خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں یا بےحیائی سے اُسکے راست معیاروں کو نظرانداز کرتے ہیں تو کیا ہمیں دُکھ ہوتا ہے؟ کیا ہم اُن نشانشُدہ لوگوں جیسا جوابیعمل دکھاتے ہیں جنہیں حزقیایل نے ۲،۵۰۰ سال قبل رویا میں دیکھا تھا؟ ہم اُنکی بابت پڑھتے ہیں: ”[یہوواہ] نے [اُس آدمی سے جسکے پاس لکھنے کی دوات تھی] فرمایا کہ شہر کے درمیان سے ہاں یرؔوشلیم کے بیچ سے گزر اور اُن لوگوں کی پیشانی پر جو اُن سب نفرتی کاموں کے سبب سے جو اُسکے درمیان کئے جاتے ہیں آہیں مارتے اور روتے ہیں نشان کر دے۔“—حزقیایل ۹:۴۔
۱۲. آجکل لوگوں کیلئے حزقیایل ۹:۵، ۶ کی کیا اہمیت ہے؟
۱۲ آجکل ہمارے لئے اس بیان کی اہمیت ان ہدایات سے ظاہر ہو جاتی ہے جو خونریز ہتھیاروں والے چھ مردوں کو دی گئی تھیں: ”اُسکے پیچھے پیچھے شہر میں سے گزر کرو اور مارو۔ تمہاری آنکھیں رعایت نہ کریں اور تم رحم نہ کرو۔ تم بوڑھوں اور جوانوں اور لڑکیوں اور ننھے بچوں اور عورتوں کو بالکل مار ڈالو لیکن جن پر نشان ہے اُن میں سے کسی کے پاس نہ جاؤ اور میرے مقدِس سے شروع کرو۔“ (حزقیایل ۹:۵، ۶) تیزی سے نزدیک آنے والی اِس بڑی مصیبت سے ہمارے بچاؤ کا انحصار اس بات کو تسلیم کرنے پر ہے کہ بنیادی طور پر اب رونے کا وقت ہے۔
۱۳، ۱۴. (ا) یسوع نے کس قسم کے لوگوں کو مبارک کہا؟ (ب) وضاحت کریں کہ آپ کے خیال میں یہ بیان یہوواہ کے گواہوں پر کیوں صادق آتا ہے۔
۱۳ بِلاشُبہ، یہوواہ کے خادموں کا دُنیاوی امور کی بُری حالت پر ”رونا“ اُن کی خوشی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، وہ درحقیقت زمین کے تمام لوگوں سے زیادہ خوش ہیں۔ یسوع نے خوشی کی کسوٹی پیش کرتے ہوئے کہا: ”مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں . . . جو غمگین ہیں . . . جو حلیم ہیں . . . جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں . . . جو رحمدل ہیں . . . جو پاک دل ہیں . . . جو صلح کراتے ہیں . . . جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں۔“ (متی ۵:۳-۱۰) یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ بیان کسی دوسری مذہبی تنظیم کی نسبت اجتماعی طور پر یہوواہ کے گواہوں پر زیادہ صادق آتا ہے۔
۱۴ بالخصوص ۱۹۱۹ میں سچی پرستش کی بحالی سے لیکر یہوواہ کے مبارک لوگوں کے پاس ”ہنسی“ کی وجہ موجود ہے۔ روحانی اعتبار سے اُنہیں چھٹی صدی ق.س.ع. میں بابل سے لوٹنے والے لوگوں جیسا ہیجانخیز تجربہ ہوا: ”جب [یہوواہ] صیوؔن کے اسیروں کو واپس لایا تو ہم خواب دیکھنے والوں کی مانند تھے۔ اُس وقت ہمارے مُنہ میں ہنسی اور ہماری زبان پر راگنی تھی۔ . . . [یہوواہ] نے ہمارے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں اور ہم شادمان ہیں۔“ (زبور ۱۲۶:۱-۳) یہوواہ کے گواہ روحانی طور پر ہنسنے کے باوجود دانشمندی کے ساتھ اپنے زمانے کی نزاکت سے خبردار رہتے ہیں۔ جب حقیقت میں نئی دُنیا آ جائے گی اور زمین کے باشندے ”حقیقی زندگی پر قبضہ“ کر لینگے تب ہنسی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رونے کی جگہ لے لیگی۔—۱-تیمتھیس ۶:۱۹؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
”ہمآغوشی کا ایک وقت ہے اور ہمآغوشی سے باز رہنے کا ایک وقت ہے“
