یہوواہ کا کلام زندہ ہے
غزلالغزلات کی کتاب سے اہم نکات
”جیسی سوسن جھاڑیوں میں ویسی ہی میری محبوبہ کنواریوں میں ہے۔“ ”جیسا سیب کا درخت بن کے درختوں میں ویسا ہی میرا محبوب نوجوانوں میں ہے۔“ ”یہ کون ہے جس کا ظہور صبح کی مانند ہے جو حسن میں ماہتاب اور نُور میں آفتاب“ ہے؟ (غزلالغزلات ۲:۲، ۳؛ ۶:۱۰) بائبل میں غزلالغزلات کی کتاب کے کیا ہی خوبصورت الفاظ! یہ ساری کتاب ایک نظم ہے اور پُرمعنی اور خوبصورت اظہارات سے بھرپور ہے۔ اِس لئے اِسے ”غزلالغزلات“ یعنی بہترین غزل کہا گیا ہے۔—غزلالغزلات ۱:۱۔
اسے سلیمان نے اپنے ۴۰ سالہ دورِحکومت کے شروع میں تقریباً ۱۰۲۰ قبلازمسیح میں لکھا۔ یہ غزل یا گیت ایک نوجوان چرواہے اور ایک گاؤں کی دوشیزہ شولمیت کی داستانِعشق ہے۔ اس غزل میں لڑکی کی ماں اور بھائیوں، ”یرؔوشلیم کی بیٹیوں [کنیزوں]“ اور ”صیوؔن کی بیٹیوں [یروشلیم کی عورتوں]“ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ (غزلالغزلات ۱:۵؛ ۳:۱۱) اگرچہ بائبل کی اس کتاب کو پڑھنے والے کو ان تمام کی شناخت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے توبھی ان کی باتوں یا ان سے جوکچھ کہا گیا ہے اس سے ان کی شناخت کی جا سکتی ہے۔
خدا کے کلام کا حصہ ہونے کی وجہ سے غزلالغزلات دو وجوہات کی بِنا پر اہمیت رکھتی ہے۔ (عبرانیوں ۴:۱۲) اوّل، یہ ہمیں مرد اور عورت کے درمیان سچی محبت کے بارے میں بتاتی ہے۔ دوم، یہ غزل یسوع مسیح اور ممسوح مسیحیوں کے درمیان پائی جانے والی محبت کو بیان کرتی ہے۔—۲-کرنتھیوں ۱۱:۲؛ افسیوں ۵:۲۵-۳۱۔
”میرے دل میں پیار جگانے کی کوشش مت کرو“
(غزلالغزلات ۱:۱–۳:۵)
”وہ اپنے مُنہ کے چوموں سے مجھے چومے کیونکہ تیرا عشق مے سے بہتر ہے۔“ (غزلالغزلات ۱:۲) غزلالغزلات کی کتاب ان الفاظ کے ساتھ شروع ہوتی ہے جو گاؤں کی اس لڑکی سے کہے گئے تھے جسے سلیمان کے شاہی خیمہ میں لایا جاتا ہے۔ وہ یہاں کیسے پہنچتی ہے؟
وہ کہتی ہے کہ ”میری ماں کے بیٹے مجھ سے ناخوش تھے۔ اُنہوں نے مجھ سے تاکستان کی نگہبانی کرائی۔“ اس کے بھائی اُس سے ناراض ہوتے ہیں کیونکہ اس نوجوان چرواہے نے اُسے ایک سہانے دن اپنے ساتھ جانے کے لئے کہا۔ اسے روکنے کے لئے اُنہوں نے اسے ”لومڑی بچوں کو جو تاکستان خراب کرتے ہیں“ کی حفاظت کرنے کا کام دیا۔ اس کا یہ کام سلیمان کی لشکرگاہ کے نزدیک تھا۔ اس کی خوبصورتی پر سلیمان کی اس وقت نظر پڑی جب وہ ”چلغوزوں کے باغ“ میں گئی اور پھر اسے لشکرگاہ میں لایا جاتا ہے۔—غزلالغزلات ۱:۶؛ ۲:۱۰-۱۵؛ ۶:۱۱۔
