آج کیلئے یا ایک ابدی مستقبل کیلئے زندہ رہنا؟
”ہمیں اُمید کے وسیلے سے نجات ملی۔“—رومیوں ۸:۲۴۔
۱. اپکوری کیا تعلیم دیتے تھے اور اِس قسم کے فلسفے نے بعض مسیحیوں کو کس طرح متاثر کِیا؟
پولس رسول نے کرنتھس کے مسیحیوں کو لکھا: ”تم میں سے بعض کس طرح کہتے ہیں کہ مُردوں کی قیامت ہے ہی نہیں؟“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۲) بظاہر، یونانی دانشور ایپکورس کی زہرآلودہ فیلسوفی پہلی صدی کے مسیحیوں میں بھی سرایت کر گئی تھی۔ لہٰذا پولس نے اپکوری تعلیم کی طرف توجہ دلائی: ”آؤ کھائیں پئیں کیونکہ کل تو مر ہی جائینگے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۲) اِس فلسفی کے پیروکار جو موت کے بعد زندگی کی اُمید کا انکار کرتے تھے، یہ یقین رکھتے تھے کہ جسمانی خواہشات کی تسکین ہی سب سے اہم ہے۔ (اعمال ۱۷:۱۸، ۳۲) اپکوری فلسفہ خودپرستانہ، تنقیدی اور بنیادی طور پر بگاڑ پیدا کرنے والا تھا
۲. (ا) قیامت سے انکار کرنا اتنا خطرناک کیوں تھا؟ (ب) پولس نے کس طرح کرنتھس کے مسیحیوں کے ایمان کو تقویت بخشی؟
۲ قیامت کے اس انکار کا بہت گہرا اثر ہوا تھا۔ پولس نے دلیل پیش کی: ”اگر مُردوں کی قیامت نہیں تو مسیح بھی نہیں جی اُٹھا اور اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو ہماری منادی بھی بیفائدہ ہے اور تمہارا ایمان بھی بےفائدہ . . . اگر ہم صرف اِسی زندگی میں مسیح میں اُمید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں سے زیادہ بدنصیب ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۳-۱۹) جیہاں، ابدی مستقبل کی اُمید کے بغیر، مسیحیت ”بےفائدہ“ ہو گی۔ یہ بےمقصد ہوگی۔ لہٰذا، اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اِس مُلحدانہ سوچ کے زیرِاثر، کرنتھیوں کی کلیسیا مسائل کی آماجگاہ بن گئی تھی۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۱۱؛ ۵:۱؛ ۶:۱؛ ۱۱:۲۰-۲۲) اِس لئے، پولس نے اُمیدِقیامت میں اُن کے ایمان کو تقویت دینے کو اپنا مقصد بنایا۔ پُرزور منطق، صحیفائی اقتباسات، اور تمثیلوں کا استعمال کرتے ہوئے، اُس نے بِلاشکوشُبہ ثابت کر دیا کہ اُمیدِقیامت کوئی افسانہ نہیں ہے بلکہ ایک یقینی تکمیل کی حامل حقیقت ہے۔ اِس کی بنیاد پر، وہ اپنے ساتھی ایمانداروں کو تاکید کر سکتا تھا: ”ثابتقدم اور قائم رہو اور خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تمہاری محنت خداوند میں بیفائدہ نہیں ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۰-۵۸۔
”جاگتے رہو“
۳، ۴. (ا) پطرس کے مطابق، آخری ایام میں کونسا خطرناک رُجحان بعض کو متاثر کریگا؟ (ب) ہمیں کیا یاد رکھنے کی ضرورت ہے؟