۱۵. مسیحی دوستوں کے معاملے میں انتخابپسند کیوں ہیں؟
۱۵ مسیحی دوستوں کے سلسلے میں بہت زیادہ انتخابپسند ہیں۔ وہ پولس کی اس آگاہی کو ذہن میں رکھتے ہیں: ”فریب نہ کھاؤ۔ بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) نیز، دانشمند بادشاہ سلیمان نے کہا: ”وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائیگا۔“—امثال ۱۳:۲۰۔
۱۶، ۱۷. یہوواہ کے گواہ دوستی، ڈیٹنگ اور شادی کو کیسا خیال کرتے ہیں اور کیوں؟
۱۶ یہوواہ کے خادم صرف اُن لوگوں کے ساتھ دوستی رکھتے ہیں جو یہوواہ اور اُس کی راستبازی سے بالکل اُنہی جیسی محبت رکھتے ہیں۔ اپنے دوستواحباب کی رفاقت کی قدرافزائی کرنے اور اُس سے لطفاندوز ہونے کے علاوہ وہ دانشمندی کے ساتھ بعض ممالک میں آجکل رائج ڈیٹنگ کی بابت اباحتی، حد سے زیادہ آزادانہ نظریہ اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ ڈیٹنگ کو ایک بےضرر تفریح سمجھ کر اس میں ملوث ہونے کی بجائے، اسے شادی کی جانب ایک سنجیدہ قدم خیال کرتے ہیں جو صرف اُسی صورت میں اُٹھایا جانا چاہئے جب کوئی شخص جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر اس دائمی بندھن کے لئے تیار اور صحیفائی طور پر آزاد ہے۔—۱-کرنتھیوں ۷:۳۶۔
۱۷ بعض کے خیال میں ڈیٹنگ اور شادی کی بابت ایسا نظریہ دقیانوسی ہے۔ تاہم یہوواہ کے گواہ دوستوں کے انتخاب یا ڈیٹنگ اور شادی کے سلسلے میں فیصلوں کی بابت ہمسروں کے دباؤ میں نہیں آتے۔ وہ جانتے ہیں کہ ”حکمت اپنے کاموں سے راست ثابت“ ہوتی ہے۔ (متی ۱۱:۱۹) یہوواہ کا علم کامل ہے اس لئے وہ ”صرف خداوند میں“ شادی کرنے کی اُسکی مشورت کو سنجیدہ خیال کرتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۹؛ ۲-کرنتھیوں ۶:۱۴) وہ اس غلط سوچ کیساتھ شادی کیلئے جلدبازی نہیں کرتے کہ اگر شادی ناکام ہو گئی تو طلاق یا علیٰحدگی قابلِقبول حل ہونگے۔ وہ موزوں ساتھی کا انتخاب کرنے میں وقت لیتے ہیں اور اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جب شادی کے عہدوپیمان ہو جاتے ہیں تو یہوواہ کے اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے: ”پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں۔ اسلئے جسے خدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جدا نہ کرے۔“—متی ۱۹:۶؛ مرقس ۱۰:۹۔
۱۸. کونسی چیز خوشحال شادی کی ابتدا ثابت ہو سکتی ہے؟
۱۸ شادی تاحیات قائم رہنے والا بندھن ہے اس لئے یہ محتاط منصوبہسازی کا مستحق ہے۔ ایک مرد حقیقتپسندی کے ساتھ خود سے یہ پوچھے گا، ’کیا وہ عورت واقعی میرے لئے موزوں ہے؟‘ تاہم اُس کے لئے اس بات پر غور کرنا بھی اہم ہوگا کہ ’کیا مَیں بھی اُس کے لئے موزوں ہوں؟ کیا مَیں پُختہ مسیحی ہوں جو اُس کی روحانی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے؟‘ دونوں امکانی ساتھیوں کی یہوواہ کے حضور ذمہداری ہے کہ وہ روحانی طور پر مضبوط اور الہٰی پسندیدگی کے لائق پُختہ ازدواجی بندھن قائم کرنے کے قابل ہوں۔ ہزاروں مسیحی جوڑے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ خوشحال شادی کی بہترین ابتدا کُلوقتی خدمت ہے کیونکہ یہ لینے پر نہیں بلکہ دینے پر زور دیتی ہے۔
۱۹. بعض مسیحی کنوارے کیوں رہتے ہیں؟
