کیا انتقام غلط ہوتا ہے؟
ریاستہائے متحدہ کے ایک سپر ہائیوے پر، ایک گاڑی خود بھی آگے نہیں نکل رہی تھی اور نہ ہی کسی اور کو آگے نکلنے دے رہی تھی۔ دوسری گاڑی کے ڈرائیور نے انتقاماً اس تنگ کرنے والی گاڑی پر گولی چلا دی، اور یوں ایک معصوم راہ گیر کو جان سے مار دیا۔
ایک جواںسال والی لڑکی کو سکول میں ایک ڈرامے میں حصہ نہ ملا بلکہ اس کی جگہ ایک اور لڑکی کو رکھ لیا گیا۔ اس جواںسال لڑکی نے اس سے بدلہ لینے کی خاطر اس کے دوست لڑکے کو بتا دیا کہ وہ لڑکی کسی دوسرے سکول کے لڑکے سے دوستی کر رہی ہے۔ یوں اس نے اس لڑکی کے تعلقات اس کے دوست لڑکے کے ساتھ خراب کر د یے۔
بہت سے لوگ جب یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو وہ بدلہ لینے کو جائز محسوس کرتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح سے، وہ اس اصولعمل کی پیروی کرتے ہیں: ”پاگل نہ بنیں، بدلہ چکائیں۔“ آجکل، پڑوسی کے لیے محبت زوالپذیر ہے، اور انتقام کا جذبہ عروجپذیر ہے۔ متی ۲۴:۱۲۔
تاہم، انتقام کی بابت آپکا کیا نظریہ ہے؟ اگر آپ بائبل پر ایمان رکھتے ہیں، تو شاید آپ محسوس کریں کہ اصولی طور پر انتقام غلط ہوتا ہے۔ لیکن ایک بےدین دنیا میں رہتے ہو ئے، جیسے کہ ہم رہتے ہیں آپ شاید محسوس کریں کہ معافی جو انتقامپروری کی ضد ہے، اکثر غیرحقیقتپسندانہ ہے۔ اگر آپکو لوٹا یا دھوکا دیا گیا ہو تو آپ کیسا ردعمل دکھائیں گے؟ اگر کوئی آپکو نظرانداز کرتا ہے یا دوسروں کے ساتھ آپکے متعلق تحقیرآمیز باتیں کرتا ہے تو کیا آپ کینہپرور بن جاتے ہیں؟ کیا آپ انتقامپرور ہیں یا معافیبخش؟
کینہپرور رویہ دکھ پہنچا تا ہے
بلاشبہ، جارحانہ کام کے مختلف درجے ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ جو کسی سے بدلہ لینا چاہتے ہیں وہ لوٹے نہیں گئے یا مجرمانہ حملے کا شکار نہیں ہو ئے۔ جن ”جارحانہ کاموں“ کا اس مضمون کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے کسی حد تک غیراہم تھے، اگرچہ وہ ان کے ذہنوں پر چھائے رہے جنہوں نے بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔
بائبل کہتی ہے کہ ہمیں انتقامپرور رویے کو پیدا نہیں کرنا چاہئے۔ امثال ۲۴:۲۹ نصیحت کرتی ہے: ”یوں نہ کہہ میں اس سے ویسا ہی کرونگا جیسا اس نے مجھ سے کیا۔“ کیوں نہیں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایسا رویہ جذباتی اور جسمانی طور پر نقصاندہ ہے۔ انتقامپرور خیالات ذہنی سکون کو ختم کر دیتے ہیں اور ہوشمندانہ استدلال کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس خبر پر غور کریں: ”ایک پارکنگ کی جگہ میں دو کسانوں نے اپنے اپنے پک اپ ٹرکوں سے گولی چلاتے ہوئے ایک دوسرے کو قتل کر دیا، اور ایک ۴۰ سالہ خاندانی جھگڑا ختم ہو گیا جو اس وقت شروع ہوا تھا جب وہ بچے ہی تھے۔“ ذرا تصور کریں، کہ ان دونوں آدمیوں کی پوری زندگیوں کے دوران پرخلش، انتقامی جذبے نے ان کی سوچ کو زہرآلودہ کر رکھا تھا! امثال ۱۴:۲۹، ۳۰۔
انتقامی جذبے کو بڑھنے نہ دینے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ خطا کرنے والے ہاں سنگین خطا کرنے والے بھی بدل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک وقت تھا جب پولس رسول شاگرد استفنس کے ”قتل پر راضی تھا“ اور ”خداوند کے شاگردوں کے دھمکانے اور قتل کرنے کی دھن میں تھا۔“ لیکن وہ بدل گیا۔ کئی سالوں بعد پطرس رسول جس کی زندگی شروع کے اس وقت کے دوران پولس سے خطرے میں رہی تھی نے اسے ”ہمارے پیارے بھائی پولس“ کہا۔ (اعمال ۸:۱، ۹:۱، ۲-پطرس ۳:۱۵) مسیحی کوشش کر سکتے تھے کہ پولس سے بدلہ لیں ، خاص طور پر جب وہ دمشق میں، نابینا حالت میں پڑا ہوا انتظار کر رہا تھا۔ (اعمال ۹:۳-۱۵) وہ کیا ہی سنگین غلطی ہوتی!
