یہوواہ ایک متحمل خدا ہے
”[یہوواہ] خدایِرحیم مہربان اور قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی [ہے]۔“ —خروج ۳۴:۶۔
نوح کے زمانہ کے لوگوں، موسیٰ کی زیرِقیادت بیابان میں سفر کرنے والے اسرائیلیوں اور یسوع کے زمینی دَور کے یہودیوں کے حالاتِزندگی مختلف تھے۔ تاہم، یہ سب یہوواہ کی مہربانہ خوبی—تحمل—سے مستفید ہوئے۔ بعض لوگوں کی تو بقا اس پر منحصر تھی۔ ہماری بقا کا انحصار بھی یہوواہ کے تحمل پر ہے۔
۲ تحمل کیا ہے؟ یہوواہ اسے کب اور کیوں ظاہر کرتا ہے؟ عام تشریح کے مطابق ”تحمل“ سے مُراد ”خراب تعلقات کو بہتر بنانے کی اُمید کا دامن نہ چھوڑنے کے علاوہ غلط اور اشتعالانگیزی کو برداشت کرنا ہے۔“ پس اس خوبی کا ایک مقصد ہے۔ یہ بالخصوص ناگوار حالت پیدا کرنے والے شخص کی بھلائی کا خواہاں ہونے کی تحریک دیتی ہے۔ تاہم، متحمل ہونے کا مطلب غلطکاری کو نظرانداز کرنا نہیں ہے۔ جب تحمل کا مقصد پورا ہو جاتا ہے یا کسی حالت کو برداشت کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تو پھر تحمل کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے۔
۳ انسان بھی متحمل ہو سکتے ہیں مگر یہوواہ اس خوبی کی بہترین مثال ہے۔ جب سے گناہ کے باعث یہوواہ اور انسان کے رشتے میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے تب سے خالق نے صبروتحمل سے کام لیا ہے اور ایک ذریعہ بھی فراہم کِیا ہے جس سے تائب انسان اُس کے ساتھ اپنے رشتے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ (۲-پطرس ۳:۹؛ ۱-یوحنا ۴:۱۰) تاہم، جب خدا کے تحمل کا مقصد پورا ہو جائے گا تو وہ قصداً گناہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے موجودہ بدکار نظام کا خاتمہ کر دے گا۔—۲-پطرس ۳:۷۔
خدا کی بنیادی صفات سے ہمآہنگ
۴ عبرانی صحائف میں تحمل کا خیال پیش کرنے کے لئے دو عبرانی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جنکا لغوی مفہوم ”نتھنوں کی لمبائی“ ہے اور ریوائزڈ ورشن میں ان کا ترجمہ ”قہر کرنے میں دھیما“ کِیا گیا ہے۔a خدا کے تحمل کی بابت ناحوم نبی نے بیان کِیا: ”[یہوواہ] قہر کرنے میں دھیما اور قدرت میں بڑھ کر ہے اور مجرم کو ہرگز بری نہ کریگا۔“ (ناحوم ۱:۳) لہٰذا، یہوواہ کا تحمل نہ تو کمزوری کی علامت ہے اور نہ ہی لامحدود ہے۔ قادرِمطلق خدا کا بیکوقت قہر کرنے میں دھیما اور قدرت میں بڑھکر ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اُس کا تحمل بامقصد ضبط کا نتیجہ ہے۔ وہ سزا دینے کی طاقت تو رکھتا ہے مگر وہ ارادتاً فوری طور پر ایسا نہیں کرتا تاکہ گنہگار کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا موقع مل سکے۔ (حزقیایل ۱۸:۳۱، ۳۲) پس، یہوواہ کا تحمل اُس کی محبت اور طاقت کے استعمال میں اُس کی حکمت کا اظہار ہے۔
