کونسی چیز آپ کو خدا کی خدمت کرنے کی تحریک دیتی ہے؟
”تُو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔“—مرقس ۱۲:۳۰۔
۱، ۲. منادی کے کام کے سلسلے میں کونسی ہیجانخیز باتیں انجام پا رہی ہیں؟
کسی گاڑی کی صحیح قیمت کا تعیّن صرف اسکی ظاہری شکل سے نہیں کِیا جاتا۔ پینٹ کا ایک کوٹ شاید اسکی بیرونی دلکشی کو بڑھا دے، اور شاید ایک شاندار ڈیزائن ایک امکانی خریدار کو اپنی طرف کھینچ لے؛ لیکن وہ چیزیں کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں جو آسانی سے دکھائی نہیں دیتیں—انجن جو گاڑی کو چلاتا ہے، اس کے ساتھ تمام دیگر آلات جو اسے کنٹرول کرتے ہیں۔
۲ خدا کے لئے ایک مسیحی کی خدمت کے ساتھ یہی بات ہے۔ یہوؔواہ کے گواہ خداپرستی کے کاموں سے معمور ہیں۔ ہر سال، خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرنے میں ایک بلین سے زائد گھنٹے صرف کئے جاتے ہیں۔ مزیدبرآں، لاکھوں بائبل مطالعے کرائے جاتے ہیں، اور جو بپتسمہ پاتے ہیں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اگر آپ خوشخبری کے مُناد ہیں تو آپ نے بھی ان ہیجانخیز اعدادوشمار میں حصہ—اگرچہ بظاہر تھوڑا—لیا ہے۔ اور آپ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اس محبت کو بھول جائے جو تم نے اس کے نام کے واسطے . . . ظاہر کی۔“—عبرانیوں ۶:۱۰۔
۳. مسیحیوں کے نزدیک کاموں کے علاوہ کونسی بات نہایت اہم فکر کا باعث ہونی چاہئے، اور کیوں؟
۳ تاہم، ہماری خدمت کی صحیح قدروقیمت—مجموعی یا انفرادی طور پر—کا اندازہ محض اعداد سے نہیں لگایا جاتا۔ جیسے کہ سموئیلؔ کو بتایا گیا تھا کہ ”انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر خداوند دل پر نظر کرتا ہے۔“ (۱-سموئیل ۱۶:۷) جیہاں، جو کچھ ہم باطن میں ہیں خدا کے نزدیک اس کی اہمیت ہے۔ مانا کہ کام ضروری ہیں۔ خدائی عقیدت کے کام یہوؔواہ کی تعلیم کو رونق بخشتے اور امکانی شاگردوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ (متی ۵:۱۴-۱۶؛ ططس ۲:۱۰؛ ۲-پطرس ۳:۱۱) تاہم، ہمارے کام تمامتر کہانی نہیں بتاتے۔ قیامتیافتہ یسوؔع کے پاس افسسؔ کی کلیسیا کے لئے—انکے اچھے کاموں کے ریکارڈ کے باوجود—فکرمندی رکھنے کی ہر وجہ تھی۔ ”میں تیرے کام . . . جانتا ہوں،“ اس نے انہیں بتایا۔ ”مگر مجھ کو تجھ سے یہ شکایت ہے کہ تو نے اپنی پہلی سی محبت چھوڑ دی۔“—مکاشفہ ۲:۱-۴۔
۴. (ا) کس طریقے سے خدا کے لئے ہماری خدمت ایک رسمی فریضے کی مانند بن سکتی ہے؟ (ب) ذاتی جانچ کی ضرورت کیوں ہے؟
