مسیح کا فدیہ نجات کی خدائی راہ
”خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشدیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“—یوحنا ۳:۱۶۔
۱، ۲. نسلِانسانی سے متعلق فروغ پانے والی تشویشناک حالت کو بیان کریں۔
تصور کریں کہ آپ کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جو آپریشن نہ کرانے کی صورت میں یقیناً آپکی جان لے لیگی۔ اگر آپریشن کی قیمت آپکی استطاعت سے باہر ہو تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟ اُس صورت میں کیا ہو اگر آپکے خاندان اور دوستوں کے تمام وسائل بھی اسے ادا نہیں کر سکتے؟ ایسی خطرناک حالت میں مبتلا ہونا کتنا پریشانکُن ہوگا!
۲ اس سے ایسی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے جو نسلِانسانی کے سلسلے میں پیدا ہو چکی ہے۔ ہمارے پہلے والدین، آدم اور حوا، کامل خلق کئے گئے تھے۔ (استثنا ۳۲:۴) اُن کے پاس ہمیشہ زندہ رہنے اور خدا کے مقصد کو پورا کرنے کا امکان تھا: ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو۔“ (پیدایش ۱:۲۸) تاہم، آدم اور حوا نے اپنے خالق کیخلاف بغاوت کی۔ (پیدایش ۳:۱-۶) اُنکی نافرمانی نہ صرف آدم اور حوا کو بلکہ اُنکی نازائیدہ اولاد کو بھی گناہ کے زیرِاثر لے آئی۔ ایماندار شخص ایوب نے بعد میں کسی وقت کہا: ”ناپاک چیز میں سے پاک چیز کون نکال سکتا ہے؟ کوئی نہیں۔“—ایوب ۱۴:۴۔
۳. موت سب آدمیوں میں کیسے پھیل گئی؟
۳ پس گناہ ایک ایسی بیماری کی مانند ہے جس نے ہم سب کو متاثر کِیا ہے کیونکہ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”سب نے گناہ کِیا۔“ اس صورتحال کے نتائج بہت خطرناک ہیں۔ بِلاشُبہ، ”گناہ کی مزدوری موت ہے۔“ (رومیوں ۳:۲۳؛ ۶:۲۳) ہم میں سے کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔ سب انسان گناہ کرتے ہیں اسلئے سب انسان مرتے ہیں۔ آدم کی اولاد کے طور پر، ہم اس تشویشناک حالت کے تحت پیدا ہوئے تھے۔ (زبور ۵۱:۵) پولس نے لکھا: ”جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئےکہ سب نے گناہ کِیا۔“ (رومیوں ۵:۱۲) تاہم اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے پاس نجات کی کوئی اُمید نہیں ہے۔
گناہ اور موت کو ختم کرنا
۴. انسان خود بیماری اور موت کو ختم کیوں نہیں کر سکتے؟
۴ گناہ اور اسکے انجام موت کو ختم کرنے کیلئے کیا ادا کرنا ہوگا؟ واضح طور پر ایک ایسی چیز جو کوئی بھی انسان فراہم نہیں کر سکتا۔ زبورنویس نے رنجوغم کا اظہار کِیا: ”انسانی زندگی کا معاوضہ بہت زیادہ ہے۔ جو کچھ وہ ادا کر سکتا ہے وہ کبھی بھی اُسے قبر سے بچانے اور ابدی زندگی دلانے کیلئے کافی نہ ہوگا۔“ (زبور ۴۹:۸، ۹، ٹوڈیز انگلش ورشن) اگرچہ ہم صحتبخش غذا اور طبّی نگہداشت سے اپنی زندگی کو چند سال بڑھا سکتے ہیں مگر ہم میں سے کوئی بھی ہماری موروثی گنہگارانہ حالت کا علاج نہیں کر سکتا۔ ہم میں سے کوئی بھی بڑھاپے کے معذور کر دینے والے اثرات کو دُور کر کے اپنے جسم کو خدا کے ابتدائی مقصد کے مطابق کامل نہیں بنا سکتا۔ جب پولس نے یہ لکھا کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے انسانی مخلوق ”بطالت کے اختیار“ میں آ گئی—یا دی جیروصلم بائبل کے مطابق، ”اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی—تو وہ یقیناً مبالغہآرائی سے کام نہیں لے رہا تھا۔ (رومیوں ۸:۲۰) تاہم، خوشی کی بات ہے کہ خالق نے ہمیں ترک نہیں کِیا۔ اُس نے گناہ اور موت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا بندوبست کِیا ہے۔ کیسے؟
۵. اسرائیل کو دی جانیوالی شریعت نے انصاف کیلئے گہرے احترام کی عکاسی کیسے کی تھی؟
۵ یہوواہ ”صداقت اور انصاف کو پسند“ کرتا ہے۔ (زبور ۳۳:۵) اُس نے اسرائیل کو جو شریعتی ضابطہ دیا اُس سے متوازن اور غیرجانبدارانہ انصاف کیلئے پاسولحاظ کی عکاسی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، اس قانون میں ہم پڑھتے ہیں کہ ’زندگی کے بدلے زندگی دی جانی چاہئے۔‘ باالفاظِدیگر، اگر کوئی اسرائیلی کسی کو قتل کرتا تو مقتول کی زندگی کے بدلے اُسکی زندگی لی جاتی تھی۔ (خروج ۲۱:۲۳؛ گنتی ۳۵:۲۱) اس طرح الہٰی انصاف کے تقاضے پورے ہو جاتے تھے۔—مقابلہ کریں خروج ۲۱:۳۰۔
۶. (ا) آدم کو کس مفہوم میں قاتل کہا جا سکتا ہے؟ (ب) آدم نے کس قسم کی زندگی کھو دی اور انصاف کے ترازو کو متوازن رکھنے کے لئے کس قسم کی قربانی درکار تھی؟
۶ جب آدم نے گناہ کِیا تو وہ ایک قاتل بن گیا۔ کس مفہوم میں؟ اس طرح کہ وہ اپنی گنہگارانہ حالت—اور بالآخر موت—کو اپنی تمام اولاد میں منتقل کرے گا۔ آدم کی نافرمانی کی وجہ سے ہی آج ہمارے جسم تنزلی، رفتہرفتہ قبر کی جانب گامزن ہیں۔ (زبور ۹۰:۱۰) آدم کے گناہ کا ایک اَور سنگین اثر بھی پڑا ہے۔ یاد کریں کہ آدم نے اپنے اور اپنی اولاد کے لئے ۷۰ یا ۸۰ سال کی عام زندگی ہی نہیں کھوئی تھی۔ اُس نے کامل زندگی—درحقیقت، ابدی زندگی—کھو دی تھی۔ لہٰذا اگر ’زندگی کے بدلے زندگی ہونی چاہئے‘ توپھر اس معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کس قسم کی زندگی پیش کی جانی چاہئے؟ منطقی طور پر، ایک کامل انسانی زندگی—آدم جیسی زندگی جس میں کامل انسانی نسل پیدا کرنے کا امکان موجود تھا۔ کامل انسانی زندگی کے قربانی کے طور پر پیش کئے جانے سے نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے ہو جائیں گے بلکہ گناہ اور اسکے انجام موت کا مکمل خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔
گناہ کی قیمت ادا کرنا
۷. لفظ ”فدیہ“ کا مطلب بیان کریں۔