۳ آجکل بہتیرے رجائیتپسندی کیساتھ امروزیہ زندگی کا رجحان رکھتے ہیں۔ (افسیوں ۲:۲) اِسی کی پیشگوئی پطرس رسول نے کی تھی۔ اُس نے بیان کِیا ”ہنسیٹھٹھا کرنے والے . . . کہینگے کہ اُسکے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟ کیونکہ جب سے باپدادا سوئے ہیں اُس وقت سے اب تک سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا خلقت کے شروع سے تھا۔“ (۲-پطرس ۳:۳، ۴) اگر سچے پرستار ایسا نظریہ اپنا لیتے تو وہ ”بیکار اور بےپھل“ بن سکتے تھے۔ (۲-پطرس ۱:۸) خوشی کی بات ہے کہ آجکل خدا کے لوگوں کی اکثریت ایسی نہیں ہے۔
۴ اِس شریر نظام پر آنے والی تباہی میں دلچسپی رکھنا غلط نہیں ہے۔ اُس دلچسپی کو یاد کریں جو یسوع کے رسولوں نے ظاہر کی: ”اے خداوند! کیا تُو اِسی وقت اؔسرائیل کو بادشاہی پھر عطا کریگا؟“ یسوع نے جواب دیا: ”اُن وقتوں اور میعادوں کا جاننا جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے تمہارا کام نہیں۔“ (اعمال ۱:۶، ۷) ان الفاظ میں وہی بنیادی پیغام پایا جاتا ہے جو اُس نے زیتون کے پہاڑ پر کہے تھے: ”تم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئیگا . . . جس گھڑی تمکو گمان بھی نہ ہوگا ابنِآدم آ جائیگا۔“ (متی ۲۴:۴۲، ۴۴) ہمیں اِس مشورت کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے! شاید بعض ایسے میلان کی آزمائش میں پڑ جائیں، ’بعض باتوں کے سلسلے میں بہت زیادہ فکرمند نہ ہوتے ہوئے، تھوڑا سا سُست ہو جانے میں کوئی حرج نہیں۔‘ یہ کتنی بڑی غلطی ہو گی! ”گرج کے بیٹے“ یعقوب اور یوحنا پر غور کریں۔—مرقس ۳:۱۷۔
۵، ۶. یعقوب اور یوحنا کی مثال سے ہم کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں؟
۵ ہم جانتے ہیں کہ یعقوب انتہائی پُرجوش رسول تھا۔ (لوقا ۹:۵۱-۵۵) مسیحی کلیسیا کے قائم ہو جانے کے بعد اُس نے واقعی ایک فعال کردار ادا کِیا ہوگا۔ لیکن جب یعقوب نسبتاً ابھی جوان ہی تھا تو ہیرودیس اگرپا اوّل نے اُسے قتل کروا دیا۔ (اعمال ۱۲:۱-۳) کیا ہم سوچتے ہیں کہ یعقوب نے اپنی زندگی کو غیرمتوقع طور پر ختم ہوتے دیکھ کر افسردہ خاطر محسوس کِیا کہ کیوں اُس نے اتنی سرگرمی سے خدمتگزاری میں جانفشانی کی؟ ہرگز نہیں! یقیناً وہ خوش تھا کہ اُس نے اپنی نسبتاً مختصر زندگی کے بہترین سال یہوواہ کی خدمت میں گزارے۔ اب، ہم میں سے کوئی نہیں جان سکتا کہ شاید ہماری زندگی بھی غیرمتوقع طور پر ختم ہو جائے۔ (واعظ ۹:۱۱؛ مقابلہ کریں لوقا ۱۲:۲۰، ۲۱۔) لہٰذا یہوواہ کی خدمت کیلئے جوشوجذبے اور کارگزاری کو بلند درجے پر رکھنا دانشمندی کی بات ہوگی۔ اِس طرح ہم اُسکے حضور نیکنامی برقرار رکھینگے اور اپنے ابدی مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی بسر کرینگے۔—واعظ ۷:۱۔
