لُوقا
8 اِس کے کچھ عرصے بعد یسوع نے خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی کرنے کے لیے شہر شہر اور گاؤں گاؤں کا سفر کِیا اور 12 رسول 2 اور کچھ عورتیں بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ یسوع نے اُن عورتوں میں سے بُرے فرشتوں* کو نکالا تھا اور اُن کی بیماریاں ٹھیک کی تھیں۔ اُن میں سے ایک کا نام مریم تھا جو مگدلینی بھی کہلاتی تھیں اور جن میں سے یسوع نے سات بُرے فرشتے نکالے تھے۔ 3 ایک اَور کا نام یوانہ تھا جو خوزہ کی بیوی تھیں۔ (خوزہ، ہیرودیس کے گھر کے نگران تھے۔) اِس کے علاوہ سُوسنّاہ اور بہت سی اَور عورتیں بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ یہ سب عورتیں اپنے مالی وسائل سے اُن کی خدمت کرتی تھیں۔
4 جب اُن لوگوں کے علاوہ جو شہر شہر سے یسوع کے پاس آیا کرتے تھے، اَور بھی بہت سے لوگ جمع ہو گئے تو یسوع اُن کو تعلیم دینے لگے۔ اُنہوں نے یہ مثال دی: 5 ”ایک کسان بیج بونے نکلا۔ جب وہ بو رہا تھا تو کچھ بیج راستے پر گِرے اور پیروں کے نیچے آئے اور آسمان کے پرندے اُن کو چگ گئے۔ 6 کچھ بیج ایسی زمین پر گِرے جس کے نیچے پتھر کی تہہ تھی اور جب پودے نکلے تو وہ سُوکھ گئے کیونکہ مٹی خشک تھی۔ 7 کچھ اَور بیج کانٹےدار جھاڑیوں میں گِرے اور جھاڑیاں پودوں کے ساتھ بڑھیں اور اِن کو دبا دیا۔ 8 لیکن کچھ بیج اچھی زمین پر گِرے اور جب اُن میں سے پودے نکلے تو وہ سو گُنا پھل لائے۔“ پھر یسوع نے اُونچی آواز میں کہا: ”جس کے کان ہیں، وہ سنے۔“
9 لیکن یسوع کے شاگردوں نے اُن سے اِس مثال کا مطلب پوچھا۔ 10 یسوع نے کہا: ”آپ کو خدا کی بادشاہت کے مُقدس رازوں کو سمجھنے کی صلاحیت دی گئی ہے مگر مَیں سب باتیں مثالوں میں اِس لیے بتاتا ہوں کہ باقی لوگ دیکھیں لیکن اُنہیں دِکھائی نہ دے اور سنیں لیکن اُنہیں سمجھ نہ آئے۔ 11 اب اُس مثال کا مطلب سنیں: بیج خدا کا کلام ہے۔ 12 کچھ بیج راستے پر گِرے۔ اِس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ کلام کو سنتے ہیں لیکن اِبلیس آ کر اُن کے دل سے کلام کو لے جاتا ہے تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور نجات نہ پائیں۔ 13 کچھ بیج ایسی زمین پر گِرے جس کے نیچے پتھر کی تہہ تھی۔ اِس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ کلام کو سنتے ہیں اور اُسے خوشی خوشی قبول کر لیتے ہیں لیکن اُن کی کوئی جڑ نہیں ہوتی۔ وہ کچھ عرصے کے لیے ایمان رکھتے ہیں لیکن آزمائش کے دَور میں ایمان سے مُنہ پھیر لیتے ہیں۔ 14 کچھ بیج کانٹےدار جھاڑیوں میں گِرے۔ اِس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ کلام کو سنتے ہیں لیکن فکروں، دولت کی خواہش اور عیشوعشرت کی وجہ سے اُن کا دھیان بٹ جاتا ہے اور یہ چیزیں اُن کو دبا دیتی ہیں اور اِس لیے اُن کا پھل نہیں پکتا۔ 15 کچھ بیج اچھی زمین پر گِرے۔ اِس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ کلام کو سنتے ہیں اور چونکہ اُن کا دل بہت اچھا ہوتا ہے اِس لیے وہ کلام کو اپنا لیتے ہیں اور ثابتقدمی کے ساتھ پھل لاتے ہیں۔
16 جب ایک شخص چراغ کو جلاتا ہے تو وہ اِسے برتن یا چارپائی کے نیچے نہیں رکھتا بلکہ اِسے چراغدان پر رکھتا ہے تاکہ اندر آنے والے اِس کی روشنی کو دیکھ سکیں۔ 17 کیونکہ جو بھی بات چھپی ہے، وہ ظاہر ہو جائے گی اور جو بھی بات پوشیدہ ہے، وہ ضرور جانی جائے گی اور سامنے لائی جائے گی۔ 18 اِس لیے توجہ سے سنیں کیونکہ جس کے پاس ہے، اُسے اَور بھی دیا جائے گا لیکن جس کے پاس نہیں ہے، اُس سے وہ بھی لے لیا جائے گا جو اُسے لگتا ہے کہ اُس کے پاس ہے۔“
19 اب یسوع کی ماں اور اُن کے بھائی اُن سے ملنے کے لیے آئے لیکن وہ بِھیڑ کی وجہ سے یسوع کے پاس نہیں جا سکے۔ 20 اِس لیے کسی نے یسوع سے کہا: ”باہر آپ کی ماں اور بھائی کھڑے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“ 21 اِس پر اُنہوں نے کہا: ”میری ماں اور میرے بھائی یہ لوگ ہیں جو خدا کا کلام سنتے ہیں اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔“
22 ایک دن یسوع اور اُن کے شاگرد ایک کشتی میں سوار ہوئے اور یسوع نے کہا: ”آئیں، جھیل کے اُس پار چلیں۔“ اور وہ روانہ ہو گئے۔ 23 سفر کے دوران یسوع سو گئے۔ اچانک جھیل میں ایک زبردست طوفان آیا اور کشتی اِس حد تک پانی سے بھر گئی کہ وہ ڈوبنے کے خطرے میں تھی۔ 24 شاگردوں نے یسوع کے پاس جا کر اُن کو جگایا اور کہا: ”اُستاد! اُستاد! ہم مرنے والے ہیں!“ اِس پر یسوع نے اُٹھ کر ہوا اور لہروں کو ڈانٹا اور ہوا رُک گئی اور سکون ہو گیا۔ 25 پھر اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”آپ کا ایمان کہاں گیا؟“ لیکن شاگرد بہت ڈر گئے اور حیران ہو کر ایک دوسرے سے کہنے لگے: ”آخر یہ کون ہے؟ ہوا اور لہریں بھی اِس کا حکم مانتی ہیں۔“
26 پھر وہ گِراسینیوں کے علاقے میں پہنچے جو گلیل کے مقابل جھیل کے پار ہے۔ 27 جب یسوع کشتی سے اُترے تو شہر کا ایک آدمی جو بُرے فرشتوں کے قبضے میں تھا، اُن کے پاس آیا۔ اُس آدمی نے بڑے عرصے سے کپڑے نہیں پہنے تھے اور وہ گھر میں نہیں بلکہ قبرستان میں رہتا تھا۔ 28 جونہی اُس نے یسوع کو دیکھا، وہ اُن کے سامنے گھٹنوں کے بل گِر گیا اور چلّا چلّا کر کہنے لگا: ”یسوع! خدا تعالیٰ کے بیٹے! میرا آپ سے کیا تعلق؟ مَیں آپ سے مِنت کرتا ہوں کہ مجھے سزا نہ دیں!“ 29 (اُس نے یہ اِس لیے کہا کیونکہ یسوع نے بُرے فرشتے* کو حکم دیا تھا کہ وہ اُس آدمی سے نکل آئے۔ دراصل وہ بُرا فرشتہ اکثر اُس آدمی پر آتا تھا۔* لوگوں نے اُس آدمی کو بار بار زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا اور اُس کی نگرانی کی لیکن وہ زنجیریں توڑ دیتا تھا اور بُرے فرشتے کے اثر سے سنسان علاقوں میں چلا جاتا تھا۔) 30 یسوع نے اُس سے پوچھا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ اُس نے جواب دیا: ”لشکر“ کیونکہ وہ بہت سے بُرے فرشتوں کے قبضے میں تھا۔ 31 وہ بُرے فرشتے یسوع سے اِلتجا کرنے لگے کہ اُن کو اتھاہ گڑھے میں جانے کا حکم نہ دیں۔ 32 اب وہاں ایک پہاڑ پر سؤروں کا ایک بڑا ریوڑ چر رہا تھا۔ لہٰذا بُرے فرشتوں نے یسوع سے اِلتجا کی کہ وہ اُن کو سؤروں میں جانے دیں۔ یسوع نے اُن کو اِجازت دے دی۔ 33 تب وہ اُس آدمی سے نکل کر سؤروں میں چلے گئے اور سارا ریوڑ بھاگنے لگا اور چٹان سے چھلانگ لگا کر جھیل میں ڈوب گیا۔ 34 جب چرواہوں نے یہ دیکھا تو وہ وہاں سے بھاگ گئے اور شہر اور دیہات میں اِس واقعے کی خبر پھیلا دی۔
35 اِس پر لوگ دیکھنے گئے کہ وہاں کیا ہوا تھا۔ جب وہ یسوع کے پاس پہنچے تو اُنہوں نے دیکھا کہ جس آدمی میں بُرے فرشتے ہوا کرتے تھے، اُس نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، وہ ہوشوحواس میں ہے اور یسوع کے قدموں میں بیٹھا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر وہ بہت ڈر گئے۔ 36 جن لوگوں نے سارا ماجرا اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اُنہوں نے باقی لوگوں کو بتایا کہ اُس آدمی سے بُرے فرشتوں کو کیسے نکالا گیا۔ 37 پھر گِراسینیوں کے علاقے کے لوگوں نے یسوع سے کہا کہ وہ وہاں سے چلے جائیں کیونکہ اُن پر بڑا خوف چھا گیا تھا۔ لہٰذا یسوع وہاں سے روانہ ہونے کے لیے کشتی پر سوار ہو گئے۔ 38 لیکن وہ آدمی جس میں سے یسوع نے بُرے فرشتے نکالے تھے، اُن سے اِلتجا کرنے لگا کہ ”مجھے بھی اپنے ساتھ آنے دیں۔“ لیکن یسوع نے اُسے یہ کہہ کر بھیج دیا کہ 39 ”واپس اپنے گھر جائیں اور سب لوگوں کو بتائیں کہ خدا نے آپ کے لیے کیا کچھ کِیا ہے۔“ اِس پر وہ آدمی جا کر پورے شہر میں اِس بات کا چرچا کرنے لگا کہ یسوع نے اُس کے لیے کیا کچھ کِیا تھا۔
40 جب یسوع گلیل کے علاقے میں واپس لوٹے تو لوگ اُن سے گرمجوشی سے ملے کیونکہ وہ اُن کا اِنتظار کر رہے تھے۔ 41 اور دیکھو! وہاں ایک آدمی بھی تھا جو ایک عبادتگاہ میں پیشوا تھا۔ اُس کا نام یائیر تھا۔ یائیر یسوع کے قدموں میں گِر گئے اور اُن سے اِلتجا کرنے لگے کہ وہ اُن کے گھر آئیں 42 کیونکہ اُن کی اِکلوتی بیٹی جو 12 سال کی تھی، مرنے والی تھی۔
جب وہ یائیر کے گھر جا رہے تھے تو اُن کے ساتھ اِتنی بِھیڑ تھی کہ لوگ یسوع پر چڑھے جا رہے تھے۔ 43 بِھیڑ میں ایک عورت بھی تھی جس کو 12 سال سے لگاتار خون آ رہا تھا اور کوئی بھی اُس کی بیماری کو ٹھیک نہیں کر سکا تھا۔ 44 اُس نے پیچھے سے آ کر یسوع کی چادر کی جھالر کو چُھوا اور اُسی وقت اُس کو خون آنا بند ہو گیا۔ 45 یسوع نے کہا: ”مجھے کس نے چُھوا ہے؟“ جب سب نے اِنکار کِیا تو پطرس نے کہا: ”اُستاد، یہاں تو اِتنے لوگ ہیں جو آپ پر چڑھے جا رہے ہیں۔“ 46 لیکن یسوع نے کہا: ”کسی نے مجھے چُھوا ہے کیونکہ مَیں نے محسوس کِیا ہے کہ مجھ سے طاقت نکلی ہے۔“ 47 عورت کو پتہ چل گیا کہ اب یہ بات چھپی نہیں رہی۔ اِس لیے وہ کانپتی ہوئی آئی اور یسوع کے قدموں میں گِر گئی اور سب لوگوں کے سامنے بتانے لگی کہ اُس نے یسوع کو کیوں چُھوا تھا۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ وہ فوراً ٹھیک ہو گئی تھی۔ 48 یسوع نے اُس سے کہا: ”بیٹی، آپ اپنے ایمان کی وجہ سے ٹھیک ہو گئی ہیں۔ جیتی رہیں۔“
49 ابھی یسوع یہ کہہ ہی رہے تھے کہ یائیر کے گھر سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: ”آپ کی بیٹی مر گئی ہے۔ اب اُستاد کو تکلیف نہ دیں۔“ 50 یہ سُن کر یسوع نے یائیر سے کہا: ”پریشان نہ ہوں بلکہ ایمان رکھیں تو آپ کی بیٹی بچ جائے گی۔“ 51 جب وہ یائیر کے گھر پہنچے تو یسوع نے پطرس، یوحنا، یعقوب اور لڑکی کے ماں باپ کے علاوہ کسی اَور کو اپنے ساتھ آنے نہیں دیا۔ 52 وہاں سب لوگ ماتم کر رہے تھے اور غم کے مارے چھاتی پیٹ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر یسوع نے کہا: ”روئیں مت، بچی مری نہیں بلکہ سو رہی ہے۔“ 53 وہ لوگ یسوع کا مذاق اُڑانے لگے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لڑکی مر گئی ہے۔ 54 لیکن یسوع نے بچی کا ہاتھ پکڑا اور اُس سے کہا: ”بیٹی، اُٹھ جاؤ!“ 55 اور اُس کا دم* لوٹ آیا اور وہ فوراً اُٹھ بیٹھی۔ پھر یسوع نے کہا: ”اِس کو کچھ کھانے کو دیں۔“ 56 یہ سب کچھ دیکھ کر اُس کے ماں باپ خوشی سے پاگل ہو گئے لیکن یسوع نے اُن کو تاکید کی کہ وہ کسی کو اِس واقعے کے بارے میں نہ بتائیں۔