۴ ایک خطرہ موجود ہے۔ کچھ عرصے کے بعد، خدا کے لئے ہماری خدمت رسمی فریضے کی مانند بن سکتی ہے۔ ایک مسیحی عورت نے اسے یوں بیان کیا: ”میں خدمت میں جاتی، اجلاسوں پر جاتی، مطالعہ کرتی، دُعا کرتی—لیکن میں نے کچھ بھی محسوس نہ کرتے ہوئے یہ سب خودکار کنٹرول کے تحت کیا۔ بلاشُبہ، خدا کے خادموں کو شاباش دی جاتی ہے جب وہ ”گرائے جانے“ یا ”عاجز“ محسوس کرنے کے باوجود جانفشانی کرتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۹؛ ۷:۶) تاہم، جب ہمارا مسیحی معمول پُختہ عادت میں ڈھل جاتا ہے تو ہمیں گویا انجن کے اندر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حتیٰکہ بہترین گاڑیوں کو بھی وقتاًفوقتاً مرمت کی ضرورت پڑتی ہے؛ اسی طرح تمام مسیحیوں کو باقاعدہ طور پر ذاتی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۱۳:۵) دیگر لوگ ہمارے کاموں کو دیکھ تو سکتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کونسی چیز ہمارے کاموں کو تحریک دیتی ہے۔ لہٰذا، ہم میں سے ہر ایک کو اس سوال کی بابت فکرمند ہونا چاہئے: ’مجھے خدا کی خدمت کرنے کے لئے کونسی چیز تحریک دیتی ہے؟‘
مناسب محرک کی راہ میں رکاوٹیں
۵. یسوؔع نے کس حکم کو سب سے اوّل کہا؟
۵ جب پوچھا گیا کہ اسرائیل کو دئے جانے والے قوانین میں سے اوّل کونسا ہے تو یسوؔع نے ایک حکم کا حوالہ دیا جو ظاہری صورت پر نہیں بلکہ اندرونی محرک پر مرکوز تھا: ”تُو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔“ (مرقس ۱۲:۲۸-۳۰) یوں یسوؔع نے اس چیز کی شناخت کر دی جسے خدا کے لئے ہماری خدمت کے پیچھے قوتِمتحرکہ ہونا چاہئے—محبت۔
۶، ۷. (ا) کس طریقے سے شیطان عیاری سے خاندانی دائرہ پر حملہآور ہوا ہے، اور کیوں؟ (۲-کرنتھیوں ۲:۱۱) (ب) کس طریقے سے کسی کی تربیت الہٰی اختیار کی جانب اسکے رحجان پر اثرانداز ہو سکتی ہے؟
۶ شیطان محبت کی نہایت اہم خوبی کو پیدا کرنے کی ہماری صلاحیت میں حائل ہونا چاہتا ہے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اس نے جو ایک طریقِکار استعمال کیا ہے وہ خاندانی حلقے پر حملہ کرنا ہے۔ کیوں؟ اسلئے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں محبت کی بابت ہمارے اوّلین اور نہایت پائیدار تاثرات تشکیل پاتے ہیں۔ شیطان اس بائبل اصول کو خوب جانتا ہے کہ بچپن میں سیکھی گئی بات بالغپن میں قدروقیمت کی حامل ہو سکتی ہے۔ (امثال ۲۲:۶) وہ عیاری سے محبت کی بابت ہمارے تصور کو اوائل عمری میں ہی بگاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ ”اس جہان کے خدا“ کے طور پر، شیطان اپنے مقاصد کو اس وقت خوب پورا ہوتے ہوئے دیکھتا ہے جب بہتیرے ایسے گھروں میں جوان ہوتے ہیں جو محبت کے محفوظ مقام نہیں ہیں بلکہ تلخمزاجی، غصہ، اور بدگوئی کے میدانِجنگ ہیں۔—۲-کرنتھیوں ۴:۴؛ افسیوں ۴:۳۱، ۳۲؛ ۶:۴؛ فٹنوٹ، اینڈبلیو؛ کلسیوں ۳:۲۱۔
