یہوواہ—حقیقی عدلوراستی کا منبع
”وہ وہی چٹان ہے۔ اُس کی صنعت کامل ہے کیونکہ اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبّرا ہے۔“—استثنا ۳۲:۴۔
۱. ہمیں پیدائشی طور پر عدل کی ضرورت کیوں ہے؟
جیسے ہر ایک کو فطری طور پر محبت کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ عادلانہ برتاؤ کِیا جائے۔ ایک امریکی مُدبّر تھامس جیفرسن کی تحریر کے مطابق، ”[عدل] پیدائشی اور جبلّی، . . . احساسات، بصارت یا سماعت کی طرح ہماری ساخت کا حصہ ہے۔“ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ یہوواہ نے ہمیں اپنی صورت پر پیدا کِیا تھا۔ (پیدایش ۱:۲۶) بِلاشُبہ، اُس نے ہمیں اپنی شخصیت کی عکاسی کرنے والی صفات عطا کی ہیں جن میں سے ایک عدل ہے۔ اسی لئے ہمیں پیدائشی طور پر عدل کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے ہم حقیقی عدلوراستبازی والی دُنیا میں زندہ رہنے کی آرزو کرتے ہیں۔
۲. یہوواہ کی نگاہ میں عدل کسقدر اہم ہے اور ہمیں الہٰی عدل کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت کیوں ہے؟
۲ یہوواہ کی بابت بائبل ہمیں یقین دلاتی ہے: ”اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔“ (استثنا ۳۲:۴) تاہم، ناانصافی سے پُر دُنیا میں الہٰی عدل کے مفہوم کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ چنانچہ، ہم خدا کے کلام سے یہ ضرور سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کیسے عدل کرتا ہے اور یوں ہم خدا کی حیرانکُن راہوں کی اَور بھی زیادہ قدر کرنے لگتے ہیں۔ (رومیوں ۱۱:۳۳) عدل کو بائبل کے مطابق سمجھنا نہایت اہم ہے کیونکہ عدل کی بابت ہمارا نظریہ انسانی آراء سے بہت زیادہ متاثر ہو سکتا ہے۔ انسانی نقطۂنظر سے عدل قاعدے قانون کے غیرجانبدارانہ اطلاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یا پھر فلاسفر فرانسس بیکن کے مطابق، ”عدل سے مُراد ہے کہ ہر انسان سے ویسا ہی سلوک کِیا جائے جسکا وہ مستحق ہے۔“ تاہم، یہوواہ کے عدل میں بہت کچھ شامل ہے۔
یہوواہ کا عدل پُرتپاک ہے
۳. بائبل میں عدلوراستی کے لئے استعمال ہونے والے اصلی زبان کے الفاظ پر غور کرنے سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟
۳ بائبل میں استعمال ہونے والے اصلی زبان کے الفاظ پر غور کرنے سے خدا کے عدل کی وسعت کی بہتر سمجھ حاصل کی جا سکتی ہے۔a دلچسپی کی بات ہے کہ صحائف میں عدلوراستبازی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ دراصل، جیساکہ ہم عاموس ۵:۲۴ میں دیکھتے ہیں، بعضاوقات عبرانی الفاظ مترادف معنی میں استعمال کئے جاتے ہیں، یہاں یہوواہ اپنے لوگوں کو تاکید کرتا ہے: ”عدالت کو پانی کی مانند اور صداقت کو بڑی نہر کی مانند جاری رکھ۔“ مزیدبرآں، بسااوقات ”عدالت اور صداقت“ کی اصطلاحات زور دینے کی خاطر اکٹھی استعمال ہوتی ہیں۔—زبور ۳۳:۵؛ یسعیاہ ۳۳:۵؛ یرمیاہ ۳۳:۱۵؛ حزقیایل ۱۸:۲۱؛ ۴۵:۹۔
