یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کو سنتا ہے
”[یہوواہ] کی نگاہ صادقوں پر ہے۔ اور اُس کے کان اُن کی فریاد پر لگے رہتے ہیں۔“—زبور ۳۴:۱۵۔
۱، ۲. (ا) آجکل بہتیرے لوگوں کو کس چیز کا سامنا ہے؟ (ب) مسیحیوں کے طور پر ہم مصیبتوں کی وجہ سے حیران کیوں نہیں ہوتے؟
کیا آپ مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں؟ آپ اکیلے اِن کا سامنا نہیں کر رہے۔ اِس شریر دُنیا میں لاکھوں لوگ روزمرّہ زندگی کے دباؤ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ بعض لوگوں کے لئے اِن تکلیفوں کو برداشت کرنا آسان نہیں ہے۔ وہ زبورنویس داؤد کی طرح محسوس کرتے ہیں جس نے لکھا: ”مَیں نحیف اور نہایت کچلا ہوا ہوں اور دل کی بےچینی کے سبب سے کراہتا رہا۔ میرا دل دھڑکتا ہے۔ میری طاقت گھٹی جاتی ہے میری آنکھوں کی روشنی بھی مجھ سے جاتی رہی۔“—زبور ۳۸:۸، ۱۰۔
۲ مسیحیوں کے طور پر ہم مصیبتوں کی وجہ سے حیران نہیں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بائبل کی پیشینگوئیوں کے مطابق ’مصیبتیں‘ یسوع کی موجودگی کا نشان ہیں۔ (مر ۱۳:۸؛ متی ۲۴:۳) جس یونانی لفظ کا ترجمہ ’مصیبتیں‘ کِیا گیا ہے یہ ایسے شدید درد کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ایک ماں کو بچے کی پیدائش کے وقت سہنا پڑتا ہے۔ واقعی، بائبل اِس ’اخیر زمانہ کے بُرے دنوں‘ میں لوگوں کے دُکھدرد کی شدت کو بالکل دُرست طریقے سے بیان کرتی ہے۔—۲-تیم ۳:۱۔
یہوواہ خدا ہماری مصیبتوں کو جانتا ہے
۳. خدا کے خادم کس بات سے بخوبی واقف ہیں؟
۳ یہوواہ خدا کے خادم اِس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ مصیبتوں سے محفوظ نہیں ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بُرے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ سب انسانوں کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ خدا کے خادموں کو اپنے ”مخالف ابلیس“ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو اُن کے ایمان کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ (۱-پطر ۵:۸) اکثر ہم بھی داؤد کی طرح محسوس کرتے ہیں جس نے کہا: ”ملامت نے میرا دل توڑ دیا۔ مَیں بہت اُداس ہوں اور مَیں اِسی انتظار میں رہا کہ کوئی ترس کھائے پر کوئی نہ تھا اور تسلی دینے والوں کا منتظر رہا پر کوئی نہ ملا۔“—زبور ۶۹:۲۰۔
۴. جب ہم تکلیفوں کا سامنا کرتے ہیں تو کیا چیز ہمیں تسلی دیتی ہے؟
۴ کیا داؤد کے الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نااُمید تھا؟ جی نہیں۔ اِسی زبور میں اُس کے اگلے الفاظ پر غور کریں: ”[یہوواہ] محتاجوں کی سنتا ہے اور اپنے قیدیوں کو حقیر نہیں جانتا۔“ (زبور ۶۹:۳۳) اگر ہم مصیبتوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں تو شاید ہم خود کو قیدی جیسا محسوس کریں۔ شاید ہم سوچیں کہ دوسرے ہماری صورتحال کو نہیں سمجھتے۔ مگر ہم داؤد کی طرح اِس بات سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں کہ یہوواہ ہماری تمام تکلیفوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔—زبور ۳۴:۱۵۔
۵. سلیمان بادشاہ کو کس بات کا یقین تھا؟
