”میرا جُوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا“
”میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔“—متی ۱۱:۲۹۔
۱، ۲. (ا) زندگی میں آپ نے کس چیز کا تجربہ کِیا ہے جو آپ کیلئے تازگی کا باعث بنتی ہے؟ (ب) یسوؔع کی وعدہکردہ تازگی کو حاصل کرنے کیلئے کسی شخص کو کیا کرنا لازم ہے؟
ایک گرم اور مرطوب دِن کے آخر پر ایک ٹھنڈا غسل یا ایک لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد رات بھر کی اچھی نیند—واہ، کسقدر تازگیبخش! ایسا ہی ہوتا ہے جب بھاری بوجھ اُٹھا لیا جاتا یا جب گناہ اور تقصیریں معاف کر دی جاتی ہیں۔ (امثال ۲۵:۲۵؛ اعمال ۳:۱۹) ایسے جاںفزا تجربات سے حاصل ہونے والی تازگی ہمیں پھر سے جوان بنا دیتی ہے اور ہم آگے بڑھنے کیلئے توانائی پاتے ہیں۔
۲ وہ سب جو بوجھ سے دبے ہوئے اور ماندہ محسوس کرتے ہیں وہ یسوؔع کے پاس آ سکتے ہیں کیونکہ اُس نے اُن سے اِسی—تازگی—کا وعدہ کِیا تھا۔ تاہم، ایسی تازگی پانے کیلئے جو اتنی پسندیدہ ہے، ایک ایسا کام ہے جسے کرنے کیلئے کسی شخص کو تیار رہنا چاہئے۔ ”میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو،“ یسوؔع نے کہا، ”تو تمہاری جانیں آرام پائینگی۔“ (متی ۱۱:۲۹) یہ جُوا کیا ہے؟ یہ تازگی کا باعث کیسے بنتا ہے؟
ایک ملائم جُوا
۳. (ا) بائبل وقتوں میں کس قِسم کے جُوئے استعمال ہوتے تھے؟ (ب) جُوئے سے کونسا علامتی مطلب لیا جاتا ہے؟
۳ ایک زرعی معاشرے میں رہتے ہوئے، یسوؔع اور اُسکے سامعین جُوئے سے بخوبی واقف تھے۔ بنیادی طور پر، جُوا لکڑی کا ایک لمبا شہتیر ہوتا ہے جو وزن کھینچنے والے جانوروں، عموماً بیلوں کی گردنوں پر پورا آنے کیلئے نچلی طرف سے دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے اور اُنہیں ہل، چھکڑا یا کوئی دوسرا بوجھ کھینچنے کیلئے اکٹھے جوتا جاتا ہے۔ (۱-سموئیل ۶:۷) انسانوں کیلئے بھی جُوئے استعمال ہوتے تھے۔ یہ سادہ سے شہتیر یا کھمبے ہوتے تھے جنہیں دونوں سروں پر بندھے ہوئے وزن کیساتھ کندھوں پر اُٹھایا جاتا تھا۔ اِن کی مدد سے، مزدور بہت بھاری بوجھ اُٹھانے کے قابل ہوتے تھے۔ (یرمیاہ ۲۷:۲؛ ۲۸:۱۰، ۱۳) بوجھوں اور مشقت کیساتھ اِسکے تعلق کے باعث، جُوئے کو بائبل میں اکثر تسلط اور قبضے کی علامت پیش کرنے کیلئے علامتی طور پر استعمال کِیا جاتا ہے۔—استثنا ۲۸:۴۸؛ ۱-سلاطین ۱۲:۴؛ اعمال ۱۵:۱۰۔
۴. جو جُوا یسوؔع اپنے پاس آنے والوں کو پیش کرتا ہے اُس سے کس چیز کو علامت دی گئی ہے؟
