نئے عہد کے ذریعے عظیم برکات
”[یسوع] . . . اُس عہد کا درمیانی ٹھہرا جو بہتر . . . ہے۔“—عبرانیوں ۸:۶۔
۱. عدن میں موعودہ ’عورت کی نسل‘ کون ثابت ہوا اور کیسے اُس کی ’ایڑی پر کاٹا‘ گیا تھا؟
آدم اور حوا کے گناہ کرنے کے بعد، یہوواہ نے حوا کو بہکانے والے شیطان کے خلاف یہ کہتے ہوئے سزا سنائی: ”مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُسکی ایڑی پر کاٹیگا۔“ (پیدایش ۳:۱۵) جب یسوع نے ۲۹ س.ع. میں دریائےیردن میں بپتسمہ لیا تو جس نسل کا عدن میں وعدہ کِیا گیا تھا وہ بالآخر ظاہر ہو گئی۔ سن ۳۳ میں دُکھ کی سولی پر اُسکی موت کے وقت، اُس قدیم پیشینگوئی کا ایک حصہ تکمیل کو پہنچا۔ شیطان نے نسل کی ’ایڑی پر کاٹ‘ لیا تھا۔
۲. یسوع کے اپنے الفاظ کے مطابق، اُسکی موت نوعِانسان کو کیسے فائدہ پہنچاتی ہے؟
۲ خوشی کی بات ہے کہ یہ زخم انتہائی تکلیفدہ ہونے کے باوجود مستقل نہیں تھا۔ یسوع کو ایک غیرفانی روح کے طور پر مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا اور وہ آسمان پر اپنے باپ کے پاس چلا گیا جہاں اُس نے ”بہتیروں کے بدلے فدیہ“ کے طور پر اپنے بہائے ہوئے خون کی قیمت کو پیش کِیا۔ پس، اُسکے اپنے الفاظ سچ ثابت ہوئے: ”ضرور ہے کہ ابنِآدم بھی اونچے پر چڑھایا جائے۔ تاکہ جو کوئی ایمان لائے اس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔ کیونکہ خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشدیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ (متی ۲۰:۲۸؛ یوحنا ۳:۱۴-۱۶؛ عبرانیوں ۹:۱۲-۱۴) نیا عہد یسوع کی پیشینگوئی کی تکمیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
نیا عہد
۳. سب سے پہلے نیا عہد کب عمل میں دکھائی دیا؟
۳ اپنی موت سے ذرا پہلے، یسوع نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ اُسکا بہایا ہوا خون ”[نئے] عہد کا خون“ تھا۔ (متی ۲۶:۲۸؛ لوقا ۲۲:۲۰) اُس کے آسمان پر چلے جانے کے دس دن بعد، نیا عہد اُس وقت کارفرما دکھائی دیا جب یروشلیم میں ایک بالاخانہ میں جمع ۱۲۰ شاگردوں پر رُوحاُلقدس نازل کی گئی تھی۔ (اعمال ۱:۱۵؛ ۲:۱-۴) ان ۱۲۰ شاگردوں کو نئے عہد میں لانے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ”پہلا“ عہد یعنی شریعتی عہد اب متروک ہو گیا تھا۔—عبرانیوں ۸:۱۳۔
۴. کیا پُرانا عہد ناکام ثابت ہوا تھا؟ وضاحت کریں۔
