ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا
”یسوؔع نے اُن سے کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب ابنِآدم نئی پیدایش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تُم بھی جو میرے پیچھے ہو لئے ہو بارہ تختوں پر بیٹھ کر اؔسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔“—متی ۱۹:۲۸۔
۱. (ا) یہوواہ خدا نے ابرہام کی اولاد کے لئے محبت کیسے ظاہر کی؟ (ب) اُس نے دوسری قوموں کے لئے بھی کیسے فکر دکھائی؟
یہوواہ خدا ابرہام سے بہت محبت کرتا تھا۔ اِسی لئے وہ ابرہام کی اولاد یعنی اسرائیلی قوم سے ۱۵ سو سال تک محبت کرتا رہا۔ اُس نے اُنہیں اپنی ”خاص اُمت“ بنا لیا۔ (استثنا ۷:۶ کو پڑھیں۔) لیکن کیا اِس کا یہ مطلب تھا کہ یہوواہ خدا کو باقی تمام قوموں کی کوئی فکر نہیں تھی؟ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ اُس وقت اگر کوئی غیراسرائیلی یہوواہ خدا کی عبادت کرنا چاہتا تو وہ یہوواہ کی خاص اُمت کے ساتھ مل کر اُس کی عبادت کر سکتا تھا۔ غیرقوم سے آنے والے اِن لوگوں کو اسرائیلی قوم کا ہی حصہ سمجھا جاتا تھا۔ (احبا ۱۹:۳۳، ۳۴) مگر اُن سے یہوواہ خدا کے تمام قوانین کی پابندی کرنے کی بھی توقع کی جاتی تھی۔—احبا ۲۴:۲۲۔
۲. یسوع مسیح نے کون سی حیرانکُن بات بتائی اور اِس سے کونسا سوال پیدا ہوتا ہے؟
۲ تاہم، یسوع مسیح نے اپنے زمانے کے یہودیوں کو ایک بہت حیران کر دینے والی بات بتائی۔ اُس نے کہا: ”خدا کی بادشاہی تُم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔“ (متی ۲۱:۴۳) اِس نئی قوم میں کون شامل ہوں گے اور اِس تبدیلی کا آج ہم پر کیا اثر ہوتا ہے؟
ایک نئی قوم
۳، ۴. (ا) پطرس رسول نے نئی قوم کی شناخت کیسے کرائی؟ (ب) کون اِس نئی قوم کو تشکیل دیتے ہیں؟
۳ پطرس رسول نے اِس نئی قوم کی واضح طور پر شناخت کراتے ہوئے بیان کِیا: ”تُم ایک برگزیدہ نسل۔ شاہی کاہنوں کا فرقہ۔ مُقدس قوم اور ایسی اُمت ہو جو خدا کی خاص ملکیت ہے تاکہ اُس کی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔“ (۱-پطر ۲:۹) پیشینگوئی کے مطابق یسوع کو مسیحا قبول کرنے والے یہودیوں کو سب سے پہلے اِس نئی قوم میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔ (دان ۹:۲۷ الف حصہ؛ متی ۱۰:۶) اِس کے بعد بہت سے غیرقوم لوگ بھی اِس قوم میں شامل کئے گئے۔ اِس سلسلے میں پطرس نے کہا: ”پہلے تُم کوئی اُمت نہ تھے مگر اب خدا کی اُمت ہو۔“—۱-پطر ۲:۱۰۔
