”بغیر تمثیل کے وہ اُن سے کچھ نہ کہتا تھا“
”یہ سب باتیں یسوؔع نے بِھیڑ سے تمثیلوں میں کہیں اور بغیر تمثیل کے وہ اُن سے کچھ نہ کہتا تھا۔“ —متی ۱۳:۳۴۔
۱، ۲. (ا) مؤثر تمثیلیں اتنی آسانی سے کیوں نہیں بھولتیں؟ (ب) یسوع نے کس قسم کی تمثیلیں استعمال کیں اور اس سلسلے میں کونسے سوال پیدا ہوتے ہیں؟ (نیز فٹنوٹ دیکھیں۔)
کیا آپکو کوئی ایسی تمثیل یاد ہے جو آپ نے کئی سال پہلے عوامی تقریر میں سنی ہو؟ مؤثر تمثیلیں اتنی جلدی نہیں بھولتیں۔ ایک مصنف نے بیان کِیا کہ تمثیلیں ”کانوں کو آنکھیں بنا دیتی ہیں اور سامعین کو ذہنی تصاویر کیساتھ سوچنے کی آزادی بخشتی ہیں۔“ چونکہ ذہنی تصاویر سوچنے اور سمجھنے کیلئے اچھی ہوتی ہیں اسلئے تمثیلیں مختلف نظریات کو سمجھنا آسان بنا سکتی ہیں۔ تمثیلیں الفاظ میں جان ڈال دیتی ہیں اور ایسے اسباق سکھاتی ہیں جو ہمارے ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔
۲ اس دُنیا میں تمثیلوں کے استعمال کے سلسلے میں یسوع مسیح سے زیادہ ماہر اَور کوئی اُستاد نہیں ہوا۔ یسوع کی بہتیری تمثیلیں آج دو ہزار سال بعد بھی آسانی کیساتھ یاد رکھی جا سکتی ہیں۔a یسوع نے تعلیم دینے کے اِس خاص طریقے پر اتنا انحصار کیوں کِیا؟ نیز کس چیز نے اُسکی تمثیلوں کو اتنا مؤثر بنا دیا تھا؟
یسوع نے تمثیلوں سے تعلیم کیوں دی
۳. (ا) متی ۱۳:۳۴، ۳۵ کے مطابق، یسوع کے تمثیلیں استعمال کرنے کی ایک وجہ کیا ہے؟ (ب) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ یہوواہ اس طرزِتعلیم کی بہت قدر کرتا ہے؟
۳ بائبل یسوع کے تمثیلیں استعمال کرنے کی دو بنیادی وجوہات بیان کرتی ہے۔ اوّل، اُس کے ایسا کرنے سے پیشینگوئی پوری ہوئی۔ متی رسول نے لکھا: ”یہ سب باتیں یسوؔع نے بِھیڑ سے تمثیلوں میں کہیں اور بغیر تمثیل کے وہ اُن سے کچھ نہ کہتا تھا۔ تاکہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ مَیں تمثیلوں میں اپنا مُنہ کھولونگا۔“ (متی ۱۳:۳۴، ۳۵) متی نے جس نبی کا حوالہ دیا وہ زبور ۷۸:۲ لکھنے والا تھا۔ اِس زبورنویس نے خدا کی روح کے الہام سے یسوع کی پیدائش سے صدیوں پہلے یہ بات لکھی تھی۔ کیا یہ حیرتانگیز بات نہیں کہ سینکڑوں سال پہلے یہوواہ نے یہ عزم کر لیا تھا کہ اُس کا بیٹا تمثیلوں میں تعلیم دے گا؟ واقعی یہوواہ اس طرزِتعلیم کی بہت قدر کرتا ہے!
