مطالعے کا مضمون نمبر 28
پورا یقین رکھیں کہ جن باتوں پر آپ ایمان لائے ہیں، وہ سچی ہیں
”آپ اُن باتوں پر عمل کرتے رہیں جو آپ نے سیکھی تھیں اور جن پر ایمان لانے کے لیے آپ کو قائل کِیا گیا تھا۔“—2-تیم 3:14۔
گیت نمبر 56: سچائی کو تھام لیں
مضمون پر ایک نظرa
1. جب ہم لفظ ”سچائی“ اِستعمال کرتے ہیں تو ہمارا کیا مطلب ہوتا ہے؟
”آپ نے پاک کلام سے سچائی کیسے سیکھی؟ کیا آپ بچپن سے سچائی سے واقف ہیں؟ آپ کتنے عرصے سے سچائی جانتے ہیں؟“ شاید آپ نے کبھی کسی بہن یا بھائی سے یہ سوال پوچھے ہوں یا پھر ہو سکتا ہے کہ اُن میں سے کسی نے آپ سے یہ سوال پوچھے ہوں۔ لیکن جب ہم لفظ ”سچائی“ اِستعمال کرتے ہیں تو ہمارا کیا مطلب ہوتا ہے؟ عام طور پر ہم یہ لفظ تب اِستعمال کرتے ہیں جب ہم اپنے عقیدوں، اپنی عبادت کرنے کے طریقے یا پھر مسیحیوں کے طور پر اپنی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ جو لوگ سچائی سے واقف ہوتے ہیں، وہ بائبل کی تعلیمات کو جانتے ہیں اور خدا کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ یوں وہ جھوٹے مذاہب کی تعلیمات سے آزاد ہو جاتے ہیں اور شیطان کی دُنیا میں رہنے کے باوجود خوشگوار زندگی گزارنے کے قابل ہوتے ہیں۔—یوح 8:32۔
2. یوحنا 13:34، 35 کے مطابق ایک شخص شاید کس وجہ سے سچائی کی طرف کھنچا چلا آئے؟
2 وہ کون سی چیز تھی جس کی وجہ سے آپ سچائی کی طرف کھنچے چلے آئے؟ شاید یہوواہ کے گواہوں کے اچھے چالچلن نے آپ کے دل پر گہرا اثر کِیا۔ (1-پطر 2:12) یا شاید اُن کی محبت نے آپ کے دل کو چُھو لیا۔ بہت سے لوگ اِس محبت کو اُس وقت ہی محسوس کر لیتے ہیں جب وہ پہلی بار ہمارے اِجلاس پر آتے ہیں۔ اُنہیں اِجلاس میں سکھائی گئی باتیں تو اِتنی یاد نہیں رہتیں لیکن ہماری محبت اُن کے دلودماغ پر چھپ جاتی ہے۔ اور ایسا ہونا کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ اُن کے شاگردوں کی پہچان اُن کی محبت ہوگی۔ (یوحنا 13:34، 35 کو پڑھیں۔) لیکن کیا مضبوط ایمان پیدا کرنے کے لیے صرف محبت ہی کافی ہے یا ہمیں کچھ اَور بھی کرنے کی ضرورت ہے؟
3. اگر ہمارا ایمان صرف اُس محبت پر قائم ہے جو بہن بھائی ایک دوسرے کے لیے ظاہر کرتے ہیں تو اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
3 یہ کیوں ضروری ہے کہ ہمارا ایمان صرف اُس محبت پر نہ ٹکا ہو جو خدا کے بندوں میں پائی جاتی ہے؟ کیونکہ اگر ہمارے ایمان کی بنیاد صرف محبت ہوگی تو یہ آسانی سے کمزور پڑ سکتا ہے۔مثال کے طور پر شاید ہم اُس وقت خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں جب کوئی بہن یا بھائی، یہاں تک کہ کوئی بزرگ یا پہلکار سنگین گُناہ کر بیٹھتا ہے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ ہم اُس وقت خدا سے مُنہ موڑ لیں جب کوئی بہن یا بھائی ہمارا دل دُکھاتا ہے یا کوئی برگشتہ شخص اِس بات پر شک ڈالتا ہے کہ ہم جن باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، وہ سچی ہیں۔ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یہ کہ مضبوط ایمان کی بنیاد یہوواہ کے ساتھ مضبوط دوستی ہونی چاہیے کیونکہ اگر آپ یہوواہ پر صرف اِس لیے ایمان رکھتے ہیں کیونکہ دوسرے بھی ایسا کرتے ہیں تو آپ کا ایمان مضبوط نہیں ہوگا۔ لہٰذا آپ کو اپنے ایمان کا گھر صرف احساسات اور جذبات جیسے کمزور میٹیریل پر ہی نہیں بلکہ ٹھوس حقیقتوں اور دلیلوں پر کھڑا کرنا چاہیے۔ آپ کو خود کو اِس بات پر قائل کرنا چاہیے کہ بائبل میں یہوواہ کے بارے میں سچائی پائی جاتی ہے۔—روم 12:2۔
4. متی 13:3-6، 20، 21 کے مطابق جب کچھ لوگوں کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے تو وہ کیا کرتے ہیں؟
4 یسوع مسیح نے کہا تھا کہ کچھ لوگ پاک کلام کی سچائیوں کو ”خوشی خوشی قبول“ کرتے ہیں لیکن جب اُن پر مصیبت یا اذیت آتی ہے تو وہ اپنے ایمان کو ترک کر دیتے ہیں۔ (متی 13:3-6، 20، 21 کو پڑھیں۔) شاید اِن لوگوں نے اِس بات کو پوری طرح سے نہیں سمجھا ہوتا کہ یسوع کی پیروی کرنے کی وجہ سے اُنہیں مشکلات اور مسئلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (متی 16:24) یا پھر شاید اُنہیں یہ توقع ہوتی ہے کہ مسیحی بننے سے اُن کی زندگی مشکلوں سے آزاد ہو جائے گی اور اُنہیں صرف برکتیں ہی برکتیں ملیں گی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اِس دُنیا میں کوئی بھی شخص مسئلوں اور پریشانیوں سے بچ نہیں سکتا۔ حالات کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری خوشی ماند پڑ سکتی ہے۔—زبور 6:6؛ واعظ 9:11۔
5. ہمارے بہت سے بہن بھائی یہ کیسے ثابت کر رہے ہیں کہ اُنہیں پورا یقین ہے کہ جو کچھ اُنہوں نے سیکھا ہے، وہ بالکل سچ ہے؟
5 ہمارے بہت سے بہن بھائی یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اُنہیں پورا یقین ہے کہ جو کچھ اُنہوں نے سیکھا ہے، وہ بالکل سچ ہے۔ وہ کیسے؟ وہ اپنے ایمان کو اُس وقت بھی کمزور نہیں پڑنے دیتے جب کوئی بہن یا بھائی اُن کا دل دُکھاتا ہے یا کسی ایسے کام میں ملوث ہو جاتا ہے جو خدا کے حکموں کے خلاف ہے۔ (زبور 119:165) اُنہیں جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے، اُن کا ایمان کمزور نہیں بلکہ اَور مضبوط ہو جاتا ہے۔ (یعقو 1:2-4) آپ ایسا مضبوط ایمان کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
”خدا کے بارے میں صحیح علم حاصل کرتے رہیں“
6. پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کے ایمان کی بنیاد کیا تھی؟
6 پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے پاک صحیفوں کا علم حاصل کِیا اور یسوع مسیح کی تعلیمات یعنی”خوشخبری کی سچائی“ کو جانا۔ (گل 2:5) یہ سچائی اُن تمام تعلیمات پر مبنی ہے جو مسیحیوں کے طور پر ہم مانتے ہیں اور اِس میں یہ حقیقتیں بھی شامل ہیں کہ یسوع مسیح نے اپنی جان کو قربان کِیا اور خدا نے اُنہیں مُردوں میں سے زندہ کِیا۔ پولُس رسول کو پورا یقین تھا کہ یہ تعلیمات بالکل سچی ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اُنہوں نے صحیفوں کے ذریعے دوسروں کو قائل کِیا کہ ”مسیح کے لیے ضروری تھا کہ اذیت اُٹھائے اور مُردوں میں سے جی اُٹھے۔