”نور کے فرزندوں کی طرح چلو“
”نئی انسانیت کو پہنو جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔“—افسیوں ۴:۲۴۔
۱. یہوواہ کے خادموں کو کیا برکت ملی ہے؟ کیوں؟
یہوواہ خدا ”نوروں کا باپ“ ہے، اور ”اس میں ذرا بھی تاریکی نہیں۔“ (یعقوب ۱:۱۷، ۱-یوحنا ۱:۵) اسکے بیٹے، یسوع مسیح، نے اپنی بابت کہا: ”دنیا کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی کریگا وہ اندھیرے میں نہ چلیگا بلکہ زندگی کا نور پائیگا۔“ (یوحنا ۸:۱۲) یہوواہ کے سچے پرستاروں، اسکے بیٹے کے پیروکاروں کو روشنخیالی—ذہنی، اخلاقی، اور روحانی—سے نوازا گیا ہے اور وہ ”دنیا میں چراغوں کی طرح دکھائی دیتے“ ہیں۔—فلپیوں ۲:۱۵۔
۲. خدا کے لوگوں اور دنیا میں کس تضاد کی پیشینگوئی کی گئی تھی؟
۲ بہت عرصہ پہلے، اس تضاد کی پیشینگوئی کرنے کیلئے یسعیاہ نبی کو الہام دیا گیا تھا: ”کیونکہ دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائیگی اور تیرگی امتوں پر لیکن خداوند تجھ پر طالع ہوگا اور اسکا جلال تجھ پر نمایاں ہوگا۔“ درحقیقت، خدا سے جدا تمام انسانیت کو ”اس دنیا کی تاریکی کے حاکموں“ کے اختیار اور اثرورسوخ کے تحت بتایا گیا ہے۔—یسعیاہ ۶۰:۲، افسیوں ۶:۱۲۔
۳. کن وجوہات کی بنا پر ہم پولس کی بروقت مشورت میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں؟
۳ پولس رسول گہری فکر رکھتا تھا کہ اسکے ساتھی مسیحی ایسی تاریکی سے آزاد رہیں۔ اس نے تلقین کی کہ ”جس طرح غیرقومیں اپنے بیہودہ خیالات کے موافق چلتی ہیں [وہ] آیندہ کو اس طرح نہ [چلیں]“ بلکہ وہ ”نور کے فرزندوں کی طرح [چلیں]۔“ (افسیوں ۴:۱۷، ۵:۸) اس نے یہ بھی وضاحت کی کہ وہ ایسا کرنے کیلئے کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ آجکل، قوموں پر چھائی ہوئی تاریکی اور تیرگی زیادہ گہری ہو گئی ہے۔ دنیا اخلاقی اور روحانی دیوالیہپن کی دلدل میں بہت گہری دھنس گئی ہے۔ یہوواہ کے پرستاروں کو ایک بڑھتی ہوئی خوفناک لڑائی لڑنا ہے۔ اسلئے، جو کچھ پولس نے کہنا تھا ہم اس میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
مسیح کی بابت سیکھیں
۴. پولس کے ذہن میں کیا تھا جب اس نے کہا: ”تم نے مسیح کی ایسی تعلیم نہیں پائی“؟
۴ دنیا کے گندے کاموں اور غیرنفعبخش حاصلات کو بیان کرنے کے بعد، پولس رسول نے پھر اپنی توجہ افسس میں اپنے ساتھی مسیحیوں پر مبذول کی۔ (مہربانی سے افسیوں ۴:۲۰، ۲۱ کو پڑھیں۔) پولس اس شہر میں منادی کرنے اور تعلیم دینے میں تقریباً تین سال صرف کر چکا تھا، اور ضرور ہے کہ وہ کلیسیا میں بہتیروں سے ذاتی طور پر واقف ہو گیا ہوگا۔ (اعمال ۲۰:۳۱-۳۵) پس جب اس نے کہا، ”تم نے مسیح کی ایسی تعلیم نہیں پائی،“ وہ اپنے ذاتی علم کا اظہار کر رہا تھا کہ افسی مسیحیوں کو کوئی اباحتی طریقہ، سچائی کے بیان کو نرم کرکے نہیں سکھایا گیا تھا جس نے اس سنگین بداخلاقی کی اقسام کو نظرانداز کیا ہو جسے وہ ۱۷ تا ۱۹ آیات میں بیان کر چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انہیں حقیقی مسیحی طرززندگی مناسب طور پر اور صحیح طور پر سکھائی جا چکی تھی جسکی مثال یسوع مسیح نے قائم کی۔ اس وجہ سے، اب وہ غیرقوموں کی طرح تاریکی میں نہیں چلتے تھے، بلکہ وہ نور کے فرزند تھے۔
۵. سچائی میں سطحی طور پر ہونے اور اپنے اندر سچائی رکھنے میں کیا فرق ہے؟
۵ پس پھر صحیح طریقے سے ”مسیح کی تعلیم پانا“ کتنا اہم ہے؟ کیا مسیح کی تعلیم پانے کے غلط طریقے بھی ہیں؟ بیشک ہیں۔ پہلے ہی، افسیوں ۴:۱۴ میں پولس بھائیوں کو متنبہ کر چکا تھا: ”ہم آگے کو بچے نہ رہیں اور آدمیوں کی بازیگری اور مکاری کے سبب سے انکے گمراہ کرنے والے منصوبوں کی طرح ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اچھلتے بہتے نہ پھریں۔“ ظاہری طور پر بعض ایسے تھے جو مسیح کی تعلیم پا چکے تھے لیکن وہ ابھی تک دنیا کی راہوں پر چلتے تھے اور انہوں نے ایسا کرنے کیلئے دوسروں کو ترغیب دینے کی بھی کوشش کی تھی۔ کیا یہ اپنے اندر سچائی رکھنے کے برعکس، محض سچائی میں ہونے کے خطرے کو ہم پر ظاہر کرتا ہے، جیسے کہ بعض اس اظہار کو استعمال کرتے ہیں؟ پولس کے زمانے میں جو صرف سطحی سمجھ رکھتے تھے وہ بآسانی اور جلدی سے دوسروں سے متاثر ہو جاتے تھے، اور آجکل بھی یہ اسی طرح سے ہے۔ اس سے باز رکھنے کیلئے، پولس نے اس بات کا اضافہ کیا کہ افسیوں کو ”مسیح کی سننے اور یسوع کے وسیلے سے تعلیم پانے“ کی ضرورت تھی۔—افسیوں ۴:۲۱۔
۶. ہم آجکل مسیح کے ذریعے کیسے سیکھ، سن، اور تعلیم پا سکتے ہیں؟
۶ [”سیکھنا،“ NW] ”سننا،“ اور ”تعلیم پانا“ کی اصطلاحیں، جنہیں پولس نے استعمال کیا، سب مطالعے اور ہدایت کے عمل کا مفہوم دیتی ہیں، جیسے کہ سکول میں ہوتا ہے۔ بیشک، ہم آجکل یسوع سے براہراست سن، سیکھ، یا تعلیم نہیں پا سکتے۔ لیکن وہ اپنے ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے ذریعے بائبل تعلیم دینے کی عالمگیر مہم چلا رہا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷، ۲۸:۱۹، ۲۰) اگر ہم نوکر جماعت کے ذریعے بروقت فراہمکردہ روحانی خوراک کو باقاعدگی سے حاصل کرتے، ذاتی طور پر یا کلیسیا میں مستعدی سے اسکا مطالعہ کرتے، اس پر غوروفکر کرتے ہیں، اور جو ہم سیکھتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں تو ہم مناسب طور پر اور صحیح طور پر ”مسیح کی تعلیم پا“ سکتے ہیں۔ آئیں ہم یقین کر لیں کہ ہم تمام فراہمیوں کو پوری طرح استعمال کرتے ہیں تاکہ ہم حقگوئی سے کہہ سکیں کہ ہم نے ”اسی کی سنی اور اس میں یہ تعلیم پائی“ ہے۔
