خدا کیساتھ ساتھ چلتے رہیں
”رُوح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہرگز پورا نہ کرو گے۔“—گلتیوں ۵:۱۶۔
۱. (ا) کن حالات میں اور کتنے عرصہ تک حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا؟ (ب) نوح کتنے عرصہ تک خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا اور کونسی بھاری ذمہداریاں اُس کے کندھوں پر تھیں؟
بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ حنوک ”خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔“ اپنے اردگرد کے لوگوں کی انتہائی بُری زبان اور بیدین چالچلن کے باوجود، وہ ۳۶۵ برس کی عمر میں اپنی زندگی کے آخر تک خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا۔ (پیدایش ۵:۲۳، ۲۴؛ یہوداہ ۱۴، ۱۵) نوح بھی ”خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔“ اُس نے اپنے خاندان کی پرورش کرتے ہوئے، باغی فرشتوں اور اُن کی تشددپسند اولاد کے زیرِاثر دُنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے اور اسی دوران بہت بڑی کشتی کی تعمیر سے متعلق تمام تفصیلات پر عمل کرتے ہوئے ایسا کِیا جو قدیم زمانے کے کسی بھی بحری جہاز سے بہت بڑی تھی۔ وہ طوفان کے بعد تک بھی خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، اُس وقت بھی جب یہوواہ کے خلاف بغاوت نے ایک بار پھر بابل میں سر اُٹھایا۔ بِلاشُبہ، نوح ۹۵۰ سال کی عمر میں اپنی وفات تک خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا۔—پیدایش ۶:۹؛ ۹:۲۹۔
۲. ’خدا کیساتھ ساتھ چلنے‘ کا کیا مطلب ہے؟
۲ جب بائبل یہ کہتی ہے کہ یہ ایماندار لوگ خدا کیساتھ ساتھ ”چلتے رہے“ تو یہ اس اصطلاح کو استعارہً استعمال کر رہی ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ حنوک اور نوح نے ایسا طرزِعمل اختیار کِیا جس نے خدا پر مضبوط ایمان کو ظاہر کِیا۔ اُنہوں نے وہی کِیا جسکا حکم یہوواہ نے اُنہیں دیا تھا اور اپنی زندگیوں کو اُسکی مطابقت میں لے آئے جو وہ انسانوں کیساتھ اُسکے برتاؤ کی بدولت اُسکی بابت جانتے تھے۔ (مقابلہ کریں ۲-تواریخ ۷:۱۷۔) جوکچھ خدا نے کہا اور کِیا اُنہوں نے اُس کیساتھ محض ذہنی ہمآہنگی کا اظہار ہی نہ کِیا بلکہ اُنہوں نے ہر اُس بات پر عمل کِیا جس کا اُس نے تقاضا کِیا—ناکامل انسانوں کے طور پر جہاں تک ممکن ہو سکا اُنہوں نے صرف چند ایک باتوں پر ہی نہیں بلکہ اس سب پر عمل کِیا۔ مثال کے طور پر، نوح نے بالکل ویسا ہی کِیا جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا۔ (پیدایش ۶:۲۲) نوح دی گئی ہدایات سے تجاوز کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی وہ لاپروائی سے سُست رفتاری دکھا رہا تھا۔ یہوواہ کیساتھ قریبی رفاقت سے استفادہ کرنے، بِلاجھجک خدا سے دُعا کرنے اور الہٰی ہدایت پر عمل کرنے والے کے طور پر، وہ خدا کیساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ کیا آپ ایسا کر رہے ہیں؟
ایک اصولپسند طرزِزندگی
