ایک کامیاب شادی کیلئے کیا ضروری ہے؟
کیا آپ تیراکی سیکھے بغیر دریا میں غوطہ لگانے کا انتخاب کرینگے؟ ایسا احمقانہ فعل نقصاندہ حتیٰکہ جانلیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم غور کریں کہ بہتیرے لوگ یہ جانے بغیر ہی شادی کر لیتے ہیں کہ شادی سے متعلق ذمہداریوں سے کیسے نپٹا جا سکتا ہے۔
یسوع نے کہا: ”تم میں ایسا کون ہے کہ جب وہ ایک برج بنانا چاہے تو پہلے بیٹھ کر لاگت کا حساب نہ کر لے کہ آیا میرے پاس اس کے تیار کرنے کا سامان ہے یا نہیں؟“ (لوقا ۱۴:۲۸) جو بات ایک برج بنانے کے سلسلے میں درست ہے وہ ایک شادی کو کامیاب بنانے کے سلسلے میں بھی درست ہے۔ شادی کے خواہشمند اشخاص کو اس بات کا یقین کرنے کیلئے کہ آیا وہ شادی کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں، بڑی احتیاط کیساتھ لاگت کا حساب لگا لینا چاہئے۔
شادی کا ایک جائزہ
زندگی کے دُکھسکھ بانٹنے کے لئے ایک ساتھی کا ہونا واقعی ایک برکت ہے۔ شادی تنہائی اور مایوسی کے باعث پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکتی ہے۔ یہ محبت، رفاقت اور قریبی تعلق کے سلسلے میں ہماری فطری خواہش کو پورا کر سکتی ہے۔ معقول طور پر، خدا نے آدم کو خلق کرنے کے بعد فرمایا: ”آؔدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ مَیں اس کیلئے ایک مددگار اُسکی مانند بناؤنگا۔“—پیدایش ۲:۱۸؛ ۲۴:۶۷؛ ۱-کرنتھیوں ۷:۹۔
جیہاں، شادیشُدہ ہونا بعض مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ تاہم یہ بعض نئے مسائل بھی پیدا کریگا۔ کیوں؟ کیونکہ شادی دو ایسی مختلف شخصیات کا ملاپ ہے جو شاید مطابقتپذیر تو ہیں لیکن یکساں نہیں۔ چنانچہ انتہائی ہمآہنگی رکھنے والے جوڑوں کو بھی بعضاوقات اختلاف کا تجربہ ہوگا۔ مسیحی رسول پولس نے لکھا کہ جو شادی کرینگے وہ ”جسمانی تکلیف پائینگے“—یا جیساکہ دی نیو انگلش بائبل اس کا ترجمہ ”اس جسمانی زندگی میں دُکھدرد اور غم“ ہے۔—۱-کرنتھیوں ۷:۲۸۔
کیا پولس قنوطی تھا؟ ہرگز نہیں! وہ محض اُن سب کی حقیقتپسند بننے کیلئے حوصلہافزائی کر رہا تھا جو شادی کی بابت غوروفکر کر رہے تھے۔ کسی کیلئے مسرتآمیز کشش محسوس کرنا اس چیز کا جاننے کا درست پیمانہ نہیں کہ شادی کی تقریب کے بعد کے ماہوسال میں شادیشُدہ زندگی کیسی ہو گی۔ ہر شادی کے اپنے مخصوص چیلنج اور مسائل ہوتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ آیا مسائل پیدا ہونگے یا نہیں بلکہ یہ کہ جب مسائل پیدا ہوں تو اُنکا مقابلہ کیسے کِیا جائے۔