۷ کتاب اپنی خاندانی زندگی کو خوشحال بنانا مشاہدہ کرتی ہے کہ جس طریقہ سے ایک باپ اپنے پدرانہ کردار کو ادا کرتا ہے ”وہ انسانی اور الہٰی دونوں اختیار کے لئے اس کے بچے کے مابعدی رویہ پر ابدی اثر چھوڑ سکتا ہے۔“a ایک مسیحی آدمی جس نے ایک سختگیر باپ کے بھاری ہاتھ تلے پرورش پائی تھی اقرار کرتا ہے: ”میرے لئے یہوؔواہ کی فرمانبرداری کرنا آسان ہے؛ اس سے محبت کرنا کہیں زیادہ مشکل۔“ بیشک، فرمانبرداری نہایت اہم ہے، کیونکہ خدا کی نظروں میں ”فرمانبرداری قربانی سے . . . بہتر ہے۔“ (۱-سموئیل ۱۵:۲۲) لیکن کونسی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے کہ محض فرمانبرداری سے بڑھ کر تحریک پائیں اور یہوؔواہ کیلئے اس محبت کو پیدا کریں جو ہماری پرستش کے پیچھے قوتِمتحرکہ ہے؟
”مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے“
۸، ۹. یسوؔع کی فدیے والی قربانی کو یہوؔواہ کے لئے ہماری محبت کو کس طرح ابھارنا چاہئے؟
۸ یہوؔواہ کے لئے سارے دل سے محبت پیدا کرنے میں سب سے بڑا محرک یسوؔع مسیح کی فدیہ والی قربانی کے لئے قدردانی ہے۔ ”جو محبت خدا کو ہم سے ہے وہ اس سے ظاہر ہوئی کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اس کے سبب سے زندہ رہیں۔“ (۱-یوحنا ۴:۹) ایک مرتبہ جب ہم اسے سمجھ لیتے اور اس کی قدر کرتے ہیں تو محبت کا یہ عمل محبت کے جوابیعمل کا اظہار کرتا ہے۔ ”ہم اسلئے محبت رکھتے ہیں کہ پہلے اس نے ہم سے محبت رکھی۔“—۱-یوحنا ۴:۱۹۔
۹ یسوؔع نے انسان کے نجاتدہندہ کے طور پر خدمت کرنے کی اپنی تفویض کو بخوشی قبول کیا۔ ”ہم نے محبت کو اسی سے جانا کہ اس نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی۔“ (۱-یوحنا ۳:۱۶؛ یوحنا ۱۵:۱۳) یسوؔع کی خودایثارانہ محبت کو ہمارے اندر ایک قدرافزا جوابیعمل کی ترغیب دینی چاہئے۔ مثال دیکر سمجھانے کے لئے: فرض کریں کہ آپ کو ڈوبنے سے بچا لیا گیا ہے۔ کیا آپ خود کو خشک کرکے گھر چلے جائیں اور اسے بھول جائینگے؟ بیشک نہیں! آپ خود کو اس شخص کے مقروض محسوس کرینگے جس نے آپ کو بچایا تھا۔ بہرحال، آپ اپنی زندگی کیلئے اس شخص کے مقروض ہیں۔ کیا ہم یہوؔواہ خدا اور یسوؔع مسیح کے کچھ کم مقروض ہیں؟ فدیے کے بغیر، ہم میں سے ہر ایک، گویا گناہ اور موت میں، ڈوب گیا ہوتا۔ اس کی بجائے، محبت کے عظیم کام کی بدولت، ہم فردوسی زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کا امکان رکھتے ہیں۔—رومیوں ۵:۱۲، ۱۸؛ ۱-پطرس ۲:۲۴۔
۱۰. (ا) ہم کیسے فدیے کو اپنی ذات سے متعلق کر سکتے ہیں؟ (ب) مسیح کی محبت ہم کو کیسے مجبور کر دیتی ہے؟
