تھیوکریسی کے تحت رہیں
”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] ہمارا حاکم ہے۔ خداوند ہمارا شریعت دینے والا ہے۔ خداوند ہمارا بادشاہ ہے۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۲۔
۱. زیادہتر لوگوں کے نزدیک حکومت غورطلب معاملہ کیوں ہے؟
حکومت کا موضوع سبھی کیلئے دلچسپی کا حامل ہوتا ہے۔ اچھی حکومت امن اور خوشحالی لاتی ہے۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”بادشاہ عدل سے اپنی مملکت کو قیام بخشتا ہے۔“ (امثال ۲۹:۴) اِسکے برعکس، خراب حکومت ناانصافی، بدعنوانی اور استبداد کا باعث بنتی ہے۔ ”جب شریر اقتدار پاتے ہیں تو لوگ آہیں بھرتے ہیں۔“ (امثال ۲۹:۲) پوری تاریخ کے دوران، انسان مختلف حکومتوں کو آزما چکے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ وہ اپنے حکام کے ظلم کی وجہ سے اکثر ’آہیں‘ بھرتے ہیں۔ (واعظ ۸:۹) کیا کوئی حکومت اپنی رعایا کیلئے دائمی امن لانے میں کامیاب ہوگی؟
۲. قدیم اسرائیل کی حکومت کیلئے ”تھیوکریسی“ موزوں اصطلاح کیوں ہے؟
۲ مؤرخ یوسیفس نے ایک لاثانی حکومت کا ذکر کِیا جب اُس نے لکھا: ”بعض لوگوں نے آمرانہ حکومتوں کو، بعض نے چندسری حکومتوں کو اور بعض نے عوامالناس کو اعلیٰ سیاسی اقتدار سونپ رکھا ہے۔ تاہم، ہمارا شریعت دینے والا [موسیٰ] ایسے سیاسی نظاموں سے مرعوب نہیں تھا بلکہ اُس نے ایسا آئین تشکیل دیا جسکی وضاحت اگر مقصود ہو تو اُسے ’تھیوکریسی‘ کہا جا سکتا ہے جس میں تمام حاکمیت اور اختیار خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔“ (اگینسٹ ایپیون، ۱۶۴ ،II-۱۶۵) کنسائز آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق تھیوکریسی کا مطلب ہے ”خدائی نظامِحکومت۔“ یہ لفظ بائبل میں نہیں ملتا مگر قدیم اسرائیلی حکومت کی خوب وضاحت کرتا ہے۔ اگرچہ اسرائیلیوں کے انسانی بادشاہ ہوا کرتے تھے تو بھی اُنکا حقیقی حکمران یہوواہ ہی تھا۔ اسرائیلی نبی یسعیاہ نے کہا: ”خداوند [”یہوواہ“، اینڈبلیو] ہمارا حاکم ہے۔ خداوند ہمارا شریعت دینے والا ہے۔ خداوند ہمارا بادشاہ ہے۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۲۔
حقیقی تھیوکریسی کیا ہے؟
۳، ۴. (ا) حقیقی تھیوکریسی کیا ہے؟ (ب) مستقبل قریب میں تھیوکریسی تمام نوعِانسان کیلئے کیا برکات لائیگی؟
۳ جب سے یوسیفس نے اس لفظ کی ابتدا کی ہے تب سے بیشتر معاشروں کو تھیوکریسی کا نام دیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض متعصّب، جنونی اور سفاک ثابت ہوئے تھے۔ کیا وہ واقعی حقیقی تھیوکریسی تھے؟ یوسیفس نے جس مفہوم میں اس لفظ کو استعمال کِیا تھا اُس کے مطابق تو نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ”تھیوکریسی“ کے مطلب کو وسیع کر لیا گیا ہے۔ ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا اسکی ”ایک ایسے نظامِحکومت“ کے طور پر تعریف کرتا ہے ”جس میں ایک یا ایک سے زیادہ پادری ریاست پر حکمرانی کرتے ہیں اور جس میں پادری طبقہ کے ارکان مذہبی اور مدنی معاملات پر اختیار رکھتے ہیں۔“ تاہم، حقیقی تھیوکریسی پادریوں کی حکومت نہیں ہے۔ یہ خدا کی حکمرانی، کائنات کے خالق، یہوواہ خدا کی حکومت ہے۔
