مرقس
6 اِس کے بعد وہ وہاں سے روانہ ہوئے اور اپنے شاگردوں کے ساتھ اُس علاقے میں گئے جہاں اُن کی پرورش ہوئی تھی۔ 2 وہاں وہ سبت کے دن ایک عبادتگاہ میں تعلیم دینے لگے۔ اُن کی تعلیم کو سُن کر زیادہتر لوگ حیران ہوئے اور کہنے لگے: ”اِس آدمی نے یہ باتیں کہاں سے سیکھیں؟ یہ اِتنا دانشمند کیسے ہو گیا؟ اِس کو معجزے کرنے کی طاقت کہاں سے ملی؟ 3 یہ وہی بڑھئی ہےنا، جس کی ماں کا نام مریم ہے اور جس کے بھائیوں کے نام یعقوب، یوسف، یہوداہ اور شمعون ہیں؟ اور اِس کی بہنیں بھی تو یہیں رہتی ہیں؟“ اور اُنہوں نے یسوع کو قبول نہیں کِیا۔ 4 لیکن یسوع نے اُن سے کہا: ”نبی کی سب لوگ عزت کرتے ہیں سوائے اُس کے گھر والوں، رشتےداروں اور علاقے کے لوگوں کے۔“ 5 لہٰذا اُنہوں نے وہاں صرف کچھ بیماروں پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں ٹھیک کِیا لیکن کوئی اَور معجزہ نہیں کِیا۔ 6 دراصل وہ اُن کے ایمان کی کمی کو دیکھ کر حیران تھے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے پورے علاقے کا دورہ کِیا اور گاؤں گاؤں جا کر تعلیم دی۔
7 پھر یسوع نے 12 رسولوں کو بلایا اور اُن کو دو دو کر کے بھیجا اور اُن کو لوگوں میں سے بُرے فرشتے* نکالنے کا اِختیار دیا۔ 8 یسوع نے اُن کو یہ ہدایت بھی دی کہ سفر کے لیے لاٹھی کے سوا کچھ ساتھ نہ لیں، نہ روٹی، نہ کھانے کا تھیلا، نہ بٹوے میں پیسے* 9 اور نہ ایک اَور کُرتا* بلکہ جُوتے پہنیں اور جائیں۔ 10 اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ”جب آپ کسی کے گھر میں داخل ہوں تو اُس کے گھر میں ٹھہریں اور تب تک اُس کے پاس رہیں جب تک آپ اُس علاقے سے روانہ نہ ہوں۔ 11 اور جس علاقے میں لوگ آپ کو یا آپ کے پیغام کو قبول نہ کریں، وہاں سے جاتے وقت اُس کی مٹی اپنے پاؤں سے جھاڑ دیں تاکہ اُن کے خلاف گواہی ہو۔“ 12 پھر وہ 12 وہاں سے روانہ ہوئے اور جا کر مُنادی کرنے لگے تاکہ لوگ توبہ کریں۔ 13 اِس کے علاوہ اُنہوں نے لوگوں میں سے بہت سے بُرے فرشتوں کو نکالا اور بہت سے بیماروں کو تیل ملا اور اُن کو ٹھیک کر دیا۔
14 بادشاہ ہیرودیس نے بھی یہ خبر سنی کیونکہ یسوع کا نام ہر جگہ مشہور ہو گیا تھا اور لوگ کہہ رہے تھے کہ ”یوحنا بپتسمہ دینے والے کو زندہ کر دیا گیا ہے اور اِس لیے وہ معجزے کر رہے ہیں۔“ 15 لیکن کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ”یہ ایلیاہ نبی ہیں“ جبکہ کچھ کہہ رہے تھے کہ ”یہ پُرانے زمانے کے نبیوں کی طرح ایک نبی ہیں۔“ 16 لیکن جب ہیرودیس نے یہ سنا تو اُس نے کہا: ”یہ ضرور وہی یوحنا ہے جس کا مَیں نے سر قلم کروایا تھا۔ اُسے زندہ کر دیا گیا ہے۔“ 17 ہوا یہ تھا کہ ہیرودیس نے یوحنا کو گِرفتار کروایا تھا اور اُن کو زنجیروں میں جکڑ کر قیدخانے میں ڈلوا دیا تھا۔ یہ سب کچھ ہیرودیاس کی وجہ سے ہوا تھا جو ہیرودیس کے بھائی فِلپّس کی بیوی تھی۔ دراصل ہیرودیس نے اُس سے شادی کر لی تھی 18 مگر یوحنا نے اُس سے کئی بار کہا تھا کہ ”اپنے بھائی کی بیوی سے شادی کرنا آپ کے لیے جائز نہیں۔