”ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر“
”ہم ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔“—۲-کرنتھیوں ۵:۷۔
۱. ”ایمان پر چلتے“ رہنے کا کیا مطلب ہے؟
جب بھی ہم خدا کے کلام بائبل میں پیشکردہ ہدایات کی مطابقت میں دُعا کرتے ہیں تو ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم میں بھی کسی حد تک ایمان موجود ہے۔ جب ہم خدا کی بادشاہت کی بابت دوسرے لوگوں کو گواہی دینا شروع کرتے ہیں تو یہ بھی ایمان کو ظاہر کرتا ہے۔ نیز جب ہم اپنی زندگیاں یہوواہ کیلئے مخصوص کرتے ہیں تو ہم اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ ہم ’ایمان پر چلنا،‘ چاہتے ہیں یعنی ایک ایسے طرزِزندگی کے طالب ہیں جو ایمان کے تابع ہے۔—۲-کرنتھیوں ۵:۷؛ کلسیوں ۱:۹، ۱۰۔
۲. کلیسیائی سرگرمیوں میں شرکت اس بات کا لازمی ثبوت کیوں نہیں ہے کہ ایک شخص ایمان رکھتا ہے؟
۲ اگر ہم نے واقعی اس طرح سے زندگی بسر کرنی ہے تو ہمیں مضبوط ایمان کی ضرورت ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۱، ۶) بہتیرے لوگ یہوواہ کے گواہوں کے بلند اخلاقی معیاروں اور اُس محبت کی وجہ سے جو وہ گواہوں کے مابین دیکھتے ہیں اُنکی طرف راغب ہوتے ہیں۔ یہ ایک عمدہ آغاز ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے لوگ ایمان رکھتے ہیں۔ دیگر کے سلسلے میں ہو سکتا ہے کہ بیاہتا ساتھی یا ماںباپ میں سے کوئی ایمان میں مضبوط ہے اور ممکن ہے وہ بعض ایسی کارگزاریوں میں حصہ لیں جن میں وہ شخص مشغول ہے جس سے وہ محبت رکھتے ہیں۔ ایک شخص کے گھر میں اسطرح کے اثر کا پایا جانا واقعی ایک برکت ہے لیکن یہ بھی خدا کیلئے ذاتی محبت اور ذاتی ایمان کا نعمالبدل نہیں ہے۔—لوقا ۱۰:۲۷، ۲۸۔
۳. (ا) مضبوط ایمان رکھنے کیلئے ہمیں ذاتی طور پر بائبل کی بابت کیا یقین رکھنے کی ضرورت ہے؟ (ب) بعض لوگ بائبل کے الہامی ہونے کی بابت دوسروں کی نسبت جلدی قائل کیوں ہو جاتے ہیں؟
۳ جو لوگ واقعی ایمان پر چلتے ہیں وہ مکمل یقین رکھتے ہیں کہ بائبل خدا کا کلام ہے۔ اس بات کا کافی زیادہ ثبوت موجود ہے کہ پاک صحائف، بِلاشُبہ، ”خدا کے الہام سے“ ہیں۔a (۲-تیمتھیس ۳:۱۶) اس سے پیشتر کہ کوئی شخص قائل ہو جائے، اس ثبوت کا کس حد تک تجزیہ کِیا جانا چاہئے؟ اس کا انحصار اُس کے پسمنظر پر ہو سکتا ہے۔ جو بات ایک شخص کو مکمل طور پر مطمئن کر دیتی ہے شاید دوسرے شخص کو قائل نہ کر سکے۔ تاہم، بعض معاملات میں ایک شخص کو بیشمار ناقابلِتردید ثبوت پیش کئے جانے کے باوجود ہو سکتا ہے کہ وہ پھر بھی اُس نتیجے پر پہنچنے سے انکار کرے جس کی یہ نشاندہی کرتا ہے۔ کیوں؟ اپنے دل کی گہرائی میں دفن خواہشات کی وجہ سے۔ (یرمیاہ ۱۷:۹) لہٰذا، کسی شخص کا خدا کے مقصد میں دلچسپی لینے کا اعتراف کرنے کے باوجود، ہو سکتا ہے کہ اُس کا دل دُنیاوی خواہشات کا متمنی ہو یا ممکن ہے وہ ایسے طرزِزندگی کو خیرباد نہ کہنا چاہتا ہو جو بائبل معیاروں کے برعکس ہے۔ تاہم، اگر ایک شخص واقعی سچائی کا متلاشی ہے اگر وہ اپنی ذات سے مخلص ہے اور اگر وہ فروتن ہے تو اُسے جلد ہی احساس ہو جائے گا کہ بائبل خدا کا کلام ہے۔
۴. ایمان حاصل کرنے کیلئے ایک شخص سے کس چیز کا تقاضا کِیا جاتا ہے؟
۴ جن لوگوں کی بائبل مطالعہ کرنے کے لئے مدد کی جاتی ہے، وہ اکثر چند ہی مہینوں میں اس بات کی قدر کرنے لگتے ہیں کہ اُنہیں اس بات کا کافی زیادہ ثبوت مل گیا ہے کہ بائبل خدا کا کلام ہے۔ اگر یہ چیز اُنہیں یہوواہ سے تعلیم پانے کے لئے اپنے دلوں کو کشادہ کرنے کی تحریک دیتی ہے تو پھر جوکچھ وہ سیکھتے ہیں اُس سے اُن کے اندرونی خیالات، اُن کی خواہشات اور اُن کے محرکات بتدریج اثرپذیر ہونگے۔ (زبور ۱۴۳:۱۰) رومیوں ۱۰:۱۰ بیان کرتی ہے کہ کسی شخص کا ایمان لانا ”دل سے“ ہوتا ہے۔ ایسا ایمان ظاہر کرتا ہے کہ وہ شخص درحقیقت کیسا محسوس کرتا ہے اور یہ بات اُس کے طرزِزندگی سے عیاں ہوگی۔
نوح نے مضبوط ایمان پر عمل کِیا
۵، ۶. نوح کے ایمان کی بنیاد کس چیز پر تھی؟
۵ نوح مضبوط ایمان رکھنے والا شخص تھا۔ (عبرانیوں ۱۱:۷) اس کیلئے اُس کے پاس کونسی بنیادیں تھیں؟ نوح کے پاس خدا کا کلام تھا، تحریری شکل میں نہیں بلکہ جیسے اُس سے کلام کِیا گیا تھا۔ پیدایش ۶:۱۳ بیان کرتی ہے: ”خدا نے نوؔح سے کہا کہ تمام بشر کا خاتمہ میرے سامنے آ پہنچا ہے کیونکہ اُنکے سبب سے زمین ظلم سے بھر گئی۔“ یہوواہ نے نوح کو ایک کشتی بنانے کی ہدایت کی اور اُسے اس کی تعمیر کے سلسلے میں تفصیلات فراہم کیں۔ اس کے بعد خدا نے مزید کہا: ”دیکھ مَیں خود زمین پر پانی کا طوفان لانے والا ہوں تاکہ ہر بشر کو جس میں زندگی کا دم ہے دُنیا سے ہلاک کر ڈالوں اور سب جو زمین پر ہیں مر جائینگے۔“—پیدایش ۶:۱۴-۱۷۔
۶ کیا اس سے پہلے کبھی بارش ہوئی تھی؟ بائبل اس کی بابت کچھ نہیں کہتی۔ پیدایش ۲:۵ بیان کرتی ہے: ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] خدا نے زمین پر پانی نہیں برسایا تھا۔“ تاہم، یہ اس کے صدیوں بعد رہنے والے موسیٰ کا اندازِبیان ہے جو نوح کے زمانے کی نہیں بلکہ اس سے کافی پہلے کے وقت کی بابت بات کر رہا تھا۔ جیسے پیدایش ۷:۴ میں ظاہر کِیا گیا ہے، نوح سے مخاطب ہوتے ہوئے یہوواہ نے بارش کا ذکر کِیا اور بدیہی طور پر نوح سمجھتا تھا کہ اُس کا کیا مطلب ہے۔ تاہم، نوح کا ایمان اُن چیزوں پر نہیں تھا جنہیں وہ دیکھ سکتا تھا۔ پولس رسول نے لکھا کہ نوح کو ”اُن چیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھیں ہدایت“ دی گئی تھی۔ خدا نے نوح سے کہا کہ وہ زمین پر ”پانی کا طوفان“ لانے والا ہے یا جیسےکہ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن میں پیدایش ۶:۱۷ کا ایک فٹنوٹ اسے بیان کرتا ہے ”آسمان کے سمندر اُنڈیلنے والا“ ہے۔ اُس وقت تک، کبھی بھی ایسی کوئی چیز واقع نہیں ہوئی تھی۔ تاہم، نوح کے سامنے موجود تمام تخلیق اس بات کا واضح ثبوت تھی کہ بےشک خدا ایسا تباہکُن طوفان لا سکتا ہے۔ ایمان سے تحریک پا کر، نوح نے کشتی تعمیر کی۔
۷. (ا) خدا نے اُسے جوکچھ حکم دیا تھا اُسے بجا لانے کیلئے نوح کو کیا کرنے کی ضرورت نہیں تھی؟ (ب) نوح کے ایمان پر غور کرنے سے ہم کیسے استفادہ کرتے ہیں اور ہمارا ایمان دوسروں کیلئے برکت کا باعث کیسے بن سکتا ہے؟
۷ خدا نے نوح کو طوفان کے شروع ہونے کی بابت کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی تھی۔ تاہم نوح نے اس چیز کو انتظار کرو اور دیکھو کا رُجحان اپنانے، کشتی کی تعمیر اور منادی کرنے کو اپنی زندگی میں دوسرے درجے پر رکھنے کیلئے ایک عذر کے طور پر استعمال نہیں کِیا تھا۔ کافی عرصہ پہلے ہی، خدا نے نوح کو بتا دیا تھا کہ کب کشتی میں داخل ہونا ہے۔ اس اثنا میں، ”نوؔح نے یوں ہی کِیا۔ جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کیا۔“ (پیدایش ۶:۲۲) نوح ایمان پر چلا، نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔ ہم کتنے احسانمند ہیں کہ اُس نے ایسا کِیا! اُسکے ایمان کی بدولت آج ہم زندہ ہیں۔ ہمارے معاملے میں بھی، مستقبل نہ صرف ہمارے لئے بلکہ ہمارے بچوں اور ہمارے اردگرد کے دیگر لوگوں کیلئے جوکچھ تھامے ہوئے ہے، اُس پر وہ ایمان گہرا اثر ڈال سکتا ہے جسکا ہم مظاہرہ کرتے ہیں۔
ابرہام کا ایمان
۸، ۹. (ا) ابرہام نے کس چیز کو اپنے ایمان کی بنیاد بنایا؟ (ب) یہوواہ ابرہام پر کس طرح ’ظاہر‘ ہوا؟
۸ ایک دوسری مثال پر غور کریں—جو ابرہام کی ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۸-۱۰) ابرہام نے کس چیز کو اپنے ایمان کی بنیاد بنایا تھا؟ کسدیوں کے اُور میں اُس نے بتپرستانہ اور مادہپرستانہ ماحول میں پرورش پائی تھی۔ تاہم دیگر عوامل نے ابرہام کے نقطۂنظر کو تشکیل دیا۔ بِلاشُبہ وہ نوح کے بیٹے سم کیساتھ رفاقت رکھ سکتا تھا جو اُس کے زمانے میں ۱۵۰ سال زندہ رہا۔ ابرہام کو اس بات کا پُختہ یقین ہو گیا تھا کہ یہوواہ ”خداتعالےٰ آسمان اور زمین [کا] مالک“ ہے۔—پیدایش ۱۴:۲۲۔