۴. یسوع نے تمثیلیں استعمال کرنے کی کیا وجہ بیان کی تھی؟
۴ دوم، یسوع نے خود بھی وضاحت کی کہ اُس نے اُن لوگوں کو علیٰحدہ کرنے کے لئے تمثیلیں استعمال کی تھیں جن کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ”بِھیڑ“ کو بیج بونے والے کی تمثیل سنانے کے بعد، اُس کے شاگردوں نے پوچھا: ”تُو اُن سے تمثیلوں میں کیوں باتیں کرتا ہے؟“ یسوع نے جواب دیا: ”تم کو آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر اُن کو نہیں دی گئی۔ مَیں اُن سے تمثیلوں میں اس لئے باتیں کرتا ہوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے اور نہیں سمجھتے۔ اور اُن کے حق میں یسعیاؔہ کی یہ پیشینگوئی پوری ہوتی ہے کہ تم کانوں سے سنو گے پر ہرگز نہ سمجھو گے۔ اور آنکھوں سے دیکھو گے پر ہرگز معلوم نہ کرو گے۔ کیونکہ اِس اُمت کے دل پر چربی چھا گئی ہے۔“—متی ۱۳:۲، ۱۰، ۱۱، ۱۳-۱۵؛ یسعیاہ ۶:۹، ۱۰۔
۵. یسوع کی تمثیلوں نے فروتن سامعین کو متکبر لوگوں سے کیسے علیٰحدہ کر دیا تھا؟
۵ یسوع کی تمثیلوں میں ایسی کونسی خاص بات تھی جس نے لوگوں کو علیٰحدہعلیٰحدہ کر دیا تھا؟ بعض معاملات میں، اُس کے سامعین کو اُس کی بات سمجھنے کے لئے تحقیق کرنی پڑتی تھی۔ فروتن اشخاص مزید معلومات کے لئے درخواست کرتے تھے۔ (متی ۱۳:۳۶؛ مرقس ۴:۳۴) لہٰذا، سچائی کے بھوکوں پر یسوع کی تمثیلوں نے سچائی آشکارا کی جبکہ متکبر لوگوں سے سچائی کو پوشیدہ رکھا۔ یسوع واقعی ماہر اُستاد تھا! آئیے اب چند ایسے عناصر پر غور کریں جن کی وجہ سے اُس کی تمثیلیں اتنی مؤثر ثابت ہوئی تھیں۔
تفصیلات کا انتخابی استعمال
۶-۸. (ا) یسوع کے پہلی صدی کے سامعین کس چیز سے مستفید نہیں ہو سکتے تھے؟ (ب) کونسی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ یسوع بڑی انتخابپسندی سے تفصیلات فراہم کرتا تھا؟
۶ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پہلی صدی کے اُن شاگردوں کو کیسا محسوس ہوتا ہوگا جنہوں نے یسوع سے براہِراست تعلیم پائی تھی؟ اُنہیں یسوع کی باتیں سننے کا شرف تو حاصل تھا مگر وہ اُسکی باتیں یاد دلانے کے سلسلے میں کسی تحریری ریکارڈ کی مدد حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اسکی بجائے اُنہیں یسوع کی باتیں اپنے دلودماغ میں رکھنی پڑتی تھیں۔ تمثیلوں کے ماہرانہ استعمال سے یسوع نے اُن کے لئے اپنی تعلیم کو یاد رکھنا آسان بنایا۔ کیسے؟
۷ یسوع بڑی انتخابپسندی سے تفصیلات استعمال کرتا تھا۔ جب مخصوص معلومات کسی کہانی سے خاص تعلق رکھتیں یا زور کیلئے ضروری ہوتیں تو وہ اُنہیں لازمی فراہم کرتا تھا۔ لہٰذا اُس نے درست طور پر بتایا کہ جب چرواہا ایک کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈنے جاتا ہے تو باقی کتنی رہ جاتی ہیں، مزدوروں نے تاکستان میں کتنے گھنٹے کام کِیا اور کتنے توڑے دئے گئے تھے۔—متی ۱۸:۱۲-۱۴؛ ۲۰:۱-۱۶؛ ۲۵:۱۴-۳۰۔
