یہوواہ کی مرضی بجا لانے کیلئے تعلیمیافتہ
”مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں اسلئے کہ تُو میرا خدا ہے۔“—زبور ۱۴۳:۱۰۔
۱، ۲. (ا) ہمیں کب تعلیم دی جانی چاہئے اور کس حقیقتپسندانہ نظریے کیساتھ؟ (ب) یہوواہ سے تعلیم پانا اتنا اہم کیوں ہے؟
ہر دن پر جب کوئی شخص زندہ اور سرگرمِعمل ہے اُسے کوئینہکوئی قابلِقدر بات سکھائی جا سکتی ہے۔ یہ بات آپ پر اور دوسروں پر بھی صادق آتی ہے۔ لیکن موت کے وقت کیا واقع ہوتا ہے؟ اس حالت میں کچھ سکھانا یا سیکھنا ناممکن ہے۔ بائبل صاف طور پر بیان کرتی ہے کہ مُردے ”کچھ بھی نہیں جانتے۔“ شیول، نوعِانسان کی عام قبر، میں کوئی علم نہیں ہے۔ (واعظ ۹:۵، ۱۰) کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ ہمارا تعلیم پانا، علم بڑھانا، بیکار ہے؟ اسکا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم نے کیا تعلیم پائی ہے اور ہم اُس علم کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔
۲ اگر ہم نے صرف دُنیاوی باتوں ہی کی تعلیم پائی ہے تو ہمارا مستقبل دائمی نہیں ہے۔ تاہم، خوشی کی بات ہے کہ تمام اقوام کے لاکھوں لوگوں کو ہمیشہ کی زندگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے الہٰی مرضی کی بابت تعلیم دی جا رہی ہے۔ اس اُمید کی بنیاد زندگیبخش علم کے ماخذ، یہوواہ سے تعلیم پانے پر ہے۔—زبور ۹۴:۹-۱۲۔
۳. (ا) یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یسوع خدا کا پہلا شاگرد تھا؟ (ب) ہمارے پاس اس بات کی کیا یقیندہانی ہے کہ انسان یہوواہ سے تعلیم پائینگے اور کس نتیجے کیساتھ؟
۳ خدا کے پہلوٹھے بیٹے کو اُسکے پہلے شاگرد کے طور پر اپنے باپ کی مرضی بجا لانے کی تعلیم دی گئی تھی۔ (امثال ۸:۲۲-۳۰؛ یوحنا ۸:۲۸) پھر، یسوع نے ظاہر کِیا کہ بےشمار لوگ اُسکے باپ سے تعلیم پائینگے۔ جو لوگ خدا سے سیکھتے ہیں اُن کیلئے کیا امکانات ہیں؟ یسوع نے فرمایا: ”نبیوں کے صحیفوں میں یہ لکھا ہے کہ وہ سب خدا سے تعلیمیافتہ ہونگے۔ جس کسی نے باپ سے سنا اور سیکھا ہے وہ میرے پاس آتا ہے۔ . . . مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسکی ہے۔“—یوحنا ۶:۴۵-۴۷۔
۴. لاکھوں لوگ الہٰی تعلیم سے کیسے متاثر ہوئے ہیں اور اُن کے سامنے کونسے امکانات ہیں؟
۴ یسوع یسعیاہ ۵۴:۱۳ کے الفاظ کا حوالہ دے رہا تھا جو خدا کی علامتی عورت، آسمانی صیون سے مخاطب کئے گئے تھے۔ اُس پیشینگوئی کا خاص اطلاق اُس کے بیٹوں یعنی یسوع کے روح سے پیداشُدہ ۱۴۴،۰۰۰ شاگردوں پر ہوتا ہے۔ ان روحانی بیٹوں کا بقیہ آجکل زمین پر سرگرمِعمل ہے اور عالمگیر تعلیمی پروگرام کی پیشوائی کر رہا ہے۔ نتیجتاً، ”بڑی بِھیڑ“ کو تشکیل دینے والے لاکھوں لوگ یہوواہ سے تعلیم پانے سے مستفید ہوتے ہیں۔ اُن کے پاس سیکھنے کا ایسا لاثانی امکان ہے جس میں موت اس عمل کو نہیں روک سکتی۔ کیسے؟ اسلئے کہ وہ تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی ”بڑی مصیبت“ سے بچنے اور فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی سے لطفاندوز ہونے کے آرزومند ہیں۔—مکاشفہ ۷:۹، ۱۰، ۱۳-۱۷۔
خدا کی مرضی بجا لانے پر زیادہ زور
۵. (ا) ۱۹۹۷ کی سالانہ آیت کیا ہے؟ (ب) ہمیں مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے کی بابت کیسا محسوس کرنا چاہئے؟
۵ ۱۹۹۷ کے دوران، پوری دُنیا میں ۸۰,۰۰۰ سے زائد کلیسیاؤں میں، یہوواہ کے گواہ زبور ۱۴۳:۱۰ کے ان ابتدائی الفاظ کو ذہن میں رکھینگے: ”مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں۔“ یہ ۱۹۹۷ کی سالانہ آیت ہوگی۔ کنگڈم ہالز کے اندر نمایاں طور پر عیاںکردہ یہ الفاظ اس یاددہانی کا کام دینگے کہ الہٰی تعلیم حاصل کرنے کا خاص مقام کلیسیائی اجلاس ہیں جہاں ہم ایک مسلسل ہدایتی پروگرام میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اپنے عظیم مُعلم سے تعلیم پانے کیلئے جب ہم اجلاسوں پر اپنے بھائیوں کیساتھ شریک ہوتے ہیں تو ہم زبورنویس جیسا احساس رکھ سکتے ہیں جس نے لکھا: ”مَیں خوش ہوا جب وہ مجھ سے کہنے لگے آؤ خداوند کے گھر چلیں۔“—زبور ۱۲۲:۱؛ یسعیاہ ۳۰:۲۰۔
۶. داؤد کے الفاظ سے، ہمیں کیا تسلیم کرنا چاہئے؟
۶ جیہاں، ہماری خواہش ہے کہ اپنے مخالف ابلیس کی مرضی یا ناکامل انسانوں کی مرضی کی بجائے خدا کی مرضی بجا لانے کی تعلیم حاصل کریں۔ پس، داؤد کی طرح، ہم اُس خدا کو پہچانتے ہیں جسکی ہم پرستش اور خدمت کرتے ہیں: ”اسلئے کہ تُو میرا خدا ہے۔ تیری نیک رُوح مجھے راستی کے مُلک میں لے چلے۔“ (زبور ۱۴۳:۱۰) جھوٹے لوگوں سے رفاقت رکھنے کی خواہش کرنے کی بجائے، داؤد نے جہاں یہوواہ کی پرستش ہوتی تھی وہاں جانے کو ترجیح دی۔ (زبور ۲۶:۴-۶) اپنے قدموں کیلئے خدا کی روح کی ہدایت سے، داؤد صداقت کی راہوں پر چل سکتا تھا۔—زبور ۱۷:۵؛ ۲۳:۳۔
۷. خدا کی رُوح نے مسیحی کلیسیا پر کیسے اثر کِیا ہے؟
۷ بڑے داؤد، یسوع مسیح نے رسولوں کو یقین دلایا کہ رُوحاُلقدس اُنہیں تمام باتیں سکھائے گا اور جوکچھ اُس نے اُن سے کہا تھا وہ سب بھی اُنہیں یاد دلائیگا۔ (یوحنا ۱۴:۲۶) پنتِکُست سے لیکر، یہوواہ اپنے تحریری کلام میں چھپی ”خدا کی تہہ کی باتوں“ کو تدریجاً آشکارا کر رہا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۰-۱۳) یہ کام اُس نے ایک دیدنی ذریعے سے کِیا ہے جسے یسوع نے ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کا نام دیا ہے۔ یہ روحانی خوراک فراہم کرتا ہے جس پر پوری دُنیا میں خدا کے لوگوں کی کلیسیاؤں کیلئے تعلیمی پروگرام میں غوروفکر کِیا جاتا ہے۔—متی ۲۴:۴۵-۴۷۔
ہمارے اجلاسوں پر یہوواہ کی مرضی کی تعلیم دی جاتی ہے
۸. مینارِنگہبانی کے مطالعے میں حصہ لینا اتنا بیشبہا کیوں ہے؟
۸ مینارِنگہبانی کے ہفتہوار کلیسیائی مطالعے میں پیش کِیا جانے والا مواد اکثروبیشتر بائبل اصولوں کے اطلاق پر مبنی ہوتا ہے۔ یقیناً یہ زندگی کی فکروں پر قابو پانے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ دیگر اجلاسوں میں گہری روحانی سچائیوں یا بائبل پیشینگوئیوں پر غوروفکر کِیا جاتا ہے۔ ایسے مطالعوں کے دوران ہم نے کتنی تعلیم پائی ہے! بہتیرے ممالک میں ایسے اجلاسوں کیلئے کنگڈم ہال کھچاکھچ بھرے ہوتے ہیں۔ تاہم بعض ممالک میں اجلاسوں کی حاضری میں کمی واقع ہوئی ہے۔ آپ کے خیال میں ایسا کیوں واقع ہوا ہے؟ کیا بعض لوگ شاید اپنے دُنیاوی کام کو ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کیلئے“ باہم جمع ہونے کی راہ میں حائل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں؟ یا کیا بہت سا وقت تفریحی سرگرمیوں میں یا ٹیلیویژن دیکھنے میں صرف کر دیا جاتا ہے جس سے شیڈول اسقدر مصروف بن جاتا ہے کہ تمام اجلاسوں پر جانا مشکل ہو جاتا ہے؟ عبرانیوں ۱۰:۲۳-۲۵ کے الہامی حکم کو یاد کریں۔ ہم جس قدر ”اُس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے“ ہیں کیا اُسی قدر الہٰی ہدایت کیلئے باہم جمع ہونا اہم نہیں ہے؟
۹. (ا) خدمتی اجلاس ہمیں خدمتگزاری کے لئے کیسے لیس کر سکتا ہے؟ (ب) گواہی دینے کی بابت ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہئے؟
۹ ہماری اوّلین ذمہداریوں میں سے ایک خدا کے خادموں کے طور پر خدمت کرنا ہے۔ خدمتی اجلاس اسی مقصد کیلئے ترتیب دیا گیا ہے کہ ہم اس کام کو مؤثر طور پر کیسے سرانجام دے سکتے ہیں۔ ہم سیکھتے ہیں کہ لوگوں تک کیسے رسائی حاصل کریں، کیا کہیں، موافق جوابیعمل کی صورت میں کیسا ردِعمل دکھائیں اور پھر یہ بھی کہ جب لوگ ہمارے پیغام کو رد کر دیتے ہیں تو کیا کریں۔ (لوقا ۱۰:۱-۱۱) اس ہفتہوار اجلاس میں جب مؤثر طریقوں پر گفتگو کی جاتی ہے اور انکا مظاہرہ کِیا جاتا ہے تو ہم نہ صرف گھرباگھر کے کام میں بلکہ گلیکوچوں، گاڑیاں پارک کرنے کی جگہوں، عوامی سواری، ہوائی اڈوں، کاروباری جگہوں یا سکولوں میں لوگوں تک پہنچنے کے لئے اچھی طرح تیار ہو جاتے ہیں۔ اپنی اس درخواست کی مناسبت سے کہ ”مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں،“ ہم اُس کام کو سرانجام دینے کیلئے ہر موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہینگے جسکی ہمارے مالک نے تاکید کی تھی: ”تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ . . . تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔“—متی ۵:۱۶۔
۱۰. ہم درحقیقت ’مستحق اشخاص‘ کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟
۱۰ ایسے کلیسیائی اجلاسوں پر، ہم دوسرے لوگوں کو شاگرد بنانے کی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ جب ایک مرتبہ دلچسپی دکھائی جاتی ہے یا لٹریچر پیش ہو جاتا ہے تو واپسی ملاقاتیں کرتے وقت ہمارا مقصد گھریلو بائبل مطالعے شروع کرنا ہوتا ہے۔ ایک طرح سے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسےکہ شاگرد ’مستحق اشخاص کے پاس ٹھہرتے‘ تھے تاکہ اُنہیں اُن باتوں کی تعلیم دیں جنکا یسوع نے اُنہیں حکم دیا تھا۔ (متی ۱۰:۱۱؛ ۲۸:۱۹، ۲۰) علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے جیسی بہترین امدادی کُتب کیساتھ ہم واقعی پوری طرح اپنی خدمتگزاری انجام دینے کیلئے لیس ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۴:۵) ہر ہفتے جب آپ خدمتی اجلاس اور تھیوکریٹک سکول میں حاضر ہوتے ہیں تو ایسے مفید نکات کو سمجھنے اور پھر اُنہیں استعمال کرنے کی کوشش کریں جو آپ کو لائق خادم کے طور پر خدا کی مرضی بجا لانے والے کی طرح پورے طور پر قابلِقبول بنائینگے۔—۲-کرنتھیوں ۳:۳، ۵؛ ۴:۱، ۲۔
۱۱. بعض نے متی ۶:۳۳ میں پائے جانے والے الفاظ پر کیسے ایمان کا مظاہرہ کِیا ہے؟
۱۱ خدا کی مرضی یہ ہے کہ ”پہلے اُسکی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش“ کرتے رہیں۔ (متی ۶:۳۳) خود سے پوچھیں، ’اگر میری [یا میرے بیاہتا ساتھی] کی دُنیاوی ملازمت کے مطالبے اجلاسوں پر حاضر ہونے کی راہ میں حائل ہوں تو مَیں اس اصول کا اطلاق کیسے کرونگا؟‘ روحانی اعتبار سے پُختہ بہتیرے اشخاص اپنے آجروں کیساتھ اس معاملے پر گفتگو کرنے کیلئے قدم اُٹھائینگے۔ ایک کُلوقتی خادم بہن نے اپنے آجر کو بتایا کہ اُسے ہر ہفتے کلیسیائی اجلاسوں پر حاضر ہونے کیلئے چھٹی درکار ہے۔ اُس نے درخواست منظور کر لی۔ لیکن اجلاسوں پر کیا کچھ ہوتا ہے اُسکی بابت متجسس ہوکر اُس نے خود بھی جانے کی درخواست کی۔ وہاں اُس نے آنے والی ڈسٹرکٹ کنونشن کی بابت اعلان سنا۔ نتیجے کے طور پر، آجر نے سارا دن کنونشن پر صرف کرنے کا بندوبست بنایا۔ اس مثال سے آپ کیا سبق سیکھتے ہیں؟
خداپرست والدین سے یہوواہ کی مرضی کی تعلیم پاتے ہیں
۱۲. بچوں کو یہوواہ کی مرضی کی تعلیم دینے کیلئے مسیحی والدین کو صبر اور ثابتقدمی سے کیا کرنا چاہئے؟
۱۲ لیکن الہٰی مرضی بجا لانے کی تعلیم پانے کیلئے کلیسیائی اجلاس اور کنونشنیں واحد فراہمی نہیں ہیں۔ خداپرست والدین کو یہوواہ کی حمدوستائش کرنے اور اُسکی مرضی بجا لانے کیلئے اپنے بچوں کی تعلیموتربیت اور پرورش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (زبور ۱۴۸:۱۲، ۱۳؛ امثال ۲۲:۶، ۱۵) ایسا کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے ”بچوں“ کو اجلاسوں پر لائیں جہاں وہ ’سن اور سیکھ‘ سکتے ہیں، لیکن اُنہیں گھر پر پاک صحائف سے تعلیم دینے کی بابت کیا ہے؟ (استثنا ۳۱:۱۲؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۵) بہت سے خاندانوں نے فرضشناسی کیساتھ باقاعدہ خاندانی بائبل مطالعوں کے پروگراموں کا آغاز کِیا ہے مگر جلد ہی اُن سے کوتاہی برتی جاتی ہے۔ کیا آپ کو کبھی ایسا تجربہ ہوا ہے؟ کیا آپ یہ نتیجہ اخذ کرینگے کہ باقاعدہ مطالعے کی سفارش غیرموزوں ہے یا یہ کہ آپ کے خاندان کے حالات اسقدر مختلف ہیں کہ یہ آپ کے معاملے میں بےکار ہوگا؟ صورتحال خواہ کیسی بھی ہو، آپ والدین براہِمہربانی اگست ۱، ۱۹۹۵ کے دی واچ ٹاور میں ان مضامین پر نظرثانی کریں ”ہمارا انمول روحانی ورثہ“ اور ”مستقلمزاجی کے اجر۔“
۱۳. خاندان روزانہ کی آیت پر غور کرنے سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟
۱۳ خاندانوں کی حوصلہافزائی کی جاتی ہے کہ روزبروز کتابِمُقدس کی تحقیق کرنا میں سے روزانہ کی آیت پر غور کرنے کو اپنی عادت بنائیں۔ آیت پڑھنا اور تبصرہ کرنا اچھا ہے لیکن آیت پر باتچیت کرنا اور اسکا اطلاق کرنا زیادہ فائدہمند ہے۔ مثال کے طور پر، اگر افسیوں ۵:۱۵-۱۷ کا جائزہ لے رہے ہوں تو خاندان کے افراد اس بات پر استدلال کر سکتے ہیں کہ ذاتی مطالعے، کُلوقتی خدمت کی کسی بھی قسم اور دیگر تھیوکریٹک تفویضات کی دیکھبھال کرنے کیلئے کیسے ’وقت نکالیں۔‘ جیہاں، خاندان کا روزانہ کی آیت پر گفتگو کرنا ایک یا زیادہ افراد کو تحریک دے سکتا ہے کہ ”خداوند کی مرضی کو [پوری طرح سمجھیں] کہ کیا ہے۔“
۱۴. استثنا ۶:۶، ۷ کیا ظاہر کرتی ہے کہ والدین کو کس قسم کے اُستاد ہونا چاہئے اور یہ کیا تقاضا کرتا ہے؟
۱۴ والدین کو اپنے بچوں کے محنتی اساتذہ ہونا چاہئے۔ (استثنا ۶:۶، ۷) لیکن یہ محض اپنی اولاد کو لیکچر دینے یا دبا کر رکھنے کا معاملہ نہیں ہے۔ باپ اور ماں کو بھی سننے کی ضرورت ہے اس طرح وہ یہ جاننے کے قابل ہونگے کہ کس چیز کو بیان کرنے، واضح کرنے، مثال دیکر سمجھانے یا دہرانے کی ضرورت ہے۔ ایک مسیحی خاندان میں، والدین نے بچوں کی اس بات کیلئے حوصلہافزائی کرنے سے کُھلے رابطے کو فروغ دیا کہ ایسی چیزوں کی بابت سوالات پوچھیں جنہیں وہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں یا جو پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ یوں اُنہیں معلوم ہوا کہ نوعمر بیٹے کو یہ بات سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی تھی کہ یہوواہ کی کوئی ابتدا نہیں ہے۔ والدین واچ ٹاور سوسائٹی کی مطبوعات سے معلومات کو استعمال کرنے سے یہ دکھانے کے قابل ہوئے کہ وقت اور خلا کو غیرمختتم تسلیم کِیا گیا ہے۔ اس نے نقطے کو سمجھانے کا کام دیا اور اس سے اُنکا بیٹا مطمئن ہو گیا۔ اسلئے اپنے بچوں کے سوالات کا صحائف سے صاف طور پر جواب دینے کیلئے وقت نکالیں اور یہ دیکھنے میں اُنکی مدد کریں کہ خدا کی مرضی بجا لانے کی بابت سیکھنا نہایت اطمینانبخش ہو سکتا ہے۔ خدا کے لوگوں—پیروجوان—کو آجکل اَور کس چیز کی تعلیم دی جاتی ہے؟
محبت اور جنگ کیلئے تعلیمیافتہ
۱۵. ہماری برادرانہ محبت کے اخلاص کا امتحان کب ہو سکتا ہے؟
۱۵ یسوع کے نئے حکم کے مطابق، ہم ”آپس میں محبت کرنے کی خدا سے تعلیم پا چکے“ ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۹) جب حالات پُرسکون ہوں اور کوئی جھگڑا نہ ہو تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اپنے بھائیوں سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن اُس وقت کیا ہے جب ذاتی اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں یا ہم کسی دوسرے مسیحی کی باتوں یا کاموں کی وجہ سے آزردہ ہو جاتے ہیں؟ اس وقت ہماری محبت کے اخلاص کا امتحان ہو سکتا ہے۔ (مقابلہ کریں ۲-کرنتھیوں ۸:۸۔) ایسے حالات میں بائبل ہمیں کیا کرنے کی تعلیم دیتی ہے؟ ایک بات تو بھرپور انداز میں محبت کا اظہار کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ (۱-پطرس ۴:۸) اپنے ذاتی مفادات کے طالب ہونے، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر مشتعل ہونے یا کسی نقصان کا حساب رکھنے کی بجائے ہمیں محبت کو بہت سے گناہوں پر پردہ ڈالنے کا موقع دینے کیلئے کام کرنا چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۵) ہم جانتے ہیں کہ یہ خدا کی مرضی ہے کیونکہ اُسکا کلام یہی تعلیم دیتا ہے۔
۱۶. (ا) مسیحیوں کو کس قسم کی جنگ لڑنے کیلئے تعلیم دی گئی ہے؟ (ب) ہم کیسے لیس ہوتے ہیں؟
۱۶ اگرچہ بہتیرے سمجھتے ہیں کہ محبت اور جنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں مگر ہمیں مؤخرالذکر کی بابت تعلیم دی گئی ہے لیکن یہ جنگ کی ایک بہت ہی مختلف قسم ہے۔ داؤد نے تسلیم کِیا کہ اُسکا انحصار یہوواہ پر ہے، وہ اُسے سکھاتا ہے کہ کیسے جنگ لڑے گو اُسکے دَور میں اسکا مطلب اسرائیل کے دشمنوں کیخلاف حقیقی جنگ لڑنا تھا۔ (۱-سموئیل ۱۷:۴۵-۵۱؛ ۱۹:۸؛ ۱-سلاطین ۵:۳؛ زبور ۱۴۴:۱) آجکل ہماری جنگ کی بابت کیا ہے؟ ہمارے ہتھیار جسمانی نہیں ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۱۰:۴) ہماری لڑائی روحانی ہے جس کیلئے ہمیں روحانی ہتھیاروں سے لیس ہونے کی ضرورت ہے۔ (افسیوں ۶:۱۰-۱۳) اپنے کلام اور اپنی جمعشُدہ اُمت کے ذریعے، یہوواہ ہمیں ایک کامیاب روحانی جنگ لڑنے کی تعلیم دیتا ہے۔
۱۷. (ا) ہمیں گمراہ کرنے کیلئے ابلیس کونسی تدابیر استعمال کرتا ہے؟ (ب) ہمیں دانشمندی سے کس چیز سے گریز کرنا چاہئے؟
۱۷ ابلیس ہمیں پُرفریب، عیارانہ طریقوں سے غیرضروری معاملات میں اُلجھانے کی کوشش میں دُنیاوی عناصر، برگشتہ لوگوں اور سچائی کے دیگر مخالفین کو استعمال کرتا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۶:۳-۵، ۱۱؛ ططس ۳:۹-۱۱) یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ جانتا ہے کہ براہِراست، سامنے سے وار کرکے وہ ہم پر غالب نہیں آ سکتا اسلئے وہ ہمیں روحانی اقدار سے عاری اپنی شکایات اور احمقانہ اعتراضات کا اظہار کرنے پر مجبور کرکے ہم سے غلطی کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس ہوشیار سپاہیوں کی طرح، ہمیں ایسے خطرات کے مقابلے میں بھی ویسے ہی محتاط ہونا چاہئے جیسےکہ براہِراست حملے کی صورت میں ہوتے ہیں۔—۱-تیمتھیس ۱:۳، ۴۔
۱۸. آگے کو اپنے لئے نہ جینے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۱۸ ہم لوگوں کی خواہشات اور اقوام کی مرضی کو فروغ نہیں دیتے۔ یہوواہ نے ہمیں یسوع کے نمونے سے سکھایا ہے کہ ہم آئندہ کو اپنے لئے نہ جئیں بلکہ یسوع مسیح جیسے ذہنی رجحان سے مسلح رہیں اور خدا کی مرضی کیلئے جئیں۔ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۴، ۱۵) ماضی میں ہم نے بیشقیمت وقت ضائع کرتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ غیرمتوازن، اوباش زندگی بسر کی ہو۔ رنگرلیاں، شرابنوشی اور بداخلاقی اس بدکار دُنیا کا خاصہ ہیں۔ اب چونکہ ہم خدا کی مرضی بجا لانے کی تعلیم پا رہے ہیں تو کیا ہم اس خراب دُنیا سے جُدا ہونے کیلئے شکرگزار نہیں ہیں؟ پس آئیے آلودہ کرنے والے دُنیاوی کاموں میں ملوث ہونے سے بچنے کیلئے روحانی طور پر سخت جنگ لڑیں۔—۱-پطرس ۴:۱-۳۔
ہمارے فائدے کیلئے ہمیں تعلیم دینا
۱۹. یہوواہ کی مرضی کی تعلیم پانا اور پھر اُسے بجا لانا کیا فوائد لائیگا؟
۱۹ اس بات کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ یہوواہ کی مرضی بجا لانے کیلئے تعلیم پانا ہمیں بہت زیادہ فائدہ پہنچائے گا۔ قابلِفہم طور پر، ہمیں پوری توجہ دینے سے اپنا حصہ ادا کرنا چاہئے تاکہ ہم سیکھیں اور پھر اُن ہدایات کی پیروی کریں جو اُسکے بیٹے کے ذریعے نیز اُسکے کلام اور جمعشُدہ اُمت کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہیں۔ (یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸؛ عبرانیوں ۲:۱) جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم ان پُرآشوب ایّام میں ثابتقدم رہنے کیلئے تقویت پائینگے اور آنے والے طوفانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرینگے۔ (متی ۷:۲۴-۲۷) اب بھی ہم خدا کی مرضی بجا لانے سے اُسے خوش کرینگے اور اپنی دُعاؤں کا جواب حاصل کرنے کو یقینی بنائینگے۔ (یوحنا ۹:۳۱؛ ۱-یوحنا ۳:۲۲) اور ہمیں حقیقی خوشی کا تجربہ ہوگا۔—یوحنا ۱۳:۱۷۔
۲۰. جب آپ ۱۹۹۷ کے سال کے دوران سالانہ آیت پر نگاہ ڈالینگے تو کس بات پر غوروخوض کرنا اچھا ہوگا؟
۲۰ ۱۹۹۷ کے سال کے دوران، ہمیں اکثروبیشتر سالانہ آیت، زبور ۱۴۳:۱۰، پڑھنے اور اس پر غوروخوض کرنے کا موقع ملے گا جو کہتی ہے: ”مجھے سکھا کہ تیری مرضی پر چلوں۔“ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو آئیے بعض مواقع کو اُن فراہمیوں پر سوچبچار کرنے کیلئے استعمال کریں جو تعلیمیافتہ بننے کیلئے خدا نے ہمیں بخشی ہیں، جیسےکہ اُوپر بیان کِیا گیا ہے۔ پس ان الفاظ پر ایسی غوروفکر کو اس التجا کی مطابقت میں عمل کرنے کے لئے محرک کے طور پر استعمال کریں یہ جانتے ہوئے کہ ”جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہیگا۔“—۱-یوحنا ۲:۱۷۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻آجکل کون یہوواہ کی مرضی بجا لانے کی تعلیم پا رہے ہیں؟
◻۱۹۹۷ کے دوران زبور ۱۴۳:۱۰ کو ہم پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟
◻ہم یہوواہ کی مرضی بجا لانے کیلئے کیسے تعلیم پا رہے ہیں؟
◻اپنے بچوں کو تعلیم دینے میں مسیحی والدین سے کیا تقاضا کِیا جاتا ہے؟