۱۰ فدیے پر غوروخوض کریں۔ اسکا ذاتی اطلاق کریں، جیسے کہ پولسؔ نے کِیا: ”میں جو اب جسم میں زندگی گذارتا ہوں تو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گذارتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا۔“ (گلتیوں ۲:۲۰) ایسی غوروفکر دلی محرک کو دوبارہ روشن کر دے گی، کیونکہ پولسؔ نے کرنتھیوں کو لکھا: ”مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے اسلئے کہ . . . وہ . . . سب کے واسطے مؤا اور پھر جی اُٹھا۔“ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۴، ۱۵) دی جیروسلیم بائبل کہتی ہے کہ مسیح کی محبت ”ہمیں مغلوب کر لیتی ہے۔“ جب ہم مسیح کی محبت پر غور کرتے ہیں تو ہم مجبور ہو جاتے، شدید تحریک پاتے، حتیٰکہ مغلوب بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمارے دلوں کو چُھو لیتی اور عمل کرنے کے لئے تحریک دیتی ہے۔ جیسےکہ جے. بی. فلپسؔ کا ترجمہ اسے اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے، ”ہمارے افعال کا بنیادی ماخذ مسیح کی محبت ہے۔“ کسی بھی دوسری قسم کی تحریک ہمارے اندر دیرپا پھل پیدا نہیں کرے گی جیسے کہ فریسیوں کی مثال سے ظاہر کیا گیا ہے۔
”فریسیوں . . . کے خمیر سے ہوشیار رہنا“
۱۱. مذہبی کاموں کی جانب فریسیوں کے رجحان کو بیان کریں۔
۱۱ فریسیوں نے خدا کی پرستش کا گلا گھونٹ ڈالا تھا۔ خدا کی محبت پر زور دینے کی بجائے، انہوں نے روحانیت کے پیمانے کے طور پر کاموں پر زیادہ زور دیا۔ مفصل اصولوں میں انکے انہماک نے انہیں بیرونی طور پر راست نظر آنے والا بنا تو دیا، لیکن، اندرونی طور پر وہ ”مُردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھرے“ پڑے تھے۔—متی ۲۳:۲۷۔
۱۲. یسوؔع کے ایک آدمی کو شفا دینے کے بعد، فریسیوں نے کیسے ظاہر کیا کہ وہ سختدل ہیں؟
۱۲ ایک موقع پر یسوؔع نے دردمندی سے اس آدمی کو شفا دی جس کا ہاتھ سُوکھ گیا تھا۔ وہ آدمی اس بیماری سے فوری طور پر شفا پانے کے تجربے سے کسقدر خوش ہوا ہوگا جو بِلاشُبہ بہت زیادہ جسمانی اور جذباتی اضطراب کا سبب بنی تھی! تاہم، فریسیوں نے اس کے ساتھ خوشی نہ منائی۔ اس کی بجائے، انہوں نے تکنیکی پہلو پر دقیق نکتہچینی کی—کہ یسوؔع نے سبت کے دن پر مدد کی ہے۔ شریعت کی تکنیکی وضاحت میں منہمک، یہ فریسی شریعت کے حقیقی مفہوم سے مکمل طور پر دُور ہٹ گئے۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ یسوؔع ”انکی سخت دلی کے سبب سے غمگین ہوا“ تھا! (مرقس ۳:۱-۵) مزیدبرآں، اس نے اپنے شاگردوں کو خبردار کیا: ”فریسیوں اور صدوقیوں کے خمیر سے ہوشیار رہنا۔“ (متی ۱۶:۶) انکے کام اور رجحانات ہمارے فائدے کے لئے بائبل میں بےنقاب کئے گئے ہیں۔
۱۳. فریسیوں کی مثال میں ہمارے لئے کیا سبق پایا جاتا ہے؟
