ہم اپنے ایمان پر نیکی کو کیسے بڑھا سکتے ہیں
”ایمان پر نیکی ... بڑھاؤ۔“—۲-پطرس ۱:۵ NW۔
۱، ۲. ہمیں یہوواہ کے لوگوں سے وہ کام کرنے کی توقع کیوں کرنی چاہئے جو نیک ہے؟
یہوواہ ہمیشہ ایک نیک طریقے سے کام کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ وہی کام کرتا ہے جو راست اور بھلا ہے۔ اسلئے، پطرس رسول خدا کی بابت ممسوح مسیحیوں کو ”اپنے خاص جلال اور نیکی کے ذریعے“ بلانے والے کے طور پر کہہ سکتا تھا۔ اپنے نیک آسمانی باپ کی بابت صحیح علم نے ان پر ظاہر کر دیا تھا کہ حقیقی دینداری والی زندگی کے طالب ہونے کیلئے کیا درکار تھا۔—۲-پطرس ۱:۲، ۳۔
۲ پولس رسول نے مسیحیوں کو تلقین کی کہ ”عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند بنو۔“ (افسیوں ۵:۱) اپنے آسمانی باپ کی طرح، یہوواہ کے پرستاروں کو وہ کام کرنا چاہیے جو ہر حالت میں نیک ہو۔ لیکن نیکی ہے کیا؟
نیکی جو کچھ ہے
۳. ”نیکی“ کی تعریف کیسے گئی ہے؟
۳ جدید زمانے کی ڈکشنریاں ”نیکی“ کی تعریف ”اخلاقی فضیلت، بھلائی“ کے طور پر کرتی ہیں۔ یہ ”درست عمل اور سوچ، سیرت کی خوبی“ ہے۔ ایک نیک شخص راستباز ہوتا ہے۔ نیکی کی ”حق کے معیار کی اطاعت“ کے طور پر بھی تعریف کی گئی ہے۔ مسیحیوں کیلئے، بلاشبہ، ”حق کے معیار“ کا فیصلہ خدا کی طرف سے کیا گیا ہے اور اسکے مقدس کلام، بائبل میں واضح کیا گیا ہے۔
۴. ۲-پطرس ۱:۵-۷ میں کن خوبیوں کا ذکر کیا گیا ہے جنکو ترقی دینے کیلئے مسیحیوں کو سخت محنت کرنی چاہیے؟
۴ سچے مسیحی یہوواہ خدا کے راست معیاروں کی اطاعت کرتے ہیں، اور وہ ایمان لانے سے اسکے بیشقیمت وعدوں سے اثرپذیر ہوتے ہیں۔ وہ پطرس کی مشورت پر بھی دھیان دیتے ہیں: ”پس اسی باعث تم اپنی طرف سے کمال کوشش کرکے اپنے ایمان پر نیکی اور نیکی پر معرفت اور معرفت پر پرہیزگاری اور پرہیزگاری پر صبر اور صبر پر دینداری اور دینداری پر برادرانہ الفت اور برادرانہ الفت پر محبت بڑھاؤ۔“ (۲-پطرس ۱:۵-۷) ایک مسیحی کو ان خوبیوں کو پیدا کرنے کیلئے سخت محنت کرنی چاہیے۔ یہ چند دنوں یا سالوں میں نہیں ہوتا بلکہ زندگی بھر کی مسلسل جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ ایمان پر نیکی کو بڑھانا بذاتخود ایک چیلنج ہے!