۶ یوحنا رسول کے حوالے سے ہم ایک اہم سبق سیکھتے ہے جوکہ اُس وقت موجود تھا جب یسوع نے پُرزور تاکید کی، ”جاگتے رہو۔“ (متی ۲۵:۱۳؛ مرقس ۱۳:۳۷؛ لوقا ۲۱:۳۴-۳۶) یوحنا نے اِس پر دل لگاتے ہوئے کئی دہوں تک بڑی سرگرمی سے خدمت کی۔ درحقیقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے دیگر تمام رسولوں سے زیادہ عمر پائی۔ جب یوحنا کی عمر کافی ہو گئی اور وہ اپنی کئی دہوں کی وفادارانہ کارگزاری پر نظر ڈالنے کے قابل تھا تو کیا اُس نے اِسے ایک غلطی خیال کِیا، ایک غیرمتوازن یا بےکار زندگی؟ یقیناً نہیں! وہ اُس وقت بھی مستقبل کا مشتاق تھا۔ جب قیامتیافتہ یسوع نے کہا، ”مَیں جلد آنے والا ہوں۔“ تو یوحنا نے فوراً جواب دیا، ”آمین۔ اے خداوند یسوؔع آ۔“ (مکاشفہ ۲۲:۲۰) یوحنا یقیناً ایک میانہرو اور مطمئن ’نارمل زندگی‘ کی خواہش کرتے ہوئے، حال کیلئے زندگی نہیں گزار رہا تھا۔ وہ اپنی ساری جان اور طاقت کے ساتھ خدمت کرتے رہنے کا عزم رکھتا تھا، چاہے خداوند کسی وقت بھی آئے۔ ہماری بابت کیا ہے؟
ہمیشہ کی زندگی پر یقین کی بنیاد
۷. (ا) کس طرح ہمیشہ کی زندگی کا ”وعدہ ازل سے کِیا“ گیا؟ (ب) یسوع نے کس طرح ابدی زندگی کی اُمید پر روشنی ڈالی؟
۷ یقین رکھیں کہ ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کوئی انسان ساختہ خواب یا تخیل نہیں ہے۔ جیسا کہ ططس ۱:۲ بیان کرتی ہے، ہماری خدائیعقیدت کی بنیاد ”اُس ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پر ہے جسکا وعدہ ازل سے خدا نے کِیا ہے جو جھوٹ نہیں بول سکتا۔“ تمام فرمانبردار نوعِانسان کیلئے خدا کا حقیقی مقصد یہ تھا کہ وہ ہمیشہ تک زندہ رہیں۔ (پیدایش ۱:۲۸) کوئی بھی چیز حتیٰکہ آدم اور حوا کی بغاوت بھی اِس مقصد کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ پیدایش ۳:۱۵ میں درج ہے، خدا نے فوراً ہی ایک ”نسل“ کا وعدہ کِیا جو نوعِانسان کی تمام تکلیفدہ حالت کو ختم کریگا۔ جب ”نسل“ یا مسیحا، یسوع آیا تو اُس نے ابدی زندگی کی اُمید کو اپنی بنیادی تعلیمات کا حصہ بنایا۔ (یوحنا ۳:۱۶؛ ۶:۴۷، ۵۱؛ ۱۰:۲۸؛ ۱۷:۳) اپنی کامل زندگی فدیے کے طور پر دے دینے سے، مسیح نے نوعِانسان کو ہمیشہ کی زندگی عطا کرنے کا قانونی حق حاصل کر لیا۔ (متی ۲۰:۲۸) اُس کے بعض شاگرد، کُل ملا کر ۱۴۴،۰۰۰، آسمان پر ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔ (مکاشفہ ۱۴:۱-۴) لہٰذا بعض پہلے فانی انسان تھے ”حیاتِابدی [”غیرفانیت،“ اینڈبلیو] کا جامہ“ پہنیں گے!—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۳۔
۸. (۱) ”غیرفانیت“ کیا ہے اور یہوواہ ۱۴۴،۰۰۰ کو یہ کیوں بخشتا ہے؟ (ب) ”دوسری بھیڑوں“ کیلئے یسوع نے کیا اُمید دی؟
۸ ”غیرفانیت“ کا مطلب کبھی نہ مرنے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ ”غیرفانی زندگی کی قوت“ ہے (عبرانیوں ۷:۱۶؛ مقابلہ کریں مکاشفہ ۲۰:۶۔) تاہم، خدا ایسی عظیم نعمت بخشنے سے کیا انجام دیگا؟ شیطان کے چیلنج کو یاد کریں کہ خدا کی خلائق میں سے کسی پر بھی بھروسہ نہیں کِیا جا سکتا تھا۔ (ایوب ۱:۹-۱۱؛ ۲:۴، ۵) اِن ۱۴۴،۰۰۰ کو غیرفانیت بخشنے سے، خدا اِس جماعت پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرتا ہے جس نے شیطان کے چیلنج کا بڑا نمایاں جواب دیا ہے۔ مگر باقی نوعِانسان کی بابت کیا ہے؟ یسوع نے بادشاہی کے وارث اِس ”چھوٹے گلّے“ کے ابتدائی افراد کو بتایا کہ وہ ”تختوں پر بیٹھ کر اؔسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف“ کرینگے۔ (لوقا ۱۲:۳۲؛ ۲۲:۳۰) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس بادشاہت کی رعایا کے طور پر، دوسرے لوگ زمین پر ہمیشہ کی زندگی پائینگے۔ اگرچہ اِن ”دوسری بھیڑوں“ کو غیرفانیت تو عطا نہیں کی جاتی تَوبھی وہ ”ہمیشہ کی زندگی“ پائینگے۔ (یوحنا ۱۰:۱۶؛ متی ۲۵:۴۶) لہٰذا ہمیشہ کی زندگی تمام مسیحیوں کی اُمید ہے۔ یہ کوئی تخیل نہیں ہے بلکہ یہ اُس خدا کا حقیقی وعدہ ہے جو ”جھوٹ نہیں بول سکتا“ اور جس نے اِس کی قیمت کے طور پر یسوع کا بیشبہا خون دیا ہے۔—ططس ۱:۲۔
مستقبل بعید میں؟
۹، ۱۰. اِس بات کے واضح اشارے کیا ہیں کہ ہم خاتمے کے قریب ہیں؟
۹ پولس رسول نے پیشگوئی کی کہ ”نازک ایّام سے نپٹنا مشکل“ ہو جائیگا جس سے ظاہر ہوگا کہ ہم بِلاشکوشُبہ ”اخیر زمانے“ میں پہنچ گئے ہیں۔ جب ہمارے اِردگِرد کی دُنیا میں محبت کی کمی، لالچ، ذاتیتسکین اور بےدینی کے باعث شکستگی کا شکار ہے تو کیا ہم سمجھ نہیں سکتے کہ اِس دُنیا کے شریر نظام کی تباہی کیلئے یہوواہ کا عدالتی دن تیزی سے قریب آ رہا ہے؟ جب تشدد اور نفرت میں اضافہ ہوتا ہے تو کیا ہم اپنے گردوپیش پولس کے الفاظ کو تکمیل پاتے نہیں دیکھتے: ”بُرے اور دھوکاباز آدمی فریب دیتے اور فریب کھاتے ہوئے بگڑتے چلے جائیں گے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵، ۱۳) بعض شاید پُراُمید ہوتے ہوئے ”اَمن اور سلامتی“ کے لئے پکاریں، مگر امن کی تمام اُمیدیں ختم ہو جائیں گی، کیونکہ ”اُن پر اِس طرح ناگہان ہلاکت آئے گی جس طرح حاملہ کو درد لگتے ہیں اور وہ ہرگز نہ بچینگے۔“ اپنے زمانے کے مفہوم کی بابت ہمیں اندھیرے میں نہیں رکھا گیا۔ لہٰذا، ”جاگتے اور ہوشیار رہیں۔“—۱-تھسلنیکیوں ۵:۱-۶۔
۱۰ مزیدبرآں، بائبل یہ بھی نشاندہی کرتی ہے کہ اِخیر زمانہ ”تھوڑے ہی سے وقت“ کا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۱۲؛ مقابلہ کریں ۱۷:۱۰۔) ظاہری طور پر اِس ”تھوڑے سے وقت“ کا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ مثال کے طور پر، دانیایل کی پیشینگوئی بالکل درست طور پر ”شاہِشمال“ اور ”شاہِجنوب“ کے درمیان آویزش کو بیان کرتی ہے جوکہ اِس صدی تک جاری ہے۔ (دانیایل ۱۱:۵، ۶) جس چیز کی ابھی تکمیل ہونا باقی ہے وہ ”شاہِشمال“ کا آخری حملہ ہے جسے دانیایل ۱۱:۴۴، ۴۵ میں بیان کِیا گیا ہے۔—اِس پیشینگوئی کی تفصیلات کیلئے جولائی ۱، ۱۹۸۷ کے دی واچٹاور اور فروری ۱۹۹۴ کے مینارِنگہبانی کو دیکھیں۔
۱۱. (ا) متی ۲۴:۱۴ کی تکمیل کس حد تک ہو چکی ہے؟ (ب) متی ۱۰:۲۳ میں درج یسوع کے الفاظ کیا ظاہر کرتے ہیں؟