۴ کیا پُرانا عہد ناکام ثابت ہوا تھا؟ ہرگز نہیں۔ سچ ہے کہ اب اسکی جگہ کسی اَور کو دے دی گئی تھی اسلئے جسمانی اسرائیل اب خدا کی خاص قوم نہیں رہا تھا۔ (متی ۲۳:۳۸) لیکن یہ اسرائیل کی نافرمانی اور یہوواہ کے ممسوح کو ردّ کرنے کی وجہ سے تھا۔ (خروج ۱۹:۵؛ اعمال ۲:۲۲، ۲۳) تاہم، شریعت کی جگہ کسی اَور کو دئے جانے سے پہلے، اس نے بہت کچھ سرانجام دیا۔ کئی صدیوں تک یہ خدا تک رسائی کرنے اور جھوٹے مذہب سے تحفظ کا ذریعہ بنی رہی۔ اس میں نئے عہد کے پیشگی نظارے تھے اور اسکی مسلسل قربانیوں سے یہ ظاہر ہو گیا کہ انسان کو گناہ اور موت سے چھٹکارے کی اشد ضرورت ہے۔ واقعی، شریعت ”مسیح تک پہنچانے کو . . . اُستاد“ بنی۔ (گلتیوں ۳:۱۹، ۲۴؛ رومیوں ۳:۲۰؛ ۴:۱۵؛ ۵:۱۲؛ عبرانیوں ۱۰:۱، ۲) تاہم، نئے عہد کے ذریعے ہی ابرہام سے وعدہشُدہ برکت بھرپور انداز میں پایۂتکمیل کو پہنچے گی۔
قوموں نے ابرہام کی نسل کے وسیلے سے برکت پائی
۵، ۶. ابرہامی عہد کی بنیادی، روحانی تکمیل میں، ابرہام کی نسل کون ہے اور کس قوم نے پہلے اُسکے وسیلے سے برکت حاصل کی؟
۵ یہوواہ نے ابرہام سے وعدہ کِیا: ”تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائینگی۔“ (پیدایش ۲۲:۱۸) پُرانے عہد کے تحت، بہت سے حلیم پردیسیوں نے ابرہام کی قومی نسل، اسرائیل کیساتھ اپنی رفاقت سے برکت پائی تھی۔ تاہم، اسکی بنیادی روحانی تکمیل میں ابرہام کی نسل ایک کامل انسان تھا۔ پولس نے اسکی وضاحت کی جب اُس نے کہا: ”پس اؔبرہام اور اُس کی نسل سے وعدے کئے گئے وہ یہ نہیں کہتا کہ نسلوں سے جیسا بہتوں کے واسطے کہا جاتا ہے بلکہ جیسا ایک کے واسطے کہ تیری نسل کو اور وہ مسیح ہے۔“—گلتیوں ۳:۱۶۔
۶ جیہاں، یسوع ہی ابرہام کی نسل ہے اور اُسی کے وسیلہ سے قومیں جسمانی اسرائیل کیلئے ممکن کسی بھی چیز سے کہیں افضل برکت حاصل کرتی ہیں۔ یقیناً، اس برکت کو حاصل کرنے والی پہلی قوم خود اسرائیل ہی تھا۔ سن ۳۳ کے پنتِکُست کے فوراً بعد، پطرس رسول نے یہودیوں کے ایک گروہ سے کہا: ”تم نبیوں کی اولاد اور اُس عہد کے شریک ہو جو خدا نے تمہارے باپ دادا سے باندھا جب اؔبرہام سے کہا کہ تیری اولاد سے دُنیا کے سب گھرانے برکت پائینگے۔ خدا نے اپنے خادم کو اُٹھا کر پہلے تمہارے پاس بھیجا تاکہ تم میں سے ہر ایک کو اُسکی بدیوں سے ہٹا کر برکت دے۔“—اعمال ۳:۲۵، ۲۶۔
۷. کن قوموں نے یسوع، ابرہام کی نسل کے وسیلے سے برکت حاصل کی تھی؟
۷ جلد ہی یہ برکت سامریوں اور پھر غیرقوموں تک پہنچ گئی۔ (اعمال ۸:۱۴-۱۷؛ ۱۰:۳۴-۴۸) پولس نے ۵۰ اور ۵۲ س.ع. کے درمیان کسی وقت میں ایشیائےکوچک کے گلتیہ میں مسیحیوں کو لکھا: ”کتابِمُقدس نے پیشتر سے یہ جان کر کہ خدا غیرقوموں کو ایمان سے راستباز ٹھہرائیگا پہلے ہی سے اؔبرہام کو یہ خوشخبری سنا دی کہ تیرے باعث سب قومیں برکت پائینگی۔ پس جو ایمان والے ہیں وہ ایماندار اؔبرہام کے ساتھ برکت پاتے ہیں۔“ (گلتیوں ۳:۸، ۹؛ پیدایش ۱۲:۳) اگرچہ گلتیہ کے بہتیرے مسیحی ”غیرقوموں“ سے تھے، اُنہوں نے یسوع پر اپنے ایمان کے باعث برکت پائی۔ کس طرح؟