۱۳ فریسیوں کی مثال ہمیں سکھاتی ہے کہ کاموں کی بابت ہمیں ایک معقول نظریہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً، کام نہایت اہم ہیں، کیونکہ ”ایمان . . . بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔“ (یعقوب ۲:۲۶) تاہم، ناکامل انسانوں کے اندر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کا اندازہ جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے لگاتے ہیں نہ کہ جو کچھ وہ ہیں۔ بعضاوقات ہم اپنا اندازہ بھی اسی طرح لگا سکتے ہیں۔ ہمارے اوپر کارگردگی کا وہم سوار ہو سکتا ہے، جیسے کہ یہی ہماری روحانیت کا واحد معیار ہو۔ ہم اپنے محرکات کی جانچ کرنے کی اہمیت کو بھول سکتے ہیں۔ (مقابلہ کریں ۲-کرنتھیوں ۵:۱۲۔) ہم شاید قواعدوضوابط سے وابستہ رہنے والے بےلوچ اشخاص بن جائیں جو حرفِآئین کے تابعفرمان ہوں جبکہ اس کے مقصد کی خلافورزی کرتے ہوئے ”مچھر کو تو چھانیں اور اونٹ کو نگل [جائیں]۔“—متی ۲۳:۲۴۔
۱۴. فریسی ناپاک پیالے اور رکابی کی مانند کیسے تھے؟
۱۴ فریسی جس بات کو سمجھ نہ پائے وہ یہ تھی کہ اگر کوئی شخص واقعی یہوؔواہ سے محبت رکھتا ہے تو خدائی عقیدت کے کام فطری طور پر ظاہر ہونگے۔ روحانیت اندر سے باہر آتی ہے۔ یسوؔع نے یہ کہتے ہوئے فریسیوں کو اس سلسلے میں انکی غلط سوچ کے باعث سختی سے سرزنش کی: ”اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لُوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔ اے اندھے فریسی! پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہو جائیں۔“—متی ۲۳:۲۵، ۲۶۔
۱۵. یہ ظاہر کرنے والی مثالوں کا حوالہ دیں کہ یسوؔع ظاہری شکل سے بعید دیکھتا ہے۔
۱۵ پیالے، رکابی، یا حتیٰکہ عمارت کی بیرونی شکل ہی سب کچھ نہیں بتا دیتی۔ یسوؔع کے شاگرد یرؔوشلیم کی ہیکل کی خوبصورتی پر حیران تھے، جسے یسوؔع نے جو کچھ اس کے اندر ہو رہا تھا اس کی وجہ سے ”ڈاکوؤں کی کھوہ“ کہا تھا۔ (مرقس ۱۱:۱۷؛ ۱۳:۱) جو کچھ ہیکل کی بابت سچ تھا وہی لاکھوں دعویدار مسیحیوں کی بابت بھی سچ ہے، جیسے کہ مسیحی دنیا کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے۔ یسوؔع نے کہا کہ وہ اس کے نام پر بعض ”معجزے“ کرنے والوں کی عدالت کرے گا جو ”بدکار“ ہونگے۔ (متی ۷:۲۲، ۲۳) اس کے بالکل برعکس، اس نے ایک بیوہ کا ذکر کیا جس نے ہیکل کے لئے بالکل برائےنام رقم کا عطیہ دیا تھا: ”جو ہیکل کے خزانہ میں ڈال رہے ہیں اس کنگال بیوہ نے ان سب سے زیادہ ڈالا . . . اس نے اپنی ناداری کی حالت میں جو کچھ اس کا تھا یعنی اپنی ساری روزی ڈال دی۔“ (مرقس ۱۲:۴۱-۴۴) غیراصولی اندازے؟ ہرگز نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں یسوؔع نے یہوؔواہ کے نقطۂنظر کو ظاہر کیا۔ (یوحنا ۸:۱۶) اس نے افعال کے پیچھے محرکات کو دیکھا اور اس کے مطابق رائے قائم کی۔
”ہر ایک کو اس کی لیاقت کے مطابق“
۱۶. ہمیں ہمیشہ اپنی کارگزاری کا کسی دوسرے مسیحی سے مقابلہ کرنے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟
۱۶ اگر ہمارے محرکات مناسب ہیں تو پھر مسلسل موازنے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، مقابلہبازی سے جدوجہد کرتے ہوئے خدمتگزاری میں وقت کی وہی مقدار صرف کرنا جو کوئی دوسرا مسیحی کرتا ہے یا منادی میں اس شخص کی کامرانیوں سے مقابلہ کرنا بہت ہی کم بھلائی انجام دیتا ہے۔ یسوؔع نے کہا کہ اپنے سارے دل، عقل، جان، اور طاقت سے یہوؔواہ سے محبت کریں نہ کہ کسی اور کے۔ ہر شخص کی لیاقتیں، قوتِبرداشت، اور حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اگر آپ کی صورتحال اجازت دیتی ہے تو محبت آپ کو خدمتگزاری میں زیادہ وقت صرف کرنے کی تحریک دے گی—شاید ایک کُلوقتی پائنیر خادم کے طور پر بھی۔ تاہم، اگر آپ کسی بیماری سے لڑ رہے ہیں تو خدمتگزاری میں جتنا وقت آپ صرف کرتے ہیں وہ اس سے کم ہو سکتا ہے جس کی آپ خواہش کریں گے۔ بےحوصلہ مت ہوں۔ خدا کے لئے وفاداری گھنٹوں سے نہیں ناپی جاتی۔ خالص محرکات رکھنے سے، آپ کے پاس خوشی کی وجہ ہوگی۔ پولسؔ نے لکھا: ”ہر شخص اپنے ہی کام کو آزما لے۔ اس صورت میں اسے اپنی ہی بابت فخر کرنے کا موقع ہوگا نہ کہ دوسرے کی بابت۔“—گلتیوں ۶:۴۔
۱۷. اپنے الفاظ میں، توڑوں والی تمثیل کو مختصراً بیان کریں۔
۱۷ یسوؔع کی توڑوں والی تمثیل پر غور کریں جیسا کہ متی ۲۵:۱۴-۳۰ میں درج ہے۔ ایک آدمی نے پردیس جاتے وقت اپنے نوکروں کو بلایا اور اپنا مال انکے سپرد کِیا۔ ”ایک کو پانچ توڑے دئے۔ دوسرے کو دو اور تیسرے کو ایک یعنی ہر ایک کو اس کی لیاقت کے مطابق دیا۔“ جب مالک اپنے نوکروں کے ساتھ حساب کرنے واپس آیا تو اس نے کیا پایا؟ جس نوکر کو پانچ توڑے دئے گئے تھے اس نے پانچ توڑے اور کمائے۔ اسی طرح، جسے دو توڑے دئے گئے تھے اس نے دو توڑے اور کمائے۔ جس نوکر کو ایک توڑا دیا گیا تھا اس نے اسے زمین میں دفن کر دیا اور مالک کی دولت میں اضافہ کرنے کیلئے کچھ نہ کیا۔ صورتحال کی بابت مالک کا اندازہ کیا تھا؟
۱۸، ۱۹. (ا) کیوں مالک نے دو توڑوں والے نوکر کا مقابلہ پانچ توڑوں والے نوکر سے نہیں کیا؟ (ب) تعریف اور مقابلوں کی بابت توڑوں والی تمثیل ہمیں کیا سکھاتی ہے؟ (پ) تیسرے نوکر کی کڑی عدالت کیوں ہوئی؟
۱۸ سب سے پہلے آئیے ہم ان نوکروں پر غور کریں جنہیں بالترتیب پانچ اور دو توڑے دئے گئے تھے۔ ان نوکروں میں سے ہر ایک کو مالک نے کہا: ”اے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش!“ اگر پانچ توڑوں والے نوکر نے دو ہی کمائے ہوتے تو کیا اس نے یہ کہا ہوتا؟ بمشکل! اس کی دوسری جانب، اس نے دو توڑے کمانے والے نوکر سے نہیں کہا: ’تم نے پانچ کیوں نہیں کمائے؟ اپنے ساتھی نوکر کو دیکھو اس نے میرے لئے کتنا کچھ کمایا ہے!‘ نہیں، یسوؔع کی تصویرکشی کرنے والے دردمند مالک نے مقابلہ نہیں کیا۔ اس نے ”ہر ایک کو اس کی لیاقت کے مطابق“ توڑے سپرد کئے اور اس نے جو کچھ ہر کوئی کر سکتا تھا اس سے زیادہ واپسی کی توقع نہ کی۔ ہر نوکر نے برابر کی شاباش حاصل کی، کیونکہ دونوں نے اپنے مالک کے لئے پورے جی سے کام کیا تھا۔ ہم میں سے ہر ایک اس سے سبق سیکھ سکتا ہے۔
