نجات یہوواہ کی طرف سے ہے
”خدائےبرحق ہماری خاطر نجاتبخش کام کرنے والا خدا ہے۔“—زبور ۶۸:۲۰، اینڈبلیو۔
۱، ۲. (ا) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ نجات کا ماخذ ہے؟ (ب) آپ امثال ۲۱:۳۱ کی وضاحت کیسے کرینگے؟
یہوواہ ایسے انسانوں کا نجاتدہندہ ہے جو اُس سے محبت کرتے ہیں۔ (یسعیاہ ۴۳:۱۱) اسرائیل کا نامور بادشاہ داؤد اس بات کو ذاتی تجربے سے جانتا تھا اسی لئے اُس نے تہِدل سے گیت میں اسکا اظہار کِیا: ”نجات خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کی طرف سے ہے۔“ (زبور ۳:۸) یوناہ نبی نے بھی دیوہیکل مچھلی کے پیٹ سے مخلصانہ دُعا میں یہی الفاظ کہے تھے۔—یوناہ ۲:۹۔
۲ داؤد کا بیٹا سلیمان بھی اس حقیقت سے واقف تھا کہ یہوواہ ہی نجات کا ماخذ ہے اسلئے اُس نے کہا: ”جنگ کے دن کیلئے گھوڑا تو تیار کِیا جاتا ہے لیکن فتحیابی خداوند [”نجات یہوواہ،“ اینڈبلیو] کی طرف سے ہے۔“ (امثال ۲۱:۳۱) قدیم مشرقِوسطیٰ میں بیل ہل چلاتے، گدھے باربرداری کرتے، لوگ خچروں پر سواری کرتے اور گھوڑے جنگ میں استعمال کئے جاتے تھے۔ تاہم، اسرائیلیوں کے ملکِموعود میں داخل ہونے سے پہلے خدا نے اُنہیں حکم دیا کہ اُن کا آئندہ بادشاہ ”اپنے لئے بہت گھوڑے نہ بڑھائے۔“ (استثنا ۱۷:۱۶) جنگی گھوڑوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ یہوواہ اپنے لوگوں کو بچائیگا۔
۳. کونسے سوالات ہماری توجہ کے مستحق ہیں؟
۳ حاکمِاعلیٰ یہوواہ ”نجاتبخش کام کرنے والا خدا“ ہے۔ (زبور ۶۸:۲۰) کیا ہی حوصلہافزا خیال! البتہ یہوواہ نے کونسے ”نجاتبخش کام“ انجام دئے ہیں؟ نیز اُس نے کن لوگوں کو بچایا ہے؟
یہوواہ راسترَو کو بچاتا ہے
۴. ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خداپرست لوگوں کو بچاتا ہے؟
۴ راسترَوی کے طالب خدا کے تمام مخصوصشُدہ خادم پطرس رسول کے ان الفاظ سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں: ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] دینداروں کو آزمایش سے نکال لینا اور بدکاروں کو عدالت کے دن تک سزا میں رکھنا جانتا ہے۔“ اس بات کی تصدیق کیلئے پطرس نے بیان کِیا کہ خدا نے ”نہ پہلی دُنیا کو چھوڑا بلکہ بےدین دُنیا پر طوفان بھیج کر راستبازی کے منادی کرنے والے نوؔح کو مع اَور سات آدمیوں کے بچا لیا۔“—۲-پطرس ۲:۵، ۹۔
۵. کن حالات کے تحت نوح نے ”راستبازی کے منادی کرنے والے“ کے طور پر خدمت انجام دی تھی؟