مسائل شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے لئے اپنی بےلوث محبت کے اظہار کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، گودی میں لنگرانداز ایک بحری جہاز شاید بہت شاندار دکھائی دے۔ تاہم اُسکی حقیقی بحری خوبی کا اندازہ تو سمندر میں—شاید طوفانی موجوں میں ہی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح شادی کے بندھن کی مضبوطی کا اندازہ صرف پُرسکون رومانوی لمحات سے نہیں لگایا جا سکتا۔ بعضاوقات اسکا اندازہ اُن مشکلترین حالات سے ہی لگایا جا سکتا ہے جن میں ایک جوڑا صبرآزما حالات کے طوفانوں سے گزرتا ہے۔
ایسا کرنے کیلئے جوڑے کو عہدوپیمان کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ خدا کا مقصد تھا کہ آدمی ”اپنی بیوی سے ملا رہیگا“ اور یہ کہ وہ دونوں ”ایک تن ہونگے۔“ (پیدایش ۲:۲۴) عہدوپیمان کا خیال آج بہتیروں کو خوفزدہ کر دیتا ہے۔ تاہم ایسا کرنا واقعی معقول ہے کیونکہ ایک دوسرے سے حقیقی محبت رکھنے والے دو اشخاص یقیناً ایک ساتھ رہنے کا سنجیدہ عہد کرنا چاہیں گے۔ عہدوپیمان شادی کے وقار کو بلند کرتا ہے۔ یہ اس یقین کیلئے بنیاد فراہم کرتا ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں، شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی حمایت کرینگے۔a اگر آپ ایسے عہدوپیمان کیلئے تیار نہیں ہیں تو آپ درحقیقت شادی کیلئے تیار نہیں ہیں۔ (مقابلہ کریں واعظ ۵:۴، ۵۔) ایسے لوگ جو پہلے سے شادیشُدہ ہیں اُنہیں بھی اس بات کیلئے قدردانی کو بڑھانے کی ضرورت ہے کہ پائیدار شادی کیلئے عہدوپیمان کتنا اہم ہے۔
اپنا جائزہ لینا
بِلاشُبہ آپ اُن خوبیوں کی فہرست بنا سکتے ہیں جو آپ اپنے ساتھی میں دیکھنا چاہیں گے۔ تاہم یہ جاننے کیلئے اپنا جائزہ لینا زیادہ مشکل ہے کہ آپ ایک شادی میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ شادی کے عہدوپیمان سے پہلے اور بعد میں ذاتی تجزیہ اہم ہے۔ مثلاً خود سے درجذیل سوالات پوچھیں۔
• کیا مَیں اپنے ساتھی کیساتھ زندگیبھر کیلئے عہدوپیمان کرنے کیلئے آمادہ ہوں؟—متی ۱۹:۶۔
بائبل کے نبی ملاکی کے دنوں میں بہت سے شوہروں نے غالباً جوان عورتوں سے شادی کرنے کے لئے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا تھا۔ یہوواہ نے فرمایا کہ اُس کا مذبح ان چھوڑی ہوئی بیویوں کے آنسوؤں سے بھرا تھا اور اُس نے اُن آدمیوں کی مذمت کی جنہوں نے اپنی بیویوں سے ”بیوفائی“ کی تھی۔—ملاکی ۲:۱۳-۱۶۔
• اگر مَیں شادی کرنے کی بابت سوچ رہا ہوں تو کیا مَیں جوانی کے اُس دَور سے گزر چکا ہوں جب جنسی خواہشات عروج پر ہوتی ہیں اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو مفلوج کر سکتی ہیں؟—۱-کرنتھیوں ۷:۳۶۔
”چھوٹی عمر میں شادی کرنا انتہائی خطرناک ہے،“ نکی بیان کرتی ہے جسکی شادی ۲۲ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ وہ آگاہ کرتی ہے: ”نوعمری سے لیکر ۲۰ کے دہے کے وسط یا آخری سالوں تک آپ کے احساسات، مقاصد اور احساسِجمال میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔“ یقیناً شادی کے لائق ہونے کا تعیّن صرف عمر کی بنیاد پر ہی نہیں کِیا جا سکتا ہے۔ انتہائی نوجوانی میں شادی کرنا جبکہ جنسی خواہشات نئی اور عروج پر ہوتی ہیں ایک شخص کی سوچ کو مفلوج کرتے ہوئے امکانی مسائل سے بےبہرہ بنا سکتا ہے۔