۵. صحیفائی نکتہءنظر سے نیکی کیا ہے؟
۵ لغتنویس ایم۔ آر۔ ونسینٹ کہتا ہے کہ اصلی معیاری مفہوم میں پیش کئے گئے یونانی لفظ ”نیکی“ کا مطلب ”کسی بھی قسم کی فضیلت ہے۔“ پطرس نے اسکو جمع کی شکل میں استعمال کیا جب اس نے کہا کہ مسیحیوں کو خدا کی ”خوبیاں“ یا نیکیاں ظاہر کرنی تھیں۔ (۱-پطرس ۲:۹) صحیفائی نقطۂنظر سے نیکی کو انفعالی نہیں بلکہ ”اخلاقی طاقت، اخلاقی توانائی، جان کی قوت“ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ نیکی کا ذکر کرتے ہوئے، پطرس کے ذہن میں باہمت اخلاقی فضیلت تھی جسے خدا کے خادموں سے ظاہر کرنے اور برقرار رکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔ تاہم، چونکہ ہم ناکامل ہیں، کیا ہم واقعی وہ کام کر سکتے ہیں جو خدا کی نظر میں نیکی ہے؟
ناکامل مگر نیک
۶. اگرچہ ہم ناکامل ہیں، تو بھی یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ جو کام خدا کی نظر میں نیک ہے ہم اسے کر سکتے ہیں؟
۶ ہم نے گناہ اور ناکاملیت ورثے میں پائی ہے، پس ہم سوچ سکتے ہیں کہ ہم وہ کام کر سکتے ہیں جو خدا کی نظر میں نیکی ہے۔ (رومیوں ۵:۱۲) اگر ہم نے پاک دل رکھنے ہیں جس سے نیک خیال، اقوال، اور افعال نکلتے ہیں، تو یقینی طور پر ہمیں یہوواہ کی مدد کی ضرورت ہے۔ (مقابلہ کریں لوقا ۶:۴۵۔) بتسبع کے سلسلے میں گناہ کرنے کے بعد، تائب زبورنویس داؤد نے التجا کی: ”اے خدا! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں ازسرنو مستقیم روح ڈال۔“ (زبور ۵۱:۱۰) داؤد نے نیک روش کے حصول کیلئے خدا سے معافی اور درکار مدد حاصل کی۔ لہذا، اگر ہم نے سنگین طور پر غلطی کی ہے اور تائب ہو کر خدا اور کلیسیا کے بزرگوں کی مدد قبول کر لی ہے تو ہم ایک نیک روش کی طرف جا سکتے اور اس پر قائم رہ سکتے ہیں۔—زبور ۱۰۳:۱-۳، ۱۰-۱۴، یعقوب ۵:۱۳-۱۵۔
۷، ۸. (ا) اگر ہمیں نیک رہنا ہے تو کیا ضروری ہے؟ (ب) نیک ہونے کیلئے مسیحیوں کے پاس کیا مدد ہے؟
۷ پیدائشی گنہگارانہ حالت کی وجہ سے، ضرور ہے کہ ہم وہ کام کرنے کیلئے مسلسل اندرونی لڑائی لڑتے رہیں جسکا نیکی کی روش ہم سے تقاضا کریگی۔ اگر ہمیں نیک رہنا ہے، تو ہم خود کو گناہ کا غلام بننے کی اجازت کبھی نہیں دے سکتے۔ اسکی بجائے، ضرور ہے کہ ہم ”راستبازی کے غلام“ ہوں، ہمیشہ ایک نیک طریقے سے سوچتے، کلام کرتے، اور کام کرتے رہیں۔ (رومیوں ۶:۱۶-۲۳) بلاشبہ، ہماری جسمانی خواہشات اور گنہگارانہ رغبتیں اثرآفریں ہیں، اور ہمیں ان چیزوں اور نیک چیزوں کے درمیان اختلاف کا سامنا ہے جنکا خدا ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ پس، کیا کیا جانا ہے؟
