لُوقا
7 جب یسوع نے اپنی بات ختم کر لی تو وہ کفرنحوم میں داخل ہوئے۔ 2 وہاں ایک فوجی افسر کا غلام تھا جو اِتنا بیمار تھا کہ مرنے والا تھا۔ یہ غلام اُس افسر کو بہت عزیز تھا۔ 3 جب افسر نے یسوع کے بارے میں سنا تو اُس نے یہودیوں کے کچھ بزرگوں کو بھیجا تاکہ وہ یسوع سے درخواست کریں کہ آ کر اُس کے غلام کو ٹھیک کر دیں۔ 4 اِن بزرگوں نے یسوع سے اِلتجا کی: ”وہ افسر اِس لائق ہے کہ آپ اُس کی درخواست پوری کریں 5 کیونکہ وہ ہماری قوم سے محبت کرتا ہے اور اُس نے ہمارے لیے عبادتگاہ بھی بنوائی ہے۔“ 6 لہٰذا یسوع اُن کے ساتھ چل پڑے۔ لیکن اِس سے پہلے کہ وہ اُس افسر کے گھر پہنچتے، افسر نے اپنے کچھ دوستوں کو یسوع کے پاس بھیجا جنہوں نے اُس کی طرف سے کہا: ”جناب، آپ زحمت نہ کریں۔ میری اِتنی اوقات نہیں کہ آپ میرے گھر میں آئیں۔ 7 اِسی وجہ سے تو مَیں خود آپ کے پاس نہیں آیا۔ لیکن اگر آپ بس حکم کر دیں تو میرا خادم ٹھیک ہو جائے گا۔ 8 کیونکہ مَیں بھی کسی کا ماتحت ہوں اور میرے تحت بھی کئی فوجی ہیں۔ جب مَیں ایک فوجی کو حکم دیتا ہوں کہ ”اُدھر جاؤ!“ تو وہ جاتا ہے اور دوسرے کو حکم دیتا ہوں کہ ”اِدھر آؤ!“ تو وہ آتا ہے اور جب مَیں اپنے غلام کو حکم دیتا ہوں کہ ”یہ کام کرو!“ تو وہ اِسے کرتا ہے۔“ 9 یہ سُن کر یسوع بہت حیران ہوئے اور پیچھے مُڑ کر اُن لوگوں کو دیکھا جو اُن کے ساتھ ساتھ آ رہے تھے اور اُن سے کہا: ”مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ مَیں نے اِسرائیل میں بھی کسی کا اِتنا مضبوط ایمان نہیں دیکھا۔“ 10 اور جب وہ لوگ جن کو افسر نے بھیجا تھا، اُس کے گھر واپس گئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ غلام تندرست ہو چُکا ہے۔
11 پھر یسوع شہر نائین کے لیے روانہ ہوئے اور اُن کے شاگردوں کے علاوہ اَور بھی بہت سے لوگ اُن کے ساتھ تھے۔ 12 جب وہ شہر کے دروازے کے قریب پہنچے تو دیکھو! لوگ ایک آدمی کی لاش کو شہر سے باہر لے جا رہے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اِکلوتا بیٹا تھا اور اُس کی ماں بیوہ تھی۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ جا رہی تھی اور شہر کے بہت سے لوگ اُس کے ساتھ تھے۔ 13 جب ہمارے مالک نے اُس عورت کو دیکھا تو اُن کو اُس پر بڑا ترس آیا اور اُنہوں نے اُس سے کہا: ”روئیں مت۔“ 14 پھر اُنہوں نے جا کر جنازے کی چارپائی کو چُھوا اور جن لوگوں نے چارپائی کو اُٹھایا ہوا تھا، وہ رُک گئے۔ اِس کے بعد یسوع نے کہا: ”بیٹا! مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ اُٹھ جائیں۔“ 15 اِس پر وہ آدمی اُٹھ بیٹھا اور باتیں کرنے لگا اور یسوع نے اُسے اُس کی ماں کے سپرد کر دیا۔ 16 یہ دیکھ کر سب لوگوں پر خوف چھا گیا اور وہ خدا کی بڑائی کرنے لگے اور کہنے لگے: ”ہمارے بیچ میں ایک عظیم نبی آیا ہے“ اور ”خدا نے اپنی قوم کو یاد کِیا ہے۔“ 17 اور یسوع کے بارے میں یہ خبر سارے یہودیہ اور اِس کے اِردگِرد کے تمام علاقوں میں پھیل گئی۔