۸ اس کے ساتھ ہی ساتھ، یسوع غیرضروری تفصیلات کو چھوڑ بھی دیتا تھا جو تمثیلیں سمجھنے میں رکاوٹ بن سکتی تھیں۔ مثال کے طور پر، بیرحم نوکر کی تمثیل میں، کوئی ایسی تفصیل بیان نہیں کی گئی کہ اس نوکر پر ۶،۰۰،۰۰،۰۰۰ دینار کا قرض کیسے چڑھ گیا تھا۔ یسوع صرف معاف کرنے کی ضرورت کو اُجاگر کر رہا تھا۔ اہم بات یہ نہیں تھی کہ نوکر مقروض کیسے ہو گیا تھا بلکہ یہ کہ اُس کا قرض کیسے معاف کر دیا گیا مگر اُس نے دوسرے نوکر کے ساتھ ایسا سلوک نہ کِیا جس کا قرض اس سے بہت ہی کم تھا۔ (متی ۱۸:۲۳-۳۵) اسی طرح، مسرف بیٹے کی تمثیل میں یسوع نے یہ واضح نہیں کِیا تھا کہ چھوٹا بیٹا اچانک اپنے حصے کی جائیداد کا مطالبہ کیوں کرتا ہے اور پھر اُسے ضائع بھی کیوں کر دیتا ہے۔ لیکن یسوع نے یہ ضرور بتایا کہ جب اِس بیٹے کی دلی حالت بدل جاتی ہے اور وہ گھر واپس آتا ہے تو باپ کیسا محسوس کرتا ہے اور کیسا ردِعمل دکھاتا ہے۔ باپ کے ردِعمل کی بابت ایسی تفصیلات یسوع کے اِس نکتے کو واضح کرنے کے لئے ضروری تھیں کہ یہوواہ ”کثرت سے معاف“ کرتا ہے۔—یسعیاہ ۵۵:۷؛ لوقا ۱۵:۱۱-۳۲۔
۹، ۱۰. (ا) اپنی تمثیلوں میں کردارکشی کرتے ہوئے یسوع نے کس چیز پر توجہ مُرتکز کی؟ (ب) یسوع نے اپنے سامعین اور دیگر لوگوں کے لئے اپنی تمثیلیں یاد رکھنا کیسے آسان بنایا تھا؟
۹ یسوع اپنی تمثیلوں میں کردارکشی بھی بڑی عقلمندی سے کرتا تھا۔ کرداروں کی وضعقطع کی بابت تفصیلات فراہم کرنے کی بجائے یسوع اکثر اُن کے کاموں یا بیانکردہ واقعات کے لئے اُن کے ردِعمل پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ لہٰذا، نیک سامری کی شکلوصورت بیان کرنے کی بجائے یسوع نے نہایت اہم بات بیان کی کہ اُس سامری نے سڑک پر ادھمؤا پڑے ہوئے یہودی کی رحمدلی سے مدد کیسے کی تھی۔ یسوع نے ایسی تفصیلات فراہم کیں جو یہ سکھانے کے لئے ضروری تھیں کہ پڑوسی کے لئے محبت میں وہ لوگ بھی شامل ہونے چاہئیں جو ہماری نسل یا قوم کے نہیں ہیں۔—لوقا ۱۰:۲۹، ۳۳-۳۷۔
۱۰ احتیاط کے ساتھ تفصیلات فراہم کرنے سے یسوع کی تمثیلیں مختصر اور جامع تھیں۔ یوں اُس نے پہلی صدی کے سامعین—اور بعدازاں الہامی اناجیل کو پڑھنے والے بیشمار دیگر لوگوں—کے لئے اُنہیں اور اِن سے حاصل ہونے والے قابلِقدر اسباق کو یاد رکھنا آسان بنایا۔
روزمرّہ زندگی سے متعلق
۱۱. مثالوں سے واضح کریں کہ یسوع کی تمثیلوں سے ایسی چیزوں کا ذکر کیسے ملتا ہے جنکا اُس نے بِلاشُبہ گلیل میں پرورش کے دوران مشاہدہ کِیا ہوگا؟
۱۱ یسوع لوگوں کی زندگیوں سے تعلق رکھنے والی تمثیلیں پیش کرنے کا ماہر تھا۔ اُسکی بیشتر تمثیلوں میں ایسی چیزوں کا ذکر ملتا ہے جنکا بِلاشُبہ اُس نے گلیل میں پرورش کے دوران مشاہدہ کِیا تھا۔ ذرا اُسکی ابتدائی زندگی پر تھوڑی دیر کیلئے غور کریں۔ اُس نے کتنی مرتبہ اپنی ماں کو بچے ہوئے خمیر والے آٹے سے خمیری روٹی پکاتے اور اِسے مزید خمیر پیدا کرنے کیلئے استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہوگا؟ (متی ۱۳:۳۳) اُس نے کتنی مرتبہ ماہیگیروں کو گلیل کی جھیل کے صاف نیلگوں پانی میں اپنے جال ڈالتے ہوئے دیکھا ہوگا؟ (متی ۱۳:۴۷) اُس نے کتنی مرتبہ بازاروں میں بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا ہوگا؟ (متی ۱۱:۱۶) یسوع نے دیگر عام چیزوں—بیج بونا، خوشکُن شادی کی ضیافتوں اور دھوپ سے پکنے والے اناج کے کھیتوں—کا مشاہدہ بھی کِیا جو اُسکی تمثیلوں کا حصہ بنیں۔—متی ۱۳:۳-۸؛ ۲۵:۱-۱۲؛ مرقس ۴:۲۶-۲۹۔
۱۲، ۱۳. یسوع کی گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل مقامی حالتوں سے اُسکی واقفیت کا ثبوت کیسے پیش کرتی ہے؟
۱۲ پس، کچھ عجب نہیں کہ یسوع کی بیشتر تمثیلوں میں روزمرّہ زندگی کے حالات اور واقعات کی جھلک نظر آتی ہے۔ لہٰذا، اس طریقۂتعلیم کو استعمال کرنے کی اُس کی مہارت کو سمجھنے کے لئے اس بات پر غور کرنا مفید ہوگا کہ اُس کی باتوں کا یہودی سامعین کے لئے کیا مطلب تھا۔ آئیے دو مثالوں پر غور کریں۔
۱۳ اوّل، گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل میں، یسوع نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کِیا جس نے اپنے کھیت میں اچھا گیہوں بویا تھا لیکن ”دُشمن“ نے کھیت میں گھس کر کڑوے دانے بھی بو دئے۔ یسوع نے بالخصوص ایسے مخالفانہ کام کا انتخاب کیوں کِیا تھا؟ یاد رکھیں کہ اُس نے یہ تمثیل گلیل کی جھیل کے کنارے بیان کی تھی اور گلیلیوں کا بنیادی پیشہ بدیہی طور پر زراعت ہی تھا۔ ایک کسان کے لئے اس سے زیادہ نقصان کی بات اَور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی دُشمن چپکے سے اُس کے کھیت میں گھس کر کڑوے دانے ملا دے؟ اُس زمانے کے بعض دُنیاوی قوانین سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا حقیقت میں واقع ہوتا تھا۔ کیا یہ بات واضح نہیں کہ یسوع نے ایسی صورتحال کا استعمال کِیا جو اُس کے سامعین سمجھ سکتے تھے؟—متی ۱۳:۱، ۲، ۲۴-۳۰۔
۱۴. نیک سامری کی تمثیل میں، یہ بات کیوں نمایاں ہے کہ یسوع نے اپنی بات واضح کرنے کیلئے ”یرؔوشلیم سے یرؔیحو“ جانے والی سڑک کا ذکر کِیا؟
۱۴ دوم، نیک سامری کی تمثیل یاد کریں۔ یسوع نے یہ کہنا شروع کِیا: ”ایک آدمی یرؔوشلیم سے یرؔیحو کی طرف جا رہا تھا کہ ڈاکوؤں میں گِھر گیا۔ اُنہوں نے اُسکے کپڑے اُتار لئے اور مارا بھی اور ادھمؤا چھوڑ کر چلے گئے۔“ (لوقا ۱۰:۳۰) یسوع نے اپنی بات واضح کرنے کے لئے ”یرؔوشلیم سے یرؔیحو“ جانے والی سڑک کا ذکر کِیا۔ جب یسوع نے یہ تمثیل بیان کی تو وہ یہودیہ میں تھا جو یروشلیم سے زیادہ دُور نہیں ہے اسلئے اُسکے سامعین کو پتہ تھا کہ وہ کس سڑک کا ذکر کر رہا ہے۔ یہ سڑک تنہا مسافر کیلئے واقعی بہت خطرناک تھی۔ اس سنسان راستے میں ایسی بہت سی جگہیں تھیں جہاں ڈاکو تاک میں بیٹھے رہتے تھے۔
۱۵. نیک سامری کی تمثیل میں کاہن اور لاوی نے جس بےحسی کا مظاہرہ کِیا کوئی بھی بجا طور پر اُسکی توجیہ کیوں نہیں کر سکتا تھا؟
