یہوواہ کا کلام زندہ ہے
آستر کی کتاب سے اہم نکات
اِس شخص نے دل ہی دل میں سوچا تھا کہ یہ منصوبہ ناکام ہو ہی نہیں سکتا۔ اُسکا منصوبہ یہ تھا کہ ایک مقررہ دِن پر ہندوستان سے لے کر ایتھیوپیا تک سب یہودیوں کو قتل کر دیا جائے۔ لیکن اس شخص نے ایک اہم بات کو نظرانداز کِیا تھا۔ وہ یہ کہ خدا اپنے بندوں کی جان بچانے کیلئے اُنکی مدد کو آتا ہے۔ آستر کی کتاب میں بتایا جاتا ہے کہ خدا نے اپنے بندوں کو اس خطرے سے کیسے بچایا تھا۔
آستر کی کتاب کو لکھنے والا مردکی نامی ایک عمررسیدہ یہودی تھا۔ آستر کی کتاب میں ۱۸ سال کے دوران ہونے والے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ اُس وقت فارس کے بادشاہ اخسویرس کا راج تھا۔ ہم اس کتاب میں دیکھتے ہیں کہ حالانکہ یہوواہ خدا کے بندے فارسی سلطنت کے تمام علاقوں میں بکھرے تھے پھر بھی اُس نے اُن کو دُشمنوں کے ہاتھوں سے بچا لیا تھا۔ یہ جان کر ہمارا ایمان اَور مضبوط ہو جاتا ہے کیونکہ آج بھی یہوواہ خدا کے بندے دُنیا کے ۲۳۵ ممالک میں رہ رہے ہیں۔ اِس کے علاوہ آستر کی کتاب میں ہمارے لئے اچھے نمونے پائے جاتے ہیں اور ایسے بھی جن کی نقل کرنے سے ہمیں گریز کرنا چاہئے۔ واقعی ”خدا کا کلام زندہ اور مؤثر“ ہے۔—عبرانیوں ۴:۱۲۔
ملکہ کی دعوت
(آستر ۱:۱–۵:۱۴)
بادشاہ اخسویرس اپنی سلطنت کے تیسرے سال (۴۹۳ قبلِمسیح) میں ایک ضیافت کا اہتمام کرتا ہے۔ ملکہ وشتی بادشاہ کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں اُسے ملکہ کے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ وشتی کی بجائے ملک کی خوبصورت کنواریوں میں سے ہدساہ نامی ایک یہودی لڑکی کو ملکہ بنایا جاتا ہے۔ اپنے تایازاد مردکی کے کہنے پر ہدساہ کسی کو یہ نہیں بتاتی کہ وہ یہودی قوم سے تعلق رکھتی ہے۔ اِس لئے وہ اپنا فارسی نام آستر استعمال کرتی ہے۔
تھوڑے عرصے بعد ہامان نامی ایک گھمنڈی شخص کو وزیرِاعظم کا عہدہ دیا جاتا ہے۔ جب مردکی، ہامان کے سامنے ’جھکنے اور اُس کی تعظیم کرنے‘ سے انکار کر دیتا ہے تو ہامان آگبگولا ہو جاتا ہے۔ (آستر ۳:۲) اِس وجہ سے ہامان فارس کی سلطنت میں رہنے والے ہر یہودی کو قتل کرنے کا منصوبہ باندھتا ہے۔ ہامان، بادشاہ اخسویرس کو اپنے اس منصوبہ پر مائل کر لیتا ہے اور بادشاہ اِس قتلِعام کا حکم جاری کرتا ہے۔ یہ سُن کر مردکی ’ٹاٹ پہنتا اور سر پر راکھ ڈالتا ہے۔‘ (آستر ۴:۱) اب ملکہ آستر کو ہی کچھ کرنا ہوگا۔ وہ بادشاہ اور وزیرِاعظم ہامان کو ایک دعوت پر بلاتی ہے۔ جب وہ اِس دعوت پر آتے ہیں تو آستر اُن سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اگلے دن کی دعوت بھی قبول کر لیں۔ اِس پر ہامان دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا ہے۔ البتہ جب وہ مردکی کو دیکھتا ہے تو وہ غصہ سے بھر جاتا ہے کیونکہ مردکی اُس کی تعظیم نہیں کرتا۔ ہامان منصوبہ باندھتا ہے کہ اگلے دِن ملکہ کی دعوت پر حاضر ہونے سے پہلے وہ مردکی کو ہلاک کر دے گا۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱:۳-۵—کیا یہ ضیافت ۱۸۰ دن تک جاری رہی؟ پاک صحائف میں یہ نہیں کہا جاتا کہ ضیافت ۱۸۰ دن تک جاری رہی بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ اہلکاروں کو اپنی سلطنت کی دولت اور اعلیٰ عظمت کی شان ۱۸۰ دِن تک دکھاتا رہا۔ شاید وہ امرا کو اپنی بادشاہت کی شانوشوکت دکھا کر اُنہیں متاثر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بادشاہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنے منصوبوں پر پورا اُترنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آیت ۳ اور ۵ میں سات دن کی جس ضیافت کی طرف اشارہ کِیا گیا ہے وہ ۱۸۰ دن کے بعد ٹھہرائی گئی تھی۔
۱:۸—اس کا کیا مطلب ہے کہ ”مےنوشی اس قاعدہ سے تھی کہ کوئی مجبور نہیں کر سکتا تھا“؟ اِس موقع پر بادشاہ اخسویرس نے ایک ایسی رسم پر عمل کرنے سے انکار کِیا جس کے مطابق لوگ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ پینے پر اُکساتے تھے۔ ایک عالم کا کہنا ہے کہ بادشاہ کی ضیافت پر ”لوگ جتنا چاہے پی سکتے تھے۔“
۱:۱۰-۱۲—بادشاہ کے بلانے پر ملکہ وشتی نے اُس کے سامنے آنے سے انکار کیوں کِیا تھا؟ کئی عالموں کا کہنا ہے کہ شاید ملکہ وشتی، بادشاہ کے شرابی دوستوں کے سامنے آکر اپنی بےعزتی نہیں کروانا چاہتی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خوبصورت ملکہ حقیقت میں بادشاہ کی تابعدار نہیں تھی۔ حالانکہ خدا کا کلام ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ وشتی نے آنے سے انکار کیوں کِیا تھا لیکن اُس زمانے کے دانشمند آدمیوں کی نظروں میں وشتی کی نافرمانی ایک بہت اہم معاملہ تھا۔ اُن کے خیال میں وشتی کی بُری مثال فارس کی دوسری عورتوں کو بگاڑ سکتی تھی۔
۲:۱۴-۱۷—کیا آستر نے بادشاہ کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات رکھے تھے؟ جینہیں۔ بائبل میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جن عورتوں کو بادشاہ کے پاس بلایا گیا تھا، صبح کو اُنہیں بادشاہ کے دوسرے گھر میں ’حرموں کے محافظ‘ کے سپرد کر دیا جاتا تھا۔ جن عورتوں نے بادشاہ کے ساتھ رات گزاری وہ اُس کی حرموں میں شامل کی گئیں۔ لیکن بادشاہ سے ملنے کے بعد آستر کو حرموں کے گھر نہیں لے جایا گیا۔ جب آستر کو اخسویرس کے سامنے لایا گیا تو ”بادشاہ نے آستر کو سب عورتوں سے زیادہ پیار کِیا اور وہ اُس کی نظر میں اُن سب کنواریوں سے زیادہ عزیز اور پسندیدہ ٹھہری۔“ (آستر ۲:۱۷) آستر بادشاہ کی نظر میں ٹھیک اُسی طرح ”عزیز اور پسندیدہ“ ٹھہری جیسے وہ دوسروں کو بھی پسند آتی تھی۔ مثال کے طور پر آستر ۲:۸، ۹ میں لکھا ہے کہ وہ ہیجا نامی خواجہسرا کو ”پسند آئی اور اُس نے اُس پر مہربانی کی۔“ ہیجا کو آستر کی شکلوصورت اور خوبیاں بہت اچھی لگیں۔ دراصل ”آستر اُن سب کی جن کی نگاہ اُس پر پڑی منظورِنظر ہوئی۔“ (آستر ۲:۱۵) اسی طرح بادشاہ بھی آستر سے بہت متاثر ہوا اور اُس سے پیار کرنے لگا۔
۳:۲؛ ۵:۹—مردکی نے ہامان کو سجدہ کرنے سے کیوں انکار کِیا تھا؟ ایک اعلیٰ عہدہ رکھنے والے شخص کی عزت کرنے کے لئے اُس کے سامنے جھکنا ایک اسرائیلی کے لئے غلط نہیں تھا۔ لیکن غالباً ہامان ایک عمالیقی تھا اور یہوواہ خدا عمالیقیوں کو تباہ کرنے والا تھا۔ (استثنا ۲۵:۱۹) اگر مردکی، ہامان کو سجدہ کرتا تو وہ خدا کا وفادار نہ رہتا۔ اِس لئے مردکی نے یہ کہہ کر کہ وہ ایک یہودی ہے، سجدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا۔—آستر ۳:۳، ۴۔