۸. پولس کے زمانہ کے مسیحیوں کیلئے ابرہام کی نسل کے وسیلے سے برکت حاصل کرنے میں کیا کچھ شامل تھا اور بالآخر کتنے ایسی برکت حاصل کرتے ہیں؟
۸ پولس نے کسی بھی پسمنظر سے تعلق رکھنے والے گلتیہ کے مسیحیوں کو بتایا: ”اگر تم مسیح کے ہو تو اؔبرہام کی نسل اور وعدہ کے مطابق وارث ہو۔“ (گلتیوں ۳:۲۹) گلتیہ کے اُن لوگوں کیلئے ابرہام کی نسل کے وسیلے سے برکت میں نئے عہد میں شریک ہونا اور یسوع کے ہممیراث، ابرہام کی نسل میں یسوع کے رفیق بننا بھی شامل تھا۔ ہم قدیم اسرائیل کی آبادی کی بابت نہیں جانتے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ ”سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند“ ہو گئے تھے۔ (۱-سلاطین ۴:۲۰) تاہم، ہم روحانی نسل میں یسوع کے رفقاء کی حتمی تعداد—۱،۴۴،۰۰۰—سے واقف ہیں۔ (مکاشفہ ۷:۴؛ ۱۴:۱) وہ ۱،۴۴،۰۰۰ نوعِانسان کے ”ہر ایک قبیلہ اور اہلِزبان اور اُمت اور قوم“ میں سے نکل آتے ہیں اور ابھی دوسروں کو ابرہامی عہد کی برکات پہنچانے کا بندوبست کرنے میں شریک ہوتے ہیں۔—مکاشفہ ۵:۹۔
پیشینگوئی تکمیل پاتی ہے
۹. نئے عہد میں شامل لوگ کیسے اپنے باطن میں یہوواہ کی شریعت رکھتے ہیں؟
۹ نئے عہد کی بابت پیشینگوئی کرتے ہوئے، یرمیاہ نے لکھا: ”یہ وہ عہد ہے جو مَیں اُن دِنوں کے بعد اؔسرائیل کے گھرانے سے باندھونگا۔ خداوند فرماتا ہے مَیں اپنی شریعت اُنکے باطن میں رکھونگا اور اُنکے دل پر اُسے لکھونگا۔“ (یرمیاہ ۳۱:۳۳) نئے عہد میں شامل لوگوں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ محبت سے یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں۔ (یوحنا ۱۳:۳۵؛ عبرانیوں ۱:۹) یہوواہ کی شریعت اُن کے دلوں پر لکھی ہے اور وہ گرمجوشی سے اُسکی مرضی پوری کرنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ سچ ہے کہ قدیم اسرائیل میں بعض وفادار اشخاص یہوواہ کی شریعت سے گہری محبت رکھتے تھے۔ (زبور ۱۱۹:۹۷) تاہم بہتیرے محبت نہیں رکھتے تھے۔ اسکے باوجود وہ قوم کا حصے رہے۔ کوئی بھی ایسا شخص جس کے دل پر خدا کی شریعت نہ لکھی ہو نئے عہد میں قائم نہیں رہ سکتا۔
۱۰، ۱۱. نئے عہد میں شامل لوگوں کیلئے یہوواہ کس طریقے سے ”اُنکا خدا“ بن جاتا ہے اور وہ کیسے اُسے جانینگے؟
۱۰ یہوواہ نے نئے عہد میں شامل لوگوں کے حق میں مزید فرمایا: ”مَیں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے۔“ (یرمیاہ ۳۱:۳۳) قدیم اسرائیل میں بہتیرے غیرقوموں کے معبودوں کی پرستش کِیا کرتے تھے لیکن پھربھی وہ اسرائیلی ہی تھے۔ نئے عہد کی بنیاد پر یہوواہ نے جسمانی اسرائیل کی جگہ روحانی قوم، ”خدا کے اؔسرائیل“ کو پیدا کِیا۔ (گلتیوں ۶:۱۶؛ متی ۲۱:۴۳؛ رومیوں ۹:۶-۸) تاہم، اگر ایک شخص یہوواہ اور اُس کی پرستش کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ کسی بھی صورت میں نئی روحانی قوم کا حصہ نہیں رہتا۔