۵ یہوواہ کا تحمل اُس کے انصاف اور راستی سے بھی ہمآہنگ ہے۔ اُس نے خود کو موسیٰ پر ”خدایِرحیم مہربان اور قہر کرنے مَیں دھیما [”متحمل،“ کنگ جیمز ورشن] اور شفقت اور وفا میں غنی“ کے طور پر ظاہر کِیا تھا۔ (خروج ۳۴:۶) سالوں بعد موسیٰ نے یہوواہ کی حمد میں گیت گایا: ”اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔“ (استثنا ۳۲:۴) جیہاں، یہوواہ کا رحم، تحمل، انصاف اور راستی ہمآہنگی کے ساتھ اُس کی حسبِمنشا نتائج پیدا کرتے ہیں۔
طوفان سے پہلے یہوواہ کا تحمل
۶ عدن میں آدم اور حوا کی بغاوت نے اُن کے پُرمحبت خدا یہوواہ کے ساتھ اُن کے بیشقیمت رشتے کو ہمیشہ کے لئے توڑ دیا۔ (پیدایش ۳:۸-۱۳، ۲۳، ۲۴) اس علیٰحدگی نے اُن کی اولاد کو بھی متاثر کِیا جنہوں نے گناہ، ناکاملیت اور موت ورثے میں پائی۔ (رومیوں ۵:۱۷-۱۹) اگرچہ پہلے انسانی جوڑے نے قصداً گناہ کِیا تھا توبھی یہوواہ نے انہیں اولاد پیدا کرنے کی اجازت دے دی۔ بعدازاں، اُس نے پُرمحبت طریقے سے وہ ذریعہ بھی فراہم کِیا جس سے آدم اور حوا کی اولاد کا اُس کے ساتھ دوبارہ میلملاپ ہو سکتا تھا۔ (یوحنا ۳:۱۶، ۳۶) پولس رسول نے وضاحت کی: ”خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مؤا۔ پس جب ہم اُس کے خون کے باعث اب راستباز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضبالہٰی سے ضرور ہی بچینگے۔ کیونکہ جب باوجود دشمن ہونے کے خدا سے اُس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہو گیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچینگے۔“—رومیوں ۵:۸-۱۰۔
۷ یہوواہ نے نوح کے زمانے میں تحمل کا مظاہرہ کِیا۔ طوفان سے تقریباً ایک صدی پہلے ”خدا نے زمین پر نظر کی اور دیکھا کہ وہ ناراست ہو گئی ہے کیونکہ ہر بشر نے زمین پر اپنا طریقہ بگاڑ لیا تھا۔“ (پیدایش ۶:۱۲) اس کے باوجود ایک محدود وقت کے لئے یہوواہ نے نسلِانسانی کے لئے تحمل ظاہر کِیا۔ اُس نے کہا: ”میری رُوح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی کیونکہ وہ بھی تو بشر ہے تو بھی اُس کی عمر ایک سو بیس برس کی ہوگی۔“ (پیدایش ۶:۳) اُن ۱۲۰ برسوں میں ایماندار نوح کو اپنا خاندان بڑھانے، خدا کے حکم کے مطابق کشتی بنانے اور اپنے ہمعصروں کو آنے والے طوفان کی بابت آگاہی دینے کا وقت ملا۔ پطرس رسول نے لکھا: ”خدا نوؔح کے وقت میں تحمل کرکے ٹھہرا رہا تھا اور وہ کشتی تیار ہو رہی تھی جس پر سوار ہو کر تھوڑے سے آدمی یعنی آٹھ جانیں پانی کے وسیلہ سے بچیں۔“ (۱-پطرس ۳:۲۰) سچ ہے کہ نوح کے خاندان کے علاوہ کسی نے بھی اُس کی منادی پر ”دھیان نہ دیا۔“ (متی ۲۴:۳۸، ۳۹، اینڈبلیو) تاہم، نوح کو کشتی بنانے اور ”راستبازی کے منادی کرنے والے“ کے طور پر خدمت انجام دینے کے لئے استعمال کرنے سے یہوواہ نے نوح کے ہمعصروں کو اپنی بُری روش سے توبہ کرکے اپنی خدمت کی طرف مائل ہونے کا کافی موقع عطا کِیا تھا۔ (۲-پطرس ۲:۵؛ عبرانیوں ۱۱:۷) آخرکار، اُس بدکار نسل کو بجا طور پر ختم کر دیا۔
اسرائیل کیلئے مثالی تحمل