۴ پھر، وہ کونسا جُوا ہے جسے اپنے اُوپر اُٹھانے کی دعوت یسوؔع نے اُنہیں دی جو اُسکے پاس تازگی حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں؟ یاد کریں کہ اُس نے کہا تھا: ”میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔“ (متی ۱۱:۲۹) سیکھنے والا شاگرد ہوتا ہے۔ لہٰذا، یسوؔع کے جُوئے کو اختیار کرنے کا مطلب صرف اُسکے شاگرد بن جانا ہے۔ (فلپیوں ۴:۳) تاہم، یہ اُسکی تعلیمات کو محض ذہنی طور پر جاننے سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ اُنکے مطابق اعمال کا تقاضا کرتا ہے—وہ کام کرنا جو اُس نے کِیا اور اُسی طریقے سے زندگی بسر کرنا جیسے اُس نے کی۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۱؛ ۱-پطرس ۲:۲۱) یہ اُس کے اختیار کیلئے اور اُن لوگوں کیلئے رضامندانہ اطاعت کا تقاضا کرتا ہے جنہیں وہ اختیار سونپتا ہے۔ (افسیوں ۵:۲۱؛ عبرانیوں ۱۳:۱۷) اس سے مُراد مخصوصشُدہ اور بپتسمہیافتہ مسیحی بننا اور اُن تمام استحقاقات اور ذمہداریوں کو قبول کرنا ہے جو ایسی مخصوصیت کے ہمراہ آتی ہیں۔ یہی وہ جُوا ہے جو یسوؔع آرام اور تازگی کیلئے اپنے پاس آنے والے سب لوگوں کو پیش کرتا ہے۔ کیا آپ اِسے قبول کرنے کیلئے تیار ہیں؟—یوحنا ۸:۳۱، ۳۲۔
۵. یسوؔع کے جوئے کو اُٹھانا ایک تلخ تجربہ کیوں نہیں ہوگا؟
۵ جُوا اُٹھانے سے تازگی حاصل کرنا—کیا ان الفاظ میں تضاد نہیں ہے؟ دراصل ایسا نہیں ہے، کیونکہ یسوؔع نے کہا تھا کہ اُس کا جُوا ”ملائم“ ہے۔ اِس لفظ کا مطلب نرم، خوشگوار، مان جانے والا ہے۔ (متی ۱۱:۳۰؛ لوقا ۵:۳۹؛ رومیوں ۲:۴؛ ۱-پطرس ۲:۳) ایک پیشہور بڑھئی ہونے کے ناطے، بہت اغلب ہے کہ یسوؔع نے ہل اور جوئے بنائے ہوں، اور اُسے ضرور معلوم ہوگا کہ کیسے ایک جُوئے کو ٹھیک طرح سے بنایا جائے تاکہ جس قدر ممکن ہو آرام سے زیادہ سے زیادہ کام سرانجام دیا جا سکے۔ اُس نے شاید جُوؤں کو کپڑے یا چمڑے کا استر لگایا ہو۔ بہتیروں کو اِس طریقے سے بنایا جاتا ہے تاکہ وہ گردن کو بہت زیادہ چھیل نہ دیں یا اُس کیساتھ رگڑ نہ کھائیں۔ اِسی طرح سے، علامتی جُوا جو یسوؔع ہمیں پیش کرتا ہے ”ملائم“ ہے۔ اگرچہ اُسکے شاگرد بننے میں کچھ فرائض اور ذمہداریاں شامل ہیں، یہ کوئی سختگیر یا استبدانہ تجربہ نہیں ہے بلکہ تازگیبخش ہے۔ اُسکے آسمانی باپ، یہوؔواہ کے احکام بھی بار ڈالنے والے نہیں ہیں۔—استثنا ۳۰:۱۱؛ ۱-یوحنا ۵:۳۔
۶. غالباً یسوؔع کا کیا مطلب ہوگا جب اُس نے کہا: ”میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو“؟
۶ ایک اَور چیز ہے جو یسوؔع کے جُوئے کو ”ملائم“ یا اُٹھانے کو آسان بناتی ہے۔ جب اُس نے کہا: ”میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو،“ تو اُس کی مُراد دونوں باتوں میں سے ایک سے تھی۔ اگر اُس کے ذہن میں دوہرا جُوا ہوتا یعنی وہ جو بوجھ کھینچنے کے لئے دو وزن کھینچنے والے جانوروں کو باہم ملا دیتا ہے تو پھر وہ ہمیں اپنے ساتھ ایک ہی جُوئے تلے آ جانے کی دعوت دے رہا تھا۔ یہ کیا ہی بڑی برکت ہوگی—ہمارے بوجھ کو ہمارے ساتھ ملکر کھینچنے کے لئے یسوؔع کا ہمارے پہلو میں ہونا! دوسری جانب، اگر یسوؔع کے ذہن میں عام مزدوروں کے استعمال میں آنے والا جُوا ہوتا تو پھر وہ ہمیں ایسا ذریعہ پیش کر رہا تھا جس سے ہم جیسا بھی بوجھ اُٹھائیں اُسے آسان اور قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں، اُس کا جُوا حقیقی تازگی کا سرچشمہ ہے کیونکہ وہ ہمیں یقین دلاتا ہے: ”کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔“