۴ مستقبل قریب میں ساری زمین تھیوکریسی کے تحت ہوگی اور یہ کتنی بڑی برکت ہوگی! ”خدا آپ [نوعِانسان] کے ساتھ رہیگا۔ اور وہ اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“ (مکاشفہ ۲۱:۳، ۴) پادریوں پر مشتمل ناکامل انسانوں کی کوئی بھی حکمرانی ایسی خوشحالی نہیں لا سکتی۔ صرف خدا کی حکمرانی ہی لا سکتی ہے۔ لہٰذا، سچے مسیحی سیاسی سرگرمیوں سے تھیوکریسی کو متعارف کرانے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ صبر کیساتھ خدا پر آس لگائے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے وقت اور اپنے طریقے سے عالمگیر تھیوکریسی قائم کریگا۔—دانیایل ۲:۴۴۔
۵. آجکل حقیقی تھیوکریسی کہاں سرگرمِعمل ہے اور اسکی بابت کونسے سوالات اُٹھائے گئے ہیں؟
۵ تاہم، اس اثنا میں، حقیقی تھیوکریسی سرگرمِعمل ہے۔ کہاں؟ اُن لوگوں کے درمیان جو رضامندی سے خدا کی حکمرانی کی اطاعت کرتے اور باہمی تعاون سے اُسکی مرضی بجا لاتے ہیں۔ ایسے وفادار اشخاص کو ایک عالمگیر روحانی ”قوم“ کے طور پر اُسکے روحانی ”ملک“ میں جمع کر لیا گیا ہے۔ وہ ”خدا کے اؔسرائیل“ کا بقیہ اور اُنکے ساڑھے پانچ ملین سے زائد مسیحی ساتھی ہیں۔ (یسعیاہ ۶۶:۸؛ گلتیوں ۶:۱۶) یہ سب ”ازلی بادشاہ،“ یہوواہ کی طرف سے مسندنشین آسمانی بادشاہ، یسوع مسیح کے تابع ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۷؛ مکاشفہ ۱۱:۱۵) یہ تنظیم کس لحاظ سے تھیوکریٹک ہے؟ اسکے ارکان دُنیاوی حکومتوں کے اختیار کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ نیز اپنے روحانی حلقے میں صاحبِاختیار انسان تھیوکریسی کے اصول کو کیسے قائم رکھتے ہیں؟
ایک تھیوکریٹک تنظیم
۶. خدا ایک دیدنی، انسانی تنظیم پر کیسے حکمرانی کر سکتا ہے؟
۶ یہوواہ جو آنکھ سے اوجھل آسمانوں میں رہتا ہے وہ انسانوں کی تنظیم پر کیسے حکمرانی کر سکتا ہے؟ (زبور ۱۰۳:۱۹) ایسا ممکن ہے کیونکہ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے اس الہامی مشورت کی پیروی کرتے ہیں: ”سارے دل سے خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔“ (امثال ۲:۶؛ ۳:۵) جب وہ ”مسیح کی شریعت“ پر چلتے ہیں اور اپنی روزمرّہ زندگیوں میں الہامی بائبل اصولوں کا اطلاق کرتے ہیں تو وہ خدا کو اپنے اُوپر حکومت کرنے دیتے ہیں۔ (گلتیوں ۶:۲؛ ۱-کرنتھیوں ۹:۲۱؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۶؛ دیکھیں متی ۵:۲۲، ۲۸، ۳۹؛ ۶:۲۴، ۳۳؛ ۷:۱۲، ۲۱۔) ایسا کرنے کیلئے اُنہیں بائبل کا طالبعلم بننا پڑیگا۔ (زبور ۱:۱-۳) قدیم زمانے کے بیریہ کے ”نیک ذات“ لوگوں کی طرح، وہ انسان کی پیروی نہیں کرتے بلکہ جوکچھ سیکھتے ہیں ہمیشہ اُسکی تصدیق بائبل سے کرتے ہیں۔ (اعمال ۱۷:۱۰، ۱۱؛ زبور ۱۱۹:۳۳-۳۶) وہ زبورنویس کی طرح دُعا کرتے ہیں: ”مجھے صحیح امتیاز اور دانش سکھا کیونکہ مَیں تیرے فرمان پر ایمان لایا ہوں۔“—زبور ۱۱۹:۶۶۔
۷. تھیوکریسی میں سرداری کی ترتیب کیا ہے؟
۷ ہر تنظیم میں کوئی نہ کوئی صاحبِاختیار یا ہدایت فراہم کرنے والا ضرور ہوتا ہے۔ یہوواہ کے گواہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں وہ پولس رسول کے بیانکردہ نظامِاختیار کی پابندی کرتے ہیں: ”ہر مرد کا سر مسیح اور عورت کا سر مرد اور مسیح کا سر خدا ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳) اس اصول کی مطابقت میں صرف لائق اشخاص ہی کلیسیاؤں میں بزرگوں کے طور پر خدمت انجام دیتے ہیں۔ اگرچہ ”ہر مرد کا سر،“ یسوع، آسمان پر ہے توبھی آسمان میں اُسکے ساتھ حکمرانی کرنے کی اُمید رکھنے والے اُسکے ممسوح بھائیوں کا ”بقیہ“ ابھی تک زمین پر موجود ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۱۷؛ ۲۰:۶) یہ سب ملکر ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کو تشکیل دیتے ہیں۔ مسیحی اس ”نوکر“ کی پیشوائی کو قبول کرنے سے یسوع کی اور اسطرح یسوع کے سر، یہوواہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷؛ ۲۵:۴۰) اس طرح، تھیوکریسی منظم رہتی ہے۔ ”خدا ابتری کا نہیں بلکہ امن کا بانی ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۱۴:۳۳۔
۸. مسیحی بزرگ تھیوکریسی کے اصول کی حمایت کیسے کرتے ہیں؟
۸ مسیحی بزرگ تھیوکریسی کے اصول کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اپنے محدود اختیار کو عمل میں لانے کے سلسلے میں وہ یہوواہ کے حضور جوابدہ ہیں۔ (عبرنیوں ۱۳:۱۷) نیز فیصلے کرنے کے معاملے میں وہ اپنی نہیں بلکہ خدا کی حکمت پر توکل کرتے ہیں۔ اسطرح، وہ یسوع کے نمونے کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ دُنیا کا فہیمترین انسان تھا۔ (متی ۱۲:۴۲) تاہم، اُس نے یہودیوں سے کہا: ”بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سوا اُسکے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے۔“ (یوحنا ۵:۱۹) علاوہازیں، بزرگ، بادشاہ داؤد جیسا رُجحان رکھتے ہیں۔ اُسے ایک تھیوکریسی میں خاصہ اختیار حاصل تھا۔ پھربھی، وہ اپنی نہیں بلکہ یہوواہ کی راہ پر چلنا چاہتا تھا۔ اُس نے دُعا کی: ”اَے خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] مجھے اپنی راہ بتا اور . . . مجھے ہموار راستہ پر چلا۔“—زبور ۲۷:۱۱۔
۹. تھیوکریسی میں مختلف اُمیدوں اور مختلف خدمتی استحقاقات کے سلسلے میں مخصوصشُدہ مسیحی کیا متوازن نظریہ رکھتے ہیں؟
۹ بعض نے اعتراض کِیا ہے کہ کیا یہ انصاف ہے کہ مسیحی کلیسیا میں اختیار صرف لائق مردوں کے ہاتھ میں ہے یا بعض کو تو آسمانی اُمید حاصل ہے جبکہ دیگر زمینی اُمید رکھتے ہیں۔ (زبور ۳۷:۲۹؛ فلپیوں ۳:۲۰) تاہم، مخصوصشُدہ مسیحی یہ سمجھتے ہیں کہ ان انتظامات کی خدا کے کلام میں خاکہکشی کی گئی ہے۔ یہ تھیوکریٹک ہیں۔ اکثر وہی لوگ ان پر اعتراض کرتے ہیں جو بائبل اصولوں کو نہیں سمجھتے۔ اسکے علاوہ، مسیحی جانتے ہیں کہ جہاں تک نجات کا تعلق ہے تو یہوواہ کی نظر میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ (گلتیوں ۳:۲۸) سچے مسیحیوں کے نزدیک کائنات کے حاکمِاعلیٰ کا پرستار ہونا سب سے بڑا ممکنہ استحقاق ہے اور یہوواہ نے اُن کیلئے جو بھی کردار وضع کِیا ہے وہ اُسے پورا کرکے خوش ہوتے ہیں۔ (زبور ۳۱:۲۳؛ ۸۴:۱۰؛ ۱-کرنتھیوں ۱۲:۱۲، ۱۳، ۱۸) مزیدبرآں، ہمیشہ کی زندگی خواہ آسمان میں ہو یا فردوسی زمین پر یہ واقعی ایک شاندار اُمید ہے۔
۱۰. (ا) یونتن نے کس عمدہ رُجحان کا مظاہرہ کِیا؟ (ب) آجکل مسیحی یونتن جیسا رُجحان کیسے دکھاتے ہیں؟
۱۰ یوں، یہوواہ کے گواہ ساؤل بادشاہ کے خداترس بیٹے یونتن کی مانند ہیں۔ یونتن ایک اچھا بادشاہ ثابت ہو سکتا تھا۔ تاہم، ساؤل کی بیوفائی کی وجہ سے یہوواہ نے داؤد کو اسرائیل کا دوسرا بادشاہ منتخب کر لیا۔ کیا یونتن اس سے برہم ہو گیا تھا؟ نہیں۔ وہ داؤد کا اچھا دوست بن گیا اور ساؤل سے اُسکی جان بھی بچائی۔ (۱-سموئیل ۱۸:۱؛ ۲۰:۱-۴۲) اسی طرح، زمینی اُمید رکھنے والے آسمانی اُمید رکھنے والوں سے حسد نہیں کرتے۔ نیز سچے مسیحی کلیسیا میں تھیوکریٹک اختیار سنبھالنے والوں سے حسد نہیں کرتے۔ اسکی بجائے، وہ روحانی بھائیوں اور بہنوں کی خاطر اُنکی جانفشانی کی قدر کرتے ہوئے ”محبت کے ساتھ اُنکی بڑی عزت“ کرتے ہیں۔—۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۲، ۱۳۔
دُنیاوی حکمرانی کی بابت تھیوکریٹک نظریہ
۱۱. تھیوکریٹک حکمرانی کے تابع مسیحی دُنیاوی حکام کو کیسا خیال کرتے ہیں؟
۱۱ اگر یہوواہ کے گواہ تھیوکریسی، خدا کی حکمرانی کے تحت ہیں تو وہ قومی حکمرانوں کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ یسوع نے کہا تھا کہ اُس کے پیروکار اس ”دُنیا کے نہیں“ ہوں گے۔ (یوحنا ۱۷:۱۶) تاہم، مسیحی ”قیصرؔ“ یعنی دُنیاوی حکومتوں کے سلسلے میں اپنی ذمہداری سے واقف ہیں۔ یسوع نے کہا تھا کہ اُنہیں ”جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا“ کرنا چاہئے۔ (متی ۲۲:۲۱) بائبل کے مطابق، انسانی حکومتیں ”خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔“ تمام اختیار کا ماخذ، یہوواہ، حکومتوں کو قائم رہنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ اُن سے توقع کرتا ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں لوگوں کی فلاحوبہبود کیلئے کام کریں۔ جب وہ ایسا کرتی ہیں تو وہ ”خدا کا خادم“ ہوتی ہیں۔ مسیحی جس بھی ملک میں رہتے ہیں وہاں کی حکومت کے تابع رہتے ہیں کیونکہ ”[اُنکا] دل بھی یہی گواہی دیتا ہے۔“ (رومیوں ۱۳:۱-۷) بِلاشُبہ، اگر ریاست خدا کی شریعت کے برعکس کسی چیز کا مطالبہ کرتی ہے تو مسیحیوں پر ”آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔“—اعمال ۵:۲۹۔
۱۲. جب مسیحی اربابِاختیار کے ہاتھوں اذیت اُٹھاتے ہیں تو وہ کس کے نمونے کی پیروی کرتے ہیں؟
۱۲ جب سچے مسیحی اربابِاختیار کے ہاتھوں اذیت اُٹھاتے ہیں تو پھر کیا ہوتا ہے؟ ایسی صورت میں وہ بڑے اذیتناک اوقات کا سامنا کرنے والے ابتدائی مسیحیوں کے نمونے کی پیروی کرتے ہیں۔ (اعمال ۸:۱؛ ۱۳:۵۰) ایمان کی یہ آزمائشیں غیرمتوقع نہیں تھیں کیونکہ یسوع آگاہ کر چکا تھا کہ یہ آئینگی۔ (متی ۵:۱۰-۱۲؛ مرقس ۴:۱۷) پھربھی، اُن ابتدائی مسیحیوں نے اپنے اذیت دینے والوں کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہ کی؛ نہ ہی دباؤ کے تحت اُنکا ایمان کمزور ہوا۔ اسکے برعکس اُنہوں نے یسوع کے نمونے کی پیروی کی: ”نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دکھ پاکر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد کرتا تھا۔“ (۱-پطرس ۲:۲۱-۲۳) جیہاں، مسیحی اصول شیطان کی اشتعالانگیزیوں پر غالب آئے۔—رومیوں ۱۲:۲۱۔
۱۳. یہوواہ کے گواہوں نے اذیت اور اپنے خلاف بہتانآمیز سرگرمیوں کیلئے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا ہے؟
۱۳ آجکل بھی یہی سچ ہے۔ اس صدی کے دوران یہوواہ کے گواہوں نے یسوع کی پیشینگوئی کے مطابق ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں بہت زیادہ تکلیف اُٹھائی ہے۔ بعض ممالک میں، اربابِاختیار کو ان مخلص مسیحیوں کے خلاف کارروائی کرنے پر اُکسانے کی کوشش کرنے والوں نے جھوٹ اور غلط بیانات پھیلائے ہیں۔ پھربھی، ایسی ”بدنامی“ کے باوجود گواہ اپنے عمدہ چالچلن سے خود کو خدا کے خادموں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۶:۴، ۸) جب ممکن ہو تو وہ اپنا معاملہ اہلکاروں اور ملک کی عدالتوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ اپنی بیگناہی ثابت کر سکیں۔ وہ عوامی سطح پر خوشخبری کا دفاع کرنے کیلئے تمام ممکن طریقوں کو استعمال کرتے ہیں۔ (فلپیوں ۱:۷) تاہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی پوری کوشش کرنے کے بعد وہ معاملات کو یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ (زبور ۵:۸-۱۲؛ امثال ۲۰:۲۲) وقت آنے پر وہ ابتدائی مسیحیوں کی طرح راستبازی کی خاطر مصیبت اُٹھانے سے بھی نہیں گھبراتے۔—۱-پطرس ۳:۱۴-۱۷؛ ۴:۱۲-۱۴، ۱۶۔
خدا کی عزت کو مقدم رکھیں
۱۴، ۱۵. (ا) تھیوکریسی کے اصول کی حمایت کرنے والوں کیلئے کیا چیز اوّلین اہمیت کی حامل ہے؟ (ب) سلیمان نے کس موقع پر اپنے نگہبانی کے مرتبے کے سلسلے میں فروتنی کی ایک عمدہ مثال قائم کی؟
۱۴ جب یسوع نے اپنے پیروکاروں کو دُعا کرنا سکھایا تو اُس نے سب سے پہلے یہوواہ کے نام کی تقدیس کا ذکر کِیا۔ (متی ۶:۹) اسکی مطابقت میں تھیوکریسی کے تحت رہنے والے لوگ اپنی نہیں بلکہ خدا کی عزت چاہتے ہیں۔ (زبور ۲۹:۱، ۲) بائبل بیان کرتی ہے کہ پہلی صدی میں یہ بات اُن لوگوں کیلئے ٹھوکر کا باعث تھی جنہوں نے یسوع کی پیروی سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ”وہ انسان سے عزت حاصل کرنا زیادہ چاہتے تھے“ یعنی وہ انسانوں کی طرف سے تعظیم حاصل کرنا پسند کرتے تھے۔ (یوحنا ۱۲:۴۲، ۴۳) واقعی اپنی اَنا کو پسِپُشت ڈالکر یہوواہ کو پہلا درجہ دینا فروتنی کا تقاضا کرتا ہے۔