۱۵ ”یرؔوشلیم سے یرؔیحو“ جانے والی سڑک کا ذکر کرنے میں ایک اَور بات بھی قابلِغور ہے۔ کہانی کے مطابق، پہلے ایک کاہن اور پھر ایک لاوی بھی اسی سڑک سے گزرتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی اُس زخمی شخص کی مدد نہیں کرتا۔ (لوقا ۱۰:۳۱، ۳۲) کاہن یروشلیم کی ہیکل میں خدمت کرتے تھے اور لاوی اُنکے مددگار تھے۔ بہتیرے کاہنوں اور لاویوں کی جب ہیکل میں خدمت کی باری نہیں ہوتی تھی تو وہ یریحو میں رہتے تھے کیونکہ یریحو یروشلیم سے صرف ۱۴ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ لہٰذا، اُن کا اس راستے سے گزر ضرور ہوتا تھا۔ یہ بھی غور کریں کہ کاہن اور لاوی ”یرؔوشلیم سے“ جانے والی راہ سے گزر رہے تھے یعنی وہ ہیکل سے جا رہے تھے۔b لہٰذا کوئی بھی بجا طور پر انکی بےحسی کا جواز پیش کرنے کے لئے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ’اُنہوں نے اُس زخمی شخص سے اسلئے کنیکترائی تھی کہ وہ مُردہ دکھائی دیتا تھا جسے چھونے سے وہ عارضی طور پر ناپاک ہوکر ہیکل میں خدمت کرنے کے قابل نہ رہتے۔‘ (احبار ۲۱:۱؛ گنتی ۱۹:۱۱، ۱۶) کیا یہ بات واضح نہیں کہ یسوع کی تمثیل میں ایسی چیزیں شامل تھیں جن سے اُسکے سامعین واقف تھے؟
تخلیق سے متعلق
۱۶. یہ کوئی عجیب بات کیوں نہیں ہے کہ یسوع تخلیق کی بابت جامع علم رکھتا تھا؟
۱۶ یسوع کی بیشتر تمثیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پودوں، جانوروں اور موسم کی بابت بھی بہت کچھ جانتا تھا۔ (متی ۶:۲۶، ۲۸-۳۰؛ ۱۶:۲، ۳) اُس نے ایسا علم کہاں سے حاصل کِیا؟ گلیل میں پرورش کے دوران، اُس کے پاس یہوواہ کی تخلیق کا مشاہدہ کرنے کا کافی موقع تھا۔ سب سے بڑھکر، یسوع ”تمام مخلوقات سے پہلے مولود“ ہوا اور یہوواہ نے اُسے تمام چیزیں پیدا کرنے کیلئے ”ماہر کاریگر“ کے طور پر استعمال کِیا تھا۔ (کلسیوں ۱:۱۵، ۱۶؛ امثال ۸:۳۰، ۳۱) کیا یہ کوئی عجیب بات ہے کہ یسوع تخلیق کی بابت جامع علم رکھتا تھا؟ آئیے دیکھیں کہ وہ اپنی تعلیم میں اس علم کو کیسے مہارت سے استعمال کرتا ہے۔
۱۷، ۱۸. (ا) یوحنا ۱۰ باب میں درج یسوع کے الفاظ کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بھیڑوں کی عادات سے واقف تھا؟ (ب) بائبل میں بیانکردہ ملکوں کی زیارت کرنے والوں نے چرواہوں اور بھیڑوں میں کس رشتے کا مشاہدہ کِیا ہے؟
۱۷ یسوع کی تمثیلوں میں سے سب سے زیادہ جذباتانگیز تمثیل یوحنا ۱۰ باب میں درج ہے جہاں وہ اپنے پیروکاروں کیساتھ اپنے رشتے کو چرواہے اور بھیڑ کے رشتے سے تشبِیہ دیتا ہے۔ یسوع کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پالتو بھیڑوں کی عادات سے بخوبی واقف تھا۔ اُس نے ظاہر کِیا کہ بھیڑیں راہنمائی پسند کرتی ہیں اور اُسکے مطابق چلتی ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۲-۴) چرواہوں اور بھیڑوں کے لاثانی رشتے کو بائبل میں بیانکردہ علاقوں کی زیارت کرنے والوں نے بھی دیکھا ہے۔ تاہم ۱۹ ویں صدی میں، ایک ماہرِموجودات ایچ. بی. ٹرسٹرم نے بیان کِیا: ”ایک مرتبہ مَیں نے ایک چرواہے کو اپنے گلّے کیساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا۔ وہ بھاگنے کا بہانہ کرتا تھا مگر بھیڑیں اُسکے پیچھے بھاگ کر اُسے گھیر لیتی تھیں۔ . . . بالآخر ساری بھیڑیں اُسکے گرد دائرے کی صورت میں جمع ہوکر خوشی سے اُچھلنے کودنے لگیں۔“
۱۸ بھیڑیں اپنے چرواہے کے پیچھے کیوں چلتی ہیں؟ یسوع نے کہا: ”کیونکہ وہ اُسکی آواز پہچانتی ہیں۔“ (یوحنا ۱۰:۴) کیا بھیڑیں واقعی اپنے چرواہے کی آواز پہچانتی ہیں؟ ذاتی مشاہدے سے جارج اے. سمتھ نے اپنی کتاب دی ہسٹوریکل جیوگرافی آف دی ہولی لینڈ میں لکھا: ”بعضاوقات ہم دوپہر کے وقت یہودیہ کے کنوؤں کے پاس آرام کرتے ہیں جہاں تین یا چار چرواہے اپنے گلّوں کے ساتھ آتے ہیں۔ یہ گلّے آپس میں گھلمل جاتے ہیں اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ چرواہے دوبارہ اپنیاپنی بھیڑوں کو علیٰحدہ کیسے کرینگے۔ لیکن جب بھیڑیں پانی پینے اور کھیلنے کودنے سے فارغ ہو جاتی ہیں تو چرواہے ایک ایک کرکے وادی کی مختلف سمتوں میں چلے جاتے ہیں اور ہر کوئی اپنی مخصوص آواز نکالتا ہے اور پھر بھیڑیں اپنے اپنے چرواہے کے پاس چلی جاتی ہیں جس سے سارے گلّے جس ترتیب سے آئے تھے ویسے ہی واپس چلے جاتے ہیں۔“ یسوع کو اپنی بات واضح کرنے کیلئے اس سے بہتر تمثیل نہیں مِل سکتی تھی۔ اگر ہم اُسکی تعلیم کو پہچانیں اور اُس پر عمل کرتے ہوئے اُسکی پیشوائی میں چلیں تو ہم ”اچھے چرواہے“ کی مہربانہ اور مشفقانہ نگہداشت سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔—یوحنا ۱۰:۱۱۔
سامعین کیلئے عامفہم واقعات سے متعلق
۱۹. غلط نظریے کی تردید کرنے کے لئے یسوع نے ایک مقامی المناک واقعہ کو کیسے استعمال کِیا؟
۱۹ مؤثر تمثیلیں سبقآموز تجربات یا مثالوں پر بھی مشتمل ہو سکتی ہیں۔ ایک موقع پر، یسوع نے اس غلط نظریے کی تردید کے لئے حالیہ واقعہ کا ذکر کِیا کہ مصیبت اُنہی پر آتی ہے جو اس کے مستحق ہوتے ہیں۔ اُس نے کہا: ”کیا وہ اٹھارہ آدمی جن پر شیلوؔخ کا بُرج گِرا اور دب کر مر گئے تمہاری دانست میں یرؔوشلیم کے اَور سب رہنے والوں سے زیادہ قصوروار تھے؟“ (لوقا ۱۳:۴) یسوع نے تقدیر کے نظریے کی سخت مذمت کی۔ وہ ۱۸ آدمی کسی گناہ کے نتیجے میں الہٰی ناپسندیدگی کی وجہ سے نہیں مرے تھے۔ بلکہ اُن کی المناک موت وقت اور حادثے کا نتیجہ تھی۔ (واعظ ۹:۱۱) لہٰذا، اُس نے ایسے واقعہ کو استعمال کرنے سے جھوٹی تعلیم کو رد کر دیا جس سے اُس کے سامعین اچھی طرح واقف تھے۔
۲۰، ۲۱. (ا) فریسیوں نے یسوع کے شاگردوں پر تنقید کیوں کی تھی؟ (ب) اس بات کو ظاہر کرنے کیلئے یسوع نے کس صحیفائی سرگزشت کو استعمال کِیا کہ خدا نے سبت کے قانون کے سلسلے میں کبھی بھی غیرموزوں اور بےلوچ اطلاق پر اصرار نہیں کِیا تھا؟ (پ) اگلے مضمون میں کس بات پر گفتگو کی جائیگی؟
۲۰ اپنی تعلیم میں، یسوع نے صحائف سے بھی مثالیں دیں۔ یاد کریں کہ جب اُسکے شاگرد سبت کے دن پر بالیں توڑ کر کھا رہے تھے تو فریسیوں نے اُن پر تنقید کی۔ درحقیقت، شاگردوں نے خدا کی شریعت کو نہیں بلکہ فریسیوں کی اِس بےلوچ تشریح کی خلافورزی کی تھی کہ سبت کے دن کونسا کام روا نہیں ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کہ خدا سبت کے قانون کے سلسلے میں کبھی بھی ایسے غیرموزوں اور بےلوچ اطلاق پر اصرار نہیں کرتا یسوع نے ۱-سموئیل ۲۱:۳-۶ میں درج واقعہ کا ذکر کِیا۔ بھوک کے عالم میں داؤد اور اُسکے آدمیوں نے خیمۂاجتماع میں جاکر نذر کی روٹیاں کھا لیں جنہیں بدل دیا گیا تھا۔ پُرانی روٹیاں عموماً کاہنوں کے کھانے کیلئے محفوظ کر لی جاتی تھیں۔ تاہم، حالات کے تحت انہیں کھا لینے کی وجہ سے داؤد اور اُسکے آدمیوں کی مذمت نہیں کی گئی تھی۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ بائبل میں صرف یہی ایک واقعہ ملتا ہے جس میں پُرانی روٹیاں ایسے آدمیوں نے کھا لیں جو کاہن نہیں تھے۔ یسوع ایسی موزوں سرگزشت سے واقف تھا جو اُسکے یہودی سامعین کے علم میں بھی تھی۔—متی ۱۲:۱-۸۔
۲۱ واقعی، یسوع عظیم اُستاد تھا! اُسکی اہم سچائیوں کو سامعین کے دل میں جاگزین کرنے والے انداز میں پیش کرنے کی لاثانی صلاحیت پر ہمارا حیران ہونا بالکل بجا ہے۔ تاہم، اپنی تعلیم میں ہم اُسکی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟ اس پر اگلے مضمون میں گفتگو کی جائیگی۔
[فٹنوٹ]
a یسوع کی تمثیلیں، موازنوں، مثالوں، تشبیہات اور استعاروں پر مشتمل تھیں۔ وہ تمثیل استعمال کرنے کیلئے مشہور تھا جسکا مطلب ”ایک ایسی مختصر عموماً فرضی کہاوت یا بیان ہے جس سے کوئی اخلاقی یا روحانی سچائی عیاں ہوتی ہے۔“
b یروشلیم کی اُونچائی یریحو سے زیادہ تھی۔ اسلئے تمثیل کے مطابق، ”یرؔوشلیم سے یرؔیحو“ کو جاتے ہوئے سارا ڈھلوانی سفر کرنا پڑتا تھا۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• یسوع تمثیلوں میں تعلیم کیوں دیتا تھا؟
• کونسی مثال ثابت کرتی ہے کہ یسوع ایسی تمثیلیں استعمال کرتا تھا جن سے اُسکے پہلی صدی کے سامعین واقف تھے؟
• یسوع نے تمثیلیں استعمال کرنے کے سلسلے میں تخلیق کی بابت اپنے علم کو کیسے استعمال کِیا تھا؟
• یسوع نے ایسے واقعات کو کیسے استعمال کِیا جن سے اُسکے سامعین واقف تھے؟
[صفحہ ۱۵ پر تصویریں]
یسوع نے چند دینار کا قرض معاف نہ کرنے والے نوکر اور گھر سے اپنی ساری میراث لیکر چلے جانے والے مسرف بیٹے کو معاف کر دینے والے باپ کا ذکر کِیا
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
یسوع نے نیک سامری کی تمثیل سے کونسی بات سمجھائی تھی؟
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
کیا بھیڑیں واقعی اپنے چرواہے کی آواز پہچانتی اور اُسکے مطابق چلتی ہیں؟