۳. جو لوگ خدا کے مخصوصشُدہ اور بپتسمہیافتہ خادم ہیں اُن سب کیلئے کیا چیز اشد ضروری ہے؟
۳ یہ دیکھنا خوشی بخشتا ہے کہ لوگ خدا کیساتھ ساتھ چلنا شروع کر رہے ہیں۔ جب وہ یہوواہ کی مرضی کی مطابقت میں مثبت اقدام اُٹھاتے ہیں تو وہ ایمان کا مظاہرہ کرتے ہیں جسکے بغیر کوئی بھی شخص خدا کو پسند نہیں آ سکتا۔ (عبرانیوں ۱۱:۶) ہم کسقدر خوش ہیں کہ گزشتہ پانچ سال سے، ہر سال اوسطاً، ۳،۳۰،۰۰۰ سے زیادہ لوگوں نے خود کو یہوواہ کیلئے مخصوص کِیا ہے اور اپنے آپ کو پانی کے بپتسمہ کیلئے پیش کِیا ہے! تاہم، یہ اُن کیلئے اور ہم سب کیلئے ضروری بھی ہے کہ خدا کیساتھ ساتھ چلتے رہیں۔—متی ۲۴:۱۳؛ مکاشفہ ۲:۱۰۔
۴. مصر کو چھوڑنے والے اسرائیلیوں کی اکثریت ملکِموعود میں داخل کیوں نہ ہوئی جبکہ اُنہوں نے کسی حد تک ایمان کا مظاہرہ کِیا؟
۴ موسیٰ کے زمانے میں، مصر میں فسح منانے اور اپنے گھر کے دروازے کے دونوں بازوؤں اور اُوپر کی چوکھٹ پر خون چھڑکنے کے لئے ہر اسرائیلی خاندان کو ایمان کی ضرورت تھی۔ (خروج ۱۲:۱-۲۸) تاہم، جب اُنہوں نے بحرِقلزم پر فرعون کی فوجوں کو اپنے قریب آتے دیکھا تو بہتیروں کا ایمان ڈگمگا گیا۔ (خروج ۱۴:۹-۱۲) زبور ۱۰۶:۱۲ بیان کرتی ہے کہ جب وہ سمندر کے بیچ خشک زمین پر چل کر بحفاظت نکل گئے اور اُنہوں نے مصری افواج کو سمندر کی موجوں میں غرق ہوتے دیکھ لیا تو ایک بار پھر اُنہوں نے ”[یہوواہ] کے قول کا یقین کِیا۔“ تاہم، کچھ ہی عرصہ بعد بیابان میں، اسرائیلی پینے کے پانی، خوراک اور انتظام کی بابت شکایت کرنے لگے۔ ملکِموعود سے واپس لوٹنے والے ۱۲ جاسوسوں میں سے ۱۰ کی منفی رپورٹ نے اُنہیں خوفزدہ کر دیا۔ اُن حالات میں جیسےکہ زبور ۱۰۶:۲۴ بیان کرتی ہے، ”اُنہوں نے . . . [خدا] کے قول کا یقین نہ کِیا۔“ وہ مصر واپس جانا چاہتے تھے۔ (گنتی ۱۴:۱-۴) وہ جو بھی ایمان رکھتے تھے وہ الہٰی قوت کے بعض غیرمعمولی اظہارات کو دیکھنے کے بعد ہی سامنے آتا تھا۔ وہ خدا کے ساتھ ساتھ نہ چلے۔ نتیجتاً، وہ اسرائیلی ملکِموعود میں داخل نہ ہوئے۔—زبور ۹۵:۱۰، ۱۱۔
۵. امثال ۳:۵، ۶ اور ۲-کرنتھیوں ۱۳:۵ خدا کے ساتھ ساتھ چلنے سے کیسے تعلق رکھتی ہیں؟
۵ بائبل ہمیں نصیحت کرتی ہے: ”تُم اپنے آپ کو آزماؤ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔ اپنے آپ کو جانچو۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۳:۵) ”ایمان پر ہو“ کا مطلب ہے تمام مسیحی اعتقادات کی پیروی کرنا۔ اگر ہم زندگیبھر خدا کیساتھ ساتھ چلنے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو یہ اشد ضروری ہے۔ خدا کیساتھ ساتھ چلنے کیلئے ہمیں مکمل طور پر یہوواہ پر توکل کرنے والے خاص ایمان کو عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ (امثال ۳:۵، ۶) بیشمار ایسے پھندے اور پوشیدہ خطرات ہیں جو ایسا کرنے میں ناکام رہنے والے لوگوں کو بآسانی پھنسا سکتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کیا ہیں؟
خوداعتمادی کے پھندے سے بچیں