“ 19 اِس لیے ہیرودیاس کو یوحنا سے نفرت تھی اور وہ اُن کو مار ڈالنا چاہتی تھی۔ لیکن ابھی تک اُسے موقع نہیں ملا تھا 20 کیونکہ ہیرودیس، یوحنا کی حفاظت کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یوحنا ایک نیک اور مُقدس آدمی ہیں اور اِس لیے وہ اُن کا احترام کرتا تھا۔ وہ بڑے شوق سے یوحنا کی باتیں سنتا تھا حالانکہ اِن کی وجہ سے وہ اُلجھن میں پڑ جاتا تھا کہ کیا کرے۔
21 لیکن ایک دن ہیرودیاس کو موقع مل ہی گیا۔ جب بادشاہ ہیرودیس کی سالگرہ آئی تو اُس نے شام کو اعلیٰ افسروں، فوجی افسروں اور گلیل کے امیروں کو دعوت پر بلایا۔ 22 اُس موقعے پر ہیرودیاس کی بیٹی محفل میں آ کر ناچی۔ اُس کا ناچ دیکھ کر بادشاہ اور اُس کے مہمان بہت خوش ہوئے۔ اِس پر بادشاہ نے اُس سے کہا: ”مانگو! کیا مانگتی ہو؟ تمہاری فرمائش پوری کی جائے گی۔“ 23 یہاں تک کہ اُس نے قسم کھائی اور کہا: ”تُم جو کچھ بھی مانگو گی، مَیں تمہیں ضرور دوں گا۔ مَیں تمہیں اپنی آدھی سلطنت تک دینے کو تیار ہوں۔“ 24 لڑکی اپنی ماں کے پاس گئی اور اُس سے پوچھا: ”مَیں بادشاہ سے کیا مانگوں؟“ ماں نے جواب دیا: ”یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر۔“ 25 لڑکی بھاگی بھاگی بادشاہ کے پاس گئی اور کہنے لگی: ”مجھے اِسی وقت یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں چاہیے۔“ 26 یہ سُن کر بادشاہ کو بڑا دُکھ ہوا لیکن وہ لڑکی کی درخواست کو نظرانداز نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ اُس نے اپنے مہمانوں کے سامنے قسم کھائی تھی کہ وہ اُس کی ہر فرمائش پوری کرے گا۔ 27 لہٰذا بادشاہ نے فوراً ایک سپاہی کو بھیجا اور اُسے حکم دیا کہ یوحنا کا سر لایا جائے۔ اِس پر وہ سپاہی قیدخانے میں گیا اور یوحنا کا سر قلم کر دیا۔ 28 پھر وہ اُس کو ایک تھال میں رکھ کر لایا اور لڑکی کو دے دیا اور لڑکی نے اُسے اپنی ماں کو دے دیا۔ 29 جب یوحنا کے شاگردوں نے یہ خبر سنی تو وہ آئے اور اُن کی لاش کو لے جا کر ایک قبر میں رکھ دیا۔
30 اب 12 رسول یسوع کے پاس واپس آئے اور اُن کو وہ سب کچھ بتایا جو اُنہوں نے کِیا تھا اور سکھایا تھا۔ 31 اِس پر یسوع نے اُن سے کہا: ”آئیں، کسی سنسان جگہ چلیں تاکہ ہم اکیلے میں کچھ وقت گزار سکیں اور تھوڑا سا آرام کر سکیں۔“ دراصل وہاں بہت سے لوگ آ جا رہے تھے اِس لیے اُن کے پاس کھانا کھانے کی بھی فرصت نہیں تھی۔ 32 لہٰذا وہ کشتی میں بیٹھ کر ایک سنسان جگہ کے لیے روانہ ہوئے تاکہ اکیلے میں کچھ وقت گزار سکیں۔ 33 لیکن لوگوں نے اُن کو جاتے دیکھ لیا اور بہت سے لوگوں کو اِس بات کی خبر ہو گئی۔ اِس لیے تمام شہروں سے لوگ بھاگے بھاگے اُس جگہ گئے جہاں یسوع اور اُن کے ساتھی جا رہے تھے اور اُن سے پہلے وہاں پہنچ گئے۔ 34 جب یسوع کشتی سے اُترے تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہاں بہت سارے لوگ جمع ہیں۔ اُنہیں اُن پر بڑا ترس آیا کیونکہ وہ ایسی بھیڑوں کی طرح تھے جن کا کوئی چرواہا نہ ہو اور وہ اُن کو بہت سی باتوں کی تعلیم دینے لگے۔