۱۵ اس سلسلے میں سلیمان نے عمدہ رُجحان ظاہر کِیا۔ سلیمان نے جو شاندار ہیکل بنوائی تھی اُسکی مخصوصیت کے موقع پر اُسکے الفاظ کا موازنہ نبوکدنضر کے الفاظ سے کیجئے جو اُس نے اپنے تعمیری کارناموں کی بابت کہے تھے۔ نبوکدنضر نے بڑے گھمنڈ سے خودستائی کی: ”کیا یہ بابلِؔاعظم نہیں جسکو مَیں نے اپنی توانائی کی قدرت سے تعمیر کِیا ہے کہ دارالسلطنت اور میرے جاہوجلال کا نمونہ ہو؟“ (دانیایل ۴:۳۰) اسکے برعکس، سلیمان نے اپنی کامرانی کا بڑی عاجزی سے اظہار کِیا: ”کیا خدا فیالحقیقت آدمیوں کے ساتھ زمین پر سکونت کریگا؟ دیکھ آسمان بلکہ آسمانوں کے آسمان میں بھی تُو سما نہیں سکتا تو یہ گھر تو کچھ بھی نہیں جسے مَیں نے بنایا!“ (۲-تواریخ ۶:۱۴، ۱۵، ۱۸؛ زبور ۱۲۷:۱) سلیمان نے اپنی بڑائی نہیں کی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ محض یہوواہ کا نمائندہ ہے اسلئے اُس نے لکھا: ”تکبّر کے ہمراہ رسوائی آتی ہے لیکن خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔“—امثال ۱۱:۲۔
۱۶. بزرگ اپنی عزت نہ چاہنے سے ایک حقیقی برکت کیسے ثابت ہوتے ہیں؟
۱۶ مسیحی بزرگ بھی اپنی نہیں بلکہ یہوواہ کی بڑائی کرتے ہیں۔ وہ پطرس کی مشورت کی پیروی کرتے ہیں: ”اگر کوئی خدمت کرے تو اُس طاقت کے مطابق کرے جو خدا دے تاکہ سب باتوں میں یسوؔع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا جلال ظاہر ہو۔“ (۱-پطرس ۴:۱۱) پولس رسول نے ”نگہبان کے عہدے“ کو نہایت ممتاز حیثیت کے طور پر نہیں بلکہ ”اچھے کام“ کے طور پر بیان کِیا تھا۔ (۱-تیمتھیس ۳:۱) بزرگ حکومت جتانے کی بجائے خدمت کرنے کیلئے مقرر کئے جاتے ہیں۔ وہ اُستاد اور خدا کے گلّہ کے چرواہے ہیں۔ (اعمال ۲۰:۲۸؛ یعقوب ۳:۱) فروتن، خودایثار بزرگ کلیسیا کیلئے واقعی باعثِبرکت ہوتے ہیں۔ (۱-پطرس ۵:۲، ۳) ”ایسے شخصوں کی عزت“ کریں اور یہوواہ کا شکر بجا لائیں کہ اُس نے اس ”اخیر زمانہ“ میں تھیوکریسی قائم رکھنے کیلئے اتنے لائق بزرگ عطا کئے ہیں۔—فلپیوں ۲:۲۹؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۔
”خدا کی مانند بنو“
۱۷. تھیوکریسی کے تحت لوگ کن طریقوں سے خدا کی مانند بنتے ہیں؟
۱۷ پولس رسول نے تاکید کی: ”عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند بنو۔“ (افسیوں ۵:۱) تھیوکریسی کے دائرے میں رہنے والے لوگ جہاں تک ناکامل انسانوں کیلئے ممکن ہے خدا کی مانند بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بائبل یہوواہ کی بابت بیان کرتی ہے: ”وہ وہی چٹان ہے۔ اُسکی صنعت کامل ہے۔ کیونکہ اُسکی سب راہیں انصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔“ (استثنا ۳۲:۳، ۴) اس سلسلے میں خدا کی مانند بننے کیلئے مسیحی وفاداری، راستبازی اور متوازن احساسِعدل کے خواہاں رہتے ہیں۔ (میکاہ ۶:۸؛ ۱-تھسلنیکیوں ۳:۶؛ ۱-یوحنا ۳:۷) وہ ایسی بہت سی چیزوں سے گریز کرتے ہیں جنہیں دُنیا میں مقبولیت حاصل ہے جیسےکہ بداخلاقی، حرص اور لالچ۔ (افسیوں ۵:۵) انسان کی بجائے یہوواہ کے خادم الہٰی معیاروں کی پیروی کرتے ہیں چنانچہ اُسکی تنظیم تھیوکریٹک، پاک اور بااخلاق ہے۔
