مطالعے کا مضمون نمبر 33
مُردوں کے زندہ ہو جانے کی اُمید یہوواہ کی محبت، دانشمندی اور صبر کا ثبوت
”خدا نیکوں اور بدوں دونوں کو زندہ کرے گا۔“—اعما 24:15۔
گیت نمبر 151: خدا مُردوں کو آواز دے گا
مضمون پر ایک نظرa
1. یہوواہ خدا نے جانداروں کو کیوں بنایا؟
ایک وقت تھا جب یہوواہ بالکل اکیلا تھا۔ لیکن اُس نے کبھی تنہائی محسوس نہیں کی۔ اُسے خوش رہنے کے لیے کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن وہ چاہتا تھا کہ دوسرے بھی زندگی کی نعمت سے خوشی حاصل کریں۔ اِس لیے محبت کی بِنا پر اُس نے فرشتوں، اِنسانوں اور باقی جانداروں کو بنانا شروع کِیا۔—زبور 36:9؛ 1-یوح 4:19۔
2. یسوع مسیح اور فرشتوں نے اُس وقت کیسا محسوس کِیا جب یہوواہ کائنات کی باقی چیزوں کو بنا رہا تھا؟
2 سب سے پہلے یہوواہ نے اپنے بیٹے یسوع کو بنایا۔ پھر اُس نے اُن کے ذریعے ”آسمان اور زمین کی سب چیزیں“ بنائیں جن میں لاکھوں فرشتے بھی شامل تھے۔ (کُل 1:16) یسوع مسیح کو اپنے باپ کے ساتھ کام کر کے بہت خوشی ملی۔ (امثا 8:30) اِس کے علاوہ فرشتے بھی بہت خوش تھے۔ کیوں؟ کیونکہ جب یہوواہ اور اُس کا ماہر کاریگر یسوع آسمان اور زمین کو بنا رہے تھے تو فرشتے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ فرشتوں نے اپنی خوشی کا اِظہار کیسے کِیا؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ جب زمین بن رہی تھی تو وہ ’خوشی سے للکار رہے تھے۔‘ یقیناً وہ ہر اُس چیز پر خوش ہو رہے تھے جو یہوواہ بنا رہا تھا، خاص طور پر اِنسانوں کی تخلیق پر۔ (ایو 38:7؛ امثا 8:31) یہوواہ کی بنائی ہوئی ہر چیز سے اُس کی محبت اور دانشمندی ظاہر ہوئی۔—زبور 104:24؛ روم 1:20۔
3. پہلا کُرنتھیوں 15:21، 22 کے مطابق یسوع مسیح کے فدیے سے کیا ممکن ہوا؟
3 یہوواہ چاہتا تھا کہ اِنسان اُس کی بنائی ہوئی خوبصورت زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہیں۔ لیکن جب آدم اور حوا نے اپنے شفیق باپ کے خلاف بغاوت کی تو وہ اور اُن کی اولاد گُناہ اور موت کی دَلدل میں پھنس گئی۔ (روم 5:12) اِس پر یہوواہ نے کیا کِیا؟ اُس نے فوراً بتایا کہ وہ اِنسانوں کو نجات کیسے دِلائے گا۔ (پید 3:15) اُس نے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا بندوبست کِیا تاکہ آدم اور حوا کی اولاد کے لیے گُناہ اور موت سے چھٹکارا پانا ممکن ہو جائے۔ یوں وہ ہر اُس شخص کو ہمیشہ کی زندگی دے سکتا تھا جو اُس کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرتا۔—یوح 3:16؛ روم 6:23؛ 1-کُرنتھیوں 15:21، 22 کو پڑھیں۔
4. اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
4 خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرے گا۔ اِس حوالے سے شاید ہمارے ذہن میں کئی سوال آئیں۔ مثال کے طور پر کیا سب مُردوں کو اِکٹھے زندہ کِیا جائے گا؟ جب ہمارے عزیزوں کو زندہ کِیا جائے گا تو کیا ہم اُنہیں پہچان پائیں گے؟ مُردوں کے زندہ ہونے سے ہمیں خوشی کیوں ملے گی؟ اور ابھی جب ہم مُردوں کے زندہ ہو جانے کی اُمید پر غور کرتے ہیں تو ہمارے دل میں یہوواہ کی محبت، دانشمندی اور صبر کے لیے قدر کیسے بڑھتی ہے؟ آئیں، اِن سب سوالوں پر غور کرتے ہیں۔
