”مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
3-9 فروری
پاک کلام سے سنہری باتیں | پیدایش 12-14
”ایک ایسا عہد جو آپ کی زندگی پر اثر ڈالتا ہے“
(پیدایش 12:1، 2) اور [یہوواہ] نے اؔبرام سے کہا کہ تُو اپنے وطن اور اپنے ناتےداروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس ملک میں جا جو مَیں تجھے دِکھاؤں گا۔ 2 اور مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔ سو تُو باعثِبرکت ہو!
آئیٹی-1 ص. 522 پ. 4
عہد
ابراہام سے عہد۔ ابرام (ابراہام) سے کِیا گیا عہد غالباً اُس وقت نافذ ہوا جب اُنہوں نے ملک کنعان کا سفر کرتے وقت دریائےفرات کو پار کِیا تھا۔ اِس کے 430 سال بعد بنیاِسرائیل کے ساتھ شریعت کا عہد باندھا گیا۔ (گل 3:17) یہوواہ خدا نے ابراہام سے اُس وقت بات کی جب وہ مسوپتامیہ میں کسدیوں کے شہر اُور میں رہ رہے تھے۔ خدا نے اُن سے کہا کہ وہ اُس ملک کے لیے روانہ ہوں جو وہ اُنہیں دِکھائے گا۔ (اعما 7:2، 3؛ پید 11:31؛ 12:1-3) خروج 12:40، 41 (سپتواجنتا) میں بتایا گیا ہے کہ جب بنیاِسرائیل کو مصر اور کنعان میں رہتے ہوئے 430 سال ہو گئے تو ”ٹھیک اُسی روز“ بنیاِسرائیل مصر کی غلامی سے آزاد ہو کر نکلے۔ جس روز وہ مصر سے آزاد ہوئے، وہ تاریخ 14 نیسان 1513 قبلازمسیح کی تھی جو کہ عیدِفسح کی تاریخ تھی۔ (خر 12:2، 6، 7) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہام نے 14 نیسان 1943 قبلازمسیح کو دریائےفرات پار کِیا تھا اور بِلاشُبہ اِسی وقت ابراہام کے ساتھ کِیا گیا عہد نافذ ہوا۔ جب ابراہام ملک کنعان پہنچے اور وہاں سے گزرتے ہوئے سِکم کے مقام پر ٹھہرے تو خدا دوبارہ اُن پر ظاہر ہوا اور اُنہیں اُس وعدے کے حوالے سے مزید تفصیلات بتائیں جو اُس نے اُن سے کِیا تھا۔ اُس نے اُن سے کہا: ”یہی ملک مَیں تیری نسل کو دوں گا۔“ یوں خدا نے ظاہر کِیا کہ ابراہام کے ساتھ باندھے گئے عہد کا تعلق باغِعدن میں کیے گئے وعدے سے تھا اور ”نسل“ نے اِنسان کی اولاد سے آنا تھا۔ (پید 12:4-7) بعد میں خدا نے ابراہام کے ساتھ کیے گئے عہد کے حوالے سے اَور بھی تفصیلات بتائیں جو پیدایش 13:14-17؛ 15:18؛ 17:2-8، 19؛ 22:15-18 میں درج ہیں۔
(پیدایش 12:3) جو تجھے مبارک کہیں اُن کو مَیں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اُس پر مَیں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے۔
ڈبلیو89 1/7 ص. 3 پ. 4
آپ کو ابراہام کے بارے میں سچ کیوں جاننا چاہیے؟
ابراہام کے ساتھ باندھا گیا عہد بہت ہی شاندار تھا اور ابراہام نے اِسے کم از کم دو موقعوں پر سنا تھا۔ (پیدایش 18:18؛ 22:18) اِس عہد کو پورا کرنے کے لیے تو خدا خاندانوں کے اُن لوگوں کو بھی زندہ کرے گا جو فوت ہو چُکے ہیں۔ اِن لوگوں کا زندہ ہونا واقعی ایک برکت ہوگی کیونکہ وہ ایک ایسی زمین پر زندہ ہوں گے جو اُس فردوس سے ملتی جلتی ہوگی جسے پہلے اِنسان آدم اور حوا نے گنوا دیا تھا۔ اِس کے بعد اُنہیں سکھایا جائے گا کہ وہ ہمیشہ کی زندگی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔—پیدایش 2:8، 9، 15-17؛ 3:17-23۔
(پیدایش 13:14-17) اور لوؔط کے جُدا ہو جانے کے بعد یہوواہ نے اؔبرام سے کہا کہ اپنی آنکھ اُٹھا اور جس جگہ تُو ہے وہاں سے شمال اور جنوب اور مشرق اور مغرب کی طرف نظر دوڑا۔ 15 کیونکہ یہ تمام ملک جو تُو دیکھ رہا ہے مَیں تجھ کو اور تیری نسل کو ہمیشہ کے لئے دوں گا۔ 16 اور مَیں تیری نسل کو خاک کے ذرّوں کی مانند بناؤں گا ایسا کہ اگر کوئی شخص خاک کے ذرّوں کو گن سکے تو تیری نسل بھی گن لی جائے گی۔ 17 اُٹھ اور اُس ملک کے طولوعرض میں سیر کر کیونکہ مَیں اِسے تجھ کو دوں گا۔
آئیٹی-2 ص. 213 پ. 3
شریعت
تاریخی ثبوتوں کی بِنا پر بعض عالموں کا ماننا ہے کہ ایک شخص خریدار کو اپنی زمین بیچتے وقت اُسے یہ زمین ایسی جگہ سے دِکھاتا تھا جہاں سے خریدار اُس کی سرحدیں دیکھ سکے۔ اگر خریدار یہ کہتا کہ ”مَیں نے زمین دیکھ لی“ تو اِسے اُس کی طرف سے قانونی اِقرار خیال کِیا جاتا تھا۔ جب یہوواہ نے ابراہام کو ملک کنعان دینے کا وعدہ کِیا تو اُس نے سب سے پہلے ابراہام سے کہا کہ وہ ملک کی چاروں طرف اپنی نظر دوڑا کر اِسے دیکھیں۔ ابراہام نے یہ نہیں کہا کہ ”مَیں نے زمین دیکھ لی۔“ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ یہوواہ نے کہا تھا کہ وہ بعد میں ابراہام کی اولاد کو یہ ملک دے گا۔ (پید 13:14، 15) بعد میں یہوواہ نے موسیٰ سے کہا کہ وہ ملک کو دیکھ لیں کیونکہ موسیٰ قانونی طور پر بنیاِسرائیل کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اور اگر اُوپر بتایا گیا عالموں کا خیال درست ہے تو اِس لحاظ سے قانونی طور پر یہ ملک یشوع کی پیشوائی میں بنیاِسرائیل کو ملنا تھا۔ (اِست 3:27، 28؛ 34:4؛ اِس کے علاوہ متی 4:8 میں شیطان نے یسوع مسیح کو جو پیشکش کی، اُس پر بھی غور کریں۔) ایک اَور کام جو زمین پر قانونی قبضے کو ظاہر کرتا تھا، وہ اِس میں ہر جگہ چلنا پھرنا یا پھر اِسے حاصل کرنے کی غرض سے اِس میں داخل ہونا تھا۔ (پید 13:17؛ 28:13) زمین کی خریدوفروخت سے متعلق بعض قدیم دستاویزات میں اُس زمین پر موجود درختوں کی تعداد کا ذکر بھی ملتا ہے۔—پید 23:17، 18 پر غور کریں۔
سنہری باتوں کی تلاش
(پیدایش 13:8، 9) تب اؔبرام نے لوؔط سے کہا کہ میرے اور تیرے درمیان اور میرے چرواہوں اور تیرے چرواہوں کے درمیان جھگڑا نہ ہوا کرے کیونکہ ہم بھائی ہیں۔ 9 کیا یہ سارا ملک تیرے سامنے نہیں؟ سو تُو مجھ سے الگ ہو جا۔ اگر تُو بائیں جائے تو مَیں دہنے جاؤں گا اور اگر تُو دہنے جائے تو مَیں بائیں جاؤں گا۔
محبت ظاہر کرتے ہوئے اِختلافات کو ختم کریں
12 اِس مضمون میں ابراہام اور لُوط کا ذکر ہو چُکا ہے۔ اُن کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے اُن کے تعلقات میں دراڑ پڑ سکتی تھی۔ لیکن ابراہام نے صلح صفائی کی راہ اِختیار کی۔ آئیں، دیکھیں کہ کیا ہوا۔ اُن دونوں کے پاس بہت سے مویشی تھے اِس لیے اُن کے چرواہوں میں چراگاہوں کی وجہ سے جھگڑا ہوا۔ ابراہام نے اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی خاطر لُوط کو وہ علاقہ چُننے دیا جہاں وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ آباد ہونا چاہتے تھے۔ (پید 13:1، 2، 5-9) ابراہام نے کتنی عمدہ مثال قائم کی! اُنہوں نے اپنے فائدے کا سوچنے کی بجائے صلح صفائی سے رہنے کو ترجیح دی۔ کیا اُنہیں اپنی فراخدلی کی وجہ سے نقصان اُٹھانا پڑا؟ نہیں۔ اِس واقعے کے فوراً بعد یہوواہ خدا نے ابراہام سے وعدہ کِیا کہ وہ اُنہیں بہت سی برکتیں دے گا۔ (پید 13:14-17) خدا اپنے اُن خادموں کو کبھی دائمی نقصان نہیں اُٹھانے دیتا جو اُس کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے آپس کے اِختلافات کو ختم کرتے ہیں۔
(پیدایش 14:18-20) اور ملکِصدؔق ساؔلم کا بادشاہ روٹی اور مے لایا اور وہ خداتعالیٰ کا کاہن تھا۔ 19 اور اُس نے اُس کو برکت دے کر کہا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو آسمان اور زمین کا مالک ہے اؔبرام مبارک ہو۔ 20 اور مبارک ہے خداتعالیٰ جس نے تیرے دشمنوں کو تیرے ہاتھ میں کر دیا۔ تب اؔبرام نے سب کا دسواں حصہ اُس کو دیا۔
(عبرانیوں 7:4-10) دیکھیں، وہ کتنا عظیم آدمی تھا جسے ہمارے خاندان کے سربراہ ابراہام نے مالِغنیمت کی سب سے اچھی چیزوں کا دسواں حصہ دیا۔ 5 یہ سچ ہے کہ لاوی کے جن بیٹوں کو کاہن کا عہدہ دیا جاتا ہے، اُنہیں شریعت کے مطابق حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم سے یعنی اپنے بھائیوں سے دسواں حصہ اِکٹھا کریں حالانکہ یہ بھی ابراہام کی اولاد ہیں۔ 6 لیکن وہ آدمی جو لاوی کے قبیلے سے نہیں تھا، اُس نے ابراہام سے دسواں حصہ لیا اور اُس شخص کو برکت دی جس سے وعدے کیے گئے تھے۔ 7 اب اِس میں کوئی شک نہیں کہ بڑا، چھوٹے کو برکت دیتا ہے۔ 8 عام طور پر تو دسواں حصہ ایسے آدمیوں کو دیا جاتا ہے جو مرتے ہیں لیکن اِس موقعے پر یہ ایک ایسے شخص کو دیا گیا جس کے بارے میں گواہی دی گئی کہ وہ زندہ ہے۔ 9 یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لاوی جنہیں دسواں حصہ دیا جاتا ہے، اُنہوں نے بھی ایک لحاظ سے ابراہام کے ذریعے دسواں حصہ دیا 10 کیونکہ جب مَلکیصدق، ابراہام سے ملے تو لاوی، ابراہام کی آنے والی اولاد تھے۔
آئیٹی-2 ص. 683 پ. 1
کاہن
مَلکیصدق سالم کے بادشاہ تھے اور خاص کاہن تھے۔ بائبل میں اُن کے نسبنامے، اُن کی پیدائش اور موت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ اُنہیں کاہن کا عہدہ کسی خاص قبیلے سے تعلق رکھنے کی بِنا پر نہیں ملا تھا۔ وہ نہ تو کسی کی جگہ کاہن مقرر ہوئے تھے اور نہ ہی اُن کی جگہ کوئی اَور کاہن مقرر ہوا تھا۔ مَلکیصدق ایک ہی وقت میں بادشاہ اور کاہن دونوں عہدوں پر فائز تھے۔ اُن کا عہدہ لاوی کاہنوں کے عہدے سے افضل تھا۔ لاوی کاہنوں نے ایک لحاظ سے مَلکیصدق کو مال کا دسواں حصہ دیا کیونکہ جب ابراہام نے مَلکیصدق کو مالِغنیمت کا دسواں حصہ دیا تو لاوی ابراہام کی آنے والی اولاد تھے۔ لہٰذا جب مَلکیصدق نے ابراہام کو برکت دی تو ایک طرح سے لاویوں کو بھی برکت ملی۔ (پید 14:18-20؛ عبر 7:4-10) اِن باتوں سے مَلکیصدق نے یسوع مسیح کا عکس پیش کِیا جو کہ ’مَلکیصدق جیسے کاہن ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔‘—عبر 7:17۔
10-16 فروری
پاک کلام سے سنہری باتیں | پیدایش 15-17
”یہوواہ نے ابرام اور ساری کے نام کیوں بدل دیے؟“
(پیدایش 17:1) جب اؔبرام ننانوے برس کا ہوا تب [یہوواہ] اؔبرام کو نظر آیا اور اُس سے کہا کہ مَیں خدایِقادر ہوں۔ تُو میرے حضور میں چل اور کامل ہو۔
آئیٹی-1 ص. 817
عیب، عیب ڈھونڈنا
اِنسان کی راہوں اور اُس کے کاموں میں اکثر نقص پایا جاتا ہے۔ سب اِنسانوں نے آدم سے گُناہ اور خامیاں ورثے میں پائی ہیں۔ (روم 5:12؛ زبور 51:5) لیکن یہوواہ خدا جو کہ ہر طرح کے عیب سے پاک ہے، بہت رحمدل ہے۔ ”وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔“ (زبور 103:13، 14) وہ اپنے وفادار بندے نوح کو ’اُن کے زمانے کے لوگوں میں بےعیب‘ خیال کرتا تھا۔ (پید 6:9) اُس نے ابراہام کو حکم دیا کہ ”تُو میرے حضور میں چل اور کامل [یعنی بےعیب] ہو۔“ (پید 17:1) حالانکہ خدا کے یہ دونوں بندے عیبدار تھے اور وہ فوت ہو گئے لیکن یہوواہ جو کہ ”دل پر نظر کرتا ہے،“ اُنہیں بےعیب خیال کرتا تھا۔ (1-سمو 16:7؛ اِس کے علاوہ 2-سلا 20:3؛ 2-توا 16:9 پر غور کریں۔) اُس نے بنیاِسرائیل کو حکم دیا: ”تُو [یہوواہ] اپنے خدا کے حضور کامل رہنا۔“ (اِست 18:13؛ 2-سمو 22:24) اُس نے اپنے بےعیب بیٹے کو ہماری خاطر قربان کر دیا (عبر 7:26) اور اِس قربانی کی بِنا پر وہ اُن تمام لوگوں کو ”نیک“ یا بےعیب قرار دیتا ہے جو ایمان ظاہر کرتے ہیں اور اُس کے فرمانبردار رہتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اِس مقام کو بھی برقرار رکھتا ہے کہ وہ ایک نیک اور بےعیب منصف ہے۔—روم 3:25، 26۔
(پیدایش 17:3-5) تب اؔبرام سرنگوں ہو گیا اور خدا نے اُس سے ہمکلام ہو کر فرمایا۔ 4 کہ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تُو بہت قوموں کا باپ ہوگا۔ 5 اور تیرا نام پھر اؔبرام نہیں کہلائے گا بلکہ تیرا نام اؔبرہام ہوگا کیونکہ مَیں نے تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرا دیا ہے۔
آئیٹی-1 ص. 31 پ. 1
ابراہام
وقت گزرتا گیا۔ ابراہام اور سارہ کو کنعان میں رہتے ہوئے اب تقریباً دس سال ہو گئے تھے لیکن سارہ ابھی تک بانجھ تھیں۔ اِس لیے اُنہوں نے اپنی مصری نوکرانی ہاجرہ ابراہام کو دی تاکہ وہ اُن کے لیے ایک بچہ پیدا کریں۔ ابراہام نے سارہ کی بات مان لی۔ لہٰذا 1932 قبلازمسیح میں جب ابراہام 86 سال کے تھے تو اِسمٰعیل پیدا ہوئے۔ (پید 16:3، 15، 16) اَور وقت گزر گیا اور 1919 قبلازمسیح میں جب ابراہام 99 سال کے تھے تو یہوواہ نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ اور اُن کے گھرانے کے تمام مرد ختنہ کروائیں۔ یوں اُس نے ابراہام کے ساتھ اپنے خاص عہد کی تصدیق کی۔ اُسی وقت یہوواہ نے اُن کا نام ابرام سے ابراہام رکھا کیونکہ یہوواہ نے اُن سے کہا کہ ”مَیں نے تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرا دیا ہے۔“ (پید 17:5، 9-27؛ روم 4:11) اِس کے کچھ ہی عرصے بعد تین فرشتے اِنسانی رُوپ میں ابراہام کے پاس آئے۔ ابراہام نے اُنہیں یہوواہ کے نمائندے سمجھ کر اُن کی بڑی مہماننوازی کی۔ اُن فرشتوں نے یہ وعدہ کِیا کہ سارہ حاملہ ہوں گی اور ایک بیٹے کو جنم دیں گی اور ایسا اگلے سال ہی ہوگا۔—پید 18:1-15۔
(پیدایش 17:15، 16) اور خدا نے اؔبرہام سے کہا کہ ساؔری جو تیری بیوی ہے سو اُس کو ساؔری نہ پکارنا۔ اُس کا نام ساؔرہ ہوگا۔ 16 اور مَیں اُسے برکت دوں گا اور اُس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا۔ یقیناً مَیں اُسے برکت دوں گا کہ قومیں اُس کی نسل سے ہوں گی اور عالم کے بادشاہ اُس سے پیدا ہوں گے۔
ڈبلیو09 1/2 ص. 13
نام کی اہمیت
خدا نے اپنے مقصد کو ظاہر کرنے کے لیے کئی لوگوں کے نام بدل دیے۔ مثال کے طور پر اُس نے ابرام کا نام جس کا مطلب ”باپ عظیم ہے“ سے بدل کر ابراہام رکھا جس کا مطلب ہے: ”بہت قوموں کا باپ۔“ اپنے نام کے عین مطابق ابراہام واقعی بہت سی قوموں کے باپ بنے۔ (پیدایش 17:5، 6) اِس بات پر بھی غور کریں کہ ابراہام کی بیوی کا نام ساری تھا جس کا مطلب غالباً ”جھگڑالو“ تھا۔ ذرا سوچیں کہ اُن کی بیوی اُس وقت کتنی خوش ہوئی ہوں گی جب خدا نے اُن کا نام بدل کر ”سارہ“ رکھا جس کا مطلب ”شہزادی“ ہے۔ اِس سے اُن پر ظاہر ہوا کہ بادشاہ اُن کی اولاد سے آئیں گے۔—پیدایش 17:15، 16۔
سنہری باتوں کی تلاش
(پیدایش 15:13، 14) اور اُس نے اؔبرام سے کہا یقین جان کہ تیری نسل کے لوگ ایسے ملک میں جو اُن کا نہیں پردیسی ہوں گے اور وہاں کے لوگوں کی غلامی کریں گے اور وہ چار سو برس تک اُن کو دُکھ دیں گے۔ 14 لیکن مَیں اُس قوم کی عدالت کروں گا جس کی وہ غلامی کریں گے اور بعد میں وہ بڑی دولت لے کر وہاں سے نکل آئیں گے۔
آئیٹی-1 ص. 460، 461
واقعات کی ترتیب
یہوواہ خدا نے ابرام (ابراہام) سے کہا: ”جان کہ تیری نسل کے لوگ ایسے ملک میں جو اُن کا نہیں پردیسی ہوں گے اور وہاں کے لوگوں کی غلامی کریں گے اور وہ چار سو برس تک اُن کو دُکھ دیں گے۔“ (پید 15:13؛ اعما 7:6، 7 کو بھی دیکھیں۔) یہ بات ”نسل“ یا وعدہ کیے ہوئے وارث یعنی اِضحاق کی پیدائش سے پہلے کہی گئی تھی۔ 1932 قبلازمسیح میں مصری نوکرانی ہاجرہ نے ابرام کے بیٹے اِسمٰعیل کو جنم دیا اور 1918 قبلازمسیح میں اِضحاق پیدا ہوئے۔ (پید 16:16؛ 21:5) اگر ہم بنیاِسرائیل کے مصر سے نکلنے سے 400 سال پیچھے گنیں تو ہم 1913 قبلازمسیح پر پہنچ جاتے ہیں جب ”دُکھ“ کا عرصہ شروع ہوا تھا اور اُس وقت اِضحاق پانچ سال کے تھے۔ (پید 15:14) لگتا ہے کہ اُس وقت اِضحاق کا دودھ چھڑایا گیا اور وہ پہلے سے ہی ”ایسے ملک میں جو اُن کا نہیں [تھا] پردیسی“ تھے۔ تب اُنہوں نے 19 سالہ اِسمٰعیل کے ہاتھوں جو اُن کا مذاق اُڑاتے تھے، اُس دُکھ یا اذیت کا تجربہ کِیا جس کی خدا نے پیشگوئی کی تھی۔ (پید 21:8، 9) شاید آج اِس بات کو معمولی سمجھا جائے کہ اِسمٰعیل نے ابراہام کے وارث کا مذاق اُڑایا تھا لیکن اُس زمانے میں ایسا نہیں تھا۔ یہ بات سارہ کے ردِعمل سے اور اِس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ خدا سارہ سے متفق تھا کہ ہاجرہ اور اُن کے بیٹے کو گھر سے نکال دیا جائے۔ (پید 21:10-13) پاک کلام میں اِس واقعے کا اِتنی تفصیل سے درج ہونا بھی اِس بات کی طرف اِشارہ کرتا ہے کہ خدا نے جس دُکھ کے 400 سالہ عرصے کی پیشگوئی کی تھی، وہ اُس وقت تک جاری رہا جب تک بنیاِسرائیل ملک مصر سے نکل نہیں گئے۔—گل 4:29۔
(پیدایش 15:16) اور وہ چوتھی پُشت میں یہاں لوٹ آئیں گے کیونکہ اموریوں کے گُناہ اب تک پورے نہیں ہوئے۔
آئیٹی-1 ص. 778 پ. 4
روانگی
”چوتھی پُشت میں۔“ ہمیں اِس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ خدا نے ابراہام سے کہا تھا کہ اُن کی اولاد چوتھی پُشت میں کنعان لوٹ آئے گی۔ (پید 15:16) اُن پورے 430 سالوں میں یعنی ابراہام کے ساتھ باندھے گئے عہد کے نافذ ہونے سے لے کر بنیاِسرائیل کے مصر سے نکلنے تک چار سے زیادہ پُشتیں ہو چُکی تھیں کیونکہ اُس وقت لوگوں کی عمریں کافی لمبی ہوتی تھیں۔ دراصل بنیاِسرائیل ملک مصر میں صرف 215 سال رہے تھے۔ مصر میں داخل ہونے کے بعد سے چار پُشتوں کا حساب بنیاِسرائیل کے کسی ایک قبیلے جیسے کہ لاوی کے قبیلے سے لگایا جا سکتا ہے: (1) لاوی، (2) قہات، (3) عمرام اور (4) موسیٰ۔—خر 6:16، 18، 20۔
17-23 فروری
پاک کلام سے سنہری باتیں | پیدایش 18، 19
” ’تمام دُنیا کے اِنصاف کرنے والے‘ نے سدوم اور عمورہ کو تباہ کر دیا“
(پیدایش 18:23-25) تب اؔبرہام نے نزدیک جا کر کہا کیا تُو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا؟ 24 شاید اُس شہر میں پچاس راستباز ہوں۔ کیا تُو اُسے ہلاک کرے گا اور اُن پچاس راستبازوں کی خاطر جو اُس میں ہوں اُس مقام کو نہ چھوڑے گا؟ 25 ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جائیں۔ یہ تجھ سے بعید ہے۔ کیا تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا اِنصاف نہ کرے گا؟
’تمام دُنیا کے اِنصاف کرنے والے‘ پر بھروسا رکھیں
”کیا تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا اِنصاف نہ کرے گا؟“ (پیدایش 18:25) ابراہام نے یہ سوال کیوں اُٹھایا؟ کیا اُنہیں اِس بات پر شک تھا کہ خدا اِنصاف سے کام لے گا؟ نہیں بلکہ اِس سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہام کو پورا یقین تھا کہ یہوواہ اِنصاف سے سدوم اور عمورہ کا فیصلہ کرے گا۔ وہ جانتے تھے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ یہوواہ ”نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے۔“ اِس واقعے کے تقریباً 400 سال بعد یہوواہ نے اپنے بارے میں کہا: ”وہ وہی چٹان ہے۔ اُس کی صنعت کامل ہے کیونکہ اُس کی سب راہیں اِنصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔“—اِستثنا 31:19؛ 32:4۔
(پیدایش 18:32) تب اُس نے کہا [یہوواہ] ناراض نہ ہو تو مَیں ایک بار اَور کچھ عرض کروں۔ شاید وہاں دس ملیں اُس نے کہا مَیں دس کی خاطر بھی اُسے نیست نہیں کروں گا۔
تحمل پُراُمید اور ثابتقدم رہنے کا نام
بِلاشُبہ تحمل کی بہترین مثال یہوواہ خدا ہے۔ (2-پطرس 3:15) بائبل میں ایسے بہت سے واقعات کا ذکر کِیا گیا ہے جن میں یہوواہ نے تحمل کا مظاہرہ کِیا۔ (نحمیاہ 9:30؛ یسعیاہ 30:18) ذرا اُس واقعے کو یاد کریں جب یہوواہ نے سدوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جب ابراہام نے اِس فیصلے کے حوالے سے بار بار یہوواہ سے سوال پوچھے تو یہوواہ نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟ اُس نے اُنہیں ٹوکا نہیں بلکہ بڑے تحمل سے اُن کے سوالوں اور خدشوں کو سنا اور ظاہر کِیا کہ وہ اُن کے احساسات کو سمجھتا ہے۔ اُس نے اُنہیں یقین دِلایا کہ اگر سدوم میں دس نیک لوگ بھی ہوں گے تو وہ اُسے تباہ نہیں کرے گا۔ (پیدایش 18:22-33) یہوواہ خدا ہمیشہ تحمل سے دوسروں کی بات سنتا ہے اور کبھی آپے سے باہر نہیں ہوتا۔
(پیدایش 19:24، 25) تب [یہوواہ] نے اپنی طرف سے سدؔوم اور عموؔرہ پر گندھک اور آگ آسمان سے برسائی۔ 25 اور اُس نے اُن شہروں کو اور اُس ساری ترائی کو اور اُن شہروں کے سب رہنے والوں کو اور سب کچھ جو زمین سے اُگا تھا غارت کِیا۔
م10 1/11 ص. 26 پ. 12
12 ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا بدی کو حد سے بڑھنے نہیں دے گا۔ وہ جلد ہی بدی کا خاتمہ کرکے یہ ثابت کر دے گا کہ وہی پوری کائنات کا سچا حاکم ہے۔ قدیم زمانے سے ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جب یہوواہ نے بدی کا خاتمہ کِیا۔ مثال کے طور پر نوح کے زمانے میں یہوواہ نے بدکار لوگوں کو طوفان سے ختم کِیا۔ سدوم اور عمورہ کو یہوواہ نے آگ سے بھسم کِیا۔ فرعون اور اُس کے لشکر، سیسرا اور اُس کی فوج اور سنحیرب اور اُس کی فوج بھی حاکمِاعلیٰ یہوواہ کے قہر کی تاب نہ لا سکیں۔ (پید 7:1، 23؛ 19:24، 25؛ خر 14:30، 31؛ قضا 4:15، 16؛ 2-سلا 19:35، 36) اِن مثالوں پر غور کرنے سے ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے کہ یہوواہ ہمیشہ تک اپنی بدنامی اور اپنے خادموں کے ساتھ بدسلوکی کو برداشت نہیں کرے گا۔ نیز ہمارے زمانے میں یسوع مسیح کی وہ پیشینگوئی بھی پوری ہو رہی ہے جو اُس نے اپنے بادشاہ بننے اور اِس دُنیا کے خاتمے کے متعلق کی تھی۔ اِن تمام باتوں کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں۔—متی 24:3۔
سنہری باتوں کی تلاش
(پیدایش 18:1) پھر [یہوواہ] ممرؔے کے بلوطوں میں اُسے نظر آیا اور وہ دن کو گرمی کے وقت اپنے خیمہ کے دروازہ پر بیٹھا تھا۔
(پیدایش 18:22) سو وہ مرد وہاں سے مڑے اور سدؔوم کی طرف چلے پر اؔبرہام [یہوواہ] کے حضور کھڑا ہی رہا۔
ڈبلیو88 15/5 ص. 23 پ. 4، 5
کیا کسی اِنسان نے خدا کو دیکھا ہے؟
ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ابراہام نے خدا کا پیغام پہنچانے والے فرشتے سے اِس طرح بات کیوں کی جیسے وہ یہوواہ خدا سے بات کر رہے ہوں۔ چونکہ یہ فرشتہ یہوواہ کی نمائندگی کر رہا تھا اور اِس نے ابراہام کو وہ ایک ایک بات بتائی جو یہوواہ اُن سے کہنا چاہتا تھا اِس لیے بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ ابراہام کو ”نظر آیا۔“—پیدایش 18:1۔
یاد رکھیں کہ ایک فرشتہ خدا کا پیغام ہوبہو اُسی طرح پہنچا سکتا تھا جس طرح ٹیلیفون یا ریڈیو ہماری باتوں کو دوسرے شخص تک پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ابراہام، موسیٰ، منوحہ اور خدا کے دیگر بندوں نے اِنسانی رُوپ میں نظر آنے والے فرشتوں سے ایسے بات کیوں کی جیسے وہ خدا سے بات کر رہے ہوں۔ سچ ہے کہ خدا کے یہ بندے فرشتوں کو اور اِن کے ذریعے خدا کی شان کی جھلک کو دیکھ سکتے تھے لیکن وہ خدا کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لہٰذا یوحنا رسول کی یہ بات غلط نہیں ہے کہ ”کسی اِنسان نے خدا کو کبھی نہیں دیکھا۔“ (یوحنا 1:18) اِن آدمیوں نے خدا کے نمائندگی کرنے والے فرشتوں کو دیکھا تھا نہ کہ خدا کو۔
(پیدایش 19:26) مگر اُس کی بیوی نے اُس کے پیچھے سے مُڑ کر دیکھا اور وہ نمک کا ستون بن گئی۔
پریشانیوں سے نمٹنے میں دوسروں کی مدد کریں
3 لُوط نے شہر سدوم کے بدکار لوگوں کے بیچ رہنے کا فیصلہ کر کے بہت بڑی غلطی کی۔ (2-پطرس 2:7، 8 کو پڑھیں۔) سچ ہے کہ یہ علاقہ بہت خوشحال تھا لیکن لُوط کو وہاں بسنے کی بھاری قیمت چُکانی پڑی۔ (پید 13:8-13؛ 14:12) غالباً لُوط کی بیوی کا دل اُس شہر یا وہاں کے کچھ لوگوں سے اِتنا جُڑ گیا تھا کہ اُس نے یہوواہ کے حکم پر عمل نہیں کِیا۔ پھر جب خدا نے آسمان سے آگ اور گندھک کی بارش برسائی تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اور ذرا لُوط کی دو بیٹیوں کے بارے میں بھی سوچیں۔ اُن کی منگنی سدوم میں رہنے والے جن دو آدمیوں سے ہوئی تھی، وہ وہیں آفت میں مارے گئے۔ لُوط اپنا گھر اور مالواسباب سب کھو بیٹھے اور سب سے دردناک بات تو یہ کہ وہ اپنی بیوی کو ہی گنوا بیٹھے۔ (پید 19:12-14، 17، 26) کیا اِس پریشانکُن صورتحال میں یہوواہ نے لُوط کے ساتھ پیش آتے وقت صبر کا دامن چھوڑ دیا؟ بالکل نہیں۔
24 فروری–1 مارچ
پاک کلام سے سنہری باتیں | پیدایش 20، 21
”یہوواہ ہمیشہ اپنے وعدے پورے کرتا ہے“
(پیدایش 21:1-3) اور [یہوواہ] نے جیسا اُس نے فرمایا تھا ساؔرہ پر نظر کی اور اُس نے اپنے وعدہ کے مطابق ساؔرہ سے کِیا۔ 2 سو ساؔرہ حاملہ ہوئی اور اؔبرہام کے لئے اُس کے بڑھاپے میں اُسی مُعیّن وقت پر جس کا ذکر خدا نے اُس سے کِیا تھا اُس کے بیٹا ہوا۔ 3 اور اؔبرہام نے اپنے بیٹے کا نام جو اُس سے ساؔرہ کے پیدا ہوا اِضحاؔق رکھا۔
ڈبلیوپی17.5 ص. 14، 15
خدا نے اُنہیں ”شہزادی“ کہا
کیا سارہ کے ہنسنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُن میں ایمان کی کمی تھی؟ ہرگز نہیں۔ بائبل میں لکھا ہے: ”حالانکہ سارہ بچے پیدا کرنے کی عمر سے گزر چکی تھیں لیکن ایمان کی بدولت وہ حاملہ ہوئیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ جس نے وعدہ کِیا ہے، وہ وعدے کا پکا ہے۔“ (عبرانیوں 11:11) سارہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ یہوواہ کیسا خدا ہے اور وہ اِس بات سے بھی واقف تھیں کہ یہوواہ اپنا ہر وعدہ پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ بھلا ہم میں کس کو اِس طرح کے مضبوط ایمان کی ضرورت نہیں ہے؟ ہمیں بائبل کو لکھوانے والے خدا کو اَور اچھی طرح سے جاننے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم دیکھ پائیں گے کہ سارہ نے جیسا ایمان ظاہر کِیا، وہ غلط نہیں تھا۔ یہوواہ واقعی وفادار خدا ہے اور اپنے ہر وعدے کو پورا کرتا ہے اور کبھی کبھار تو وہ اِسے اِس طرح سے پورا کرتا ہے کہ ہم دنگ رہ جاتے ہیں اور ہمیں ہنسی آتی ہے۔
”تُو اُس کی بات مان“
جب سارہ 90 سال کی ہوئیں تو آخرکار وہ لمحہ آ گیا جس کا اُنہوں نے اپنی پوری جوانی میں شدت سے اِنتظار کِیا تھا۔ سارہ نے اپنے شوہر ابراہام کو ایک پیارا سا بیٹا دیا جو اب 100 سال کے ہو چُکے تھے۔ ابراہام نے یہوواہ کے کہنے کے مطابق اپنے بیٹے کا نام ”اِضحاق“ رکھا جس کا مطلب ”ہنسی“ ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگرچہ سارہ بچے کو جنم دینے کے بعد نڈھال ہیں لیکن چہرے پر دمکتی مسکراہٹ لیے وہ کہہ رہی ہیں: ”خدا نے مجھے ہنسایا اور سب سننے والے میرے ساتھ ہنسیں گے۔“ (پیدایش 21:6) یہوواہ نے معجزہ کر کے سارہ کو جو تحفہ دیا، اُسے پا کر اُنہیں یقیناً ساری زندگی خوشی ملی ہوگی۔ البتہ اِس تحفے کی وجہ سے اُن پر بھاری ذمےداریاں بھی آن پڑیں۔
جب پانچ سال کی عمر میں اِضحاق کا دودھ چھڑایا گیا تو اُن کے گھر والوں نے ایک دعوت رکھی۔ لیکن ایک مسئلہ تھا۔ بائبل میں ہم پڑھتے ہیں کہ سارہ دیکھ رہی تھیں کہ اِسمٰعیل، اِضحاق کو اکثر تنگ کرتے ہیں۔ 19 سالہ اِسمٰعیل، ننھے اِضحاق کا مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ یہ محض ہنسی کھیل نہیں تھا۔ بعد میں پولُس رسول نے خدا کے اِلہام سے بتایا کہ اِضحاق کا یہ رویہ اذیت کے زمرے میں آتا تھا۔ سارہ نے بھانپ لیا تھا کہ اِسمٰعیل کا اِضحاق کو یوں تنگ کرنا اُن کے بیٹے کے لیے ایک خطرہ ہے۔ سارہ جانتی تھیں کہ اِضحاق صرف اُن کے بیٹے نہیں ہیں بلکہ اُنہوں نے خدا کے مقصد میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ لہٰذا اُنہوں نے ہمت جٹا کر ابراہام سے بات کی اور اُن سے کہا کہ وہ ہاجرہ اور اِسمٰعیل کو گھر سے نکال دیں۔—پیدایش 21:8-10؛ گلتیوں 4:22، 23، 29۔
اِس پر ابراہام کا کیا ردِعمل تھا؟ بائبل میں ہم پڑھتے ہیں کہ ”اؔبرہام کو اُس کے بیٹے کے باعث یہ بات نہایت بُری معلوم ہوئی۔“ اُنہیں اپنے بیٹے اِسمٰعیل سے بہت لگاؤ تھا اور وہ اپنے اُن جذبات سے اِنکار نہیں کر سکتے تھے جو ایک باپ ہونے کے ناتے وہ اِسمٰعیل کے لیے رکھتے تھے۔ لیکن یہوواہ مسئلے کو صاف دیکھ رہا تھا اِس لیے اُس نے معاملے کو حل کرنے کے لیے قدم اُٹھایا۔ بائبل میں ہم پڑھتے ہیں: ”خدا نے اؔبرہام سے کہا کہ تجھے اِس لڑکے اور اپنی لونڈی کے باعث بُرا نہ لگے۔ جو کچھ ساؔرہ تجھ سے کہتی ہے تُو اُس کی بات مان کیونکہ اِضحاؔق سے تیری نسل کا نام چلے گا۔“ یہوواہ نے ابراہام کو یقین دِلایا کہ وہ ہاجرہ اور اُن کے بیٹے اِسمٰعیل کا خیال رکھے گا۔ ابراہام نے یہوواہ کے لیے وفاداری ظاہر کرتے ہوئے اُس کی بات مانی۔—پیدایش 21:11-14۔
(پیدایش 21:5-7) اور جب اُس کا بیٹا اِضحاؔق اُس سے پیدا ہوا تو اؔبرہام سو برس کا تھا۔ 6 اور ساؔرہ نے کہا کہ خدا نے مجھے ہنسایا اور سب سننے والے میرے ساتھ ہنسیں گے۔ 7 اور یہ بھی کہا کہ بھلا کوئی اؔبرہام سے کہہ سکتا تھا کہ ساؔرہ لڑکوں کو دودھ پلائے گی؟ کیونکہ اُس سے اُس کے بڑھاپے میں میرے ایک بیٹا ہوا۔
(پیدایش 21:10-12) تب اُس نے اؔبرہام سے کہا کہ اِس لونڈی کو اور اُس کے بیٹے کو نکال دے کیونکہ اِس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اِضحاؔق کے ساتھ وارث نہ ہوگا۔ 11 پر اؔبرہام کو اُس کے بیٹے کے باعث یہ بات نہایت بُری معلوم ہوئی۔ 12 اور خدا نے اؔبرہام سے کہا کہ تجھے اِس لڑکے اور اپنی لونڈی کے باعث بُرا نہ لگے۔ جو کچھ ساؔرہ تجھ سے کہتی ہے تُو اُس کی بات مان کیونکہ اِضحاؔق سے تیری نسل کا نام چلے گا۔
(پیدایش 21:14) تب اؔبرہام نے صبح سویرے اُٹھ کر روٹی اور پانی کی ایک مشک لی اور اُسے ہاؔجرہ کو دیا بلکہ اُسے اُس کے کندھے پر دھر دیا اور لڑکے کو بھی اُس کے حوالہ کر کے اُسے رُخصت کر دیا۔ سو وہ چلی گئی اور بیرسبعؔ کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی۔
سنہری باتوں کی تلاش
(پیدایش 20:12) اور فیالحقیقت وہ میری بہن بھی ہے کیونکہ وہ میرے باپ کی بیٹی ہے اگرچہ میری ماں کی بیٹی نہیں۔ پھر وہ میری بیوی ہوئی۔
مع17.3 ص. 12، فٹنوٹ
’تُو خوبصورت عورت ہے‘
سارہ ابرہام کی سوتیلی بہن تھیں۔ اُن دونوں کا باپ ایک ہی تھا جس کا نام تارح تھا لیکن اُن کی مائیں فرق فرق تھیں۔ (پیدایش 20:12) آجکل اِس طرح کی شادیاں مناسب نہیں ہیں لیکن ہمیں اِس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ زمانہ ہمارے زمانے سے فرق تھا۔ اُس وقت آدم اور حوا کو گُناہ کیے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اِس لیے لوگ زیادہ صحتمند اور تندرست تھے اور اُن کی عمریں بھی لمبی تھیں۔ لہٰذا قریبی رشتےداروں کے درمیان شادیوں کی وجہ سے یہ خطرہ نہیں ہوتا تھا کہ بچے پیدائشی طور پر بیمار یا معذور ہوں گے۔ لیکن اِس کے کوئی 400 سال بعد کے زمانے میں صورتحال ہمارے زمانے جیسی تھی۔ اِس لیے خدا نے بنیاِسرائیل کو یہ حکم دیا کہ قریبی رشتےدار ایک دوسرے سے جنسی تعلقات قائم نہ کریں۔—احبار 18:6۔
(پیدایش 21:33) تب اؔبرہام نے بیرسبعؔ میں جھاؤ کا ایک درخت لگایا اور وہاں اُس نے [یہوواہ] سے جو ابدی خدا ہے دُعا کی۔
ڈبلیو89 1/7 ص. 20 پ. 9
ابراہام—خدا سے دوستی کے طلبگار لوگوں کے لیے ایک مثال
9 ابرام نے ایک اَور طریقے سے خدا پر ایمان ظاہر کِیا۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ اُنہوں نے ’یہوواہ کے لیے ایک قربانگاہ بنائی۔‘ (پیدایش 12:7) ظاہری بات ہے کہ اِس قربانگاہ پر اُنہوں نے جانور کی قربانی بھی پیش کی ہوگی۔ بعد میں ابرام نے ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اپنے ایمان کا اِظہار کرنے کے لیے یہوواہ کے حضور قربانیاں پیش کیں۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یہوواہ کا ’نام لیا۔‘ (پیدایش 12:8، اُردو جیو ورشن؛ پیدایش 13:18؛ 21:33) عبرانی اِصطلاح ”نام لینے“ کا مطلب ”نام کا اِقرار یا (مُنادی) کرنا“ بھی ہے۔ ابرام کے گھرانے اور کنعانیوں نے یقیناً اُنہیں دلیری سے خدا کے نام یہوواہ کی مُنادی کرتے سنا ہوگا۔ (پیدایش 14:22-24) اِسی طرح آج جو لوگ خدا سے دوستی کرنا چاہتے ہیں، اُنہیں پورے ایمان سے خدا کا نام لینا چاہیے۔ ایسا کرنے میں یہ شامل ہے کہ ہم مُنادی کریں یعنی ”خدا کے حضور حمدوستائش کی قربانیاں پیش کرتے رہیں۔ یہی ہمارے ہونٹوں کا پھل ہے کیونکہ اِنہی ہونٹوں سے ہم سب کے سامنے خدا کے نام کا اِقرار کرتے ہیں۔“—عبرانیوں 13:15؛ رومیوں 10:10۔