۱۸. خدا کی افضل خوبی کونسی ہے اور مسیحی اس خوبی کی عکاسی کیسے کرتے ہیں؟
۱۸ یہوواہ خدا کی افضل خوبی محبت ہے۔ یوحنا رسول کہتا ہے کہ ”خدا محبت ہے۔“ (۱-یوحنا ۴:۸) تھیوکریسی کا مطلب چونکہ خدائی حکمرانی ہے اسلئے یہ محبت سے حکمرانی کرنے کی دلالت بھی کرتی ہے۔ یسوع نے فرمایا: ”اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔“ (یوحنا ۱۳:۳۵) ان مشکل آخری ایّام میں تھیوکریٹک تنظیم نے غیرمعمولی محبت ظاہر کی ہے۔ افریقہ میں نسلکُشی کے فسادات میں یہوواہ کے گواہوں نے کسی بھی نسلی گروہ سے قطعنظر سب کیلئے محبت ظاہر کی۔ سابقہ یوگوسلاویہ کی جنگ کے دوران، تمام علاقوں کے یہوواہ کے گواہوں نے ایک دوسرے کی مدد کی جبکہ دیگر مذہبی گروہ نامنہاد نسلی صفائی میں اُلجھے ہوئے تھے۔ ذاتی طور پر یہوواہ کے گواہ پولس کی مشورت پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں: ”ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دور کی جائیں۔ اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرمدل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔“—افسیوں ۴:۳۱، ۳۲۔
۱۹. تھیوکریسی کے تابع رہنے والے اب اور مستقبل میں کونسی برکات حاصل کرتے ہیں؟
۱۹ تھیوکریسی کے تابع رہنے والے بڑی برکات سے محظوظ ہوتے ہیں۔ وہ خدا اور ساتھی مسیحیوں کیساتھ میلملاپ سے رہتے ہیں۔ (عبرانیوں ۱۲:۱۴؛ یعقوب ۳:۱۷) اُنکی زندگی بامقصد ہوتی ہے۔ (واعظ ۱۲:۱۳) اُنہیں روحانی تحفظ اور مستقبل کیلئے ایک یقینی اُمید حاصل ہے۔ (زبور ۵۹:۹) بِلاشُبہ، وہ اس چیز کا پیشازوقت تجربہ کر لیتے ہیں کہ جب تمام نوعِانسان تھیوکریٹک حکمرانی کے تابع ہونگے تو وقت کیسا ہوگا۔ چنانچہ، بائبل بیان کرتی ہے کہ ”وہ میرے تمام کوہِمقدس پر نہ ضرر پہنچائینگے نہ ہلاک کرینگے کیونکہ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کے عرفان سے معمور ہوگی۔“ (یسعیاہ ۱۱:۹) وہ کیا ہی شاندار وقت ہوگا! دُعا ہے کہ ہم سب اب تھیوکریسی کے تحت رہنے سے مستقبل کے فردوس میں اپنی جگہ یقینی بنائیں۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
◻حقیقی تھیوکریسی کیا ہے اور یہ آجکل کہاں پائی جاتی ہے؟
◻انسان اپنی زندگیوں میں تھیوکریٹک حکمرانی کی اطاعت کیسے کرتے ہیں؟
◻تھیوکریسی کے تحت سب لوگ کن طریقوں سے اپنی بجائے خدا کی عزت چاہتے ہیں؟
◻تھیوکریسی کی حمایت کرنے والے بعض لوگ کن خدائی صفات کی نقل کرتے ہیں؟
[صفحہ 31 پر تصویر]
سلیمان نے اپنی نہیں بلکہ خدا کی عزت چاہی