۸ ایک بات تو یہ ہے کہ ہمیں یہوواہ کی پاک روح، یا سرگرم قوت کی راہنمائی کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ پس ہمیں پولس کی نصیحت پر دھیان دینا چاہیے: ”روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہرگز پورا نہ کرو گے۔ کیونکہ جسم روح کے خلاف خواہش کرتا ہے اور روح جسم کے خلاف اور یہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں تاکہ جو تم چاہتے ہو وہ نہ کرو۔“ (گلتیوں ۵:۱۶، ۱۷) جیہاں، راستبازی کیلئے ایک قوت کے طور پر، ہمارے پاس خدا کی روح ہے، اور درست چالچلن کیلئے راہنما کے طور پر، ہمارے پاس اسکا کلام ہے۔ ہمارے پاس یہوواہ کی پرمحبت تنظیم اور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی مشورت بھی ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) یوں، ہم گنہگارانہ رغبتوں کے خلاف ایک کامیاب لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ (رومیوں ۷:۱۵-۲۵) بلاشبہ، اگر ایک گندہ خیال ذہن میں آ جائے تو ضرور ہے کہ ہم فوری طور پر اسے نکال دیں، اور کسی بھی ایسے کام کو کرنے کی آزمائش کا مقابلہ کرنے کی خاطر خدا کی مدد کیلئے دعا کریں جس میں کسی بھی طرح سے نیکی کی کمی ہے۔—متی ۶:۱۳۔
نیکی اور ہمارے خیالات
۹. نیک چالچلن کس قسم کی سوچ کا تقاضا کرتا ہے؟
۹ جس طریقے سے ایک شخص سوچتا ہے نیکی اسکے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ الہٰی مقبولیت سے استفادہ کرنے کیلئے، ہمیں راستباز، اچھی، اور نیک باتوں کی بابت سوچنا چاہیے۔ پولس نے کہا: ”غرض اے بھائیو! جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں ان پر غور کیا کرو۔“ (فلپیوں ۴:۸) ہمیں واجب، پاک باتوں پر غور کرنا چاہیے، اور جس بھی بات میں نیکی کی کمی ہو ہمیں پسند نہیں آنی چاہیے۔ پولس کہہ سکتا تھا: ”جو باتیں تم نے مجھ سے سیکھیں اور حاصل کیں اور سنیں اور مجھ میں دیکھیں ان پر عمل کیا کرو۔“ اگر ہم پولس کی مانند—سوچ، کلام، اور کام میں نیک—ہیں تو ہم اچھے رفیق اور مسیحی زندگی گزارنے میں عمدہ مثالیں ہونگے، اور ”خدا کا اطمینان“ ہمارے ساتھ رہیگا۔“—فلپیوں ۴:۹۔
۱۰. ۱-کرنتھیوں ۱۴:۲۰ کا ذاتی اطلاق نیک رہنے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟
۱۰ اگر یہ ہماری خواہش ہے کہ سوچ میں نیک رہیں اور یوں اپنے آسمانی باپ کو خوش کریں تو یہ ضروری ہے کہ ہم پولس کی مشورت کا اطلاق کریں: ”تم سمجھ میں بچے نہ بنو۔ بدی میں تو بچے رہو مگر سمجھ میں جوان بنو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۲۰) اس کا مطلب یہ ہے کہ بطور مسیحیوں کے ہم بدی کی بابت جاننے یا اس کا تجربہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس طریقے سے اپنے ذہنوں کو آلودہ ہونے کی اجازت دینے کی بجائے، ہم دانشمندی سے اس سلسلے میں بچوں کی طرح معصوم اور ناتجربہکار رہنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی ساتھ، ہم پوری طرح سے سمجھتے ہیں کہ بداخلاقی اور غلطکاری یہوواہ کی نظر میں گنہگارانہ بات ہے۔ نیک رہنے سے اسے خوش کرنے کی ایک گہری دلی خواہش ہمیں فائدہ پہنچائے گی، کیونکہ یہ ہمیں ناپاک قسم کی تفریحطبع اور ذہنی طور پر آلودہ کرنے والے اس دنیا کے اثرات سے بچنے کی تحریک دیگی جو شیطان کے قبضے میں پڑی ہوئی ہے۔—۱-یوحنا ۵:۱۹۔