۷ ہمیں گناہ سے چھڑانے کے لئے ادا کی جانے والی قیمت کو بائبل میں ”فدیہ“ کہا گیا ہے۔ (زبور ۴۹:۷) اُردو میں اسکا مطلب تاوان کی وہ رقم ہو سکتا ہے جسکا ایک اغوا کرنے والا کسی اغواشُدہ شخص کو چھڑانے کیلئے مطالبہ کرتا ہے۔ بِلاشُبہ جو فدیہ یہوواہ فراہم کرتا ہے اُس میں کوئی اغوا شامل نہیں ہے۔ تاہم قیمت ادا کرنے کا تصور وہی ہے۔ درحقیقت جس عبرانی فعل کا ترجمہ ”فدیہ“ کِیا گیا ہے اُسکا لفظی مطلب ”ڈھانپنا“ ہے۔ گناہ کا کفارہ دینے کیلئے فدیے کو عین اُس چیز کے مطابق ہونا چاہئے جسے ڈھانپنا مقصود ہے—آدم کی کامل انسانی زندگی کے بالکل مساوی۔
۸. (ا) چھڑانے کا اصول بیان کریں۔ (ب) چھڑانے کا اصول گنہگاروں کے طور پر ہم سے کیسے تعلق رکھتا ہے؟
۸ یہ موسوی شریعت میں پائے جانے والے اصول—چھڑانے کے اصول—سے ہم آہنگ ہے۔ اگر کوئی اسرائیلی غربت کے باعث خود کو کسی غیراسرائیلی کی غلامی میں بیچ ڈالتا تھا تو اُسکا رشتہدار غلام کی مساوی قیمت ادا کر کے (یعنی فدیہ ادا کرکے) اُسے چھڑا سکتا تھا۔ (احبار ۲۵:۴۷-۴۹) بائبل بیان کرتی ہے کہ ناکامل انسانوں کے طور پر ہم ”گناہ کی غلامی“ میں ہیں۔ (رومیوں ۶:۶؛ ۷:۱۴، ۲۵) ہمیں چھڑانے کیلئے کیا ادا کرنا ہوگا؟ جیساکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک کامل انسانی زندگی کے نقصان کو پورا کرنے کیلئے—نہ کچھ زیادہ نہ کچھ کم ایک کامل انسانی زندگی ہی درکار ہوگی۔
۹. یہوواہ نے گناہ کو ڈھانپنے کا بندوبست کیسے کِیا ہے؟
۹ بِلاشُبہ، ہم انسان ناکامل پیدا ہوتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی آدم کے برابر نہیں؛ ہم میں سے کوئی بھی فدیے کی وہ قیمت ادا نہیں کر سکتا جسکا انصاف تقاضا کرتا ہے۔ جیساکہ شروع میں بیان کِیا گیا یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسےکہ ہم کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں اور اس سے شفا دلانے والے آپریشن کی قیمت ادا نہیں کر سکتے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی ہماری مدد کو آن پہنچے اور قیمت ادا کر دے تو کیا ہم شکرگزار نہیں ہونگے؟ یہوواہ نے بالکل ایسا ہی کِیا ہے! اُس نے ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گناہ سے آزاد کرنے کا بندوبست کِیا ہے۔ جیہاں، وہ ہمیں ایسی چیز دینے کو تیار ہے جو ہم خود کبھی ادا نہیں کر سکتے تھے۔ کیسے؟ پولس نے لکھا: ”خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ (رومیوں ۶:۲۳) یوحنا کے مطابق یسوع ”خدا کا برّہ ہے جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔“ (یوحنا ۱:۲۹) آئیے دیکھیں کہ یہوواہ نے فدیے کی قیمت ادا کرنے کیلئے اپنے عزیز بیٹے کو کیسے استعمال کِیا۔
”فدیہ“
۱۰. ”نسل“ کی بابت پیشینگوئیاں یوسف اور مریم پر کیسے مُرتکز ہو گئیں؟
۱۰ عدن میں بغاوت کے فوراً بعد، یہوواہ نے ایک ”نسل“ یا اولاد پیدا کرنے کے اپنے مقصد کا اعلان کِیا جو نوعِانسان کے گناہ کا فدیہ دے گی۔ (پیدایش ۳:۱۵) الہٰی انکشافات کے ایک سلسلے کے ذریعے یہوواہ نے اُس شجرۂنسب کی نشاندہی کی جس سے یہ نسل پیدا ہوگی۔ وقت آنے پر ان انکشافات نے فلسطین میں رہنے والے ایک جوڑے، یوسف اور مریم پر توجہ مرکوز کرائی جنکی منگنی ہو چکی تھی۔ ایک خواب میں یوسف کو بتایا گیا کہ مریم روحالقدس کی بدولت حاملہ ہے۔ فرشتے نے کہا: ”اُس کے بیٹا ہوگا اور تُو اُس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دے گا۔“—متی ۱:۲۰، ۲۱۔
۱۱. (ا) یہوواہ نے اپنے بیٹے کیلئے ایک کامل انسان کے طور پر پیدا ہونے کا بندوبست کیسے کِیا؟ (ب) یسوع ”فدیہ“ فراہم کرنے کے قابل کیوں تھا؟
۱۱ یہ کوئی عام حمل نہیں تھا کیونکہ یسوع انسان بننے سے قبل آسمان میں موجود تھا۔ (امثال ۸:۲۲-۳۱؛ کلسیوں ۱:۱۵) یہوواہ کی معجزانہ طاقت کے ذریعے اُس کی زندگی کو مریم کے رحم میں منتقل کر دیا گیا اور یوں خدا کے عزیز بیٹے کی بطور انسان پیدائش کو ممکن بنایا گیا۔ (یوحنا ۱:۱-۳، ۱۴؛ فلپیوں ۲:۶، ۷) یہوواہ نے تمام معاملات میں رہبری کی تاکہ یسوع آدم کے گناہ سے بےداغ رہے۔ لہٰذا، یسوع کامل پیدا ہوا۔ اسی لئے اُس کے پاس وہ چیز تھی جسے آدم نے کھو دیا تھا یعنی کامل انسانی زندگی۔ انجامکار، صفحۂہستی پر ایسا انسان موجود تھا جو گناہ کی قیمت ادا کر سکتا تھا! چنانچہ یسوع نے نیسان ۱۴، ۳۳ س.ع. کو بالکل یہی کِیا۔ اُسی تاریخی دن پر، یسوع نے اپنے مخالفین کو اجازت دے دی کہ اُسے مصلوب کریں اور یوں اُس نے ”فدیہ“ فراہم کِیا۔—۱-تیمتھیس ۲:۶۔
کامل انسانی زندگی کی قدروقیمت
۱۲. (ا) یسوع کی موت اور آدم کی موت کے مابین قطعی فرق کو بیان کریں۔ (ب) یسوع فرمانبردار نوعِانسان کیلئے ”ابدیت کا باپ“ کیسے بن گیا ہے؟
۱۲ یسوع کی موت اور آدم کی موت میں فرق ہے—ایک ایسا فرق جو فدیے کی قدروقیمت کو نمایاں کرتا ہے۔ آدم موت کا سزاوار تھا کیونکہ اُس نے قصداً اپنے خالق کی حکمعدولی کی تھی۔ (پیدایش ۲:۱۶، ۱۷) اس کے برعکس، یسوع موت کا مستحق نہیں تھا کیونکہ ”اُس نے گناہ“ نہیں کِیا تھا۔ (۱-پطرس ۲:۲۲) پس جب یسوع مرا تو اُس کے پاس ایسی گراںبہا چیز تھی جو گنہگار آدم کے پاس اُس کی موت کے وقت نہیں تھی—کامل انسانی زندگی کا حق۔ لہٰذا، یسوع کی موت قربانی جیسی قدروقیمت رکھتی تھی۔ روحانی شخص کے طور پر آسمان پر جانے سے قبل اُس نے یہوواہ کے حضور اپنی قربانی کی قدروقیمت پیش کی۔ (عبرانیوں ۹:۲۴) ایسا کرنے سے یسوع نے گنہگار نوعِانسان کو خرید لیا اور آدم کی جگہ اُن کا نیا باپ بن گیا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۵) یسوع کو بجا طور پر ”ابدیت کا باپ“ کہا گیا ہے۔ (یسعیاہ ۹:۶) ذرا سوچیں کہ اس کا کیا مطلب ہے! گنہگار باپ آدم نے اپنی تمام پُشتوں کو موت دی۔ کامل باپ یسوع فرمانبردار انسانوں کو ابدی زندگی عطا کرنے کے لئے اپنی قربانی کی قدروقیمت کو استعمال کرتا ہے۔