۵ تصور کریں کہ آپ نوح کے زمانے کے حالات میں گھرے ہوئے ہیں۔ مادی جسم اختیار کرنے والے شیاطین زمین پر موجود ہیں۔ ان نافرمان فرشتوں کی اولاد لوگوں پر بہت ستم کرتی ہے جسکی وجہ سے ’زمین تشدد سے پُر ہے۔‘ (پیدایش ۶:۱-۱۲) تاہم، نوح کو زبردستی یہوواہ کی خدمت سے منحرف نہیں کِیا جا سکتا۔ اسکے برعکس، وہ ”راستبازی [کا] منادی کرنے والا“ ہے۔ اُس نے اپنے خاندان کیساتھ ملکر ایک بہت بڑی کشتی بنائی ہے اور کبھی بھی اس بات پر شک نہیں کِیا کہ اُنکی زندگی میں ہی بدکاری کا خاتمہ کر دیا جائیگا۔ نوح کا ایمان اُس دُنیا کو مجرم ٹھہراتا ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۷) موجودہ حالتیں نوح کے زمانہ جیسی ہیں جن سے اس بدکار نظامالعمل کے آخری ایّام کی نشاندہی ہوتی ہے۔ (متی ۲۴:۳۷-۳۹؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) پس، یہوواہ کی نجات کے انتظار میں خدا کے لوگوں کیساتھ خدمت کرتے ہوئے کیا آپ نوح کی طرح راستبازی کے وفادار مناد ثابت ہونگے؟
۶. ۲-پطرس ۲:۷، ۸ کیسے ثابت کرتی ہیں کہ یہوواہ راسترَو کو بچاتا ہے؟
۶ پطرس یہوواہ کے راسترَو کو بچانے کی بابت مزید ثبوت پیش کرتا ہے۔ رسول بیان کرتا ہے: ”[خدا نے] راستباز لوؔط کو جو بےدینوں کے ناپاک چالچلن سے دق تھا رہائی بخشی۔ (چنانچہ وہ راستباز اُن میں رہ کر اور ان کے بےشرع کاموں کو دیکھ دیکھ کر اور سن سن کر گویا ہر روز اپنے سچے دل کو شکنجہ میں کھینچتا تھا)۔“ (۲-پطرس ۲:۷، ۸؛ پیدایش ۱۹:۱-۲۹) ان آخری ایّام میں لاکھوں لوگوں نے جنسی بداخلاقی کو اپنا طرزِزندگی بنا لیا ہے۔ کیا لوط کی طرح، آپ آجکل اتنے زیادہ انسانوں کے ’ناپاک چالچلن سے دق‘ ہیں؟ اگر آپ ایسا محسوس کرتے اور راستبازی کو عمل میں لاتے ہیں تو آپ بھی اُن لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جنہیں یہوواہ اس بدکار نظام کے خاتمے سے بچاتا ہے۔
یہوواہ اپنے لوگوں کو ظالموں سے بچاتا ہے
۷. مصر میں اسرائیلیوں کے ساتھ یہوواہ کے برتاؤ سے کیسے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو ظلم سے چھڑاتا ہے؟
۷ جب تک یہ فرسودہ نظام باقی ہے یہوواہ کے خادم اذیت اور دشمنوں کے ظلم کا نشانہ بنتے رہینگے۔ تاہم وہ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اُنہیں چھڑائیگا کیونکہ ماضی میں بھی اُس نے اپنے مظلوم لوگوں کو بچایا تھا۔ فرض کریں کہ آپ موسیٰ کے زمانے میں مصریوں کے ہاتھوں ظلم اُٹھانے والے ایک اسرائیلی ہیں۔ (خروج ۱:۱-۱۴؛ ۶:۸) خدا مصر پر یکےبعددیگرے کئی آفات نازل کرتا ہے۔ (خروج ۸:۵–۱۰:۲۹) جب جان سے مارنے والی دسویں آفت سے مصری پہلوٹھے مرنے لگتے ہیں تو فرعون اسرائیل کو جانے دیتا ہے مگر بعدازاں اپنی فوج اکٹھی کرکے اُنکے تعاقب میں نکل پڑتا ہے۔ تاہم، جلد ہی وہ اور اُسکا لشکر بحرِقلزم میں غرق ہو جاتے ہیں۔ (خروج ۱۴:۲۳-۲۸) آپ موسیٰ اور تمام اسرائیل کیساتھ ملکر یہ گیت گانے میں شریک ہو جاتے ہیں: ”خداوند صاحبِجنگ ہے۔ یہوؔواہ اُسکا نام ہے۔ فرؔعون کے رتھوں اور لشکر کو اُس نے سمندر میں ڈالدیا اور اُسکے چیدہ سردار بحرِقلزؔم میں غرق ہوئے۔ گہرے پانی نے انکو چھپا لیا۔ وہ پتھر کی مانند تہہ میں چلے گئے۔“ (خروج ۱۵:۳-۵) ان آخری ایّام میں ایسی ہی تباہی خدا کے لوگوں پر ظلم ڈھانے والوں کی منتظر ہے۔