۷، ۸. بعض لوگ جب دباؤ تلے محسوس کرتے ہیں تو وہ کونسی غلطی کرتے ہیں؟
۷ تو پھر، ہمیں کیا کرنا چاہئے اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ زندگی کے جن مسائل کا بوجھ ہم اُٹھا رہے ہیں وہ ناقابلِبرداشت بنتا جا رہا ہے اور یہ کہ ہم پر حد سے زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے؟ بعض غلطی سے یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ یسوؔع مسیح کے شاگرد ہونے کا جُوا نہایت سخت اور نہایت متقاضی ہے، حالانکہ یہ روزمرّہ زندگی کی فکریں ہیں جو اُن پر دباؤ ڈال رہی ہوتی ہیں۔ اِس حالت میں بعض اشخاص مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونا چھوڑ دیتے ہیں یا شاید وہ یہ محسوس کرتے ہوئے خدمتگزاری میں شرکت کرنا بند کر دیتے ہیں کہ اِس سے اُنہیں کچھ آرام ملیگا۔ تاہم، یہ ایک سنگین غلطی ہے۔
۸ ہم اِس کی قدر کرتے ہیں کہ جو جُوا یسوؔع پیش کرتا ہے وہ ”ملائم“ ہے۔ اگر ہم اِسے صحیح طرح سے نہیں اُٹھاتے تو یہ چھیل ڈالنے والا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں اپنے کندھوں پر رکھے ہوئے جُوئے کی گہری جانچ کرنی چاہئے۔ اگر کسی وجہ سے، جُوا خستہ حالت میں ہے یا ٹھیک طرح سے نہیں رکھا گیا تو اِسے استعمال کرنا نہ صرف ہماری طرف سے زیادہ کوشش کا تقاضا کرے گا بلکہ نتیجے کے طور پر کچھ درد کا باعث بھی ہوگا۔ باالفاظِدیگر، اگر تھیوکریٹک کارگزاریاں ہمیں ایک بار معلوم ہونے لگیں تو ہمیں یہ دیکھنے کے لئے جانچ کرنی چاہئے کہ آیا ہم اِنہیں صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ جو کچھ ہم کرتے ہیں اُسے کرنے کا ہمارا محرک کیا ہے؟ جب ہم اجلاسوں پر جاتے ہیں تو کیا ہم پوری طرح تیار ہوتے ہیں؟ جب ہم میدانی خدمتگزاری میں شرکت کرتے ہیں تو کیا ہم جسمانی اور ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں؟ کیا ہم کلیسیا میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک قریبی اور خوشگوار رشتے سے لطفاندوز ہوتے ہیں؟ اور سب سے بڑھکر، یہوؔواہ خدا اور اُس کے بیٹے، یسوؔع مسیح کے ساتھ ہمارا ذاتی رشتہ کیسا ہے؟
۹. مسیحی جُوئے کو کبھی بھی ایک ناقابلِبرداشت بوجھ کیوں نہیں ہونا چاہئے؟