کیا سب مُردوں کو اِکٹھے زندہ کِیا جائے گا؟
5. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ سب مُردوں کو ایک ساتھ ایک ہی وقت پر زندہ نہیں کِیا جائے گا؟
5 ہم اِس بات کی توقع رکھ سکتے ہیں کہ جب یہوواہ اپنے بیٹے کے ذریعے لاتعداد مُردوں کو زندہ کرے گا تو وہ سب کو ایک ساتھ ایک ہی وقت پر زندہ نہیں کرے گا۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ اگر زمین پر اِنسانوں کی اچانک سے بہت زیادہ آبادی ہو جائے گی تو بدنظمی پیدا ہو سکتی ہے۔ اور یہوواہ کبھی بھی کوئی کام بےترتیبی سے نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ امن قائم رکھنے کے لیے سب کاموں کا منظم طریقے سے ہونا بہت ضروری ہے۔ (1-کُر 14:33) یہوواہ خدا نے اُس وقت بڑی دانشمندی اور صبر سے کام لیا تھا جب اِنسانوں کو بنانے سے پہلے وہ یسوع مسیح کے ساتھ زمین تیار کر رہا تھا۔ یسوع مسیح بھی اُس وقت دانشمندی اور صبر سے کام لیں گے جب وہ اپنی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران اُن لوگوں کے ساتھ کام کریں گے جو ہرمجِدّون سے بچ جائیں گے۔ وہ اِن لوگوں کے ساتھ مل کر اُن تمام چیزوں کا بندوبست کریں گے جن کی اُن لوگوں کو ضرورت ہوگی جنہیں زندہ کِیا جائے گا۔
6. اعمال 24:15 کے مطابق یہوواہ جن لوگوں کو زندہ کرے گا، اُن میں کون شامل ہوں گے؟
6 جو لوگ ہرمجِدّون سے بچ جائیں گے، وہ ایک ایسا کام بھی کریں گے جو باقی سب کاموں سے زیادہ اہم ہوگا۔ وہ زندہ ہونے والے لوگوں کو یہوواہ خدا کی بادشاہت اور اُس کے معیاروں کے بارے میں سکھائیں گے۔ وہ ایسا کیوں کریں گے؟ کیونکہ جن لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا، اُن میں سے زیادہتر ایسے لوگ ہوں گے جن کا شمار ”بدوں“ میں ہوتا ہے۔ (اعمال 24:15 کو پڑھیں۔) اُنہیں یسوع مسیح کے فدیے سے فائدہ حاصل کرنے اور ہمیشہ کی زندگی پانے کے لیے اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ذرا سوچیں کہ ہمیں اُن لاکھوں لوگوں کو یہوواہ کے بارے میں سچائی سکھانے کے لیے کتنا زیادہ کام کرنا ہوگا جو یہوواہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے! لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ سوال بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیا ہم ایک ایک شخص کو الگ الگ تعلیم دیں گے جیسے آج ہم بائبل کورس کراتے ہیں؟ کیا اِن لوگوں کو فرق فرق کلیسیا میں جانے کو کہا جائے گا اور اُنہیں تربیت دی جائے گی تاکہ وہ اُن لوگوں کو تعلیم دے سکیں جنہیں بعد میں زندہ کِیا جائے گا؟ ہم اِن سوالوں کے جواب نہیں جانتے۔ اِس کے لیے ہمیں اِنتظار کرنا ہوگا۔ البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے آخر تک ”زمین [یہوواہ] کے عرفان [یعنی علم] سے معمور“ ہو چُکی ہوگی۔ (یسع 11:9) ذرا سوچیں کہ اُن ہزار سال کے دوران ہم تعلیم دینے کے کام میں کتنے مصروف ہوں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں ایسا کرنے میں کتنا مزہ بھی آئے گا!