۱۳. (ا) وضاحت کریں کہ یسوع نے آدم کے قرض کو کیسے چکا دیا۔ (ب) یسوع کی قربانی ہمارے پہلے والدین کے گناہ کو کیوں نہیں ڈھانپتی؟
۱۳ تاہم، ایک شخص کی موت بہتیرے انسانوں کے گناہوں کو کیسے ڈھانپ سکتی ہے؟ (متی ۲۰:۲۸) چند سال پہلے ایک مضمون میں ہم نے فدیے کو اس تمثیل سے واضح کِیا تھا: ”تصور کریں کہ ایک بہت بڑی فیکٹری میں سینکڑوں مزدور ہیں۔ فیکٹری کے ایک بددیانت مینیجر کی وجہ سے کاروبار کا دیوالیہ ہو جاتا ہے اور فیکٹری بند ہو جاتی ہے۔ اب سینکڑوں مزدور بیروزگار ہیں اور اپنے اخراجات پورے نہیں کر پاتے۔ اُن کے بیاہتا ساتھی، بچے اور ہاں قرضخواہ سب کے سب اُس ایک آدمی کی بددیانتی کے باعث مصیبت اُٹھاتے ہیں! پھر ایک دولتمند محسن آ کر کمپنی کا قرض ادا کر دیتا ہے اور فیکٹری کو دوبارہ کھولتا ہے۔ اُس ایک قرضے کی ادائیگی سے بہتیرے ملازمین، اُن کے خاندان اور قرضخواہ سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ لیکن کیا اُس پہلے مینیجر کو اِس نئی خوشحالی میں شریک کِیا جاتا ہے؟ نہیں، وہ جیل میں ہے اور مستقل طور پر اپنی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے! اسی طرح آدم کے ایک قرض کی ادائیگی سے آدم کے علاوہ اُس کی اولاد کے لاکھوں لوگ مستفید ہوتے ہیں۔“
۱۴، ۱۵. آدم اور حوا کو خودسر گنہگار کیوں کہا جا سکتا ہے اور ہماری حالت اُن سے کیسے فرق ہے؟
۱۴ یہ بالکل مناسب ہے۔ یاد رہے کہ آدم اور حوا نے جانبوجھ کر گناہ کِیا تھا۔ اُنہوں نے خدا کی نافرمانی کرنے کا انتخاب کِیا۔ اس کے برعکس، ہم گناہ کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی انتخاب نہیں۔ ہم خواہ کتنی ہی کوشش کریں ہم مکمل طور پر گناہ کرنے سے گریز نہیں کر سکتے۔ (۱-یوحنا ۱:۸) بعضاوقات ہم پولس کی طرح محسوس کر سکتے ہیں جس نے لکھا: ”جب نیکی کا ارادہ کرتا ہوں تو بدی میرے پاس آ موجود ہوتی ہے۔ کیونکہ باطنی انسانیت کی رُو سے تو مَیں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں۔ مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گُناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے۔ ہائے مَیں کیسا کمبخت آدمی ہوں!“—رومیوں ۷:۲۱-۲۴۔
۱۵ تاہم، فدیے کی بدولت ہمارے پاس اُمید ہے! یسوع ہی وہ نسل ہے جس کے ذریعے خدا کے وعدہ کے موافق، ”زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔“ (پیدایش ۲۲:۱۸؛ رومیوں ۸:۲۰) یسوع کی قربانی اُن لوگوں کے لئے شاندار مواقع کی راہ کھولتی ہے جو اُس پر ایمان ظاہر کرتے ہیں۔ آئیے ان میں سے چند ایک پر غور کریں۔
مسیح کے فدیے سے فائدہ اُٹھانا
۱۶. اپنی گنہگارانہ حالت کے باوجود اب ہم یسوع کے فدیے کی بدولت کن فوائد سے مستفید ہو سکتے ہیں؟
۱۶ بائبل مصنف یعقوب تسلیم کرتا ہے کہ ”ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔“ (یعقوب ۳:۲) تاہم، مسیح کے فدیے کی بدولت ہماری خطاؤں کی معافی ہو سکتی ہے۔ یوحنا لکھتا ہے: ”اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار موجود ہے یعنی یسوؔع مسیح راستباز۔ اور وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے۔“ (۱-یوحنا ۲:۱، ۲) بِلاشُبہ، ہمیں گناہ سے لاپرواہی نہیں برتنی چاہئے۔ (یہوداہ ۴؛ مقابلہ کریں ۱-کرنتھیوں ۹:۲۷۔) تاہم، اگر ہم سے خطا ہو جاتی ہے تو ہم اس اعتماد کے ساتھ یہوواہ کے سامنے اپنا دل اُنڈیل سکتے ہیں کہ وہ ”معاف کرنے کو تیار“ ہے۔ (زبور ۸۶:۵؛ ۱۳۰:۳، ۴؛ یسعیاہ ۱:۱۸؛ ۵۵:۷؛ اعمال ۳:۱۹) پس فدیہ ہمیں صاف ضمیر کے ساتھ خدا کی خدمت کرنے کے لائق بناتا ہے اور ہمارے لئے یسوع مسیح کے نام کے وسیلے دُعا میں اُس تک رسائی کرنا ممکن بناتا ہے۔—یوحنا ۱۴:۱۳، ۱۴؛ عبرانیوں ۹:۱۴۔
۱۷. فدیے کی بدولت مستقبل میں کونسی برکات ممکن ہیں؟
۱۷ مسیح کا فدیہ اس خدائی مقصد کی تکمیل کی راہ کھولتا ہے کہ فرمانبردار انسان زمین پر ابد تک فردوس میں رہیں۔ (زبور ۳۷:۲۹) پولس نے لکھا: ”خدا کے جتنے وعدے ہیں وہ سب اس [یسوع] میں ہاں کے ساتھ ہیں۔“ (۲-کرنتھیوں ۱:۲۰) سچ ہے کہ موت نے ”بادشاہی“ کی ہے۔ (رومیوں ۵:۱۷) فدیہ خدا کے لئے اس ”آخری دشمن“ کو نیست کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۶، اینڈبلیو؛ مکاشفہ ۲۱:۴) یسوع کا فدیہ مُردوں کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ یسوع نے کہا: ”وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس [یسوع] کی آواز سنکر نکلینگے۔“—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۰-۲۲۔
۱۸. گناہ نے انسانوں پر کونسا المناک اثر ڈالا ہے اور خدا کی نئی دُنیا میں اسے کیسے زائل کر دیا جائیگا؟
۱۸ ذرا تصور کریں کہ آجکل ہمیں پریشان کرنے والی فکروں سے آزاد، ابتدائی مقصد کے مطابق زندگی گزارنا کتنا مسرتبخش ہوگا! گناہ نے ہمیں نہ صرف خدا سے بلکہ اپنے دلودماغ اور بدن سے بھی بےبہرہ کر دیا ہے۔ تاہم، بائبل وعدہ کرتی ہے کہ خدا کی نئی دُنیا کے ”باشندوں میں بھی کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔“ جیہاں، پھر جسمانی اور جذباتی بیماریاں نوعِانسان کو دُکھ نہیں دینگی۔ کیوں؟ یسعیاہ جواب دیتا ہے: ”اُنکے گناہ بخشے جائینگے۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۴۔
فدیہ—محبت کا ایک اظہار
۱۹. ہمیں انفرادی طور پر مسیح کے فدیے سے کیسے اثرپذیر ہونا چاہئے؟