“ (اعما 17:2، 3) پہلی صدی عیسوی کے شاگردوں نے اِن تعلیمات کو قبول کِیا اور خدا کے کلام سے اِن سچائیوں کو سمجھنے کے لیے پاک روح پر بھروسا کِیا۔ اُنہوں نے تحقیق کی تاکہ وہ خود کو اِس بات پر قائل کر سکیں کہ جو کچھ وہ سیکھ رہے ہیں، وہ پاک کلام پر مبنی ہے۔ (اعما 17:11، 12؛ عبر 5:14) اُن کا ایمان صرف جذبات اور احساسات پر ہی قائم نہیں تھا اور اُنہوں نے محض اِس وجہ سے یہوواہ کی خدمت نہیں کی کہ اُنہیں اپنے ہمایمانوں سے ملنا جلنا اچھا لگتا تھا۔ اِس کی بجائے اُن کے ایمان کی بنیاد”خدا کے بارے میں صحیح علم“ تھا۔—کُل 1:9، 10۔
7. بائبل کی سچائیوں پر ایمان ہمیں کس قابل بنائے گا؟
7 بائبل میں درج سچائیاں کبھی نہیں بدلتیں۔ (زبور 119:160) مثال کے طور پر جب ہمارا کوئی ہمایمان ہمارا دل دُکھاتا ہے یا کوئی سنگین گُناہ کرتا ہے تو یہ سچائیاں بدل نہیں جاتیں۔ یہ اُس وقت بھی قائمودائم رہتی ہیں جب ہمیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم بائبل کی تعلیمات کو اچھی طرح سے جانیں اور خود کو اِس بات پر قائل کریں کہ یہ تعلیمات بالکل سچی ہیں۔ اگر پاک کلام کی سچائیوں پر ہمارا ایمان مضبوط ہوگا تو ہم مشکل سے مشکل وقت میں بھی یہوواہ کے وفادار رہیں گے۔ آپ اِس بات پر اپنے ایمان کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں کہ جن باتوں کو آپ نے سیکھ لیا ہے، وہ سچی ہیں؟
ایمان لانے کے لیے خود کو قائل کریں
8. دوسرا تیمُتھیُس 3:14، 15 کے مطابق تیمُتھیُس نے اپنے اِس یقین کو کیسے مضبوط کِیا کہ پاک صحیفوں کی تعلیم سچی ہے؟
8 تیمُتھیُس کو اِس بات پر پورا یقین تھا کہ پاک صحیفوں کی تعلیم بالکل سچی ہے۔ اِس یقین کے پیچھے کیا وجہ تھی؟ (2-تیمُتھیُس 3:14، 15 کو پڑھیں۔) تیمُتھیُس نے اپنی ماں اور نانی سے ”پاک صحیفوں“ کا علم حاصل کِیا تھا۔ لیکن وہ صرف اُنہی کی سکھائی ہوئی باتوں پر مطمئن نہیں ہو گئے۔ یقیناً اُنہوں نے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں اَور علم حاصل کرنے کے لیے خود بھی مطالعہ کِیا اور اِس میں بہت سا وقت اور توانائی صرف کی۔ اِس کا اُنہیں کیا فائدہ ہوا؟ وہ اِس بات پر پوری طرح سے ”قائل“ ہو گئے کہ خدا کے کلام میں سچائی ہے۔ بعد میں تیمُتھیُس،اُن کی والدہ اور نانی نے یسوع مسیح کی تعلیمات کے بارے میں سیکھا۔ بِلاشُبہ تیمُتھیُس، یسوع مسیح کے شاگردوں میں پائی جانے والی محبت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے تھے اور اِسی وجہ سے اُن کے دل میں یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزاریں اور اُن کی مدد کریں۔ (فل 2:19، 20) لیکن اُن کے ایمان کی بنیاد صرف بہن بھائیوں کے لیے محبت نہیں تھی بلکہ اُن کا ایمان خدا کے کلام میں پائی جانے والی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی تھا جس کی وجہ سے وہ یہوواہ کے اَور قریب آ گئے تھے۔ تیمُتھیُس کی طرح آپ کو بھی بائبل کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ آپ واضح طور پر دیکھ سکیں کہ پاک کلام میں یہوواہ کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے، وہ بالکل سچ ہے۔