7. خدا کے بندے اُن لوگوں کو تعلیم دیتے وقت ہمدردی کیوں محسوس کریں گے جنہیں زندہ کِیا جائے گا؟
7 مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران زمین پر یہوواہ کے سب بندے اُسے خوش کرنے کے لیے اپنی شخصیت میں بہتری لاتے رہیں گے۔ لہٰذا جب خدا کے یہ بندے زندہ ہونے والے لوگوں کی مدد کریں گے کہ وہ اپنی بُری سوچ اور خواہشوں پر قابو پائیں اور یہوواہ کے معیاروں کے مطابق زندگی گزاریں تو اُن کے دل میں اِن لوگوں کے لیے ہمدردی ہوگی۔ (1-پطر 3:8) بےشک زندہ ہونے والے لوگ خدا کے اِن خاکسار بندوں کی طرف کھنچے چلے آئیں گے جو خود بھی ”نجات حاصل کرنے کی کوشش“ کر رہے ہوں گے۔—فل 2:12۔
کیا ہم اپنے اُن عزیزوں کو پہچان پائیں گے جنہیں زندہ کِیا جائے گا؟
8. کس بِنا پر یہ لگتا ہے کہ ہم اپنے اُن عزیزوں کو پہچان لیں گے جنہیں زندہ کِیا جائے گا؟
8 مختلف وجوہات کی بِنا پر یہ لگتا ہے کہ ہم اپنے اُن عزیزوں کو پہچان لیں گے جنہیں زندہ کِیا جائے گا۔ ماضی میں یہوواہ نے مُردوں کو جس طرح سے زندہ کِیا، اُس سے لگتا ہے کہ جب وہ مستقبل میں کسی شخص کو زندہ کرے گا تو وہ اُسے اُسی شکلوصورت، آواز اور سوچ کے ساتھ دوبارہ خلق کرے گا جو اُس کے مرنے سے کچھ دیر پہلے تھی۔ یاد کریں کہ یسوع مسیح نے موت کو نیند سے تشبیہ دی تھی اور مُردوں کے زندہ ہو جانے کو جاگنے سے۔ (متی 9:18، 24؛ یوح 11:11-13) جب کوئی شخص نیند سے جاگتا ہے تو وہ ویسا ہی دِکھتا اور ویسے ہی بولتا ہے جیسا وہ سونے سے پہلے دِکھتا اور بولتا تھا۔ اِس کے علاوہ اُسے وہ سب باتیں یاد ہوتی ہیں جو سونے سے پہلے اُس کی یادداشت میں ہوتی ہیں۔ ذرا لعزر کے بارے میں سوچیں۔ اُنہیں فوت ہوئے چار دن ہو گئے تھے اور اُن کا جسم گلنے سڑنے لگا تھا۔ لیکن جب یسوع مسیح نے اُنہیں زندہ کِیا تو اُن کی بہنوں نے فوراً اُنہیں پہچان لیا اور بےشک لعزر کو بھی اپنی بہنیں یاد تھیں۔—یوح 11:38-44؛ 12:1، 2۔
9. مُردوں کو بےعیب اِنسانوں کے طور پر زندہ کیوں نہیں کِیا جائے گا؟
9 یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ مسیح کی حکمرانی میں کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ ”مَیں بیمار ہوں۔“ (یسع 33:24؛ روم 6:7) لہٰذا جب خدا مُردوں کو زندہ کرے گا تو وہ اُنہیں کسی بیماری یا معذوری کے بغیر دوبارہ خلق کرے گا۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر طرح کے عیب سے پاک زندہ ہوں گے کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو اُن کے گھر والے اور دوست اُنہیں پہچان نہیں پائیں گے۔ لگتا ہے کہ تمام اِنسان مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران آہستہ آہستہ بےعیب ہوں گے۔ ہزار سال کے ختم ہونے پر یسوع مسیح بادشاہت کو اپنے باپ کے حوالے کر دیں گے۔ اُس وقت تک یہ بادشاہت وہ سب کچھ کر چُکی ہوگی جو یہوواہ چاہتا ہے جس میں اِنسانوں کا بےعیب ہو جانا بھی شامل ہے۔—1-کُر 15:24-28؛ مکا 20:1-3۔
مُردوں کے زندہ ہونے سے ہمیں خوشی کیوں ملے گی؟
10. جب مُردے زندہ ہوں گے تو آپ کے احساسات کیا ہوں گے؟
10 ذرا سوچیں کہ اُس وقت کیسا سماں ہوگا جب آپ اپنے اُن عزیزوں سے دوبارہ ملیں گے جو فوت ہو گئے ہیں۔ کیا آپ خوشی سے ہنسنے یا پھر رونے لگیں گے؟ کیا آپ خوشی کے مارے یہوواہ کی حمد میں گیت گانے لگیں گے؟ چاہے اُس وقت آپ کے احساسات کچھ بھی ہوں، ایک بات تو پکی ہے کہ آپ کا دل اپنے شفیق باپ اور اُس کے بیٹے کی محبت سے بھر جائے گا جن کی وجہ سے مُردے زندہ ہوں گے۔
11. یوحنا 5:28، 29 کے مطابق جو لوگ یہوواہ کے معیاروں کے مطابق زندگی گزاریں گے، اُنہیں کون سی برکت ملے گی؟
11 ذرا اُن لوگوں کی خوشی کا بھی تصور کریں جنہیں زندہ کِیا جائے گا۔ جب وہ اپنی پُرانی شخصیت کو اُتار پھینکیں گے اور یہوواہ کے معیاروں کے مطابق زندگی گزاریں گے تو اُن کی خوشی کی اِنتہا نہیں رہے گی۔ جو لوگ اپنی زندگی میں ایسی تبدیلیاں لائیں گے، اُنہیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔ لیکن جو لوگ خدا کے حکموں کے خلاف جائیں گے، خدا اُنہیں فردوس کا امن برباد کرنے نہیں دے گا۔—یسع 65:20؛ یوحنا 5:28، 29 کو پڑھیں۔
12. زمین پر سب اِنسانوں کو کون کون سی برکتیں ملیں گی؟
12 خدا کی بادشاہت میں خدا کے سب بندے امثال 10:22 میں لکھی اِس بات کا تجربہ کریں گے: ”[یہوواہ] ہی کی برکت دولت بخشتی ہے اور وہ اُس کے ساتھ دُکھ نہیں ملاتا۔“ یہوواہ کی پاک روح کی مدد سے اُس کے بندے روحانی لحاظ سے دولتمند ہو جائیں گے یعنی وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بےعیب ہوتے جائیں گے اور مسیح کی طرح بنتے جائیں گے۔ (یوح 13:15-17؛ اِفس 4:23، 24) وہ دن بہدن صحتمند ہوتے جائیں گے اور بہتر سے بہتر اِنسان بنتے جائیں گے۔ اُس وقت زندگی کتنی خوشیوں بھری اور خوبصورت ہوگی! (ایو 33:25) لیکن جب ہم اِس وعدے پر غور کرتے ہیں کہ مُردوں کو زندہ کر دیا جائے گا تو ہمیں ابھی کیا فائدہ ہوگا؟
یہوواہ کی محبت کی قدر کریں
13. زبور 139:1-4 سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ ہمیں اچھی طرح جانتا ہے اور یہ بات مُردوں کے زندہ ہو جانے سے کیسے ثابت ہوگی؟
13 جیسا کہ ہم دیکھ چُکے ہیں، جب یہوواہ مُردوں کو زندہ کرے گا تو وہ اُنہیں اُسی یادداشت اور شخصیت کے ساتھ دوبارہ زندگی دے گا جو مرنے سے پہلے اُن کی تھی۔ اِس سے ہمیں اپنے آسمانی باپ کے بارے میں ایک ایسی بات پتہ چلتی ہے جو ہمارے دل کو چُھو لیتی ہے۔ یہوواہ ہم سے اِتنی محبت کرتا ہے کہ وہ ہماری ہر سوچ، ہر احساس، ہر بات اور ہر کام پر غور کرتا اور اِسے یاد رکھتا ہے۔ اِس لیے اگر ہم مر بھی جاتے ہیں تو وہ بڑی آسانی سے ہمیں اُسی یادداشت، سوچ اور شخصیت کے ساتھ زندہ کر سکتا ہے جو مرنے سے پہلے ہماری تھی۔ داؤد جانتے تھے کہ یہوواہ ہم میں سے ہر ایک کو کتنی اچھی طرح سے جانتا ہے۔ (زبور 139:1-4 کو پڑھیں۔) جب آپ اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہوواہ آپ کے بارے میں چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جانتا ہے تو آپ کو کیسا لگتا ہے؟
14. جب ہم اِس بات پر سوچ بچار کرتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں کتنی اچھی طرح سے جانتا ہے تو ہمیں کیسا محسوس ہونا چاہیے؟
14 جب ہم اِس بات پر سوچ بچار کرتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں کتنی اچھی طرح جانتا ہے تو ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں؟ یاد رکھیں کہ یہوواہ کو ہماری بڑی فکر ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اُس کی نظر میں بہت خاص ہے۔ وہ ہر اُس بات کو غور سے دیکھتا اور یاد رکھتا ہے جو ہماری زندگی پر اثر ڈالتی ہے۔ کیا یہ جان کر ہمیں حوصلہ نہیں ملتا؟ ہمیں یہ کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم اکیلے ہیں۔ یہوواہ ہر لمحے ہمارے ساتھ ہوتا ہے اور اِس موقعے کی تلاش میں رہتا ہے کہ وہ کب ہماری مدد کے لیے آگے بڑھے۔—2-توا 16:9۔
یہوواہ کی دانشمندی کی قدر کریں
15. یہوواہ نے مُردوں کو زندہ کرنے کی اُمید دینے سے دانشمندی کیسے ظاہر کی؟
15 موت کا خوف ایک طاقتور ہتھیار ہے۔ جو لوگ شیطان کے قبضے میں ہیں، وہ اِس ہتھیار کو خدا کے بندوں کو دھمکانے کے لیے اِستعمال کرتے ہیں تاکہ وہ خوف میں آ کر اپنے دوستوں کو دھوکا دیں یا اپنے ایمان سے مکر جائیں۔ لیکن اُن کا یہ ہتھیار کسی کام کا نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہمارے دُشمن ہماری جان بھی لے لیں تو یہوواہ ہمیں زندہ کر دے گا۔ (مکا 2:10) ہمیں پورا یقین ہے کہ اُن کے کسی بھی حملے میں اِتنی طاقت نہیں کہ ہمیں اپنے خدا سے دُور کر سکے۔ (روم 8:35-39) یہوواہ نے مُردوں کو زندہ کرنے کی اُمید دینے سے ظاہر کِیا ہے کہ وہ کتنا دانشمند ہے۔ یہ اُمید دینے سے وہ نہ صرف شیطان کے اِس طاقتور ہتھیار کو ناکارہ بنا دیتا ہے بلکہ ہمیں دلیری سے لیس بھی کرتا ہے۔
16. (الف) آپ کو خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟ (ب) اِن سوالوں کے جواب سے آپ یہ اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں کہ آپ یہوواہ پر کتنا بھروسا کرتے ہیں؟
16 اگر یہوواہ کے دُشمن آپ کو جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں تو کیا آپ اِس بات پر بھروسا رکھیں گے کہ یہوواہ آپ کو زندہ کر دے گا؟ آپ یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ آپ اُس وقت یہ بھروسا ظاہر بھی کریں گے؟ اِس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم خود سے پوچھیں: ”مَیں ہر روز جو چھوٹے موٹے فیصلے کرتا ہوں، کیا اُن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مجھے یہوواہ پر بھروسا ہے؟“ (لُو 16:10) ”کیا میری زندگی سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ مجھے اِس بات پر پکا یقین ہے کہ اگر مَیں یہوواہ کی بادشاہت کو سب سے زیادہ اہمیت دوں گا تو وہ میری ہر ضرورت پوری کرے گا؟“ (متی 6:31-33) اگر آپ اِن سوالوں کے جواب ہاں میں دیں گے تو یہ ظاہر ہوگا کہ آپ کو واقعی یہوواہ پر بھروسا ہے اور آپ کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔—امثا 3:5، 6۔
یہوواہ کے صبر کی قدر کریں
17. (الف) مُردوں کو زندہ کرنے کے حوالے سے یہوواہ نے صبر کیسے ظاہر کِیا ہے؟ (ب) ہم یہوواہ کے صبر کے لیے قدر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
17 یہوواہ خدا نے وہ دن اور گھنٹہ مقرر کِیا ہوا ہے جس پر وہ اِس بُری دُنیا کو تباہ کر دے گا۔ (متی 24:36) لیکن وہ بےصبری سے کام نہیں لے گا اور وقت سے پہلے ایسا نہیں کرے گا۔ حالانکہ وہ مُردوں کو زندہ کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے لیکن وہ صابر ہے۔ (ایو 14:14، 15) وہ اُس مقررہ وقت کا اِنتظار کر رہا ہے جب وہ مُردوں کو زندہ کرے گا۔ (یوح 5:28) ہم یہوواہ کے اِس صبر کے لیے اُس کے بےحد شکرگزار ہیں اور اِس کی کئی وجوہات بھی ہیں۔ ذرا سوچیں: یہوواہ کے صبر کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو اور ہمیں بھی ’توبہ کرنے‘ کا موقع مل رہا ہے۔ (2-پطر 3:9) یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں۔ آئیں، ہم سب یہ ظاہر کریں کہ ہم یہوواہ کے صبر کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم پوری لگن سے ایسے لوگوں کو تلاش کر سکتے ہیں”جو ہمیشہ کی زندگی کی راہ پر چلنے کی طرف مائل“ ہیں اور اُن کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ اُن کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت اور اُس کی خدمت کرنے کی خواہش پیدا ہو۔ (اعما 13:48) یوں اِن لوگوں کو یہوواہ کے صبر سے فائدہ ہوگا، بالکل جیسے ہمیں ہوا ہے۔
18. ہمیں دوسروں کے ساتھ صبر سے کیوں پیش آنا چاہیے؟
18 جب تک ہزار سال پورے نہیں ہو جاتے، یہوواہ صبر سے ہمارے بےعیب ہونے کا اِنتظار کرے گا۔ لیکن تب تک وہ ہمارے گُناہوں کو معاف کرتا رہے گا۔ اگر یہوواہ ایسا کر سکتا ہے تو ہمیں بھی دوسروں کے ساتھ صبر سے پیش آنے اور اُن میں اچھائیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرا ایک بہن کی مثال پر غور کریں جس کے شوہر کو شدید پریشانی کے دورے پڑنا شروع ہو گئے اور اُس نے اِجلاسوں پر جانا چھوڑ دیا۔ وہ بہن کہتی ہے: ”میرے لیے وہ وقت بڑا تکلیفدہ تھا۔ ہماری زندگی اچانک سے اُتھل پتھل ہو گئی اور ہم نے آگے کے لیے جو کچھ سوچ رکھا تھا، وہ سب دھرا کا دھرا رہ گیا۔“ اِس کٹھن وقت میں یہ بہن اپنے شوہر کے ساتھ صبر سے پیش آتی رہی۔ اُس نے یہوواہ پر بھروسا کِیا اور ہار نہیں مانی۔ یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اُس نے مسئلوں پر دھیان نہیں دیا۔ اِس کی بجائے اُس نے اپنے شوہر کی اچھی باتوں پر دھیان رکھا۔ وہ کہتی ہے: ”میرے شوہر میں کئی خوبیاں ہیں اور وہ آہستہ آہستہ اپنی بیماری سے نمٹنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔“ یہ کتنا ضروری ہے کہ ہم اپنے اُن گھر والوں اور کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ صبر سے پیش آئیں جو اپنی مشکلوں سے لڑ رہے ہیں!
19. ہمیں کیا کرنے کا عزم کرنا چاہیے؟
19 جب زمین کو بنایا گیا تھا تو یسوع مسیح اور فرشتے بہت خوش تھے۔ لیکن ذرا سوچیں کہ اُنہیں اُس وقت کتنی خوشی ہوگی جب وہ دیکھیں گے کہ پوری زمین بےعیب لوگوں سے بھری ہے جو یہوواہ سے محبت کرتے اور اُس کی عبادت کرتے ہیں۔ ذرا اُن لوگوں کی خوشی کا بھی تصور کریں جو زمین سے آسمان پر یسوع کے ساتھ حکمرانی کرنے کے لیے جائیں گے۔ وہ اُس وقت کتنے خوش ہوں گے جب وہ دیکھیں گے کہ اِنسانوں کو اُن کے کاموں سے کتنا فائدہ ہو رہا ہے۔ (مکا 4:4، 9-11؛ 5:9، 10) اور ذرا سوچیں کہ اُس وقت زندگی کیسی ہوگی جب خوشی کے آنسو، غم کے آنسوؤں کی جگہ لے لیں گے، بیماری، دُکھ درد اور موت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔ (مکا 21:4) لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا، اپنے آسمانی باپ کی مثال پر عمل کرنے کا عزم کریں جو بہت ہی شفیق، دانشمند اور صابر ہے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کی خوشی کبھی ختم نہیں ہوگی پھر چاہے آپ پر کوئی بھی مشکل آ جائے۔ (یعقو 1:2-4) ہم یہوواہ کے اِس وعدے کے لیے اُس کے بڑے شکرگزار ہیں کہ وہ مُردوں کو ”زندہ کرے گا۔“—اعما 24:15۔
گیت نمبر 141: زندگی—خدا کی بیشقیمت نعمت
a یہوواہ ایک شفیق، دانشمند اور صابر باپ ہے۔ جس طرح سے اُس نے تمام چیزوں کو بنایا ہے، اُس سے اُس کی یہ خوبیاں صاف نظر آتی ہیں۔ یہوواہ کی یہ خوبیاں اُس کے اُس وعدے سے بھی جھلکتی ہیں جو اُس نے مُردوں کو زندہ کرنے کے حوالے سے کِیا ہے۔ اِس مضمون میں ہم کچھ ایسے سوالوں کے جواب حاصل کریں گے جو شاید مُردوں کے زندہ ہو جانے کے بارے میں ہمارے ذہن میں آتے ہیں اور دیکھیں گے کہ ہم یہوواہ کی محبت، اُس کی دانشمندی اور اُس کے صبر کے لیے قدر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔
b تصویر کی وضاحت: ایک آدمی جو سینکڑوں سال پہلے فوت ہو گیا تھا، مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران زندہ ہو گیا ہے۔ ایک بھائی جو ہرمجِدّون کے دوران بچ گیا ہے، اُس آدمی کو بڑی خوشی سے یہ سکھا رہا ہے کہ اُسے مسیح کے فدیے سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔
c تصویر کی وضاحت: ایک بھائی اپنے باس کو بتا رہا ہے کہ وہ ہفتے میں کچھ دن اوورٹائم نہیں کر سکتا کیونکہ اِن دنوں میں وہ شام کے وقت یہوواہ کی عبادت کے مختلف پہلوؤں میں حصہ لیتا ہے۔ لیکن دوسرے دنوں میں وہ ضرورت پڑنے پر مزید کچھ گھنٹے کام کرنے کو تیار ہے۔