۶. تمام مسیحی حرامکاری اور زناکاری کی بابت کیا جانتے ہیں اور وہ ان گناہوں کی بابت کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۶ ہر وہ شخص جس نے بائبل کا مطالعہ کِیا ہے، یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کی ہے اور بپتسمہ لیا ہے جانتا ہے کہ خدا کا کلام حرامکاری اور زناکاری کی مذمت کرتا ہے۔ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۱-۳؛ عبرانیوں ۱۳:۴) ایسے لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ یہ بالکل دُرست ہے۔ وہ اسکی مطابقت میں چلنا چاہتے ہیں۔ تاہم، جنسی بداخلاقی ابھی بھی شیطان کے انتہائی مؤثر پھندوں میں سے ایک ہے۔ کیوں؟
۷. موآب کے میدانوں میں، اسرائیلی مرد کس طرح ایسے چالچلن میں پڑ گئے جسکی بابت وہ جانتے تھے کہ غلط ہے؟
۷ پہلےپہل جو لوگ ایسے بداخلاق چالچلن میں پڑ جاتے ہیں ممکن ہے وہ ایسا کرنے کا منصوبہ نہ بنا رہے ہوں۔ شاید موآب کے میدانوں میں موجود اسرائیلیوں کی بابت بھی یہ سچ تھا۔ اسرائیلی مردوں کو جو بیابان کی زندگی سے اُکتا گئے تھے ہو سکتا ہے کہ موآبی اور مدیانی خواتین جنہوں نے اُنہیں اپنے دام میں پھنسا لیا پہلےپہل ہمدرد اور مہماننواز دکھائی دی ہوں۔ تاہم، اُس وقت کیا واقع ہوا جب اسرائیلیوں نے اُن لوگوں کیساتھ رفاقت رکھنے کی دعوت کو قبول کر لیا جو بعل کی پرستش کرتے تھے نہ کہ یہوواہ کی، وہ لوگ (حتیٰکہ ممتاز خاندان بھی) اپنی لڑکیوں کو اُن مردوں کیساتھ جنسی تعلقات اُستوار کرنے کی اجازت دیتے تھے جن سے وہ بیاہی ہوئی نہیں ہوتی تھیں؟ جب اسرائیل کے لشکر کے لوگوں نے ایسی رفاقت کو قابلِقبول خیال کرنا شروع کر دیا تو وہ ایسے کام کرنے کے فریب میں آ گئے جنکی بابت وہ جانتے تھے کہ وہ غلط ہیں اور اسکے باعث اُنہیں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔—گنتی ۲۲:۱؛ ۲۵:۱-۱۵؛ ۳۱:۱۶؛ مکاشفہ ۲:۱۴۔
۸. ہمارے زمانے میں، کیا چیز ایک مسیحی کو جنسی بداخلاقی کی طرف لیجا سکتی ہے؟
۸ ہمارے زمانے میں کیا چیز ایک شخص کے اسی طرح کے پھندے میں پھنسنے کا سبب بن سکتی ہے؟ جنسی بداخلاقی کی سنگینی کو سمجھنے کے باوجود اگر وہ اس کیساتھ ساتھ خوداعتمادی کے خطرے کو نہیں سمجھتا تو ہو سکتا ہے کہ وہ خود کو ایسی حالت میں اُلجھا لے جہاں غلطکاری میں پھنس جانے کا امکان اُسکی عقل پر حاوی ہو جاتا ہے۔—امثال ۷:۶-۹، ۲۱، ۲۲؛ ۱۴:۱۶۔
۹. کونسی صحیفائی آگاہیاں ہمیں بداخلاقی سے محفوظ رکھ سکتی ہیں؟
۹ خدا کا کلام ہمیں واضح الفاظ میں اس سوچ سے گمراہ ہونے کے خلاف آگاہ کرتا ہے کہ ہم بہت زیادہ مضبوط ہیں اسلئے بُری صحبتیں ہمیں نقصان نہیں پہنچائینگی۔ اس میں ایسے ٹیلیویژن پروگرام دیکھنا بھی شامل ہے جو بداخلاق لوگوں کی زندگیوں کو نمایاں کرتے ہیں اور ایسے رسائل پر نظر ڈالنا بھی شامل ہے جو بداخلاق خواہشات کو اُبھارتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۱، ۱۲؛ ۱۵:۳۳) نامناسب حالات کے تحت ساتھی ایمانداروں کیساتھ رفاقت بھی سنگین مسائل پر منتج ہو سکتی ہے۔ جنسی کشش پُرزور ہوتی ہے۔ لہٰذا مشفقانہ فکرمندی کے باعث یہوواہ کی تنظیم نے مخالف جنس کے کسی بھی ایسے شخص کیساتھ جس کے ساتھ ہماری شادی نہیں ہوئی یا جو خاندان کا فرد نہیں ہے اکیلے اور دوسروں کی نظروں سے چھپ کر ملاقات کرنے کے خلاف خبردار کِیا ہے۔ خدا کیساتھ ساتھ چلتے رہنے کیلئے ہمیں خوداعتمادی کے پھندے سے بچنے اور اُس آگاہی پر دھیان دینے کی ضرورت ہے جو وہ ہمیں فراہم کرتا ہے۔—زبور ۸۵:۸۔
انسانی خوف کو اپنے اُوپر حاوی نہ ہونے دیں
۱۰. ”انسان کا ڈر“ کیسے ایک پھندا بن جاتا ہے؟
۱۰ ایک دوسرے خطرے کی شناخت امثال ۲۹:۲۵ میں کی گئی ہے جو بیان کرتی ہے: ”انسان کا ڈر پھندا ہے۔“ شکاری کے پھندے میں اکثر ایک گرہ ہوتی ہے جو گردن کے گرد گھیرے کو تنگ کر دیتی ہے یا ایسی رسیاں ہوتی ہیں جو جانور کے پاؤں کو پھنسا لیتی ہیں۔ (ایوب ۱۸:۸-۱۱) اسی طرح انسان کا خوف ایک شخص کی آزادی سے گفتگو کرنے اور خدا کو خوش کرنے والا طرزِعمل اختیار کرنے کی لیاقت کو ختم کر سکتا ہے۔ دوسروں کو خوش کرنے کی خواہش ایک فطری عمل ہے اور دوسرے لوگ جوکچھ سوچتے ہیں اُسکی بابت بےحسی کا رویہ مسیحی طرزِعمل نہیں ہے۔ تاہم، توازن کی ضرورت ہے۔ جب دوسرے انسانوں کے ممکنہ ردِعمل کی بابت فکرمندی ایک شخص کے ایسا کام کرنے کا سبب بنتی ہے جسے خدا منع کرتا ہے یا ایسا کام کرنے سے باز رکھتی ہے جسکا حکم خدا کا کلام دیتا ہے تو پھر وہ شخص پھندے میں پھنس چکا ہوتا ہے۔
۱۱. (ا) کیا چیز ایک شخص کو انسان کے ڈر کو اپنے اوپر حاوی ہونے کی اجازت دینے کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہے؟ (ب) یہوواہ نے اپنے اُن خادموں کی کیسے مدد کی ہے جو انسان کے ڈر کا مقابلہ کر رہے تھے؟
۱۱ ایسے پھندے کے خلاف تحفظ ایک شخص کے فطری میلان میں نہیں بلکہ ”خداوند [یہوواہ] پر توکل“ کرنے میں پنہاں ہے۔ (امثال ۲۹:۲۵ب) خدا پر توکل کے ساتھ ایک فطرتاً شرمیلا شخص بھی دلیر اور ثابتقدم ہو سکتا ہے۔ جب تک ہم اس شیطانی نظامالعمل کے دباؤ کے گھیرے میں ہیں، ہمیں انسان کے ڈر کے پھندے میں پھنسنے سے خبردار رہنے کی ضرورت ہوگی۔ ایلیاہ نبی اگرچہ دلیرانہ خدمت کا ایک عمدہ ریکارڈ رکھتا تھا توبھی جب ایزبل نے اُسے جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دی تو وہ خوف سے بھاگ گیا۔ (۱-سلاطین ۱۹:۲-۱۸) دباؤ کے تحت، رسول پطرس نے خوف کے مارے، یسوع کو جاننے سے انکار کر دیا اور کئی سال بعد اُس نے خوف کو اپنے اُوپر اسقدر مسلّط کر لیا کہ اُس نے ایسے طرزِعمل کا مظاہرہ کِیا جو ایمان کے برعکس تھا۔ (مرقس ۱۴:۶۶-۷۱؛ گلتیوں ۲:۱۱، ۱۲) تاہم، ایلیاہ اور پطرس دونوں نے روحانی اعانت کو قبول کِیا اور یہوواہ پر توکل کیساتھ قابلِقبول طور پر اُسکی خدمت کرتے رہے۔
۱۲. جدید زمانے کی کونسی مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح لوگوں نے ڈر کو خدا کو خوش کرنے کا سبب بننے سے روکنے میں مدد حاصل کی ہے؟
۱۲ ہمارے زمانے میں بھی یہوواہ کے بیشتر خادموں نے پھندا ثابت ہونے والے ڈر پر غلبہ پانا سیکھ لیا ہے۔ گیآنا میں ایک نوجوان گواہ نے تسلیم کِیا: ”سکول میں دوستوں کی طرف سے دباؤ کی مزاحمت کرنا کافی کٹھن ہوتا ہے۔“ تاہم وہ مزید کہتی ہے: ”یہ یہوواہ پر میرے ایمان کا سوال ہے۔“ جب اُسکی ٹیچر نے اُس کے ایمان کی بدولت پوری جماعت کے روبرو اُسکا تمسخر اُڑایا تو وہ خاموشی سے یہوواہ سے دُعا کرتی رہی۔ بعدازاں، اکیلے میں اُس نے ٹیچر کو موقعشناسی سے گواہی دی۔ بینن میں اپنے آبائی شہر میں ایک ملاقات کے دوران، ایک نوجوان شخص نے جو یہوواہ کے تقاضوں کی بابت سیکھ رہا تھا، اُس بُت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا عزمِمُصمم کِیا جو اُسکے والد نے اُس کیلئے تراشا تھا۔ نوجوان شخص جانتا تھا کہ یہ بُت بےجان ہے اور وہ اُس سے خائف بھی نہیں تھا مگر وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف تھا کہ زُودرنج دیہاتی اُسے مارنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اُس نے یہوواہ سے دُعا کی اور پھر رات کو وہ بُت کو جنگل میں لے گیا اور اُسے ٹھکانے لگا دیا۔ (مقابلہ کریں قضاۃ ۶:۲۷-۳۱۔) ڈومینیکن ریپبلک میں جب ایک خاتون نے یہوواہ کی خدمت کرنا شروع کی تو اُس کے شوہر نے یہ تقاضا کِیا کہ وہ اپنے شوہر اور یہوواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔ اُس شخص نے اُسے طلاق کی دھمکی دی۔ کیا خوف اُسے اپنے ایمان کو ترک کرنے پر مجبور کر دیگا؟ اُس نے جواب دیا: ”اگر بات شوہر سے بیوفائی کی ہوتی تو مَیں شرمسار ہوتی مگر مَیں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے سے شرمسار نہیں ہوں!“ وہ خدا کیساتھ ساتھ چلتی رہی اور جلد ہی اُس کا شوہر بھی یہوواہ کی مرضی بجا لانے میں اُسکے ساتھ شامل ہو گیا۔ اپنے آسمانی باپ پر پورے توکل کیساتھ، ہم بھی انسان کے ڈر کو ایسا کام کرنے سے خود کو باز رکھنے کیلئے اپنے اوپر حاوی ہونے کی اجازت دینے سے بچ سکتے ہیں جسکی بابت ہم جانتے ہیں کہ یہ خدا کو پسند آئیگا۔
مشورت کو کماہم خیال کرنے سے گریز کریں
۱۳. ہمیں ۱-تیمتھیس ۶:۹ میں کس پھندے کی بابت آگاہ کِیا گیا ہے؟
۱۳ شکاریوں کے استعمال میں آنے والے بعض پھندے اگرچہ اُن جانوروں کو شکار کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں جو کسی خاص جگہ سے گزرتے ہیں تاہم، دیگر پھندے مکارانہ طور پر جانوروں کو اُنکے منپسند چارے کے ذریعے پھنسا لیتے ہیں۔ بہت سے انسانوں کیلئے، مالودولت بالکل ایسے ہی ہے۔ (متی ۱۳:۲۲) بائبل، ۱-تیمتھیس ۶:۸، ۹ میں کھانےپینے اور پہننے کی چیزوں پر ہی قناعت کرنے کیلئے ہماری حوصلہافزائی کرتی ہے۔ اسکے بعد یہ آگاہ کرتی ہے: ”جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔“
۱۴. (ا) کیا چیز ایک شخص کو کھانے اور پہننے پر قناعت کرنے کی مشورت پر دھیان دینے سے باز رکھ سکتی ہے؟ (ب)دولت کی بابت غلط تشریح کیسے ایک شخص کے ۱-تیمتھیس ۶:۹ میں درج آگاہی کو کماہم خیال کرنے کا باعث بن سکتی ہے؟ (پ) کسطرح ”آنکھوں کی خواہش“ بعض کو اُس پھندے کے سلسلے میں اندھا کر سکتی ہے جو اُن کے منتظر ہیں؟