۸، ۹. قضاۃ کی کتاب سے ایک مثال دیں جس سے یہ ثابت ہو کہ یہوواہ اپنے لوگوں کو ظلم سے بچاتا ہے۔
۸ ملکِموعود میں داخل ہونے کے بعد کئی سال تک قاضی اسرائیلیوں کا انصاف کِیا کرتے تھے۔ اگرچہ بعضاوقات لوگ غیراقوام کے ظلم کا نشانہ بنے مگر خدا نے اُنہیں وفادار قاضیوں کے ذریعے چھڑا لیا۔ اسی طرح ممکن ہے کہ ہم ’ظالموں اور دُکھ دینے والوں کے باعث کڑھتے‘ ہوں مگر یہوواہ ہمیں بھی اپنے وفادار خادموں کے طور پر بچا لیگا۔ (قضاۃ ۲:۱۶-۱۸؛ ۳:۹، ۱۵) دراصل، بائبل میں قضاۃ کی کتاب ہمیں نہ صرف اسکا بلکہ اس سے بھی بڑی نجات کا یقین دلاتی ہے جو خدا اپنے مقررہ قاضی، یسوع مسیح کے وسیلے عطا کریگا۔
۹ آئیے قاضی برق کے زمانے میں چلیں۔ جھوٹی پرستش اور الہٰی ناپسندیدگی کے باعث اسرائیلی ۲۰ سال سے کنعانی بادشاہ یابین کے جابرانہ تسلط میں ہیں۔ سیسرا بہت بڑے کنعانی لشکر کا سردار ہے۔ تاہم، ’چالیس ہزار اسرائیلیوں میں بھی کوئی ڈھال یا برچھی دکھائی نہیں دیتی‘ جبکہ قوم کی تعداد تقریباً چالیس لاکھ ہے۔ (قضاۃ ۵:۶-۸) اسرائیلی تائب ہوکر یہوواہ کو پکارتے ہیں۔ دبورہ نبِیّہ کے ذریعے خدا سے ہدایت پاکر برق کوہِتبور پر ۱۰،۰۰۰ آدمی جمع کرتا ہے جبکہ یہوواہ دشمن کو بلند تبور کی زیریں وادی میں کھینچ لاتا ہے۔ سیسرا کے لشکر اور ۹۰۰ جنگی رتھ گرجتے ہوئے میدان اور خشک دریائےقیسون سے گزرتے ہیں۔ تاہم طوفانی بارش سے قیسون میں سیلاب آ جاتا ہے۔ برق اور اُسکے آدمی طوفان کی اوٹ میں کوہِتبور سے نیچے اُترتے ہوئے یہوواہ کے بےقابو غضب سے برپا ہونے والی افراتفری دیکھتے ہیں۔ برق کے آدمی خوفزدہ ہوکر بھاگنے والے کنعانیوں کو ایک ایک کرکے آ لیتے ہیں اور یوں اُن میں سے کوئی بھی نہیں بچتا۔ ہم پر ظلم کرنے والوں کیلئے یہ کتنی بڑی آگاہی ہے جو خدا سے لڑنے کی جرأت کرتے ہیں!—قضاۃ ۴:۳-۱۶؛ ۵:۱۹-۲۲۔
۱۰. ہم کیسے یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا اپنے دورِحاضر کے خادموں کو اُن پر ظلم ڈھانے والے تمام لوگوں سے بچائیگا؟
۱۰ جس طرح یہوواہ نے خداترس اسرائیل کو مصیبت کے وقت بچایا تھا ویسے ہی وہ اپنے دورِحاضر کے خادموں کو تمام ظالم دشمنوں سے بچائے گا۔ (یسعیاہ ۴۳:۳؛ یرمیاہ ۱۴:۸) خدا نے داؤد کو ”اُس کے سب دشمنوں . . . کے ہاتھ“ سے چھڑایا تھا۔ (۲-سموئیل ۲۲:۱-۳) لہٰذا یہوواہ کے لوگوں کے طور پر ظلم اور اذیت کا نشانہ بننے کے باوجود ہمیں حوصلہ رکھنا چاہئے کیونکہ اُسکا مسیحائی بادشاہ ہمیں ظلم سے رہائی بخشے گا۔ جیہاں، ”وہ . . . محتاجوں کی جان کو بچائیگا۔ وہ فدیہ دیکر اُن کی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائیگا۔“ (زبور ۷۲:۱۳، ۱۴) ایسا چھٹکارا واقعی قریب ہے۔
یہوواہ اپنے توکل کرنے والوں کو بچاتا ہے