ہمارے لئے سبق:
۲:۱۰، ۲۰؛ ۴:۱۲-۱۶۔ آستر نے خدا کے ایک پُختہ خادم کی ہدایت اور صلاح قبول کی۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ’پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہیں۔‘—عبرانیوں ۱۳:۱۷۔
۲:۱۱؛ ۴:۵۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ’اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ دوسروں کے احوال پر بھی نظر رکھیں۔‘—فلپیوں ۲:۴۔
۲:۱۵۔ آستر نے پرہیزگاری اور انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے نہ تو اچھے سے اچھے لباس مانگے اور نہ ہی زیورات۔ آستر ”حلیمی اور عاجزی کے غیرفانی لباس میں دل کی پوشیدہ انسانیت“ کی مالک تھی۔ (۱-پطرس ۳:۴، کیتھولک ورشن) اور اسی لئے وہ بادشاہ کو پسند آئی۔
۲:۲۱-۲۳۔ آستر اور مردکی نے ”اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار“ ہونے کے سلسلے میں بہت اچھی مثال قائم کی۔—رومیوں ۱۳:۱۔
۳:۴۔ جس طرح آستر نے اس بات کو چھپائے رکھا کہ وہ یہودی ہے اس طرح دانشمندی سے کام لیتے ہوئے ہمیں بھی کبھیکبھار اپنی شناخت کو ظاہر نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم اگر بات یہوواہ کے وفادار رہنے یا اپنی راستی پر قائم رہنے کی ہو تو پھر ہمیں اِس بات کا اقرار کرنا چاہئے کہ ہم یہوواہ کے گواہ ہیں۔
۴:۳۔ جب ہم کسی آزمائش کا سامنا کر رہے ہوں تو ہمیں یہوواہ خدا سے طاقت اور دانائی کے لئے دُعا کرنی چاہئے۔
۴:۶-۸۔ ہامان کی سازش کو روکنے کے لئے مردکی نے قانونی وسائل استعمال کئے۔—فلپیوں ۱:۷۔
۴:۱۴۔ مردکی نے یہوواہ خدا پر بھروسا رکھنے کی عمدہ مثال قائم کی۔
۴:۱۶۔ یہوواہ پر بھروسا کرتے ہوئے آستر نے دلیری سے ایک ایسی صورتحال کا سامنا کِیا جو اُس کی موت کا باعث بن سکتی تھی۔ ہمیں بھی چاہئے کہ خود پر بھروسا کرنے کی بجائے یہوواہ خدا پر بھروسا کریں۔
۵:۶-۸۔ بادشاہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آستر نے اُسے اگلے دن بھی دعوت پر بلایا۔ آستر کی طرح ہمیں بھی ہوشیاری سے کام لینا چاہئے۔—امثال ۱۴:۱۵۔
پلا پلٹ جاتا ہے
(آستر ۶:۱–۱۰:۳)
اب حالات بالکل بدل جاتے ہیں۔ ہامان کو اُس سولی پر ٹانگ دیا جاتا ہے جو اُس نے مردکی کے لئے تیار کی تھی اور مردکی کو وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز کِیا جاتا ہے۔ یہودیوں کے قتلِعام کی سازش کو ایک سنسنیخیز طریقے سے روکا جاتا ہے۔
آستر اپنی جان پر کھیل کر بادشاہ کے سامنے منت کرتی ہے کہ وہ یہودیوں کی جان بچا لے۔ لہٰذا جس دن یہودیوں کو قتل کِیا جانا تھا اُس دن اُن لوگوں کو قتل کِیا جاتا ہے جو یہودیوں کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ مردکی فیصلہ کرتا ہے کہ ہر سال یہودی اپنی نجات کی یادگار میں پوریم کی عید منائیں گے۔ مردکی بادشاہ سے دوسرے درجے پر ہے اور ’اپنی قوم کا خیرخواہ رہتا اور ان کی ساری اَولاد سے سلامتی کی باتیں کرتا ہے۔‘—آستر ۱۰:۳۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۷:۴—یہودیوں کو قتل کرنے سے ’بادشاہ کا نقصان‘ کسطرح ہوتا؟ آستر نے بادشاہ سے کہا کہ وہ یہودیوں کو غلاموں کے طور پر بیچ سکتا ہے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ اگر یہودیوں کو بیچا جائے تو بادشاہ کے خزانے میں ہامان کے ۱۰،۰۰۰ چاندی کے سکوں سے زیادہ دولت آ جائے گی۔ اور اگر یہودیوں کو قتل کر دیا جائے تو اِس کا مطلب ہے کہ ملکہ بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔
۷:۸—ہامان کا مُنہ کیوں ڈھانکا گیا تھا؟ اِس طرح سے کسی کے مُنہ کو ڈھانکنا شرم اور سزائےموت کی علامت تھی۔
۸:۱۷—’بہتیرے لوگ یہودی کیوں ہو گئے‘؟ بہتیرے فارسی لوگ یہودی نومرید بن گئے۔ چونکہ بادشاہ نے یہودیوں کے فائدے میں ایک فرمان جاری کِیا تھا اِس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ خدا یہودیوں کو اپنی برکت سے نواز رہا ہے۔ یہی بات زکریاہ کی پیشینگوئی میں پائی جاتی ہے: ”مختلف اہلِلغت میں سے دس آدمی ہاتھ بڑھا کر ایک یہودی کا دامن پکڑیں گے اور کہیں گے کہ ہم تمہارے ساتھ جائیں گے کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔“—زکریاہ ۸:۲۳۔
۹:۱۰، ۱۵، ۱۶—یہودیوں کو لُوٹ کے مال کو ہاتھ لگانے کی اجازت تھی، لیکن اُنہوں نے ایسا کیوں نہیں کِیا؟ لُوٹ کے مال کو ہاتھ نہ لگانے سے کوئی شک نہیں رہا کہ یہودیوں کا مقصد اپنی قوم کو بچانا تھا نہ کہ اپنی دولت بڑھانا۔
ہمارے لئے سبق:
۶:۶-۱۰۔ ”ہلاکت سے پہلے تکبّر اور زوال سے پہلے خودبینی ہے۔“—امثال ۱۶:۱۸۔
۷:۳، ۴۔ کیا ہم دلیری سے دوسروں کو بتاتے ہیں کہ ہم یہوواہ کے گواہ ہیں چاہے ایسا کرنے پر ہمیں اذیت کیوں نہ پہنچائی جائے؟
۸:۳-۶۔ جب دُشمن ہمیں ستاتے ہیں تو ہم حکومت اور قانون سے تحفظ کی درخواست کر سکتے ہیں۔
۸:۵۔ حالانکہ بادشاہ نے یہودیوں کے قتلِعام کی اجازت دی تھی مگر پھر بھی آستر نے بادشاہ پر کسی قسم کا الزام نہیں لگایا۔ حکمرانوں سے بات کرتے وقت ہمیں بھی احترام سے پیش آنا چاہئے۔
۹:۲۲۔ ہمیں ہمیشہ غریب لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے۔—گلتیوں ۲:۱۰۔
یہوواہ خدا ”خلاصی اور نجات“ دے گا
مردکی ظاہر کرتا ہے کہ خدا نے ایک خاص مقصد کے لئے آستر کو ملکہ بننے دیا تھا۔ جب یہودیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ روزہ رکھتے اور خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ ملکہ بِنبلائے بادشاہ کی بارگاہ میں حاضر ہوتی ہے اور بادشاہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ پھر اُس رات بادشاہ نیند سے محروم رہتا ہے۔ جیہاں، آستر کی کتاب سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا صورتحال میں تبدیلی لا کر اپنے خادموں کو نجات دلاتا ہے۔
ہم ’آخری زمانے‘ میں رہ رہے ہیں اس لئے آستر کی کتاب کے دلچسپ واقعات ہمارے لئے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ (دانیایل ۱۲:۴) ”آخری دنوں میں“ جوج کا ماجوج یعنی شیطان، یہوواہ خدا کے بندوں پر ہولناک حملہ برپا کرے گا۔ اس حملے میں شیطان، خدا کے سچے پرستاروں کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن جیسا کہ آستر کے دنوں میں ہوا تھا، یہوواہ خدا ایک بار پھر اپنے بندوں کو ”خلاصی اور نجات“ دلائے گا۔—حزقیایل ۳۸:۱۶-۲۳؛ آستر ۴:۱۴۔
[صفحہ ۷ پر تصویر]
آستر اور مردکی بادشاہ کی بارگاہ میں