۸ یہوواہ نے اسرائیل کے لئے ۱۲۰ سال سے زیادہ عرصہ تک تحمل ظاہر کِیا۔ خدا کی برگزیدہ قوم کے طور پر اسرائیلیوں کی ۱،۵۰۰ سے زائد سالوں پر مشتمل تاریخ میں ایسی بہت کم مثالیں ملتی ہیں جب اُنہوں نے خدا کے تحمل کی انتہا کو نہ آزمایا ہو۔ مصر سے معجزانہ مخلصی کے کچھ ہی ہفتوں بعد وہ اپنے نجاتدہندہ کے لئے بڑی بےادبی ظاہر کرتے ہوئے بُتپرستی میں پڑ گئے۔ (خروج ۳۲:۴؛ زبور ۱۰۶:۲۱) آئندہ دہوں میں، اسرائیلیوں نے اُس خوراک کی بابت شکایت کی جو یہوواہ نے بیابان میں معجزانہ طور پر اُن کے لئے فراہم کی، موسیٰ اور ہارون کے خلاف بڑبڑائے، یہوواہ کے خلاف باتیں کیں اور غیرقوم لوگوں کے ساتھ زناکاری کے علاوہ بعل کی پرستش میں بھی ملوث ہو گئے۔ (گنتی ۱۱:۴-۶؛ ۱۴:۲-۴؛ ۲۱:۵؛ ۲۵:۱-۳؛ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۶-۱۱) یہوواہ جائز طور پر اپنے لوگوں کو نیست کر سکتا تھا مگر وہ ان کے ساتھ تحمل سے پیش آیا۔—گنتی ۱۴:۱۱-۲۱۔
۹ قاضیوں کے زمانہ میں اسرائیلی بارہا بُتپرستی میں پڑ گئے۔ جب بھی اُنہوں نے ایسا کِیا تو یہوواہ نے انہیں اُن کے دشمنوں کے حوالے کر دیا۔ تاہم، جب اُنہوں نے تائب ہو کر مدد کے لئے اُس سے درخواست کی تو اُس نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہیں چھڑانے کے لئے قاضی برپا کئے۔ (قضاۃ ۲:۱۷، ۱۸) شہنشاہیت کے طویل دَور کے دوران بہت کم بادشاہوں نے یہوواہ کے لئے بِلاشرکتِغیرے عقیدت کا مظاہرہ کِیا۔ نیز وفادار بادشاہوں کے ایّام میں بھی لوگوں نے اکثر سچی اور جھوٹی پرستش کے مابین فرق کو مٹا ڈالا۔ جب یہوواہ نے اس بیوفائی کے خلاف خبردار کرنے کے لئے نبی بھیجے تو لوگوں نے عموماً بدکار کاہنوں اور جھوٹے نبیوں کی باتوں پر عمل کرنے کو ترجیح دی۔ (یرمیاہ ۵:۳۱؛ ۲۵:۴-۷) واقعی، اسرائیلیوں نے یہوواہ کے وفادار نبیوں کو اذیت دی اور بعض کو قتل بھی کر دیا۔ (۲-تواریخ ۲۴:۲۰، ۲۱؛ اعمال ۷:۵۱، ۵۲) اس کے باوجود یہوواہ تحمل ظاہر کرتا رہا۔—۲-تواریخ ۳۶:۱۵۔
یہوواہ کا تحمل ختم نہیں ہوتا
۱۰ تاہم، تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ خدا کے تحمل کی ایک حد ہے۔ اُس نے ۷۴۰ ق.س.ع. میں اسوریوں کو اسرائیلیوں کی دس قبائلی سلطنت کو شکست دینے اور اس کے لوگوں کو اسیر کر کے لے جانے کی اجازت دے دی۔ (۲-سلاطین ۱۷:۵، ۶) نیز، اگلی صدی کے اختتام پر اس نے بابلیوں کو یہوداہ کی دو قبائلی سلطنت فتح کرنے اور یروشلیم کو اُس کی ہیکل سمیت تباہ کرنے کی اجازت دی۔—۲-تواریخ ۳۶:۱۶-۱۹۔
۱۱ تاہم، اسرائیل اور یہوداہ کے خلاف اپنی عدالتی کارروائی کے دوران بھی یہوواہ نے اپنے تحمل کو فراموش نہیں کِیا تھا۔ اپنے نبی یرمیاہ کے ذریعے یہوواہ نے اپنی برگزیدہ قوم کی بحالی کی پیشینگوئی کی۔ اُس نے کہا: ”جب بابلؔ میں ستر برس گذر چکیں گے تو مَیں تم کو یاد فرماؤں گا اور تم کو اِس مکان میں واپس لانے سے اپنے نیک قول کو پورا کروں گا۔ . . . اور مَیں تم کو مل جاؤں گا . . . اور [مَیں] تم کو اُن سب قوموں سے اور سب جگہوں سے جن میں مَیں نے تم کو ہانک دیا ہے جمع کراؤں گا۔“—یرمیاہ ۲۹:۱۰، ۱۴۔
