کیا بائبل بچوں کی پرورش کرنے میں آپکی مدد کر سکتی ہے؟
گلاب کا پھول بہت ہی خوبصورت لگتا ہے۔ لیکن گلاب کا پودا لگانا آسان کام نہیں۔ پہلے تو اسے ایک ایسی جگہ پر لگانا پڑتا ہے جہاں اسے روشنی اور سایہ صحیح مقدار میں مہیا ہو۔ پھر اُسکو خاص مٹی اور کھاد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ اسے گملے میں لگانا چاہتے ہیں تو گملے کو اتنا بڑا ہونا چاہئے کہ پودا اس میں ٹھیک طرح سے اُگ سکے۔ اسکے علاوہ گلاب کے پودوں کو طرح طرح کی بیماریوں اور کیڑےمکوڑوں سے بھی خطرہ رہتا ہے۔ اِن تمام پیچیدگیوں کی وجہ سے گلاب کے پودے کو لگانے کی پہلی کوشش عام طور پر کامیاب نہیں ہوتی۔
بچوں کی پرورش کرنا گلاب کا پودا لگانے سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ اِس کیلئے پوری توجہ دینی پڑتی ہے۔ اِسلئے والدین کو بچوں کی پرورش کرنے کے سلسلے میں اکثر کامیابی نہیں ہوتی۔ جو شخص پہلی مرتبہ گلاب کا پودا لگانے کی کوشش کرتا ہے وہ عموماً کسی ماہر باغبان سے مشورہ لیتا ہے۔ اسی طرح والدین بھی بچوں کی پرورش کے معاملے میں بہترین راہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اُنہیں یہ راہنمائی کہاں سے مل سکتی ہے؟
اگرچہ بائبل بچوں کی پرورش کرنے کے سلسلے میں درسی کتاب تو نہیں ہے توبھی خالق نے بائبل مصنّفین کو بچوں کی پرورش کے بارے میں عمدہ ہدایات شامل کرنے کا الہام بخشا۔ آجکل بچوں کو اچھی تعلیم دلانا بہت ہی اہم خیال کِیا جاتا ہے لیکن بائبل بچوں میں اچھی صفات پیدا کرنے پر بھی زور دیتی ہے۔ (افسیوں ۴:۲۲-۲۴) پس بچوں کی تعلیموتربیت کے سلسلے میں صحیفائی مشورت بہت ضروری ہے۔ اِس کی راہنمائی سے ہر دَور اور ہر تہذیب کے لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ چنانچہ اگر آپ کامیابی سے اپنے بچوں کی پرورش کرنا چاہتے ہیں تو پاک صحائف میں پائی جانے والی راہنمائی پر عمل کریں۔
والدین کا نمونہ—پرورش کا بہترین طریقہ
”پس تُو جو اَوروں کو سکھاتا ہے اپنے آپ کو کیوں نہیں سکھاتا؟ تُو جو وعظ کرتا ہے کہ چوری نہ کرنا آپ خود کیوں چوری کرتا ہے؟ تُو جو کہتا ہے کہ زنا نہ کرنا آپ خود کیوں زنا کرتا ہے؟“—رومیوں ۲:۲۱، ۲۲
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کے تعلیمی بورڈ کے صدر نے کہا: ”بچوں کی پرورش کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ والدین اپنے کام اور کلام سے اُن کیلئے عمدہ نمونہ قائم کریں۔“ اگر والدین اپنے کلام اور چالچلن میں اچھی مثال قائم نہیں کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں سے ایسا کرنے کی توقع رکھتے ہیں تو بچے جلد ہی انکی ریاکاری کو پہچان جائینگے۔ اسطرح والدین کی باتوں کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر والدین چاہتے ہیں کہ اُنکی اولاد ہمیشہ سچ بولے تو اُنہیں خود بھی ہمیشہ سچ بولنا چاہئے۔ اکثر جب والدین اپنے کسی ملنے والے سے بات نہیں کرنا چاہتے یا اُنکا ٹیلیفون سننا نہیں چاہتے تو وہ اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ اُنہیں ”کہہ دیں کہ میرے ابو (یا میری امی) گھر پر نہیں ہیں۔