18 اب یوحنا کے شاگردوں نے جا کر اُن کو اِن سب باتوں کے بارے میں بتایا۔ 19 اِس پر یوحنا نے اپنے دو شاگردوں کو بلایا اور اُن کو ہمارے مالک کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ ”کیا آپ ہی وہ شخص ہیں جس کے آنے کے بارے میں صحیفوں میں بتایا گیا ہے یا ہم کسی اَور کا اِنتظار کریں؟“ 20 جب وہ یسوع کے پاس پہنچے تو اُنہوں نے کہا: ”یوحنا بپتسمہ دینے والے نے ہمیں آپ کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا ہے کہ ”کیا آپ ہی وہ شخص ہیں جس کے آنے کے بارے میں صحیفوں میں بتایا گیا ہے یا ہم کسی اَور کا اِنتظار کریں؟“ “ 21 اُس وقت یسوع نے بہت سے لوگوں کی چھوٹی موٹی اور سنگین بیماریوں کو ٹھیک کِیا، اُن میں سے بُرے فرشتوں* کو نکالا اور اندھوں کو دیکھنے کی صلاحیت بخشی۔ 22 پھر اُنہوں نے اُن دو شاگردوں کے سوال کے جواب میں کہا: ”یوحنا کے پاس واپس جائیں اور اُنہیں اُن باتوں کے بارے میں بتائیں جو آپ نے دیکھی اور سنی ہیں: اندھوں کو دیکھنے کی صلاحیت مل رہی ہے، لنگڑے چل پھر رہے ہیں، کوڑھی ٹھیک ہو رہے ہیں، بہرے سُن رہے ہیں، مُردے زندہ کیے جا رہے ہیں اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے۔ 23 وہ شخص خوش رہتا ہے جو میرے بارے میں شک نہیں کرتا۔“
24 جب یوحنا کے شاگرد چلے گئے تو یسوع لوگوں سے یوحنا کے بارے میں کہنے لگے: ”آپ ویرانے میں کیا دیکھنے گئے تھے؟ ایک سرکنڈے کو جو ہوا سے ہل رہا تھا؟ نہیں۔ 25 پھر آپ کیا دیکھنے گئے تھے؟ ایک آدمی کو جس نے ریشمی لباس پہنا تھا؟ نہیں۔ جو لوگ شاندار لباس پہنتے ہیں اور عیشوآرام کی زندگی گزارتے ہیں، وہ تو شاہی محلوں میں رہتے ہیں۔ 26 تو پھر آپ کیا دیکھنے گئے تھے؟ ایک نبی کو؟ ہاں۔ مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ وہ تو نبیوں سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ 27 یہی وہ شخص ہیں جن کے بارے میں لکھا ہے: ”دیکھو! مَیں تمہارے آگے اپنا پیغمبر بھیج رہا ہوں جو تمہارے لیے راستہ تیار کرے گا۔“ 28 مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ آج تک کوئی بھی ایسا اِنسان پیدا نہیں ہوا جو یوحنا سے بڑا ہو لیکن جو شخص خدا کی بادشاہت میں سب سے چھوٹا مرتبہ رکھتا ہے، وہ یوحنا سے بڑا ہے۔“ 29 جب ٹیکس وصول کرنے والوں اور باقی لوگوں نے یہ سنا تو وہ خدا کی نیکی کی تعریف کرنے لگے کیونکہ اُنہوں نے یوحنا سے بپتسمہ لیا تھا۔ 30 لیکن فریسی اور شریعت کے ماہر جنہوں نے یوحنا سے بپتسمہ نہیں لیا تھا، اُنہوں نے خدا کی ہدایت کو نظرانداز کر دیا۔
31 پھر یسوع نے کہا: ”مَیں اِس پُشت کے لوگوں کو کس سے تشبیہ دوں؟ وہ کن کی طرح ہیں؟ 32 وہ چھوٹے بچوں کی طرح ہیں جو بازار میں بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کو پکار کر کہہ رہے ہیں: ”ہم نے بانسری بجائی لیکن تُم ناچے نہیں؛ ہم نے ماتم کِیا لیکن تُم روئے نہیں۔“ 33 اِسی طرح یوحنا بپتسمہ دینے والے نے نہ تو روٹی کھائی اور نہ ہی مے پی لیکن آپ کہتے ہیں: ”اُس پر ایک بُرے فرشتے کا سایہ ہے۔“ 34 اِنسان کا بیٹا* کھاتا پیتا ہے لیکن آپ کہتے ہیں: ”یہ کیسا آدمی ہے؟ پیٹپجاری اور شرابی، ٹیکس وصول کرنے والوں اور گُناہگاروں کا یار۔“ 35 مگر دانشمندی اپنے کاموں* سے نیک* ثابت ہوتی ہے۔“