9. آپ کو کم سے کم کن تین بنیادی سچائیوں پر خود کو قائل کرنے کی ضرورت ہے؟
9 آپ شروعات کہاں سے کر سکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو آپ کو کم سے کم تین بنیادی سچائیوں پر خود کو قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی سچائی یہ کہ یہوواہ خدا نے سب چیزوں کو بنایا ہے۔ (خر 3:14، 15؛ عبر 3:4؛ مکا 4:11) دوسری یہ کہ بائبل خدا کی طرف سے تمام اِنسانوں کے لیے پیغام ہے۔ (2-تیم 3:16، 17) اور تیسری یہ کہ یہوواہ نے اپنے بندوں کا ایک منظم گروہ بنایا ہے جو اُس کے بیٹے کی سربراہی میں اُس کی عبادت کر رہا ہے اور اِس گروہ کے لوگ یہوواہ کے گواہ کہلاتے ہیں۔ (یسع 43:10-12؛ یوح 14:6؛ اعما 15:14) خود کو اِن بنیادی سچائیوں پر قائل کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ چلتی پھرتی بائبل بن جائیں۔ دراصل آپ کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ آپ ”اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو اِستعمال میں لا کر“ اِس بات کا یقین کر لیں کہ بائبل میں لکھی باتیں سچی ہیں۔—روم 12:1۔
دوسروں کو قائل کرنے کے لیے تیار رہیں
10. بائبل کی سچائیوں کا علم حاصل کرنے کے علاوہ ہمیں اَور کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
10 جب آپ کو اِس بات پر پورا یقین ہو جاتا ہے کہ خدا، اُس کے کلام اور اُس کے بندوں کے حوالے سے جن تین سچائیوں کا ذکر کِیا گیا ہے، وہ بالکل صحیح ہیں تو آپ کو آگے کیا کرنا چاہیے؟ آپ کو بائبل کے ذریعے دوسروں کو بھی اِن سچائیوں پر قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنا ضروری کیوں ہے؟ کیونکہ مسیحیوں کے طور پر یہ ہماری ذمےداری ہے کہ جو سچائیاں ہم نے سیکھی ہیں، وہ ہم اُن لوگوں کو بھی بتائیں جو ہماری بات سنیں گے۔b (1-تیم 4:16) جب ہم دوسروں کو بائبل کی سچائیوں پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اِن سچائیوں پر ہمارا اپنا ایمان بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔
11. پولُس رسول نے لوگوں کو تعلیم دینے کے سلسلے میں کون سی مثال قائم کی اور ہم اُن سے کیا سیکھتے ہیں؟
11 جب پولُس رسول نے لوگوں کو تعلیم دی تو ”اُنہوں نے موسیٰ کی شریعت اور نبیوں کے صحیفوں سے یسوع کے بارے میں دلیلیں دے کر اُن کو قائل کرنے کی کوشش کی۔“ (اعما 28:23) دوسروں کو سچائی کی تعلیم دیتے وقت ہم پولُس کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ ہمیں اُنہیں صرف یہ نہیں بتانا چاہیے کہ بائبل میں کیا لکھا ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں اُن کی مدد کرنی چاہیے کہ وہ بائبل میں لکھی باتوں پر گہرائی سے سوچ بچار کریں تاکہ وہ یہوواہ کے قریب ہو جائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بائبل کورس کرنے والے لوگ پاک کلام کی سچائیوں کو قبول کریں۔ مگر صرف اِس وجہ سے نہیں کہ وہ ہمیں پسند کرتے یا ہماری عزت کرتے ہیں بلکہ اِس وجہ سے کیونکہ وہ بائبل کا مطالعہ کر کے اِس بات پر قائل ہو گئے ہیں کہ اُنہوں نے شفیق خدا یہوواہ کے بارے میں جو کچھ سیکھا ہے، وہ بالکل سچ ہے۔