“ شروع میں بچے ماںباپ کی ہدایت پر جھوٹ بولنے کی وجہ سے پریشان اور ذہنی اُلجھن میں پڑ جائینگے۔ لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہو سکتا ہے کہ اُنکے ضمیر کی آواز دب جائے اور وہ خود بھی کسی مشکل سے بچنے کیلئے جھوٹ بولنا شروع کر دیں۔ لہٰذا ایسے والدین جو اپنے بچوں سے ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید کرتے ہیں انکو خود بھی اس اصول پر عمل کرنا چاہئے۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے دوسروں سے اچھی طرح باتچیت کرنا سیکھیں؟ پھر آپکو ایسا کرنے میں اچھی مثال قائم کرنی پڑیگی۔ آپکا بچہ فوراً آپ کی نقل کرتا ہے۔ سنگسیک کے چار بچے ہیں۔ وہ بیان کرتا ہے: ”ہم دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کِیا کہ ہم کوئی بُری بات مُنہ سے نہیں نکالیں گے۔ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کیساتھ احترام سے پیش آتے ہیں۔ یہاں تک کہ پریشانی یا غصے کے عالم میں بھی ہم کبھی اُونچی آواز میں بات نہیں کرتے۔ نصیحت دینے سے بہتر ہے کہ والدین اپنے بچوں کیلئے اچھا نمونہ قائم کریں۔ ہم اس بات سے بہت خوش ہیں کہ ہمارے بچے ہمیشہ تمیز اور ادب سے دوسروں کیساتھ بات کرنا سیکھ گئے ہیں۔“ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”آدمی جوکچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔“ (گلتیوں ۶:۷) جو والدین چاہتے ہیں کہ اُنکی اولاد اعلیٰ اخلاقی معیار رکھے اُنہیں خود ظاہر کرنا چاہئے کہ وہ ایسے معیاروں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔
بچوں کیساتھ باتچیت کا سلسلہ قائم رکھیں
”تُو [خدا کے احکام ] کو اپنی اولاد کے ذہننشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت انکا ذکر کِیا کرنا۔“—استثنا ۶:۷۔
زیادہ دیر تک کام کرنے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ تاہم جب ماں اور باپ دونوں ہی ملازمت کرتے ہوں تو اسکا بچوں پر بہت بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔ بہتیرے والدین روزی کمانے کیلئے گھنٹوں گھر سے باہر رہتے ہیں۔ شام کو واپس لوٹ کر انہیں گھر کے کام سمیٹنے پڑتے ہیں جسکے بعد وہ کافی تھک جاتے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں اپنے بچوں کیساتھ باتچیت کرنے کیلئے کم ہی وقت ملتا ہے۔ ایسی صورتحال میں آپ اپنے بچوں کیساتھ قریبی رشتہ کیسے قائم کر سکتے ہیں؟ جب والدین بچوں کیساتھ ملکر گھریلو کامکاج کرتے ہیں تو باتچیت کرنے کا ایک اچھا موقع مل سکتا ہے۔ ایک باپ نے اپنے بچوں کیساتھ باتچیت کرنے کیلئے زیادہ وقت نکالنے کی خاطر اپنا ٹیوی بیچ دیا۔ وہ بیان کرتا ہے کہ ایسا کرنے کے بعد ”پہلے تو میرے بچوں کو کافی ناگوار لگا۔ لیکن مَیں اُنکے ساتھ پہیلیاں بوجھتا ہوں اور دلچسپ کتابوں کے بارے میں باتچیت کرتا ہوں۔ یوں انہیں ٹیوی کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔“
یہ بہت ضروری ہے کہ بچے ماںباپ کیساتھ بچپن ہی سے باتچیت کرنا سیکھیں۔ اسطرح ان میں دوستی پیدا ہو جائیگی اور یہ اُس وقت کام آئیگی جب بچے جوانی میں مسائل کا سامنا کر رہے ہونگے۔ جب بچے بچپن ہی سے والدین کیساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں تو وہ جوانی میں بھی اُنکے ساتھ اپنی اُلجھنوں کے بارے میں بات کر سکیں گے۔ آپ بچوں کے دل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ امثال ۲۰:۵ میں لکھا ہے: ”آدمی کے دل کی بات گہرے پانی کی مانند ہے لیکن صاحبِفہم آدمی اُسے کھینچ نکالیگا۔“ آپ مختلف موضوعات پر انکا نظریہ دریافت کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ”بیٹا آپ کا اسکے بارے میں کیا خیال ہے؟“ والدین اپنے بچوں کی اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کرنے کی حوصلہافزائی کر سکتے ہیں۔
شاید آپکا بچہ کوئی ایسی شرارت کرتا ہے جس کیلئے آپکو اُسکی تنبیہ کرنی پڑے۔ ایسی صورتحال میں آپکو کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟ غصہ اُتارنے کی بجائے آپکو بچے کی بات سننی چاہئے۔ ایک والد بیان کرتا ہے: ”جب میرے بچے کوئی غلطی کرتے ہیں تو مَیں بات کا بتنگڑ نہیں بناتا۔ اسکی بجائے مَیں اُنکو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیتا ہوں اور صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب مَیں غصے میں ہوتا ہوں تو مَیں پہلے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اسکے بعد مَیں بچوں کیساتھ باتچیت کرتا ہوں۔“ اگر آپ بھی خود پر ضبط کرکے پہلے اپنے بچوں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دینگے تو جو بھی سزا یا نصیحت آپ انکو دینگے وہ اسے زیادہ آسانی سے قبول کر سکیں گے۔
محبت کیساتھ تربیت ضروری ہے
”اَے اولاد والو! تُم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ [یہوواہ ] کی طرف سے تریبت اور نصیحت دے دے کر اُنکی پرورش کرو۔“—افسیوں ۶:۴۔
اچھے نتائج حاصل کرنے کیلئے پُرمحبت طریقے سے تربیت کرنا ضروری ہے۔ والدین کیسے بچوں کو ’غصہ دلا‘ سکتے ہیں؟ جب آپ بچوں کی غلطی پر انہیں مناسب سزا نہیں دینگے یا پھر نہایت طنزیہ انداز میں اُنکی تنبیہ کرینگے تو ایسی صورتحال میں بچے آپکی اصلاح قبول نہیں کرینگے۔ اسلئے ہمیشہ پُرمحبت طریقے سے بچوں کی تربیت کریں۔ (امثال ۱۳:۲۴) اگر آپ سزا دینے سے پہلے اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ انہیں سزا کیوں دی جا رہی ہے تو وہ جان جائینگے کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں اور اسلئے انکی اصلاح کر رہے ہیں۔—امثال ۲۲:۱۵؛ ۲۹:۱۹۔
لیکن اس بات کو یاد رکھیں کہ اگر بچہ کوئی بُرا کام کرتا ہے تو اُسے اسکے لئے سزا دی جانی چاہئے تاکہ اُسکو اپنی غلط روش کا احساس ہو۔ مثال کے طور پر اگر آپکا بچہ کسی کے خلاف کوئی غلطی کرتا ہے تو اُسے معافی مانگنے کیلئے ضرور کہیں۔ فرض کریں کہ آپکے بچے نے آپکا کہنا نہیں مانا۔ ایسی صورتحال میں آپ کچھ عرصے کیلئے اُسکے پسندیدہ مشغلے پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ اسطرح وہ کہنا ماننے کی اہمیت کو سمجھ جائیگا۔
بچوں کی اصلاح کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ واعظ ۸:۱۱ میں لکھا ہے کہ ”چونکہ بُرے کام پر سزا کا حکم فوراً نہیں دیا جاتا اسلئے بنیآدم کا دل اُن میں بدی پر بہشدت مائل ہے۔“ بہتیرے بچے اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ وہ شرارت کرنے کے بعد کسی نہ کسی طرح سزا سے بچ جائیں۔ اسلئے آپکو بات کا پکا ہونا چاہئے۔ فرض کریں کہ آپکے بچے کوئی ایسی بدتمیزی کرتے ہیں جسکے بارے میں آپ انہیں پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ ایسا کرنے پر انکو سزا دی جائیگی۔ اس صورتحال میں آپکو انہیں ضرور سزا دینی چاہئے۔
تفریح کی اہمیت
”ہنسنے کا ایک وقت ہے . . . اور ناچنے کا ایک وقت ہے۔“—واعظ ۳:۱، ۴۔
ہر بچے کو ذہنی اور جسمانی پختگی حاصل کرنے کیلئے کھیلنےکودنے اور مناسب تفریح کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ماںباپ بچوں کی تفریح میں شامل ہوتے ہیں تو خاندان کے افراد ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں اور بچے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ خاندان کے افراد کس قسم کی تفریح سے ملکر لطفاندوز ہو سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر آپ سب ملکر کرکٹ، بیڈمنٹن، والیبال کھیل سکتے یا پھر سیر کیلئے جا سکتے ہیں۔ اگر آپکا خاندان موسیقی کا شوقین ہے تو یہ بھی تفریح کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ پورا خاندان کسی قریبی علاقے کی سیر کر سکتا ہے اور وہاں کے دلکش قدرتی نظاروں کا لطف اُٹھا سکتا ہے۔ ایک ساتھ گزارے گئے لمحوں کی یادیں کبھی دُھندلی نہیں پڑتیں۔
والدین اپنے بچوں کو اچھی اور گھٹیا قسم کی تفریح میں فرق کرنا سکھا سکتے ہیں۔ ایک مسیحی جسکے تین بیٹے ہیں بیان کرتا ہے کہ ”مَیں ممکن حد تک اپنے بچوں کیساتھ تفریح میں شامل ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر جب وہ کمپیوٹر یا ویڈیو گیمز کھیل رہے ہوتے ہیں تو مَیں اُن سے کہتا ہوں کہ ’بیٹا، اس کھیل کے کیا اصول ہیں؟‘ پھر جب وہ مجھے ان کھیلوں کے بارے میں بتاتے ہیں تو مَیں اُنکو اسکے خطرات سے آگاہ کرتا ہوں۔ اب تو وہ خودبخود پہچاننے لگے ہیں کہ کس قسم کی تفریح غلط ہے۔“ جب بچے خاندان کیساتھ ملکر تفریح کرنے کا شوق رکھتے ہیں تو وہ ایسے ٹیوی پروگراموں، فلموں اور انٹرنیٹ کے کھیلوں کی طرف مائل نہیں ہونگے جن میں تشدد، جنسی بداخلاقی اور منشیات کے استعمال پر زور دیا جاتا ہے۔
بچوں کو اچھے دوست بنانے میں مدد دیں
”وہ جو داناؤں کیساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائیگا۔“—امثال ۱۳:۲۰۔
چار بچوں کی کامیابی کیساتھ پرورش کرنے والا ایک مسیحی باپ بیان کرتا ہے: ”آپکا بچہ کس کے ساتھ دوستی کرتا ہے، یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ ایک بُرا دوست بچے کی پرورش کے سلسلے میں آپکی تمام کوششوں کو برباد کر سکتا ہے۔“ یہ مسیحی اپنے بچوں سے اکثر ایسے سوال پوچھتا ہے: ’آپکا جگری دوست کون ہے؟ آپ اسے کیوں پسند کرتے ہیں؟ آپ اُسکی کونسی خوبیوں کی نقل کرنا چاہتے ہیں؟‘ اسطرح اُس نے اُنکو اچھے دوستوں کا انتخاب کرنا سکھایا۔ ایک اَور باپ اپنے بچوں کے دوستوں کو گھر بلا لیتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ انکی شخصیت کو جانچ کر اپنے بچوں کو بتا سکتا ہے کہ آیا یہ دوست انکے لئے اچھے ہیں یا نہیں۔
والدین کو اپنے بچوں کو یہ بھی سکھانا چاہئے کہ وہ ہمعمروں کے علاوہ بڑی عمر والوں سے بھی دوستی کر سکتے ہیں۔ تین بیٹوں کا باپ بمسُن بیان کرتا ہے: ”مَیں نے اپنے بچوں کو سکھایا ہے کہ داؤد کی طرح وہ بھی بڑی عمر والوں سے دوستی کریں جس نے یونتن سے دوستی کی تھی۔ مَیں ہر عمر کے مسیحیوں کو گھر آنے کی دعوت دیتا ہوں تاکہ میرے بچے انکے ساتھ میلجول رکھ سکیں۔ میرے بیٹوں کی بہت سے ایسے اشخاص کیساتھ دوستی ہے جو ان سے عمر میں بڑے ہیں۔“ جب بچے اچھی عادات کے مالک بڑی عمر والوں کیساتھ تعلقات بڑھاتے ہیں تو وہ خود بھی اچھی باتیں سیکھ جاتے ہیں۔
آپ بچے کی تربیت کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں
امریکہ کے ایک سروے کے مطابق ایسے والدین جو اپنی اولاد میں ضبطِنفس اور دیانتداری جیسی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اکثر اس میں کامیاب نہیں رہتے۔ بچوں کی اچھی تربیت کرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ ایک ماں جس نے سروے کے دوران اس سوال کا جواب دیا، بیان کرتی ہے: ”افسوس کی بات ہے کہ آجکل بچوں کو بُرے اثرات سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انکو کمرے میں بند کرکے باہر جانے کی اجازت نہ دیں۔“ دراصل وہ یہ کہنا چاہتی تھی کہ جس ماحول میں بچے آجکل پرورش پا رہے ہیں وہ بہت ہی بُرا ہے۔ پس ایسی صورتحال میں کامیابی کیساتھ بچوں کی پرورش کرنا واقعی ممکن ہے؟
اگر آپ گلاب کا پودا لگانا چاہتے ہیں لیکن آپکو یہ فکر ہے کہ کہیں یہ مُرجھا نہ جائے تو شاید آپ ہمت ہار جائیں۔ اس صورتحال میں اگر کوئی ماہر باغبان آکر آپکو گلاب کے پودے کو لگانے کے صحیح طریقوں کے بارے میں بتائے تو آپکو واقعی خوشی ہوگی اسی طرح یہوواہ خدا سے بہتر اَور کوئی انسانی فطرت کو نہیں جانتا۔ وہی آپکو بچوں کی پرورش کے سب سے اچھے طریقے سکھاتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”لڑکے کی اُس راہ میں تربیت کر جس پر اُسے جانا ہے وہ بوڑھا ہوکر بھی اُس سے نہیں مڑیگا۔“ (امثال ۲۲:۶) اگر آپ خدا کے کلام کی مشورت کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں تو آپکو بہت سی خوشیاں نصیب ہونگی۔ آپکے بچے بالغ ہوکر ذمہداری نبھانے کیلئے تیار ہونگے، دوسروں کی پرواہ کرینگے اور اچھے اور بُرے میں بھی تمیز کرینگے۔ اسطرح سب ہی ان سے پیار کرینگے اور سب سے بڑھ کر یہوواہ خدا ان سے محبت رکھیگا۔