۱۱ یہوواہ نے یہ بھی فرمایا: ”چھوٹے سے بڑے تک وہ سب مجھے جانینگے۔“ (یرمیاہ ۳۱:۳۴) اسرائیل میں بہتیروں نے یہوواہ کو نظرانداز کر دیا، درحقیقت یہ کہا: ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] سزاوجزا نہ دیگا۔“ (صفنیاہ ۱:۱۲) اگر کوئی شخص یہوواہ کو نظرانداز کرتا یا سچی پرستش کو آلودہ کرتا ہے تو وہ خدا کے اسرائیل کا حصہ نہیں رہتا۔ (متی ۶:۲۴؛ کلسیوں ۳:۵) روحانی اسرائیلی ”اپنے خدا کو پہچاننے والے“ لوگ ہیں۔ (دانیایل ۱۱:۳۲) وہ ’واحد خدائےبرحق اور یسوع مسیح کا علم حاصل‘ کرنے سے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ (یوحنا ۱۷:۳) یسوع کو جاننا خدا کی بابت اُن کے علم کو گہرا کرتا ہے کیونکہ یسوع ہی نے ایک منفرد انداز میں ”خدا کو . . . ظاہر کِیا۔“—یوحنا ۱:۱۸؛ ۱۴:۹-۱۱۔
۱۲، ۱۳. (ا) یہوواہ کس بنیاد پر نئے عہد میں شامل لوگوں کے گناہ معاف کرتا ہے؟ (ب) گناہوں کی معافی کے سلسلے میں، نیا عہد پُرانے عہد سے کیسے افضل ہے؟
۱۲ بالآخر، یہوواہ نے وعدہ فرمایا: ”مَیں اُنکی بدکرداری کو بخش دُونگا اور اُنکے گناہ کو یاد نہ کرونگا۔“ (یرمیاہ ۳۱:۳۴ب) موسوی شریعت میں سینکڑوں تحریری ضوابط تھے جنکی پابندی کرنے کا اسرائیلیوں سے تقاضا کِیا گیا تھا۔ (استثنا ۲۸:۱، ۲، ۱۵) شریعت کی خلافورزی کرنے والے تمام لوگ اپنے گناہوں کو ڈھانپنے کیلئے قربانیاں پیش کِیا کرتے تھے۔ (احبار ۴:۱-۷؛ ۱۶:۱-۳۱) بہتیرے یہودی یہ یقین کرنے لگے تھے کہ وہ شریعت کے مطابق اپنے کاموں سے راستباز ٹھہر سکتے ہیں۔ تاہم، مسیحی جانتے ہیں کہ وہ اپنے کاموں سے کبھی بھی راستبازی کما نہیں سکتے۔ وہ گناہ کرنے سے نہیں بچ سکتے۔ (رومیوں ۵:۱۲) نئے عہد کے تحت، خدا کے حضور راست حیثیت صرف یسوع کی قربانی کی بِنا پر ہی ممکن ہے۔ تاہم، ایسی حیثیت ایک بخشش، خدا کی طرف سے غیرمستحق فضل ہے۔ (رومیوں ۳:۲۰، ۲۳، ۲۴) یہوواہ اب بھی اپنے خادموں سے فرمانبرداری کا تقاضا کرتا ہے۔ پولس بیان کرتا ہے کہ نئے عہد میں شامل لوگ ”مسیح کی شریعت کے تابع“ ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۹:۲۱۔