۱۱. نوجوان داؤد یہوواہ پر بھروسے کا کیا نمونہ فراہم کرتا ہے؟
۱۱ یہوواہ کی نجات کو دیکھنے کیلئے ہمیں جرأتمندی سے اُس پر توکل رکھنا چاہئے۔ داؤد جب دیوہیکل جولیت سے لڑنے کے لئے گیا تو اُس نے خدا پر ایسے ہی جرأتمندانہ بھروسے کا مظاہرہ کِیا تھا۔ تصور کریں کہ یہ طویلالقامت فلستی نوجوان داؤد کے سامنے کھڑا ہے جو اُسے للکارتا ہے: ”تُو تلوار بھالا اور برچھی لئے ہوئے میرے پاس آتا ہے پر مَیں ربالافواج کے نام سے جو اِؔسرائیل کے لشکروں کا خدا ہے جسکی تُو نے فضیحت کی ہے تیرے پاس آتا ہوں۔ اور آج ہی کے دن خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] تجھکو میرے ہاتھ میں کر دیگا اور مَیں تجھ کو مار کر تیرا سر تجھ پر سے اُتار لونگا اور مَیں آج کے دن فلستیوں کے لشکر کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے جنگلی جانوروں کو دونگا تاکہ دُنیا جان لے کہ اِؔسرائیل میں ایک خدا ہے۔ اور یہ ساری جماعت جان لے کہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] تلوار اور بھالے کے ذریعہ سے نہیں بچاتا اِسلئےکہ جنگ تو خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کی ہے۔“ جلد ہی جولیت زمین پر ڈھیر ہو جاتا ہے اور فلستی اُلٹے پاؤں بھاگ جاتے ہیں۔ واقعی، یہوواہ نے اپنے لوگوں کو بچایا تھا۔—۱-سموئیل ۱۷:۴۵-۵۴۔
۱۲. آپ کے خیال میں داؤد کے سورما الیعزر کو یاد رکھنا کیوں فائدہمند ہو سکتا ہے؟
۱۲ اذیت پہنچانے والوں کا سامنا کرتے وقت ہمیں ”ہمت باندھنے“ اور خدا پر بھرپور توکل کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ (یسعیاہ ۴۶:۸-۱۳، اینڈبلیو؛ امثال ۳:۵، ۶) فسدمیم کے مقام کے اس واقعہ پر غور کریں۔ اسرائیلی فلستی فوجوں کے سامنے پسپا ہو گئے ہیں۔ تاہم داؤد کے تین نامور سورماؤں میں سے ایک، الیعزر خوفزدہ نہیں ہے۔ وہ جَو کے ایک کھیت میں اپنی جگہ سنبھال کر تنتنہا فلستیوں کو تہِتیغ کر دیتا ہے۔ یوں ’یہوواہ اِسرائیل کو بڑی نجات بخشتا ہے۔‘ (۱-تواریخ ۱۱:۱۲-۱۴؛ ۲-سموئیل ۲۳:۹، ۱۰) ہم میں سے کوئی بھی کسی پوری فوج سے تنہا لڑنے کی توقع نہیں کرتا۔ پھربھی بعضاوقات ہم تنہا دشمنوں کے دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کیا ہم نجاتبخش کام کرنے والے خدا، یہوواہ پر عقیدتمندی سے بھروسہ کرینگے؟ کیا ہم ساتھی ایمانداروں کو اذیت پہنچانے والوں کے حوالے کرنے سے بچنے کیلئے اُسکی مدد کے طالب ہونگے؟
یہوواہ راستی برقرار رکھنے والوں کو بچاتا ہے
۱۳. اسرائیل کی دس قبائلی سلطنت میں خدا کیلئے راستی برقرار رکھنا مشکل کیوں تھا؟