12، 13. والدین اپنے بچوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ سچائی پر قائم رہیں؟
12 والدین! یقیناً آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے سچائی پر قائم رہیں۔ شاید آپ کو لگے کہ اگر کلیسیا میں اُن کے اچھے دوست ہوں گے تو اُن کا ایمان زیادہ مضبوط ہوگا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کو اِس سے ضرور فائدہ ہوگا۔ لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچوں کو اِس بات پر پورا یقین ہو کہ بائبل میں لکھی باتیں سچی ہیں تو اُن کے لیے صرف اچھے دوستوں کا ساتھ ہی کافی نہیں ہوگا۔ اُنہیں اِس سے بھی بڑھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنہیں یہوواہ کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم کرنے اور خود کو پاک کلام کی سچائیوں پر قائل کرنے کی ضرورت ہے۔
13 اگر والدین اپنے بچوں کو یہوواہ کے بارے میں سچائی سکھانا چاہتے ہیں تو اُنہیں بائبل کا مطالعہ کرنے کے سلسلے میں اچھی مثال قائم کرنی چاہیے۔ اُنہیں پاک کلام میں لکھی باتوں پر سوچ بچار کرنے کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ پھر وہ اپنے بچوں کو بھی ایسا کرنے کو کہہ سکیں گے۔ جس طرح والدین بائبل کورس کرنے والے اشخاص کو بائبل کا مطالعہ کرنے کے اوزاروں کو اِستعمال کرنا سکھاتے ہیں اُسی طرح اُنہیں اپنے بچوں کو بھی اِن اوزاروں کو اِستعمال کرنا سکھانا چاہیے۔ مثال کے طور پر اُنہیں بچوں کو بتانا چاہیے کہ وہ مطالعہ کرتے وقت ”یہوواہ کے گواہوں کے لئے مطالعے کے حوالے،“ ”یہوواہ کے گواہوں کی آنلائن لائبریری،“ ”جے ڈبلیو لائبریری“ ایپ اور ہماری کتابوں اور ویڈیوز وغیرہ کو کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو اُن کے بچوں کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت پیدا ہوگی اور وہ ”وفادار اور سمجھدار غلام“ پر بھروسا رکھیں گے جسے یہوواہ بائبل کی سچائیاں سمجھانے کے لیے اِستعمال کر رہا ہے۔ (متی 24:45-47) والدین! اپنے بچوں کو صرف بائبل کی بنیادی سچائیاں سکھا کر ہی مطمئن نہ ہو جائیں۔ اِس کی بجائے اُنہیں اُن کی عمر اور صلاحیت کے مطابق ”خدا کی گہری باتوں“ کی بھی تعلیم دیں تاکہ اُن کا ایمان مضبوط ہو۔—1-کُر 2:10۔
بائبل میں درج پیشگوئیوں کا مطالعہ کریں
14. ہمیں بائبل میں درج پیشگوئیوں کا مطالعہ کیوں کرنا چاہیے؟ (بکس ”کیا آپ اِن پیشگوئیوں کی وضاحت کر سکتے ہیں؟“ کو دیکھیں۔)