۱۱ اِسکے علاوہ، یسوع کی پیشینگوئی بھی ہے کہ ”بادشاہی کی اِس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہو گی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“ (متی ۲۴:۱۴)آجکل، یہوواہ کے گواہ ۲۳۳ ممالک، جزائری خطوں اور علاقوں میں اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔ درست ہے کہ ایسے علاقے ہیں جہاں ابھی تک کام نہیں ہوا اور شاید یہوواہ کے مُعیّنہ وقت پر وہاں بھی کام کرنے کا راستہ کُھل جائے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۶:۹) پھر بھی، متی ۱۰:۲۳ میں درج یسوع کے الفاظ موزوں ہیں: ”تم اؔسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر چکو گے کہ ابنِآدم آ جائے گا۔“ اگرچہ خوشخبری کا اعلان یقیناً ساری دُنیا میں کِیا جائے گا تو بھی ہم بادشاہت کے پیغام کے ساتھ بذاتِخود زمین کے ہر حصے تک نہیں پہنچ پائیں گے کہ یسوع سزا دینے والے کے طور پر ”آ جائے گا۔“
۱۲. (ا) مکاشفہ ۷:۳ میں ’مہر لگانے‘ کے کس کام کا حوالہ دیا گیا ہے؟ (ب) زمین پر سے ممسوحوں کی تعداد کے کم ہونے کی کیا اہمیت ہے؟
۱۲ مکاشفہ ۷:۱، ۳ پر غور کریں جو بیان کرتی ہے کہ تباہی کیلئے ”چاروں ہواؤں“ کو روکا گیا ہے جب تک کہ ”خدا کے بندوں کے ماتھے پر مہر نہ کر لی جائے۔“ یہ مہر کرنے کے اُس ابتدائی کام کی طرف اشارہ نہیں کرتا جو اُس وقت ہوا جب ۱۴۴،۰۰۰ میں شامل افراد نے آسمانی بلاہٹ حاصل کی۔ (افسیوں ۱:۱۳) یہ مہر کرنے کے اُس فیصلہکُن کام کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ ناقابلِتردید طور پر ”خدا کے“ وفادار اور آزمودہ ”خادموں“ کے طور پر پہچانے جائینگے۔ زمین پر خدا کے حقیقی مسحشُدہ بیٹیوں کی تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔ مزیدبرآں، بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ ”برگزیدوں کی خاطر“ بڑی مصیبت کے ابتدائی دوَر کے ”دن گھٹائے جائینگے۔“ (متی ۲۴:۲۱، ۲۲) ممسوح ہونے کا اعتراف کرنے والوں میں سے زیادہتر عمررسیدہ ہیں۔ کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ خاتمہ قریب ہے؟
ایک وفادار نگہبان
۱۳، ۱۴. نگہبان جماعت کی کیا ذمہداری ہے؟
۱۳ اِس اثنا میں، ہم ”دیانتدار نوکر“ کی ہدایات پر توجہ دیکر اچھا کرتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵) سو سال سے زیادہ عرصے سے جدید زمانے کا ”نوکر“ وفاداری سے ”نگہبان“ کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ (حزقیایل ۳:۱۷-۲۱) اکتوبر ۱۹۸۴ کے مینارِنگہبانی نے وضاحت کی: ”یہ نگہبان دیکھتا ہے کہ کیسے زمین پر واقعات بائبل پیشینگوئی کی تکمیل میں رُونما ہو رہے ہیں، سر پر منڈلا رہی ایسی ’بڑی مصیبت جو دُنیا کے شروع سے بھی نازل نہیں ہوئی‘ اُس سے خبردار کرتا ہے اور ’کسی اچھی چیز کی خوشخبری‘ دیتا ہے“۔—متی ۲۴:۲۱؛ یسعیاہ ۵۲:۷۔
۱۴ یاد رکھیں: یہ نگہبان کا فرض ہے کہ ”جو کچھ دیکھے سو بتائے۔“ (یسعیاہ ۲۱:۶-۸) بائبل وقتوں میں چاہے متوقع خطرہ اتنی دُور بھی کیوں نہ ہوتا کہ اُسکی شناخت بھی واضح طور پر نہ ہو پاتی تو بھی نگہبان خبردار کرتا۔ (۲-سلاطین ۹:۱۷، ۱۸) اُس وقت بھی یقیناً جھوٹی آگاہیاں دی جاتی ہونگی۔ لیکن ایک اچھا نگہبان شرمندگی کے خوف سے خاموش نہ رہیگا۔ اگر آپ کے گھر کو آگ لگ جاتی اور آگ بجھانے والا عملہ یہ سوچ کر نہ آئے کہ شاید یہ ایک جھوٹی آگاہی ہو تو آپ کیسا محسوس کرینگے؟ یقیناً، ہم ایسے اشخاص سے توقع رکھینگے کہ وہ خطرے کے کسی بھی اشارے کیلئے فوراً جوابیعمل دکھائیں! اِسی طرح، حالات نے جب بھی اِسکا تقاضا کِیا، نگہبان جماعت نے آگاہی دی ہے۔
۱۵، ۱۶. (ا) پیشینگوئی کے متعلق ہماری سمجھ میں تھوڑی بہت کیا تبدیلی کی گئی ہے؟ (ب) ہم خدا کے اُن وفادار خادموں سے کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں جو بعض پیشینگوئیوں کی غلط سمجھ رکھتے تھے؟
۱۵ تاہم، جب واقعات رُونما ہوتے ہیں تو پیشینگوئی کے متعلق ہماری سمجھ بھی واضح ہو جاتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ الہٰی پیشینگوئیوں کو اُنکی تکمیل سے پہلے پوری طرح سمجھ لیا گیا ہو۔ خدا نے ابرام کو بالکل ٹھیک ٹھیک بتایا کہ کتنی دیر تک اُسکی نسل ”ایسے مُلک میں جو اُنکا نہیں پردیسی ہونگے،“ یعنی ۴۰۰ سال تک۔ (پیدایش ۱۵:۱۳) تاہم، موسیٰ نے قبلازوقت خود کو چھڑانے والے کے طور پر پیش کِیا۔—اعمال ۷:۲۳-۳۰۔
۱۶ مسیحائی پیشینگوئیوں پر بھی غور کریں۔ ماضی کے اوراق کی ورقگردانی روزِروشن کی طرح عیاں کر دیتی ہے کہ مسیحا کی موت اور قیامت کے متعلق پہلے ہی سے پیشینگوئی کر دی گئی تھی۔ (یسعیاہ ۵۳:۸-۱۰) تاہم، یسوع کے اپنے شاگرد بھی اِس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ (متی ۱۶:۲۱-۲۳) اُنہوں نے نہ سمجھا کہ دانیایل ۷:۱۳، ۱۴ کی تکمیل مستقبل میں مسیح کی ”موجودگی“ یا پیروسیا کے دوران واقع ہو گی۔ (متی ۲۴:۳) لہٰذا وہ اپنے حساب سے ۲،۰۰۰ سال دُور تھے جب اُنہوں نے یسوع سے پوچھا: ”کیا تُو اِسی وقت اسرائیل کو بادشاہی پھر عطا کریگا؟“ (اعمال ۱:۶) مسیحی کلیسیا کے اچھی طرح قائم ہو جانے کے بعد بھی، غلط نظریات اور جھوٹی توقعات سر اُٹھاتی رہیں۔ (۲-تھسلنیکیوں ۲:۱، ۲) اگرچہ پہلی صدی میں بعض کبھیکبھار غلط نظریات رکھتے تھے، توبھی، یہوواہ نے پہلی صدی کے ایمانداروں کے کام کو بِلاشُبہ برکت بخشی!
۱۷. صحائف کی سمجھ میں تھوڑی بہت تبدیلی کی بابت ہمارا نظریہ کیا ہونا چاہئے؟
۱۷ اِسی طرح، آج کی نگہبان جماعت کو بھی وقتاًفوقتاً اپنے نظریات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، کیا کوئی شک کر سکتا ہے کہ یہوواہ نے ’دیانتدار نوکر‘ کو برکت دی ہے؟ علاوہازیں، جو بھی تھوڑی بہت تبدیلیاں کی گئی ہیں کیا وہ سیاقوسباق کے حوالے سے نسبتاً بہت خفیف نہیں ہیں؟ بائبل کی بابت ہماری بنیادی سمجھ تبدیل نہیں ہوئی۔ ہمارا یہ یقین کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں، پہلے کی نسبت زیادہ قوی ہے!
