’تیری شہادتیں مجھے مرغوب ہیں‘
”جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں۔“—رومیوں ۱۵:۴۔
۱. یہوواہ ہمیں یاددہانیاں کیسے فراہم کرتا ہے، اور ہمیں ان کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟
یہوواہ خدا اپنے لوگوں کو ان مشکل دنوں کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے یاددہانیاں فراہم کرتا ہے۔ بعض یاددہانیاں ذاتی بائبل پڑھائی سے حاصل ہوتی ہیں جبکہ دیگر مسیحی اجلاسوں میں پیش کئے جانے والے تبصروں اور معلومات کی صورت میں فراہم کی جاتی ہیں۔ مسیحی اجلاسوں پر ہم جوکچھ سنتے یا پڑھتے ہیں اُس میں سے زیادہتر باتوں سے ہم پہلے ہی واقف ہوتے ہیں۔ غالباً ہم نے پہلے بھی اسی طرح کے مواد پر غور کِیا ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم بھولنے کی طرف مائل ہیں اس لئے ہمیں باربار یہوواہ کے مقاصد، قوانین اور ہدایات کو دہرانے یا ان کا جائزہ لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں خدا کی طرف سے ایسی یاددہانیوں کی قدر کرنی چاہئے۔ یہ ہمیں اُن وجوہات کو یاد رکھنے میں مدد دیتی ہیں جن سے تحریک پاکر ہم نے خدائی طرزِزندگی اختیار کِیا تھا۔ اسی وجہ سے، زبورنویس نے یہوواہ کی مدحسرائی کرتے ہوئے کہا: ”تیری شہادتیں [یاددہانیاں] مجھے مرغوب . . . ہیں۔“—زبور ۱۱۹:۲۴۔
۲، ۳. (ا) یہوواہ خدا نے ہمارے لئے بائبل میں مختلف واقعات کیوں تحریر کروائے ہیں؟ (ب) اس مضمون میں بائبل کے کن واقعات پر غور کِیا جائے گا؟
۲ صدیوں پہلے تحریر کئے جانے کے باوجود خدا کا کلام آج بھی مؤثر ہے۔ (عبرانیوں ۴:۱۲) اس میں مختلف لوگوں کی زندگی کے حقیقی واقعات پیش کئے گئے ہیں۔ اگرچہ پُرانے وقتوں کی نسبت رسمورواج اور نظریات میں تبدیلی آ چکی ہے توبھی ہمیں اکثر ویسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اُس وقت کے لوگوں کو درپیش تھیں۔ بائبل میں یہوواہ سے محبت رکھنے اور مشکلات کے باوجود وفاداری سے اس کی خدمت کرنے والے لوگوں کی ایسی بہت سی مثالیں درج ہیں جو ہمارے دل کو چھو لیتی ہیں۔ دیگر واقعات ہماری توجہ ایسے چالچلن کی طرف دلاتے ہیں جس سے خدا کو نفرت ہے۔ یہوواہ خدا نے ہماری یاددہانی کے لئے بائبل میں لوگوں کی اچھی اور بُری دونوں طرح کی سرگزشتیں محفوظ کروائی ہیں۔ اسی لئے پولس رسول نے یہ لکھا: ”جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتابِمُقدس کی تسلی سے اُمید رکھیں۔“—رومیوں ۱۵:۴۔
۳ آئیے بائبل میں درج واقعات میں سے تین پر توجہ دیں: ساؤل کے ساتھ داؤد کا برتاؤ، حننیاہ اور سفیرہ، یوسف اور فوطیفار کی بیوی۔ ان تینوں میں سے ہر ایک ہمیں ایک اہم سبق سکھاتا ہے۔
یہوواہ کے انتظام کے لئے وفاداری
۴، ۵. (ا) بادشاہ ساؤل اور داؤد کو کس صورتحال کا سامنا تھا؟ (ب) اگرچہ ساؤل داؤد کو اپنا دُشمن سمجھتا تھا توبھی داؤد نے کیسا ردِعمل دکھایا؟
۴ ساؤل بادشاہ یہوواہ کا وفادار نہ رہا اور خدا کے لوگوں پر حکمرانی کرنے کے نااہل ثابت ہوا۔ پس خدا نے اُسے رد کر دیا اور سموئیل کو ہدایت کی کہ داؤد کو اسرائیل کا بادشاہ ہونے کے لئے مسح کرے۔ جب داؤد نے جنگی مرد کے طور پر دلیری اور مہارت کا مظاہرہ کِیا تو لوگوں نے اُس کی بہت تعریف کی۔ اس وجہ سے ساؤل داؤد کو اپنا دُشمن سمجھنے لگا اور بارہا اُسے قتل کرنے کی کوشش کی۔ مگر داؤد ہر بار بچ جاتا کیونکہ یہوواہ اُس کے ساتھ تھا۔—۱-سموئیل ۱۸:۶-۱۲، ۲۵؛ ۱۹:۱۰، ۱۱۔
۵ کئی سال تک تو داؤد کو اپنی جان بچانے کے لئے اِدھراُدھر چھپنا پڑا۔ لیکن جب داؤد کو ساؤل کی جان لینے کا موقع ملا تو اُس کے ساتھیوں نے اُسے اُکسایا کہ یہوواہ خدا نے تیرے دُشمن کو تیرے ہاتھ میں کر دیا ہے لہٰذا اُسے مار ڈال۔ لیکن داؤد نے ہر بار ایسا کرنے سے انکار کِیا۔ یہوواہ کے لئے اُس کی وفاداری اور خدا کے ممسوح بادشاہ کے طور پر ساؤل کے مرتبے کے لئے احترام نے داؤد کو ایسا کرنے سے باز رکھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہوواہ نے ساؤل کو اسرائیل کا بادشاہ مقرر کِیا ہے اور وقت آنے پر وہ خود ہی اُسے ہٹا دے گا۔ اس لئے داؤد نے کہا کہ خدا کے ممسوح پر ہاتھ ڈالنا میرا کام نہیں۔ داؤد ساؤل کی مخالفت کو کم کرنے کے لئے جوکچھ کر سکتا تھا وہ سب کرنے کے بعد اُس نے لکھا: ”خداوند آپ اُس کو مارے گا یا اُس کی موت کا دن آئے گا یا وہ جنگ میں جاکر مر جائے گا۔ لیکن خداوند نہ کرے کہ مَیں خداوند کے ممسوح پر ہاتھ چلاؤں۔“—۱-سموئیل ۲۴:۳-۱۵؛ ۲۶:۷-۲۰۔
۶. ساؤل اور داؤد کا واقعہ ہمارے لئے دلچسپی کا حامل کیوں ہے؟
۶ یہ واقعہ ہمیں ایک اہم سبق سکھاتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مسیحی کلیسیا میں مختلف مسائل کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اُس طرح کام نہیں کر رہا جیسے اُسے کرنا چاہئے۔ شاید اُس کا چالچلن قابلِاعتراض نہ ہو مگر وہ کچھ ایسا کر رہا ہے جو آپ کو بُرا لگتا ہے۔ ایسے میں آپ کو کیا کرنا چاہئے؟ اُس شخص کے لئے مسیحی فکرمندی اور یہوواہ خدا کے لئے وفاداری ظاہر کرتے ہوئے آپ اُس کے ساتھ نرمی سے باتچیت کر سکتے ہیں۔ آپ کا مقصد معاملے کو حل کرنا اور اپنے بھائی کو پا لینا ہے۔ اُس صورت میں کیا ہو اگر مسئلہ حل نہیں ہوتا؟ اگر آپ نے اپنی پوری کوشش کر لی ہے توپھر معاملے کو یہوواہ پر چھوڑ دیں۔ داؤد نے یہی کِیا تھا۔
۷. داؤد کی طرح، ناانصافی اور تعصّب کا سامنا کرتے وقت ہمارا ردِعمل کیسا ہونا چاہئے؟
۷ ممکن ہے کہ آپ کو معاشرتی ناانصافی یا مذہبی تعصّب جیسے مسائل کا سامنا ہے جنہیں ختم کرنے کے لئے آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسی صورتحال کو برداشت کرنا مشکل ہو سکتا ہے مگر ناانصافی کی بابت داؤد کا رویہ ہمیں ایک سبق سکھاتا ہے۔ داؤد نے جو زبور لکھے اُن میں یہوواہ کے اُسے ساؤل کے پھندے سے بچانے کا ذکر کِیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ زبور یہوواہ خدا کے لئے داؤد کی وفاداری اور اس کے نام کو جلال دینے کے لئے اُس کی فکرمندی کی بابت مخلص دُعاؤں کا دل کو چھو لینے والا ریکارڈ ہیں۔ (زبور ۱۸:۱-۶، ۲۵-۲۷، ۳۰-۳۲، ۴۸-۵۰؛ ۵۷:۱-۱۱) اگرچہ ساؤل کئی سال تک داؤد کے ساتھ ناانصافی کرتا رہا توبھی داؤد یہوواہ کا وفادار رہا۔ اسی طرح ہمیں بھی یہوواہ خدا اور اُس کی تنظیم کے وفادار رہنا چاہئے خواہ دوسرے کچھ بھی کریں۔ ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ صورتحال سے اچھی طرح واقف ہے۔—زبور ۸۶:۲۔
۸. جب موزمبیق میں یہوواہ کے گواہوں کی وفاداری کو آزمایا گیا تو اُن کا ردِعمل کیسا تھا؟
۸ افریقہ کے مُلک موزمبیق میں رہنے والے یہوواہ کے گواہ آج بھی آزمائش کے دوران یہوواہ کے وفادار رہنے کی عمدہ مثال ہیں۔ سن ۱۹۸۴ میں ایک فوجی تنظیم کے مسلح ارکان نے باربار اُن کے گاؤں پر حملے کئے، لوٹمار کی، گھر جلائے اور اُنہیں قتل کِیا۔ اپنے دفاع کے لئے یہ سچے مسیحی کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس علاقے کے لوگوں کی کوشش تھی کہ اُنہیں فوجی تحریک میں شامل کِیا جائے یا پھر دیگر طریقوں سے اس تنظیم کی مدد کرنے پر مجبور کِیا جائے۔ یہوواہ کے گواہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ دُنیا سے الگ رہنا چاہتے ہیں تو اُنہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ گواہوں کے اس فوجی تنظیم میں حصہ نہ لینے پر وہ لوگ بہت قہرآلود ہو گئے۔ اس دوران کمازکم ۳۰ گواہ قتل کئے گئے مگر موت کا خوف بھی خدا کے لئے ان مسیحیوں کی وفاداری کو نہ توڑ سکا۔ داؤد کی طرح، اُنہوں نے بھی ناانصافیوں کی برداشت کی مگر انجامکار فاتح ثابت ہوئے۔
آگاہی کی ایک مثال
۹، ۱۰. (ا) ہم پاک صحائف میں درج مثالوں سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟ (ب) حننیاہ اور سفیرہ نے کیا غلطی کی تھی؟
۹ صحائف میں بیانکردہ بعض لوگ ہمارے لئے عبرت کی ایسی مثالیں بن گئے ہیں جو ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ خراب چالچلن سے گریز کرنا بہت ضروری ہے۔ بائبل میں خدا کے ایسے خادموں کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں جو غلط کاموں میں پڑ گئے اور اُنہیں اس کے تباہکُن نتائج بھگتنے پڑے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۱) ایک مثال شادیشُدہ جوڑے حننیاہ اور سفیرہ کی ہے۔ وہ یروشلیم میں پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا کے رُکن تھے۔
۱۰ پنتکست ۳۳ عیسوی کے بعد، کلیسیا میں شامل ہونے والے نئے ایمانداروں کی مالی ضروریات پوری کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ کیونکہ یہ لوگ رسولوں کی رفاقت سے فائدہ اُٹھانے کے لئے یروشلیم ہی میں ٹھہر گئے تھے۔ اِن کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کلیسیا میں سے بعض نے اپنی جائیداد تک بیچ دی۔ (اعمال ۲:۴۱-۴۵) ان میں حننیاہ اور سفیرہ بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی جائیداد بیچ کر جو رقم ملی اُس کا کچھ حصہ رسولوں کو لاکر دیا اور دعویٰ کِیا کہ اُنہیں اتنی ہی رقم ملی ہے۔ سچ ہے کہ حننیاہ اور سفیرہ جتنی رقم چاہتے دے سکتے تھے کیونکہ اُن سے مخصوص رقم کا تقاضا نہیں کِیا گیا تھا۔ لیکن اُنہوں نے اس لئے بددیانتی کی کیونکہ اُن کی نیت دُرست نہیں تھی۔ دراصل وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ اُنہوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر رسولوں کے قدموں میں ڈال دیا ہے جبکہ اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا تھا۔ پطرس رسول نے رُوحاُلقدس کے زیرِہدایت اُن کی بددیانتی اور ریاکاری سب کے سامنے ظاہر کر دی اور یہوواہ خدا نے اُسی دم اُنہیں ہلاک کر دیا۔—اعمال ۵:۱-۱۰۔
۱۱، ۱۲. (ا) دیانتداری کی بابت چند صحیفائی یاددہانیاں کونسی ہیں؟ (ب) دیانتدار رہنے سے کونسے فوائد حاصل ہوتے ہیں؟
۱۱ اگر ہم کبھی لوگوں کے سامنے اپنی بڑائی کرنے کی غرض سے بددیانتی یا جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں تو حننیاہ اور سفیرہ کا واقعہ ہمیں ایسا نہ کرنے کی یاددہانی کراتا ہے۔ ہم ساتھی انسانوں کو تو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن یہوواہ خدا کو نہیں۔ (عبرانیوں ۴:۱۳) پاک صحائف ہمیں باربار ایک دوسرے کے ساتھ سچ بولنے کی تاکید کرتے ہیں۔ جب خدا ناراست لوگوں کو اس زمین پر سے فنا کرے گا تو جھوٹ بولنے والے لوگ بھی ختم ہو جائیں گے۔ (امثال ۱۴:۲؛ مکاشفہ ۲۱:۸؛ ۲۲:۱۵) ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ تمامتر جھوٹ کا باپ شیطان اِبلیس ہے۔ لہٰذا ہمیں جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔—یوحنا ۸:۴۴۔
۱۲ دیانتداری سے زندگی گزارنے کے بیشمار فوائد ہیں۔ ان میں صاف ضمیر کی بخشش اور قابلِبھروسا ہونے کا اطمینان شامل ہے۔ بیشتر صورتوں میں، مسیحیوں کو اُن کی دیانتداری کی وجہ سے جلدی ملازمت مل جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دیانتداری ہمیں قادرِمطلق خدا کی خوشنودی بخشتی ہے۔—زبور ۱۵:۱، ۲۔
پاکیزگی برقرار رکھنا
۱۳. یوسف کو کس صورتحال کا سامنا تھا، اور اُس نے کیسا ردِعمل دکھایا؟
۱۳ یعقوب کے بیٹے یوسف کو اُس کے بھائیوں نے ۱۷ سال کی عمر میں بیچ ڈالا۔ انجامکار مصر کے ایک اعلیٰ افسر، فوطیفار نے اُسے غلام کے طور پر خرید لیا۔ وہاں یوسف اپنے مالک کی بیوی کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ وہ یوسف کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھا۔ پس وہ ہر روز اُسے تنگ کرنے لگی کہ ”میرے ساتھ ہمبستر ہو۔“ یوسف اپنے خاندان سے بہت دُور ایک ایسی جگہ رہتا تھا جہاں کوئی اُسے نہیں جانتا تھا۔ اگر وہ اپنے مالک کی بیوی کی بات مان بھی لیتا تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ تاہم، جب فوطیفار کی بیوی نے زبردستی اُس کے ساتھ ہمبستر ہونے کی کوشش کی تو یوسف وہاں سے بھاگ گیا۔—پیدایش ۳۷:۲، ۱۸-۲۸؛ ۳۹:۱-۱۲۔
۱۴، ۱۵. (ا) یوسف کا واقعہ ہمارے لئے دلچسپی کا حامل کیوں ہے؟ (ب) ایک مسیحی خاتون اس بات کے لئے کیوں شکرگزار تھی کہ اُس نے خدا کی یاددہانیوں پر دھیان دیا؟
۱۴ یوسف کی پرورش ایک خداترس گھرانے میں ہوئی تھی اور وہ سمجھتا تھا کہ شوہر اور بیوی کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا غلط ہیں۔ اسی لئے اُس نے فوطیفار کی بیوی سے کہا: ”مَیں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟“ غالباً وہ انسانوں کے سلسلے میں خدا کے باغِعدن میں وضعکردہ معیار سے واقف تھا کہ ایک شوہر کے لئے صرف ایک بیوی ہونی چاہئے۔ (پیدایش ۲:۲۴) آج بھی خدا کے لوگ یوسف کے ردِعمل پر غور کرنے سے ایسی صورتحال کے ساتھ کامیابی سے نپٹ سکتے ہیں۔ بعض علاقوں میں، بداخلاقی کے کاموں کو اتنا عام خیال جاتا ہے کہ جو نوجوان ان میں حصہ نہیں لیتے وہ دوستوں کے تمسخر کا نشانہ بنتے ہیں۔ بالغ اشخاص میں بھی شادی سے باہر جنسی تعلقات رکھنا ایک عام بات ہے۔ پس یوسف کا واقعہ ہمارے لئے ایک بروقت آگاہی ہے۔ حرامکاری اور زناکاری کی بابت خدا کا معیار آج بھی وہی ہے۔ (عبرانیوں ۱۳:۴) ناجائز جنسی تعلقات قائم کرنے والے بہت سے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنا غلط ہے۔ اس کے نتیجے میں اُنہیں ذلتورسوائی، ضمیر کی خلِش، حسد، ناخواستہحمل اور جنسی طور پر لگنے والی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسےکہ صحائف ہمیں یاد دلاتے ہیں، حرامکار شخص ”اپنے بدن کا بھی گنہگار ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۵:۹-۱۲؛ ۶:۱۸؛ امثال ۶:۲۳-۲۹، ۳۲۔
۱۵ یہوواہ کی ایک گواہ جینیa جو غیرشادیشُدہ ہے یوں کہتی ہے، خدا کی سب یاددہانیوں کیلئے اُس کا شکرگزار ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ بیان کرتی ہے، کام کی جگہ پر ایک ساتھی ملازم نے مجھ میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ مگر جب مَیں نے کسی طرح کا کوئی ردِعمل ظاہر نہ کِیا تو اُس نے میری توجہ حاصل کرنے کی اپنی کوششیں اَور زیادہ تیز کر دیں۔ وہ کہتی ہے: ”اپنی عزت بچانے کے لئے مجھے بہت زیادہ جدوجہد کرنی پڑی۔ کیونکہ جب کوئی مخالف جنس آپ میں دلچسپی لیتا ہے تو یہ اچھا لگتا ہے۔“ تاہم، بعد میں مجھے پتا چلا کہ وہ پہلے بھی کئی عورتوں سے تعلقات قائم کر چکا ہے اور مجھے بھی اُن کی فہرست میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ جب کبھی جینی کو ایسی صورتحال پر قابو پانا مشکل لگتا تو وہ وفادار رہنے کے لئے یہوواہ سے مدد کی درخواست کرتی تھی۔ جینی کہتی ہے کہ جب اُس نے بائبل اور مسیحی مطبوعات میں سے تحقیق کی تو جوکچھ اُس نے سیکھا وہ اُس کے لئے ”ایسی یاددہانیاں ثابت ہوئیں جنہوں نے اُسے ہوشیار اور خبردار رہنے میں مدد دی۔“ ان یاددہانیوں میں سے ایک یوسف اور فوطیفار کی بیوی کا واقعہ تھا۔ وہ مزید بیان کرتی ہے: ”جب تک مجھے یہ یاد ہے کہ مَیں اپنے خالق یہوواہ سے کتنی محبت رکھتی ہوں، مَیں اُس کے حضور ایسی بڑی بدی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔“
خدا کی شہادتوں پر دھیان دیں!
۱۶. جن اشخاص کا بائبل میں ذکر کِیا گیا ہے اُن کی زندگیوں پر غور کرنے سے ہم کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟
۱۶ یہوواہ خدا کے قائمکردہ معیاروں کے لئے اپنی قدردانی کو بڑھانے کے لئے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اُس نے کیوں بعض واقعات ہمارے لئے پاک صحائف میں تحریر کروائے ہیں۔ اِن سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ ہمیں بائبل میں بیانکردہ اشخاص کی کونسی خوبیوں کی نقل کرنے اور کن سے گریز کرنے کی ضرورت ہے؟ خدا کے کلام میں بیشمار لوگوں کا ذکر ملتا ہے۔ خدائی ہدایات سے محبت رکھنے والے لوگ اپنے اندر زندگیبخش حکمت حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرکے اچھا کرتے ہیں۔ اس میں اُن مثالوں سے سبق حاصل کرنا بھی شامل ہے جنہیں یہوواہ خدا نے ہمارے لئے اپنے کلام میں محفوظ رکھا ہے۔ اس رسالے نے اکثر ایسے اشخاص پر مضامین شائع کئے ہیں جن کی مثالوں سے ہم کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ان پر نظرثانی کرنا ہمارے لئے مفید ہوگا۔
۱۷. یہوواہ خدا کی یاددہانیوں کی بابت آپ کیسا محسوس کرتے ہیں، اور کیوں؟
۱۷ ہم یہوواہ خدا کی اُس پُرمحبت فکرمندی کیلئے کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں جو وہ اپنی مرضی بجا لانے والے لوگوں کے لئے ظاہر کرتا ہے! جیسے بائبل میں بیانکردہ اشخاص کامل نہیں تھے اُسی طرح ہم بھی کامل نہیں ہیں۔ اس کے باوجود، بائبل میں درج اُن کا ریکارڈ ہمارے لئے بیشقیمت خزانہ ہے۔ یہوواہ کی شہادتوں پر دھیان دینے سے، ہم بڑی بڑی غلطیاں کرنے سے بچ سکتے اور اُن لوگوں کی عمدہ مثالوں کی نقل کر سکتے ہیں جو راستی کی راہ پر چلتے رہے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم بھی زبورنویس کے ساتھ یہ کہنے کے قابل ہوں گے: ”مبارک ہیں وہ جو [یہوواہ کی] شہادتوں کو مانتے ہیں اور پورے دل سے اُس کے طالب ہیں۔ میری جان نے تیری شہادتیں مانی ہیں اور وہ مجھے نہایت عزیز ہیں۔“—زبور ۱۱۹:۲، ۱۶۷۔
[فٹنوٹ]
a فرضی نام دیا گیا ہے۔
آپ کیسے جواب دیں گے؟
• ساؤل کی بابت داؤد کے رویے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
• حننیاہ اور سفیرہ کے واقعہ سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
• یوسف کی زندگی کا واقعہ آجکل ہمارے لئے خاص طور پر دلچسپی کا حامل کیوں ہے؟
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
داؤد نے ساؤل کو قتل کرنے سے انکار کیوں کِیا؟
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
حننیاہ اور سفیرہ کے واقعہ سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
کس چیز نے یوسف کو بداخلاقی میں پڑنے سے باز رکھا؟