۱۹ بیشک، تیسرے نوکر کو شاباش نہیں دی گئی۔ درحقیقت، اسے باہر تاریکی میں ڈال دیا گیا تھا۔ صرف ایک ہی توڑا حاصل کرنے پر، اس سے توقع نہ کی گئی کہ پانچ توڑے والے نوکر جتنا کمائے۔ تاہم، اس نے تو کوشش ہی نہ کی! اس کی کڑی عدالت اسکے ”شریر اور سُست“ دلی رجحان کے باعث انجامکار ہونی ہی تھی، جس نے مالک کے لئے محبت کی کمی کو ظاہر کیا۔
۲۰. یہوؔواہ ہماری حدود کو کیسا خیال کرتا ہے؟
۲۰ یہوؔواہ ہم سب سے اپنی ساری طاقت سے اس سے محبت رکھنے کی توقع کرتا ہے، تاہم یہ کسقدر دل کو گرما دینے والی بات ہے کہ ”وہ ہماری سرشت سے واقف ہے۔ اسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں“! (زبور ۱۰۳:۱۴) امثال ۲۱:۲ کہتی ہے کہ ”خداوند دلوں کو جانچتا ہے“—نہ کہ اعدادوشمار کو۔ وہ تمام حدود کو بھی جانتا ہے جن پر ہم کوئی اختیار نہیں رکھتے، خواہ مالی، جسمانی، جذباتی، یا دوسری ہوں۔ (یسعیاہ ۶۳:۹) تاہم، وہ ہم سے توقع کرتا ہے کہ ہم ان تمام وسائل کا بھرپور استعمال کریں جو ہمارے پاس ہیں۔ یہوؔواہ کامل ہے، لیکن اپنے ناکامل پرستاروں کے ساتھ پیش آتے وقت وہ ہر چیز میں کاملیت کا تقاضا نہیں کرتا۔ وہ نہ تو اپنے تعلقات میں نامعقول ہے نہ ہی اپنی توقعات میں غیرحقیقتپسند۔
۲۱. اگر خدا کے لئے ہماری خدمت محبت سے تحریک پاتی ہے تو کونسے اچھے نتائج نکلیں گے؟
۲۱ اپنے سارے دل، جان، عقل، اور طاقت کیساتھ یہوؔواہ سے محبت رکھنا ”سب سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے بڑھ کر ہے۔“ (مرقس ۱۲:۳۳) اگر ہم نے محبت سے تحریک پائی ہے تو پھر ہم خدا کی خدمت میں وہ سب کچھ کریں گے جو ہم کر سکتے ہیں۔ پطرؔس نے لکھا کہ اگر محبت سمیت خدائی خوبیاں ”تم میں موجود ہوں اور زیادہ بھی ہوتی جائیں تو تم کو ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کے پہچاننے میں بیکار اور بےپھل نہ ہونے دینگی۔“—۲-پطرس ۱:۸۔ (۱۳ ۶/۱۵ w۹۵)
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیویارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ۔
اعادہ میں
▫ خدا کے لئے ہماری خدمت کی پُشت پر کونسی قوتِمتحرکہ ہونی چاہئے؟
▫ یہوؔواہ کی خدمت کرنے کے لئے مسیح کی محبت ہمیں کیسے مجبور کرتی ہے؟
▫ فریسیوں کے کس انہماک سے ہمیں گریز کرنا لازم ہے؟
▫ دوسرے مسیحی کے ساتھ اپنی خدمت کا مقابلہ کرتے رہنا کیوں غیردانشمندانہ بات ہے؟
[تصویریں]
افراد کی لیاقتیں، قوتِبرداشت، اور حالات مختلف ہوتے ہیں