36 اب ایک فریسی نے خوب اِصرار کر کے یسوع کو اپنے گھر دعوت پر بلایا۔ لہٰذا وہ اُس کے گھر گئے اور کھانا کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ 37 اُس شہر میں ایک عورت تھی جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بدکار ہے۔ جب اُس کو پتہ چلا کہ یسوع اُس فریسی کے گھر کھانا کھا رہے ہیں تو وہ وہاں آئی اور اپنے ساتھ ایک بوتل میں خوشبودار تیل لائی 38 اور یسوع کے پاؤں کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ اِتنا رو رہی تھی کہ اُس کے آنسوؤں سے یسوع کے پاؤں گیلے ہونے لگے۔ اِس لیے اُس نے اِنہیں اپنے بالوں سے پونچھا، اِنہیں چُوما اور اِن پر تیل ڈالا۔ 39 جب اُس فریسی نے جس کے گھر یسوع دعوت کھا رہے تھے، یہ دیکھا تو اُس نے دل ہی دل میں سوچا: ”اگر یہ آدمی واقعی نبی ہوتا تو اُس کو معلوم ہوتا کہ یہ عورت جو اُس کو چُھو رہی ہے، بڑی بدکار ہے۔“ 40 اِس پر یسوع نے کہا: ”شمعون، مَیں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“ اُس نے کہا: ”بولیں، اُستاد۔“
41 پھر یسوع نے کہا: ”دو آدمی ا یک شخص کے قرضدار تھے۔ ایک پر 500 دینار کا قرض تھا اور دوسرے پر 50 (پچاس) دینار کا۔ 42 جب اُس شخص کو پتہ چلا کہ وہ آدمی قرض ادا نہیں کر سکتے تو اُس نے خوشی سے اُن دونوں کے قرض معاف کر دیے۔ آپ کے خیال میں اُن دونوں میں سے کون اُس شخص سے زیادہ محبت کرے گا؟“ 43 شمعون نے جواب دیا: ”میرے خیال میں تو وہ آدمی جس کا زیادہ قرض معاف ہوا ہے۔“ یسوع نے کہا: ”آپ نے بالکل صحیح کہا۔“ 44 اِس پر یسوع نے مُڑ کر اُس عورت کی طرف دیکھا اور پھر شمعون سے کہا: ”کیا آپ نے اِس عورت کو دیکھا ہے؟ جب مَیں آپ کے گھر میں داخل ہوا تو آپ نے مجھے پانی نہیں دیا تاکہ میرے پاؤں دھوئے جائیں۔ لیکن اِس عورت نے میرے پاؤں اپنے آنسوؤں سے گیلے کیے اور اپنے بالوں سے خشک کیے۔ 45 آپ نے مجھے نہیں چُوما۔ لیکن یہ عورت تب سے میرے پاؤں چُوم رہی ہے جب سے مَیں آیا ہوں۔ 46 آپ نے میرے سر پر تیل نہیں ڈالا۔ لیکن اِس عورت نے میرے پاؤں پر خوشبودار تیل ڈالا۔ 47 اِس لیے مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ حالانکہ اِس عورت نے بہت سے* گُناہ کیے ہیں لیکن وہ سب معاف ہو گئے ہیں۔ اِس وجہ سے وہ زیادہ محبت کرتی ہے۔ لیکن جس کے کم گُناہ معاف کیے گئے ہیں، وہ کم محبت کرتا ہے۔“ 48 پھر اُنہوں نے عورت سے کہا: ”آپ کے گُناہ معاف ہو گئے ہیں۔“ 49 یہ سُن کر وہ لوگ جو اُن کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے، دل ہی دل میں سوچنے لگے: ”یہ کیسا آدمی ہے جو گُناہ معاف کر سکتا ہے؟“ 50 لیکن یسوع نے عورت سے کہا: ”آپ کے ایمان نے آپ کو نجات دِلائی ہے۔ سلامت رہیں۔“