۱۳ یہوواہ کی نجات کا تجربہ کرنے کی خاطر ہمیں اُس کے لئے ہر قیمت پر راستی برقرار رکھنی چاہئے۔ خدا کے قدیمی لوگوں نے مختلف آزمائشوں کا تجربہ کِیا۔ ذرا سوچیں کہ اگر آپ اسرائیل کی دس قبائیلی سلطنت میں رہ رہے ہوتے تو آپ نے کیسی صورتحال کا سامنا کِیا ہوتا۔ رحبعام کے جبر سے تنگ آ کر دس قبیلوں نے اُس کی حمایت چھوڑ دی اور اسرائیل کی شمالی سلطنت کو تشکیل دیا۔ (۲-تواریخ ۱۰:۱۶، ۱۷؛ ۱۱:۱۳، ۱۴) اس کے کئی بادشاہوں میں سے صرف یاہو اچھا نکلا مگر اُس نے بھی ’اپنے سارے دل سے یہوواہ کی شریعت پر عمل نہ کِیا۔‘ (۲-سلاطین ۱۰:۳۰، ۳۱) تاہم، دس قبائلی سلطنت میں راستی برقرار رکھنے والے بھی تھے۔ (۱-سلاطین ۱۹:۱۸) اُنہوں نے خدا پر ایمان کا مظاہرہ کِیا اس لئے اُس نے بھی اُن کا ساتھ دیا۔ اپنے ایمان کی آزمائشوں کے باوجود کیا آپ یہوواہ کے لئے راستی برقرار رکھے ہوئے ہیں؟
۱۴. حزقیاہ بادشاہ کے زمانے میں یہوواہ نے کیسے نجات بخشی اور کیا چیز یہوداہ پر بابلی فتح کا باعث بنی؟
۱۴ خدا کی شریعت کی عام بےحُرمتی اسرائیل کی سلطنت پر آفت لے آئی۔ جب اسوریوں نے ۷۴۰ ق.س.ع. میں اسے فتح کِیا تو بِلاشُبہ دس قبیلوں کے کچھ باشندے یہوداہ کی دو قبائلی سلطنت کو بھاگ گئے جہاں وہ یہوواہ کی ہیکل میں اُس کی پرستش جاری رکھ سکتے تھے۔ داؤد کے خاندان سے یہوداہ کے ۱۹ بادشاہوں میں سے چار—آسا، یہوسفط، حزقیاہ اور یوسیاہ—خدا کیلئے اپنی عقیدت کے باعث نمایاں تھے۔ راستی برقرار رکھنے والے حزقیاہ کے ایّام میں اسوری بہت بڑی فوج لیکر یہوداہ پر چڑھ آئے۔ حزقیاہ کی التجاؤں کے جواب میں خدا نے صرف ایک فرشتے کے ہاتھوں ایک ہی رات میں ۱،۸۵،۰۰۰ اسوریوں کو ہلاک کروا دینے سے اپنے پرستاروں کو نجات بخشی! (یسعیاہ ۳۷:۳۶-۳۸) بعدازاں، لوگوں نے شریعت کی پابندی کرنے اور خدا کے نبیوں کی آگاہیوں پر دھیان دینے میں کوتاہی کی جس کے نتیجے میں بابلیوں نے ۶۰۷ ق.س.ع. میں یہوداہ کو فتح کرکے اسکے دارالحکومت یروشلیم اور ہیکل کو برباد کر دیا۔
۱۵. بابل میں جلاوطن یہودیوں کو برداشت کی ضرورت کیوں تھی اور بالآخر یہوواہ نے مخلصی کی راہ کیسے کھولی؟
۱۵ یہودی جلاوطنوں کو بابلی اسیری کے اندوہناک ۷۰ سالوں کے دوران خدا کیلئے راستی برقرار رکھنے کے سلسلے میں برداشت کی ضرورت تھی۔ (زبور ۱۳۷:۱-۶) راستی برقرار رکھنے والا ایک قابلِذکر شخص دانیایل نبی تھا۔ (دانیایل ۱:۱-۷؛ ۹:۱-۳) جب ۵۳۷ ق.س.ع. میں شاہ فارس خورس کے حکم کے نفاذ کی بدولت یہودیوں کو یہوداہ واپس جاکر ہیکل کو ازسرِنو تعمیر کرنے کی اجازت ملی تو ذرا اُسکی خوشی کا تصور کریں! (عزرا ۱:۱-۴) دانیایل اور دیگر لوگوں نے کئی سال تک مشکلات برداشت کی تھیں مگر آخرکار اُنہیں بابل کے زوال اور یہوواہ کے لوگوں کی مخلصی دیکھنے کا موقع حاصل ہوا۔ اس حقیقت کو ”بڑے . . . بابلؔ“ یعنی جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت کی تباہی کے انتظار میں برداشت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ہماری مدد کرنی چاہئے۔—مکاشفہ ۱۸:۱-۵۔
یہوواہ ہمیشہ اپنے لوگوں کو بچاتا ہے