۵ داؤد کے بیٹے سلیمان نے یروشلیم میں ہیکل کو مخصوص کرتے وقت اِس حقیقت کو واضح کِیا کہ یہوواہ ہماری تکلیفوں کو جانتا ہے۔ (۲-تواریخ ۶:۲۹-۳۱ کو پڑھیں۔) اُس نے یہوواہ خدا سے التجا کی کہ وہ اُن سب خلوصدل لوگوں کی دُعا سُن لے جو ”اپنے دُکھ اور رنج“ کے باعث اُس کی طرف رُجوع کرتے ہیں۔ خدا نے مصیبتزدہ لوگوں کی دُعاؤں کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا؟ سلیمان نے اپنی دُعا میں اِس اعتماد کا اظہار کِیا کہ خدا نہ صرف اُن کی دُعاؤں کو سنے گا بلکہ اُن کی مدد بھی کرے گا۔ اُس کو اِس بات کا یقین کیوں تھا؟ کیونکہ یہوواہ ”بنیآدم کے دلوں“ کو اچھی طرح جانتا ہے۔
۶. ہم دُکھ اور رنج کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں، اور کیوں؟
۶ سلیمان کی طرح ہم بھی ”اپنے دُکھ اور رنج“ میں دُعا کے ذریعے یہوواہ کے قریب جا سکتے ہیں۔ ہم اِس بات سے تسلی حاصل کرتے ہیں کہ خدا ہمارے دُکھدرد کو سمجھتا اور ہماری فکر رکھتا ہے۔ پطرس رسول نے بھی اِن الفاظ کی تصدیق کی کہ ”اپنی ساری فکر اُس پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فکر ہے۔“ (۱-پطر ۵:۷) یہوواہ جانتا ہے کہ ہمیں کن حالات کا سامنا ہے۔ یسوع مسیح نے اِس بات پر یوں زور دیا: ”کیا پیسے کی دو چڑیاں نہیں بِکتیں؟ اور اُن میں سے ایک بھی تمہارے باپ کی مرضی بغیر زمین پر نہیں گِر سکتی۔ بلکہ تمہارے سر کے بال بھی سب گنے ہوئے ہیں۔ پس ڈرو نہیں۔ تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔“—متی ۱۰:۲۹-۳۱۔
یہوواہ خدا پر بھروسا رکھیں
۷. ہم کس کی مدد پر بھروسا رکھ سکتے ہیں؟
۷ جب ہمیں مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے تو ہم بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری مدد کرے گا اور وہ ایسا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”خدا ہماری پناہ اور قوت ہے۔ مصیبت میں مستعد مددگار۔“ (زبور ۳۴: ۱۵-۱۸؛ ۴۶:۱) لیکن خدا ہمیں مدد کیسے فراہم کرتا ہے؟ غور کریں کہ پہلا کرنتھیوں ۱۰:۱۳ بیان کرتی ہے: ”خدا سچا ہے۔ وہ تُم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمایش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دے گا تاکہ تُم برداشت کر سکو۔“ یہوواہ خدا ہماری مشکلات کو حل کر سکتا اور اِنہیں برداشت کرنے کے لئے ہمیں طاقت بھی فراہم کر سکتا ہے۔ خواہ ہمیں کسی بھی صورتحال کا سامنا ہو یہوواہ ہماری مدد کرے گا۔
۸. ہم خدا کی طرف سے فراہم کی جانے والی مدد سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟
۸ ہم خدا کی مدد سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟ اِس نصیحت پر غور کریں: ”اپنی ساری فکر اُسی پر ڈال دو۔“ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی تمام فکریں اور پریشانیاں یہوواہ پر ڈال سکتے ہیں۔ پس، پریشان ہونے کی بجائے ہمیں اپنی تمام ضرورتوں کے لئے یہوواہ پر بھروسا رکھنا چاہئے۔ (متی ۶:۲۵-۳۲) خدا پر بھروسا رکھنے میں یہ بات شامل ہے کہ ہم اپنی طاقت اور سمجھ پر آس لگانے کی بجائے فروتنی ظاہر کریں۔ ”خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے“ فروتنی سے رہنے سے ہم اُس کی بلندوبالا ہستی کو تسلیم کرتے ہیں۔ (۱-پطرس ۵:۶ کو پڑھیں۔) اِس طرح ہمیں اُن تمام مشکلات کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے جن کو خدا ہونے دیتا ہے۔ اگرچہ ہم تکلیفوں سے جلد چھٹکارا پانے کے خواہشمند ہیں توبھی ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہوواہ مناسب وقت پر اور دُرست طریقے سے ہماری مدد کرے گا۔—زبور ۵۴:۷؛ یسع ۴۱:۱۰۔
۹. داؤد نے کن مشکلات کے دوران یہوواہ پر بھروسا رکھا؟
۹ زبور ۵۵:۲۲ میں درج داؤد کے اِن الفاظ پر غور کریں: ”اپنا بوجھ خداوند پر ڈالدے۔ وہ تجھے سنبھالے گا۔ وہ صادق کو کبھی جنبش نہ کھانے دے گا۔“ جس وقت داؤد نے اِن الفاظ کو تحریر کِیا وہ بہت افسردہ تھا۔ (زبور ۵۵:۴) یہ زبور اُس وقت لکھا گیا تھا جب داؤد کے بیٹے ابیسلوم نے اُس سے حکومت چھیننے کی سازش کی اور داؤد کا سب سے قابلِبھروسا مشیر اخیتفل بھی اِس سازش میں شامل ہو گیا۔ داؤد کو اپنی جان بچانے کے لئے یروشلیم سے بھاگنا پڑا۔ (۲-سمو ۱۵:۱۲-۱۴) ایسے مشکل حالات میں داؤد نے خدا پر بھروسا رکھا اور وہ مایوس نہیں ہوا۔
۱۰. مشکلات کا سامنا کرتے وقت ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
۱۰ خواہ ہمیں کسی بھی مشکل کا سامنا کیوں نہ ہو ہم داؤد کی طرح دُعا کے ذریعے یہوواہ کے قریب جا سکتے ہیں۔ آئیے غور کریں کہ اِس سلسلے میں پولس رسول نے ہمیں کیا کرنے کی نصیحت کی۔ (فلپیوں ۴:۶، ۷ کو پڑھیں۔) دل کی گہرائیوں سے کی جانے والی دُعا کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ”خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے [ہمارے] دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھے گا۔“
۱۱. ”خدا کا اطمینان“ ہمارے دلوں اور خیالوں کی حفاظت کیسے کرتا ہے؟
۱۱ کیا دُعا کرنے سے آپ کی صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ ایسا ممکن ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب ہمیشہ ہماری توقع کے مطابق نہیں دیتا۔ تاہم، دُعا ہمیں اپنے خیالات اور جذبات کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ اِس طرح مشکلات ہم پر غالب نہیں آئیں گی۔ جب ہم پریشانیوں کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں تو ”خدا کا اطمینان“ ہمیں تسلی دے سکتا ہے۔ جس طرح سپاہی کسی شہر کو دُشمن کے حملے سے محفوظ رکھتے ہیں اُسی طرح ”خدا کا اطمینان“ ہمارے دلوں اور خیالوں کی حفاظت کرے گا۔ ”خدا کا اطمینان“ ہمیں شک، خوف اور منفی خیالات پر قابو پانے میں مدد دے گا اور ہمیں جلدبازی سے کام لینے اور غیردانشمندانہ قدم اُٹھانے سے بھی روکے گا۔—زبور ۱۴۵:۱۸۔
۱۲. مثال دے کر واضح کریں کہ کوئی شخص ذہنی سکون کیسے حاصل کر سکتا ہے۔
۱۲ پریشانیوں کے باوجود ہم ذہنی سکون کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ ایک مثال پر غور کریں۔ ایک ملازم ایک بدزبان مینیجر کے تحت کام کرتا ہے۔ لیکن ملازم کو کمپنی کے مالک کے سامنے اپنے احساسات کا اظہار کرنے کی آزادی حاصل ہے جوکہ ایک مہربان اور نیک آدمی ہے۔ مالک، ملازم کے مسائل کو سمجھتا ہے اور اُسے یقین دلاتا ہے کہ جلد ہی مینیجر کو اُس کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ اِس بات کو سننے کے بعد ملازم کیسا محسوس کرے گا؟ یہ جان کر ملازم کو اپنی ملازمت جاری رکھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اِس کے علاوہ اِس دوران اگر اُسے کچھ اَور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اُن سے بھی نپٹنے کے قابل ہوگا۔ اِسی طرح ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے حالات سے واقف ہے اور وہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ جلد ہی ”دُنیا کا سردار نکال دیا جائے گا۔“ (یوح ۱۲:۳۱) یہ ہمارے لئے کس قدر تسلیبخش بات ہے!
۱۳. دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اَور کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
۱۳ کیا دُعا میں یہوواہ کو اپنے مسائل بتانا کافی ہے؟ جینہیں۔ ہمیں اپنی دُعا کے مطابق عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب ساؤل بادشاہ نے داؤد کو قتل کرنے کے لئے اُس کے گھر آدمی بھیجے تو داؤد نے یوں دُعا کی: ”اَے میرے خدا! مجھے میرے دُشمنوں سے چھڑا۔ مجھے میرے خلاف اُٹھنے والوں پر سرفراز کر۔ مجھے بدکرداروں سے چھڑا اور خونخوار آدمیوں سے مجھے بچا۔“ (زبور ۵۹:۱، ۲) دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ داؤد نے اپنی بیوی کی بات سنی اور اپنی جان بچانے کے لئے ضروری قدم اُٹھایا۔ (۱-سمو ۱۹:۱۱، ۱۲) اِسی طرح، ہم بھی صورتحال سے نپٹنے کے لئے حکمت کے لئے دُعا کر سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ہمارے حالات میں بہتری آ جائے۔—یعقو ۱:۵۔
کونسی باتیں مشکلات سے نپٹنے میں ہماری مدد کریں گی؟
۱۴. مشکلات سہتے وقت یہوواہ کے وفادار رہنے سے ہم کیا ثابت کرتے ہیں؟
۱۴ شاید ہماری مشکلات فوراً ختم نہ ہوں۔ اگر ایسا ہے تو کونسی باتیں مشکلات سے نپٹنے میں ہماری مدد کریں گی؟ سب سے پہلے یہ بات یاد رکھیں کہ اگر ہم مشکلات کے باوجود یہوواہ خدا کی خدمت جاری رکھتے ہیں تو ہم اُس کے لئے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں۔ (اعما ۱۴:۲۲) ایوب کے سلسلے میں شیطان کے الزام کو ذہن میں رکھیں: ”کیا اؔیوب یوں ہی خدا سے ڈرتا ہے؟ کیا تُو نے اُس کے اور اُس کے گھر کے گِرد اور جو کچھ اُس کا ہے اُس سب کے گِرد چاروں طرف باڑ نہیں بنائی ہے؟ تُو نے اُس کے ہاتھ کے کام میں برکت بخشی ہے اور اُس کے گلّے مُلک میں بڑھ گئے ہیں۔ پر تُو ذرا اپنا ہاتھ بڑھا کر جو کچھ اُس کا ہے اُسے چُھو ہی دے تو کیا وہ تیرے مُنہ پر تیری تکفیر نہ کرے گا؟“ (ایو ۱:۹-۱۱) ایوب کی راستی سے یہ ثابت ہو گیا کہ شیطان کا الزام سراسر جھوٹا تھا۔ مشکلات سہتے وقت یہوواہ کے وفادار رہنے سے ہم بھی شیطان کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں اور ہماری اُمید اور یہوواہ پر ہمارا بھروسا مضبوط ہو جاتا ہے۔—یعقو ۱:۴۔
۱۵. کونسے تجربات ہمارے لئے حوصلہافزا ہو سکتے ہیں؟
۱۵ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے بہنبھائی بھی ”ایسے ہی دُکھ اٹھا رہے ہیں۔“ (۱-پطر ۵:۹) جیہاں، آپ ”کسی ایسی آزمایش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو۔“ (۱-کر ۱۰:۱۳) آپ اپنی مشکلات میں اُلجھے رہنے کی بجائے دوسروں کی مثالوں پر غور کرنے سے تقویت اور حوصلہافزائی پا سکتے ہیں۔ (۱-تھس ۱:۵-۷؛ عبر ۱۲:۱) ایسے بہنبھائیوں کی مثالوں پر غور کرنے کے لئے وقت نکالیں جن کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ وہ تکلیفدہ حالات سے گزرتے وقت یہوواہ خدا کے وفادار رہے ہیں۔ کیا آپ نے ہمارے رسالوں میں شائع ہونے والے ایسے بہنبھائیوں کے تجربات کو پڑھا ہے جنہوں نے آپ جیسے حالات کا سامنا کِیا ہے؟ یقیناً یہ تجربات آپ کے لئے بہت حوصلہافزا ہوں گے۔
۱۶. مصیبتوں کا سامنا کرتے وقت خدا ہمیں تسلی کیسے فراہم کرتا ہے؟
۱۶ تیسری بات یہ ہے کہ یہوواہ ”رحمتوں کا باپ اور ہر طرح کی تسلی کا خدا ہے۔ وہ ہماری سب مصیبتوں میں ہم کو تسلی دیتا ہے تاکہ ہم اُس تسلی کے سبب سے جو خدا ہمیں بخشتا ہے اُن کو بھی تسلی دے سکیں جو کسی طرح کی مصیبت میں ہیں۔“ (۲-کر ۱:۳، ۴) خدا نہ صرف ہماری موجودہ مصیبتوں میں ہمارے ساتھ ہے بلکہ وہ ”ہماری سب مصیبتوں میں“ ہمیں قوت اور دلیری فراہم کرتا ہے۔ پس ہم دوسروں کو ’ہر طرح کی مصیبت میں‘ تسلی دینے کے قابل بن جاتے ہیں۔ پولس نے بھی ذاتی طور پر اِن الفاظ کی صداقت کا تجربہ کِیا۔—۲-کر ۴:۸، ۹؛ ۱۱:۲۳-۲۷۔
۱۷. بائبل زندگی کی تلخیوں کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟
۱۷ چوتھی بات: یاد رکھیں کہ ہمارے پاس خدا کا کلام بائبل موجود ہے جو کہ ”تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہمند بھی ہے۔ تاکہ مردِخدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔“ (۲-تیم ۳:۱۶، ۱۷) خدا کا کلام ہمیں ”ہر . . . نیک کام کرنے“ کے لائق ہی نہیں بناتا بلکہ یہ ہمیں زندگی کی تلخیوں کو برداشت کرنے کے قابل بھی بناتا ہے۔ جیہاں، خدا کا کلام ہمیں ”کامل“ بناتا اور ”بالکل تیار“ کرتا ہے۔ اِس صحیفے میں جس لفظ کا ترجمہ ”بالکل تیار“ سے کِیا گیا ہے یونانی زبان میں اِس کا مطلب ”مکمل طور پر لیس“ ہونا ہے۔ قدیم زمانے میں یہ لفظ ایک ایسی کشتی کے لئے استعمال کِیا جاتا تھا جو ہر ضروری چیز سے لیس اور بحری سفر کے لئے بالکل تیار ہوتی تھی۔ یہ ایک ایسی مشین کے لئے بھی استعمال کِیا جاتا تھا جو ہر وہ کام کر سکتی تھی جس کے لئے اُسے بنایا گیا تھا۔ اِسی طرح خدا کا کلام ہمیں مشکلات سے نپٹنے کے لئے مکمل طور پر تیار کر سکتا ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ”اگر خدا مجھ پر آزمائش آنے دیتا ہے تو اُس کی مدد سے مَیں اِسے برداشت کر سکتا ہوں۔“
تمام مصیبتوں سے چھٹکارا
۱۸. کس بات کو یاد رکھنے سے ہم مصیبتوں کا سامنا کر سکتے ہیں؟
۱۸ پانچویں بات یہ ہے کہ ہم اِس حقیقت کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا بہت جلد انسانوں کو اُن کی تمام مصیبتوں سے چھٹکارا دلائے گا۔ (زبور ۳۴:۱۹؛ ۳۷:۹-۱۱؛ ۲-پطر ۲:۹) اِس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا ہمیں محض موجودہ مصیبتوں سے چھٹکارا دلائے گا بلکہ وہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع بھی دے گا خواہ یہ یسوع کے ساتھ آسمان پر ہو یا زمین پر فردوس میں۔
۱۹. ہم مصیبتوں کا سامنا کرتے وقت خدا کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟
۱۹ جب تک ہمیں مصیبتوں سے چھٹکارا نہیں مل جاتا ہمیں اِس بدکار دُنیا میں مشکل حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہم اُس وقت کے کتنے منتظر ہیں جب مصیبتیں باقی نہ رہیں گی! (زبور ۵۵:۶-۸) یاد رکھیں کہ جب ہم مصیبتوں کا سامنا کرتے وقت خدا کے وفادار رہتے ہیں تو ہم شیطان کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔ لہٰذا، ہم دُعا کرنے اور اپنے اُن بہنبھائیوں کو یاد رکھنے سے تقویت پا سکتے ہیں جو ہم جیسی مشکلات کا تجربہ کر رہے ہیں۔ خدا کے کلام کو مہارت سے اور مؤثر طریقے سے استعمال کرتے رہیں۔ ہمیشہ اِس بات پر بھروسا رکھیں کہ ”ہر طرح کی تسلی“ کے خدا کو آپ کی فکر ہے اور وہ آپ سے محبت رکھتا ہے۔ پس یاد رکھیں کہ ”[یہوواہ] کی نگاہ صادقوں پر ہے۔ اور اُس کے کان اُن کی فریاد پر لگے رہتے ہیں۔“—زبور ۳۴:۱۵۔
کیا آپ جواب دے سکتے ہیں؟
• داؤد نے اُن مشکلات کی بابت کیسا محسوس کِیا جن کا اُسے سامنا تھا؟
• سلیمان بادشاہ کو کس بات کا یقین تھا؟
• کونسی باتیں ہمیں اُن مشکلات کا مقابلہ کرنے میں مدد دے سکتی ہیں جو یہوواہ ہم پر آنے دیتا ہے؟
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
سلیمان کو یقین تھا کہ یہوواہ خدا مصیبتزدہ لوگوں کی دُعائیں سنے گا
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
داؤد نے دُعا میں اپنا بوجھ یہوواہ خدا پر ڈالا دیا اور اپنی دُعا کے مطابق عمل بھی کِیا