۱۹ بعض مسیحی خوشخبری کی خاطر کنوارے رہ کر ”ہمآغوشی سے باز“ رہتے ہیں۔ (واعظ ۳:۵) دیگر اُس وقت تک شادی کو ملتوی کر دیتے ہیں جب تک کہ وہ روحانی اعتبار سے کسی مناسب ساتھی کی توجہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ تاہم، ہمیں اُن کنوارے مسیحیوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے جو شادی کی قربتوں اور فوائد کی تمنا کرتے ہیں مگر اُنہیں کوئی ساتھی نہیں ملتا۔ ہمیں یقین ہے کہ یہوواہ اُن کے اس مؤقف سے خوش ہے کہ وہ شادی کے معاملے میں الہٰی اصولوں سے مصالحت نہیں کرتے۔ ہمیں اُن کی وفاداری کی قدر کرنی چاہئے اور اِس مؤقف کو برقرار رکھنے کے لئے اُن کی پوری پوری حمایت کرنی چاہئے۔
۲۰. بیاہتا ساتھی بھی بعضاوقات کیوں ”ہمآغوشی سے باز“ رہتے ہیں؟
۲۰ کیا بیاہتا جوڑوں کو بھی کبھیکبھار ”ہمآغوشی سے باز“ رہنا چاہئے؟ ایک طرح سے ایسا ممکن ہے کیونکہ پولس نے بیان کِیا: ”مگر اَے بھائیو! مَیں یہ کہتا ہوں کہ وقت تنگ ہے۔ پس آگے کو چاہئے کہ بیوی والے ایسے ہوں کہ گویا اُن کی بیویاں نہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۹) اس کے مطابق بعضاوقات شادی کی خوشیوں اور برکات کو تھیوکریٹک ذمہداریوں کی نسبت ثانوی درجے پر رکھا جانا چاہئے۔ اس معاملے میں متوازن نظریہ شادی کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرے گا کیونکہ اس سے دونوں ساتھیوں کی یہ بات یاد رکھنے میں مدد ہوگی کہ یہوواہ ہی کو ہمیشہ اُن کے بندھن کو مستحکم رکھنے والی ہستی ہونا چاہئے۔—واعظ ۴:۱۲۔
۲۱. اولاد کے معاملے میں بیاہتا جوڑوں پر نکتہچینی کیوں نہیں کی جانی چاہئے؟
۲۱ علاوہازیں، بعض بیاہتا جوڑوں نے اولاد پیدا نہیں کی تاکہ وہ خدا کی خدمت جاری رکھنے کیلئے آزاد رہ سکیں۔ اُنہوں نے واقعی قربانی دی ہے جسکا یہوواہ اُنہیں ضرور اجر دیگا۔ اتفاق کی بات ہے کہ بائبل خوشخبری کی خاطر کنوارپن کی تو حوصلہافزائی کرتی ہے مگر یہ اسی مقصد کیلئے بےاولاد رہنے کی بابت براہِراست کچھ نہیں کہتی۔ (متی ۱۹:۱۰-۱۲؛ ۱-کرنتھیوں ۷:۳۸؛ مقابلہ کریں متی ۲۴:۱۹ اور لوقا ۲۳:۲۸-۳۰۔) لہٰذا، بیاہتا جوڑوں کو ذاتی حالات اور اپنے ضمیر کی بِنا پر فیصلہ کرنا چاہئے۔ وہ فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو بیاہتا جوڑوں پر نکتہچینی نہیں کی جانی چاہئے۔
۲۲. ہمارے لئے کس بات کا تعیّن کرنا اہم ہے؟
۲۲ واقعی، ”ہر چیز کا ایک موقع اور ہر کام کا جو آسمان کے نیچے ہوتا ہے ایک وقت ہے۔“ اسکے علاوہ ”جنگ کا ایک وقت ہے اور صلح کا ایک وقت ہے۔“ (واعظ ۳:۱، ۸) اگلا مضمون وضاحت کریگا کہ ہمارے لئے اس بات کا تعیّن کرنا کیوں اہم ہے کہ اب ان دونوں میں سے کس کا وقت ہے۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
◻ہمارے لئے یہ جاننا کیوں نہایت اہم ہے کہ ”ہر چیز کا ایک موقع ہے“؟
◻بنیادی طور پر آجکل ”رونے کا وقت“ کیوں ہے؟
◻مسیحی ”رونے“ کے باوجود واقعی خوش کیوں ہیں؟
◻بعض مسیحی کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ اُنکے خیال میں اب ”ہمآغوشی سے باز رہنے . . . کا وقت ہے“؟
[صفحہ 6، 7 پر تصویریں]
اگرچہ مسیحی دُنیاوی حالتوں کے باعث ”روتے“ ہیں . . .
. . . توبھی دراصل وہ دُنیا کے سب سے حوش لوگ ہیں
[صفحہ 8 پر تصویر]
کُل وقتی خدمت خوشحال شادی کی عمدہ بنیاد ہے