۴ پطرس یہ بات کن سے کہہ رہا تھا؟ اپنے خط کے آغاز میں وہ کہتا ہے: ”خدا . . . جس نے یسوؔع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے باعث . . . ہمیں زندہ اُمید کے لئے نئے سرے سے پیدا کِیا۔ تاکہ ایک غیرفانی اور بےداغ اور لازوال میراث کو حاصل کریں۔“ (۱-پطر ۱:۳، ۴) پس ممسوح مسیحی اِس نئی قوم کو تشکیل دیتے ہیں جو آسمانی زندگی کی اُمید رکھتے ہیں۔ وہ ’خدا کا اسرائیل‘ ہیں۔ (گل ۶:۱۶) ایک رویا میں یوحنا رسول نے دیکھا کہ اِن روحانی اسرائیلیوں کی تعداد ایک لاکھ ۴۴ ہزار ہے۔ وہ ”خدا اور برّہ کے لئے پہلے پھل ہونے کے واسطے آدمیوں میں سے خرید لئے گئے ہیں“ تاکہ وہ ’کاہنوں‘ کے طور پر ”[یسوع] کے ساتھ ہزار برس تک بادشاہی کریں۔“—مکا ۵:۱۰؛ ۷:۴؛ ۱۴:۱، ۴؛ ۲۰:۶؛ یعقو ۱:۱۸۔
”اسرائیل“ کی اصطلاح بڑی بِھیڑ کے لئے بھی
۵. (ا) اصطلاح ’خدا کا اسرائیل‘ کن کے لئے استعمال ہوتی ہے؟ (ب) ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ اصطلاح ”اسرائیل“ صرف ممسوح مسیحیوں کے لئے ہی استعمال نہیں ہوتی؟
۵ گلتیوں ۶:۱۶ میں ”خدا کے اؔسرائیل“ کی اصطلاح صرف ممسوح مسیحیوں کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ تاہم، کیا خدا کے کلام میں ایسے حوالے بھی پائے جاتے ہیں جن میں اسرائیلی قوم ممسوح مسیحیوں کے علاوہ دوسرے مسیحیوں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے؟ اِس سوال کا جواب ہمیں یسوع مسیح کے اِن الفاظ سے ملتا ہے جو اُس نے اپنے وفادار رسولوں سے کہے: ”جیسے میرے باپ نے میرے لئے ایک بادشاہی مقرر کی ہے مَیں بھی تمہارے لئے مقرر کرتا ہوں۔ تاکہ میری بادشاہی میں میری میز پر کھاؤ پیو بلکہ تُم تخت پر بیٹھ کر اِؔسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔“ (لو ۲۲:۲۸-۳۰) یہ مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران ”نئی پیدایش“ میں ہوگا۔ اُس وقت تمام چیزوں کو ویسی ہی حالت میں لایا جائے گا جیسی وہ ابتدا میں تھیں۔—متی ۱۹:۲۸ کو پڑھیں۔
۶، ۷. متی ۱۹:۲۸ اور لو ۲۲:۳۰ کے مطابق ’اسرائیل کے بارہ قبیلے‘ کس کی عکاسی کرتے ہیں؟
۶ ایک لاکھ ۴۴ ہزار اشخاص ہزار سال کے لئے آسمان سے بادشاہوں، کاہنوں اور قاضیوں کے طور پر خدمت انجام دیں گے۔ (مکا ۲۰:۴) لیکن وہ کن کا انصاف کریں گے اور کن پر حکمرانی کریں گے؟ متی ۱۹:۲۸ اور لو ۲۲:۳۰ میں بتایا گیا ہے کہ وہ ”اؔسرائیل کے بارہ قبیلوں“ کا انصاف کریں گے۔ اِن آیات میں ’اسرائیل کے بارہ قبیلے‘ کس کی عکاسی کرتے ہیں؟ وہ زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھنے والوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان رکھتے ہیں مگر شاہی کاہنوں کی جماعت میں شامل نہیں ہیں۔a اِن آیات کے مطابق اسرائیل کے ۱۲ قبیلے اُن لوگوں کی عکاسی کرتے ہیں جنہیں ایک لاکھ ۴۴ ہزار کاہنوں کی خدمت سے روحانی برکات حاصل ہوں گی۔ خدا بھی اِن سے محبت کرتا ہے اور اِنہیں اپنے لوگوں کے طور پر قبول کرتا ہے۔ اِس لئے اُنہیں قدیم اسرائیل سے تشبِیہ دینا مناسب ہے۔
۷ لہٰذا، یہ موزوں ہے کہ یوحنا رسول نے رویا میں ایک لاکھ ۴۴ ہزار روحانی اسرائیلیوں پر بڑی مصیبت سے پہلے حتمی مہر ہوتے ہوئے دیکھا۔ پھر اِسی رویا میں اُس نے ایک ”بڑی بِھیڑ“ کو بھی دیکھا جو ”ہر ایک قوم“ سے نکل کر آئی ہے۔ (مکا ۷:۹) یہ ”بڑی بِھیڑ“ بڑی مصیبت سے بچ کر مسیح کی ہزار سالہ حکومت میں داخل ہو گی۔ اُس وقت کروڑوں لوگ مُردوں میں سے زندہ ہو کر اِن کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ (یوح ۵:۲۸، ۲۹؛ مکا ۲۰:۱۳) پھر یہ سب مل کر ”اؔسرائیل کے بارہ قبیلوں“ کو تشکیل دیں گے جن کا انصاف یسوع مسیح اور اُس کے ایک لاکھ ۴۴ ہزار ساتھی کریں گے۔—اعما ۱۷:۳۱؛ ۲۴:۱۵؛ مکا ۲۰:۱۲۔
۸. سالانہ یومِکفارہ پر ہونے والے واقعات ایک لاکھ ۴۴ ہزار اور باقی انسانوں کے درمیان تعلق کا عکس کیسے پیش کرتے ہیں؟
۸ سالانہ یومِکفارہ پر ہونے والے واقعات ایک لاکھ ۴۴ ہزار اور دیگر انسانوں کے درمیان تعلق کا عکس پیش کرتے ہیں۔ (احبا ۱۶:۶-۱۰) اِس موقع پر سردار کاہن سب سے پہلے ”اپنے اور اپنے گھر کے لئے“ خطا کی قربانی کے طور پر ایک بچھڑا قربان کرتا تھا۔ اِسی طرح یسوع مسیح کی قربانی کا فائدہ پہلے اُن کاہنوں کو پہنچتا ہے جو اُس کے ساتھ آسمان پر خدمت کریں گے۔ یومِکفارہ پر باقی اسرائیلی قوم کے گُناہوں کے لئے دو بکرے قربان کئے جاتے تھے۔ یومِکفارہ پر کئے جانے والے انتظام میں کاہنوں کا قبیلہ ایک لاکھ ۴۴ ہزار کی عکاسی کرتا ہے جبکہ باقی اسرائیلی قوم زمین پر زندگی کی اُمید رکھنے والوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ”اسرائیل کے بارہ قبیلوں“ کا ذکر آتا ہے تو یہ یسوع کے ممسوح کاہنوں کی طرف نہیں بلکہ اُن تمام لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو اُس کی قربانی پر ایمان لاتے ہیں۔b
۹. ہیکل کی رویا میں کاہن اور باقی اسرائیلی کس کی عکاسی کرتے ہیں؟
۹ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ حزقیایل نبی نے رویا میں یہوواہ خدا کی ہیکل کو دیکھا۔ (حز ۴۰-۴۸ ابواب) اِس رویا میں دکھایا جاتا ہے کہ کاہن ہیکل میں خدمت کر رہے ہیں۔ وہ دوسروں کو سکھاتے ہیں اور خود بھی یہوواہ خدا سے مشورت اور نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (حز ۴۴:۲۳-۳۱) یہی رویا ظاہر کرتی ہے کہ مختلف قبیلوں سے دوسرے لوگ بھی وہاں آکر عبادت کرتے اور قربانیاں گذرانتے ہیں۔ (حز ۴۵:۱۶، ۱۷) اِس رویا میں کاہن ممسوح مسیحیوں کی عکاسی کرتے ہیں جبکہ باقی اسرائیلی زمینی زندگی کی اُمید رکھنے والوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ رویا اِس بات کو اُجاگر کرتی ہے کہ دونوں گروہ مل کر کام کرتے ہیں۔ مگر کاہن سچی عبادت کرنے میں پیشوائی کرتے ہیں۔
۱۰، ۱۱. (ا) یسوع کی بات کیسے پوری ہوئی ہے جس سے ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے؟ (ب) بڑی بِھیڑ کے متعلق کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟
۱۰ یسوع مسیح نے کہا کہ میری ”اَور بھی بھیڑیں“ ہیں جو اِس ”بھیڑخانہ“ یعنی ممسوح مسیحیوں کے ”چھوٹے گلّے“ میں شامل نہیں۔ (یوح ۱۰:۱۶؛ لو ۱۲:۳۲) اُس نے کہا: ”مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی۔ پھر ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا۔“ یسوع مسیح کی یہ بات واقعی پوری ہوئی ہے جس سے ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ آجکل ممسوح مسیحیوں کا ایک چھوٹا گروہ اور بڑی بِھیڑ مل کر عبادت کر رہے ہیں۔ (زکریاہ ۸:۲۳ کو پڑھیں۔) مگر بڑی بِھیڑ روحانی ہیکل کے اندرونی صحن میں نہیں بلکہ بیرونی صحن میں خدمت کرتی ہے۔
۱۱ پس ہم نے دیکھا کہ کاہنوں کا قبیلہ ایک لاکھ ۴۴ ہزار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بعضاوقات باقی اسرائیلی بڑی بِھیڑ کی عکاسی کرتے ہیں۔ تو پھر کیا زمین پر ابدی زندگی کی اُمید رکھنے والوں کو مسیح کی موت کی یادگاری پر روٹی اور مے میں سے بھی لینا چاہئے؟ اب ہم اِس سوال کے جواب پر غور کریں گے۔
نیا عہد
۱۲. یہوواہ خدا نے کس نئے انتظام کا ذکر کِیا؟
۱۲ یہوواہ خدا نے اپنے لوگوں کے لئے ایک نئے انتظام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ وہ عہد ہے جو مَیں اُن دِنوں کے بعد اؔسرائیل کے گھرانے سے باندھوں گا۔ . . . مَیں اپنی شریعت اُن کے باطن میں رکھوں گا اور اُن کے دل پر اُسے لکھوں گا اور مَیں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے۔“ (یرم ۳۱:۳۱-۳۳) اِس نئے عہد کے ذریعے ابرہام کے ساتھ یہوواہ خدا کا وعدہ ایک شاندار طریقے سے پورا ہونا تھا۔—پیدائش ۲۲:۱۸ کو پڑھیں۔
۱۳، ۱۴. (ا) نئے عہد میں کون شریک ہوتے ہیں؟ (ب) کون اِس نئے عہد سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور وہ اِس پر کیسے ”قائم“ رہتے ہیں؟
۱۳ یسوع نے بھی اپنی موت سے پہلے کی رات اِس نئے عہد کا ذکر کِیا۔ اُس نے کہا: ”یہ پیالہ میرے اُس خون میں نیا عہد ہے جو تمہارے واسطے بہایا جاتا ہے۔“ (لو ۲۲:۲۰؛ ۱-کر ۱۱:۲۵) کیا تمام مسیحی اِس نئے عہد میں شامل ہیں؟ جینہیں۔ یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ اِس نئے عہد میں صرف کچھ مسیحی شریک ہوں گے جیسےکہ اُس کے رسول جنہوں نے اُس رات اُس پیالے میں سے پیا تھا۔c یسوع مسیح نے اُن سے ایک اَور عہد بھی کِیا جس کے مطابق وہ اُس کے ساتھ مل کر بادشاہی کریں گے۔—لو ۲۲:۱۵، ۱۶،۲۸-۳۰۔
۱۴ لیکن کیا یسوع مسیح کی بادشاہی کے تحت زمین پر رہنے والے لوگ اِس عہد میں شریک ہوتے ہیں؟ جینہیں۔ وہ اِس نئے عہد میں شریک تو نہیں ہوتے مگر اِس سے فائدہ ضرور حاصل کرتے ہیں۔ (گل ۳:۸، ۹) اِن کے متعلق یسعیاہ نبی نے یوں بیان کِیا: ”بیگانہ کی اولاد بھی جنہوں نے اپنےآپ کو [یہوواہ] سے پیوستہ کِیا ہے کہ اُس کی خدمت کریں اور [یہوواہ] کے نام کو عزیز رکھیں اور اُس کے بندے ہوں۔ وہ سب جو سبت کو حفظ کرکے اُسے ناپاک نہ کریں اور میرے عہد پر قائم رہیں۔ مَیں اُن کو بھی اپنے کوہِمُقدس پر لاؤں گا اور اپنی عبادتگاہ میں اُن کو شادمان کروں گا . . . میرا گھر سب لوگوں کی عبادتگاہ کہلائے گا۔“ (یسع ۵۶:۶، ۷) اگرچہ یہ لوگ نئے عہد میں شریک نہیں توبھی یہ اِس کی شرائط کو پورا کرنے سے اِس پر ”قائم“ رہتے ہیں۔
روٹی اور مے میں سے لینے کا حق کس کا ہے؟
۱۵، ۱۶. (ا) پولس رسول کے مطابق نئے عہد میں شریک ہونے والوں کو کونسا شرف حاصل ہوتا ہے؟ (ب) زمینی اُمید رکھنے والوں کو روٹی اور مے میں سے کیوں نہیں لینا چاہئے؟
۱۵ نئے عہد میں شریک ہونے والوں کو ”پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری ہے۔“ (عبرانیوں ۱۰:۱۵-۲۰ کو پڑھیں۔) اِن لوگوں کو ایسی ”بادشاہی“ ملے گی ”جو ہلنے کی نہیں۔“ (عبر ۱۲:۲۸) لہٰذا، یسوع مسیح کے ساتھ آسمان پر بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر خدمت کرنے والوں کو ہی اُس ”پیالے“ سے پینے کا حق حاصل ہے جو نئے عہد کی علامت ہے۔ اِس نئے عہد میں شریک ہونے والے برّہ کی دُلہن بنیں گے۔ (۲-کر ۱۱:۲؛ مکا ۲۱:۲، ۹) یسوع مسیح کی یادگاری پر حاضر ہونے والے باقی تمام لوگ روٹی اور مے میں سے نہیں لیتے۔
۱۶ پولس بھی اِس بات کو واضح کرتا ہے کہ زمین پر زندگی کی اُمید رکھنے والے لوگ روٹی اور مے میں سے نہیں لیتے۔ اُس نے ممسوح مسیحیوں سے کہا: ”جب کبھی تُم یہ روٹی کھاتے اور اِس پیالے میں سے پیتے ہو تو خداوند کی موت کا اظہار کرتے ہو۔ جب تک وہ نہ آئے۔“ (۱-کر ۱۱:۲۶) خداوند یسوع کب ’آتا‘ ہے؟ اِس آیت میں یسوع کا آنا اُس وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ اپنی دُلہن جماعت کے آخری رُکن کو آسمان پر لے جاتا ہے۔ (یوح ۱۴:۲، ۳) لہٰذا، عورت کی ”باقی“ اولاد یعنی ممسوح بقیہ اُس وقت تک خداوند کے عشائیے میں شریک ہوتا رہے گا جب تک کہ وہ آسمان پر نہیں چلا جاتا۔ (مکا ۱۲:۱۷) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کی موت کی یادگاری ہمیشہ تک نہیں منائی جائے گی۔ اگر زمین پر زندگی کی اُمید رکھنے والوں کے لئے روٹی اور مے میں سے لینا ضروری ہوتا تو یہ یادگاری بھی ہمیشہ تک منائی جاتی۔
وہ ”میری اُمت“ ہوں گے
۱۷، ۱۸. حزقیایل ۳۷:۲۶، ۲۷ میں درج پیشینگوئی کیسے پوری ہوئی ہے؟
۱۷ یہوواہ خدا نے اپنے لوگوں میں پائے جانے والے اتحاد کو یوں بیان کِیا: ”مَیں اُن کے ساتھ سلامتی کا عہد باندھوں گا جو اُن کے ساتھ ابدی عہد ہوگا اور مَیں اُن کو بساؤں گا اور فراوانی بخشوں گا اور اُن کے درمیان اپنے مقدِس کو ہمیشہ کے لئے قائم کروں گا۔ میرا خیمہ بھی اُن کے ساتھ ہوگا۔ مَیں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے۔“—حز ۳۷:۲۶، ۲۷۔
۱۸ سلامتی کے اِس عہد سے خدا کے تمام خادموں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جیہاں، یہوواہ خدا اپنے تمام وفادار خادموں سے سلامتی کا وعدہ کرتا ہے۔ کیونکہ اُن میں خدا کی پاک رُوح کا پھل صاف نظر آتا ہے۔ یہوواہ کا مقدِس اُن کے درمیان ہے جس سے مُراد سچی عبادت ہے۔ وہ ہر طرح کی بُتپرستی کو چھوڑ کر صرف یہوواہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیں۔ یوں وہ اُس کی اُمت بن گئے ہیں۔
۱۹، ۲۰. (ا) یہوواہ خدا کی ”اُمت“ میں کون لوگ شامل ہوتے ہیں؟ (ب) نئے عہد سے کیا ممکن ہوتا ہے؟
۱۹ اِس وقت ممسوح مسیحیوں اور بڑی بِھیڑ کو اکٹھے عبادت کرتے ہوئے دیکھنا کتنی خوشی کی بات ہے! اگرچہ بڑی بِھیڑ آسمان پر جانے کی اُمید نہیں رکھتی توبھی وہ اُن لوگوں کے ساتھ خدمت کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے جو آسمان پر جائیں گے۔ اُنہوں نے خدا کے اسرائیل کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ اُن لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں جنہیں یہوواہ اپنی ”اُمت“ سمجھتا ہے۔ یہ پیشینگوئی اِنہی لوگوں کے حق میں پوری ہوتی ہے کہ ’اُس وقت بہت سی قومیں یہوواہ سے میل کریں گی اور اُس کی اُمت ہوں گی اور وہ اُن میں سکونت کرے گا۔‘—زک ۲:۱۱؛ ۸:۲۱؛ یسعیاہ ۶۵:۲۲؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴ کو پڑھیں۔
۲۰ یہوواہ خدا نے یہ سب کچھ نئے عہد کے ذریعے کرنے کا بندوبست کِیا ہے۔ مختلف قوموں سے لاکھوں لوگ یہوواہ خدا کی قوم میں شامل ہو گئے ہیں جسے اُس کی برکت حاصل ہے۔ (میک ۴:۱-۵) وہ نئے عہد کے تمام انتظامات کو قبول کرتے اور اِس کی شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ یوں وہ اِس عہد پر قائم رہنے کا عزم کرتے ہیں اور سلامتی میں رہتے ہیں۔ (یسع ۵۶:۶، ۷) دُعا ہے کہ خدا کے اسرائیل کے ساتھ مل کر آپ بھی اب اور ہمیشہ تک سلامتی میں رہیں۔
[فٹنوٹ]
a دلچسپی کی بات ہے کہ قدیم اسرائیل کے ۱۲ قبیلوں کی فہرست میں لاوی کا قبیلہ شامل نہیں تھا۔
b ویسے تو”کلیسیا“ ممسوح مسیحیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ (عبر ۱۲:۲۳) تاہم، لفظ ”کلیسیا“ تمام مسیحیوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے خواہ اُن کی اُمید آسمانی ہو یا زمینی۔—مئی ۱، ۲۰۰۷ کے مینارِنگہبانی میں صفحہ ۹-۱۱ کو دیکھیں۔
c یسوع اِس نئے عہد میں شریک نہیں ہوتا بلکہ وہ اِس کا درمیانی ہے۔ اِس لئے درمیانی کے طور پر اُسے روٹی اور مے میں سے لینے کی ضرورت نہیں تھی۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• ’اسرائیل کے بارہ قبیلے‘ کون ہیں جن کا انصاف ایک لاکھ ۴۴ ہزار کریں گے؟
• ممسوح مسیحیوں اور بڑی بِھیڑ کا نئے عہد سے کیا تعلق ہے؟
• کیا تمام مسیحیوں کو روٹی اور مے میں سے لینے کا حق حاصل ہے؟
• ہمارے زمانے کے لئے کس اتحاد اور سلامتی کی پیشینگوئی کی گئی تھی؟
[صفحہ ۲۵ پر گراف/تصویریں]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
بہت سے لوگ خدا کے اسرائیل کے ساتھ مل کر خدمت کر رہے ہیں
۱۹۵۰ | ۳،۷۳،۴۳۰
۱۹۷۰ | ۱۴،۸۳،۴۳۰
۱۹۹۰ | ۴۰،۱۷،۲۱۳
۲۰۰۹ | ۷۳،۱۳،۱۷۳