• مجھ میں کونسی ایسی خوبیاں ہیں جو ایک شادی کو کامیاب بنانے میں میری مدد کریں گی؟—گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳۔
پولس رسول نے کلسیوں کو لکھا: ”دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔“ (کلسیوں ۳:۱۲) یہ نصیحت اُن سب کیلئے موزوں ہے جو شادی کرنے کی بابت سوچ رہے ہیں یا جو پہلے ہی سے شادیشُدہ ہیں۔
• کیا مَیں اتنا پختہ ہوں کہ مشکل اوقات میں اپنے ساتھی کی حمایت کر سکوں؟—گلتیوں ۶:۲۔
”جب مسائل اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں“ ایک ڈاکٹر بیان کرتا ہے، ”تو ساتھی کو موردِالزام ٹھہرانے کا میلان ہوتا ہے۔“ زیادہ اہم یہ نہیں کہ الزام کسے دیا جانا چاہئے۔ اسکی بجائے شوہر اور بیوی اپنے ازدواجی تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے کیسے تعاون کر سکتے ہیں۔“ دانشمند بادشاہ سلیمان کے الفاظ کا اطلاق بیاہتا جوڑوں پر ہوتا ہے۔ اُس نے لکھا، ”ایک سے دو بہتر ہیں کیونکہ اگر وہ گریں تو ایک اپنے ساتھی کو اٹھائیگا لیکن اُس پر افسوس جو اکیلا ہے جب وہ گرتا ہے کیونکہ کوئی دوسرا نہیں جو اُسے اٹھا کھڑا کرے۔“—واعظ ۴:۹، ۱۰۔
• کیا مَیں عموماً خوشباش اور رجائیتپسند ہوں یا کیا مَیں بسااوقات افسردہخاطر اور منفی سوچ رکھتا ہوں؟—امثال ۱۵:۱۵۔
ایک منفی سوچ رکھنے والا شخص ہر دن کو ایک ہی جیسا بُرا خیال کرتا ہے۔ شادی معجزانہ طور پر اس رویے کو بدل نہیں سکتی! ایک کنوارا مرد یا کنواری عورت جو بہت زیادہ تنقیدی اور قنوطی ہے—شادیشُدہ شخص کے طور پر بھی اتنا ہی تنقیدی اور قنوطی ہوگا۔ ایسا منفی میلان شادی کو بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔—امثال ۲۱:۹۔
• کیا مَیں دباؤ کے تحت پُرسکون رہتا ہوں یا غصے سے بےقابو ہو جاتا ہوں؟—گلتیوں ۵:۱۹، ۲۰۔
مسیحیوں کو ”قہر کرنے میں دھیما“ ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ (یعقوب ۱:۱۹) شادی سے پہلے اور شادی کے بعد ایک مرد یا عورت کو اس نصیحت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے: ”غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔“—افسیوں ۴:۲۶۔
اپنے امکانی ساتھی کا ایک جائزہ
ایک بائبل مثل بیان کرتی ہے، ”ہوشیار آدمی اپنی روش کو دیکھتابھالتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۱۵) یہ بات بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرتے وقت بالخصوص سچ ہے۔ بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرنا کسی مرد یا عورت کی زندگی کے اہمترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔ تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرنے کی نسبت کوئی کار خریدنے یا کسی سکول میں داخلہ لینے کا فیصلہ کرنے کیلئے کہیں زیادہ وقت صرف کرتی ہے۔