۷. پولس کے ان الفاظ سے کہ ”سچائی ... جو یسوع میں ہے،“ کیا مفہوم نظر آ سکتا ہے؟
۷ یہ دلچسپی کی بات ہے کہ افسیوں ۴:۲۱ میں سیکھنے کے عمل پر زور دینے کے بعد، پولس نے اضافہ کیا: ”اس سچائی کے مطابق جو یسوع میں ہے۔“ بعض بائبل مبصرین اس حقیقت پر توجہ دلاتے ہیں کہ پولس نے اپنی تحریروں میں بذاتخود ذاتی نام یسوع کا استعمال شاذونادر ہی کیا ہے۔ بیشک، افسیوں کے نام خط میں ایسے طریقہءاستعمال میں سے یہی واحد مثل ہے۔ کیا اسکی کوئی خاص اہمیت ہے؟ شاید پولس اس نمونے پر توجہ مبذول کرا رہا تھا جو یسوع نے بطور انسان قائم کیا۔ یاد کریں یسوع نے ایک مرتبہ اپنی بابت کہا تھا: ”راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔“ (یوحنا ۱۴:۶، کلسیوں ۲:۳) یسوع نے کہا: ”حق ... میں ہوں“ اسلئے کہ اس نے نہ صرف اسکی بابت کلام کیا اور اسکی تعلیم دی بلکہ اسکے مطابق زندگی گزاری اور اسکو مجسم بنا دیا۔ جیہاں، سچی مسیحیت محض خیال نہیں بلکہ ایک طرززندگی ہے۔ ”مسیح کی تعلیم“ پانے میں سچائی کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے اسکی نقل کرنا شامل ہے۔ کیا آپ یسوع کے نمونے کے مطابق اپنی زندگی بناتے ہیں؟ کیا آپ روزانہ پوری طرح سے اسکے قدموں پر چلتے ہیں؟ ایسا کرنے ہی سے ہم نور کے فرزندوں کی طرح چل سکتے ہیں۔
”پرانی انسانیت کو اتار ڈالو“
۸. افسیوں ۴:۲۲، ۲۴ میں پولس نے کیا تمثیل استعمال کی، اور یہ کیوں موزوں ہے؟
۸ یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ کیسے ہم کامیابی کیساتھ ”مسیح کی تعلیم“ پا سکتے اور نور کے فرزندوں کی طرح کیسے چل سکتے ہیں، پولس نے افسیوں ۴:۲۲-۲۴ میں مزید کہا کہ ضرور ہے کہ ہم تین قطعی اقدام کی پیروی کریں۔ ان میں سے پہلا ہے: ”تم اپنے اگلے چالچلن کی اس پرانی انسانیت کو اتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔“ (افسیوں ۴:۲۲) اصطلاحیں ”اتار ڈالو“ (”اتار پھینکو،“ کنگڈم انٹرلینئیر) اور ”پہنو“ (آیت ۲۴) لباس پہننے اور اتارنے کے ذہنی تصور کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ایک استعارہ ہے جسے پولس نے اکثر استعمال کیا، اور یہ ہے بھی موثر۔ (رومیوں ۱۳:۱۲، ۱۴، افسیوں ۶:۱۱-۱۷، کلسیوں ۳:۸-۱۲، ۱-تھسلنیکیوں ۵:۸) جب ہمارا لباس گندا ہو جاتا یا اس پر داغ دھبے لگ جاتے ہیں، جیسے کہ کھانا کھاتے وقت، تو ہم پہلی ہی فرصت میں اسے تبدیل کرتے ہیں۔ کیا ہم کو اپنی روحانی حالت کے کسی داغ دھبے کی بابت برابر کے فکرمند نہیں ہونا چاہیے؟