اسلئے پولس رومیوں ۱۲:۲۰ میں خوب نصیحت کر سکتا تھا: ”اگر تیرا دشمن بھوکا ہو تو اسکو کھانا کھلا اگر پیاسا ہو تو اسے پانی پلا۔“ کیوں؟ اسلئے کہ اگر ہم کسی دشمن سے بدلہ لیتے ہیں، تو ہم اس کے رویے کو سخت کرتے اور اپنے درمیان دشمنی کی دیوار کھڑ ی کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس کے ساتھ نیکی کرتے ہیں جس نے ہمیں تکلیف اور دکھ دیا ہے، تو ہم اسکے رویے کو نرم کر سکتے اور ایک سابقہ دشمن کو ایک دوست بنا سکتے ہیں۔
اپنی ذاتی کمزوریوں کو تسلیم کرنا بھی تلخی پر قابو پانے میں مدد کرتا ہے جو بدلہ لینے کی خواہش کا سبب بنتا ہے۔ زبورنویس نے پوچھا تھا: ”اے [یاہ] اگر تو بدکاری کو حساب میں لائے تو اے [یہوواہ] کون قائم رہ سکے گا؟“ (زبور ۱۳۰:۳) ہم سب نے دوسروں کو دکھ دیا اور ناراض کیا ہے۔ ان کے بدلہ نہ لینے کی وجہ سے کیا ہم خوش نہیں؟ تو پھر، کیا ہمیں، اسی طرح سے خود پر قابو رکھ کر عمل نہیں کرنا چاہئے؟ یسوع نے نصیحت کی تھی: ”پس جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی ان کے ساتھ کرو۔“ متی ۷:۱۲۔
سچ ہے کہ بائبل کہتی ہے: ”بدی سے نفرت کرو۔“ (زبور ۹۷:۱۰، عاموس ۵:۱۵) لیکن یہ ہمیں بدی کرنے والے سے نفرت کرنے کے لیے نہیں کہتی۔ درحقیقت، یسوع نے ہمیں حکم دیا تھا ”اپنے دشمنوں سے محبت کرتے رہو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دعا کرو۔“ (متی ۵:۴۴، NW) اگر ہم زخم کے بدلے زخم لگاتے ہیں، تو ہم غلط کار کے جذبے کی نقل کرتے ہیں۔ قدیم امثال کہتی ہے: ”تو یہ نہ کہنا میں بدی کا بدلہ لونگا! [یہوواہ] کی آس رکھ اور وہ تجھے بچائیگا۔“ (امثال ۲۰:۲۲) کیا ہی دانشمندانہ رویہ! غلط کاروں کی نقل کرنے کی آزمائش کی مزاحمت کرنے سے ہمارے لیے خود کو فاتح ظاہر کرنا کتنا اچھا ہے۔ یوحنا ۱۶:۳۳، رومیوں ۱۲:۱۷، ۲۱۔
سزا—کس کے ذر یعے؟
بلاشبہ، بعض فعل ذاتی توہین یا دکھوں سے زیادہ سنگین ہوتے ہیں۔ پس اس وقت کیا ہو اگر ہم کسی جرم کا شکار ہو جاتے ہیں؟ فطری طور پر، ہم محسوس کرتے ہیں کہ انصاف کے نام پر کچھ کیا جانا چاہیے۔ لیکن کیا؟ بعض معاشروں میں معاملات سے ذاتی طور پر نپٹنا اور بدلہ لینا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ لیکن ایسے معاشروں کی رقابت اکثر خونی فسادات سے ختم ہوتی ہے۔ آجکل، نہ تو خدا کی شریعت، اور جیسا کہ زیادہ معاملات میں نہ ہی انسانی قانون، افراد کو جرائم کے لئے ذاتی بدلہ لینے کی اجازت دیتے ہیں اور اچھی وجہ سے۔ ایسا ذاتی تشدد فقط مزید تشدد کو جنم دیتا ہے۔
تو کیا پھر، جرم کا شکار ہونے والے کو خاموشی سے بدسلوکی کو برداشت کرنے کے لیے دبکے بیٹھے رہنا چاہئے۔ ضروری طور پر نہیں۔ جب ہماری ذات یا جائداد کی بےحرمتی کی جاتی ہے، تو رسائی کرنے کے لیے حکام موجود ہیں۔ آپ پولیس کو بلا سکتے ہیں۔ کام کی جگہ پر، سپروائزر کے پاس جائیں۔ سکول میں، آپ پرنسپل سے مل سکتے ہیں۔ ان کے وہاں موجود ہونے کی ایک وجہ یہ ہے انصاف کی بالادستی قائم کرنا۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ حکومتی اہلکار ”خدا کا خادم ہے کہ اسکے غضب کے موافق بدکار کو سزا دیتا ہے۔“ (رومیوں ۱۳:۴) انصاف تقاضا کرتا ہے کہ حکومت اپنے اختیار کو عمل میں لا ئے، غلط کاری کو روکے، اور غلط کاروں کو سزا دے۔
سچ ہے کہ بعض اوقات انصاف ملنے میں دیر لگتی ہے۔ ایک دنیا کے ستائے ہوئے مصنف نے لکھا: ”انصاف ایک ٹرین کی مانند ہے جو تقریباً ہمیشہ ہی لیٹ ہوتی ہے۔“ بیشک بعض اوقات تو ٹرین آتی ہی نہیں۔ ناانصافی کرنے والے اتنے طاقتور ہو سکتے ہیں کہ حکام انہیں کنٹرول ہی نہیں کر سکتے۔ پھر بھی، دانشمندانہ روش یہی ہے کہ خود پر قابو رکھا جائے۔ بائبل کہتی ہے، ”احمق اپنا قہر اگل دیتا ہے لیکن دانا اس کو روکتا اور پی جاتا ہے۔“ امثال ۲۹:۱۱۔
انتقام—کس کے ذر یعے؟
پس خود کو بدلہ لینے سے باز رکھنا ہمیں فائدہ پہنچائے گا، اور ہم اطمینان کے ساتھ انتظار کر سکتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ اگر انصاف ملنا ہی ہے تو خدا اسے مناسب وقت پر مہیا کریگا۔ یہوواہ اس سے باخبر ہے کہ بے لگام غلط کاری ناانصافی کا سبب بنتی ہے۔ (واعظ ۸:۱۱) وہ سنگدل شریر کو بنیآدم کو ہمیشہ ستانے کی اجازت نہیں دیگا۔ اسی وجہ سے پولس نے ہمیں مشورہ دیا: ”اے عزیزو! اپنا انتقام نہ لو، بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے [یہوواہ] فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے بدلہ میں ہی دوں گا۔“ (رومیوں ۱۲:۱۹) بیشک بائبل خالق کی طرف سے ایک روزانتقام کا ذکر کرتی ہے۔ یہ روزانتقام کیسا ہو گا؟ اور خدا کے انتقام کا نشانہ کون بنیں گے؟ ہم اس پر اگلے مضمون میں بحث کریں گے۔ (۳ ۱۱/۱ w۹۱)
[صفحہ 5 پر بکس]
انتقام کے جذبات پر قابو رکھنے کے لئے یاد رکھیں کہ
▫ خدا کو انصاف کی فکر ہے
▫ کینہپرور رویے کو دل میں رکھنا نقصاندہ ہے
▫ مہربان ہونا اکثر دوسروں کے ساتھ مسائل کو کم کر دیتا ہے
▫ ہماری اپنی بہت سی خطاؤں کو نظرانداز کیا گیا ہے
▫ خطا کرنے والے بدل سکتے ہیں
▫ ہم دنیا کی روش کا مقابلہ کرنے سے اس پر غالب آتے ہیں