مسیحی کلیسیا میں جنہیں ذمہداریاں سونپی جاتی ہیں وہ بھی ”لیاقت کے اعتبار سے پہلے آزمائے“ جاتے ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۳:۱۰، اینڈبلیو) اگر آپ شادی کرنے کی بابت سوچ رہے ہیں تو آپ دوسرے شخص کی ”لیاقت“ کی بابت یقین کر لینا چاہیں گے۔ مثال کے طور پر درجذیل سوالات پر غور کریں۔ اگرچہ یہ ایک خاتون کے نقطۂنظر سے پیش کئے جا رہے ہیں تاہم بہت سے اصولوں کا اطلاق مرد حضرات بھی کر سکتے ہیں۔ نیز پہلے سے شادیشُدہ اشخاص بھی ان نکات پر غور کرنے سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
• وہ کس قسم کی شہرت رکھتا ہے؟—فلپیوں ۲:۱۹-۲۲۔
امثال ۳۱:۲۳ ایک ایسے شوہر کی بابت بیان کرتی ہے جو ”پھاٹک میں مشہور ہے جب وہ ملک کے بزرگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے۔“ شہر کے معزز لوگ عدالت کیلئے شہر کے دروازوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ پس واضح طور پر وہ عوام کے اعتماد پر پورا اترتا تھا۔ کسی شخص کی بابت دوسرے لوگ جس قسم کا نقطۂنظر رکھتے ہیں اُس سے اُسکی شہرت کی عکاسی ہوتی ہے۔ اگر وہ صاحبِاختیار ہے تو اِس پر بھی غور کریں کہ اُسکے ماتحت اُسکی بابت کیا نظریہ رکھتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوگا کہ وقت آنے پر بطور بیاہتا ساتھی آپ اُسے کیسا خیال کریں گے۔—مقابلہ کریں ۱-سموئیل ۲۵:۳، ۲۳-۲۵۔
• وہ کس قسم کے اخلاقی معیار رکھتا ہے؟
خدائی حکمت ”اوّل تو . . .پاک ہوتی ہے۔“ (یعقوب ۳:۱۷) کیا آپ کا امکانی ساتھی یہوواہ کے حضور اپنی اور آپکی حیثیت سے زیادہ اپنی جنسی تسکین میں دلچسپی رکھتا ہے؟ اگر وہ اس وقت خدائی معیاروں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ شادی کے بعد ایسا کرے گا؟—پیدایش ۳۹:۷-۱۲۔
• وہ مجھ سے کیسا برتاؤ کرتا ہے؟—افسیوں ۵:۲۸، ۲۹۔
امثال کی کتاب ایک شوہر کی بابت بیان کرتی ہے جس کے ”دل کو“ اپنی بیوی پر ”اعتماد ہے۔“ مزیدبرآں وہ ”اُسکی تعریف کرتا ہے۔“ (امثال ۳۱:۱۱، ۲۸) وہ بیجا حسد نہیں کرتا اور نہ ہی نامعقول توقعات قائم کرتا ہے۔ یعقوب نے لکھا کہ اوپر سے آنے والی حکمت ”ملنسار، حلیم . . . رحم اور اچھے پھلوں سے لدی ہوئی“ ہوتی ہے۔—یعقوب ۳:۱۷۔
• وہ اپنے خاندان کے افراد سے کیسا برتاؤ کرتا ہے؟—خروج ۲۰:۱۲۔