۱۲ اسیر یہودیوں کا ایک بقیہ واقعی یہوداہ واپس آیا اور یروشلیم میں دوبارہ ہیکل تعمیر کرکے یہوواہ کی سچی پرستش بحال کی۔ یہوواہ کے مقاصد کی تکمیل میں یہ بقیہ ’یہوواہ کی طرف سے اوس‘ کی مانند ثابت ہوا جو تازگی اور خوشحالی کا باعث بنتی ہے۔ انہیں ’جنگل کے جانوروں میں شیرببر‘ کی طرح بہادر اور طاقتور بھی ثابت ہونا تھا۔ (میکاہ ۵:۷، ۸) اس کی تکمیل اُس وقت ہوئی ہوگی جب مکابیوں کے دَور میں یہودیوں نے مکابی خاندان کے تحت اپنے دشمنوں کو ملکِموعود سے نکال باہر کِیا اور ہیکل کی دوبارہ تقدیس کی جسے ناپاک کِیا گیا تھا۔ پس، اس ملک اور ہیکل کی حفاظت کی گئی تاکہ ایک اَور وفادار بقیہ وہاں مسیحا کے طور پر آنے والے خدا کے بیٹے کو خوشی سے قبول کرنے کے قابل ہو۔—دانیایل ۹:۲۵؛ لوقا ۱:۱۳-۱۷، ۶۷-۷۹؛ ۳:۱۵، ۲۱، ۲۲۔
۱۳ یہودیوں نے حالانکہ اُس کے بیٹے کو ہلاک کر دیا تھا توبھی یہوواہ نے ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ تک اُن کے لئے تحمل ظاہر کرتے ہوئے انہیں ابرہام کی روحانی نسل کا حصہ بننے کا منفرد موقع عطا کِیا۔ (دانیایل ۹:۲۷)b بعض یہودیوں نے ۳۶ س.ع. سے پہلے اور اس کے بعد یہ دعوت قبول کی اور یوں جیساکہ پولس نے بعدازاں بیان کِیا، ”فضل سے برگزیدہ ہونے کے باعث کچھ باقی ہیں۔“—رومیوں ۱۱:۵۔
۱۴ اُن لوگوں کو پہلی بار ۳۶ س.ع. میں ابرہام کی روحانی نسل کا حصہ بننے کا شرف عطا کِیا گیا جو نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نومرید۔ اس دعوت کے لئے جوابیعمل ظاہر کرنے والے تمام لوگوں نے یہوواہ کے فضل اور تحمل کا تجربہ کِیا۔ (گلتیوں ۳:۲۶-۲۹؛ افسیوں ۲:۴-۷) یہوواہ کے مہربانہ تحمل کے پسِپُشت روحانی اسرائیل کی کُل تعداد کو پورا کرنے کی بابت اُس کی حکمت اور مقصد کے لئے گہری قدردانی ظاہر کرتے ہوئے پولس نے بیان کِیا: ”واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بےنشان ہیں!“—رومیوں ۱۱:۲۵، ۲۶، ۳۳؛ گلتیوں ۶:۱۵، ۱۶۔
اپنے نام کی خاطر تحمل
۱۵ یہوواہ تحمل کیوں ظاہر کرتا ہے؟ وہ بنیادی طور پر اپنے پاک نام کی تقدیس اور اپنی حاکمیت کی سربلندی کے لئے ایسا کرتا ہے۔ (۱-سموئیل ۱۲:۲۰-۲۲) شیطان نے یہوواہ کے اپنی حاکمیت کو عمل میں لانے کے طریقے پر جو اعتراض کِیا تھا اُسے تمام مخلوق کے سامنے موزوں طور پر حل کرنے کے لئے وقت درکار تھا۔ (ایوب ۱:۹-۱۱؛ ۴۲:۲، ۵، ۶) پس مصر میں جب اُس کے لوگوں پر ظلم ڈھایا جا رہا تھا تو یہوواہ نے فرعون سے کہا: ”مَیں نے تجھے فیالحقیقت اِسلئے قائم رکھا ہے کہ اپنی قوت تجھے دکھاؤں تاکہ میرا نام ساری دُنیا میں مشہور ہو جائے۔“—خروج ۹:۱۶۔
۱۶ جب پولس رسول نے خدا کے پاک نام کی تقدیس کے سلسلے میں اُس کے تحمل کے کردار کو واضح کِیا تو اُس نے فرعون سے یہوواہ کے کلام کا بھی حوالہ دیا۔ اس کے بعد پولس نے لکھا: ”پس کیا تعجب ہے اگر خدا اپنا غضب ظاہر کرنے اور اپنی قدرت آشکارا کرنے کے ارادہ سے غضب کے برتنوں کے ساتھ جو ہلاکت کے لئے تیار ہوئے تھے نہایت تحمل سے پیش آیا۔ اور یہ اسلئے ہوا کہ اپنے جلال کی دولت رحم کے برتنوں کے ذریعہ سے آشکارا کرے جو اُس نے جلال کے لئے پہلے سے تیار کئے تھے۔ یعنی ہمارے ذریعہ سے جنکو اُس نے نہ فقط یہودیوں میں سے بلکہ غیرقوموں میں سے بھی بلایا۔ چنانچہ ہوسیعؔ کی کتاب میں بھی خدا یوں فرماتا ہے کہ جو میری اُمت نہ تھی اُسے اپنی اُمت کہونگا۔“ (رومیوں ۹:۱۷، ۲۲-۲۵) یہوواہ اپنے تحمل کی وجہ سے ”اپنے نام کی ایک اُمت“ بنانے کے قابل ہوا۔ (اعمال ۱۵:۱۴) اپنے سردار یسوع مسیح کے تحت یہ ’مُقدس لوگ‘ اُس بادشاہت کے وارث ہیں جسے یہوواہ اپنے عظیم نام کی تقدیس اور اپنی حاکمیت کی سربلندی کے لئے استعمال کریگا۔—دانیایل ۲:۴۴؛ ۷:۱۳، ۱۴، ۲۷؛ مکاشفہ ۴:۹-۱۱؛ ۵:۹، ۱۰۔
یہوواہ کا تحمل باعثِنجات ہے
۱۷ نسلِانسانی کے پہلے تباہکُن گناہ سے لیکر آج تک یہوواہ نے خود کو ایک متحمل خدا ثابت کِیا ہے۔ طوفان سے پہلے اُس کے تحمل نے مناسب آگاہی فراہم کرنے اور نجات کا ذریعہ تیار کرنے کے لئے وقت دیا۔ تاہم، جب اُس کے صبر کی انتہا ہو گئی تو طوفان آ گیا۔ اسی طرح آجکل یہوواہ بڑے تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اُس کا صبر بعض لوگوں کی توقع سے زیادہ طویل ثابت ہوا ہے۔ تاہم، ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔ یہ خدا کے تحمل پر تنقید کرنے کے مترادف ہوگا۔ پولس نے سوال کِیا: ”تُو اُس کی مہربانی اور تحمل اور صبر کی دولت کو ناچیز جانتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ خدا کی مہربانی تجھ کو توبہ کی طرف مائل کرتی ہے؟“—رومیوں ۲:۴۔
۱۸ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ نجات حاصل کرنے کے سلسلے میں خدا کی خوشنودی کا یقین کر لینے کے لئے ہمیں کس حد تک اُس کے تحمل کی ضرورت ہے۔ پولس ہمیں ”ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام“ کرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہے۔ (فلپیوں ۲:۱۲) پطرس رسول نے ساتھی مسیحیوں کو لکھا: ”[یہوواہ] اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اس لئے کہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“—۲-پطرس ۳:۹۔
۱۹ پس، آئیے معاملات نپٹانے کے سلسلے میں یہوواہ کے طریقے کی بابت بےصبری کا مظاہرہ کرنے سے گریز کریں۔ اس کی بجائے کیوں نہ پطرس کی اضافی مشورت کا اطلاق کرتے ہوئے اپنے ”خداوند کے تحمل کو نجات“ سمجھیں۔ کس کی نجات؟ ہماری اور بیشمار ایسے دوسرے لوگوں کی جنہیں ابھی تک ’بادشاہی کی خوشخبری‘ سننے کی ضرورت ہے۔ (۲-پطرس ۳:۱۵؛ متی ۲۴:۱۴) یہ یہوواہ کے بےپناہ تحمل کی قدر کرنے اور دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات میں متحمل بننے کے لئے ہماری مدد کرے گا۔
[فٹنوٹ]
a عبرانی زبان میں ”ناک یا ”نتھنے“ کے لئے لفظ (آف) اکثر علامتی مفہوم میں غصے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کسی غضبناک شخص کا نتھنے پھلا کر زور زور سے سانس لینا ہے۔
b اس پیشینگوئی کی مزید وضاحت کے لئے یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتاب پے اٹینشن ٹو ڈینیئلز پرافیسی! کے صفحہ ۱۹۱-۱۹۴ کا مطالعہ کریں۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• بائبل میں لفظ ”تحمل“ سے کیا مُراد ہے؟