نیکی اور ہماری باتچیت
۱۱. نیک ہونا کس قسم کی باتچیت کا تقاضا کرتا ہے، اور اس سلسلے میں، یہوواہ خدا اور یسوع مسیح میں ہمارے پاس کونسی مثالیں موجود ہیں؟
۱۱ اگر ہمارے خیالات نیک ہیں تو انہیں جو کچھ ہم کہتے ہیں اس پر بہت گہرا اثر رکھنا چاہیے۔ نیک ہونا پاک، خوشگوار، سچی، تعمیری باتچیت کا تقاضا کرتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۶:۳، ۴، ۷) یہوواہ ”سچائی [کا] خدا“ ہے۔ (زبور ۳۱:۵) وہ اپنے تمام برتاؤ میں وفادار ہے، اور اسکے وعدے یقینی ہیں کیونکہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ (گنتی ۲۳:۱۹، ۱-سموئیل ۱۵:۲۹، ططس ۱:۲) خدا کا بیٹا، یسوع مسیح، ”فضل اور سچائی سے معمور“ ہے۔ جب وہ زمین پر تھا، تو اس نے ہمیشہ سچ بولا جیسے وہ اسے اپنے باپ سے حاصل کر چکا تھا۔ (یوحنا ۱:۱۴، ۸:۴۰) اسکے علاوہ، یسوع نے ”نہ ... گناہ کیا اور نہ اسکے مُنہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔“ (۱-پطرس ۲:۲۲) اگر ہم واقعی خدا اور مسیح کے خادم ہیں، تو باتچیت میں حقگو اور چالچلن میں دیانتدار ہونگے، گویا کہ ”سچائی سے کمر کس“ لی ہو۔—افسیوں ۵:۹، ۶:۱۴۔
۱۲. اگر ہمیں نیک ہونا ہے تو ہمیں کن اقسام کی باتچیت سے بچنا چاہیے؟
۱۲ اگر ہم نیک ہیں تو باتچیت کی ایسی اقسام ہیں جن سے ہم بچیں گے۔ ہم پولس کی مشورت سے اثرپذیر ہونگے: ”ہر طرح کی تلخمزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دور کی جائیں۔“ ”جیسا کہ مقدسوں کو مناسب ہے تم میں حرامکاری اور کسی طرح کی ناپاکی یا لالچ کا ذکر تک نہ ہو۔ اور نہ بےشرمی اور بیہودہگوئی اور ٹھٹھابازی کا کیونکہ یہ لائق نہیں بلکہ برعکس اسکے شکرگزاری ہو۔“ (افسیوں ۴:۳۱، ۵:۳، ۴) دوسرے ہماری صحبت میں ہونے سے تازگی پائیں گے کیونکہ ہمارے راست دل ہمیں غیرمسیحی باتچیت سے بچنے کی اکساہٹ دیتے ہیں۔
۱۳. مسیحیوں کو زبان پر قابو کیوں رکھنا چاہیے؟
۱۳ خدا کو خوش کرنے کی خواہش اور نیک باتیں کہنا زبان پر قابو پانے میں ہماری مدد کریگا۔ گنہگارانہ رغبتوں کی وجہ سے، ہم سب بعض اوقات باتوں میں خطا کرتے ہیں۔ تاہم، یعقوب شاگرد کہتا ہے کہ ”جب ہم ... گھوڑوں کے مُنہ کو لگام دے دیتے ہیں،“ تو وہ فرمانبرداری سے ادھر ہی جاتے ہیں جہاں ہم چاہتے ہیں۔ لہذا، ہمیں زبان پر قابو رکھنے کیلئے اور اسے صرف نیک طریقوں سے استعمال کرنے کیلئے سخت محنت کرنی چاہیے۔ ایک بےقابو زبان ”شرارت کا ایک عالم ہے۔“ (یعقوب ۳:۱-۷) اس بیدین دنیا کی ہر قسم کی بری خصلت کا تعلق بےقابو زبان سے ہے۔ یہ ایسی نقصاندہ چیزوں کی ذمہدار ہے جیسے کہ جھوٹی گواہی، گالی گلوچ، اور تہمت۔ (یسعیاہ ۵:۲۰، متی ۱۵:۱۸-۲۰) اور جب ایک بےقابو زبان غیرمہذب، دلخراش، یا تہمتآمیز باتیں کرتی ہے تو یہ زہرقاتل سے بھری ہوتی ہے۔—زبور ۱۴۰:۳، رومیوں ۳:۱۳، یعقوب ۳:۸۔