والدین کیلئے احترام دکھانا صرف بچوں سے ایک تقاضا نہیں ہے۔ بائبل کہتی ہے: ”اپنے باپ کا جس سے تُو پیدا ہؤا ہے شنوا ہو اور اپنی ماں کو اُسکے بڑھاپے میں حقیر نہ جان۔“ (امثال ۲۳:۲۲) دلچسپی کی بات ہے کہ ڈاکٹر ڈبلیو. ہاؤ مسلڈن نے لکھا: ”کئی ایک ازدواجی مسائل اور ناموافقت سے گریز کِیا جا سکتا تھا—یا کمازکم اُن سے قبلازوقت آگاہی ہو جاتی—اگر متوقع دُلہا اور دُلہن ایک دوسرے کے گھر گئے ہوتے اور ’منگیتر‘ اور اُسکے والدین کے مابین تعلقات کا جائزہ لیا ہوتا۔ اپنے والدین کی بابت وہ جیسا نقطۂنظر رکھتا ہے وہ اس بات کی غمازی کرے گا کہ وہ اپنے شریکِحیات کی بابت کیسا محسوس کریگا۔ ایک شخص کو پوچھنا چاہئے: ’کیا مَیں چاہونگا کہ وہ میرے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسا وہ اپنے والدین کیساتھ کرتا ہے؟‘ نیز اُسکے والدین اُس سے جیسا سلوک روا رکھتے ہیں اُس سے ظاہر ہو گا کہ وہ خود سے کیسا برتاؤ کرے گا اور ہنیمون کے بعد آپ سے کیسے سلوک کی توقع کرے گا۔“
• کیا وہ غصے سے لالپیلا ہونے یا بیہودہگوئی کا میلان رکھتا ہے؟
بائبل نصیحت کرتی ہے: ”ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دور کی جائیں۔“ (افسیوں ۴:۳۱) پولس نے تیمتھیس کو چند مسیحیوں کی بابت آگاہ کِیا جنہیں ”بحث اور لفظی تکرار کرنے کا مرض ہے“ جو ”حسد اور جھگڑے اور بدگوئیاں اور بدگمانیاں“ پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔—۱-تیمتھیس ۶:۴، ۵۔
پولس نے مزید لکھا کہ کلیسیا میں خاص استحقاقات کے لائق ٹھہرنے والے شخص کو ”مارپیٹ کرنے“ والا نہیں ہونا چاہئے—اصلی یونانی متن کے مطابق، ”مکے چلانے والا“ نہ ہو۔ (۱-تیمتھیس ۳:۳) وہ لوگوں کو ہاتھ سے یا زبان سے تکلیف پہنچانے والا شخص نہیں ہو سکتا۔ ایسا شخص جو غصے کے عالم میں متشدّد بننے کا میلان رکھتا ہو، موزوں بیاہتا ساتھی نہیں ہے۔
• اُسکے نشانے کیا ہیں؟
بعض دولت کی جستجو کرتے ہیں اور اسکے ناگریز نتائج میں پھنس جاتے ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۰) دیگر کسی بھی نشانے کے بغیر بےمقصد زندگی گزارتے ہیں۔ (امثال ۶:۶-۱۱) تاہم اگر خداترس شخص ویسا ہی جذبہ دکھائے گا جیسا یشوع نے دکھایا جب اُس نے کہا: ”اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کی پرستش کرینگے۔“—یشوع ۲۴:۱۵۔
اجر اور ذمہداریاں
شادی ایک الہٰی انتظام ہے۔ یہوواہ خدا نے اسے رواج دیا۔ (پیدایش ۲:۲۲-۲۴) اُس نے مرد اور عورت کے درمیان دائمی بندھن قائم کرنے کی غرض سے شادی کے انتظام کو ترتیب دیا تاکہ وہ ایکدوسرے کیلئے مددگار ثابت ہو سکیں۔ جب بائبل کے اصولوں کا اطلاق کِیا جاتا ہے تو شوہر اور بیوی اپنی زندگی میں خوشیوں سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔—واعظ ۹:۷-۹۔
تاہم یہ تسلیم کِیا جانا چاہئے کہ ہم ”اخیر زمانہ“ میں رہ رہے ہیں۔ بائبل نے پیشینگوئی کی کہ ان ایّام میں، لوگ ”خودغرض، زردوست، شیخیباز، مغرور، . . . ناپاک، طبعی محبت سے خالی، دغاباز۔ گھمنڈ کرنے والے“ ہونگے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۴) یہ خصلتیں کسی شخص کی شادی کو بہت زیادہ متاثر کر سکتی ہیں۔ لہٰذا، شادی کا منصوبہ بنانے والے لوگوں کو سنجیدگی سے لاگت کا حساب لگا لینا چاہئے۔ نیز جو شادیشُدہ ہیں اُنہیں بائبل میں موجود الہٰی راہنمائی کو سیکھنے اور اسکا اطلاق کرنے سے اپنے بندھن کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں رہنا چاہئے۔
جیہاں، شادی کی بابت سوچبچار کرنے والے لوگ شادی کی تقریب سے آگے غور کر کے اچھا کریں گے۔ سب کو نہ صرف شادی کرنے بلکہ شادیشُدہ زندگی پر بھی غور کرنا چاہئے۔ راہنمائی کیلئے یہوواہ کی طرف رجوع کریں تاکہ آپ محض رومانوی طور پر سوچنے کی بجائے حقیقتپسندانہ طریقے سے سوچیں۔ ایسا کرنے سے آپ یقیناً ایک کامیاب شادی سے لطفاندوز ہونگے۔
[فٹنوٹ]
a بائبل طلاق اور دوبارہ شادی کے لئے صرف ایک ہی وجہ مہیا کرتی ہے اور وہ ”حرامکاری“—شادی سے باہر جنسی تعلقات ہے۔—متی ۱۹:۹۔
[صفحہ 5 پر بکس]
”محبت کی بہترین وضاحت جو مَیں نے کبھی پڑھی“
”آپ کیسے جانتے ہیں کہ آپ واقعی محبت میں گرفتار ہیں؟“ ماہرِنفسیات ڈاکٹر کیون لیمین لکھتا ہے۔ ”ایک قدیمترین کتاب ہے جس میں محبت کی وضاحت پائی جاتی ہے۔ یہ کتاب تقریباً دو ہزار سال پرانی ہے لیکن اس کے باوجود یہ محبت کی ایک بہترین وضاحت ہے جو مَیں نے کبھی پڑھی۔“
ڈاکٹر لیمین بائبل میں ۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۸ میں پائے جانے والے مسیحی رسول پولس کے الفاظ کا حوالہ دے رہا تھا:
”محبت صابر ہے اور مہربان۔ محبت حسد نہیں کرتی۔ محبت شیخی نہیں مارتی اور پھولتی نہیں۔ نازیبا کام نہیں کرتی۔ اپنی بہتیری نہیں چاہتی۔ جھنجھلاتی نہیں۔ بدگمانی نہیں کرتی۔ بدکاری سے خوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خوش ہوتی ہے۔ سب کچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کچھ یقین کرتی ہے سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔ محبت کو زوال نہیں۔“
[صفحہ 8 پر بکس]
جذبات پُرفریب ہو سکتے ہیں
بائبل وقتوں کی شولمیت لڑکی بدیہی طور پر رومانوی احساسات کی پُرفریب قوت سے بخوبی واقف تھی۔ جب طاقتور بادشاہ سلیمان نے اظہارِمحبت کِیا تو اُس نے اپنی سہیلیوں کو بتایا کہ ”تم میرے [اندر پیار] کو نہ جگاؤ نہ اُٹھاؤ جب تک کہ وہ اُٹھنا نہ چاہئے۔“ (غزلالغزلات ۲:۷) یہ عقلمند نوجوان خاتون نہیں چاہتی تھی کہ اس کی سہیلیاں اُس پر دباؤ ڈالیں مبادہ وہ اپنے جذبات سے مغلوب ہو جائے۔ یہ آجکل شادی کی بابت سوچبچار کرنے والوں کیلئے بھی عملی ہے۔ اپنے جذبات پر مضبوط گرفت رکھیں۔ اگر آپ شادی کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہونی چاہئے کہ آپ اُس شخص سے محبت کرتے ہیں، محض شادی کرنے کے نظریے کیساتھ نہیں۔
[صفحہ 6 پر تصویر]
کافی عرصے سے شادیشُدہ اشخاص بھی اپنے بیاہتا رشتے کو مضبوط کر سکتے ہیں
[صفحہ 7 پر تصویر]
وہ اپنے والدین کے ساتھ کیسے پیش آتا ہے؟