۱۶. ملکہ آستر کے زمانے میں خدا نے کیسے نجات بخشی؟
۱۶ یہوواہ ہمیشہ اپنے نام کے حامل وفادار لوگوں کو بچاتا ہے۔ (۱-سموئیل ۱۲:۲۲؛ یسعیاہ ۴۳:۱۰-۱۲) اب کچھ لمحوں کے لئے پانچویں صدی ق.س.ع. میں ملکہ آستر کے زمانے کی بابت سوچئے۔ بادشاہ اخسویرس نے ہامان کو وزیرِاعظم بنا رکھا ہے۔ جب مردکی جو یہودی ہے ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو وہ غضبناک ہوکر اُسے اور فارس کی مملکت کے تمام یہودیوں کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ وہ اُنہیں قانونشکن ظاہر کرتا ہے اور بادشاہ کو مالی لالچ دیکر اُنکی ہلاکت کے پروانے پر مہر کرنے کیلئے اُسکی مہردار انگوٹھی حاصل کر لیتا ہے۔ آستر جرأتمندی سے بادشاہ کے سامنے اپنے یہودی حسبنسب کو آشکارا کرتے ہوئے ہامان کی قاتلانہ سازش کا پردہ فاش کر دیتی ہے۔ جلد ہی ہامان کو اُسی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے جو اُس نے مردکی کو سزا دینے کیلئے تیار کروائی تھی۔ یہودیوں کو اپنا دفاع کرنے کی اجازت دینے کے اختیار کیساتھ مردکی کو وزیرِاعظم بنا دیا جاتا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں پر بڑی فتح حاصل کرتے ہیں۔ (آستر ۳:۱–۹:۱۹) اس واقعہ سے ہمارا ایمان مضبوط ہونا چاہئے کہ یہوواہ اپنے دورِحاضر کے فرمانبردار خادموں کی خاطر بھی نجاتبخش کام انجام دیگا۔
۱۷. یہودیہ میں رہنے والے پہلی صدی کے یہودی مسیحیوں کی مخلصی میں فرمانبرداری نے کیا کردار ادا کِیا؟
۱۷ خدا کے اپنے خادموں کو بچانے کی ایک اَور وجہ یہ ہے کہ وہ اُس کی اور اُس کے بیٹے کی اطاعت کرتے ہیں۔ خود کو ذرا یسوع کے پہلی صدی کے یہودی شاگردوں کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں۔ وہ اُنہیں بتاتا ہے: ”جب تم یرؔوشلیم کو فوجوں سے گھرا ہؤا دیکھو تو جان لینا کہ اسکا اجڑ جانا نزدیک ہے۔ اس وقت جو یہوؔدیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔“ (لوقا ۲۱:۲۰-۲۲) سالہاسال گزر جاتے ہیں اور آپ سوچتے ہیں کہ یہ الفاظ کب پورے ہونگے۔ پھر ۶۶ س.ع. میں یہودی بغاوت کر دیتے ہیں۔ رومی فوجیں سیسٹیئس گیلس کی زیرِکمان یروشلیم کو گھیر لیتی ہیں اور ہیکل کی دیواروں تک پہنچ جاتی ہیں۔ اچانک رومی کسی ظاہری وجہ کے بغیر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہودی مسیحی اب کیا کرینگے؟ ایکلیزیایسٹیکل ہسٹری (کتاب سوم، باب پنجم، ۳) میں یوسیبیس بیان کرتا ہے کہ وہ یروشلیم اور یہودیہ سے بھاگ گئے۔ وہ یسوع کی نبوّتی آگاہی پر عمل کرنے کے باعث بچ گئے تھے۔ کیا آپ بھی یسوع کے سارے ”مال“ پر مقرر ”عقلمند داروغہ“ کی طرف سے فراہم کی جانے والی صحیفائی راہنمائی پر ایسے ہی فوراً عمل کرتے ہیں؟—لوقا ۱۲:۴۲-۴۴۔
ابدی زندگی کیلئے نجات
۱۸، ۱۹. (ا) یسوع کی موت نے کس نجات کو ممکن بنایا اور کن کیلئے؟ (ب) پولس رسول کیا کرنے کا عزم رکھتا تھا؟
۱۸ یسوع کی آگاہی پر دھیان دینے سے یہودیہ میں رہنے والے یہودی مسیحیوں کی جانیں بچ گئیں۔ تاہم یسوع کی موت ”سب آدمیوں“ کے واسطے ابدی زندگی کے لئے نجات ممکن بناتی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۰) نوعِانسان کے لئے فدیے کی ضرورت اُس وقت پیدا ہوئی جب آدم نے گناہ کرکے اپنی زندگی کھو دی اور تمام نسلِانسانی کو بھی گناہ اور موت کی غلامی میں بیچ ڈالا۔ (رومیوں ۵:۱۲-۱۹) موسوی شریعت کے تحت پیش کی جانے والی جانوروں کی قربانیاں محض عارضی طور پر گناہوں کی تلافی کرتی تھیں۔ (عبرانیوں ۱۰:۱-۴) یسوع کا کوئی انسانی باپ نہ ہونے کے باعث استقرارِحمل سے یسوع کی پیدائش تک خدا کی روحالقدس نے مریم پر ’سایہ رکھا‘ جس کے نتیجے میں وہ کسی بھی موروثی گناہ یا ناکاملیت سے آزاد پیدا ہوا تھا۔ (لوقا ۱:۳۵؛ یوحنا ۱:۲۹؛ ۱-پطرس ۱:۱۸، ۱۹) جب یسوع کامل راستی برقرار رکھنے والے کے طور پر مرا تو اُس نے نوعِانسان کو دوبارہ خرید کر خلاصی دلانے کے لئے اپنی کامل زندگی دے دی۔ (عبرانیوں ۲:۱۴، ۱۵) یوں مسیح نے ”اپنے آپ کو سب کے فدیہ میں دیا۔“ (۱-تیمتھیس ۲:۵، ۶) نجات کے اس بندوبست سے سب لوگ مستفید نہیں ہونگے بلکہ خدا صرف اُنہی کو اس سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت دیتا ہے جو ایمان سے اسے قبول کرتے ہیں۔
۱۹ آسمان میں خدا کے حضور اپنے فدیے کی قربانی کی قیمت ادا کرکے مسیح نے آدم کی اولاد کو دوبارہ خرید لیا۔ (عبرانیوں ۹:۲۴) اسطرح یسوع آسمانی زندگی کیلئے زندہ ہونے والے ۱،۴۴،۰۰۰ ممسوح پیروکاروں پر مشتمل دلہن حاصل کرتا ہے۔ (افسیوں ۵:۲۵-۲۷؛ مکاشفہ ۱۴:۳، ۴؛ ۲۱:۹) جو لوگ اُسکی قربانی قبول کرکے ابدی زمینی زندگی حاصل کرتے ہیں اُن کیلئے وہ ”ابدیت کا باپ“ بھی بن جاتا ہے۔ (یسعیاہ ۹:۶، ۷؛ ۱-یوحنا ۲:۱، ۲) کیا ہی پُرمحبت بندوبست! اس بندوبست کیلئے پولس کی قدردانی کرنتھس کے مسیحیوں کے نام اُس کے دوسرے الہامی خط سے عیاں ہے جیسےکہ اگلا مضمون ظاہر کریگا۔ دراصل، پولس کا یہ عزمِمُصمم تھا کہ کوئی بھی چیز اُسے یہوواہ کی طرف سے ابدی زندگی کیلئے نجات کی شاندار فراہمی سے مستفید ہونے کیلئے لوگوں کی مدد کرنے سے روک نہ پائے۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻اس بات کا صحیفائی ثبوت کیا ہے کہ خدا اپنے راسترَو لوگوں کو بچاتا ہے؟
◻ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ اُن لوگوں کو بچاتا ہے جو اُس پر توکل کرتے ہیں اور اپنی راستی برقرار رکھتے ہیں؟
◻خدا نے ابدی زندگی کیلئے نجات کا کیا بندوبست کِیا ہے؟
[صفحہ 8 پر تصویر]
داؤد نے ”نجاتبخش کام کرنے والے خدا،“ یہوواہ پر توکل رکھا۔ کیا آپ رکھتے ہیں؟
[صفحہ 10 پر تصویر]
یہوواہ ہمیشہ اپنے لوگوں کو بچاتا ہے جیساکہ اُس نے ملکہ آستر کے زمانہ میں ثابت کِیا