۹ جب ہم یسوؔع کے پیشکردہ جُوئے کو پورے دل سے قبول کرتے ہیں اور اُسے صحیح طرح اُٹھانا سیکھتے ہیں تو پھر اِسکے لئے کبھی بھی ایک ناقابلِبرداشت بار دکھائی دینے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ دراصل، اگر ہم صورتحال کا تصور کر سکیں—یسوؔع کا ہمارے ساتھ ایک ہی جُوئے تلے ہونا—تو ہمارے لئے یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ درحقیقت کون زیادہ مقدار میں بار اُٹھا رہا ہے۔ یہ اپنی اسٹرالر (بچہ گاڑی) کے ہینڈل پر جھکے ہوئے ننھے بچے کی مانند ہے جو سوچتا ہے کہ وہ اِسے آگے دھکیل رہا ہے مگر حقیقت میں، بِلاشُبہ، یہ ماں یا باپ ہے جو ایسا کر رہا ہے۔ ایک پُرمحبت باپ کی طرح، یہوؔواہ ہماری حدود اور کمزوریوں سے خوب باخبر ہے اور وہ یسوؔع مسیح کے ذریعے ہماری ضروریات کیلئے جوابی کارروائی کرتا ہے۔ ”خدا اپنی دولت کے موافق جلال سے مسیح یسوؔع میں تمہاری ہر ایک اِحتیاج کو رفع کریگا،“ پولسؔ نے کہا۔—فلپیوں ۴:۱۹؛ مقابلہ کریں یسعیاہ ۶۵:۲۴۔
۱۰. جس شخص نے شاگردی کو سنجیدگی سے اپنایا اُسکا تجربہ کیا رہا ہے؟
۱۰ بہتیرے مخصوصشُدہ مسیحی ذاتی تجربے سے اِسکی قدر کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر، جینیؔ ہے جسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر مہینے ایک امدادی پائنیر کے طور پر خدمت کرنا اور محنت طلب دُنیاوی ملازمت پر پورا وقت کام کرنا اُسے بہت زیادہ دباؤ تلے لے آتا ہے۔ تاہم، وہ محسوس کرتی ہے کہ پائنیر خدمت واقعی اسکا توازن برقرار رکھنے میں اُسکی مدد کرتی ہے۔ بائبل سچائی سیکھنے میں لوگوں کی مدد کرنا اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اُنہیں اپنی زندگیاں بدلتے ہوئے دیکھنا—یہی بات ہے جو اُسکی مصروف زندگی میں اُسکے لئے بڑی خوشی لاتی ہے۔ وہ پورے دل سے اِس مثل کے الفاظ کیساتھ متفق ہے جو کہتی ہے: ”خداوند ہی کی برکت دولت بخشتی ہے اور وہ اُسکے ساتھ دُکھ نہیں ملاتا۔“—امثال ۱۰:۲۲۔
ایک ہلکا بوجھ
۱۱، ۱۲. یسوؔع کا کیا مطلب تھا جب اُس نے کہا: ”میرا بوجھ ہلکا ہے“؟
۱۱ ہمارے ساتھ ایک ”ملائم“ جوئے کا وعدہ کرنے کے علاوہ، یسوؔع ہمیں یقین دلاتا ہے: ”میرا بوجھ ہلکا“ ہے۔ ایک ”ملائم“ جُوا پہلے ہی کام کو آسانتر بنا دیتا ہے؛ اگر بوجھ بھی ہلکا کر دیا جائے تو پھر کام سچمچ ایک راحت بن جاتا ہے۔ تاہم، اِس بیان سے یسوؔع کے ذہن میں کونسی بات تھی؟
۱۲ غور کریں کہ جب ایک کسان اپنے جانوروں کیلئے کاموں کو بدلنا چاہتا ہے تو وہ کیا کریگا، مثلاً کھیت میں ہل چلانے سے بیل گاڑی کھینچنے تک۔ وہ پہلے ہل کو ہٹائے گا اور پھر بیل گاڑی جوتے گا۔ یہ بات اُسکے لئے نامعقول ہوگی کہ ہل اور بیل گاڑی دونوں کو جانوروں کے ساتھ باندھ دے۔ اسی طرح، یسوؔع لوگوں کو یہ نہیں بتا رہا تھا کہ جو بوجھ اُنہوں نے پہلے ہی سے اُٹھا رکھا ہے اُسی کے اُوپر اُسکا بوجھ بھی رکھ لیں۔ اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”کوئی نوکر دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا۔“ (لوقا ۱۶:۱۳) پس، یسوؔع لوگوں کو ایک انتخاب پیش کر رہا تھا۔ کیا وہ اُس بھاری بوجھ کو ہی اُٹھائے رہینگے جو اُن پر لدا ہوا تھا یا کہ وہ اُسے نیچے اُتار پھینکیں گے اور جو کچھ وہ پیش کر رہا تھا اُسے قبول کر لینگے؟ یسوؔع نے اُنہیں پُرمحبت محرک عطا کِیا: ”میرا بوجھ ہلکا“ ہے۔