۱۳ لہٰذا، مسیحیوں کیلئے بھی گناہ کی قربانی موجود ہے لیکن شریعتی عہد کے تحت پیش کی جانے والی قربانیوں سے کہیں زیادہ گرانقدر۔ پولس نے لکھا: ”ہر ایک کاہن [شریعتی عہد کے تحت] تو کھڑا ہو کر ہر روز عبادت کرتا ہے اور ایک ہی طرح کی قربانیاں باربار گذرانتا ہے جو ہرگز گناہوں کو دور نہیں کر سکتیں۔ لیکن [یسوع] ہمیشہ کے لئے گناہوں کے واسطے ایک ہی قربانی گذران کر خدا کی دہنی طرف جا بیٹھا۔“ (عبرانیوں ۱۰:۱۱، ۱۲) چونکہ نئے عہد میں مسیحی یسوع کی قربانی پر ایمان رکھتے ہیں اسلئے یہوواہ اُنہیں راستباز، گناہ سے پاک ٹھہراتا ہے اور یوں وہ اُسکے روحانی فرزندوں کے طور پر مسح ہونے کی حالت میں ہیں۔ (رومیوں ۵:۱؛ ۸:۳۳، ۳۴؛ عبرانیوں ۱۰:۱۴-۱۸) جب وہ انسانی ناکاملیت کی وجہ سے گناہ کرتے بھی ہیں تو وہ یہوواہ سے معافی مانگ سکتے ہیں اور یسوع کی قربانی کی بِنا پر یہوواہ اُنہیں معاف کرتا ہے۔ (۱-یوحنا ۲:۱، ۲) تاہم، اگر وہ قصداً گناہ کرنے کی روش اختیار کرتے ہیں تو وہ اپنی راست حیثیت اور نئے عہد میں شریک ہونے کا شرف کھو بیٹھتے ہیں۔—عبرانیوں ۲:۲، ۳؛ ۶:۴-۸؛ ۱۰؛۲۶-۳۱۔
پُرانا اور نیا عہد
۱۴. شریعتی عہد کے تحت؟ نئے عہد کے تحت کونسا ختنہ ضروری تھا؟
۱۴ پُرانے عہد میں مردوں کا ختنہ اس بات کی علامت میں کِیا جاتا تھا کہ وہ شریعت کے تابع ہیں۔ (احبار ۱۲:۲، ۳؛ گلتیوں ۵:۳) مسیحی کلیسیا کی ابتدا کے بعد، بعض نے محسوس کِیا کہ غیریہودی مسیحیوں کا بھی ختنہ کِیا جانا چاہئے۔ تاہم، یروشلیم میں رسولوں اور بزرگوں نے خدا کے کلام اور رُوحاُلقدس کی ہدایت سے یہ سمجھ لیا کہ یہ ضروری نہیں۔ (اعمال ۱۵:۱، ۵، ۲۸، ۲۹) چند سال بعد پولس نے کہا: ”وہ یہودی نہیں جو ظاہر کا ہے اور نہ وہ ختنہ ہے جو ظاہری اور جسمانی ہے۔ بلکہ یہودی وہی ہے جو باطن میں ہے اور ختنہ وہی ہے جو دل کا اور روحانی ہے نہ کہ لفظی۔“ (رومیوں ۲:۲۸، ۲۹) جسمانی اسرائیلیوں کیلئے بھی حقیقی ختنہ اب یہوواہ کی نظر میں کوئی روحانی وقعت نہیں رکھتا تھا۔ نئے عہد میں شامل لوگوں کیلئے جسم کا نہیں دل کا ختنہ ضروری ہے۔ اُنکی سوچ، خواہشات اور محرک کی ہر اُس بات کو دُور کِیا جانا چاہئے جو یہوواہ کی نظر میں ناپسندیدہ اور ناپاک ہے۔a بہتیرے آجکل اس طرح سے طرزِفکر کو بدل دینے کیلئے رُوحاُلقدس کی طاقت کی زندہ مثال ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۶:۹-۱۱؛ گلتیوں ۵:۲۲-۲۴؛ افسیوں ۴:۲۲-۲۴۔
۱۵. بادشاہتی حکمرانی کے لحاظ سے جسمانی اسرائیل اور خدا کے اسرائیل میں کیا مماثلت ہے؟
۱۵ شریعتی عہد کے انتظام میں، یہوواہ اسرائیل کا بادشاہ تھا اور وقت آنے پر وہ یروشلیم میں انسانی بادشاہوں کے ذریعے اپنی حاکمیت کو عمل میں لایا۔ (یسعیاہ ۳۳:۲۲) خدا کے اسرائیل یعنی روحانی اسرائیل کا بادشاہ بھی یہوواہ ہی ہے اور ۳۳ س.ع. سے وہ یسوع مسیح کے ذریعے حکمرانی کر رہا ہے جسے ”آسمان اور زمین کا کُل اختیار“ حاصل ہے۔ (متی ۲۸:۱۸؛ افسیوں ۱:۱۹-۲۳؛ کلسیوں ۱:۱۳، ۱۴) آجکل، خدا کا اسرائیل یسوع کو ۱۹۱۴ میں قائم ہونے والی خدا کی آسمانی بادشاہت کا بادشاہ تسلیم کرتا ہے۔ یسوع حزقیاہ، یوسیاہ اور قدیم اسرائیل کے دیگر وفادار بادشاہوں سے کہیں زیادہ بہتر بادشاہ ہے۔—عبرانیوں ۱:۸، ۹؛ مکاشفہ ۱۱:۱۵۔