• یہوواہ نے طوفان سے پہلے، بابلی اسیری کے بعد اور پہلی صدی س.ع. کے دوران تحمل کا مظاہرہ کیسے کِیا؟
• یہوواہ نے کن اہم وجوہات کی بِنا پر تحمل ظاہر کِیا ہے؟
• ہمیں یہوواہ کے تحمل کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
۱، ۲. (ا) ماضی میں یہوواہ کے تحمل سے کن لوگوں نے فائدہ اُٹھایا تھا؟ (ب) ”تحمل“ سے کیا مُراد ہے؟
۳. یہوواہ کے تحمل کا مقصد کیا رہا ہے اور اُس کی حد کیا ہے؟
۴. (ا) عبرانی صحائف میں تحمل کی وضاحت کیسے کی گئی ہے؟ (فٹنوٹ بھی دیکھیں۔) (ب) ناحوم نبی یہوواہ کے متعلق کیا بیان کرتا ہے اور اس سے یہوواہ کے تحمل کی بابت کیا ظاہر ہوتا ہے؟
۵. یہوواہ کا تحمل اُس کے انصاف سے کیسے ہمآہنگ ہے؟
۶. یہوواہ نے آدم اور حوا کی اولاد کے لئے تحمل کا کونسا شاندار ثبوت پیش کِیا ہے؟
۷. یہوواہ نے طوفان سے پہلے تحمل کا مظاہرہ کیسے کِیا اور طوفان سے پہلے والی نسل کو بجا طور پر ختم کیوں کر دیا گیا تھا؟
۸. یہوواہ نے اسرائیلی قوم کے لئے تحمل کیسے ظاہر کِیا؟
۹. یہوواہ قاضیوں اور شہنشاہیت کے زمانہ میں متحمل خدا کیسے ثابت ہوا؟
۱۰. یہوواہ کا تحمل کب انتہا کو پہنچ گیا تھا؟
۱۱. یہوواہ نے عدالتی کارروائی کے دوران بھی تحمل کا مظاہرہ کیسے کِیا؟
۱۲. مسیحا کی آمد کے سلسلے میں یہودی بقیے کی یہوداہ واپسی میں الہٰی راہنمائی کیسے شامل تھی؟
۱۳. اگرچہ یہودیوں نے اس کے بیٹے کو قتل کر دیا تھا توبھی یہوواہ اُن کیلئے تحمل کیسے ظاہر کرتا رہا؟
۱۴. (ا) کن لوگوں کو ۳۶ س.ع. میں ابرہام کی روحانی نسل کا حصہ بننے کا شرف عطا کِیا گیا تھا؟ (ب) یہوواہ جس طریقے سے روحانی اسرائیل کے افراد منتخب کرتا ہے پولس نے اُس کی بابت اپنے جذبات کا اظہار کیسے کِیا؟
۱۵. الہٰی تحمل کی بنیادی وجہ کیا ہے اور کس مسئلے کو حل کرنے کے لئے وقت درکار تھا؟
۱۶. (ا) یہوواہ کا تحمل اُس کے نام کی ایک اُمت بنانے کا باعث کیسے ہوا؟ (ب) یہوواہ کے نام کی تقدیس اور اُس کی حاکمیت کی سربلندی کیسے ہوگی؟
۱۷، ۱۸. (ا) ہم کونسا کام کرنے سے نادانستہ طور پر یہوواہ کے ظاہرکردہ تحمل پر تنقید کر سکتے ہیں؟ (ب) ہماری یہوواہ کے تحمل کو کیسا خیال کرنے کے لئے حوصلہافزائی کی گئی ہے؟
۱۹. ہم یہوواہ کے تحمل سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
[صفحہ ۹ پر تصویر]
یہوواہ کے تحمل نے طوفان سے پہلے لوگوں کو توبہ کرنے کا پورا موقع فراہم کِیا
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
سقوطِبابل کے بعد یہودی یہوواہ کے تحمل سے مستفید ہوئے
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
پہلی صدی کے یہودیوں اور غیریہودیوں نے یہوواہ کے تحمل سے بھرپور فائدہ اُٹھایا
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
آجکل بھی مسیحی یہوواہ کے تحمل سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں