’صلح کے طالب ہوں اور اُسکی کوشش میں رہیں‘
”جہاں تک ہو سکے تم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو۔“—رومیوں ۱۲:۱۸۔
۱، ۲. انسانساختہ امن کے قائم نہ رہنے کی بعض وجوہات کیا ہیں؟
ایک ایسے مکان کا تصور کریں جس کی بنیاد کمزور، شہتیر کھوکھلے اور چھت ٹپکتی ہے۔ کیا آپ اس میں منتقل ہونا اور اسے اپنا گھر بنانا چاہیں گے؟ غالباً نہیں۔ اس گھر میں نیا رنگوروغن کرنا بھی اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا کہ یہ کمزور ہے۔ جلدیابدیر، یہ گِر جائے گا۔
۲ اس دُنیا میں پایا جانے والا ہر قسم کا امنوامان اس مکان کی طرح ہے۔ یہ کمزور بنیاد پر یعنی انسان کے وعدوں اور منصوبوں پر قائم ہے جو ”بچا نہیں سکتا۔“ (زبور ۱۴۶:۳) تاریخ قومی، نسلی اور قبائلی کشمکش کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ سچ ہے کہ تھوڑے عرصے کیلئے امن بھی رہا ہے لیکن کس قسم کا امن؟ اگر دو قومیں جنگ میں اُلجھی ہوئی ہیں لیکن بعدازاں امن کا اعلان محض اسلئے کر دیا جاتا ہے کہ ایک قوم کو شکست ہو گئی ہے یا دونوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اب لڑنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا تو یہ کس قسم کا امن ہے؟ جنگ کو ہوا دینے والی نفرت، شکوک اور حسد تو ابھی تک موجود ہیں۔ ایسا امن جسکا مقصد محض دکھاوا یا نفرت پر پردہ ڈالنا ہو پائیدار نہیں ہوتا۔—حزقیایل ۱۳:۱۰۔
۳. خدا کے لوگوں میں پایا جانے والا امن کسی بھی انسانساختہ امن سے فرق کیوں ہے؟
۳ تاہم، جنگ سے پاشپاش اس دُنیا میں حقیقی امن نہیں پایا جاتا۔ توپھر یہ کہاں پایا جاتا ہے؟ یہ امن یسوع مسیح کے نقشِقدم پر چلنے والے حقیقی مسیحیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جو یسوع کی باتوں پر دھیان دیتے اور اس کی روش کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۱؛ ۱-پطرس ۲:۲۱) مختلف نسلوں، سماجی مرتبوں اور قومیتوں کے سچے مسیحیوں کے درمیان پایا جانے والا امن اس لئے حقیقی ہے کہ یہ یسوع مسیح کے فدیے پر ایمان کی بدولت خدا کیساتھ انکے پُرامن رشتے سے جنم لیتا ہے۔ اُن کا امن انسانی تدابیر کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کی بخشش ہے۔ (رومیوں ۱۵:۳۳؛ افسیوں ۶:۲۳، ۲۴) یہ خود کو ’سلامتی کے شاہزادے،‘ یسوع مسیح کے مطیع کر لینے اور ”محبت اور میلملاپ“ کے خدا، یہوواہ کی پرستش کرنے کا ثمر ہے۔—یسعیاہ ۹:۶؛ ۲-کرنتھیوں ۱۳:۱۱۔
۴. ایک مسیحی امن کی ”کوشش میں“ کیسے رہ سکتا ہے؟
۴ ناکامل اشخاص کو امن یونہی حاصل نہیں ہو جاتا۔ پطرس نے کہا کہ ہر مسیحی کو چاہئے کہ وہ ”صلح کا طالب ہو اور اُسکی کوشش میں رہے۔“ (۱-پطرس ۳:۱۱) ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ ایک قدیم پیشینگوئی اسکا جواب دیتی ہے۔ یسعیاہ کی معرفت کلام کرتے ہوئے، یہوواہ نے فرمایا: ”تیرے سب فرزند [یہوواہ] سے تعلیم پائینگے اور تیرے فرزندوں کی سلامتی کامل ہوگی۔“ (یسعیاہ ۵۴:۱۳؛ فلپیوں ۴:۹) جیہاں، یہوواہ کی تعلیمات پر دھیان دینے والوں کو حقیقی امن حاصل ہوتا ہے۔ مزیدبرآں، ”محبت۔ خوشی۔ . . . تحمل۔ مہربانی۔ نیکی۔ ایمانداری۔ حلم۔ پرہیزگاری“ کیساتھ اطمینان یعنی امن بھی خدا کی روحالقدس کا ایک پھل ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) یہ غیرمشفق، ناشاد، غیرمتحمل، نامہربان، شریر، بےایمان، تندمزاج یا ناپرہیزگار شخص کو حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔
”سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ“
۵، ۶. (ا) پُرامن اور صلحجُو ہونے میں کیا فرق ہے؟ (ب) مسیحی کن لوگوں کیساتھ صلحجُوئی سے پیش آنے کی کوشش کرتے ہیں؟
۵ امن کی تعریف ”اطمینان یا سکون کی حالت“ کے طور پر کی گئی ہے۔ ایسی تعریف اُن بہتیری حالتوں کا احاطہ کرتی ہے جن میں جھگڑا نہیں ہوتا۔ یہانتک کہ مُردے بھی امنوچین کی حالت میں ہوتے ہیں! تاہم، حقیقی امن سے استفادہ کرنے کیلئے محض پُرامن ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ اپنے پہاڑی وعظ میں یسوع نے کہا: ”مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔“ (متی ۵:۹) یسوع ایسے لوگوں سے ہمکلام تھا جنہیں بعدازاں خدا کے روحانی بیٹے بننے اور آسمان پر غیرفانی زندگی حاصل کرنے کا موقع حاصل ہونا تھا۔ (یوحنا ۱:۱۲؛ رومیوں ۸:۱۴-۱۷) علاوہازیں، وہ تمام وفادار انسان جنہیں آسمانی اُمید حاصل نہیں انجامکار ”خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی“ سے استفادہ کریں گے۔ (رومیوں ۸:۲۱) صرف صلحجُو شخص کے پاس ہی ایسی اُمید ہے۔ اکثراوقات پُرامن اور صلحجُو ہونے میں فرق ہوتا ہے۔ صحیفائی مفہوم میں صلحجُو ہونا سرگرمی سے امن کو فروغ دینے اور عام طور پر ایسی حالتوں میں صلح کرانے کی دلالت کرتا ہے جہاں پہلے اس کا فقدان تھا۔
۶ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، رومیوں کے نام پولس رسول کی مشورت پر غور کریں: ”جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۸) پولس رومی لوگوں کو محض پُرسکون اور مطمئن رہنے کیلئے نہیں کہہ رہا تھا اگرچہ یہ مفید ہو سکتا تھا۔ وہ اُنکی صلحوآشتی کیساتھ رہنے کی حوصلہافزائی کر رہا تھا۔ لیکن کن کیساتھ؟ ”سب آدمیوں“ کے ساتھ یعنی خاندانی افراد، ساتھی مسیحیوں، حتیٰکہ اُن لوگوں کیساتھ بھی جو اُنکے ہمایمان نہیں تھے۔ اس نے روم کے لوگوں کی حوصلہافزائی کی کہ ’جہاں تک ہو سکے‘ دوسرے لوگوں کیساتھ میلملاپ رکھیں۔ تاہم وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ میلملاپ کی خاطر اپنے اعتقادات پر مصالحت کر لیں۔ غیرضروری طور پر دوسروں کی مخالفت کرنے کی بجائے انہیں پُرامن مقصد کے ساتھ ان تک رسائی کرنی تھی۔ مسیحیوں کو بھی کلیسیا والوں اور باہر والوں کیساتھ اسی طرح پیش آنا تھا۔ (گلتیوں ۶:۱۰) اس کی مطابقت میں، پولس نے لکھا: ”ہر وقت نیکی کرنے کے درپے رہو۔ آپس میں بھی اور سب سے۔“—۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۵۔
۷، ۸. مسیحی اُن لوگوں کیساتھ بھی کیسے اور کیوں صلحجُوئی سے پیش آتے ہیں جو اُنکے ہمایمان نہیں ہوتے؟
۷ ہم اُن لوگوں کے ساتھ کیسے صلح رکھ سکتے ہیں جو ہمارے ہمایمان نہیں اور شاید ہماری مخالفت بھی کرتے ہیں؟ ایک بات تو یہ ہے کہ ہم برتری کا رُجحان ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض اشخاص کی بابت تحقیرآمیز باتیں کرنے سے بمشکل ہی صلح قائم رکھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ یہوواہ نے تنظیموں اور طبقوں کے خلاف اپنے عدالتی فیصلے صادر کر دئے ہیں توبھی ہمیں کسی بھی شخص کی بابت ایسی کوئی بات کہنے کا حق حاصل نہیں جس سے ظاہر ہو کہ اُسے پہلے ہی رد کر دیا گیا ہے۔ درحقیقت، ہم دوسروں، حتیٰکہ اپنے مخالفین کے بھی منصف نہیں ہیں۔ پولس نے ططس کو انسانی حکومتوں کیساتھ تعلقات کی بابت کریتے کے مسیحیوں کو مشورہ دینے کا حکم دیتے وقت کہا کہ انہیں یاد دلا کہ ”کسی کی بدگوئی نہ کریں۔ تکراری نہ ہوں بلکہ نرممزاج ہوں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔“—ططس ۳:۱، ۲۔
۸ صلحجُو ہونا اُن لوگوں کو سچائی سے رُوشناس کرانے کا باعث بنتا ہے جو ہمارے ہمایمان نہیں ہیں۔ بیشک، ہم ایسی دوستیاں پیدا نہیں کرتے جو ”اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی“ ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) تاہم، ہم خوشاخلاق ہو سکتے ہیں نیز ہمیں ہر طرح کے لوگوں کیساتھ عزتواحترام اور انسانی ہمدردی کیساتھ پیش آنا چاہئے۔ پطرس نے لکھا: ”غیرقوموں میں اپنا چالچلن نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں وہ تمہیں بدکار جان کر تمہاری بدگوئی کرتے ہیں تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر اُنہی کے سبب سے ملاحظہ کے دن خدا کی تمجید کریں۔“—۱-پطرس ۲:۱۲۔
خدمتگزاری میں صلحجُو
۹، ۱۰. پولس رسول نے بےایمانوں کیساتھ صلحجُوئی سے پیش آنے کے سلسلے میں کیا نمونہ قائم کِیا؟
۹ پہلی صدی کے مسیحی اپنی دلیری کی وجہ سے مشہور تھے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں آمیزش نہ کی بلکہ مخالفت کی صورت میں آدمیوں کی نسبت خدا کا حکم ماننے پر اٹل رہے۔ (اعمال ۴:۲۹؛ ۵:۲۹) تاہم، انہوں نے اپنی دلیری کو گستاخی میں نہیں بدلنے دیا تھا۔ جب پولس نے ہیرودیس اگرپا دوم کے سامنے اپنے ایمان کا دفاع کِیا تو اُس کی رسائی پر غور کریں۔ ہیرودیس اگرپا نے اپنی بہن برنیکے سے محرمانہ تعلقات رکھے ہوئے تھے۔ تاہم، پولس نے اگرپا کے سامنے اخلاقیات پر تقریر نہیں جھاڑی تھی۔ اس کے برعکس اُس نے اُن نکات پر زور دیا جس پر وہ دونوں متفق تھے اور یہودی رسوم سے واقفیت اور نبیوں پر اعتقاد کیلئے اُسکی تعریف کی۔—اعمال ۲۶:۲، ۳، ۲۷۔
۱۰ کیا پولس ریاکاری کیساتھ اُس آدمی کی چاپلوسی کر رہا تھا جو اسے رہائی دے سکتا تھا؟ جینہیں۔ پولس نے اپنی ہی مشورت پر عمل کِیا اور سچائی بیان کی۔ اس نے ہیرودیس اگرپا سے کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا۔ (افسیوں ۴:۱۵) لیکن پولس صلحجُو شخص تھا اور ”سب آدمیوں کے لئے سب کچھ“ بننا جانتا تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۹:۲۲) اس کا مقصد یسوع کی بابت منادی کرنے کے اپنے حق کا دفاع کرنا تھا۔ ایک اچھے اُستاد کے طور پر، اس نے ایسی بات سے گفتگو کا آغاز کِیا جس پر وہ اور اگرپا دونوں متفق ہو سکتے تھے۔ لہٰذا پولس نے اس بداخلاق بادشاہ کو مسیحیت کو مقبولیت کی نگاہ سے دیکھنے میں مدد دی۔—اعمال ۲۶:۲۸-۳۱۔
۱۱. ہم اپنی خدمتگزاری میں صلحجُو کیسے ثابت ہو سکتے ہیں؟
۱۱ ہم اپنی خدمتگزاری میں کیسے صلحجُو بن سکتے ہیں؟ پولس کی مانند، ہمیں بھی بحثوتکرار سے گریز کرنا چاہئے۔ سچ ہے کہ بعضاوقات ہمیں اپنے ایمان کا دلیری سے دفاع کرتے ہوئے ”بےخوف خدا کا کلام سنانے“ کی ضرورت پڑتی ہے۔ (فلپیوں ۱:۱۴) لیکن بیشتر معاملات میں ہمارا بنیادی مقصد خوشخبری کی منادی کرنا ہی ہوتا ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) اگر کوئی شخص خدا کے مقاصد کی بابت سچائی سمجھ لیتا ہے تو وہ جھوٹے مذہبی نظریات کو ترک کرنے کے علاوہ ناپاک کاموں سے خود کو پاک کر سکتا ہے۔ پس جہاں تک ہو سکے مشترکہ بنیاد قائم کرتے ہوئے، اُن باتوں پر زور دینا اچھا ہے جو ہمارے سننے والوں کو پسند آئینگی۔ کسی ایسے شخص کو دِق کرنا جو موقعشناسی سے رسائی کرنے کی صورت میں ہمارے پیغام کو سن سکتا ہے، ہمارے مقصد کی انجامدہی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔—۲-کرنتھیوں ۶:۳۔
خاندان میں صلحجُو
۱۲. ہم خاندان میں کن طریقوں سے صلحجُو بن سکتے ہیں؟
۱۲ پولس نے کہا جو شادی کرتے ہیں وہ ”جسمانی تکلیف پائینگے۔“ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۸) مختلف دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیگر باتوں کے علاوہ، بعض جوڑوں میں وقتاًفوقتاً نااتفاقیاں پیدا ہونگی۔ انہیں کیسے حل کِیا جانا چاہئے؟ انہیں صلحجُویانہ طریقے سے حل کِیا جانا چاہئے۔ ایک صلحجُو شخص جھگڑے کو بڑھنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیسے؟ سب سے پہلے، اپنی زبان پر پہرا لگانے سے۔ جب اسے طنز اور توہینآمیز باتیں کرنے کیلئے استعمال کِیا جاتا ہے تو یہ چھوٹا سا عضو ”ایک بلا . . . زہرِقاتل“ بن سکتا ہے۔ (یعقوب ۳:۸) ایک صلحجُو شخص اپنی زبان کو حوصلہشکنی کی بجائے حوصلہافزائی کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔—امثال ۱۲:۱۸۔
۱۳، ۱۴. ہم تلخکلامی یا اشتعال انگیز صورت میں امن کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟
۱۳ ناکاملیت کے باعث ہم سب اکثراوقات ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن پر ہمیں بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ جب ایسا ہو تو فوراً معافی مانگیں اور صلح کریں۔ (امثال ۱۹:۱۱؛ کلسیوں ۳:۱۳) ’لفظی تکرار اور لڑائی جھگڑوں‘ میں اُلجھنے سے گریز کریں۔ (۱-تیمتھیس ۶:۴، ۵) اس کی بجائے، معاملے کی تہ تک جائیں اور اپنے ساتھی کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ سے تلخکلامی کی جاتی ہے تو آپ جواباً ایسا نہ کریں۔ یاد رکھیں کہ ”نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے۔“—امثال ۱۵:۱۔
۱۴ بعضاوقات، آپ کو امثال ۱۷:۱۴ کی اس مشورت پر غور کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے: ”لڑائی سے پہلے جھگڑے کو چھوڑ دو۔“ اشتعالانگیز صورتحال سے کنارہ کریں۔ بعدازاں، جب غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو آپ مسئلے کو صلحصفائی سے حل کرنے کے قابل ہونگے۔ بعض معاملات میں، مدد کیلئے پُختہ مسیحی نگہبان کو بلانا قرینِمصلحت ہو سکتا ہے۔ جب ازدواجی امن خطرے میں ہو تو تجربہکار اور ہمدرد آدمی تازگیبخش مدد فراہم کر سکتے ہیں۔—یسعیاہ ۳۲:۱، ۲۔
کلیسیا میں صلحجُو
۱۵. یعقوب کے مطابق، بعض مسیحیوں کے درمیان کونسی بُری روح پیدا ہو گئی تھی اور یہ روح کیوں ”دُنیوی اور نفسانی اور شیطانی“ ہے؟
۱۵ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پہلی صدی میں بعض مسیحیوں نے حسد اور تفرقے کی روح کا مظاہرہ کِیا تھا جو کہ امن کے بالکل برعکس ہے۔ یعقوب نے لکھا: ”یہ حکمت وہ نہیں جو اُوپر سے اُترتی ہے بلکہ دُنیوی اور نفسانی اور شیطانی ہے۔ اسلئےکہ جہاں حسد اور تفرقہ ہوتا ہے وہاں فساد اور ہر طرح کا بُرا کام بھی ہوتا ہے۔“ (یعقوب ۳:۱۴-۱۶) بعض کا خیال ہے کہ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”تفرقہ“ کِیا گیا ہے وہ خودغرضانہ جاہپسندی، مرتبہ حاصل کرنے کی سازباز کا مفہوم پیش کرتا ہے۔ پس، معقول وجہ کی بِنا پر ہی یعقوب اسے ”دُنیوی اور نفسانی اور شیطانی“ کا نام دیتا ہے۔ پوری تاریخ میں، دُنیاوی حکمرانوں نے جانوروں کی مانند ایک دوسرے کے خلاف جنگ کی ہے۔ فرقہواریت واقعی ”دُنیوی اور نفسانی“ ہے۔ یہ ”شیطانی“ بھی ہے۔ یہ خطرناک خصلت سب سے پہلے اقتدار کے بھوکے فرشتے نے ظاہر کی جس نے خود کو یہوواہ خدا کے مدِمقابل کھڑا کر لیا اور شیاطین کا سردار، شیطان بن گیا۔
۱۶. پہلی صدی کے بعض مسیحیوں نے شیطان جیسی روح کا مظاہرہ کیسے کِیا؟
۱۶ یعقوب نے مسیحیوں کو تفرقہ پیدا کرنے والی روح کی مزاحمت کرنے کی تاکید کی کیونکہ یہ صلح کے مخالف ہوتی ہے۔ اس نے لکھا: ”تم میں لڑائیاں اور جھگڑے کہاں سے آ گئے؟ کیا اُن خواہشوں سے نہیں جو تمہارے اعضا میں فساد کرتی ہیں؟“ (یعقوب ۴:۱) لفظ ”خواہشوں“ سے مُراد مادی چیزوں، مرتبے، اختیار یا اثرورُسوخ کا حرص ہو سکتا ہے۔ شیطان کی طرح، کلیسیا میں بعض بدیہی طور پر بڑا بننا چاہتے تھے جبکہ یسوع نے کہا کہ اس کے سچے پیروکار اپنے آپکو ’چھوٹا بنائینگے۔‘ (لوقا ۹:۴۸) ایسی روح کلیسیا کے امن کو تباہ کر سکتی ہے۔
۱۷. آجکل مسیحی کیسے کلیسیا میں صلحجُو ثابت ہو سکتے ہیں؟
۱۷ آجکل، ہمیں مادہپرستی، حسد یا باطل جاہپسندی کے رُجحان کی مزاحمت کرنی چاہئے۔ اگر ہم حقیقی صلحجُو شخص ہیں تو ہم بعض حلقوں میں زیادہ مہارت رکھنے والے کلیسیا کے چند اشخاص کو اپنے لئے خطرہ خیال نہیں کرینگے اور نہ ہی اُنکے محرکات کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اُنہیں دوسروں کی نظر میں گِرانے کی کوشش کرینگے۔ اگر ہم میں کوئی قابلِقدر صلاحیت ہے تو اسے ہم کبھی بھی خود کو دوسروں سے بہتر بنانے یا یہ تاثر دینے کیلئے استعمال نہیں کرینگے کہ کلیسیا صرف ہماری استعداد اور علم کی بدولت ترقی کر رہی ہے۔ ایسی روح امن کی بجائے تفرقہ پیدا کریگی۔ صلحجُو اپنی لیاقتوں پر اِترانے کی بجائے انکساری سے انہیں اپنے بھائیوں کی خدمت اور یہوواہ کی تعظیم کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حقیقی مسیحیت کی شناخت مخصوص لیاقت کی بجائے محبت سے ہوتی ہے۔—یوحنا ۱۳:۳۵؛ ۱-کرنتھیوں ۱۳:۱-۳۔
مَیں ”حاکموں کو سلامتی“ بناؤنگا
۱۸. بزرگ آپس میں امن کو فروغ کیسے دیتے ہیں؟
۱۸ مسیحی بزرگ صلحجُوئی کے سلسلے میں پیشپیش رہتے ہیں۔ یہوواہ نے اپنے لوگوں کے متعلق بیان کِیا: ”مَیں تیرے حاکموں کو سلامتی اور تیرے عاملوں کو صداقت بناؤنگا۔“ (یسعیاہ ۶۰:۱۷) ان نبوّتی الفاظ کی مطابقت میں، مسیحی چرواہوں کے طور پر خدمت کرنے والے آپس میں اور گلّے میں امن کو فروغ دینے کیلئے سخت محنت کرتے ہیں۔ بزرگ ’اُوپر سے آنے والی‘ ملنسار اور معقولیتپسند ”حکمت“ کا مظاہرہ کرنے سے آپس میں صلح برقرار رکھ سکتے ہیں۔ (یعقوب ۳:۱۷) مختلف پسمنظر اور زندگی کے تجربات کے باعث کلیسیائی بزرگوں کے بھی بعضاوقات مختلف نظریات ہوتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن میں صلح کا فقدان ہوتا ہے؟ اگر صورتحال کو مناسب طریقے سے نپٹایا جائے تو ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ صلحجُو انکساری سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور احترام کے ساتھ دوسروں کی بات بھی سنتے ہیں۔ اپنی رائے پر اصرار کرنے کی بجائے، ایک صلحجُو شخص اپنے بھائی کے نقطۂنظر پر بھی دُعائیہ غوروفکر کرے گا۔ اگر بائبل کے کسی اصول کی خلافورزی نہیں ہوتی تو مختلف نقطۂنظر رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ جب دوسرے اس کے ساتھ متفق نہیں ہوتے تو ایک صلحجُو شخص جھک جائے گا اور اکثریت کے فیصلے کی حمایت کرے گا۔ یوں وہ خود کو معقول ظاہر کرے گا۔ (۱-تیمتھیس ۳:۲، ۳) تجربہکار نگہبان جانتے ہیں کہ امن قائم رکھنا اپنی بات منوانے سے زیادہ اہم ہے۔
۱۹. مسیحی بزرگ کلیسیا کے اندر صلحجُو کے طور پر کیسے کام کرتے ہیں؟
۱۹ بزرگ گلّے کے ارکان کی کوششوں پر بیجا نکتہچینی کرنے کی بجائے انکی حمایت کرنے سے امن کو فروغ دیتے ہیں۔ مانا کہ وقتاًفوقتاً بعض کو اصلاح کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ (گلتیوں ۶:۱) لیکن مسیحی نگہبان کا کام بنیادی طور پر تادیب کرنا نہیں ہے۔ وہ اکثراوقات تعریف کرتا ہے۔ شفیق بزرگ دوسروں میں اچھائی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نگہبان ساتھی مسیحیوں کی محنت کی قدر کرتے ہیں اور اُنہیں پورا بھروسا ہے کہ ان کے ہمایمان اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔—۲-کرنتھیوں ۲:۳، ۴۔
۲۰. اگر تمام اشخاص صلحجُو ہوں تو کلیسیا کس طریقے سے فائدہ اُٹھاتی ہے؟
۲۰ تاہم، خاندان میں، کلیسیا میں اور اُن لوگوں کے ساتھ پیش آتے وقت جو ہمارے ہمایمان نہیں ہم صلحجُو بننے یعنی امن کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم مستعدی سے امنوصلح کو فروغ دیتے ہیں تو ہم کلیسیا کی خوشی میں اضافے کا باعث ہونگے۔ علاوہازیں، جیساکہ ہم اگلے مضمون میں دیکھینگے ہماری کئی طریقوں سے حفاظت ہوگی اور ہم تقویت حاصل کرینگے۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• صلحجُو ہونے کا کیا مطلب ہے؟
• ہم اُن لوگوں کیساتھ صلحجُوئی سے کیسے پیش آ سکتے ہیں جو گواہ نہیں ہیں؟
• خاندان میں صلح کو فروغ دینے کے بعض طریقے کونسے ہیں؟
• بزرگ کلیسیا میں صلح کو فروغ کیسے دے سکتے ہیں؟
[صفحہ ۹ پر تصویر]
صلحجُو اشخاص برتری کے رُجحان سے گریز کرتے ہیں
[صفحہ ۱۰ پر تصویریں
مسیحی اپنی خدمتگزاری، گھر اور کلیسیا میں صلحجُو ثابت ہوتے ہیں