۹. کس طریقے سے کوئی پرانی انسانیت کو اتار ڈالتا ہے؟
۹ پس کوئی کیسے پرانی انسانیت کو اتار ڈالتا ہے؟ فعل ”اتار ڈالنا“ کو اصل زبان میں توضحیی فعل کہا گیا ہے۔ یہ ایک کام کو ظاہر کرتا ہے جسے صرف ایک بار یا آخری مرتبہ کیا گیا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ضرور ہے کہ ”پرانی انسانیت“ (”پرانا انسان،“ کنگڈم انٹرلینیئر)، بشمول ہمارے ”پچھلے چالچلن“ کو ایک قطعی اور فیصلہکن کارروائی کیساتھ، پورے اور مکمل طور پر اتار ڈالیں۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بابت ہم سوچسمجھ کر کامیابی کیساتھ قدم اٹھا سکتے ہیں یا تذبذب میں رہ سکتے ہیں۔ کیوں نہیں؟
۱۰. کیوں کسی کو پرانی انسانیت کو اتار ڈالنے کیلئے قطعی اور اٹل ہونا چاہیے؟
۱۰ ”خراب ہوتی جاتی ہے“ کی اصطلاح ظاہر کرتی ہے کہ ”پرانا انسان“ اخلاقی تنزلی کی مسلسل اور بتدریج روش پر ہے، بد سے بدتر ہوتے جانے کی روش پر ہے۔ حقیقت میں، روحانی روشنخیالی کو رد کرنے کی وجہ سے، تمام نوعانسانی تنزلی کے بھنور میں ہے۔ پولس نے کہا یہ ”فریب کی شہوتوں“ کا نتیجہ ہے۔ جسمانی خواہشات فریب میں ڈال دیتی ہیں کیونکہ وہ بےضرر دکھائی دے سکتی ہیں، لیکن انجامکار وہ تباہکن ہوتی ہیں۔ (عبرانیوں ۳:۱۳) اگر ان پر قابو نہ رکھا جائے تو انجام آلودگی اور موت ہوگا۔ (رومیوں ۶:۲۱، ۸:۱۳) اسلئے ضرور ہے کہ پرانی انسانیت کو قطعی اور مکمل طور پر اتار ڈالا، اتار پھینکا جائے، جس طریقے سے ایک پرانے، گندے لباس کو اتار دیا جاتا ہے۔
ایک نئی ”ذہن کی روح“
۱۱. روحانی تجدید کہاں شروع ہونی چاہیے؟
۱۱ ایک شخص جو کیچڑ والے گدلے پانی میں گر کر اٹھتا ہے اسے نہ صرف اپنے گندے کپڑے اتارنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ نئے اور صاف کپڑے پہننے سے پہلے اسے اچھی طرح سے غسل کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پولس نے روحانی روشنخیالی کیلئے دوسرے قدم کیلئے بالکل یہی خاکہکشی کی ہے: ”اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے بنتے جاؤ۔“ (افسیوں ۴:۲۳) جیسے اس نے ۱۷ اور ۱۸ آیات میں پہلے نشاندہی کی کہ غیرقومیں ”اپنے ذہن کی بیہودگی“ میں چلتی ہیں۔ اور ”ذہنی طور پر تاریکی“ میں ہیں۔ منطقی طور پر، ذہن جو سمجھ اور ادراک کا مرکز ہے، یہاں پر ہی تجدید کا آغاز ہونا چاہیے۔ یہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ پولس نے وضاحت کی کہ یہ اس قوت کو نیا بنانے کے ذریعے سے ہے جو ہمارے ذہن کو تحریک دیتی ہے۔ وہ قوت کیا ہے؟
۱۲. ذہن کو تحریک دینے والی قوت کیا ہے؟