۹ کسی اَور چیز نے بھی ابرہام پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ یہوواہ ”اؔبرہام پر اُس وقت ظاہر ہوا جب وہ حاؔران میں بسنے سے پیشتر مسوؔپتامیہ میں تھا۔ اور اُس سے کہا کہ اپنے مُلک اور اپنے کُنبے سے نکلکر اُس مُلک میں چلا جا جسے مَیں تجھے دکھاؤنگا۔“ (اعمال ۷:۲، ۳) یہوواہ ابرہام پر کس طرح ’ظاہر‘ ہوا تھا؟ ابرہام نے خدا کو براہِراست نہیں دیکھا تھا۔ (خروج ۳۳:۲۰) تاہم، یہ ممکن ہے کہ یہوواہ ابرہام پر ایک خواب میں، جلال کے مافوقالفطرت اظہار کیساتھ یا پھر ملکوتی پیامبر یا نمائندے کے ذریعے ظاہر ہوا ہو۔ (مقابلہ کریں پیدایش ۱۸:۱-۳؛ ۲۸:۱۰-۱۵؛ احبار ۹:۴، ۶، ۲۳، ۲۴۔) یہوواہ ابرہام پر جس بھی طریقے سے ظاہر ہوا، وہ ایماندار شخص یہ یقین رکھتا تھا کہ خدا اُس کے سامنے ایک بیشقیمت شرف رکھ رہا تھا۔ ابرہام نے ایمان کا مظاہرہ کِیا۔
۱۰. یہوواہ نے ابرہام کے ایمان کو کیسے مضبوط کِیا؟
۱۰ ابرہام کے ایمان کا انحصار اُس سرزمین کی بابت تفصیلات حاصل کرنے پر نہیں تھا جس کی جانب خدا اُسکی راہنمائی کر رہا تھا۔ یہ اِس علم پر بھی منحصر نہیں تھا کہ وہ سرزمین اُسے کب دی جائے گی۔ وہ ایمان رکھتا تھا کیونکہ وہ یہوواہ کو قادرِمطلق خدا کے طور پر جانتا تھا۔ (خروج ۶:۳) یہوواہ نے ابرہام کو بتایا کہ اُسکے ہاں اولاد پیدا ہوگی لیکن کبھیکبھار ابرہام حیران ہوتا تھا کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ بوڑھا ہو رہا تھا۔ (پیدایش ۱۵:۳، ۴) یہوواہ نے ابرہام کے ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے اُس سے کہا کہ وہ ستاروں پر نظر کرے اور اگر اُس کیلئے اُنہیں شمار کرنا ممکن ہے تو کرے۔ خدا نے کہا ”تیری اولاد ایسی ہی ہوگی۔“ ابرہام انتہائی متاثر ہوا۔ یہ بات واضح تھی کہ اُن حیرتانگیز اجرامِفلکی کا خالق اپنے وعدہ کو پورا کر سکتا تھا۔ ابرہام ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] پر ایمان لایا۔“ (پیدایش ۱۵:۵، ۶) ابرہام محض اسلئے ایمان نہیں لایا تھا کہ جوکچھ وہ سُن رہا تھا وہ اُسے پسند تھا؛ بلکہ اسلئےکہ وہ مضبوط ایمان رکھتا تھا۔
۱۱. (ا) ابرہام نے خدا کے اس وعدہ کیلئے کیسا ردِعمل دکھایا کہ عمررسیدہ سارہ کے ہاں بیٹا ہوگا جبکہ اُسکی عمر ۱۰۰ سال کے قریب تھی؟ (ب) اپنے بیٹے کو موریاہ کے پہاڑ پر قربانی کے طور پر پیش کرنے کی آزمائش کا مقابلہ ابرہام نے کس قسم کے ایمان کیساتھ کِیا؟