14 بائبل کی پیشگوئیاں خدا کے کلام کا ایک اہم حصہ ہیں جن پر غور کرنے سے یہوواہ پر ہمارا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔ بائبل کی کن پیشگوئیوں سے آپ کا ایمان مضبوط ہوا ہے؟ شاید آپ کے ذہن میں وہ پیشگوئیاں آئیں جو ”آخری زمانے“کے بارے میں ہیں۔ (2-تیم 3:1-5؛ متی 24:3، 7) لیکن بائبل کی کچھ اَور بھی پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہو چُکی ہیں۔ مثال کے طور پر دانیایل 2 باب اور 11 باب میں درج پیشگوئیاں ماضی میں بھی پوری ہوئیں اور اِس کے کچھ حصے آج بھی پورے ہو رہے ہیں۔c اِس طرح کی پیشگوئیوں پر غور کرنے سے بھی آپ کا ایمان مضبوط ہو سکتا ہے۔اگر آپ کا ایمان بائبل کی مضبوط بنیاد پر کھڑا ہوگا تو یہ کبھی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا۔ آئیں، اِس سلسلے میں کچھ ایسے بہن بھائیوں کی مثال پر غور کریں جنہیں دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی میں سخت اذیت پہنچائی گئی۔ حالانکہ یہ بہن بھائی آخری زمانے کے بارے میں پیشگوئیوں کو پوری طرح سے نہیں سمجھتے تھے لیکن پھر بھی وہ خدا کے کلام پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔
15-17. ہمارے اُن بہن بھائیوں کو بائبل کا مطالعہ کرنے سے طاقت کیسے ملی جنہیں نازیوں کی حکومت نے اذیت پہنچائی؟
15 جب جرمنی پر نازیوں کی حکومت تھی تو ہمارے ہزاروں بہن بھائیوں کو قیدی کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ ہٹلر اور اُس کا ایک اعلیٰ فوجی افسر ہینرک ہملر یہوواہ کے گواہوں سے سخت نفرت کرتا تھا۔ ایک بہن نے بتایا کہ ہملر نے تو ایک قیدی کیمپ میں ہماری بہنوں کے ایک گروہ سے یہ تک کہا: ”آسمان پر تو تمہارے یہوواہ کی حکومت چلتی ہوگی لیکن زمین پر ہماری حکومت چلتی ہے! دیکھ لیتے ہیں کہ کون زیادہ دیر تک ٹکے گا، تُم لوگ یا ہم لوگ۔“ اِس مشکل گھڑی میں یہوواہ کے بندے اُس کے وفادار کیسے رہ پائے؟
16 یہ بائبل سٹوڈنٹس جانتے تھے کہ خدا کی بادشاہت نے 1914ء سے حکمرانی شروع کر دی ہے۔ اِس لیے وہ خود پر آنے والی اذیت سے بالکل حیران نہیں ہوئے۔ یہوواہ کے اِن بندوں کو پورا یقین تھا کہ کوئی بھی اِنسانی حکومت خدا کو اُس کے مقصد میں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔ ہٹلر چاہ کر بھی سچی عبادت کا نامونشان نہیں مٹا پایا یا ایسی حکومت قائم نہیں کر پایا جو خدا کی بادشاہت سے زیادہ زورآور ہوتی۔ ہمارے بہن بھائیوں کو پکا یقین تھا کہ ہٹلر کی حکومت آج نہیں تو کل ضرور ختم ہو جائے گی۔
17 ہمارے اِن بہن بھائیوں کا یہ یقین غلط ثابت نہیں ہوا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد نازیوں کی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور وہ ہملر جو یہ کہتا تھا کہ”زمین پر ہماری حکومت چلتی ہے!“ اُس کی اپنی جان پر بن آئی۔ جب وہ اپنی جان بچانے کو بھاگ رہا تھا تو اُس کی ملاقات ہمارے ایک بھائی سے ہوئی جن کا نام لوبکہ تھا۔ بھائی لوبکہ قیدی کیمپ میں رہ چُکے تھے اور ہملر اُنہیں دیکھ کر فوراً پہچان گیا۔ ہملر اپنی شکست پر پوری طرح سے ٹوٹ چُکا تھا۔ اُس نے بڑے مایوسی بھرے انداز میں بھائی لوبکہ سے کہا: ”ہاں تو بائبل سٹوڈنٹ! ذرا بتاؤ کہ آگے کیا ہوگا؟“ بھائی لوبکہ نے اُسے بتایا کہ یہوواہ کے بندے تو پہلے سے ہی جانتے تھے کہ نازیوں کی حکومت ختم ہو جائے گی اور وہ آزاد ہو جائیں گے۔ اِس پر ہملر اُنہیں کوئی جواب نہیں دے پایا۔ یہ وہی شخص تھا جو کبھی یہوواہ کے گواہوں کے خلاف بُری باتیں کہے بغیر نہیں رہتا تھا۔ لیکن اب اُس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ کچھ عرصے بعد اُس نے خودکُشی کر لی۔ ہم اپنے بہن بھائیوں کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟ یہ کہ اگر ہم بائبل اور اِس میں پائی جانے والی پیشگوئیوں کا گہرائی سے مطالعہ کریں گے تو ہم خدا پر مضبوط ایمان رکھنے کے قابل ہوں گے اور اذیت کے وقت ثابتقدم رہ پائیں گے۔—2-پطر 1:19-21۔
18. ہمیں پولُس کی بات کے مطابق ”صحیح علم اور سمجھ“ حاصل کرنے کی ضرورت کیوں ہے اور یہ بات یوحنا 6:67، 68 سے کیسے ظاہر ہوتی ہے؟
18 بِلاشُبہ ہم سب کو ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے کیونکہ یہ سچے مسیحیوں کے طور پر ہماری پہچان ہے۔ لیکن ہمیں ”صحیح علم اور سمجھ“ بھی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ (فل 1:9) ورنہ ہم ’تعلیمات کے جھونکوں سے یہاں وہاں دھکیلے جائیں گے یعنی اُن آدمیوں کے دھوکے‘ میں آ جائیں گے جو گمراہ کرتے ہیں جن میں برگشتہ لوگ بھی شامل ہیں۔ (اِفس 4:14) جب پہلی صدی عیسوی میں بہت سے شاگردوں نے یسوع مسیح کی پیروی کرنا چھوڑ دیا تو پطرس نے پورے یقین سے یسوع سے کہا کہ ”ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو آپ ہی کرتے ہیں۔“ (یوحنا 6:67، 68 کو پڑھیں۔) حالانکہ اُس وقت پطرس، یسوع کی باتوں کو پوری طرح سے نہیں سمجھ پائے لیکن پھر بھی وہ اُن کے وفادار رہے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ مسیح کے بارے میں سچائی جان گئے تھے۔ آپ بھی بائبل میں لکھی باتوں پر اپنے یقین کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو اِمتحان کی گھڑی میں آپ کا ایمان بالکل نہیں ڈگمگائے گا اور آپ دوسروں کی بھی مدد کر پائیں گے کہ وہ اپنے ایمان کو مضبوط کر سکیں۔—2-یوح 1، 2۔
گیت نمبر 72: سچائی کی روشنی پھیلائیں
a اِس مضمون کے ذریعے ہمارے دل میں پاک کلام کی سچائیوں کے لیے قدر بڑھے گی۔ اِس میں کچھ ایسے طریقوں پر بھی غور کِیا جائے گا جن کی مدد سے ہم اپنے اِس یقین کو اَور مضبوط کر پائیں گے کہ جن باتوں پر ہمایمان رکھتے ہیں، وہ واقعی سچی ہیں۔
b دوسروں کو بائبل کی بنیادی تعلیمات پر قائل کرنے کے حوالے سے ”مینارِنگہبانی“ میں شائع ہونے والے مضامین کے سلسلے ”یہوواہ کے گواہوں سے باتچیت“ کو دیکھیں۔ اُردو میں اِن موضوعات پر مضامین دستیاب ہیں: ”کیا ہمیں تکلیف میں دیکھ کر خدا کو دُکھ ہوتا ہے؟“ (1 اکتوبر 2013ء) ”خدا ہم پر مصیبتیں کیوں آنے دیتا ہے؟“ (1 اپریل 2014ء) ”کیا یہوواہ کے گواہ یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں؟“ (1 جولائی 2014ء)۔
c اِن پیشگوئیوں کے حوالے سے مزید معلومات جاننے کے لیے 1 جون 2012ء اور مئی 2020ء کے ”مینارِنگہبانی“ کے شماروں کو دیکھیں۔
d تصویر کی وضاحت: خاندانی عبادت کے دوران والدین اپنے بچوں کے ساتھ اُن پیشگوئیوں پر غور کر رہے ہیں جو بڑی مصیبت کے بارے میں ہیں۔
e تصویر کی وضاحت: وہی گھرانہ بڑی مصیبت کے دوران ہونے والی باتوں کو دیکھ کر پریشان نہیں ہو رہا۔