۱۲ ہمارے ذہن کو تحریک دینے والی قوت، جسکا حوالہ پولس نے دیا، کیا وہ روحالقدس ہے؟ نہیں۔ [”آپکے ذہن کو تحریک دینے والی قوت،“ NW] کے اظہار کو لفظی طور پر یوں پڑھا جاتا ہے ”آپکے ذہن کی روح۔“ بائبل میں خدا کی روح کا ذکر انسان کی ملکیت یا انسان کے جز کے طور پر کہیں نہیں ہوا۔ بنیادی طور پر لفظ ”روح“ کا مطلب ”سانس“ ہے لیکن اسے بائبل میں ”اس قوت کو نامزد کرنے کیلئے“ بھی استعمال کیا گیا ہے ”جو ایک شخص کیلئے کوئی خاص رویہ، میلان، یا جذبہ دکھانے یا کوئی فعل یا روش اختیار کرنے کا موجب بنتی ہے۔“ (انسائٹ آن دی سکرپچرز، جلد ۲، صفحہ ۱۰۲۶)۔ پس ”ذہن کی روح“ وہ قوت ہے جو ہمارے ذہن، ہماری اپنی ذہنی رغبت اور میلان، کو متحرک کرتی یا اسکو تحریک دیتی ہے۔
۱۳. ہماری ذہنی رغبت کو نیا کیوں بنایا جانا چاہیے؟
۱۳ ناکامل ذہن کا قدرتی میلان اور رغبت طبیعاتی، جسمانی، اور مادہپرستانہ چیزوں کی طرف ہے۔ (واعظ ۷:۲۰، ۱-کرنتھیوں ۲:۱۴، کلسیوں ۱:۲۱، ۲:۱۸) اگرچہ ایک شخص پرانی انسانیت کو اسکے برے کاموں سمیت اتار ڈالتا ہے تو بھی اگر اسکی گنہگارانہ ذہنی رغبت بدلی نہیں تو جلد یا بدیر اسے وہ کام کرنے کیلئے مجبور کرتی ہے جو اس نے چھوڑ دیا۔ مثال کے طور پر کیا یہ ان بہتیروں کا تجربہ نہیں رہا، جنہوں نے تمباکونوشی کرنے، بےاعتدالی سے شراب پینے، یا دوسرے برے کاموں کو چھوڑنے کی کوشش کی ہے؟ اگر انہوں نے اپنے ذہن کو تحریک دینے والی قوت کو نیا بنانے کی کوئی کوشش نہ کی ہوتی تو چھوڑی ہوئی عادت میں پھر مبتلا ہونا تقریباً ناگزیر تھا۔ ضرور ہے کہ کسی بھی حقیقی تبدیلی میں ذہن کو پوری طرح نیا بنانا شامل ہو۔—رومیوں ۱۲:۲۔
۱۴. ذہن کو تحریک دینے والی قوت کو نیا کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
۱۴ تو پھر کوئی کسطرح سے اس قوت کو نیا بناتا ہے تاکہ وہ اسکے ذہن کو صحیح سمت میں رکھے گی؟ یونانی متن میں فعل ”نئے بنتے جاؤ“ فعل حال ہے، جو جاری عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ پس خدا کے کلام کی سچائی کا مسلسل مطالعہ کرنے سے اور اسکا جو مطلب ہے اس پر غوروخوض کرنے سے تحریک دینے والی اس قوت کو نیا بنایا جا سکتا ہے۔ سائنسدان ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے دماغ میں، معلومات برقی پیغامات یا کیمیاوی اشارات کی صورت میں عصبے سے عصبے تک سفر کرتی ہوئی، بہت سے روابط سے گزرتی ہیں جو اتصال کہلاتے ہیں۔ کتاب دی برین کہتی ہے کہ ”جب پیغامات اشارات کے ذریعے گزرتے ہیں تو اپنے پیچھے انفرادی نقش چھوڑتے ہوئے عصبی اتصال پر کسی نہ کسی قسم کی یادداشت کو پیدا کرتے ہیں۔“ جب وہی اشارتی پیغام دوبارہ گزرتے ہیں تو عصبی خلیے اسے پہچان لیتے ہیں اور زیادہ تیزی سے عمل کرتے ہیں۔ وقت آنے پر، یہ اس شخص میں سوچ کے ایک نئے انداز کو پیدا کرتا ہے۔ جب ہم ترقیبخش روحانی معلومات لیتے رہتے ہیں تو سوچنے کا نیا انداز پیدا ہوتا ہے اور یوں ہمارے ذہن کو تحریک دینے والی قوت نئی بنتی جاتی ہے۔—فلپیوں ۴:۸۔
”نئی انسانیت کو پہنو“
۱۵. کس لحاظ سے نئی انسانیت نئی ہے؟
۱۵ آخر میں، پولس کہتا ہے: ”[تم] نئی انسانیت کو پہنو جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور [”وفاداری،“] میں پیدا کی گئی ہے۔“ (افسیوں ۴:۲۴) جیہاں ایک مسیحی نئی انسانیت کو پہنتا ہے۔ لفظ ”نئی“ یہاں پر وقت کا نہیں، بلکہ خوبی کا حوالہ دیتا ہے۔ گویا کہ یہ تازہترین خیال ہونے کے مفہوم میں نئی نہیں ہے۔ یہ مکمل طور پر ”خدا کے مطابق ... پیدا کی گئی“ نئی، نوخیز انسانیت ہے۔ کلسیوں ۳:۱۰ میں پولس نے بھی ویسی ہی زبان استعمال کی اور کہا کہ ”یہ خالق کی صورت پر نئی بنتی جاتی ہے۔“ یہ نئی انسانیت کیسے پیدا ہوتی ہے؟
۱۶. یہ کیوں کہا جا سکتا تھا کہ نئی انسانیت ”خدا کے مطابق ... پیدا کی گئی ہے“؟
۱۶ یہوواہ خدا نے پہلے انسانی جوڑے، آدم اور حوا کو اپنی صورت اور شبیہ پر خلق کیا۔ انہیں اخلاقی اور روحانی صفات عطا کی گئی تھیں جنہوں نے انکو حیوانی تخلیق سے الگ اور بالاتر کر دیا۔ (پیدایش ۱:۲۶، ۲۷) اگرچہ انکی بغاوت نے تمام نوعانسانی کو گناہ اور ناکاملیت میں دھکیل دیا، ہم آدم کی اولاد کے طور پر ابھی تک اخلاقی اور روحانی صفات ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خدا کی مرضی یہ ہے کہ وہ جو فدیے کی قربانی پر ایمان رکھتے ہیں انہیں پرانی انسانیت کو اتار پھینکنا چاہیے اور ”خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی“ سے لطف اٹھانا چاہئے۔—رومیوں ۶:۶، ۸:۱۹-۲۱، گلتیوں ۵:۱، ۲۴۔
۱۷. راستبازی اور وفاداری نئی انسانیت کی امتیازی خصوصیات کیوں ہیں؟
۱۷ حقیقی راستبازی اور وفاداری دو صفات ہیں جنکی پولس نے نئی انسانیت کے خواص کے طور پر نشاندہی کی ہے۔ یہ مزید اس چیز پر زور دیتی ہے کہ نئی انسانیت اس کی صورت کی مانند نئی بنتی جاتی ہے جس نے اسکی تخلیق کی۔ زبور ۱۴۵:۱۷ ہمیں بتاتی ہے: ”خداوند اپنی سب راہوں میں صادق اور اپنے سب کاموں میں [”وفادار، NW] ہے۔“ اور مکاشفہ ۱۶:۵ یہوواہ کی بابت کہتی ہے: ”اے [”وفادار،“ NW] جو ہے اور جو تھا تو عادل ہے۔“ اگر ہم نے خدا کی شبیہ کی مانند تخلیق کئے جانے کے مطابق رہنا، اسکے جلال کو ظاہر کرنا ہے تو راستبازی اور وفاداری واقعی ضروری صفات ہیں۔ دعا ہے کہ ہم بھی یوحنا اصطباغی کے باپ، زکریاہ کی مانند ہوں، جس نے روحالقدس سے تحریک پائی تھی کہ اپنے لوگوں کو [”وفاداری اور راستبازی سے پاک خدمت بےخوفی سے بجا لانے کا شرف،“ NW] عنایت کرنے کیلئے خدا کی حمد کرے۔—لوقا ۱:۷۴، ۷۵۔
”نور کے فرزندوں کی طرح چلو“
۱۸. پولس نے دنیا کی راہوں کو سمجھنے میں ہماری مدد کیسے کی ہے جیسے کہ وہ حقیقت میں ہیں؟
۱۸ افسیوں ۴:۱۷-۲۴ میں پولس کے الفاظ پر تفصیل سے غوروفکر کرنے کے بعد، ہمیں بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ ۱۷ سے ۱۹ آیات میں پولس دنیا کی راہوں کو سمجھنے کیلئے ہماری مدد کرتا ہے جیسے کہ حقیقت میں وہ ہیں۔ خدا کے علم کو رد کرنے اور اسکی طرف اپنے دلوں کو سخت کرنے سے وہ جو ابھی تک دنیا میں ہیں انہوں نے خود کو زندگی کے حقیقی منبع سے الگ کر لیا ہے۔ انجامکار، حقیقی مقصد یا سمت کے بغیر، انکی کاوشیں بیوقوفی اور بیہودگی پر منتج ہوتی ہیں۔ وہ اخلاقی اور روحانی دیوالیہپن میں پہلے سے زیادہ ڈوبتے جا رہے ہیں۔ کیا ہی افسوسناک حالت! اور ہمارے نور کے فرزندوں کی طرح چلنے کی خاطر اٹل ہونے کیلئے کیا ہی پرزور وجہ!
۱۹. نور کے فرزندوں کی طرح چلنے کیلئے ہمارے پاس پولس کی طرف سے کیا حتمی حوصلہافزائی ہے؟
۱۹ اسکے بعد، ۲۰ اور ۲۱ آیات میں پولس دل سے سچائی سیکھنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے تاکہ ہم محض سچائی کیساتھ تعلق نہ رکھیں بلکہ اسکے مطابق زندگی گذاریں جیسے کہ یسوع نے گزاری۔ آخر میں، ۲۲ سے ۲۴ آیات میں وہ ہمیں قطعی طور پر اور عزم مُصمم کیساتھ پرانی انسانیت کو اتار ڈالنے اور نئی کو پہننے کی تلقین کرتا ہے۔ اسی اثنا میں، ہمیں اپنی ذہنی رغبتوں کی راہنمائی ترقیبخش روحانی سمت میں کرتے رہنا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر، جب ہم نور کے فرزندوں کی طرح چلتے ہیں تو ضرور ہے کہ ہم مدد کیلئے یہوواہ پر آس لگائیں۔ ”اسلئے خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکا تاکہ خدا کے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہگر ہو۔“—۲-کرنتھیوں ۴:۶۔ (۱۳ ۳/۱ W۹۳)
کیا آپکو یاد ہے؟
▫ ہم آجکل ”مسیح کی تعلیم“ کیسے پا سکتے ہیں؟
▫ پرانی انسانیت کو قطعی طور پر کیوں اتار دینا چاہیے؟
▫ ذہن کو تحریک دینے والی قوت کونسی ہے، اور یہ کسطرح نئی بنتی جاتی ہے؟
▫ کونسی صفات نئی انسانیت کی شناخت کراتی ہیں؟
[تصویر]
یسوع نے کہا: ”راہ اور حق اور زندگی میں ہوں“
[تصویر]
”پرانی انسانیت کو اسکے کاموں سمیت اتار ڈالو“—غصہ، قہر، بدخواہی، بدگوئی، مُنہ سے گالی بکنا، اور جھوٹ بولنا۔—کلسیوں ۳:۸، ۹
[تصویر]
”نئی انسانیت کو پہنو جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور [”وفاداری،“ NW] میں پیدا کی گئی ہے۔“—افسیوں ۴:۲۴