۱۱ جب ابرہام ۱۰۰ سال اور اُس کی بیوی سارہ، ۹۰ سال کی عمر کو پہنچے تو یہوواہ نے اپنے وعدے کو دوبارہ دہرایا کہ ابرہام کے ہاں ایک بیٹا ہوگا اور یہ کہ سارہ ماں بنے گی۔ ابرہام نے اپنی حالت پر حقیقتپسندانہ طور پر غور کِیا۔ ”اور نہ بےایمان ہو کر خدا کے وعدہ میں شک کِیا بلکہ ایمان میں مضبوط ہو کر خدا کی تمجید کی۔ اور اُسکو کامل اعتقاد ہوا کہ جوکچھ اُس نے وعدہ کِیا ہے وہ اُسے پورا کرنے پر بھی قادر ہے۔“ (رومیوں ۴:۱۹-۲۱) ابرہام جانتا تھا کہ خدا کا وعدہ ناکام نہیں ہو سکتا۔ بعدازاں، جب خدا نے اسے اپنے بیٹے کو موریاہ کی سرزمین کی طرف لے جانے اور اُسے بطور قربانی پیش کرنے کیلئے کہا تو اپنے ایمان کی بدولت اُس نے حکم کی تعمیل کی۔ (پیدایش ۲۲:۱-۱۲) ابرہام کو پورا یقین تھا کہ خدا جو اس بیٹے کو معجزانہ طور پر پیدا کر سکتا تھا وہ اُس [بیٹے] کے سلسلے میں کئے گئے باقی وعدوں کو پورا کرنے کیلئے اُسے دوبارہ زندگی بھی عطا کر سکتا تھا۔—عبرانیوں ۱۱:۱۷-۱۹۔
۱۲. ابرہام کب تک ایمان پر چلتا رہا اور کونسا انعام اُسکا اور اُسکے خاندان کے اُن افراد کا منتظر ہے جنہوں نے مضبوط ایمان کا مظاہرہ کِیا تھا؟
۱۲ ابرہام نے نہ صرف بعض مخصوص حالات ہی میں ایمان ظاہر کِیا بلکہ اپنی پوری زندگی وہ اِسکے تابع تھا۔ اپنے دورِحیات میں ابرہام نے ملکِموعود کا کوئی بھی حصہ خدا سے بطور میراث حاصل نہیں کِیا تھا۔ (اعمال ۷:۵) تاہم، ابرہام نہ تو اُکتایا اور نہ ہی کسدیوں کے اُور کو واپس لوٹا۔ اپنی موت تک، یعنی پورے ۱۰۰ سال، وہ اُس سرزمین پر خیموں میں رہا جس کی طرف خدا نے اُسکی راہنمائی کی تھی۔ (پیدایش ۲۵:۷) اُس کی اور اُسکی بیوی سارہ، اور اُنکے بیٹے اضحاق اور اُنکے پوتے یعقوب کی بابت عبرانیوں ۱۱:۱۶ بیان کرتی ہے: ”اسی لئے خدا اُن سے یعنی اُنکا خدا کہلانے سے شرمایا نہیں چنانچہ اُس نے اُن کیلئے ایک شہر تیار کِیا۔“ جیہاں، یہوواہ اپنی مسیحائی بادشاہت کی زمینی عملداری میں اُن کیلئے جگہ رکھتا ہے۔
۱۳. یہوواہ کے خادموں کے درمیان آجکل کون ابرہام جیسا ایمان رکھنے کا ثبوت پیش کرتے ہیں؟
۱۳ آج بھی یہوواہ کے لوگوں کے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو ابرہام کی مانند ہیں۔ کئی سال سے وہ ایمان پر چل رہے ہیں۔ خدا کی طرف سے عطاکردہ قوت کیساتھ، اُنہوں نے پہاڑنما رُکاوٹوں پر قابو پایا ہے۔ (متی ۱۷:۲۰) وہ اِس وجہ سے ایمان سے نہیں ڈگمگاتے کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ خدا اُنہیں وہ میراث کب دیگا جسکا اُس نے وعدہ کِیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ خدا کا کلام بےانجام نہیں رہ سکتا نیز وہ اُس کے گواہوں میں شمار کئے جانے کو ایک بیشقیمت شرف خیال کرتے ہیں۔ کیا آپ بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں؟