۱۴ اس آگاہی کے باوجود، بہت سے لوگ پھندے میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اُوپر اس مشورت کا اطلاق نہیں کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ تکبّر اُنہیں ایسا طرزِزندگی اختیار کئے رکھنے کی طرف راغب کر رہا ہو جو ”کھانے پہننے“ سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے جس پر قناعت کرنے کیلئے بائبل ہمیں تاکید کرتی ہے؟ کیا وہ بائبل کی آگاہی کو شاید اسلئے کماہم خیال کرتے ہیں کیونکہ وہ دولت کو بہت زیادہ امیر لوگوں کے حاصل کے طور پر بیان کرتے ہیں؟ بائبل واضح طور پر دولتمند ہونے اور کھانے پہننے پر قناعت کرنے کے درمیان فرق کا تعیّن کرتی ہے۔ (مقابلہ کریں عبرانیوں ۱۳:۵۔) کیا ”آنکھوں کی خواہش“—روحانی حاصلات کے نقصان کے باوجود، جوکچھ وہ دیکھتے ہیں اُسے حاصل کرنے کی خواہش—اس چیز کا سبب بن سکتی ہے کہ وہ سچی پرستش کے مفادات کو دوسرے درجے پر رکھیں؟ (۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷؛ حجی ۱:۲-۸) وہ لوگ کسقدر مبارک ہیں جو یہوواہ کی خدمت کو اپنی زندگیوں کا بنیادی مرکز بناتے ہوئے واقعی بائبل کی مشورت پر دھیان دیتے اور خدا کیساتھ ساتھ چلتے ہیں!
کامیابی کیساتھ زندگی کے تفکرات سے نپٹنا
۱۵. کونسی حالتیں معقول طور پر یہوواہ کے بہت سے لوگوں کی پریشانی کا باعث بنتی ہیں اور جب ہم ایسے دباؤ کے تحت ہیں تو ہمیں کس پھندے سے خبردار رہنا چاہئے؟
۱۵ دولتمند ہونے کا مضبوط ارادہ کرنے سے زیادہ عام بات ضروریاتِزندگی حاصل کرنے کی بابت حد سے زیادہ فکرمند ہونا ہے۔ یہوواہ کے بہت سے خادم بہت کم چیزوں کے ساتھ گزربسر کرتے ہیں۔ ضروری لباس، اپنے خاندان کے لئے رات بسر کرنے کی جگہ اور دن کے لئے کچھ خوراک حاصل کرنے کے لئے وہ کئی گھنٹے سخت محنت کرتے ہیں۔ دیگر لوگ اپنی یا اپنے خاندان کے ارکان کی بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے درپیش مسائل کے خلاف نبردآزما ہیں۔ ایسے حالات میں اپنی زندگیوں سے روحانی مفادات کو خارج کر دینا کتنا آسان ہوگا!—متی ۱۳:۲۲۔
۱۶. زندگی کے دباؤں سے نپٹنے کیلئے یہوواہ کیسے ہماری مدد کرتا ہے؟
۱۶ مشفقانہ طور پر، یہوواہ ہمیں اُس چھٹکارے کی بابت بتاتا ہے جو مسیحائی بادشاہت کے تحت تجربہ میں آئے گا۔ (زبور ۷۲:۱-۴، ۱۶؛ یسعیاہ ۲۵:۷، ۸) ہمیں اپنی اوّلیتوں کو دُرست ترتیب میں رکھنے کے لئے مشورت فراہم کرتے ہوئے، وہ اس وقت بھی ہمیں زندگی کے دباؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے مدد فراہم کرتا ہے۔ (متی ۴:۴؛ ۶:۲۵-۳۴) جسطرح یہوواہ نے ماضی میں اپنے خادموں کی مدد کی اُس کے ریکارڈ کے ذریعے وہ ہمیں اس کی یقیندہانی کراتا ہے۔ (یرمیاہ ۳۷:۲۱؛ یعقوب ۵:۱۱) وہ ہمیں اس علم سے بھی استحکام بخشتا ہے کہ ہم پر آنے والی کسی بھی مصیبت سے قطعنظر، اپنے وفادار خادموں کے لئے اُس کی محبت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ (رومیوں ۸:۳۵-۳۹) جو اپنا توکل یہوواہ پر رکھتے ہیں، اُن کی بابت وہ فرماتا ہے: ”مَیں تجھ سے ہرگز دستبردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا۔“—عبرانیوں ۱۳:۵۔
۱۷. مثالیں پیش کریں کہ کیسے سخت مصیبت کا تجربہ کرنے والے لوگ بھی خدا کیساتھ ساتھ چلنے کے قابل ہوئے ہیں۔
۱۷ اس علم سے تقویت پا کر، سچے مسیحی دُنیاوی طورطریقوں کی طرف راغب ہونے کی بجائے خدا کیساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ کئی ایک ممالک میں غریبوں کے درمیان ایک مقبولِعام دُنیاوی فلسفہ یہ ہے کہ اپنے خاندان کی کفالت کرنے کیلئے کسی ایسے شخص سے چھین لینا جس کے پاس زیادہ ہے چوری نہیں ہے۔ تاہم، جو ایمان پر چلتے ہیں وہ اس نظریے کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ خدا کی پسندیدگی کو تمام دوسری چیزوں سے بالاتر رکھتے ہیں اور اپنے دیانتدارانہ چالچلن پر اُس کی برکت کے خواہاں رہتے ہیں۔ (امثال ۳۰:۸، ۹؛ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳؛ عبرانیوں ۱۳:۱۸) انڈیا میں ایک بیوہ نے یہ جان لیا کہ کام کرنے کیلئے رضامندی کیساتھ ساتھ باتدبیری نے اُسے نپٹنے میں مدد دی۔ اپنے حالات کی بابت پریشان ہونے کی بجائے، وہ خوب جانتی تھی کہ اگر وہ خدا کی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیگی تو یہوواہ، اپنے بیٹے اور اپنے لئے درکار چیزیں حاصل کرنے کے لئے اُس کی کاوشوں کو برکت دیگا۔ (متی ۶:۳۳، ۳۴) پوری دُنیا میں سینکڑوں لوگ اس بات کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اُس مصیبت سے قطعنظر جسکا سامنا وہ کر رہے ہیں، یہوواہ اُنکی پناہ اور قلعہ ہے۔ (زبور ۹۱:۲) کیا آپکی بابت بھی یہ سچ ہے؟
۱۸. شیطان کی دُنیا کے پھندوں سے بچنے کی کُنجی کیا ہے؟
۱۸ جبتک ہم موجودہ دستورالعمل میں رہتے ہیں ایسے پھندے ہونگے جن سے بچنے کی ضرورت ہے۔ (۱-یوحنا ۵:۱۹) بائبل ان کی شناخت کراتی ہے اور ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ وہ لوگ جو یہوواہ سے واقعی محبت رکھتے ہیں اور اُسے ناراض نہ کرنے کا خوشگوار خوف رکھتے ہیں وہ کامیابی کیساتھ ایسے پھندوں سے نپٹ سکتے ہیں۔ اگر وہ ”رُوح کے موافق“ چلتے ہیں تو وہ دُنیاوی طورطریقوں کی طرف مائل نہیں ہونگے۔ (گلتیوں ۵:۱۶-۲۵) جو لوگ سچمچ اپنی زندگیوں کو یہوواہ کے ساتھ اپنے رشتے کے گرد تعمیر کرتے ہیں، اُن سب کے سامنے خدا کے ساتھ ساتھ چلنے، ابد تک اُس کی قربت سے لطفاندوز ہونے کا شاندار امکان ہے۔—زبور ۲۵:۱۴۔
آپکا تبصرہ کیا ہے؟
◻خوداعتمادی کسطرح ایک پھندا ہو سکتی ہے؟
◻انسان کے ڈر کے قابو میں آ جانے سے کون سی چیز ہماری حفاظت کر سکتی ہے؟
◻دولت کے طالب بننے کے سلسلے میں مشورت کا اطلاق کرنے میں کیا چیز ہماری ناکامی کا سبب بن سکتی ہے؟
◻کیا چیز ہمیں زندگی کے دباؤ کے پھندے سے بچنے کے قابل بنا سکتی ہے؟
[صفحہ 17 پر تصویر]
بہتیرے زندگیبھر خدا کیساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں