اِن جیسا ایمان پیدا کریں | یوسف
”کیا تعبیر کی قدرت خدا کو نہیں؟“
ذرا اِس منظر کو تصور کی آنکھ سے دیکھیں۔ یوسف اندھیرے میں ڈوبی راہ داری سے گزر رہے ہیں۔ شدید گرمی میں سخت مشقت کرنے کی وجہ سے وہ سر سے لے کر پاؤں تک پیسنے میں شرابور ہیں۔ سورج کی تپش نے پورے قیدخانے کو بھٹی بنا دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوسف اِس قیدخانے کی ایک ایک اینٹ اور دیواروں پر پڑی ہر ایک دراڑ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اب یہی اُن کی دُنیا ہے۔ سچ ہے کہ یہاں قیدخانے میں یوسف کو بہت ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ ایک قیدی ہیں۔
یوسف نے یقیناً اُس وقت کو بہت یاد کِیا ہوگا جب وہ حبرون کی پہاڑی وادیوں میں اپنے والد کی بھیڑ بکریوں کا خیال رکھا کرتے تھے۔ یوسف اُس وقت تقریباً 17 سال کے تھے جب اُن کے والد یعقوب نے اُنہیں تقریباً 100 کلومیٹر دُور اپنے بھائیوں کی خیر خبر لینے کے لیے بھیجا۔ اب تو یوسف کو لگتا تھا کہ ایسی آزاد زندگی گزارنا محض ایک خواب بن کر ہی رہ جائے گا۔ یوسف کے بھائی اُن سے اِتنا جلتے تھے کہ وہ اُنہیں مار ڈالنا چاہتے تھے۔ لیکن پھر اُنہوں نے یوسف کو غلام کے طور پر بیچ دیا۔ یوسف کو مصر میں لے آیا گیا جہاں وہ فوطیفار نامی ایک مصری افسر کے گھر میں کام کرنے لگے۔ جلد ہی یوسف نے اپنے مالک کا بھروسا جیت لیا۔ لیکن پھر فوطیفار کی بیوی نے یوسف پر عزت لوٹنے کا جھوٹا اِلزام لگا کر اُنہیں قیدخانے میں ڈلوا دیا۔a—پیدایش 37 اور 39 ابواب۔
اب یوسف 28 سال کے ہو گئے تھے۔ اُنہوں نے اپنی زندگی کے پچھلے دس گیارہ سالوں میں ایک غلام اور قیدی کے طور پر بہت کچھ سہا۔ نوجوانی میں یوسف نے اپنی زندگی کے حوالے سے بہت سے منصوبے بنائے ہوں گے لیکن وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ کیا یوسف کبھی آزادی کی فضا میں سانس لے پائیں گے؟ کیا وہ پھر کبھی اپنے بوڑھے باپ اور چھوٹے بھائی بنیمین کا چہرہ دیکھ پائیں گے؟ اُنہیں اَور کتنی دیر تک قیدخانے کی دیواروں کے پیچھے زندگی کاٹنی پڑے گی؟
کیا آپ نے بھی کبھی یوسف کی طرح محسوس کِیا ہے؟ کبھی کبھار زندگی ہمیں ایسے موڑ پر لے آتی ہے جس کے بارے میں ہم نے دُوردُور تک بھی سوچا نہیں ہوتا۔ سچ ہے کہ بعض صورتحال میں ہمیں لگتا ہے جیسے ہماری تکلیفیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ اُس وقت شاید ہمیں کوئی راستہ سُوجھائی نہیں دیتا اور ہماری ہمت جواب دے جاتی ہے۔ لیکن آئیں، دیکھتے ہیں کہ ہم اِس سلسلے میں یوسف سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
”[یہوواہ] یوسف کے ساتھ تھا“
یوسف کو یقین تھا کہ اُن کا خدا یہوواہ اُنہیں کبھی نہیں بھولے گا۔ اور اِس بات نے یقیناً اُنہیں صبر سے کام لینے کے قابل بنایا ہوگا۔ یہوواہ خدا نے تو اِس غیرملک کے قیدخانے میں بھی یوسف کو برکتیں دینے کے لیے راستے پیدا کر دیے تھے۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] یوسف کے ساتھ تھا۔ اُس نے اُس پر مہربانی کی اور اُسے قیدخانے کے داروغے کی نظر میں مقبول کِیا۔“ (پیدایش 39:21-23، اُردو جیو ورشن) یوسف محنت سے کام کرتے رہے اور اِس کے بدلے میں یہوواہ خدا اُنہیں برکتوں پر برکتیں دیتا رہا۔ یوسف کو یہ جان کر کتنی تسلی ملتی ہوگی کہ یہوواہ خدا ہمیشہ اُن کے ساتھ ہے۔
کیا یہوواہ خدا نے یوسف کو ہمیشہ تک قیدخانے میں ہی رکھ چھوڑنے کا اِرادہ کِیا ہوا تھا؟ یوسف اِس بارے میں صرف اندازے ہی لگا سکتے تھے۔ اُنہوں نے یقیناً دُعا میں خدا سے اِس معاملے کا ذکر کِیا ہوگا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دُعا کا جواب ایسی صورت میں ملتا ہے جو ہمارے وہموگمان میں بھی نہیں ہوتا۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ یوسف کو اُن کی دُعا کا جواب کیسے ملا۔ ایک دن قیدخانے میں دو ایسے ملزموں کو لایا گیا جن کے آنے پر افراتفری مچ گئی۔ یہ دونوں آدمی فرعون کے خاص ملازم تھے۔ ایک آدمی نان بنانے والوں کا سردار تھا اور دوسرا آدمی ساقیوں کا سردار تھا۔—پیدایش 40:1-3۔
پہرےداروں کے سردار نے یوسف کو اِن دونوں آدمیوں کی دیکھبھال کرنے کی ذمےداری سونپی جو کہ پہلے اُونچے عہدوں پر فائز تھے۔b ایک رات دونوں آدمیوں نے ایک ایک خواب دیکھا۔ یہ خواب بہت ہی عجیبوغریب تھے جن کی وجہ سے یہ آدمی اُلجھن میں پڑ گئے۔ پھر جب صبح یوسف اُن کے پاس آئے تو اِن کے چہروں کو دیکھ کر یوسف کو لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے اِن سے پوچھا: ”آج آپ کیوں اِتنے پریشان ہیں؟“ (پیدایش 40:3-7، اُردو جیو ورشن) چونکہ یوسف نے اِن آدمیوں کے ساتھ بڑی نرمی سے بات کی شاید اِسی لیے اِن آدمیوں کو یقین ہو گیا کہ یوسف کو اپنا مسئلہ بتانے سے اُنہیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ یوسف کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ باتچیت اُن کی زندگی کو ایک نیا موڑ دے دے گی۔ ذرا سوچیں، اگر یوسف نے اِن آدمیوں کے لیے فکرمندی ظاہر نہ کی ہوتی تو کیا یہ آدمی اُنہیں اپنا مسئلہ بتاتے؟ یوسف کی اِس مثال پر غور کرتے ہوئے ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے: ”کیا مَیں دوسروں کے لیے فکرمندی دِکھاتا ہوں؟“ یہوواہ خدا اپنے بندوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ دوسروں کا خیال رکھیں۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔
پھر اِن آدمیوں نے یوسف کو اپنی پریشانی کی وجہ بتائی۔ یہ آدمی نہ صرف عجیب خوابوں کی وجہ سے پریشان تھے بلکہ اِس بات سے بھی پریشان تھے کہ اُن کے پاس خواب کی تعبیر کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ مصری لوگ خوابوں کو بہت ہی زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اُن لوگوں پر بہت بھروسا کرتے تھے جو خوابوں کی تعبیر کرتے تھے۔ یہ دونوں آدمی نہیں جانتے تھے کہ جو خواب اُنہوں نے دیکھے ہیں، وہ دراصل یوسف کے خدا یہوواہ کی طرف سے ہیں۔ لیکن یوسف یہ بات جانتے تھے۔ اُنہوں نے اِن آدمیوں سے کہا: ”کیا تعبیر کی قدرت خدا کو نہیں؟ مجھے ذرا وہ خواب بتاؤ۔“ (پیدایش 40:8) یوسف کے یہ الفاظ آج بھی اُن سب لوگوں کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں جو پاک کلام کی سچائیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو اگر ہر مذہبی شخص یوسف جیسی فروتنی ظاہر کرے! خدا کے کلام کی باتوں کی صحیح سمجھ حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر سے غرور کو دُور کرنے اور اپنی سمجھ پر بھروسا کرنے کی بجائے خدا پر بھروسا کرنے کی ضرورت ہے۔—1-تھسلنیکیوں 2:13؛ یعقوب 4:6۔
سب سے پہلے ساقیوں کے سردار نے اپنا خواب بتایا۔ اُس نے یوسف کو بتایا کہ اُس نے انگور کی ایک بیل دیکھی ہے جس میں تین شاخیں ہیں اور اِن میں پکے پکے انگوروں کے گچھے لگے ہیں۔ اُس نے اِن انگوروں کو فرعون کے پیالے میں نچوڑا۔ یہوواہ خدا کی مدد سے یوسف فوراً اِس خواب کا مطلب جان گئے۔ اُنہوں نے ساقیوں کے سردار کو بتایا کہ تین شاخوں کا مطلب تین دن ہیں۔ اور آج سے تین دن بعد فرعون اِس سردار ساقی کو اُس کے عہدے پر بحال کریں گے۔ خواب کی تعبیر سُن کر ساقیوں کے سردار کے چہرے پر اِطمینان چھا گیا۔ یوسف نے اُس سے درخواست کی: ”ذرا مجھ سے مہربانی سے پیش آنا اور فرؔعون سے میرا ذکر کرنا۔“ یوسف نے سردار ساقی کو یہ بھی بتایا کہ اُنہیں اُن کے ملک سے اغوا کر لیا گیا تھا اور یہاں قیدخانے میں بھی بِنا کسی جُرم کے ڈالا ہوا ہے۔—پیدایش 40:9-15۔
جب نان بنانے والوں کے سردار نے دیکھا کہ سردار ساقی کے خواب کی تعبیر اچھی نکلی ہے تو اُس نے بھی یوسف کو اپنا خواب بتایا۔ اُس نے کہا کہ اُس نے خواب میں روٹیوں کی تین ٹوکریاں دیکھیں۔ یہ ٹوکریاں اُس کے سر پر رکھی ہوئی ہیں اور سب سے اُوپر والی ٹوکری میں سے پرندے آ کر کھا رہے ہیں۔ خدا نے یوسف کو اِس خواب کا بھی جواب بتایا۔ لیکن نان بنانے والے سردار کے لیے یہ خوشی کا پیغام نہیں تھا۔ یوسف نے اُس سے کہا: ”اِس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ تین ٹوکریاں تین دن ہیں۔ سو اب سے تین دن کے اندر فرؔعون تیرا سر تیرے تن سے جُدا کرا کے تجھے ایک درخت پر ٹنگوا دے گا اور پرندے تیرا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے۔“ (پیدایش 40:16-19) یوسف نے بڑی دلیری سے خدا کے پیغامات سنائے، چاہے یہ خوشی کا پیغام تھا یا پھر سزا کا پیغام۔ آجکل خدا کے بندے بھی یوسف کی اِس مثال پر عمل کرتے ہیں۔—یسعیاہ 61:2۔
یوسف نے جو کچھ کہا، وہ تین دن بعد پورا ہو گیا۔ فرعون نے اپنی سالگرہ کے لیے ایک جشن رکھا۔ بائبل میں کہیں بھی اِس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ خدا کے کسی بندے نے سالگرہ منائی ہو۔ جشن کے دوران فرعون نے قیدخانے میں موجود اپنے دو ملازموں کے لیے فیصلہ سنایا۔ یوسف کے کہنے کے مطابق نان بنانے والوں کے سردار کو پھانسی دی گئی اور ساقیوں کے سردار کو اُس کے عہدے پر بحال کِیا گیا۔ افسوس کی بات ہے کہ ساقیوں کا سردار احسان فراموش نکلا اور اُس نے فرعون سے یوسف کا ذکر نہیں کِیا۔—پیدایش 40:20-23۔
”مَیں کچھ نہیں جانتا“
نان بنانے والوں کے سردار اور ساقیوں کے سردار کے خواب کی تعبیر کرنے کے بعد یوسف کو یقیناً اُمید کی کِرن ملی ہوگی کہ اب اُنہیں رہائی مل جائے گی۔ لیکن اِس واقعے کو دو سال گزر گئے اور پھر بھی کچھ نہیں ہوا۔ (پیدایش 41:1) ذرا سوچیں، یوسف کو کتنی مایوسی ہوئی ہوگی۔ ہر دن جب یوسف جاگتے ہوں گے تو اُنہیں یہ اُمید ہوتی ہوگی کہ شاید آج قیدخانے میں اُن کا آخری دن ہے۔ لیکن ہر دن اُن کی اُمید ٹوٹتی رہی اور حالات جوں کے توں ہی رہے۔ غالباً یہ دو سال یوسف کے لیے سب سے کٹھن رہے ہوں گے۔ لیکن اُنہوں نے پھر بھی اپنے خدا یہوواہ پر پورا بھروسا رکھا۔ اُنہوں نے مایوسیوں کے اندھیرے میں ڈوبنے کی بجائے صبر سے کام لیا۔ اِس مشکل صورتحال میں اُن کا ایمان پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا۔—یعقوب 1:4۔
اِس کٹھن دَور میں ہم سب کو مشکلات سہنی پڑتی ہیں۔ لیکن اِن کا سامنا کرنے کے لیے خدا ہماری ہمت باندھ سکتا ہے، ہمیں صبر سے کام لینے کے قابل بنا سکتا ہے اور اِطمینانبخش سکتا ہے۔ جس طرح اُس نے یوسف کی مدد کی اُسی طرح وہ ہمیں بھی مایوسی سے لڑنے اور اُمید کا دامن پکڑے رہنے میں مدد کر سکتا ہے۔—رومیوں 12:12؛ 15:13۔
ساقیوں کا سردار تو یوسف کو بھول سکتا تھا لیکن یہوواہ خدا یوسف کو کبھی نہیں بھولا۔ ایک رات خدا نے فرعون کو دو ایسے عجیبوغریب خواب دِکھائے جنہیں فرعون اپنے ذہن سے نکال نہیں پا رہے تھے۔ پہلے خواب میں فرعون نے سات خوبصورت اور موٹی گایوں کو اور پھر سات بدشکل اور دُبلی گایوں کو دریائےنیل سے نکلتے دیکھا۔ اِن دُبلی گایوں نے موٹی گایوں کو کھا لیا۔ بعد میں فرعون نے ایک اَور خواب دیکھا۔ اِس میں اُنہوں نے ایک ڈنٹھل میں سات موٹی اور اچھی بالیں دیکھیں لیکن پھر سات پتلی اور مُرجھائی ہوئی بالیں نکلیں جو سات موٹی اور بھری ہوئی بالوں کو نگل گئیں۔ جب صبح فرعون جاگے تو وہ اِن خوابوں کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے مصر کے جادوگروں اور دانشمندوں کو بلایا تاکہ وہ اُن کے خوابوں کی تعبیر کریں۔ لیکن یہ لوگ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ (پیدایش 41:1-8) ہم یہ تو نہیں جانتے کہ آیا یہ لوگ خواب سُن کر لاجواب ہو گئے تھے یا پھر اُنہوں نے فرق فرق تعبیریں کی تھیں۔ لیکن جو بھی ہوا، فرعون اِس سے مطمئن نہیں ہوئے۔ فرعون کے دل میں اِس خواب کی تعبیر جاننے کا تجسّس اَور بھی بڑھتا گیا۔
آخرکار ساقیوں کے سردار کو یوسف یاد آئے۔ اُس کا ضمیر اُسے کوسنے لگا اور اُس نے فرعون کو اِس جوان آدمی کے بارے میں بتایا جس نے دو سال پہلے قیدخانے میں اُس کے اور نان بنانے والوں کے سردار کے خواب کی بالکل ٹھیک تعبیر کی تھی۔ فرعون نے فوراً یوسف کو قیدخانے سے لانے کا حکم دیا۔—پیدایش 41:9-13۔
تصور کریں کہ جب یوسف کو فرعون کے سامنے حاضر ہونے کا پیغام ملا ہوگا تو اُنہوں نے کیسا محسوس کِیا ہوگا۔ یوسف نے فوراً اپنے کپڑے بدلے اور اپنی حجامت بنوائی۔ غالباً اُنہوں نے اپنے سر کو گنجا کِیا ہوگا کیونکہ یہ مصریوں کا دستور تھا۔ یقیناً اُنہوں نے یہوواہ خدا سے دُعا کی ہوگی کہ فرعون کے ساتھ اُن کی ملاقات اچھی رہے۔ پھر یوسف کو شاندار محل میں فرعون کے سامنے پیش کِیا گیا۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے: ”فرؔعون نے یوؔسف سے کہا مَیں نے ایک خواب دیکھا ہے جس کی تعبیر کوئی نہیں کر سکتا اور مجھ سے تیرے بارے میں کہتے ہیں کہ تُو خواب کو سُن کر اُس کی تعبیر کرتا ہے۔“ اِس کے جواب میں یوسف نے جو کہا، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنے خاکسار تھے اور اپنے خدا پر کتنا مضبوط ایمان رکھتے تھے۔ یوسف نے فرعون سے کہا: ”مَیں کچھ نہیں جانتا۔ خدا ہی فرؔعون کو سلامتی بخش جواب دے گا۔“—پیدایش 41:14-16۔
یہوواہ خدا اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو خاکسار اور اُس کے وفادار ہیں۔ لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اُس نے یوسف کو اُن خوابوں کی تعبیر بتائی جن کی تعبیر جادوگر اور دانشمند آدمی نہیں کر پائے۔ یوسف نے بتایا کہ فرعون کے دونوں خوابوں کا ایک ہی مطلب ہے۔ اور اِن میں دیے گئے پیغام کو دُہرانے سے یہوواہ خدا نے ظاہر کِیا ہے کہ یہ بات ”مقرر ہو چکی ہے“ یعنی یہ ضرور پوری ہوگی۔ خوبصورت اور موٹی گائیں اور موٹی اور اچھی بالیں اُن سات سالوں کی طرف اِشارہ کرتی ہیں جن میں مصر میں کثرت سے پیداوار ہوگی جبکہ بدشکل اور دُبلی گائیں اور پتلی اور مُرجھائی ہوئی بالیں بعد کے اُن سات سالوں کی طرف اِشارہ کرتی ہیں جب ملک میں سخت قحط ہوگا۔ یہ قحط اِتنا تباہکُن ہوگا کہ ملک میں پیداوار کا ایک دانہ بھی باقی نہیں رہے گا۔—پیدایش 41:25-32۔
فرعون کو یقین ہو گیا کہ یوسف نے خواب کی بالکل صحیح تعبیر کی ہے۔ لیکن خواب میں جس مسئلے کا ذکر کِیا گیا تھا، اُس سے نپٹنے کے لیے کون سے قدم اُٹھائے جا سکتے تھے؟ اِس سلسلے میں یوسف نے ایک تجویز دی۔ اُنہوں نے کہا: ”فرؔعون کو چاہئے کہ ایک دانشور اور عقلمند آدمی کو تلاش کر لے اور اُسے ملکِمصرؔ پر مختار بنائے۔“ یہ آدمی پیداوار کے سات سالوں میں ملک میں اناج جمع کرے اور جب قحط کے سات سال شروع ہوں تو اِسے ضرورتمند لوگوں میں بانٹے۔ (پیدایش 41:33-36) حالانکہ یوسف میں اِس کام کو کرنے کی صلاحتیں تھیں اور وہ نگرانی کے کام میں تجربہ بھی رکھتے تھے تو بھی اُنہوں نے اِس کام کے لیے اپنا نام نہیں دیا۔ چونکہ وہ بہت خاکسار تھے اِس لیے اُنہوں نے ایسا کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ یوسف یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے اِس لیے وہ جانتے تھے کہ اگر یہوواہ چاہے گا تو وہ اُنہیں یہ ذمےداری سونپ دے گا۔ اگر ہم بھی یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں تو ہم خود کو دوسروں سے بڑا بنانے یا اُن سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ہم خاکساری سے معاملے کو یہوواہ خدا کے ہاتھ میں چھوڑ دیں گے۔
”کیا ہم کو ایسا آدمی جیسا یہ ہے . . . مل سکتا ہے؟“
فرعون اور اُن کے خادموں کو یوسف کی تجویز بہت اچھی لگی۔ فرعون نے یہ بھی دیکھا کہ یوسف کی دانشمندی کے پیچھے اُن کے خدا کا ہاتھ ہے۔ اُنہوں نے اپنے محل میں موجود خادموں سے کہا: ”کیا ہم کو ایسا آدمی جیسا یہ ہے جس میں خدا کی روح ہے مل سکتا ہے؟“ پھر فرعون نے یوسف سے کہا: ”چُونکہ خدا نے تجھے یہ سب کچھ سمجھا دیا ہے اِس لئے تیری مانند دانشور اور عقلمند کوئی نہیں۔ سو تُو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے مَیں بزرگتر ہوں گا۔“—پیدایش 41:38-41۔
فرعون اپنے وعدے کے پکے نکلے۔ یوسف کو باریک کتان کا لباس پہنایا گیا اور فرعون نے اُنہیں سونے کا طوق، اپنے ہاتھ کی انگشتری اور شاہی رتھ دیا۔ اُنہوں نے یوسف کو اِختیار دیا کہ وہ پورے ملک میں اپنے منصوبے پر عمل کریں۔ (پیدایش 41:42-44) یوں یوسف ایک ہی دن میں قیدخانے سے محل پہنچ گئے۔ اِس دن وہ اُٹھے تو ایک قیدی کے طور پر تھے لیکن سوئے ایک حاکم کے طور پر تھے۔ وہ بھی ایک ایسے حاکم کے طور پر جس کا رُتبہ فرعون سے دوسرے نمبر پر تھا۔ یہوواہ خدا پر ایمان رکھنے سے یوسف کو کتنا شاندار صلہ ملا۔ یہوواہ خدا نے اُن تمام نااِنصافیوں کو دیکھا تھا جو اُس کے بندے پر ڈھائی گئی تھیں۔ اُس نے معاملات کو بالکل صحیح وقت اور صحیح طریقے سے ٹھیک کِیا۔ اِس طرح یہوواہ خدا نے نہ صرف یوسف کے ساتھ ہونے والی نااِنصافیوں کو دُور کِیا بلکہ مستقبل میں اِسرائیلی قوم کو محفوظ رکھنے کا بندوبست بھی کِیا۔
شاید آپ کو بھی کسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پر شاید آپ کے ساتھ کافی عرصے سے نااِنصافی کی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو مایوس نہ ہوں۔ یوسف کو یاد رکھیں۔ وہ مشکل حالات میں بھی دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے؛ خاکساری ظاہر کی؛ صبر سے کام لیا اور خدا پر مضبوط ایمان رکھا۔ اِس کے بدلے میں خدا نے بھی اُنہیں آخر میں ڈھیر ساری برکتیں دیں۔
a اِس سلسلے میں مینارِنگہبانی 1 اکتوبر 2014ء اور 1 جنوری 2015ء میں مضامین کے سلسلے ”اِن جیسا ایمان پیدا کریں“ کو دیکھیں۔
b قدیم زمانے کے مصری تقریباً 90 قسموں کے نان بناتے تھے۔ لہٰذا فرعون کے محل میں نان بنانے والوں کے سردار کو بہت نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ اور سردار ساقی اُن ملازموں کی پیشوائی کرتا تھا جو اِس بات کا خیال رکھتے تھے کہ فرعون کو پیش کی جانے والی مے اعلیٰ معیار کی ہو اور ہر طرح کے زہر سے پاک ہو۔ دراصل اُس زمانے میں بادشاہ کے خلاف ایسی سازش بہت عام تھی۔ لہٰذا ساقیوں کے سردار کے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی کہ وہ بادشاہ کا قابل بھروسا مشیر ہو۔