35 جب کافی وقت گزر گیا تو اُن کے شاگرد اُن کے پاس آئے اور کہا: ”یہ جگہ سنسان ہے اور رات ہونے والی ہے۔ 36 لوگوں کو آسپاس کے گاؤں اور قصبوں میں بھیج دیں تاکہ وہ اپنے لیے کھانا خرید سکیں۔“ 37 لیکن یسوع نے اُن سے کہا: ”آپ اُن کو کھانا دیں۔“ اِس پر اُنہوں نے کہا: ”کیا ہم جا کر 200 دینار کی روٹیاں خریدیں تاکہ اِتنے لوگوں کو کھانا کھلا سکیں؟“ 38 یسوع نے اُن سے کہا: ”ذرا دیکھیں کہ آپ کے پاس کتنی روٹیاں ہیں۔“ اُنہوں نے جا کر دیکھا اور واپس آ کر کہا: ”ہمارے پاس پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں۔“ 39 پھر یسوع نے لوگوں سے کہا کہ ٹولیوں کی شکل میں ہری ہری گھاس پر بیٹھ جائیں۔ 40 اور لوگ سوسو اور پچاس پچاس کی ٹولیوں میں گھاس پر بیٹھ گئے۔ 41 تب یسوع نے وہ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں لیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر دُعا کی۔ اِس کے بعد اُنہوں نے روٹیاں توڑ توڑ کر شاگردوں کو دیں اور شاگرد اِنہیں لوگوں میں تقسیم کرنے لگے۔ اِسی طرح یسوع نے مچھلیوں کو بھی لوگوں میں تقسیم کِیا۔ 42 اور سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ 43 بعد میں شاگردوں نے روٹیوں کے بچے ہوئے ٹکڑوں سے 12 ٹوکرے بھرے۔ اِس کے علاوہ مچھلیاں بھی بچ گئیں۔ 44 اُس موقعے پر 5000 آدمیوں نے کھانا کھایا۔
45 اِس کے فوراً بعد یسوع نے شاگردوں سے کہا: ”آپ کشتی پر سوار ہو کر جھیل کے اُس پار بیتصیدا جائیں، مَیں بعد میں آؤں گا۔“ پھر اُنہوں نے لوگوں کو وہاں سے رُخصت کِیا۔ 46 اِس کے بعد یسوع پہاڑ پر جا کر دُعا کرنے لگے۔ 47 جب رات ہو گئی تو کشتی جھیل کے بیچ میں تھی لیکن یسوع اکیلے پہاڑ پر تھے۔ 48 تب اُنہوں نے دیکھا کہ شاگرد کشتی کو بڑی مشکل سے چلا رہے ہیں کیونکہ ہوا کا رُخ اُن کے خلاف ہے۔ اِس لیے وہ رات کے چوتھے پہر* جھیل پر چل کر اُن کی طرف گئے اور کشتی کے پاس سے گزرنے لگے۔ 49 جب شاگردوں نے دیکھا کہ کوئی جھیل پر چل رہا ہے تو وہ چلّانے لگے اور کہنے لگے: ”وہ کیا آ رہا ہے؟“* 50 اِس منظر کو دیکھ کر وہ سب بہت گھبرا گئے۔ لیکن یسوع نے فوراً اُن سے کہا: ”ڈریں مت! حوصلہ رکھیں، مَیں ہوں!“ 51 پھر وہ کشتی میں سوار ہو گئے اور ہوا تھم گئی۔ یہ دیکھ کر شاگرد بہت ہی حیران ہوئے 52 کیونکہ وہ روٹیوں والے معجزے کا مطلب نہیں سمجھ پائے تھے بلکہ ابھی تک اُن کی سمجھ پر پردہ پڑا تھا۔
53 جب وہ جھیل کے اُس پار گنیسرت پہنچے تو اُنہوں نے لنگر ڈال دیا۔ 54 جونہی وہ سب کشتی سے اُترے، لوگوں نے یسوع کو پہچان لیا 55 اور بھاگے بھاگے گئے اور سارے علاقے میں خبر کر دی۔ اِس پر لوگ بیماروں کو چارپائیوں پر ڈال کر اُس جگہ لائے جہاں یسوع تھے۔ 56 اور یسوع جس جس گاؤں یا شہر یا دیہات میں جاتے، وہاں لوگ بیماروں کو بازاروں میں لِٹا دیتے اور وہ یسوع سے اِلتجا کرتے کہ ”ہمیں بس اپنی چادر کی جھالر کو چُھونے دیں۔“ اور جو جو اُن کی چادر کو چُھوتا، وہ بالکل ٹھیک ہو جاتا۔