۱۳. یسوؔع کے زمانہ میں لوگ کونسا بوجھ اُٹھا رہے تھے، اور کس نتیجے کیساتھ؟
۱۳ یسوؔع کے وقت میں، لوگ ظالم رومی حکمرانوں اور رسومات کے حامی، ریاکار مذہبی پیشواؤں کی طرف سے اُن پر لادے گئے بھاری بوجھ تلے نبردآزما تھے۔ (متی ۲۳:۲۳) رومی بوجھ کو اُتار پھینکنے کی کوشش میں، بعض لوگوں نے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی۔ وہ سیاسی سرگرمیوں میں اُلجھ گئے اور بس ایک بھیانک انجام کو پہنچے۔ (اعمال ۵:۳۶، ۳۷) دیگر نے مادہپرستانہ کوششوں میں بُری طرح اُلجھ جانے سے اپنی حالت کو بہتر بنانے کی ٹھان رکھی تھی۔ (متی ۱۹:۲۱، ۲۲؛ لوقا ۱۴:۱۸-۲۰) جب یسوؔع نے اُنہیں اپنے شاگرد بننے کی دعوت دینے سے اُنہیں تسکین پانے کی راہ کی پیشکش کی تو سب قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ وہ اُس بوجھ کو جو اُنہوں نے اُٹھایا ہوا تھا، اور بھاری ہونے کے باوجود، نیچے اُتارنے اور اُسکے بوجھ کو اُٹھا لینے کی بابت متذبذب تھے۔ (لوقا ۹:۵۹-۶۲) کیا ہی المناک غلطی!
۱۴. کسطرح زندگی کی فکریں اور مادی خواہشات ہمیں بوجھ تلے دبا سکتی ہیں؟
۱۴ اگر ہم محتاط نہیں تو ہم بھی آجکل ویسی ہی غلطی کر سکتے ہیں۔ یسوؔع کے شاگرد بن جانا ہمیں اُنہی منازل اور اقدار کی جستجو کرنے سے آزاد کرتا ہے جیساکہ دُنیا کے لوگ کرتے ہیں۔ اگرچہ پھر بھی ہمیں روزمرّہ کی ضروریات حاصل کرنے کیلئے سخت کام کرنا پڑتا ہے، ہم اِن چیزوں کو اپنی زندگی کا مرکز نہیں بناتے۔ تاہم، زندگی کی فکریں اور مادی آسائشوں کی کشش ہم پر زبردست گرفت رکھ سکتی ہیں۔ اگر ہم اسے اجازت دے دیتے ہیں تو ایسی خواہشات سچائی کا گلا گھونٹ سکتی ہیں جسے ہم نے بڑے شوق سے قبول کِیا تھا۔ (متی ۱۳:۲۲) ہم ایسی خواہشات کو پورا کرنے میں اسقدر مستغرق ہو سکتے ہیں کہ ہماری مسیحی ذمہداریاں تھکا دینے والے فرائض بن جاتی ہیں جنہیں ہم جلدی سے اور برائےنام ہی انجام دیتے ہیں۔ اگر خدا کیلئے ہماری خدمت ایسے جذبے کیساتھ کی جاتی ہے تو ہم یقیناً اس سے کسی بھی طرح کی تازگی حاصل ہونے کی توقع نہیں کر سکتے۔
۱۵. مادی خواہشات کے سلسلے میں یسوؔع نے کونسی آگاہی دی؟
۱۵ یسوؔع نے واضح کِیا کہ ایک اطمینانبخش زندگی اپنی تمام احتیاجوں کو رفع کرنے کی کوشش سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ زندگی میں زیادہ اہم چیزوں کا یقین کرنے سے ہوتی ہے۔ ”اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائینگے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کیا پہنینگے؟،“ اس نے فہمائش کی۔ ”کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھکر نہیں؟“ پھر اُس نے آسمان کے پرندوں کی طرف توجہ مبذول کرائی اور کہا: ”وہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ اُنکو کھلاتا ہے۔“ جنگلی سوسن کا حوالہ دیتے ہوئے، اُس نے کہا: ”وہ نہ محنت کرتے اور نہ کاتتے ہیں تو بھی مَیں تم سے کہتا ہوں کہ سلیماؔن بھی باوجود اپنی ساری شانوشوکت کے اُن میں سے کسی کی مانند مُلبّس نہ تھا۔“—متی ۶:۲۵-۲۹۔
۱۶. مادی حاصلات کے اثرات کے ضمن میں تجربے نے کیا ظاہر کِیا ہے؟
۱۶ کیا ہم اِن سادہ زندہ مثالوں سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ یہ عام تجربے کی بات ہے کہ جتنا زیادہ کوئی شخص زندگی میں اپنی معاشی حیثیت بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ دُنیاوی کاموں میں پھنس جاتا ہے اور اُسکے کندھوں پر بھاری بوجھ آ پڑتا ہے۔ دُنیا ایسے کاروباری لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی مادی کامرانیوں کی قیمت شکستہ خاندانوں، تباہحال شادیوں، خراب صحت اور دیگر بدتر صورتوں میں ادا کی ہے۔ (لوقا ۹:۲۵؛ ۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۰) نوبل پرائز یافتہ البرؔٹ آئنسٹائن نے ایک مرتبہ کہا: ”اثاثہجات، ظاہری کامرانی، شہرت، عیشوعشرت—میرے لئے یہ ہمیشہ ہی سے قابلِمذمت رہے ہیں۔ مَیں تو یہ مانتا ہوں کہ ہر ایک کیلئے زندگی کا ایک سادہ اور اعتدالپسند انداز ہی اچھا ہے۔“ یہ محض رسول پولسؔ کی سادہ سی نصیحت کی بازگشت ہے: ”دینداری قناعت کے ساتھ بڑے نفع کا ذریعہ ہے۔“—۱-تیمتھیس ۶:۶۔
۱۷. بائبل کس طرزِزندگی کا مشورہ دیتی ہے؟
۱۷ ایک اَور اہم عنصر ہے جسے ہمیں نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ اگرچہ ”زندگی کے ایک سادہ اور اعتدالپسند انداز“ کے بہت سے فوائد ہیں، لیکن صرف یہی نہیں ہے جو اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ بہتیرے ایسے لوگ ہیں جنکا طرزِزندگی حالات کی مجبوری کے باعث سادہ ہے، پھربھی وہ کسی طرح سے مطمئن یا خوش نہیں ہیں۔ بائبل ہمیں مادی چیزوں سے لطفاندوز ہونے سے دستبردار ہو جانے اور گوشہنشینی کی زندگی بسر کرنے کی تاکید نہیں کر رہی۔ زور خدائی عقیدت پر ہے، قناعت پر نہیں۔ جب ہم دونوں چیزوں کو یکجا کر دیتے ہیں تو پھر ہی یہ ہمارے ”بڑے نفع کا ذریعہ“ ہے۔ کونسا نفع؟ اِسی خط میں کچھ آگے جاکر پولسؔ واضح کرتا ہے کہ وہ لوگ جو ”ناپایدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر اُمید“ رکھتے ہیں وہ ”آئندہ کے لئے اپنے واسطے ایک اچھی بنیاد قائم“ کرینگے ”تاکہ حقیقی زندگی پر قبضہ کر“ لیں۔—۱-تیمتھیس ۶:۱۷-۱۹۔
۱۸. (ا) کوئی کیسے حقیقی تازگی حاصل کر سکتا ہے؟ (ب) جو تبدیلیاں ہمیں کرنی پڑ سکتی ہیں ہمیں اُنہیں کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱۸ اگر ہم اپنے ذاتی بھاری بوجھ کو اُتار ڈالیں جسے شاید ہم اُٹھائے ہوئے ہیں اور یسوؔع کے پیشکردہ ہلکے بوجھ کو اُٹھالیں تو ہمیں تازگی حاصل ہوگی۔ بہتیرے جنہوں نے اپنی زندگیوں کو ازسرِنو منظم کِیا ہے تاکہ وہ بادشاہتی خدمت میں پوری طرح زیادہ حصہ لے سکیں اُنہوں نے خوشی اور اطمینان کی زندگی کی راہ پا لی ہے۔ بِلاشُبہ، کسی شخص کو ایسا قدم اُٹھانے کیلئے ایمان اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، اور راہ میں رکاوٹیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن بائبل ہمیں یاد دلاتی ہے: ”جو ہوا کا رُخ دیکھتا ہے وہ بوتا نہیں اور جو بادلوں کو دیکھتا ہے وہ کاٹتا نہیں۔“ (واعظ ۱۱:۴) بہت سے کام جب ہم اپنے ذہنوں میں اُنہیں کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو وہ واقعی مشکل نہیں رہتے۔ ایسا لگتا ہے کہ مشکلترین حصہ، اپنے ذہنوں کو تیار کرنا ہی ہے۔ ہم شاید اِس خیال کا مقابلہ کرنے یا مزاحمت کرنے سے خود کو ہلکان کر لیں۔ اگر ہم اپنے ارادوں کو مضبوط اور چیلنج کو قبول کر لیں تو شاید ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں کہ یہ کتنا بابرکت ثابت ہوتا ہے۔ زبور نویس نے تاکید کی: ”آزما کر دیکھو کہ خداوند کیسا مہربان ہے۔“—زبور ۳۴:۸؛ ۱-پطرس ۱:۱۳۔
”تمہاری جانیں آرام پائینگی“
۱۹. (ا) جبکہ دُنیا کی حالتیں مسلسل بگڑتی چلی جاتی ہیں، ہم کس چیز کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ (ب) یسوؔع کے جُوئے تلے ہوتے ہوئے، ہمیں کس چیز کا یقین دلایا جاتا ہے؟
۱۹ رسول پولسؔ نے پہلی صدی کے شاگردوں کو یاد دلایا: ”ضرور ہے کہ ہم بہت مصیبتیں سہ کر خدا کی بادشاہی میں داخل ہوں۔“ (اعمال ۱۴:۲۲) یہ آج بھی سچ ہے۔ جیسے جیسے دُنیاوی حالتیں بگڑتی چلی جاتی ہیں، اُن لوگوں پر آنے والے دباؤ بھی مزید بھاری ہو جائینگے جو راستبازی اور خدائی عقیدت کی زندگی بسر کرنے پر اٹل ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۲؛ مکاشفہ ۱۳:۱۶، ۱۷) پھربھی، ہم پولسؔ کی طرح محسوس کرتے ہیں جب اُس نے کہا: ”ہم ہر طرف سے مصیبت تو اُٹھاتے ہیں لیکن لاچار نہیں ہوتے۔ حیران تو ہوتے ہیں مگر نااُمید نہیں ہوتے۔ ستائے تو جاتے ہیں مگر اکیلے نہیں چھوڑے جاتے۔ گِرائے تو جاتے ہیں لیکن ہلاک نہیں ہوتے۔“ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یسوؔع مسیح پر حد سے زیادہ قوت عطا کرنے کے لئے بھروسہ رکھتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۷-۹) پورے دل سے شاگردی کا جُوا قبول کرنے سے، ہم یسوؔع کے وعدہ کی تکمیل سے استفادہ کریں گے: ”تمہاری جانیں آرام پائینگی۔“—متی ۱۱:۲۹۔ (۱۷ ۸/۱۵ w۹۵)
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
▫ وہ ملائم جُوا کونسا ہے جسکی یسوؔع نے پیشکش کی؟
▫ اگر ہمیں محسوس ہو کہ ہمارا جُوا ایک بار بنتا جا رہا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
▫ یسوؔع کا کیا مطلب تھا جب اُس نے کہا: ”میرا بوجھ ہلکا ہے“؟
▫ ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ ہمارا بوجھ ہلکا رہتا ہے؟