۱۹ یہوواہ نے محبت سے تحریک پا کر اپنے عزیز بیٹے کو بھیجا۔ (رومیوں ۵:۸؛ ۱-یوحنا ۴:۹) محبت نے ہی یسوع کو تحریک دی کہ ”وہ ہر آدمی کے لئے موت کا مزہ چکھے۔“ (عبرانیوں ۲:۹؛ یوحنا ۱۵:۱۳) معقول طور پر پولس نے لکھا: ”مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے . . . وہ اس لئے سب کے واسطے مؤا کہ جو جیتے ہیں آگے کو اپنے لئے نہ جئیں بلکہ اس کے لئے جو اُن کے واسطے مؤا اور پھر جی اُٹھا۔“ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۴، ۱۵) یسوع نے ہماری خاطر جوکچھ کِیا اگر ہم اُس کی قدر کرتے ہیں تو ہم اُس کے لئے جوابیعمل دکھائیں گے۔ بہرحال، فدیہ ہمارے لئے موت سے چھوٹ جانے کو ممکن بناتا ہے! یقیناً ہم اپنے اعمال سے کبھی بھی یہ تاثر نہیں دینا چاہیں گے کہ ہمارے نزدیک یسوع کی قربانی کی کوئی وقعت نہیں ہے۔—عبرانیوں ۱۰:۲۹۔
۲۰. ہم بعض کن طریقوں سے یسوع کے ”کلام“ پر عمل کرتے ہیں؟
۲۰ ہم فدیے کے لئے دلی قدردانی کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں؟ اپنی گرفتاری سے ذرا پہلے یسوع نے بیان کِیا: ”اگر کوئی مجھ سے محبت رکھے تو وہ میرے کلام پر عمل کرے گا۔“ (یوحنا ۱۴:۲۳) یسوع کے ”کلام“ میں یہ حکم بھی شامل ہے کہ ہم اس تفویض کو پورا کرنے میں سرگرمی سے حصہ لیں: ”پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور ان کو باپ اور بیٹے اور روحالقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔“ (متی ۲۸:۱۹) یسوع کی فرمانبرداری اپنے روحانی بھائیوں کیلئے محبت دکھانے کا بھی تقاضا کرتی ہے۔—یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵۔
۲۱. ہمیں یکم اپریل کو یادگاری کی تقریب پر کیوں حاضر ہونا چاہئے؟
۲۱ فدیے کیلئے قدردانی دکھانے کا ایک بہترین طریقہ مسیح کی موت کی یادگاری پر حاضر ہونا ہے جو اس سال یکم اپریل کو منعقد ہوگی۔a یہ بھی یسوع کے ”کلام“ کا حصہ ہے کیونکہ اس تقریب کو رائج کرتے وقت یسوع نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا تھا: ”میری یادگاری کے لئے یہی کِیا کرو۔“ (لوقا ۲۲:۱۹) اس نہایت اہم موقع پر حاضر ہونے اور اُن تمام باتوں پر دھیان دینے سے جنکا مسیح نے حکم دیا ہم اپنے اس پُختہ یقین کا اظہار کرینگے کہ یسوع کا فدیہ نجات کی خدائی راہ ہے۔ واقعی، ”کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں۔“—اعمال ۴:۱۲۔
[فٹنوٹ]
a اس سال یکم اپریل، نیسان ۱۴، ۳۳ س.ع. کی تاریخ کے مساوی ہے جب یسوع کی موت واقع ہوئی تھی۔ یادگاری کی تقریب کے وقت اور مقام کیلئے مقامی طور پر یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کیجئے۔
کیا آپ یاد کر سکتے ہیں؟
◻انسان اپنی گنہگارانہ حالت کا کفارہ کیوں نہیں دے سکتے؟
◻یسوع کس طریقے سے ”فدیہ“ ہے؟
◻یسوع نے کامل انسانی زندگی کے اپنے حق کو ہمارے فائدے کیلئے کیسے استعمال کِیا؟
◻مسیح کے فدیے کی بدولت نوعِانسان کو کونسی برکات حاصل ہوتی ہیں؟
[صفحہ 15 پر تصویر]
صرف ایک کامل انسان—آدم کا ہمپلہ انسان—ہی انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکتا تھا
[صفحہ 16 پر تصویر]
چونکہ یسوع کامل انسانی زندگی رکھتا تھا اسی لئے اُس کی موت قربانی جیسی قدروقیمت رکھتی تھی