ایمان جس نے موسیٰ کو تحریک دی
۱۴. موسیٰ کے ایمان کیلئے بنیاد کیسے ڈالی گئی تھی؟
۱۴ ایمان کی ایک اَور مثال موسیٰ ہے۔ کیا چیز اُس کے ایمان کی بنیاد تھی؟ یہ بچپن سے ڈالی گئی تھی۔ اگرچہ موسیٰ فرعون کی بیٹی کو دریائےنیل کے کنارے پیپرس کے ایک صندوق میں ملا تھا اور اُس نے اپنے بیٹے کے طور پر اُسکی پرورش کی، تاہم، موسیٰ کی اپنی عبرانی ماں، یوکبد نے اُس لڑکے کی پرورش کی اور اُس کے ابتدائی سالوں کے دوران اُسے اپنی نگہداشت میں رکھا۔ بدیہی طور پر یوکبد نے یہوواہ کیلئے محبت اور ابرہام کیساتھ کئے گئے اُس کے وعدوں کی بابت قدردانی کو ذہننشین کراتے ہوئے، اُس کی اچھی تعلیموتربیت کی تھی۔ بعدازاں، فرعون کے گھرانے کے رُکن کے طور پر، موسیٰ نے ”مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی۔“ (اعمال ۷:۲۰-۲۲؛ خروج ۲:۱-۱۰؛ ۶:۲۰؛ عبرانیوں ۱۱:۲۳) تاہم، اپنی امتیازی حیثیت کے باوجود، موسیٰ کا دل خدا کے لوگوں کیساتھ تھا جو کہ غلامی میں تھے۔
۱۵. یہوواہ کے لوگوں کیساتھ اپنی شناخت کروانے کا موسیٰ کیلئے کیا مطلب تھا؟
۱۵ اپنی عمر کے ۴۰ ویں برس میں، موسیٰ نے ایک اسرائیلی کو جس کیساتھ غیرمنصفانہ سلوک کِیا جا رہا تھا بچانے کیلئے ایک مصری کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعہ نے خدا کے لوگوں کی بابت موسیٰ کے نقطۂنظر کی عکاسی کی۔ بِلاشُبہ، ”ایمان ہی سے موسیٰؔ نے بڑے ہو کر فرؔعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے سے انکار کِیا۔“ مصری دربار کے رُکن کی حیثیت سے، ”گناہ کا چند روزہ“ لطف اُٹھانے کی بجائے، اُس نے بدسلوکی برداشت کرنے والے خدا کے لوگوں کیساتھ اپنی شناخت کروانے کیلئے ایمان سے تحریک پائی تھی۔—عبرانیوں ۱۱:۲۴، ۲۵؛ اعمال ۷:۲۳-۲۵۔
۱۶. (ا) یہوواہ نے موسیٰ کو کیا کام سونپا اور خدا نے اُسکی کیسے مدد کی تھی؟ (ب) اُس کا کام انجام دینے میں موسیٰ نے کیسے ایمان ظاہر کِیا؟
۱۶ موسیٰ لوگوں کو چھڑانے کیلئے کارروائی کرنے کا متمنی تھا لیکن اُنکی رہائی کیلئے خدا کا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ موسیٰ کو مصر سے بھاگنا پڑا۔ تقریباً ۴۰ سال بعد یہوواہ نے ایک فرشتے کے ذریعے موسیٰ کو مصر لوٹنے کا حکم دیا تاکہ وہ اسرائیلیوں کی اُس مُلک سے نکلنے میں راہنمائی کرے۔ (خروج ۳:۲-۱۰) موسیٰ کا ردِعمل کیسا تھا؟ اُس نے اسرائیل کو رہائی دلانے کیلئے یہوواہ کی قوت پر شک کا اظہار نہ کِیا مگر اُس نے خود کو اُس کام کیلئے نااہل محسوس کِیا جو خدا نے اُسے کرنے کیلئے دیا تھا۔ مشفقانہ طور پر یہوواہ نے وہ حوصلہافزائی فراہم کر دی جس کی موسیٰ کو ضرورت تھی۔ (خروج ۳:۱۱–۴:۱۷) موسیٰ کا ایمان مضبوط ہو گیا۔ وہ مصر کو لوٹا اور بارہا فرعون کے روبرو ہو کر مصر پر آنے والی آفتوں کی بابت آگاہ کِیا جوکہ اسرائیل کو بادشاہ کی طرف سے یہوواہ کی پرستش کیلئے جانے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے آئیں گی۔ اُن آفات کو نازل کرنے کیلئے موسیٰ کے پاس کوئی ذاتی قوت نہیں تھی۔ وہ ایمان پر چلا نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔ اُسکا ایمان یہوواہ اور اُس کے کلام پر تھا۔ فرعون نے موسیٰ کو دھمکایا۔ تاہم موسیٰ ایمان پر قائم رہا۔ ”ایمان ہی سے اُس نے بادشاہ کے قہر کا خوف نہ کر کے مصر کو چھوڑ دیا اسلئےکہ وہ اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہا۔“ (عبرانیوں ۱۱:۲۷) موسیٰ کامل نہیں تھا۔ اُس سے غلطیاں سرزد ہوئیں۔ (گنتی ۲۰:۷-۱۲) تاہم، خدا سے حکم پانے کے بعد اُسکا مجموعی طرزِزندگی ایمان کے تابع تھا۔
۱۷. اگرچہ وہ خدا کی نئی دُنیا کو دیکھنے کے لئے ندہ نہ رہے تو بھی نوح، ابرہام اور موسیٰ کا ایمان پر چلنا کس چیز پر منتج ہوا؟
۱۷ دُعا ہے کہ آپکا ایمان نوح، ابرہام اور موسیٰ جیسا ثابت ہو۔ سچ ہے کہ اُنہوں نے اپنے زمانے میں خدا کی نئی دُنیا نہیں دیکھی تھی۔ (عبرانیوں ۱۱:۳۹) ابھی خدا کا مقررہ وقت نہیں آیا تھا؛ اُس کے مقصد کے دیگر پہلو بھی تھے جنکی تکمیل ابھی باقی تھی۔ تاہم، خدا کے کلام پر اُنکا ایمان نہیں ڈگمگایا تھا اور اُنکے نام خدا کی کتابِحیات میں ہیں۔
۱۸. جو لوگ آسمانی زندگی کیلئے بلائے گئے ہیں اُن کیلئے ایمان پر چلنا کیوں ضروری ہو گیا ہے؟
۱۸ رسول پولس نے لکھا، ”خدا نے پیشبینی کر کے ہمارے لئے کوئی بہتر چیز تجویز کی تھی۔“ یعنی، خدا نے اُن لوگوں کیلئے پیشبینی کر کے بہتر چیز تجویز کی ہے جنہیں پولس کی طرح مسیح کیساتھ آسمانی زندگی کیلئے بلایا گیا ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۴۰) یہ وہ لوگ ہیں جو بالخصوص اُس وقت پولس کے ذہن میں تھے جب اُس نے ۲-کرنتھیوں ۵:۷ میں درج الفاظ تحریر کئے: ”ہم ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔“ جب یہ بات تحریر کی گئی تو اُن میں سے کسی نے بھی ابھی تک اپنے آسمانی اجر کو حاصل نہیں کِیا تھا۔ وہ اُسے اپنی جسمانی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے تھے مگر اس پر اُنکا ایمان نہایت مضبوط تھا۔ آسمانی زندگی کی بخشش حاصل کرنے والوں میں سے پہلے پھل کے طور پر مسیح مُردوں میں سے زندہ کِیا جا چکا تھا۔ اور تقریباً ۵۰۰ سے زائد گواہوں نے اُسے آسمان پر جانے سے پہلے دیکھا تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳-۸) اُن کے پاس اپنے تمامتر طرزِزندگی کو اُس ایمان کے تابع رکھنے کی کافی زیادہ وجوہات موجود تھیں۔ ہمارے پاس بھی ایمان پر چلتے رہنے کیلئے ٹھوس وجوہات ہیں۔
۱۹. جیسےکہ عبرانیوں ۱:۱، ۲ میں ظاہر کِیا گیا ہے، خدا نے کس کی معرفت ہم سے کلام کِیا ہے؟
۱۹ آجکل، یہوواہ اپنے لوگوں سے فرشتے کے ذریعے کلام نہیں کرتا جیسے اُس نے جلتی جھاڑی میں سے موسیٰ سے کِیا تھا۔ خدا نے اپنے بیٹے کے ذریعے کلام کِیا ہے۔ (عبرانیوں ۱:۱، ۲) خدا نے اُس کے ذریعے جوکچھ بھی کہا، اُس نے وہ سب بائبل میں قلمبند کرایا ہے، جسکا ترجمہ پوری دُنیا میں بسنے والے لوگوں کی زبانوں میں کِیا گیا ہے۔
۲۰. ہماری حالت نوح، ابرہام اور موسیٰ کی نسبت کہیں زیادہ بہتر کیسے ہے؟
۲۰ ہمارے پاس نوح، ابرہام اور موسیٰ کی نسبت کہیں زیادہ کچھ ہے۔ ہمارے پاس خدا کا مکمل کلام ہے—جس میں سے زیادہتر پہلے ہی تکمیل پا چکا ہے۔ اُس سب کے پیشِنظر جو بائبل اُن عورتوں اور مردوں کی بابت بیان کرتی ہے جنہوں نے تمام طرح کی مشکلات کے مقابلے میں خود کو یہوواہ کے وفادار گواہ ثابت کِیا، عبرانیوں ۱۲:۱ تاکید کرتی ہے: ”آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اُس گناہ کو جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے دُور کر کے اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔“ ہمارا ایمان کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ ”گناہ جو آسانی سے اُلجھا لیتا ہے“ وہ ایمان کی کمی ہے۔ اگر ہمیں ”ایمان پر چلتے“ رہنا ہے تو اس کیلئے سخت جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
[فٹنوٹ]
a دیکھیں دی بائبل—گاڈز ورڈ اور مینز؟، مطبوعہ واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ۔
آپکا تبصرہ کیا ہے؟
◻”ایمان پر چلتے“ رہنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
◻نوح نے جسطرح ایمان کا اظہار کِیا ہم اُس سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
◻ابرہام نے جسطرح سے ایمان ظاہر کِیا اُس سے ہمیں کیسے مدد ملتی ہے؟
◻بائبل موسیٰ کا حوالہ ایمان کی ایک مثال کے طور پر کیوں دیتی ہے؟
[صفحہ 9 پر تصویر]
ابرہام ایمان پر چلا
[صفحہ 9 پر تصویر]
فرعون کے رُوبُرو موسیٰ اور ہارون نے ایمان کا مظاہرہ کِیا