۱۶. خدا کا اسرائیل کس قسم کی کہانت ہے؟
۱۶ اسرائیل محض ایک مملکت ہی نہیں تھا بلکہ اسکی ایک ممسوح کہانت بھی تھی۔ سن ۳۳ میں، خدا کے اسرائیل نے جسمانی اسرائیل کی جگہ لے لی اور یہوواہ کا ”خادم،“ اُسکا ”گواہ“ بن گیا۔ (یسعیاہ ۴۳:۱۰) اُس وقت سے یسعیاہ ۴۳:۲۱ اور خروج ۱۹:۵، ۶ میں درج اسرائیل کیلئے یہوواہ کے الفاظ کا اطلاق خدا کے روحانی اسرائیل پر ہونے لگا۔ خدا کی نئی روحانی قوم اب ’یہوواہ کی خوبیاں ظاہر‘ کرنے کی ذمہداری رکھنے والی ”برگزیدہ نسل۔ شاہی کاہنوں کا فرقہ۔ مُقدس قوم اور ایسی اُمت“ تھی جو ”خدا کی خاص ملکیت“ تھی۔ (۱-پطرس ۲:۹) خدا کے اسرائیل میں شامل تمام مردوزن اجتماعی کہانت کو تشکیل دیتے ہیں۔ (گلتیوں ۳:۲۸، ۲۹) ابرہام کی نسل کے ثانوی حصے کے طور پر، اب وہ کہتے ہیں: ”اَے قومو! اُسکے لوگوں کے ساتھ خوشی مناؤ۔“ (استثنا ۳۲:۴۳) روحانی اسرائیل کے وہ لوگ جو ابھی تک زمین پر زندہ ہیں ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کو تشکیل دیتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) صرف اُنہی کی رفاقت میں خدا کیلئے قابلِقبول پاک خدمت انجام دی جا سکتی ہے۔
خدا کی بادشاہت—آخری تکمیل
۱۷. نئے عہد میں شامل لوگوں کو کس پیدائش کا تجربہ ہوتا ہے؟
۱۷ اسرائیلی ۱۵۱۳ ق.س.ع. میں پیدا ہونے کے بعد اپنی پیدائش کے وقت ہی سے شریعتی عہد کے ماتحت ہو گئے تھے۔ وہ لوگ جنہیں یہوواہ نئے عہد میں قبول کر لیتا ہے اُنکی بھی پیدائش ہوتی ہے—اُن کے معاملے میں، ایک روحانی پیدائش۔ یسوع نے فریسی نیکدیمس سے اس بات کا ذکر کِیا جب اُس نے کہا: ”مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔“ (یوحنا ۳:۳) سن ۳۳ کے پنتِکُست پر ۱۲۰ شاگرد اس نئی پیدائش کا تجربہ کرنے والے پہلے ناکامل انسان تھے۔ نئے عہد کے تحت راستباز ٹھہرائے جانے پر، اُنہوں نے اپنی شاہی میراث کے ”بیعانہ“ کے طور پر روحالقدس حاصل کی۔ (افسیوں ۱:۱۴) وہ خدا کے لےپالک فرزند بننے کیلئے ”روح سے پیدا“ ہوئے تھے جس نے اُنہیں یسوع کے بھائی اور یوں ”مسیح کے ہممیراث“ بنا دیا۔ (یوحنا ۳:۶؛ رومیوں ۸:۱۶، ۱۷) اُن کے ”نئے سرے سے پیدا“ ہونے سے شاندار امکانات کی راہ کھل گئی۔
۱۸. نئے سرے سے پیدا ہونا نئے عہد میں شامل لوگوں کے لئے کن شاندار امکانات کی راہ کھول دیتا ہے؟