جب دوشیزہ اپنے محبوب چرواہے کے لئے اپنی چاہت کا اظہار کرتی ہے تو کنیزیں اُسے کہتی ہیں کہ وہ ”گلّہ کے نقشِقدم پر“ جاکر اُسے ڈھونڈے۔ لیکن سلیمان اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے وہ اُسے ”سونے کے طوق . . . اور اُن میں چاندی کے پھول“ دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن یہ دوشیزہ اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ نوجوان چرواہا سلیمان کی لشکرگاہ میں جاتا اور اِسے پاکر کہتا ہے: ”دیکھ تُو خوبرو ہے اَے میری پیاری! دیکھ تُو خوبصورت ہے۔“ دوشیزہ کنیزوں کو قسم دیتی ہے: ”میرے دل میں پیار جگانے کی کوشش مت کرو۔ میرے دل میں تو یہ پیار خود ہی جاگے گا۔“—غزلالغزلات ۱:۸-۱۱، ۱۵؛ ۲:۷؛ ۳:۵، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱:۲، ۳—نوجوان چرواہے کی محبتبھری باتوں کی یاد مے اور عطر یا تیل کی مانند کیوں ہے؟ جیسے مے انسان کے دل کو خوش کرتی اور سر پر تیل ڈالنے سے راحت ہوتی ہے اُسی طرح نوجوان چرواہے کی محبت اور اُس کے نام کو یاد کرکے دوشیزہ کو تسلی اور دلی سکون ملتا ہے۔ (زبور ۲۳:۵؛ ۱۰۴:۱۵) ایسے ہی سچے مسیحی خاصکر ممسوح مسیحی اپنے لئے یسوع مسیح کی محبت یاد کرکے تسلی اور اطمینان پاتے ہیں۔
۱:۵—گاؤں کی یہ لڑکی اپنی سانولی شکلوصورت کو ”قیدار کے خیموں“ سے کیوں تشبِیہ دیتی ہے؟ اُس زمانے میں بکری کے بالوں کے بنے ہوئے کپڑوں کا وسیع استعمال ہوتا تھا۔ (گنتی ۳۱:۲۰) مثال کے طور پر، ”بکری کے بال“ کے پردوں کو ”مسکن کے اُوپر خیمہ کا کام“ دینے کیلئے استعمال کِیا جاتا تھا۔ (خروج ۲۶:۷) قیدار کے خیمے بکری کے بالوں سے بنائے جاتے تھے۔ آجکل بدوؤں کے خیمے بھی اسی طرح بنتے ہیں۔
۱:۱۵—نوجوان چرواہے کا یہ کہنے سے کیا مطلب تھا: ”تیری آنکھیں دو کبوتر ہیں“؟ نوجوان چرواہا یہ کہہ رہا تھا کہ اس کی محبوبہ کی آنکھوں میں کبوتر کی آنکھوں کی طرح نرمی ہے۔
۲:۷؛ ۳:۵—کنیزوں کو ”غزالوں اور میدان کی ہرنیوں“ کی قسم کیوں دی گئی؟ غزالوں اور ہرنیوں کا اپنے رنگوروپ اور جمال میں جواب نہیں۔ اصل میں شولمیت دوشیزہ کنیزوں کو ہر اُس چیز کی قسم دے رہی تھی جو خوبصورت اور سجیلی تھی تاکہ وہ اس کے دل میں پیار نہ جگا سکیں۔
ہمارے لئے سبق:
۱:۲؛ ۲:۶۔ جب شادی نزدیک ہو تو محبت کا پاکیزہ اظہار مناسب ہو سکتا ہے۔ تاہم، شادی کرنے والوں کو اس بات سے خبردار رہنا چاہئے کہ یہ اظہارات شہوتپرستی کے جوش کی بجائے حقیقی محبت ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا جوش ان کے لئے جنسی بداخلاقی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔—گلتیوں ۵:۱۹۔
۱:۶؛ ۲:۱۰-۱۵۔ شولمیت کے بھائیوں نے اپنی بہن کو اُس کے محبوب کے ساتھ پہاڑوں میں الگتھلگ جگہ پر جانے نہیں دیا۔ اس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ بداخلاق تھی یا اس کی نیت صاف نہیں تھی۔ اس کی بجائے اُنہوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں تاکہ وہ کسی ایسی صورتحال میں نہ پھنس جائے جو آزمائش کا باعث بن سکتی ہے۔ جن کی شادی نزدیک ہے انہیں تنہائی میں نہیں ملنا چاہئے۔
۲:۱-۳، ۸، ۹۔ خوبصورت ہونے کے باوجود شولمیت دوشیزہ نے خود کو ”شاؔرون کی نرگس“ سمجھا جو کہ ایک عام سا پھول ہے۔ اس کی خوبصورتی اور یہوواہ خدا کی وفاداری کی وجہ سے چرواہے نے اُسے کہا کہ وہ ”جیسی سوسن جھاڑیوں میں ویسی ہی“ ہے۔ لیکن چرواہے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ اپنی وجاہت کی وجہ سے شولمیت کے نزدیک وہ ”آہو“ کی مانند تھا۔ وہ ضرور روحانی ذہن رکھنے والا اور خداترس شخص رہا ہوگا۔ وہ کہتی ہے: ”جیسا سیب کا درخت بن کے درختوں میں ویسا ہی میرا محبوب نوجوانوں میں ہے۔“ شادی کرنے والوں کو ایک دوسرے میں ایمان اور خدا کے لئے عقیدت جیسی خوبیوں کی تلاش کرنی چاہئے۔
۲:۷؛ ۳:۵۔ گاؤں کی اس لڑکی کو سلیمان میں کوئی رومانوی کشش محسوس نہیں ہوئی۔ اُس نے کنیزوں کو قسم دی کہ وہ چرواہے کے علاوہ اِس کے دل میں کسی اَور کے لئے پیار مت جگائیں۔ ہر کسی کے لئے رومانوی محبت پیدا کر لینا نہ ہی ممکن ہے اور نہ ہی مناسب۔ شادی کے خواہشمند ایک کنوارے شخص کو صرف اور صرف خداوند میں شادی کرنے کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔—۱-کرنتھیوں ۷:۳۹۔
”تُم شولمیتؔ پر کیوں نظر کرو گے؟“
(غزلالغزلات ۳:۶–۸:۴)
کوئی ”بیابان سے دھوئیں کے ستون کی مانند چلا آتا ہے۔“ (غزلالغزلات ۳:۶) جب یروشلیم کی عورتیں یہ دیکھنے جاتی ہیں تو انہیں کیا نظر آتا ہے؟ سلیمان اور اس کے خادم شہر واپس لوٹ رہے ہیں۔ بادشاہ اپنے ساتھ شولمیت کو لے آتا ہے۔
نوجوان چرواہا دوشیزہ کا پیچھا کرتا اور اُسے جا لیتا ہے۔ جب وہ اُسے اپنی محبت کی یقیندہانی کراتا ہے تو وہ یہ کہتے ہوئے اُسے شہر چھوڑنے کو کہتی ہے: ”جبتک دن نہیں چڑھتا اور اندھیرا چھٹ نہیں جاتا، مَیں مُر کے پہاڑ اور لُبان کے ٹیلے پر جاؤں گی۔“ وہ چرواہے کو بلاتی ہے کہ وہ ”اپنے باغ میں آئے اور اپنے لذیذ میوے کھائے۔“ وہ جواب دیتا ہے: ”مَیں اپنے باغ میں آیا ہوں اَے میری پیاری! میری زوجہ!“ یروشلیم کی عورتیں اُس سے کہتی ہیں: ”اَے دوستو! کھاؤپیو۔ پیو! ہاں اَے عزیزو! خوب جی بھر کر پیو۔“—غزلالغزلات ۴:۶، ۱۶، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن؛ ۵:۱۔
شولمیت دوشیزہ کنیزوں کو اپنا خواب سنانے کے بعد کہتی ہے: ”مَیں عشق کی بیمار ہوں۔“ وہ کہتی ہیں: ”تیرے محبوب کو کسی دوسرے محبوب پر کیا فضیلت ہے؟“ وہ جواب دیتی ہے: ”میرا محبوب سرخوسفید ہے۔ وہ دس ہزار میں ممتاز ہے۔“ (غزلالغزلات ۵:۲-۱۰) سلیمان کے حد سے زیادہ تعریف کرنے پر وہ فروتنی سے جواب دیتی ہے: ”تُم شولمیتؔ پر کیوں نظر کرو گے؟“ (غزلالغزلات ۶:۴-۱۳) بادشاہ اس کی اَور زیادہ تعریف کرتا ہے تاکہ اس کے دل میں گھر کر سکے۔ لیکن دوشیزہ اپنے نوجوان چرواہے کی محبت میں قائم رہتی ہے۔ بالآخر، سلیمان اُسے گھر جانے دیتا ہے۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۴:۱؛ ۶:۵—دوشیزہ کے بال ”بکریوں کے گلّہ کی مانند“ کیوں ہیں؟ اس موازنے سے پتہ چلتا ہے کہ دوشیزہ کے بال بکریوں کے بالوں کی طرح چمکدار اور گھنے تھے۔
۴:۱۱—شولمیت کے ہونٹوں سے ’شہد کا ٹپکنا‘ اور ’شہدوشِیر اس کی زبان تلے‘ ہونا کیا ظاہر کرتا ہے؟ شولمیت کے ہونٹوں سے شہد کا ٹپکنا اور شہدوشِیر کا اس کی زبان تلے ہونا اس کی اچھی اور خوشگوار باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
۵:۱۲—ان الفاظ کا کیا مطلب ہے کہ ”اُس کی آنکھیں اُن کبوتروں کی مانند ہیں جو دودھ میں نہا کر لبِدریا تمکنت سے بیٹھے ہوں“؟ دوشیزہ اپنے محبوب کی آنکھوں کا ذکر کرتی ہے۔ شاید وہ شاعرانہ طور پر اس کی آنکھوں کی سفیدی میں کالی پتلی کو دودھ میں نہائے ہوئے کبوتروں سے تشبیہ دیتی ہے۔
۵:۱۴، ۱۵—نوجوان چرواہے کے ہاتھوں اور ٹانگوں کے بارے میں اس طرح سے کیوں بیان کِیا گیا ہے؟ دوشیزہ غالباً چرواہے کی انگلیوں کو زبرجد سے مُرصع اور ناخنوں کو سونے کے حلقے بیان کرتی ہے۔ وہ اس کی ٹانگوں کے مضبوط اور خوبصورت ہونے کی وجہ سے انہیں ”سنگِمرمر کے ستون“ کہتی ہے۔
۶:۴—دوشیزہ کو ترضہ سے تشبِیہ کیوں دی گئی ہے؟ اس کنعانی شہر پر یشوع نے قبضہ کِیا تھا اور سلیمان کے وقت کے بعد یہ دس قبیلوں پر مشتمل اسرائیل کی سلطنت کا پہلا دارلحکومت بنا۔ (یشوع ۱۲:۷، ۲۴؛ ۱-سلاطین ۱۶:۵، ۶، ۸، ۱۵) ایک کتاب کے مطابق ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شہر کسی وقت میں بہت خوبصورت رہا ہوگا، اس وجہ سے اس کا یہاں ذکر کِیا گیا ہے۔“
۶:۱۳—”دو لشکروں کا ناچ“ کیا ہے؟ اس کا ترجمہ ”محنایم کا ناچ“ بھی کِیا جا سکتا ہے۔ اس نام کا شہر وادیِیبوق کے نزدیک دریائےیردن کے مشرقی طرف واقع تھا۔ (پیدایش ۳۲:۲، ۲۲؛ ۲-سموئیل ۲:۲۹) شاید ”دو لشکروں کا ناچ“ ایک خاص رقص کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اس شہر میں تہواروں پر کِیا جاتا تھا۔
۷:۴—سلیمان شولمیت دوشیزہ کی گردن کو ”ہاتھی دانت کا بُرج“ کیوں کہتا ہے؟ دوشیزہ کی تعریف اس سے پہلے بھی کی گئی تھی: ”تیری گردن داؔؤد کا بُرج ہے۔“ (غزلالغزلات ۴:۴) بُرج لمبا ہوتا ہے اور ہاتھی دانت نفیس ہوتا ہے۔ سلیمان دوشیزہ کی خوبصورت گردن سے متاثر ہوا تھا۔
ہمارے لئے سبق:
۴:۱-۷۔ شولمیت ناکامل ہونے کے باوجود سلیمان کی چالوں میں نہ آئی۔ اُس نے راستی برقرار رکھی۔ اس کی اخلاقی قوت نے اس کی جسمانی خوبصورتی کو چار چاند لگا دئے۔ مسیحی عورتوں کے سلسلے میں بھی یہی بات سچ ہونی چاہئے۔
۴:۱۲۔ ایک خوبصورت باغ کے گرد باڑ یا ایک دیوار ہوتی ہے جس کے اندر داخلہ صرف بند دروازے سے ممکن ہوتا ہے۔ اس لئے شولمیت کا پیار اس کے ہونے والے شوہر کے لئے تھا۔ یہ غیرشادیشُدہ مسیحی مردوزن کے لئے نہایت ہی شاندار نمونہ ہے۔
’یاہ کا شعلہ‘
(غزلالغزلات ۸:۵-۱۴)
شولمیت کے بھائی جب اُسے گھر لوٹتے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں: ”یہ کون ہے جو بیابان سے اپنے محبوب پر تکیہ کئے چلی آتی ہے؟“ کچھ وقت پہلے، اُن میں سے ایک نے کہا تھا: ”اگر وہ دیوار ہو تو ہم اُس پر چاندی کا بُرج بنائیں گے اور اگر وہ دروازہ ہو تو ہم اُس پر دیودار کے تختے لگائیں گے۔“ اب شولمیت کی محبت کی استحکامت آزما لی گئی ہے۔ وہ کہتی ہے: ”مَیں دیوار ہوں اور میری چھاتیاں بُرج ہیں اور مَیں اُس کی نظر میں سلامتییافتہ کی مانند تھی۔“—غزلالغزلات ۸:۵، ۹، ۱۰۔
سچی محبت ”[یاہ] کے شعلہ کی مانند“ ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ایسی محبت کا سرچشمہ یہوواہ ہے۔ اُسی نے ہم میں محبت کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ یہ شعلہ ہے جس کی لپٹوں کو کوئی بجھا نہیں سکتا۔ غزلالغزلات خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان محبت ”موت کی مانند زبردست“ یا لازوال ہو سکتی ہے۔—غزلالغزلات ۸:۶۔
سلیمان کی بہترین غزل یسوع مسیح اور آسمانی ”دلہن“ کے ممبران میں پائے جانے والے محبت کے بندھن پر روشنی ڈالتی ہے۔ (مکاشفہ ۲۱:۲، ۹) ممسوح مسیحیوں کے لئے یسوع کی محبت کسی بھی مرد اور عورت کے درمیان پائی جانے والی محبت سے بڑھکر ہے۔ دلہن جماعت کے ممبران اپنی عقیدت میں مستحکم ہیں۔ یسوع نے اپنی جان دوسری بھیڑوں کے لئے بھی دی ہے۔ (یوحنا ۱۰:۱۶) لہٰذا، تمام سچے پرستار شولمیت کی وفادارانہ محبت اور عقیدت کے نمونے کی نقل کر سکتے ہیں۔
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
غزلالغزلات شادی کرنے والے مردوزن کو ایک دوسرے میں کیا دیکھنے کی تعلیم دیتی ہے؟