ایک ابدی مستقبل کیلئے زندہ رہنا
۱۸. ہمیں آج ہی کیلئے زندہ رہنے سے کیوں گریز کرنا چاہئے؟
۱۸ شاید دُنیا کہے، ’آؤ کھائیں پئیں کیونکہ کل تو ہم مر ہی جائینگے‘ لیکن ہمارا روّیہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اب اِس دُنیا سے خوشیاں حاصل کرنے کی بیفائدہ کوشش کیوں کریں جبکہ آپ ایک ابدی مستقبل کیلئے کام کر سکتے ہیں؟ آسمان پر غیرفانی زندگی یا زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید ایک خواب یا تخیل نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جسکا وعدہ اُس خدا نے فرمایا ہے جو ”جھوٹ نہیں بول سکتا۔“ (ططس ۱:۲) اِس بات کا ثبوت ہیجانخیز ہے کہ ہماری اُمید کے بَر آنے کا وقت اب قریب ہے! ”وقت تنگ ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۷:۲۹۔
۱۹، ۲۰. (ا) یہوواہ اُن قربانیوں کی بابت کیا نظریہ رکھتا ہے جو ہم نے بادشاہت کیلئے کی ہیں؟ (ب) ہمیں ابدیت کو سامنے رکھتے ہوئے کیوں زندہ رہنا چاہئے؟
۱۹ درست ہے کہ یہ نظام پہلے ہی بہتیروں کی توقعات سے زیادہ عرصے سے قائم رہا ہے۔ بعض شاید یہ محسوس کریں کہ وہ پہلے ہی سے یہ جانتے تھے لہٰذا اُنہوں نے بعض قربانیاں نہیں دیں۔ مگر کسی شخص کو ایسا کرنے کے باعث پشیمان نہیں ہونا چاہئے۔ بہرحال، قربانیاں دینا مسیحی ہونے کا بنیادی حصہ ہے۔ مسیحی ’خودی سے انکار کرتے ہیں۔‘ (متی ۱۶:۲۴) ہمیں یہ کبھی بھی محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ خدا کو خوش کرنے کی ہماری کوششیں بیفائدہ ہیں۔ یسوع نے وعدہ فرمایا: ”ایسا کوئی نہیں جس نے گھر یا بھائیوں یا بہنوں یا ماں یا باپ یا بچوں یا کھیتوں کو میری خاطر یا انجیل کی خاطر چھوڑ دیا ہو اور اب اِس زمانہ میں سو گنا نہ پائے . . . اور آنے والے عالم میں ہمیشہ کی زندگی۔“ (مرقس ۱۰:۲۹، ۳۰) آج سے ہزار سال بعد، آپکا گھر، کام یا بنک اکاؤنٹ کتنا اہم ہو گا؟ تاہم، جو قربانیاں آپ نے یہوواہ کیلئے دی ہیں وہ آج سے ملین سالوں بعد—بلین سالوں بعد بھی پُرمطلب ہونگی! ”اِسلئے کہ خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام . . . کو بھول جائے۔“—عبرانیوں ۶:۱۰۔
۲۰ پس، آئیے پھر ابدیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے زندہ رہیں، اپنی نظروں کو ”دیکھی ہوئی چیزوں پر نہیں بلکہ اندیکھی چیزوں پر“ لگائے رکھیں، ”کیونکہ دیکھی ہوئی چیزیں چند روزہ ہیں مگر اندیکھی چیزیں ابدی ہیں۔“ (۲-کرنتھیوں ۴:۱۸) حبقوق نبی نے لکھا: ”کیونکہ یہ رویا ایک مقررہ وقت کے لئے ہے۔ یہ جلد وقوع میں آئیگی اور خطا نہ کریگی۔ اگرچہ اِس میں دیر ہو تَوبھی اِس کا منتظر رہ کیونکہ یہ یقیناً وقوع میں آئیگی۔ تاخیر نہ کریگی۔“ (حبقوق ۲:۳) خاتمے کا ’منتظر رہنا‘ ہماری خاندانی اور ذاتی ذمہداریوں کے سلسلے میں کس طرح اثرانداز ہوتا ہے؟ ہمارا اگلا مضمون اِن سوالوں پر باتچیت کرے گا۔
اعادے کے نکات
◻اِس نظامالعمل کے خاتمے کی ظاہری تاخیر سے بعض آجکل کیسے متاثر ہوئے ہیں؟
◻ہمیشہ کی زندگی کی ہماری اُمید کی بنیاد کیا ہے؟
◻ہمیں اُن قربانیوں کی بابت کیا نظریہ رکھنا چاہئے جو ہم نے بادشاہی مفادات کی خاطر کی ہیں؟
[صفحہ 10 پر تصویر]
خاتمہ آنے سے قبل منادی کا عالمگیر کام تکمیل کو پہنچ جانا چاہئے