۱۴. مسیحیوں کو باتچیت میں کس دوہرے معیار سے بچنا چاہیے؟
۱۴ جیسے کہ یعقوب ظاہر کرتا ہے کہ ”خداوند ... کی حمد“ کرنے کیلئے خدا کی بابت اچھی اچھی باتیں کرنے سے اور پھر ”آدمیوں کو ... بددعا دینے“ کیلئے ان پر لعنت کرنے سے زبان کا غلط استعمال کرنا بےاصولی بات ہوگی۔ اجلاسوں پر خدا کی حمد کے گیت گانا اور پھر باہر جا کر ساتھی ایمانداروں کی برائی کرنا یہ کتنا گنہگارانہ کام ہے! میٹھا اور کھاری پانی دونوں ایک ہی چشمے سے نہیں نکل سکتا۔ اگر ہم یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں تو دوسروں کا حق ہے کہ وہ ہم سے یہ توقع کریں کہ ہم بےکیف باتیں کہنے کی بجائے نیک باتیں کہیں۔ آئیے پھر ہم ہر قسم کی بری باتچیت سے بچیں اور ایسی باتیں کہنے کی تلاش میں رہیں جو ہمارے ساتھیوں کو فائدہ پہنچائیں گی اور روحانی طور پر انکی ہمتافزائی کریں گی۔—یعقوب ۳:۹-۱۲۔
نیکی اور ہمارے افعال
۱۵. کجرو طریقوں کی طرف رجوع کرنے سے بچنا اتنا اہم کیوں ہے؟
۱۵ چونکہ مسیحی سوچ اور باتچیت نیک ہونی چاہیے اسلئے ہمارے افعال کی بابت کیا ہے؟ چالچلن میں نیک ہونا ہی خدا کی مقبولیت حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ یہوواہ کا کوئی خادم نیکی کو نہیں چھوڑ سکتا، کجرو اور دھوکا دینے والا بننے کی طرف رجوع نہیں کر سکتا، اور جائز طور پر یہ نہیں سوچ سکتا کہ ایسی چیزیں خدا کی قبولیت حاصل کریں گی۔ امثال ۳:۳۲ کہتی ہے: ”کجرو سے خداوند کو نفرت ہے لیکن راستباز اسکے محرمراز ہیں۔“ اگر ہم یہوواہ خدا کے ساتھ اپنے رشتے کو عزیز رکھتے ہیں تو سوچ کو ترغیب دینے والے ان الفاظ کو ہمیں شرارت کا منصوبہ بنانے یا کسی دھوکہ دینے والے کام کرنے سے روکنا چاہیے۔ ان سات چیزوں میں ”برے منصوبے باندھنے والا دل“ شامل ہے جن سے یہوواہ کے جی کو کراہیت ہے! (امثال ۶:۱۶-۱۹) انجامکار، آئیے ہم ایسے کاموں سے بچیں اور اپنے ساتھی انسانوں کو فائدہ پہنچانے اور اپنے آسمانی باپ کے جلال کیلئے جو نیک کام ہے اسے عمل میں لائیں۔
۱۶. مسیحیوں کو ہر طرح کے ریاکارانہ کاموں میں الجھنے سے کیوں بچنا چاہیے؟
۱۶ نیکی ظاہر کرنا اس چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم دیانتدار ہوں۔ (عبرانیوں ۱۳:۱۸) ایک ریاکار شخص، جس کے افعال اسکے اقوال کے مطابق نہیں ہوتے، نیک نہیں ہے۔ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”ریاکار“ (ہائپوکریٹیز) کیا گیا ہے اسکا مطلب ”وہ جو جواب دیتا ہے“ اور ایک سٹیج اداکار کا مفہوم بھی دیتا ہے۔ چونکہ یونانی اور رومی اداکار نقاب (مصنوعی چہرہ) پہنتے تھے تو یہ لفظ اس شخص کیلئے استعارہً استعمال ہونے لگا جو مصنوعی چہرہ لگا لیتا ہے۔ ریاکار ”بےایمان“ ہوتے ہیں۔ (لوقا ۱۲:۴۶ کا متی ۲۴:۵۰، ۵۱ سے مقابلہ کریں۔) ریاکاری (ہائپوکرائسس) شرارت اور عیاری کا مفہوم بھی دے سکتی ہے۔ (متی ۲۲:۱۸، مرقس ۱۲:۱۵، لوقا ۲۰:۲۳) یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب ایک بھروسہ کرنے والے شخص کو مسکراہٹوں، خوشامد، اور ان افعال کے ذریعے فریب دیا جاتا ہے جو محض بہانے ہوتے ہیں! لیکن یہ دل کو گرما دینے والی بات ہے جب ہم جانتے ہیں کہ ہم قابلبھروسہ مسیحیوں کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں۔ اور خدا ہمیں نیک اور بےریا ہونے کیلئے برکت دیتا ہے۔ اسکی خوشنودی انکے لئے ہے جو ”بھائیوں کی بےریا محبت“ ظاہر کرتے ہیں اور ”بےریا ایمان“ رکھتے ہیں۔—۱-پطرس ۱:۲۲، ۱-تیمتھیس ۱:۵۔
نیکی مستعد بھلائی ہے
۱۷، ۱۸. جب ہم روح کے پھل نیکی کو ظاہر کریں گے تو ہم دوسروں کے ساتھ کیسے برتاؤ کرینگے؟
۱۷ اگر ہم اپنے ایمان پر نیکی کو بڑھاتے ہیں تو ہم ایسی باتیں سوچنے، کہنے، اور کرنے سے اجتناب کرنے کی کوشش کرینگے جو خدا کیلئے ناپسندیدہ ہیں۔ تاہم، مسیحی نیکی ظاہر کرنا یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ ہم مستعد بھلائی کو عمل میں لائیں۔ درحقیقت، نیکی کی بھلائی کے طور پر بھی تعریف کی گئی ہے۔ اور نیکی یہوواہ کی پاک روح کا ایک پھل ہے، نہ کہ محض انسانی کوشش کی پیداوار۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) جب ہم روح کے پھل نیکی کو ظاہر کرتے ہیں تو ہم دوسروں کو سراہنے اور انکی ناکاملیتوں کے باوجود انکی اچھی خوبیوں کی تعریف کرنے کی تحریک پائیں گے۔ کیا انہوں نے سالہا سال تک وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کی ہے؟ پھر ہمیں انکے لئے احترام دکھانا اور انکو اور خدا کیلئے انکی خدمت کو سراہنا چاہیے۔ ہمارا آسمانی باپ اس محبت پر جو وہ اسکے نام کیلئے ظاہر کرتے ہیں اور انکے ایمان والے نیک اعمال پر توجہ کرتا ہے، اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔—نحمیاہ ۱۳:۳۱ب، عبرانیوں ۶:۱۰۔
۱۸ نیکی ہمیں صابر، فہیم، اور ہمدرد بناتی ہے۔ اگر کوئی ساتھی یہوواہ کا پرستار پریشانی اور افسردگی میں مبتلا ہے تو ہم اس کی دلجوئی کیلئے باتچیت کریں گے اور اسے کچھ تسلی دینے کی کوشش کرینگے، جیسے ہمارا پرمحبت آسمانی باپ بھی ہمیں تسلی دیتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۱:۳، ۴، ۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴) ہم ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں جو شاید موت میں کسی عزیز کے کھو جانے کی وجہ سے غم کرتے ہیں۔ اگر ہم دکھ کو کم کرنے کیلئے کچھ کر سکتے ہیں تو ہم ایسا کرینگے، کیونکہ ایک نیک روح پرمحبت، فیضرساں عمل پر آمادہ کرتی ہے۔
۱۹. اگر ہم سوچ، کلام، اور کام میں نیک ہیں تو غالباً دوسرے ہمارے ساتھ کیسے پیش آئیں گے؟
۱۹ جیسے ہم یہوواہ کی تعریف کرنے سے اسکی حمدوثنا کرتے ہیں، ویسے ہی غالباً دوسرے بھی ہمارے لئے برکت چاہیں گے اگر ہم خیال، کلام، اور کام میں نیک ہیں۔ (زبور ۱۴۵:۱۰) ایک دانشمندانہ مثل کہتی ہے: ”صادق کے سر پر برکتیں ہوتی ہیں لیکن شریروں کے مُنہ کو ظلم ڈھانکتا ہے۔“ (امثال ۱۰:۶) ایک شریر اور پرتشدد شخص میں ایسی نیکی کی کمی ہوتی ہے جو اسے دوسروں کا پیارا بنائے گی۔ جو وہ بوتا ہے وہی کاٹتا ہے، کیونکہ لوگ دیانتداری سے اسکی تعریف کرنے سے اسے برکت نہیں دے سکتے۔ (گلتیوں ۶:۷) ان کیلئے یہ کتنا بہتر ہے جو یہوواہ کے خادموں کے طور پر نیک طریقوں سے سوچتے، بولتے، اور کام کرتے ہیں! وہ ان دیگر لوگوں کی محبت، بھروسہ، اور احترام حاصل کر لیتے ہیں جو انکو برکت دینے اور انکی تعریف کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، انکی خدائی نیکی یہوواہ کی انمول برکت پر منتج ہوتی ہے۔—امثال ۱۰:۲۲۔
۲۰. نیک خیالات، باتچیت، اور افعال یہوواہ کے لوگوں کی کلیسیا پر کیا اثر کر سکتے ہیں؟
۲۰ نیک خیالات، باتچیت، اور افعال یقینی طور پر یہوواہ کے لوگوں کی کلیسیا کو فائدہ پہنچائیں گے۔ جب ساتھی ایماندار ایکدوسرے کیلئے محبت بھرے، بااحترام خیالات رکھتے ہوں تو ان کے درمیان برادرانہ محبت فروغ پاتی ہے۔ (یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵) نیک باتچیت، بشمول پرخلوص تعریف اور حوصلہافزائی کے، تعاون اور اتحاد کے ایک پرتپاک احساس کی پرورش کرتی ہے۔ (زبور ۱۳۳:۱-۳) اور دل کو جوش سے بھرنے والے نیک کام اسی طریقے سے اثرپذیر ہونے کیلئے دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں۔ سب سے بڑھکر، مسیحی نیکی کے کام کرنا ہمارے نیک آسمانی باپ، یہوواہ کی برکت اور مقبولیت پر منتج ہوتا ہے۔ پس دعا ہے کہ ہم ایمان لانے سے خدا کے قیمتی وعدوں سے اثرپذیر ہونے کو اپنا نصبالعین بنائیں۔ اور یقینی طور پر آئیے ہم اپنے ایمان پر نیکی کو بڑھانے کیلئے سنجیدہ کوشش کریں۔ (۱۸ ۷/۱۵ w۹۳)
آپکے جوابات کیا ہیں؟
▫ آپ ”نیکی“ کی تعریف کیسے کرینگے اور ناکامل لوگ کیونکر نیک ہو سکتے ہیں؟
▫ نیکی کس قسم کے خیالات کا تقاضا کرتی ہے؟
▫ نیکی کو ہماری باتچیت پر کیسے اثرانداز ہونا چاہیے؟
▫ نیکی کو ہمارے افعال پر کیا اثر کرنا چاہیے؟
▫ نیک ہونے کے بعض فائدے کیا ہیں؟
[تصویر]
چونکہ میٹھا اور کھاری پانی ایک ہی چشمے سے نہیں نکل سکتا، اسلئے دوسرے جائز طور پر یہوواہ کے خادموں سے صرف نیک باتیں کرنے کی توقع کرتے ہیں