۱۸ نئے عہد کا درمیانی بنتے ہوئے، یسوع نے اپنے پیروکاروں کیساتھ ایک اَور عہد باندھا اور کہا: ”جیسے میرے باپ نے میرے لئے ایک بادشاہی مقرر کی ہے مَیں بھی تمہارے لئے مقرر کرتا ہوں۔“ (لوقا ۲۲:۲۹) یہ بادشاہتی عہد دانیایل ۷:۱۳، ۱۴، ۲۲، ۲۷ میں درج حیرتانگیز رویا کی تکمیل کیلئے راہ ہموار کرتا ہے۔ دانیایل نے ”ایک شخص آدمزاد کی مانند“ دیکھا جسے ”قدیمالایّام،“ یہوواہ خدا نے شاہی اختیار بخشا۔ پھر دانیایل نے دیکھا کہ ”مُقدس لوگ سلطنت کے مالک“ بن گئے۔ ”ایک شخص آدمزاد کی مانند“ یسوع مسیح ہے جس نے ۱۹۱۴ میں یہوواہ خدا سے آسمانی بادشاہت حاصل کی تھی۔ اُسکے روح سے مسحشُدہ شاگرد وہ ”مُقدس لوگ“ ہیں جو اُس کیساتھ اُس بادشاہت میں شریک ہوتے ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۲:۱۲) کیسے؟
۱۹، ۲۰. (ا) نئے عہد میں شامل لوگوں کے حق میں ابرہام کے ساتھ یہوواہ کے وعدوں کی کونسی آخری پُرشکوہ تکمیل ہو گی؟ (ب) کس سوال پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے؟
۱۹ اپنی موت کے بعد، یہ ممسوح اشخاص بھی آسمان میں بادشاہوں اور کاہنوں کی حیثیت سے اُس کے ساتھ خدمت کرنے کیلئے یسوع کی طرح غیرفانی روحانی مخلوقات کے طور پر مُردوں میں سے زندہ کئے جاتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۰-۵۳؛ مکاشفہ ۲۰:۴، ۶) کتنی شاندار اُمید! وہ صرف ملکِکنعان پر ہی نہیں بلکہ ”زمین پر بادشاہی کرتے ہیں۔“ (مکاشفہ ۵:۱۰) کیا وہ ’اپنے دشمنوں کے پھاٹکوں کے مالک‘ ہونگے؟ (پیدایش ۲۲:۱۷) جیہاں، جب وہ معاندانہ مزاج کی مالک مذہبی کسبی، بڑے بابل کی تباہی کو دیکھینگے اور جب یہ قیامتیافتہ ممسوح اشخاص ”لوہے کے عصا“ سے قوموں پر حکومت کرنے اور شیطان کے سر کو کچلنے میں یسوع کیساتھ شریک ہونگے تو وہ واقعی مالک ہونگے۔ یوں وہ پیدایش ۳:۱۵ کی پیشینگوئی کے آخری حصے کی تکمیل میں حصہ لینگے۔—مکاشفہ ۲:۲۶، ۲۷؛ ۱۷:۱۴؛ ۱۸:۲۰، ۲۱؛ رومیوں ۱۶:۲۰۔
۲۰ پھربھی، ہم پوچھ سکتے ہیں، کیا ابرہامی عہد اور نئے عہد میں صرف یہی ۱،۴۴،۰۰۰ وفادار اشخاص شامل ہیں؟ نہیں، دیگر لوگ جو براہِراست ان عہود میں شامل نہیں وہ بھی ان کے ذریعے برکت حاصل کرینگے جیساکہ اگلے مضمون میں دیکھا جائیگا۔
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ انسائٹ آن دی سکرپچرز، جِلد ۱، صفحہ ۴۷۰ کو دیکھیں۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
◻نیا عہد سب سے پہلے کب کارفرما دکھائی دیا؟
◻پُرانے عہد کے ذریعے کیا کچھ انجام پایا؟
◻اوّلین طور پر ابرہام کی نسل کون ہے اور کس ترتیب سے قوموں نے اس نسل کے وسیلے سے برکت پائی تھی؟
◻ابرہامی عہد اور نئے عہد کی ۱،۴۴،۰۰۰ کے حق میں آخری تکمیل کیا ہے؟
[صفحہ 25 پر تصویر]
گناہوں کی معافی پُرانے عہد کے ماتحت لوگوں کی نسبت نئے عہد کے ماتحت لوگوں کیلئے زیادہ گہرا مفہوم رکھتی ہے