۴. عدل کو عمل میں لانے کا کیا مطلب ہے اور عدل کا بنیادی معیار کیا ہے؟
۴ ان عبرانی اور یونانی الفاظ سے کیا مفہوم پیش کِیا گیا ہے؟ صحیفائی مفہوم میں عدل کرنے سے مُراد درست اور غیرجانبدارانہ کارروائی کرنا ہے۔ چونکہ یہوواہ ہی اخلاقی قانونوضوابط وضع کرتا ہے یا درست اور غیرجانبدارانہ کام کا تعیّن کرتا ہے اس لئے یہوواہ جس طریقے سے معاملات نپٹاتا ہے وہی عدل کا بنیادی معیار ہے۔ تھیولاجیکل ورڈ بُک آف دی اولڈ ٹسٹامنٹ وضاحت کرتی ہے کہ جس عبرانی لفظ (صدق) کا ترجمہ راستبازی کِیا گیا ہے وہ ”اخلاقی معیار کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بلاشُبہ پُرانے عہدنامے میں یہ معیار خدا کی فطرت اور اُس کی مرضی ہے۔“ لہٰذا، خدا جس طریقے سے اپنے اصولوں کا اطلاق کرتا ہے اور بالخصوص جس طریقے سے وہ ناکامل انسانوں سے پیش آتا ہے اُس سے حقیقی عدلوراستی کے اصل معنی سامنے آتے ہیں۔
۵. خدا کے عدل کے ساتھ کونسی صفات وابستہ ہیں؟
۵ صحائف صاف طور پر بیان کرتے ہیں کہ خدائی عدل بےحس اور بےلوچ ہونے کی بجائے پُرتپاک ہے۔ داؤد نے گیت گایا: ”خداوند انصاف کو پسند کرتا ہے اور اپنے مُقدسوں کو ترک نہیں کرتا۔“ (زبور ۳۷:۲۸) خدا کا عدل اُسے اپنے خادموں کے لئے وفاداری اور رحم دکھانے کی تحریک دیتا ہے۔ الہٰی عدل ہماری ضروریات سے باخبر ہے اور ہماری ناکاملیتوں کے ساتھ رعایت برتتا ہے۔ (زبور ۱۰۳:۱۴) اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا بدکاری سے چشمپوشی کرتا ہے کیونکہ ایسا کرنا ناانصافی کو فروغ دیگا۔ (۱-سموئیل ۳:۱۲، ۱۳؛ واعظ ۸:۱۱) یہوواہ نے موسیٰ سے بیان کِیا کہ وہ ”رحیم مہربان اور قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی“ ہے۔ تقصیر اور خطا بخشنے کے لئے تیار ہونے کے باوجود خدا سزا کے مستحق لوگوں کو کبھی بھی بری نہیں کریگا۔—خروج ۳۴:۶، ۷۔
۶. یہوواہ اپنے زمینی بچوں کے ساتھ کیسے پیش آتا ہے؟
۶ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہوواہ عدل کو کیسے عمل میں لاتا ہے تو ہمیں اُسے ایسا سنگدل منصف خیال نہیں کرنا چاہئے جو خطاکاروں کو صرف سزا ہی دیتا ہے۔ اس کے برعکس، ہمیں اُسے شفیق مگر اصولپسند باپ خیال کرنا چاہئے جو ہر ممکن صورتحال میں اپنے بچوں سے ہمیشہ بھلائی کرتا ہے۔ ”اَے خداوند! تُو ہمارا باپ ہے،“ یسعیاہ نبی نے کہا۔ (یسعیاہ ۶۴:۸) ایک راست اور انصافپسند باپ کی طرح، یہوواہ راستی کے معاملے میں اصولپسندی اور مشکل حالات یا جسمانی کمزوریوں کے باعث مدد یا معافی کے حاجتمند اپنے زمینی بچوں کے لئے رحم کے درمیان توازن برقرار رکھتا ہے۔—زبور ۱۰۳:۶، ۱۰، ۱۳۔
عدل کے مفہوم کو واضح کرنا
۷. (ا) ہم یسعیاہ کی پیشینگوئی سے الہٰی عدل کی بابت کیا سیکھتے ہیں؟ (ب) قوموں کو عدل کی تعلیم دینے میں یسوع نے کیا کردار ادا کِیا؟
۷ یہوواہ کے عدل کی رحمانہ نوعیت مسیحا کی آمد سے منظرِعام پر آئی۔ یسعیاہ نبی کی پیشینگوئی کے مطابق یسوع نے الہٰی عدل کی تعلیم دی اور اُس کے مطابق زندگی بسر کی۔ صاف ظاہر ہے کہ خدا کے عدل میں مظلوم لوگوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنا شامل ہے۔ پس، وہ ناقابلِبحالی کی حد تک شکستہ نہیں ہوتے۔ یہوواہ کا ”خادم“، یسوع خدا کے عدل کے اسی پہلو کی ”غیرقوموں کو . . . خبر“ دینے کے لئے زمین پر آیا تھا۔ اُس نے ایسا کِیا اور سب سے بڑھکر ہمارے لئے اس بات کی زندہ مثال فراہم کی کہ الہٰی عدل کا مفہوم کیا ہے۔ شاہ داؤد کی ”صداقت کی شاخ“ کے طور پر یسوع نے بڑے شوق سے ’عدل کی پیروی کی اور راستبازی پر مستعد رہا۔‘—یسعیاہ ۱۶:۵؛ ۴۲:۱-۴؛ متی ۱۲:۱۸-۲۱؛ یرمیاہ ۳۳:۱۴، ۱۵۔
۸. پہلی صدی میں حقیقی عدلوراستی کیوں ماند پڑ چکے تھے؟
۸ یہوواہ کے عدل کے معیار کی ایسی وضاحت پہلی صدی س.ع. میں خاص طور پر ضروری تھی۔ یہودی بزرگوں اور مذہبی پیشواؤں—فقیہوں، فریسیوں اور دیگر لوگوں—نے عدلوراستی کے ایک شکستہ نظریے کو فروغ دیا اور اس کی پیروی کرنے کا نمونہ پیش کِیا۔ نتیجتاً جن لوگوں کے نزدیک فقیہوں اور فریسیوں کے قائمکردہ مطالبوں کے مطابق زندگی بسر کرنا ناممکن تھا اُنہیں خدا کی راستی بھی ناقابلِرسائی معلوم ہوئی۔ (متی ۲۳:۴؛ لوقا ۱۱:۴۶) یسوع نے اس بات کو غلط ثابت کر دیا۔ اُس نے انہی لوگوں میں سے اپنے شاگردوں کا انتخاب کِیا اور اُنہیں خدا کے راست معیاروں کی تعلیم دی۔—متی ۹:۳۶؛ ۱۱:۲۸-۳۰۔
۹، ۱۰. (ا) فقیہوں اور فریسیوں نے کیسے اپنی راستبازی ظاہر کرنے کی کوشش کی؟ (ب) یسوع نے کیسے اور کیوں ظاہر کِیا کہ فقیہوں اور فریسیوں کے کام بےثمر تھے؟
۹ دوسری جانب، فریسی سرِعام دُعائیں مانگنے یا خیرات بانٹنے سے اپنی ”راستبازی“ کی نمائش کرنے کے مواقع ڈھونڈتے رہتے تھے۔ (متی ۶:۱-۶) اُنہوں نے خودساختہ لاتعداد قوانینوضوابط کی پابندی کرنے سے بھی اپنی راستبازی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ ایسی کاوشیں اُن کے لئے ”انصاف اور خدا کی محبت سے غافل“ رہنے کا موجب بنیں۔ (لوقا ۱۱:۴۲) وہ بظاہر راستباز دکھائی دیتے ہوں گے مگر باطن میں بیدینی یا ’ریاکاری سے بھرے‘ ہوئے تھے۔ (متی ۲۳:۲۸) المختصر، وہ خدا کی راستبازی کی بابت کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔
۱۰ اسی وجہ سے یسوع نے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کِیا: ”اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں کی راستبازی سے زیادہ نہ ہو گی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے۔“ (متی ۵:۲۰) یسوع کے ظاہرکردہ الہٰی عدل اور فقیہوں اور فریسیوں کی متعصّبانہ زہدفروشی کے مابین واضح فرق دراصل ان کے درمیان اکثر تنازعات کی جڑ تھا۔
الہٰی عدل بمقابلہ مسخشُدہ عدل
۱۱. (ا) فریسیوں نے سبت کے دن شفا دینے کے معاملے پر یسوع سے سوال کیوں کِیا؟ (ب) یسوع کے جواب نے کیا ظاہر کِیا؟
۱۱ یسوع نے ۳۱ س.ع. کے موسمِبہار میں گلیل کے علاقے میں اپنی خدمتگزاری کے دوران، عبادتخانے میں ایک سوکھے ہاتھ والے شخص کو دیکھا۔ سبت کا دن ہونے کی وجہ سے فریسیوں نے یسوع سے پوچھا: ”کیا سبت کے دن شفا دینا روا ہے؟“ جیساکہ اُن کے سوال سے ظاہر ہوتا ہے، اس نادار دُکھی انسان کے لئے حقیقی ہمدردی دکھانے کی بجائے وہ یسوع پر الزام لگانے کا بہانہ ڈھونڈنا چاہتے تھے۔ کچھ عجب نہیں کہ یسوع اُنکے بےحس دلوں کے باعث بہت غمگین ہوا! لہٰذا اُس نے بھی اسی لہجے میں فریسیوں سے ویسا ہی سوال کِیا: ”سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے؟“ اُن کی خاموشی پر یسوع نے اُن سے یہ پوچھتے ہوئے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا کہ اگر اُن کی بھیڑ سبت کے دن گڑھے میں گِر جائے تو کیا وہ اُسے نہیں نکالینگے۔b ”پس آدمی کی قدر تو بھیڑ سے بہت ہی زیادہ ہے!“ یسوع نے ناقابلِتردید منطق کے ساتھ دلیل پیش کی۔ ”اس لئے سبت کے دن نیکی کرنا روا ہے،“ اُس نے نتیجہ اخذ کِیا۔ خدا کے عدل کو کبھی بھی انسانی روایت سے جکڑ کر نہیں رکھنا چاہئے۔ اس نکتے کو واضح کرنے کے بعد، یسوع نے آگے بڑھکر اُس آدمی کے ہاتھ کو اچھا کر دیا۔—متی ۱۲:۹-۱۳؛ مرقس ۳:۱-۵۔
۱۲، ۱۳. (ا) فقیہوں اور فریسیوں کے برعکس، یسوع نے گنہگاروں کی مدد کرنے میں کیسے دلچسپی ظاہر کی؟ (ب) الہٰی عدل اور زہدفروشی میں کیا فرق ہے؟
۱۲ اگر فریسی جسمانی طور پر معذور لوگوں کی اتنی کم پرواہ کرتے تھے تو روحانی طور پر کمزور لوگوں کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ راستبازی کی بابت اُن کا مسخشُدہ نظریہ اُن کے لئے محصول لینے والوں اور گنہگاروں کو نظرانداز کرنے اور اُن سے نفرت کرنے کا باعث بنا۔ (یوحنا ۷:۴۹) تاہم، ایسے بہتیرے لوگ بِلاشُبہ یہ محسوس کرتے ہوئے یسوع کی تعلیم کی طرف راغب ہوئے کہ وہ عدالت نہیں بلکہ مدد کرنا چاہتا ہے۔ (متی ۲۱:۳۱؛ لوقا ۱۵:۱) تاہم، فریسیوں نے روحانی بیماروں کو شفا دینے کی یسوع کی کوششوں کو حقیر جانا۔ ”یہ آدمی گنہگاروں سے ملتا اور انکے ساتھ کھانا کھاتا ہے،“ وہ حقارتآمیز انداز میں بڑبڑائے۔ (لوقا ۱۵:۲) اُن کے الزام کے جواب میں، یسوع نے ایک بار پھر راعیانہ تمثیل استعمال کی۔ جیسے ایک چرواہا کسی کھوئی ہوئی بھیڑ کے مل جانے پر خوش ہوتا ہے ویسے ہی کسی گنہگار کے توبہ کرنے پر آسمان پر فرشتے خوشی مناتے ہیں۔ (لوقا ۱۵:۳-۷) یسوع خود بھی اُس وقت بہت خوش ہوا تھا جب اُس کی مدد سے زکائی نے اپنی گزشتہ گنہگارانہ روش سے توبہ کر لی تھی۔ ”ابنِآدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے،“ اُس نے کہا۔—لوقا ۱۹:۸-۱۰۔
۱۳ ان مباحثوں سے شفا اور نجات کا موقع فراہم کرنے والے الہٰی عدل اور چند لوگوں کی تعظیم اور زیادہ کی تحقیر کرنے والی زہدفروشی کے مابین واضح فرق سامنے آ گیا۔ کھوکھلے اور انسانساختہ رسمورواج نے فقیہوں اور فریسیوں کو متکبر اور اَناپرست بنا دیا تھا، چنانچہ یسوع نے موزوں طور پر اس بات کو اُجاگر کِیا کہ اُنہوں نے ”شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا“ تھا۔ (متی ۲۳:۲۳) دُعا ہے کہ ہم یسوع کی نقل کرتے ہوئے اپنے ہر کام میں حقیقی عدل کو عمل میں لائیں اور زہدفروشی کے پھندے سے بھی بچیں۔
۱۴. یسوع کے ایک معجزے سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ الہٰی عدل ایک شخص کے حالات کا لحاظ رکھتا ہے؟
۱۴ اگرچہ یسوع نے فریسیوں کے منپسند قوانین کی پرواہ نہ کی توبھی اُس نے موسوی شریعت کی پابندی کی۔ (متی ۵:۱۷، ۱۸) تاہم پابندی کرنے کے باوجود اُس نے اس راست شریعت کے لفظی مفہوم کو اس کے اصولوں پر حاوی نہیں ہونے دیا تھا۔ جب ۱۲ سال سے جریانِخون میں مبتلا ایک عورت نے اُس کی پوشاک کو چھو کر شفا پائی تو یسوع نے اُس سے کہا: ”بیٹی! تیرے ایمان نے تجھے اچھا کِیا ہے۔ سلامت چلی جا۔“ (لوقا ۸:۴۳-۴۸) یسوع کے مہربانہ الفاظ نے اس بات کی تصدیق کی کہ خدائی عدل نے اُس کے حالات کا لحاظ رکھا تھا۔ اگرچہ وہ رسمی طور پر ناپاک تھی اور یوں اُس نے بِھیڑ میں آ کر اصولاً موسوی شریعت کی خلافورزی کی تھی توبھی اُس کا ایمان اجر کے لائق تھا۔—احبار ۱۵:۲۵-۲۷؛ مقابلہ کریں رومیوں ۹:۳۰-۳۳۔
سب کے لئے راستبازی
۱۵، ۱۶. (ا) یسوع کی نیک سامری کی تمثیل ہمیں عدل کی بابت کیا سکھاتی ہے؟ (ب) ہمیں ”حد سے زیادہ نیکوکار“ بننے سے کیوں گریز کرنا چاہئے؟
۱۵ یسوع نے الہٰی عدل کی رحمانہ نوعیت کو نمایاں کرنے کے علاوہ اپنے شاگردوں کو یہ بھی سکھایا کہ یہ سب لوگوں کے لئے ہے۔ اُس کے لئے یہوواہ کی مرضی تھی کہ وہ ’تمام قوموں میں عدل جاری کرے۔‘ (یسعیاہ ۴۲:۱) نیک سامری کی بابت یسوع کی مشہور تمثیل کا اہم نکتہ یہی تھا۔ یہ تمثیل شرح کے کسی عالم کے سوال کے جواب میں پیش کی گئی تھی جو ”اپنے تیئں راستباز ٹھہرانے“ کا خواہاں تھا۔ بِلاشُبہ اپنے ہمسائیگی کے فرائض کو یہودی قوم تک محدود رکھنے کی خواہش کے ساتھ اُس نے پوچھا، ”میرا پڑوسی کون ہے؟“ یسوع کی تمثیل میں سامری نے خداپرستانہ راستبازی کا مظاہرہ کِیا کیونکہ وہ کسی دوسری قوم کے ایک اجنبی شخص کے لئے اپنا وقت اور پیسہ خرچ کرنے کے لئے تیار تھا۔ یسوع نے سوال کرنے والے کو یہ نصیحت کرتے ہوئے تمثیل کا اختتام کِیا: ”تُو بھی ایسا ہی کر۔“ (لوقا ۱۰:۲۵-۳۷) اسی طرح اگر ہم نسلی یا طبقاتی پسمنظر سے قطعنظر تمام لوگوں کے ساتھ نیکی کرتے ہیں تو ہم خدا کے عدل کی نقل کر رہے ہوں گے۔—اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵۔
۱۶ دوسری جانب، فقیہوں اور فریسیوں کی مثال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگر ہم الہٰی عدل سے کام لینا چاہتے ہیں تو ہمیں ”حد سے زیادہ نیکوکار“ نہیں بننا چاہئے۔ (واعظ ۷:۱۶) ظاہری راستبازی سے دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرنا یا انسانساختہ اصولوں کو حد سے زیادہ اہم خیال کرنا ہمارے لئے خدا کی خوشنودی کا باعث نہیں بنے گا۔—متی ۶:۱۔
۱۷. ہمارے لئے خداپرستانہ عدل کا مظاہرہ کرنا اسقدر اہم کیوں ہے؟
۱۷ یسوع کے تمام قوموں میں خدا کے عدل کی نوعیت کو واضح کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اُس کے تمام شاگرد اس خوبی کو ظاہر کرنا سیکھ سکیں۔ یہ اسقدر اہم کیوں ہے؟ صحائف ہمیں ”خدا کی مانند“ بننے کی تاکید کرتے ہیں اور خدا کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔ (افسیوں ۵:۱) اسی طرح، میکاہ ۶:۸ وضاحت کرتی ہے کہ جب ہم اپنے خدا یہوواہ کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو وہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم ”انصاف کریں۔“ مزیدبرآں، صفنیاہ ۲:۲، ۳ ہمیں یاددہانی کراتی ہے کہ اگر ہمیں یہوواہ کے غضب کے دن پناہ چاہئے تو ہمیں اُس دن کے آنے سے پہلے ”راستبازی کو ڈھونڈنا“ ہے۔
۱۸. اگلے مضمون میں کن سوالات کا جواب دیا جائیگا؟
۱۸ لہٰذا یہ تشویشناک آخری ایّام عدل کو عمل میں لانے کے سلسلے میں ”قبولیت کا وقت“ ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۶:۲) ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم ایوب کی طرح ’راستبازی کو پہنتے ہیں‘ اور ’انصاف کو اپنا جُبّہ بناتے ہیں‘ تو یہوواہ ہمیں برکت دیگا۔ (ایوب ۲۹:۱۴) یہوواہ کے عدل پر ایمان مستقبل پر اعتماد کے ساتھ نگاہ ڈالنے میں ہماری مدد کیسے کرے گا؟ مزیدبرآں، جب ہم ”نئی زمین“ کے منتظر ہیں تو خدائی عدل روحانی طور پر کیسے ہماری حفاظت کرتا ہے؟ (۲-پطرس ۳:۱۳) اگلا مضمون ان سوالات کا جواب دیگا۔
[فٹنوٹ]
a عبرانی صحائف میں، تین بنیادی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اُن میں سے ایک (مشپاط) کا ترجمہ اکثر ”عدالت“ کِیا جاتا ہے۔ دیگر دو (صدق اور اس سے متعلقہ لفظ صداقاہ) بیشتر معاملات میں ”راستبازی“ کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ جس یونانی لفظ (دیکایوسنی) کا ترجمہ ”راستبازی“ کِیا گیا ہے اُس سے مُراد ”راست یا انصافپسند ہونے کی خوبی“ ہے۔
b یسوع نے نہایت عمدہ مثال کا انتخاب کِیا تھا کیونکہ یہودیوں کی غیرتحریری شریعت نے اُن کے لئے سبت کے دن کسی مصیبتزدہ جانور کی مدد کرنا خاص طور پر روا قرار دیا تھا۔ دیگر کئی مواقع پر بھی اسی مسئلے پر بحثوتکرار ہوئی تھی کہ آیا سبت کے دن شفا دینا روا ہے یا نہیں۔—لوقا ۱۳:۱۰-۱۷؛ ۱۴:۱-۶؛ یوحنا ۹:۱۳-۱۶۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
◻الہٰی عدل سے کیا مُراد ہے؟
◻یسوعنے قوموں کو عدل کی تعلیم کیسے دی؟
◻فریسیوں کی راستبازی مسخشُدہ کیوں تھی؟
◻ہمیں عدل کو عمل میں لانے کی ضرورت کیوں ہے؟
[صفحہ 23 پر تصویر]
یسوع نے الہٰی عدل کی وسعت کو ظاہر کِیا